visitors

free counters

Sunday 11 September 2011

حکیم نورالدین قادیانی کا دور حکومت


حکیم نور الدین قادیانی کا دورِ حکومت

پروفیسر خالد شبیر احمد
حکیم نور الدین قادیانی ۱۳؍ مارچ ۱۹۱۴ء تک یعنی اپنی موت تک اسی منصب پر فائز رہا اور قادیانی عقائد کی نشرواشاعت، انگریزوں کی اطاعت اور یہودیوں کے ساتھ گہرے روابط قائم کرنے کے فرائض کو نہایت چابکدستی اور محنت کے ساتھ سرانجام دیتے رہے۔
اختلاف
حکیم نور دین کی وفات سے تقریباً تین سال پہلے قادیانیوں کے درمیان اختلافات کے آثار نمودار ہوئے۔ قادیانیوں کا وہ گروہ جو اپنی سنجیدگی کی وجہ سے تقریباً پورے ملک کے اندر متعارف تھا، مرزا بشیر الدین قادیانی کے مزاج اُس کی اخلاقی پستی اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی سخت مؤقف سے مطمئن نہیں تھا۔ در پردہ یہ گروہ مرزا بشیر الدین محمود پر تنقید کرتا رہتا تھا۔ حکیم نور الدین بھی ایک ماہر نفسیات کی حیثیت سے اس آویزش کو دیکھتا رہتا تھا۔ اُس نے مرزا بشیر الدین کی حمایت اور اس کے مخالف گروہ کی مخالفت کرنا شروع کر دی۔ حکیم نور الدین بڑی اچھی طرح اس بات کو جانتا تھا کہ قادیانیوں کی اکثریت کی وفاداریاں مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے کے ساتھ ہیں جو مرزائے قادیاں کا بڑا چہیتا بیٹا ہے اور جسے غلام احمد نے اپنی حمایت کے ساتھ قادیانی گروہ میں وہ مقام دلایا ہے جس مقام کو حاصل کرنے کے بعد وہ آنے والے دور میں قادیانیوں کی سربراہی کا فریضہ احسن طور پر سر انجام دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکیم نور الدین کی قیادت قائم ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اُس نے مرزا بشیر الدین قادیانی کی حمایت میں اُس واقعہ پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ پردہ ڈال دیا کہ جس میں مرزا بشیر الدین قادیانی پر کسی خاتون کے ساتھ زنا کے ارتکاب کا الزام تھا۔ اتنا سنگین معاملہ اس خوبصورتی سے دبا دیا گیا کہ دیکھنے اور سننے والے حیران و ششدر رہ گئے۔ حکیم نور الدین قادیانی کے اس کردار سے مرزا بشیر الدین محمود اور اُس کے خاندان کے مقتدر افراد کو حکیم نور الدین کے اور قریب آ گئے لیکن صدر انجمن احمدیہ جس کے ہاتھ میں قادیانی گروہ کے تمام انتظامی امور کو سرانجام دینے کی ذمہ داری تھی وہ اور اس کے ساتھی مرزا بشیر الدین قادیانی کے ساتھ ساتھ حکیم نور الدین کے بھی خلاف ہو گئے اور اس طرح قادیانی گروہ مستقل بنیادوں پر مزید دو گروہوں میں تقسیم ہو کررہ گیا۔ ایک طرف حکیم نور الدین مرزا بشیر الدین محمود اور اس کے خاندان کے افراد اور دوسری طرف خواجہ کمال الدین ، مرزا یعقوب بیگ، مولوی صدر الدین، ڈاکٹر صدر الدین جیسے معروف نام ہیں۔
۱۹۱۴ء میں جب حکیم نور الدین کی موت واقع ہوئی یہی اختلاف ابھر کر سامنے آیا۔ ایک پارٹی نے مرزا بشیر الدین کے ہاتھ پر دست تعاون رکھ دیا تو دوسرے گروہ نے اسے قادیانیوں کا سربراہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اور اُس کی جگہ مولوی محمد علی ایم اے۔ ایڈیٹر ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کو اپنا سربراہ بنا لیا اور یوں قادیانی گروہ مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ دھڑوں میں تقسیم ہو کے رہ گیا۔
مولوی محمد علی ایم ۔ اے نے چونکہ اپنے تمام دفاتر اور ادارے قادیان سے لاہور میں منتقل کر لیے اور قادیان کی جگہ انھون نے لاہور کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا۔ اس لیے یہ گروہ ’’لاہوری پارٹی‘‘ کے نام سے موسوم ہوا، جب کہ مرزا بشیر الدین محمود نے قادیان کو ہی اپنی جماعت کا مرکز قرار دیا اس لیے دوسرا گروہ قادیانی گروہ کے نام سے منسوب ہو گیا۔
قادیانیوں کے لاہوری گروہ نے تمام مسلمانوں میں اپنے لیے مقام حاصل کرنے اور قادیانی گروہ کی مخالفت کرنے کے لیے اگرچہ کئی ایسے کام کیے جو بظاہر نہ صرف قادیانیوں کے ضمیر اور مرزا غلام احمد کے مؤقف اور مشن کے خلاف تھے تاہم یہ گروہ مسلمانوں میں اپنا مقام حاصل کرنے میں انتہائی ناکام رہا۔ ذیل میں ایسے امور کی نشان دہی کی جاتی ہے جنھیں لاہوری گروہ نے اپنے عقائد اور سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور جن کے ذریعے انھوں نے اپنے آپ کو قادیانی پارٹی سے ممتاز کیا۔
(۱) مرزا غلام احمد نبی نہیں بلکہ مسیح موعود تھا۔
(۲) تمام مسلمان جو اُس کو اس حیثیت میں تسلیم نہیں کرتے کافر نہیں ہیں۔
(۳) مرزا غلام احمد نے دعوائے نبوت نہیں کیا۔ اس لیے نہ تو وہ کافر ہے اور نہ ہی اُسے کسی حیثیت میں بھی تسلیم کرنے والے کافر ہیں۔
(۴) مرزا بشیر الدین محمود کے اس مذہبی عقیدے کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ مرزا غلام احمد نبی ہے اور جو شخص بھی اُس کی بیعت کی دس شرائط کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے۔
بہرحال یہ اختلاف قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں کے اپنے گھر کا اختلاف ہے۔ ہم مسلمانوں کا نہ تو اس سے کوئی تعلق ہے نہ واسطہ۔ تحقیق کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوائے نبوت مسلّمہ امر ہے جو دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق اُسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ مرزا غلام احمد کی تحریروں سے عصمت انبیاء جیسے عقیدۂ اسلام کے خلاف بغاوت ثابت ہے اللہ تعالیٰ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین، انبیاء اور صحابہ کرام کی توہین و تذلیل کا ارتکاب اُس کے کفر کو ثابت کر چکا ہے۔ جس پر ہم کہہ سکتے ہیں اگر مرزا غلام احمددعوائے نبوت نہ بھی کرتا تو اپنی کافرانہ تحریروں کی وجہ سے ہی اُس کا کافر ہونا ثابت ہے۔ اس لیے اگر ایک شخص بنیادی طور پر ہی کافر اور مرتد ہو گیا تو پھر وہ مصلح موعود یا مجدد کیسے ہو گیا۔ اب جو بھی مرزا غلام احمد قادیانی کو مسلمان سمجھتے ہوئے نبی یا مصلح مانتا ہے اُس کا نہ تو مسلمانوں سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اسلام سے۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کے لاہوری گروہ نے ’’ٹربیوٹی‘‘ اور ’’بلقان‘‘ کی جنگوں میں ہندوستانی مسلمانوں کے اضطراب اور بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اُن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا اور ترکی کی حمایت میں صدر الدین، خواجہ کمال الدین، مرزا یعقوب بیگ وغیرہ نے اخباری بیانات دیے اور مضامین بھی تحریر کیے مگر پھر بھی مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئے۔ لیکن دوسری طرف لاہوری گروہ کا یہ رویہ چونکہ قادیانی گروہ کی برطانیہ نواز حکمت عملیوں کے صریحاً خلاف تھا، اس لیے اُن کی نگاہ میں لاہوری گروہ مردود و مرتد ہو گیا۔ جیسا کہ قادیانیوں نے ۱۹۱۹ء میں باقاعدہ لاہوری جماعت پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے انھیں مرتد، واجب القتل قرار دے دیا تھا۔ جس کے بعد یہ دنوں گروہ آج تک ایک دوسرے کے قریب نہ ہو سکے۔ اس سارے قضیے میں ہماری دل چسپی تو فقط اس قدر ہے کہ یہ کیسا پیغمبر ہے ؟ جس کے ماننے والے اس بات کا ہی فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس کا دعویٰ کیا تھا پھر مسلمانوں سے وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ کہ اُن کی باتوں پر توجہ دے کر اُنھیں غور سے سنیں۔ جب کہ اُن کا یہ اختلاف مرزا غلام احمد کے جھوٹا ہونے پر بطور دلیل کافی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تو اُن کے لیے ہے جن کے نصیب میں نجات اُخروی لکھ دی گئی ہو۔ جو اللہ کے ہاں ازلی و ابدی ذلت کے مرتکب نہ ہو چکے ہوں۔
حکیم نور الدین کے یہودیوں کے ساتھ رابطے
یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ قادیانی گروہ ایک سیاسی تحریک ہے، جو مذہب کے لبادے میں انگریزی استعمار کی ایماء اور امداد سے برپا کی گئی ہے۔ اس گروہ کی بنیادی غرض و غایت انگریزی سامراج کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور دنیائے اسلام میں تفرقہ ڈال کے مسلمانوں کے ملّی تشخص مجروح کرنے کے علاوہ ترکی کی عثمانی ریاست کو ختم کر کے اس کی جگہ دنیا میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے فلسطین کے اندر یہودی ریاست کے قیام کے لیے انگریزی سامراج کی مدد کرنا تھا۔ اس سلسلہ قادیانی گروہ کا کردار صاف طور پر سامنے ہے جس کے ثبوت میں ’’قادیان سے اسرائیل تک‘‘ کے مصنف ابو مدثرہ کا ایک اہم اقتباس پیش خدمت ہے:
’’مرزا غلام احمد کی تحریک کی ابتداء اور اس کی حقیقی غرض و غایت سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک تو برطانوی سامراج کی سیاسی پالیسی پر نظر رکھنی ہوگی۔ دوسرے یہودی تحریکِ قومیت۔۔۔ صیہونیت ۱۸۹۷ء کے رہنماؤں اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے روابط کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس پس منظر میں قادیانی تحریک کے کردار کا مطالعہ کرنے سیمعلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی سول سروس ، یہودی افسر، اس تحریک کی کامیابی کے لیے ہر سطح پر کوشاں تھے۔ دراصل وہ ہر ایسی تحریک کے قیام اور اس کی سرپرستی کے لیے بے تاب تھے جو برطانوی سامراج کے توسیع پسندانہ اغراض اور صیہونیت کے سیاسی عزائم کے دوہرے مقصد کو پورا کرنے کی اہل ہو۔ ان دونوں طاقتوں کا بڑا نشانہ ترکی کی عظیم سلطنت تھی جس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہی علاقائی توسیع پسندی اور فلسطین میں یہودی ریاست کے خواب کو پورا کیا جا سکتا تھا۔
یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ انیسویں صدی کے وسط میں ’’رسل اوتھ بل‘‘ پاس ہونے کے بعد یہودی برطانیہ کی سیاست پر چھائے جا رہے تھے اور سول سروس میں اعلیٰ عہدے حاصل کر کے برطانوی نو آبادیت میں قدم جما رہے تھے۔ جدید سیاسی افکار نے یہودی اور عیسائی مذہبی امتیازات کو ختم کر رہا تھا۔ ۱۸۸۵ء سے ۱۹۰۲ء تک برطانیہ کے تین وزیر اعظم سالبری، گلیڈ سٹون، روزبری میں سے اول الذکر یہودی تھا اور دوسرے دو یہودی نواز اور ترک دشمنی میں اپنی مثال آپ تھے۔تحریکِ صیہونیت (۱۸۹۷ء) کی بنیاد رکھ کر تھیؤڈور ہرزل نے جب عثمانی حکومت کے قبضے سے فلسطین کو آزاد کرانے کا اعلان کیا تو برطانیہ نے صیہونی لیڈروں سے مضبوط روابط قائم کر لیے اور ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا۔ یہودی ریاست کے سوال پر برطانوی سیکرٹری نو آبادیات جوزف چیمبر لین اور ہرزل کی طویل ملاقاتیں ہوئیں جس کے نتیجے میں برطانیہ نے یوگنڈا میں یہودی ریاست کی تشکیل کی تجویز پیش کی لیکن یہودی برادری نے اسے مسترد کر دیا۔‘‘(انسائیکلو برٹینکا ریونزم)
۱۹۰۲ء میں دنیا کے تمام ممالک میں یہودیوں نے صیہونیت کے پروگرام کے مطابق یہودی ریاست کے قیام کے لیے وسائل کو بروئے کار لانے کی جدوجہد کو تیز کر دیا اس کی بڑی وجہ برطانیہ میں آرتھر جے با الفور کا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونا تھا۔ باالفور سابق وزیر اعظم برطانیہ سالسبری کا بھتیجا تھا اور اس کی لبرل یونیسٹ وزارت (۱۸۸۶ ء تا ۱۸۹۲) میں چیف سیکرٹری کے عہدے پر رہ چکا تھا۔ یہ وہی بدنام زمانہ یہودی ہے جو اعلان باالفور (۱۹۱۷ء) کا مجوز تھا۔ اپنے دور وزارت ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۵ء تک اس نے صیہونیت کے فروغ کے لیے زبردست تحریک چلائی اور دنیا کی تمام صیہونیت نواز تحریکوں کی مدد کی۔ ۱۹۰۵ء میں سربیرفان وزیر اعظم بنا۔ فارن سیکرٹری سپر ایڈورڈ ڈگر اس کا معتمد تھا انھوں اپنے پیشرؤں کی ترک دشمن حکمت عملی پر پورا پورا عمل کیا۔ اس عہد میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن (۱۸۹۹ء ۔۱۹۰۷ء) ہندوستان کو بیس بنا کر مشرقِ وسطیٰ میں سامراجی سازشوں کی تکمیل میں سرگرم تھے۔ یہ تاریخی حقیقت بھی منظر عام پر آ چکی ہے کہ یہود کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے ہندوستان کی سول سروس کے بعض یہودی افسر بھی سرگرم عمل تھے جو انگلو اسرائیلی ایسوسی ایشن لندن کے سرگرم رکن تھے اور مختلف فوجی اور انتظامی عہدوں پر فائز تھے۔ جن میں فوج کے جنرل اور گورنر تک کے عہدے شامل تھے۔ یہ لوگ صیہونیت کے عمومی مقاصد کی تکمیل میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔
(سوشو لوجیکل ریویو لندن ، ۱۹۶۸ء ۔ مقالہ از جے ولسن)اس تحریر کی روشنی میں مسلمانوں پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ترکی کی عثمانی ریاست کا اہدام یہودی اور عیسائی طاقتوں کی نظر میں کس طرح واضح اور صاف تھا۔ وہ اس ریاست کو دنیا کے تمام مسلمانوں کا مرکز تصور کرتے ہوئے اسے تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ تاکہ صیہونی ریاست کے قیام کو ممکن بنایا جا سکے۔ برطانیہ کی طرف سے یوگنڈا میں یہودی ریاست کی تشکیل کی تجویز کو یہودیوں نے محض اس لیے مسترد کر دیا تھا کہ اُن کی نگاہیں فلسطین پر لگی ہوئی تھیں وہ فلسطین کو اپنا وطن گردانتے تھے اور دوبارہ فلسطین میں اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے ۔ فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا اختتام اُس وقت کے حالات میں دشمنانِ اسلام کے اولین مقاصد تھے۔ جسے وہ ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے تھے اس مقصد کے حصول کے لیے قادیانی کتنے متحرک اور فعال تھے اس کا اندازہ لگانے کے لیے ذیل میں چند حقائق نذر قارئین ہیں۔

No comments:

Post a Comment