علم کے ایک خطرناک پہلو کا قرآنی علاج
بات یہ ہے کہ عام حیوانات کے مقابلہ میں ﴿الانسان﴾ ایک تعلیمی حقیقت ہے، یعنی جن چیزوں کے علم سے خالی او رجاہل ہو کر پیدا ہونا ہے ، تعلیم کے ذریعہ سے ان کے جاننے کی صلاحیت آدمی ہی میں ہے، میں نے عرض کیا تھا کہ قرآن کی پہلی نازل شدہ آیتوں میں قرأت ( خواند) تعلیم بالقلم ( نوشت) کا ذکر کرنے کے بعد ﴿ علم الانسان مالم یعلم﴾ ”سکھائی انسان کو وہ باتیں جنہیں وہ نہیں جانتا “کی آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اسی کے بعد ارشاد ہوا:﴿کلا ان الانسان لیطغی﴾․سنو! بلاشبہ انسان سرکش ہو جاتا ہے۔“
”الانسان تعلیمی حقیقت ہے“ پھر ایک تنبہیی کلمہ” گلا“ کے بعد فرمانا کہ ” الانسان سرکش ہو جاتا ہے “ ظاہر ہے کہ محض کوئی اتفاقی بات نہیں ہے بلکہ جو مشاہدہ ہے اسی کا اظہار ہے، یعنی نہ جانی ہوئی چیزوں کے جاننے کی جوں جوں آدمی میں صلاحیت بڑھتی جاتی ہے ، دیکھا جاتا ہے کہ اسی نسبت سے اس میں طغیان اور سرکشی کی لہریں بھی اُٹھنے لگتی ہیں ، وساوس وشکوک، تنقید واعتراض، یہ قصے ظاہر ہے کہ جاہلوں او رکنددماغوں میں نہیں پیدا ہوتے ، بلکہ یہ سارے عوارض علم ہیں، شاید یہ مبالغہ نہ ہو کہ دماغوں پر جتنا اچھااثر جس تعلیم سے زیادہ پڑتا ہے اسی قدر اس تعلیم سے سرکشی اور طغیان کی تولید بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ علم کا یہی وہ خطرناک پہلو ہے کہ اس پہلو کی جانب سے معمولی غفلت ہمیشہ خطرناک نتائج کو پیدا کرتی رہی ہے، تعلیم او رایجوکیشن کے خلاف بعض دلوں میں جو مخالفت پائی جاتی ہے دراصل علم کے ان ہی طغیانی نتائج پر ان کی مخالفت مبنی ہے، خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو ۔
بہرحال مسلمانوں کو پہلی نازل شدہ سورت میں تعلیم کے اس خطرناک پہلو پر بھی متنبہ کر دیا گیا تھا، مجھے اس وقت دوسرے ممالک سے بحث نہیں، لیکن ہندوستان کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ جس زمانہ سے اس ملک میں اسلامی تعلیم کا نظام قائم کیا گیا، اسی زمانہ سے آخر وقت تک، جب تک زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیمی شعبہ بھی مسلمانوں کا برباد نہ ہوا تھا، یہ قرآنی نکتہ ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ رہا۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ دماغی تربیت واصلاح کے ساتھ ساتھ لزومی طور پر قلبی اصلاحی کی طرف توجہ تعلیم کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھی جاتی تھی ۔ ساتویں صدی سے بارہویں صدی کی اس طویل مدت میں آپ مشکل ہی سے کسی ایسے عالم کی نشان دہی کر سکتے ہیں جس نے مدرسہ سے نکلنے کے بعد یا مدرسی زندگی کے ساتھ ساتھ کسی خانقاہ سے تعلق نہ پیدا کیا ہو، خود قرآن میں علم کے اس طغیانی پہلو پر چونکانے کے بعد﴿ان راہ استغنی﴾ ( اس لیے آدمی سرکش ہو جاتا ہے ) کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز پاتا ہے“ کے الفاظ سے اس سبب کو ظاہر کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اہل علم میں یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے، گویا پڑھ لکھ لینے کے بعد آدمی یہ باور کرنے لگتا ہے کہ اب میں خود سوچ سکتا ہوں ، دوسروں سے مشورہ لینے کی مجھے کوئی حاجت نہیں، حق وباطل میں امتیاز میرادماغ خود پیدا کر سکتا ہے، علم کا یہی استغنا انسانیت کی موت ہوتی ہے ، الغرض مرض (طغیان) سبب مرض استغنا کے بعد﴿ان الی ربک الرجعیٰ﴾ ”( علاج طغیانی کا یہ ہے )کہ تیرے رب کی طرف واپسی ہو “۔”کو اس طغیان کا واحد علاج بتایا گیا ہے ، اسی قرآنی حکم کی تعمیل کی یہ شکل تھی کہ جن کے پاس ان کا رب تھا ان کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، اپنی صحبت، اپنی تربیت میں رکھ کر رجوع کرنے والے کو بھی اس کے رب کی طرف وہ پھیر دیتے تھے ، اسی کا اصطلاحی نام پیری مریدی یا بیعت وصحبت تھا، قرآن کے بینات بتا رہے تھے کہ خدا کی طرف رجوع کرنے کی شکل اس ہبوطی زندگی میں بنی آدم کے لیے یہی ہے کہ خدا والوں کی طرف پلٹا جائے۔
﴿فمن تبع ھدی فلاخوف علیھم ولاھم یحزنون﴾ ”اور میرے راہ نماؤں کی جس نے پیروی کی نہ اس کو اندیشہ ہے او رنہ وہ کُڑھے گا“۔ کی وصیت اس وقت بھی کی گئی تھی جب آدم کو اس ہبوطی زندگی گزارنے کے لیے بھیجا گیا تھا اور یہی اس وقت بھی کہا گیا جب آخری پیغام لانے والے نے پیغام سناتے ہوئے کہا: ﴿ان کنتم تحبون الله فاتبعونی﴾ ”اگر تم الله کو چاہتے ہو تو میری پیروی کرو“ اور قیامت تک کے لیے یہ منادی کر دی گئی:
﴿واتبع سبیل من اناب الي﴾ کہ اور پیچھے پیچھے چلو ان لوگوں کی راہ پر جو میری طرف جھک پڑے ہیں۔
جس زمانے میں جس کی انابت رب کی طرف زیادہ ہوگی ، اسی حد تک وہی اس کا زیادہ مستحق سمجھا جائے گا، کہ لوگ اس کی راہ پر چلیں ، اسی کا رنگ ،اسی کا ڈھنگ اختیار کریں، ہمارے تعلیمی نظام کا آخری اختتامی جز یہی چیز تھی ، مدرسوں میں دماغوں کو بنایا جاتا تھا اور خانقاہوں میں دلوں کو سلجھایا جاتا تھا او رتب جاکر وہ نتائج پیدا ہوتے تھے جن کی لفظی تعبیریں جو آج کتابوں میں پائی جا تی ہیں کچھ شاعرانہ رسمی باتوں سے زیادہ نگاہوں میں نہیں جچیں، مثلاً ہندی علما کے عام تذکروں میں مولانا آزاد ہی کے قلم سے بے ساختہ اس قسم کے الفاظ نکلتے جاتے ہیں۔
خدا دوست، دنیا دشمن، بادل بریاں، دیدہ گریاں، زبانے لطیف، بیانِ شیریں، باوضع لطافت ونزاکت، باتمکین وقار ر ورزانت، ظرافت طبع، تقدس ذات، جلائل صفات، یگانہ روز گار، ہموار بہ یادسلطان حقیقی وغیرہ وغیرہ۔
جس تذکرے کو اُٹھا کر دیکھیے عموماً ان میں کچھ اسی قسم کے ترشے ترشائے، ڈھلے ڈھلائے فقرے آپ کو ملتے چلے جائیں گے ، پڑھنے والے ان الفاظ کو پڑھتے ہیں ، چوں کہ اب آنکھوں کے سامنے سے وہ تماشا غائب ہو چکا ہے، اس لیے مجبور ہیں کہ پرانے زمانہ کی انشا کا اسے ایک اسلوب خاص قرار دے کر آگے نکل جائیں۔
مگر میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ دماغ کے ساتھ جب کبھی دل کی تربیت کا سامان کسی نظام تعلیم میں کیا گیا ہے تو مذکورہ بالاالفاظ کے سوا ان کے نتائج کے اظہار کی کوئی دوسری صورت ہی نہیں ہے، بلکہ اصل حقیقت جیسی کہ چاہیے پھر بھی سامنے نہیں آتی۔
بہرحال انابت الی الله اور ہرطرف سے ٹوٹ کر خداہی کے قدموں پر جھک جانے والوں کا اصطلاحی نام ” صوفیہ“ او ران کے علمی وعملی نظام کا نام ’ ’تصوف“ تھا، دستورتھا کہ رسمی علوم سے فارغ ہونے کے بعد لوگ اسلام کے اسی طبقہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور اپنی اپنی مناسبتوں کے لحاظ سے ان بزرگوں میں سے کسی کونمونہ بنا کر ان کی صحبت اور ان کی نگرانی میں رندگی گزارتے تھے، علمی شکوک اور ذہنی شبہات کے گردوغبار سے دماغ جو بھر جاتے تھے اس کی شست وشو ان ہی ہستیوں کی رفاقت اور تبعیت میں میسر آتی تھی ، یقین وایمان کی برفانی سلوں سے جن کے سینے معمور تھے وہ اپنی خنکیوں کو دوسروں تک منتقل کرتے تھے، کردار کی استواری، سیرت کا استحکام، دین کا وقار وجلال خود بخود ان مثالی نمونوں کو دیکھ کر لوگوں میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق پیدا ہو جاتا تھا او راس وقت ملت کی صحیح راہ نمائی کا استحقاق اہل علم کو حاصل ہوتا تھا۔
”الانسان تعلیمی حقیقت ہے“ پھر ایک تنبہیی کلمہ” گلا“ کے بعد فرمانا کہ ” الانسان سرکش ہو جاتا ہے “ ظاہر ہے کہ محض کوئی اتفاقی بات نہیں ہے بلکہ جو مشاہدہ ہے اسی کا اظہار ہے، یعنی نہ جانی ہوئی چیزوں کے جاننے کی جوں جوں آدمی میں صلاحیت بڑھتی جاتی ہے ، دیکھا جاتا ہے کہ اسی نسبت سے اس میں طغیان اور سرکشی کی لہریں بھی اُٹھنے لگتی ہیں ، وساوس وشکوک، تنقید واعتراض، یہ قصے ظاہر ہے کہ جاہلوں او رکنددماغوں میں نہیں پیدا ہوتے ، بلکہ یہ سارے عوارض علم ہیں، شاید یہ مبالغہ نہ ہو کہ دماغوں پر جتنا اچھااثر جس تعلیم سے زیادہ پڑتا ہے اسی قدر اس تعلیم سے سرکشی اور طغیان کی تولید بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ علم کا یہی وہ خطرناک پہلو ہے کہ اس پہلو کی جانب سے معمولی غفلت ہمیشہ خطرناک نتائج کو پیدا کرتی رہی ہے، تعلیم او رایجوکیشن کے خلاف بعض دلوں میں جو مخالفت پائی جاتی ہے دراصل علم کے ان ہی طغیانی نتائج پر ان کی مخالفت مبنی ہے، خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو ۔
بہرحال مسلمانوں کو پہلی نازل شدہ سورت میں تعلیم کے اس خطرناک پہلو پر بھی متنبہ کر دیا گیا تھا، مجھے اس وقت دوسرے ممالک سے بحث نہیں، لیکن ہندوستان کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ جس زمانہ سے اس ملک میں اسلامی تعلیم کا نظام قائم کیا گیا، اسی زمانہ سے آخر وقت تک، جب تک زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیمی شعبہ بھی مسلمانوں کا برباد نہ ہوا تھا، یہ قرآنی نکتہ ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ رہا۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ دماغی تربیت واصلاح کے ساتھ ساتھ لزومی طور پر قلبی اصلاحی کی طرف توجہ تعلیم کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھی جاتی تھی ۔ ساتویں صدی سے بارہویں صدی کی اس طویل مدت میں آپ مشکل ہی سے کسی ایسے عالم کی نشان دہی کر سکتے ہیں جس نے مدرسہ سے نکلنے کے بعد یا مدرسی زندگی کے ساتھ ساتھ کسی خانقاہ سے تعلق نہ پیدا کیا ہو، خود قرآن میں علم کے اس طغیانی پہلو پر چونکانے کے بعد﴿ان راہ استغنی﴾ ( اس لیے آدمی سرکش ہو جاتا ہے ) کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز پاتا ہے“ کے الفاظ سے اس سبب کو ظاہر کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اہل علم میں یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے، گویا پڑھ لکھ لینے کے بعد آدمی یہ باور کرنے لگتا ہے کہ اب میں خود سوچ سکتا ہوں ، دوسروں سے مشورہ لینے کی مجھے کوئی حاجت نہیں، حق وباطل میں امتیاز میرادماغ خود پیدا کر سکتا ہے، علم کا یہی استغنا انسانیت کی موت ہوتی ہے ، الغرض مرض (طغیان) سبب مرض استغنا کے بعد﴿ان الی ربک الرجعیٰ﴾ ”( علاج طغیانی کا یہ ہے )کہ تیرے رب کی طرف واپسی ہو “۔”کو اس طغیان کا واحد علاج بتایا گیا ہے ، اسی قرآنی حکم کی تعمیل کی یہ شکل تھی کہ جن کے پاس ان کا رب تھا ان کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، اپنی صحبت، اپنی تربیت میں رکھ کر رجوع کرنے والے کو بھی اس کے رب کی طرف وہ پھیر دیتے تھے ، اسی کا اصطلاحی نام پیری مریدی یا بیعت وصحبت تھا، قرآن کے بینات بتا رہے تھے کہ خدا کی طرف رجوع کرنے کی شکل اس ہبوطی زندگی میں بنی آدم کے لیے یہی ہے کہ خدا والوں کی طرف پلٹا جائے۔
﴿فمن تبع ھدی فلاخوف علیھم ولاھم یحزنون﴾ ”اور میرے راہ نماؤں کی جس نے پیروی کی نہ اس کو اندیشہ ہے او رنہ وہ کُڑھے گا“۔ کی وصیت اس وقت بھی کی گئی تھی جب آدم کو اس ہبوطی زندگی گزارنے کے لیے بھیجا گیا تھا اور یہی اس وقت بھی کہا گیا جب آخری پیغام لانے والے نے پیغام سناتے ہوئے کہا: ﴿ان کنتم تحبون الله فاتبعونی﴾ ”اگر تم الله کو چاہتے ہو تو میری پیروی کرو“ اور قیامت تک کے لیے یہ منادی کر دی گئی:
﴿واتبع سبیل من اناب الي﴾ کہ اور پیچھے پیچھے چلو ان لوگوں کی راہ پر جو میری طرف جھک پڑے ہیں۔
جس زمانے میں جس کی انابت رب کی طرف زیادہ ہوگی ، اسی حد تک وہی اس کا زیادہ مستحق سمجھا جائے گا، کہ لوگ اس کی راہ پر چلیں ، اسی کا رنگ ،اسی کا ڈھنگ اختیار کریں، ہمارے تعلیمی نظام کا آخری اختتامی جز یہی چیز تھی ، مدرسوں میں دماغوں کو بنایا جاتا تھا اور خانقاہوں میں دلوں کو سلجھایا جاتا تھا او رتب جاکر وہ نتائج پیدا ہوتے تھے جن کی لفظی تعبیریں جو آج کتابوں میں پائی جا تی ہیں کچھ شاعرانہ رسمی باتوں سے زیادہ نگاہوں میں نہیں جچیں، مثلاً ہندی علما کے عام تذکروں میں مولانا آزاد ہی کے قلم سے بے ساختہ اس قسم کے الفاظ نکلتے جاتے ہیں۔
خدا دوست، دنیا دشمن، بادل بریاں، دیدہ گریاں، زبانے لطیف، بیانِ شیریں، باوضع لطافت ونزاکت، باتمکین وقار ر ورزانت، ظرافت طبع، تقدس ذات، جلائل صفات، یگانہ روز گار، ہموار بہ یادسلطان حقیقی وغیرہ وغیرہ۔
جس تذکرے کو اُٹھا کر دیکھیے عموماً ان میں کچھ اسی قسم کے ترشے ترشائے، ڈھلے ڈھلائے فقرے آپ کو ملتے چلے جائیں گے ، پڑھنے والے ان الفاظ کو پڑھتے ہیں ، چوں کہ اب آنکھوں کے سامنے سے وہ تماشا غائب ہو چکا ہے، اس لیے مجبور ہیں کہ پرانے زمانہ کی انشا کا اسے ایک اسلوب خاص قرار دے کر آگے نکل جائیں۔
مگر میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ دماغ کے ساتھ جب کبھی دل کی تربیت کا سامان کسی نظام تعلیم میں کیا گیا ہے تو مذکورہ بالاالفاظ کے سوا ان کے نتائج کے اظہار کی کوئی دوسری صورت ہی نہیں ہے، بلکہ اصل حقیقت جیسی کہ چاہیے پھر بھی سامنے نہیں آتی۔
بہرحال انابت الی الله اور ہرطرف سے ٹوٹ کر خداہی کے قدموں پر جھک جانے والوں کا اصطلاحی نام ” صوفیہ“ او ران کے علمی وعملی نظام کا نام ’ ’تصوف“ تھا، دستورتھا کہ رسمی علوم سے فارغ ہونے کے بعد لوگ اسلام کے اسی طبقہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور اپنی اپنی مناسبتوں کے لحاظ سے ان بزرگوں میں سے کسی کونمونہ بنا کر ان کی صحبت اور ان کی نگرانی میں رندگی گزارتے تھے، علمی شکوک اور ذہنی شبہات کے گردوغبار سے دماغ جو بھر جاتے تھے اس کی شست وشو ان ہی ہستیوں کی رفاقت اور تبعیت میں میسر آتی تھی ، یقین وایمان کی برفانی سلوں سے جن کے سینے معمور تھے وہ اپنی خنکیوں کو دوسروں تک منتقل کرتے تھے، کردار کی استواری، سیرت کا استحکام، دین کا وقار وجلال خود بخود ان مثالی نمونوں کو دیکھ کر لوگوں میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق پیدا ہو جاتا تھا او راس وقت ملت کی صحیح راہ نمائی کا استحقاق اہل علم کو حاصل ہوتا تھا۔
No comments:
Post a Comment