شیخ حامد العلی
1) دورِ حاضر کے اندر جہاد کو معطل ٹھہرا دینے کا فتویٰ؛ اِس بنیاد پر کہ امت اب اِس پوزیشن میں نہیں رہی کہ جہاد کرے! اِس مضمون کے فتووں کی بھرمار آپ کو خاص اُس وقت نظر آئے گی جس وقت بیرونی استعمار عالم اسلام پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہا ہو! تاکہ اُس کا کام ہمارے اِن ملکوں کے اندر آسان ہو سکے! سب سے پہلے جس ہستی کو عالم اسلام میں یہ فتویٰ دینے کی 'سعادت' حاصل ہوئی ہے وہ ہے بدنامِ زمانہ مرزا غلام احمد قادیانی۔ اور دور تھا: برطانوی استعمار، جوکہ اُس وقت مسلم ہند کے اندر اپنے پیر مضبوط کر رہا تھا۔ اسلام کے نامور علماءنے اللہ کے فضل سے عین اُسی وقت مرزا قادیانی کے اِس فتویٰ کے بخیے ادھیڑے تھے اور امت کے حق میں اس فتویٰ کی خباثت اور سنگینی واضح کی تھی۔
2) یہ فتویٰ کہ مسلم سرزمینوں پر کافر قوتوں کا اپنا تیر وتفنگ لا کر دھر دینا ایک جائز و شرعی امر ہے! بلادِ اسلام میں کفار کیلئے فوجی اڈے بنانے کو جائز قرار دینا، اِس بنیاد پر کہ وہ مُعَاہَد کی صنف میں آتے ہیں! اسلام میں تو اس بات کی اجازت نہیں کہ کافر اسلحہ سے لیس ہو کر سرزمین ِ اسلام کے اندر مسلمانوں پر رعب ڈالیں۔ تو پھر اُن فوجی اڈوں کی گنجائش کہاں سے نکل آئی جو کافر قوتوں کو مسلم سرزمینوں پر اسٹرٹیجک کنٹرول دلوانے کیلئے قائم کروائے جاتے ہیں؟ کفار کو مسلمانوں پر اِس انداز کی برتری دلوانا تو اصلاً نواقض ِ اسلام میں آتا ہے۔
3) یہ فتویٰ کہ مسلم سرزمینوں پر قابض استعماری افواجِ کے ہاں نوکری کرنا جائز ہے، بس شرط یہ ہے کہ نوکری کے اندر لڑاکا کارروائیوں میں شرکت کرنا نہ آتا ہو! مراد یہ کہ جس دوران وہ اہل اسلام کا قتل کر رہے ہوں اور مسلم سرزمینوں پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہے ہوں، اُس دوران اُن کی خاطر تواضع کرنے یا ان کے لئے ترجمہ وغیرہ ایسی خدمات ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں!
4) 2001ءمیں افغانستان پر امریکی حملہ کے وقت سامنے آنے والا فتویٰ، جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان پر چڑھ آنے والی فوجوں کے خلاف جو جہاد ہو رہا ہے وہ قتالِ فتنہ ہے نہ کہ جہاد! بعد ازاں ایسا ہی فتویٰ عراق پر امریکی قبضہ ہونے کے وقت سامنے آیا تھا!
5) 2003ءمیں عراق کے اندر امریکی فاتحین کے ہاتھوں قائم ہونے والی وزارتوں میں شمولیت کو جائز قرار دینے والا فتویٰ۔ یا اسی جیسی کسی حکومت میں شمولیت کو جائز قرار دینے والے فتاویٰ۔ اس سے بڑھ کر حماقت پر مبنی فتویٰ البتہ یہ تھا کہ وہ شخص جس کو کافر فاتحین ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد ہمارے اوپر حاکم مقرر کر دیں وہ ہمارا شرعی ولی الامر ہو جاتا ہے اور اس کی اطاعت ہم پر ازروئے شریعت واجب!
6) صیہونیوں کے ساتھ کسی بھی ایسی صلح کو جائز قرار دینے والا فتویٰ جس میں ارضِ فلسطین کے اندر کسی بھی اسلامی حق سے دستبرداری کی گئی ہو۔
7) یہ فتویٰ کہ مکالمۂ ادیان میں __ اُس کی حالیہ رائج شکل کے ساتھ __ شریک ہونا جائز ہے۔
8) وہ فتاویٰ جو وطنیت کو __ اُس کی حالیہ رائج شکل کے ساتھ، جوکہ درحقیقت مغرب کے اندر پروان چڑھی ہے __ جائز قرار دیتے ہیں۔ اور اُن لکیروں کا پابند رہنے کو جو استعمار ہمارے لئے کھینچ گیا ہے، شریعت ِ اسلام کا تقاضا قرار دیتے ہیں!
9) یہ فتویٰ کہ بر سر اقتدار طبقوں پر علی الاعلان نکیر کرنا حرام ہے۔ اور یہ کہ جو آدمی برسراقتدار طبقوں کی خالی مخالفت ہی کر لیتا ہے تو وہ "خروج" میں آ جاتا ہے۔ اور یہ کہ ولی الامر ہر ہر معاملے میں خاص اپنی صوابدید کے مطابق مصلحت کا تعین کرنے کا مجاز ہے؛ امت کے آگے نہ تو اُس کی کوئی جوابدہی ہے اور نہ کوئی احتساب۔ یہاں تک کہ اگر بچہ بچہ یہ جانتا ہو کہ حاکم مسلمانوں کے سب کے سب مصالح اور سب کے سب مفادات کو داؤ پر لگا چکا ہے، تو بھی اُس کے معاملے میں خاموش رہنا ہی دین کا حکم ہے، اور گونگا بنا رہنا ہی ایک صحیح شرعی منہج!
10) یہ فتویٰ کہ مجلس ِ اقوام متحدہ یا سیکورٹی کونسل کے صادر کردہ فیصلوں کو جائز و صحیح مانا جائے، جن کے ذریعہ سے (سبھی کو معلوم ہے) ہمیشہ مسلم ایشوز کے خلاف ریشہ دوانی ہوتی ہے.... اِس بنیاد پر کہ یہ وہ معاہدات ہیں جن کے اب ہم شرعاً پابند ہیں!
11) یہ فتویٰ کہ جو شخص کھلم کھلا کفر ِ اکبر کا ارتکاب کرے، اُس پر __ ظاہری معاملے تک میں __ ارتداد کا حکم لگانا جائز نہیں.... خواہ وہ شخص شرعِ خداوندی کو کسی اور شرع سے کیوں نہ بدل دے، خواہ وہ (اسلام کے خلاف) دشمنانِ دین کے ساتھ مل کر بلاک بندی کیوں نہ کرتا پھرے، حتیٰ کہ صلیب کو سجدہ ہی کیوں نہ کر آئے، مصحف ِ قرآنی کو پھاڑ کر کیوں نہ پھینک دے، اسلام کی دعوت کے خلاف برسرجنگ کیوں نہ ہو، مسلم معاشرے کے اندر تعلیم سے لے کر قضاءتک لادینیت کے ادارے کیوں نہ بیج دے، وغیرہ وغیرہ (یعنی عمل کی بنا پر اُس کو کافر نہیں کہا جائے گا، چاہے وہ کتنا ہی کھلا کفریہ 'عمل' کیوں نہ ہو).... تا آنکہ وہ شخص آپ اپنی زبان سے ہی بول کر نہ کہہ دے کہ وہ تو اسلام کو مانتا ہی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اسلام کو ایک نرا جھوٹا مذہب جانتا ہے!
آپ جانتے ہیں یہ فتویٰ (کہ عمل کی بنا پر آدمی کی تکفیر بہرصورت نہ ہو گی، خواہ وہ کتنا ہی برہنہ کفر کیوں نہ ہو).... پورے کے پورے اسلامی عقیدہ کی بساط لپیٹ دینے کے مترادف ہے۔ یہ فتویٰ پورے کے پورے اسلام کو ہی ختم کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ جو زمانۂ حاضر کے مرجئہ کا مذہب ہے، ماضی کے غالی مرجئہ تک اس سے پناہ مانگتے ہوں گے۔
12) یہ فتویٰ کہ زمین پر رہنے والے کسی بنی آدم کو نبوتِ محمد ﷺ پر ایمان لانے سے چھوٹ حاصل ہے۔ چنانچہ کوئی شخص نبوتِ محمد ﷺ کی تکذیب کر کے بھی، یا محمد ﷺ کے سچا ہونے کے اندر شک کر لینے کے بعد بھی، یا آپ ﷺ کے خاتم المرسلین ہونے کو محل نظر جان کر بھی، تکفیر سے بچ سکتا ہے۔ اِس فتویٰ کی رو سے محمد ﷺ پر ایمان نہ لانے والی اِس خلقت کی تکفیر نہ ہو گی، اس لئے کہ یہ اہل کتاب ہیں، اور آپ ﷺ سے پہلے نازل ہونے والی کسی کتاب کو ماننے والے ہیں!
یہ فتویٰ کچھ نہایت پر اَسرار انداز میں عام کروایا گیا ہے۔ عصر حاضر کی نام نہاد تحریک 'مکالمۂ ادیان' کے میدان میں آنے سے پہلے اس فتویٰ کی ایک خاص پزیرائی کرائی گئی اور پھر اِس فتویٰ کے جلو میں یہ تحریک عالم اسلام کے اندر دھیرے دھیرے جلوہ افروز ہوتی چلی گئی۔ یہ فتویٰ دینا اور نشر کرنا جملہ علمائے اسلام کے اجماع کی رو سے ارتداد ہے۔ کیونکہ اِس فتویٰ کی رو سے ایک ایسے شخص کا ایمان صحیح قرار پاتا ہے جو محمد ﷺ کی رسالت کی تکذیب کرتا ہو۔ علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہود اور نصاریٰ دُہرے کفر کے مرتکب ہیں: ایک ان کا اس دین پر باقی نہ رہنا جس پر انبیائے کرام رہے تھے، یعنی انبیاءکے دین کو بدل دینا۔ دوسرا، ان کا نبوتِ محمدﷺ کی تکذیب کرنا، بعد اس کے کہ محمد ﷺ کو جملہ انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا ہے۔ ہاں بعثتِ محمدی سے پہلے ضرور ایسا تھا کہ جو شخص اپنے زمانے کے نبی کی اتباع کر رہا ہو وہ (اپنے وقت کا) مسلم ہے۔ اِس معنیٰ میں اسلام یقینا سب کے سب انبیاءکا دین ہے۔
13) بعض 'علماء' کی جانب سے یہ فتویٰ آنا کہ ایک عیسائی عورت کو، مسلمان ہو جانے کے بعد، عیسائی ہوجانے کا مشورہ دینا جائز ہے۔ جملہ مسلمانوں کے اتفاق کی رو سے ایسا فتویٰ دینا ارتداد ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر واضح ہے کہ گمراہ فرقے تک اس چیز کو ارتداد کہیں گے۔ ایسا مشورہ دینے والا مرتد ہو جاتا ہے، کجا یہ کہ کوئی اسکا باقاعدہ فتویٰ دے!
14) یہ فتویٰ کہ کفار کے اُن تمام منصوبوں کا حصہ بننا جنہیں وہ مسلم سرزمینوں پر اپنا قبضہ قائم کرنے کیلئے لانچ کرتے ہیں.. اور اُن تمام پروگراموں کا ایک فعال ترین کردار بننا جو وہ اسلام کی تباہی کیلئے عسکری، ثقافتی، سیاسی اور معاشی سطح پر جاری رکھے ہوئے ہیں.... یہ فتویٰ دینا کہ یہ تمام تر عمل، صحابی ِ جلیل حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے قصے پر ہی قیاس ہوتا رہے گا! حق یہ ہے کہ ایسا بیہودہ فتویٰ مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی نہ دیا گیا ہوگا۔
یہ فتویٰ کہ مسلمانوں کے ممالک پر قبضہ کروانے میں کفار کی اعانت کرنا، اور مسلم دنیا کو صیہونی صلیبی اتحاد کا دم چھلا بنانے کے عمل کو تمام تر مطلوبہ آسائشیں بہم پہنچا کر ر کھنا شریعت کی رو سے بالکل صحیح ہے.... اِس بنا پر کہ مسلمانوں میں سے کسی گروہ نے اُن کفار کے ساتھ کوئی ایگریمنٹ سائن کر رکھا ہے! لہٰذا (قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم سرزمین کے اندر کیا کیا کچھ کر رہے ہیں) اُن کے ساتھ وہ ایگریمنٹ (عہد) نبھانا ہر حال میں شریعت کا تقاضا ہے! اور تو اور، اِس 'دلیل' کی رو سے کفار کو ایسے مسلمانوں تک کے خلاف مدد دینا جائز کر لیا جاتا ہے جن کا ان کفار کے ساتھ سرے سے کوئی ایگریمنٹ (عہد) نہیں!
(مثلاً ملا عمر حفظہ اللہ کا ان کفار کے ساتھ کونسا عہد تھا؟ کافر ملکوں مانند نیٹو ممالک، اور کافر اداروں مانند اقوام متحدہ وغیرہ، کے ساتھ ملا عمر اور ان کی دولت اسلامی اور ان کے پیروکار مجاہدین آخر کونسے معاہدے کے پابند ہیں کہ اُن کے خلاف کفار کو مدد دینے کیلئے ہمارے یہ مفتیانِ دین 'بین الاقوامی معاہدوں' کے احترام پر مبنی 'دلائل' نکال نکال کر ہم کو دکھاتے پھریں؟ .... ازمترجم)
15) یہ فتویٰ کہ وہ مجاہدین جو اس وقت ملت اور دین کے دفاع کیلئے لڑ رہے ہیں، وہ صلیبی اور صیہونی دشمن سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے.... اِس بنا پر کہ خوارج کا خطرہ ہر خطرے سے بڑھ کر ہے!
16) سودی بینکاری کو جائز قرار دینے کا فتویٰ
17) بالغ مرد کو رضاعت کروانے کا فتویٰ!
18) یہ فتویٰ کہ نقاب، اسلام کے اندر ایک بدعت ہے!
19) دین ِ رافضہ کو ایک معتبر اسلامی مذہب قرار دینے کا فتویٰ۔ اور یہ کہ کوئی شخص اگر دین ِ روافض پر چلتے ہوئے اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ بھی ٹھیک ہی ہے۔ حالانکہ وہ دین اسلام سے صاف طور پر متصادم ہے۔ البتہ بعد ازاں جب کچھ سیاسی اختلافات نے تقاضا کیا، تو اِس فتویٰ کا سر تا پیر بدل جانا ٹھہر گیا!
20) ایسے لٹریچر کو حرام قرار دینے کا فتویٰ جس میں مسلمانوں کو اسلام کی عزت و بالاتری کے اسباق دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ مشکوک قسم کے فتاویٰ جو دشمنانِ دین کے اغراض کو پورا کرانے کیلئے سامنے آتے ہیں، مثلاً وہ فتاویٰ جو معروف مسلم داعیوں کے 'شر' سے خبردار کرنے کیلئے آتے ہیں! وہ فتاویٰ جو مسلمانوں کو اسلامی تحریکوں اور جہادی جماعتوں سے 'متنبہ' رہنے کی مکرر تلقین و یاددہانی کراتے ہیں! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری ان تحریکوں اور جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ بابرکت کرے، اِن سے امت کی اصلاح کا کام لے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اُن سب طبقوں سے نجات دے جو خراب کار ہیں۔ مفسد ہیں۔ جہاد سے روکنے اور بد دل کرنے والے ہیں۔ اور امت کے اندر شکست خوردگی پھیلانے والے ہیں۔ آمین
No comments:
Post a Comment