visitors

free counters

Tuesday 9 October 2012

اسلام آباد میں بینک آف خیبر کی اسلامی بینکاری شاخ کا افتتاح

اسلام آباد میں بینک آف خیبر کی اسلامی بینکاری شاخ کا افتتاح
قومی خبریں | October 8, 2012

اسلام آباد(مانیٹر نگ ڈیسک) بینک آف خیبر نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا بلکہ وطن عزیز دیگر حصوں میں بھی اپنی شاخوں کے منظم دائرہ کار کے ذریعے اپنی خدمات صارفین کی ایک بڑی تعداد تک پہنچا رہا ہے ۔ جو کہ بینک آف خیبر کی صارف دوستی کا ثبوت ہے ۔ ان خیالات کا اظہار امیر حیدر خان ہوتی وزیراعلیٰ خیبر پختو نخو انے F-10مرکز اسلام آباد میں بینک آف خیبر کی راست اسلامی بینکاری کی نئی شاخ کا افتتاح کرتے ہوئے کیا ۔ وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے مزید کہا کہ بینک آف خیبر کی روز افزوں ترقی ادارے کے انتظامیہ کی محنت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے باقاعدہ افتتاح کے بعد شاخ میں اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوایا اور بینک آف خیبر کی دیگر شاخوں کی طرح اس شاخ کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر بلال مصطفی اور دیگر اعلیٰ افسروں کو اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ افتتاحی تقریب میں بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر بلال مصطفی ، سید معصوم شاہ پولی ٹیکل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا،چیف منیجر بینک آف خیبر اسلام آباد بلیو ایریا شاخ محمد فواد سدوزئی ، منیجر بینک آف خیبر راولپنڈی شاخ نور نواز خان جبکہF-10مرکز شاخ کے منیجر مقصود احمد نے افتتاحی تقریب کے رابطہ کار کے فرائض انجام دیے۔اس موقع پر بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر بلال مصطفی نے کہا کہ الحمد للہ بینک کے اثاثہ جات کی مالیت 73ارب روپے سے بڑھ چکی ہے جبکہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے بینک کو “A” ریٹڈ بینک قرار دیا ہے جو کہ بینک پر اس کے صارفین کے اور کرم فرماؤں کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔


http://beta.jasarat.com/national/news/7180

ایل کے ایڈوانی اور قرآن

بھارتی انتہا پسند رہنما ایڈوانی قرآن سمجھنے کے لیے عربی سیکھنے میں مصروف
قومی خبریں, مشرق وسظٰی | September 30, 2012

بنگلور( مانیٹرنگ ڈیسک)بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ایل کے ایڈوانی ان دنوں عربی زبان سیکھ رہے ہیں تاکہ قران پاک کو اس کی اصل زبان میں سمجھ سکیں۔ بھارت میں ان دنوں سیاسی کشمکش زوروں پر ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ایل کے ایڈوانی مختلف اسکینڈلز کی زد میں آئی ہوئی بھارتی حکومت کو گرانے کی منصوبہ بندی کررہے ہوں گے۔ لیکن بنگلور میں ایک تقریب کے دوران ایڈوانی نے یہ کہہ کر لوگوں کو حیران کردیا کہ وہ ان دنوں عربی زبان سیکھنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ایڈوانی نے بتایا کہ وہ ہندی اور انگلش میں قران کے ترجمے پڑھ چکے ہیں لیکن اب قران کی اصل روح کو اس کی اپنی زبان میںسمجھناچاہتے ہیں اس لیے عربی سیکھ رہے ہیں۔

http://beta.jasarat.com/national/news/4331

’’بنگسا مورو‘‘

دنیا میں ’’بنگسا مورو‘‘کے نام سے نئے اسلامی ملک کا اضافہ
بین الاقوامی خبریں | October 8, 2012

منیلا(ثناء نیوز )اسلامی دنیا میں ایک نئے ملک کا ا ضافہ ہوگیا ہے ۔ بنگسا مورو (Bangsamoro) نام کے نئے اسلامی ملک ملائشیا اور فلپائن کے درمیان بنایا جائے گا نئے اسلامی ملک کے قیام کے معائدے پر15 اکتوبر کو دستخط کیے جائیں گئے ۔اس سلسلے میں۔فلپائن حکومت نے ملک کے سب سے بڑے باغی مسلمان گروپ کے ساتھ امن معاہدے کا فریم ورک طے کر لیا ہے۔اِس بات کا اعلان فلپائن کے صدر بینگنو اکوانو نے کیا ہے۔اس امن معاہدہ کے لیے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (ایم آئی ایل ایف) کے ساتھ بات چیت کا ایک طویل دور چلا تا کہ چالیس سال سے جاری تصادم ختم کیا جا سکے جس میں ایک تخمینے کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار جانیں جا چکی ہیں۔اس معاہدہ کے تحت جنوب میں ایک خود مختار علاقہ بنایا جائے گا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ حالانکہ یہ مجموعی طور پر کیتھولک ملک ہے۔یہ معاہدہ پڑوسی ملک ملائشیا میں فریقین کے درمیان بات چیت کے بعد طے پایا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ فلپائن کے دارالحکومت میں پندرہ اکتوبر کو باضابطہ طور اس معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔خبروں میں کہا گیا ہے کہ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ایک ترجمان نے اس معاہدے پر بے حد خوشی کا اظہار کیا ہے۔ایم آئی ایل ایف کے سیاسی امور کے نائب صدر غزالی جعفر نے کہا کہ ہم لوگ کافی خوش ہیں اور ہم اس کے لیے صدر کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔صدر اکوانو نے ملک کے جنوبی علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ فریم ورک معاہدہ مندانا میں حتمی اور پائدار امن کا راستہ ہموار کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی بھی فریقین میں بہت سی تفصیلات پر اتفاق ہونا ہے۔اس فریم ورک معاہدے کی ایک کاپی میں کہا گیا ہے کہ جامع معاہدہ اس سال کے آخیر تک ہو جائے گا۔نامہ نگاروں کا کہنا ہے یہ معاہدہ قیام امن کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہے حالانکہ ایم آئی ایل ایف کے ساتھ گزشتہ پندرہ برسوں میں امن کی تمام کوششیں ناکام اور تشدد کا شکار رہی ہیں۔یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس معاہدے پر دو ہزار سولہ میں صدر اکوانو کے عہدہ صدارت کے اختتام تک عملی جامہ پہنایا جائے گا۔صدر اکوانو نے کہا ہے کہ اس خودمختار علاقے کا نام وہاں کے مورو باشندوں کے نام پر ‘بنگسامورو’ رکھا جائے گا۔صدر نے کہا کہ یہ معاہدہ تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر کیا گیا ہے اور بے یقینی اور کم نظری کو خارج کیا گیا ہے جس نے گزشتہ تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا۔’اتوار کو ہونے والے اس معاہدے سے ایک عبوری کمیشن کا قیام عمل میں آیا ہے جو اس فریم ورک معاہدے کے ضوابط طے کرے گا۔فلپائنی حکومت اور مسلم علیحدگی پسندوں کے مرکزی گروپ کے مابین ملائشیا کی میزبانی میں جاری مذاکرات میں کامیابی کے اشارے سامنے آئے ہیں۔ فلپائن کے صدر اکینو کے مطابق ممکنہ معاہدے کی ابتدائی شکل پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ منیلا سے جاری ہونے والے ایک حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور مسلمان علیحدگی پسندوں کے بڑے گروپ مورو اسلامک فرنٹ کے درمیان جاری بات چیت کے دوران حتمی امن معاہدے کی ابتدائی صورت پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ ابتدائی معاہدے کے مطابق فریقین رواں برس کے اختتام پر سمجھوتے کی حتمی دستاویز پر دستخط کر دیں گے۔ ابتدائی معاہدے پر فریقین اپنی رضامندی کے اظہار کے طور پر دستخط پندرہ اکتوبر کو کر رہے ہیں۔ اس تقریب میں میزبان ملائشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق اور فلپائن کے صدر بینِیگنو اکینو بھی شریک ہوں گے۔اس معاہدے کے تحت ایک نئے خود مختار علاے کے قیام کے روڈ میپ پر عمل کیا جائے گا اور حتمی معاہدے کے بعد اس خود مختار علاقے کو ایک نئے سیاسی نام کے ساتھ مزید اختیارات سن 2016 میں دے دیے جائیں گے۔ یہ خود مختار علاقہ صدر اکینو کی مدت صدارت سے قبل قائم کر دیا جائیگا۔ اکینو کی مدت صدارت سن 2016 کے اختتام پر پوری ہونے سے قبل الیکشن بھی شیڈیول ہیں۔فلپائن کے اگلے عام انتخابات سے قبل نئے خود مختار علاقے کے حوالے سے ایک استصواب رائے بھی تجویز کیا گیا ہے۔ نئے خود مختار علاقے کا نام بنگسا مورو (Bangsamoro) رکھا جائے گا۔ بنگسا مورو کا نام اس علاقے کے مقامی باشندوں کی مناسبت سے ہے۔ اکینو نے اس نام کی مناسبت سے کہا کہ یہ منڈانا میں جد و جہد کرنے والوں کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔ ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ مورو اسلامک فرنٹ سے انتہا پسند گروپ علیحدگی اختیار کر سکتا ہے، جس سے تشدد اور کشیدگی کی ایک نئی لہر ابھر آئے گی۔ اس ابتدائی معاہدے کے اعلان کے فوری بعد ایک دوسرے متحرک انتہا پسند گروپ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ اس علاقے میں اسلامی ریاست کے قیام تک تحریک جاری رکھے گا۔ یہ اعلان بنگسا مورو اسلامک فریڈم موومنٹ کی جانب سے کیا گیا ہے۔فلپائن کے علاقے جنوبی منڈانا کے جنوبی خطے میں تنازعہ گزشتہ چار دہائیوں سے جاری ہے۔ مسلمان علیحدگی پسندوں کے چالیس سالہ پرانے مسلح تنازعے میں اب تک ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ فلپائن رومن کیتھولک مسیحی اکثریت آبادی کا حامل ملک ہے۔ جنوبی منڈانا کا سارا علاقہ معدنی دولت سے مالا مال تصور کیا جاتا ہے اور یہ فلپائن کی اقتصادی بحالی میں اہم کردار کر سکتا ہے۔
Tags: favourite
http://beta.jasarat.com/international/news/7140
اسلامی دنیا میں بنگسا مورو نام کے ایک نئے ملک کا اضافہ



منےلا (ثناءنیوز) اسلامی دنےا مےں اےک نئے ملک کا اضافہ ہوگےا ہے ۔ بنگسا مورو نام کے نئے اسلامی ملک ملائشیا اور فلپائن کے درمےان بناےا جائے گا۔ نئے اسلامی ملک کے قےام کے معاہدے پر15 اکتوبر کو دستخط کئے جائےں گئے ۔اس سلسلے مےں۔فلپائن حکومت نے ملک کے سب سے بڑے علیحدگی پسند مسلمان گروپ کے ساتھ امن معاہدے کا فریم ورک طے کر لیا ہے۔اِس بات کا اعلان فلپائن کے صدر بینگنو اکوانو نے کیا ہے۔ اس امن معاہدے کےلئے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (ایم آئی ایل ایف) کے ساتھ بات چیت کا ایک طویل دور چلا تا کہ چالیس سال سے جاری تصادم ختم کیا جا سکے جس میں ایک تخمینے کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار جانیں جا چکی ہیں۔اس معاہدہ کے تحت جنوب میں ایک خود مختار علاقہ بنایا جائے گا
جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔

http://www.nawaiwaqt.com.pk/ 9 October 2012

خالق کائنات کی نشانیاں

کائنات کے پانچ راز

ڈاکٹر عبد الغنی فاروق


 

یہ عہد حاضر کی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحقیقات اور ایجادات کے اعتبار سے سائنس کے کمالات آج اپنے پورے عروج پر ہیں۔چنانچہ حیاتِ انسانی کے ان گنت شعبوں کے علاوہ سائنسدانوں نے بری ،بحری اور فضائی حوالوں سے ایسی ایسی تحقیقات کی ہیں اور جنگلوں ،صحراؤں،سمندرں اور پہاڑوں کے بارے میں ایسی ایسی نادر و نایاب معلومات فراہم کی ہیں کہ جن کا مطالعہ کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرتوں کا مزید انکشاف ہوتا ہے۔

جو ایمان میں اضافے اور پختگی کا سبب بنتی ہیں۔حقیقت ہے کہ علم وتحقیق کے حوالے سے یہ سائنس دان بصیرت و فراست رکھنے والے ہر فرد کے محسن ہیں۔اور ان کے لئے دل میں بے اختیار تشکر اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

لیکن سائنس کی بے مثال اور محیرالعقول ترقیوں کے باوجود کرۂ ارض اور کائنات کے حوالے سے چند سوالات ایسے ہیں کہ سائنس دان تمام تر کوششوں کے باوجود ان کے جواب تلاش نہیں کر سکے اور سال ہا سال کی تلاش وجستجو کے باوجود ان کی کوئی وضاحت اور توجیہہ سامنے نہ آسکی۔وہ سوالات درج ذیل ہیں:

١۔ برمودا مثلث (ٹرئی اینگل)کا راز کیا ہے؟


٢۔ اُڑن طشتریوں کی حقیقت کیا ہے؟


٣۔امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنی دوربین ''ہبل'' کے ذریعے سے کائنات کے دور دراز گوشوں کی جو تصاویر حالیہ برسوں میں فراہم کی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟

٤۔بلیک ہولزدراصل کیا ہے؟

٥۔ دنیا میں گرمی کا تناسب کیوں بڑھ رہا ہے اور گلیشیئر کیوں پگھلنے لگ گئے ہیں؟

آیئے سب سے پہلے برمودا مثلث کے راز کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میں اس امر کو کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایک اوسط درجے کی صلاحیتوں کا ایک فرد ہوں اور دینی اور سائنسی حوالوں سے میرا مطالعہ بہت محدود ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے میں جدید ترین سائنسی معلومات بہت شوق اور توجہ سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں اور ان سے ایسے نتائج اخذ کر لیتا ہوں جو نادر ہیں اور ایمان میں اضافے کا موجب بن سکتے ہیں۔آیئے آپ بھی اس مطالعہ میں میرے شریک ہو جائیے۔

امریکہ کے جنوب مشرقی ساحلوں کے قریب بحراوقیانوس میں برمودا نامی جزائر ہیں۔ان جزائر کے قریب میں ایک مثلث نما ٹراینگل بحری علاقہ صدیوں سے پراسرار واقعات کا موضوع بنا ہوا ہے ۔اس علاقہ سے گزرنے والے بحری جہاز ،کشتیاں بلکہ ہوائی جہاز بھی ٹھیک اس علاقہ میں جا کر غائب ہو جاتے ہیں۔اور پھر ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا ۔چنانچہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق اب تک ڈیڑھ سو بحری اور ہوائی جہاز اور ہزاروں افراد کوئی سراغ یا نشان چھوڑے بغیر یہاں غائب ہو چکے ہیں۔

١٩٧٤۔٧٦ءکے دو سالوں میں چھ سو سے زیادہ کشتیاں او ر چھوٹے جہاز اس علاقے میں گم ہو گئے اور ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔مثلث برمودا عہد حاضر کا شاید سب سے بڑا راز ہے ۔امریکہ اور یورپ بھر کے سائنس دان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس راز کے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب نہیں ہٹا سکے ہیں ۔اس علاقہ میں بے حد حیرت انگیز واقعات رونما ہو تے ہیں۔جن کی کوئی بھی سائنسی یا عقلی توجیہہ نہیں کی جا سکی۔یہاں پہنچتے ہی ہوائی جہازوں کے کمپاس کی سوئیاں تیزی سے گھومنے لگتی ہیں۔اور ''جائرو سکوپ ''(جہاز کے توازن اور سمت کو درست رکھنے والا آلہ )ناکارہ ہو جاتے ہیں،ریڈیائی پیغامات میں خلل آجاتا ہے اور جہازوں کے پائلٹ ایک بالکل ہی انوکھے ماحو ل میں گھر جاتے ہیں،چنانچہ ان کے جو آخری پیغامات کنٹرول روم میں سنائی دیتے ہیں وہ شدید خوف اور گھبراہٹ کی عکاسی کر تے ہیں۔یہاں مکمل اندھیرا ہے گھپ اندھیرا ، جہاز بے قابو ہو تاجا رہا ہے ، ہم کہاں جا رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے ۔اور اس کے بعد گہری خاموشی چھاجاتی ہے ہمیشہ کی خاموشی ....اور عجیب بات یہ ہے کہ ان حادثات کی زد میں آنے والا کبھی ایک فرد بھی زندہ نہیں بچا.... اور گم ہونے والے ہوائی یا بحری جہاز کی تلاش میں جو ٹیمیں اُدھر گئیں وہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آئیں، نہ ان کا کوئی نشان یا پتہ مل سکا ۔

البتہ چند جہا ز جو اس فضا کی لپیٹ میں آتو گئے ، لیکن دس پندرہ منٹ کے بعد انہیں رہائی مل گئی ، تو حیرت انگیز طور پر ان کی گھڑیاں پیچھے رہ گئیں۔اس علاقہ کی پراسراریت کا یہ عالم ہے کہ دسمبر١٩٤٥ءمیں پانچ امریکن بمبار ہوائی جہاز وں کا پورا ایک فلیٹ تربیتی پرواز کے دوران یوں غائب ہو گیا کہ جیسے کبھی اس کا وجود ہی نہ تھا اور جب یہ حادثہ پیش آیا تو موسم بڑا ہی سازگار تھا اور سمندری طوفان یا جھگڑ کا کوئی وجود نہ تھا ۔اس طرح برٹش ساؤتھ امریکہ ایئر لائنز کے تین جہاز اپنے تمام مسافروں سمیت غائب غلہ ہو گئے اور ان کا کوئی نشان نہ ملا۔

غائب ہونے والے جہازوں کے کپتانوں نے آخری پیغامات میں اپنے سامنے چمکدار بادلوں اور سفید پانیوں کا ذکر تکرار کے ساتھ کیا ہے۔ سب سے حیرت انگیز اور پر اسرار چیز اس علاقہ میں اُڑن طشتریوں کا وجود ہے،جن کو اب تک ہزاروں افراد کھلی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ڈسک کی شکل یہ خلائی گاڑیاں برمودا کی فضاؤں میں عام اُڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ان کی رفتا ر غیر معمولی حد تک تیز ہوتی ہے، ان میں سے کوئی آواز برآمد نہیں ہوتی اور ان کا رنگ کبھی سرخ اور کبھی نارنجی شیڈ میں تبدیل ہوجاتے ہیں.... یہ یکایک نمودار ہوتی اور کوئی شور پیدا کئے بغیر یکایک سمندر میں غائب ہوجاتی ہے۔ بے شمار لوگوں نے دیکھا ہے کہ برمودا کے پانیوں میں سے ایک ''جہاز''نکلتا ہے اور آواز پیدا کئے بغیر آسمان کی وسعتوں میں گم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یکایک ایک جہاز فضا میں نمودار ہوتا ہے اور سمندر میں اس طرح غوطہ لگاجاتا ہے کہ نہ پانی اڑتا ہے اورنہ لہریں ۔١٩٧٠ءتک بارہ ہزار چھ سو اٹھارہ افراد نے شہادت دی کہ انہوں نے برمودا کی فضاؤں میں پراسرار اُڑن طشتریاں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔

اسی نوعیت کے ان گنت، محیر العقول واقعات وقوع پزید ہوتے رہتے ہیں۔ ایک بار رات کے پونے بارہ بجے ایک امریکی بحری جہاز برمودا کے علاقے میں محوِ سفر تھا ۔ کوئی چلایا کہ جہاز کے دائیں جانب والے نگران نے کوئی چیز دیکھی ہے اور وہ بے ہوش ہوگیا ہے۔ کوئی اور چیخا کہ باہر کوئی پراسرار چیز ہے۔ اس جہاز کا ایک افسر رابرٹ ریلے لکھتا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کی معیت میں باہر نکلا۔ دیکھا کہ چاند جیسی کوئی چیز تھی جو تقریباً پندرہ میل کے فاصلے پرافق سے بلند ہورہی تھی۔ مگر اس کا حجم چاند سے تقریباً ایک ہزار گناہ بڑا تھا، وہ چیز خود بے حد روشن تھی، مگر اس سے روشنی خارج نہیں ہورہی تھی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ چیز راڈار پر نظر نہیں آرہی تھی۔

اسی طرح گوبھی کے پھول سے مشابہ پانی کے ایک بڑے پہاڑ کے بلند ہونے کا منظر١١اپریل١٩٦٣ءکو بوئنگ٠٧٠کے ہوا بازوں نے دیکھا۔ یہ منظر دن کے ڈیرھ بجے اکتیس ہزار فٹ کی بلندی سے پائلٹ ، کیپٹن اور فلائیٹ انجینئروں نے بڑے واضح انداز میں دیکھا۔ پانی کے اس پہاڑ کی چوڑائی تقریباً ایک میل اور بلندی تقریباً تین ہزار فٹ تھی۔

صاف کھلے وسیع آسمان پر عجیب وغریب ساخت کے بادلوں کا مشاہدہ بھی یہاں روزمرہ کا معمول ہے ۔ یہ بادل ڈراؤنے انداز میں چمکتے اور عجیب عجیب شکلیں اختیار کرتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ ائیر فورس کا ایک طیارہ اسی طرح بادلوں کے قریب سے گزرا تو ان میں سے انتہائی تیز سرچ لائیٹ کی شعاع نکلی اور تقریباً دو سیکنڈ تک جہاز کے گردوپیش کا جائزہ لیتی رہی ، پھر طیارے پرآکر ٹھہر گئی اور اس وقت تک طیارے کو اپنے حصار میں لیے رہی جب تک طیارہ بادلوں کے قریب سے نہیں گزرگیا۔ یہ سب کچھ چھ سیکنڈ میں ہوگیا۔ پائلٹ نے صورت ِ حال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے طیارے کا رخ جلدی سے موڑ لیا۔

برمودا کے علاقے میں ایسی مثالیں بہت سی ہیں کہ بحری جہاز تو سلامت رہا لیکن اس کے سیکڑوں مسافر پراسرار طور پر غائب ہوگئے اور ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ مسافروں کے کمروں میں ایک ایک چیز صحیح حالت میں اپنی اپنی جگہ موجود پائی گئی۔

اور جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بعض ہوائی جہاز اس فضا میں غیر معمولی حالات سے دوچار ہوئے، ان کے سارے آلات جام ہوگئے، وہ شدید ترین تاریکیوں میں گھر گئے، لیکن پھر اس بحرانی کیفیت سے نکل گئے، لیکن حیرت انگیز طور پر جہاز کی اور عملے کی گھڑیاں دس یا پندرہ منٹ پیچھے ہوگئیں۔

مثلث برمودا کے پر اسرار کا ایک حیرت انگیز پہلو.... لانگ وڈ کالج ورجینیا کے فزکس کے پروفیسر وائن مشیجن اپنے معاونین کے ساتھ تین برسوں سے موسمی سیاروں سے حاصل کردہ تصاویر کے تجزیے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ گزشتہ دو سالوں میں موسمی سیارے آٹھ سو میل کی بلندی پر جب برمودا مثلث کے عین اوپر پہنچے تو ان کے سارے آلات ایک دم ناکارہ ہوجاتے ہیں اور ٹیپ شدہ تصاویر میں سگنلز کی ترسیل بند ہوجاتی ہے۔

برمودا مثلث کے بارے میں یہ معلومات میں نے ان مضامین سے حاصل کی ہیں جو کراچی کے ماہنامہ "سائنس ڈائجسٹ" میں نومبر١٩٩٨ءسے فروری٢٠٠٠ءتک مسلسل تیرہ قسطوں میں شائع ہوتے رہے۔

برمودا مثلث کے اسرار کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کنہ تک پہنچنے کی بہت سے سائنس دانوں اور محققین نے کوشش کی ہے مگر سچی بات ہے کہ کسی ایک کو بھی مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جب کہ حال ہی کہ گم شدہ بحری اور ہوائی جہازوں کی تلاش میں جانے والی ایک تحقیقاتی ٹیم بھی واپس نہیں آئی اور آٹھ سو میل کی بلندی پر بھی خلائی سیاروں کے آلات برمودادمثلث کے اوپر آکر بے کار ہوجاتے ہیں تو اس راز کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کون کرسکتا ہے؟چناچہ اس حوالے سے جتنی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں، ان میں محض اٹکل پچو سے کام لیا گیا ہے، بے سروپامفروضے ہیں جو پیش کیے گئے ہیں اور متذکرہ نوعیت کے محیر العقول واقعات کا کوئی ٹھوس ، قابل قبول سبب بیان نہیں کیا گیا۔ چناچہ روز اوّل کی طرح یہ معّما آج بھی لاینحل ہے اور اس کی کوئی سائنسی ، عقلی توجیہہ پیش نہیں کی جاسکی۔

میرے نزدیک برموادا مثلث کے اسرار کی ایک ہی توجیہہ ہے کہ ہم کامل اعتماد کے ساتھ قرآن پاک اور نبی اکرام صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمودات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے اپنا حاصل مطالعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

قرآن پاک میں ہے کہ موت کے بعد انسان کی گناہ گار یا مجرم روحیں سجین میں رکھی جاتی ہیں جبکہ نیک روہوں کو علییّن میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ (سورةالمطففّین٨٣:آیات١٨،٧)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علییّن کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ علییّن توآسمانوں پر ہے جبکہ سجیّن زمین کی گہرائیوں کے اندر ہے۔ سجیّن کے لغوی معنی ہیں کھلے منہ کا تنگ ، گہرا غار۔(روایت حضرت ابراءبن عازب تفسیر ابن کثیر سورة المطففّین ، جلد پنجم و مسند امام احمد جلد چہارم)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیث ہے کہ جب ایک شخص مرتا ہے تو دفن ہونے تک اس کی روح وہیں موجود رہتی ہے اور اس کے لواحقین جو کچھ کررہے ہوتے ہیں، اسے دیکھتی اور سنتی ہے لیکن کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں ہوتی۔(اوکما قال صلی اللہ علیہ وسلم )

اس تناظر میں امر یہ کے ایک باہمت سائنس دان ڈاکٹر ریمونڈ اے موڈی نے بڑے ہی نادر موضوع پر تحقیق کی ہے۔ انہوں نے ''لائف افٹر لائف''کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ، جس کا ترجمہ ستار طاہر مرحوم نے ''موت کے بعد زندگی''کے عنوان سے کیا تھا اور اسے ''دارالبلاغ'' محمد نگر، لاہور نے نومبر1980ءمیں شائع کیا تھا۔ ڈاکٹر موڈی نے ڈیڑھ سو ایسے افراد تلاش کرلیے جو کسی حادثے یا بیماری کے نتیجے میں مرگئے تھے اور انہیں کلینیکل ڈیڈ قرار دے دیا گیا تھا، لیکن کچھ دیر کے بعد وہ زندہ ہوکر ہوش میں آگئے۔ موصوف نے ان سے انٹرویو کئے۔

کم وبیش ان سب نے تین باتیں مشترک طور پر بیان کیں۔

ایک یہ کہ وہ اپنے ہی جسم کو کچھ فاصلے سے مردہ حالت میں دیکھ رہے تھے۔ یعنی ایک شخص اپنی کار میں سفر کررہا تھا۔ راستے میں اسے سنگین حادثہ پیش آگیا۔ اس نے بتایا کہ میں حیران تھا کہ میرا جسم کار میں بے جان حالت میں پڑا تھا، اور میں باہر کھڑا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ لوگ شور مچار ہے تھے، کار کو کاٹ رہے تھے، پھر انہوں نے میرے جسم کو باہر نکالا اور فٹ پاتھ پر لٹاد یا اور میں یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد مجھے ایک گہرے غار میں لے جایا گیا جس کے آخری کنارے پر روشنی نظر آرہی تھی ، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے واپس لایا گیا، میرا اصل جسم حرکت میں آگیا اور میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔

اس نوعیت کے تجربات سب نے بیان کیے ہیں، یعنی اپنے مردہ جسم کو فاصلے سے دیکھنا، ایک گہرے غار میں اترنا اور غار کے آخری کنارے پر روشنی کا نظر آنا۔

ایک عورت دل کی مریضہ تھی۔ اسے آپریشن کے لیے آپریشن تھیڑ میں لے جایا گیا۔ اس نے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس کے دل نے تو حرکت کرنا بند کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی میں اپنے جسم سے نکل کر چھت کے ساتھ معلق ہوگئی اورا سٹریچر پر پڑے ہوئے اپنے جسم کو دیکھنے لگی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ایک نرس میرے منہ کے ساتھ منہ لگا کر مصنوعی تنفس دینے کی کوشش کررہی تھی.... اس اثنا میں مجھے ایک طرف لے جایا گیا اور عجیب بات یہ کہ میں درختوں اور چٹانوں کے اندر سے گزرتی ہوئی جارہی تھی حتیٰ کہ مجھے ایک غار میں لے جایا گیا، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے واپس لایا گیا اور میں نے اسڑیچر پر پڑے پڑے آنکھیں کھول دیں۔

گویا اس طرح نبی اکرم صلی علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی دونوں باتوں کی من وعن تصدیق ہوگئی کہ ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کے دفن ہونے تک اس کی روح وہاں موجود رہتی ہے اور جو کچھ اردگرد کے ماحول میں ہورہا ہوتا ہے ، اسے قائمی ہوش وحواس دیکھتی ہے ۔ گویا اس سے یہ بھی تصدیق ہوگئی کہ روح جسم سے الگ، اپنی ایک علیحدہ ، باقاعدہ حیثیت رکھتی ہے۔

ثانیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجرم روحیں سجّین میں رکھی جاتی ہیں اور سجّین زمین کے اندر ہے۔ اور چونکہ انٹرویو دینے والے یعنی عارضی طور پر مرنے والے سب غیر مسلم ہیں ،اس لیے ان سب نے ایک غار کا ذکر کیا ہے اور وہی سجین کا غار ہے۔

چناچہ ان معلومات کی روشنی میں جن کی تصدیق عقائد، شواہد اور عقل تینوں اعتبار سے ہورہی ہے، ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ برمودا مثلث دراصل سجّین ہی کا راستہ ہے۔ مضبوط قرائن اس امر کے ہیں کہ لاکھوں فرشتے ہمہ وقت انسانی روحوں کو قبض کرکے سجّین کا رخ کرتے ہیں اور خدائی احکامات کے تحت جلد از جلد انہیں ان کے ٹھکانے پر پہنچانے کی فکر کرتے ہیں ۔ وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں لمحہ بھر کی تاخیر یا رکاوٹ برداشت نہیں کرتے، اس لیے سجّین کی طرف سفر کرتے ہوئے جو چیز ان کے راستے میں حائل ہوتی ہے، وہ اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس طرح بڑے بڑے ہوائی جہاز، بحری جہاز اور کشتیاں چشم زدن میں غائب ہوجاتی ہیں اور ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔(ایک اندازے کے مطابق روزانہ تقریباً ساٹھ لاکھ افراد مرتے ہیں جن کی اکثریت آبادی کی نسبت سے غیر مسلم اور بے عمل لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے)۔

کراچی کے مشہور عالم دین مولا نا مفتی تقی عثمانی صاحب کی روایت کے مطابق ڈاکٹر ریمونڈ اے موڈی نے ''لائف آفٹر لائف'' کے بعد ''دا لائٹ بیعونڈ"کے عنوان سے ایک اور کتاب مرتب کی جس میں مزید ایک ہزار افراد سے انٹر ویو کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض افرادنے بتایا کہ وہ نیچے چلتے گئے،وہاں ان گنت لوگ تھے،وہ بری طرح چیخ رہے تھے ، وہ سب ننگے تھے ،وہاں آگ تھی، وہ سب پانی ،پانی پکار ہے تھے.... وہ اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ شمار کرنا ممکن نہ تھا۔ اس بیان سے سائنس دانوں کی اس رائے کی تصدیق ہوتی ہے کہ زمین کا اندورنی مرکز سورج ہی کی طرح گرم ہے۔ [1]

اور قرائن یہ ہیں کہ مجرم روحوں کی برموادا مثلث کے غار کے راستے زمین کے گرم ترین مرکز میں پہنچایا جاتا ہے۔ گویا مجرم اور ظالم روحیں بغیر کسی تاخیر کے عذاب کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرویو دینے والوں کی اکثریت نے غار کے آخری کنارے پر جس روشنی کا ذکر کیا ہے وہ دراصل زمین کے مرکز کی کھولتی ، دہکتی آگ ہے، جہاں مجرم روحوں کو مقید کیا جاتا ہے۔

اب اگر غور کریں تو اس امر کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ برمودا مثلث کے علاقے میں پراسرار اُڑن طشتریوں کی حقیقت کیا ہے؟ متذکرہ واقعات و مشاہدات کی روشنی میں دراصل یہ فرشتے ہیں جو مختلف روپ دھارکر اس فضا میں محو پرواز رہتے ہیں اور وجودیت کے علمبردار ، مادیت کے پرستار لوگوں کو زبانِ حال پرچیلنج کررہے ہوتے ہیں کہ تم خدا کا اس لیے انکار کرتے ہوکہ وہ نظر نہیں آتا، لیکن ہم تو اس وقت مختلف صورتوں میں نظر آرہے ہوتے ہیں، تب بتاؤ کہ ہم کیا ہیں؟ جرأت ہے تو ہمارا بھی انکار کرو، لیکن تم ایسا نہیں کرسکتے کہ ہزاروں لوگ مختلف وقتوں میں کھلی آنکھوں سے ہمارا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہمارے حوالے سے حیرت انگیز تجربات سے دوچار ہوتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ برمودا مثلث کے اسرار اور اُڑن طشتریوں کے ذریعے اﷲ تعالیٰ دراصل یورپ خصوصاً دہریت والحاد کے امام امریکہ والوں پر عہد ِ حاضر میں حجّت تمام کردینا چاہتا ہے تاکہ وہ کھلی آنکھوں سے نظر آنے والے ان معجزات کو دیکھ کر اﷲ اور اس کے دین کا اقرار کرلیں اور باطل پرستی کا رویہ ترک کردیں۔

توقارئینِ کرام! ہمیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ برمواد مثلث دراصل سجّین کا راستہ ہے اور یہاں کی فضاؤں میں اُڑن طشتریاں ، عجیب غریب جہاز اور مافوق سفید بادل دراصل فرشتوں کے مختلف روپ ہیں، اس کے سوا اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی.... اور ہمیں یہ توجیہہ کرتے ہوئی ذرا بھی کسی کامپلکس میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔

ناساکی تصاویر کی حقیقت:

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی دوربین ہُبل نے جو تصاویر برسوں میں فراہم کی ہیں اور اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے؟

امریکی ماہرِ فلکیات ایڈون پاول ہبل نے ١٩٢٠ءمیں یہ نظریہ پیش کیا کہ ہماری کہکشاں سے آگےکائنات خالی نہیں بلکہ وہاں بے شمار کہکشائیں موجود ہیں ۔ہبل ١٩٥٣ءمیں٦٤برس کی عمر میں وفات پاگیا۔ بعد میں اس نظریے پر تحقیق جاری رہی اور اسی حوالے سے ١٩٩٠ءمیں امریکی خلائی ادارہ ناسا نے خلائی شٹل ''ڈسکوری'' کے ذریعے ایک خلائی دور بین خلا میں بھیجی جس کا نام ایڈون پاول ہبل کے بام پر'' ہبُل'' رکھا گیا۔ یہ وہی دوربین ہے جو سب سے پہلے١٩٨٦ءمیں خلا میں بھیجی گئی تھی ، لیکن تھوڑی ہی عرصے کے بعد خراب ہوگئی تھی اور اسے بصد شکل زمین پر اتارلیا گیا تھا۔

ہبل دوربین سے٣٨٠میل دور اپنے مدار میں گردش کررہی ہے۔ اس میں مختلف وقتوں میں خرابیاں بھی پیدا ہوتی رہی ہیں، لیکن ناسا کے حوصلہ مند سائنسدان اس کی مرمت کرتے رہے ہیں، چناچہ ١٩٩٥ءسے ٢٠٠٣ءتک اس دور بین نے تواتر کے ساتھ کائنات کے دور دراز گوشوں کی تصاویر حاصل کیں جن سے فلکیات کے بارے میں بڑی ہی حیرت انگیز اور پراسرار معلومات کا انکشاف ہوا اور ایڈون پاول ہبل کا نقطہ نظر درست ثابت ہوا۔ ناسا کی طرف سے اعلان ہوا کہ ہبل دوربین کم از کم ٢٠١٠ءتک مطلوبہ تصاویر بھیجتی رہے گی، مگر حیرت انگیز طور پر٢٠٠٤ ءمیں ہبل خراب ہوگئی اور اس نے تاریک کائنات دور دراز گوشوں کی تصاویر بھیجنی بند کردیں۔

میں نے اخبارات میں شائع ہونے والے ہبل کی فراہم کردہ تصاویر درجنوں کی تعداد میں محفوظ کی ہیں۔ کھلی آنکھوں سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ تصاویر شعلوں کی ہیں، بھڑکتے ہوئے نیلے پیلے، سرخ شعلوں کی.... لیکن حیرت انگیزطور پر ان تصاویر کے نیچے ناسا کی طرف سے جوتعارفی جملے لکھے نظر آتے ہیں، وہ یوں ہیں: ایک ستارہ خودکشی کررہا ہے، ایک ستارہ پیدا ہورہا ہوں اور آخر میں ان کے حوالے سے اپنا نتیجہ فکر بیان کروں گا۔ یہ معلومات واقعی چونکادینے والی اور دہشت زدہ کردینے والی ہیں:

١۔ ایک خبر: کھربوں میل دور سینکڑوں ستارے ٹکرا گئے۔ خوفناک دھماکے ہوئے جن کے بعد سینکڑوں ستارے پھٹ کر بکھر گئے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار اتنی زبردست روشنی پھیلی....عظیم ترین ہبل نے ریکارڈ کرلیا۔(''نوائے وقت''،١٢جون١٩٩٧ء)

٢۔ ناسا کی رصد گاہوں کے مطابق خلا میں ہزاروں نئے ستاروں نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب تک کیے جانے والے مشاہدے کی رو سے ثابت ہوا ہے کہ کہکشاؤں کے تصادم سے ستارے جنم لیتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت خلا میں بے شمار ستاروں کی روشنیاں جھلملاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔(''جسارت'' کراچی(٢٤اکتوبر١٩٩٧ء)

٣۔ ایک خبر: سورج سے تیس کروڑ گنا بھاری بلیک ہول مل گیا ۔ بلیک ہول دراصل بہت بڑے بڑے مردہ ستاروں پر مشتمل ہے۔ وہاں کثافت کا یہ عالم ہے کہ ان کی کشش ثقل روشنی کو بھی اپنے اندر قیدکرلیتی ہے.... یہاں ایسے تنگ علاقے بھی ہیں جن میں خلائی گرد اور گیسیس فوارے کی طرح اُچھل رہی ہیں۔(''جنگ''لاہور٦نومبر١٩٩٧ء)

٤۔ ایک خبر: ماہرینِ فلکیات نے آسمان پر ایک روشن ترین ستارہ دریافت کیا ہے جو سورج سے ایک کروڑ گنا(دس ملین گنا) طاقت ور اور کئی سو گنا بڑا ہے۔ لاس اینجلس کے ایک اخبار ورلڈنیوز کے مطابق ایک سائنس دان نے خوفزدہ آواز میں بتایا کہ یہ ستارہ زمین کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کا نام ''پسٹل سٹار'' رکھا گیا ہے۔ یہ حرارت اور روشنی کے بہت بڑے گولے کی طرح چودہ کروڑ میل قطر پر مشتمل ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سورج کا قطر چار لاکھ تیس ہزار میل ہے۔ اس ستارے سے چھ سیکنڈ میں جتنی روشنی اور توانائی خارج ہوتی ہے وہ سورج ایک سال میں خارج کرتا ہے.... بہت سے ماہرین فلکیات یہ بات کہتے ہوئے خوف ودہشت سے کانپ جاتے ہیں کہ یہ ستارہ بڑی تیزرفتاری کے ساتھ زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور جوں جوں یہ قریب آتا جائے گا زمین کا درجہ حرارت بڑھتا چلا جائے گا۔(روزنامہ ''خبریں''٨جنوری١٩٩٨ء)

٥۔ ایک خبر: خلائی سائنس دانوں نے عجیب و غریب دھما کا خیز گاماریز کا ایک بڑاجمگھٹا دریافت کیا ہے جو زمین سے بارہ ارب نوری سا ل کے فاصلے پر ہے۔ ان میں سے ایک سے دو سیکنڈ میں پیدا ہونے والی روشنی پوری کائنات کی روشنی سے کہیں زیادہ ہے۔ (''خبریں'' ٩مئی١٩٩٨ء)(نوری سال؟ اگر ایک جہاز ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلے اور ایک سال تک مسلسل چلتا رہے تو یہ ایک نوری سال ہوگا)۔

٦۔ایک خبر تصویروں کے ساتھ: کائنات میں عجیب وغریب طاقت کے حامل نئے ستاروں کی دریافت ، نیوکلیئر سے بنے ہوئے نئے ستارے سورج سے آٹھ گنا بڑے ستاروں کی توڑ پھوڑ سے پیدا ہوئے۔ ایک ستارے کا حجم ١٢میل اور مادہ سورج سے زیادہ ہے۔ مادے کا ایک چمچ زمین کے اربوں ٹن کے برابر ہے ۔(''نوائے وقت'' ٩اکتوبر١٩٩٨ء)

٧۔ نیلے، پیلے،سرخ سیاہ اور سفید شعلے کی پھیلی ہوئی تصویر ۔ اس کے نیچے یہ مضحکہ خیز تعارفی سطور ہیں: ہماری کہکشاں میں ایک نیا ستارہ پیدائش کے عمل سے گزرہا ہے۔ ستارہ پیدا ہونے کی یہ تصویر چلّی میں نصب ایک بڑی دوربین سے لی گئی ۔(''نوائے وقت'' ٢دسمبر١٩٩٨ء)

٨۔ہولناک شعلے کی تصویر،سپر ہاٹ (غیر معمولی گرم) قسم کے یہ ستارے انتہائی نایاب ہیں اور ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے ۔(''نوائے وقت'' ٧اکتوبر١٩٩٨ء)

٩۔ماہرین فلکیات نے پہلی بار گاما ریز دھماکوں سے روشنی نکلتے ہوئے دیکھی ہے۔ یہ اپنی قسم کے پراسرار طاقتور دھماکے ہیں جو کائنات کی تہوں میں باقاعدگی سے ہلچل مچاتے ہیں۔ تقریباً ایک سو سیکنڈ تک جاری رہنے والے دھماکے کا پتہ دو مواصلاتی سیاروں نے چلایا اور یہ کھربوں سورجوں سے نکلنے والی توانائی کے برابر ہے۔(''نوائے وقت'' ٢٩جنوری١٩٩٩ء)

١٠۔ سرخ، پیلے اور سیاہ رنگوں میں گھری ہوئی واضح شعلوں کی تصویر: اس کا عنوان ہے ''ستارے کی خودکشی'' تصویر کے نیچے تعارفی جملے یوں ہیں: ہبل خلائی دوربین نے ایک پڑوسی کہکشاں میں واقع ایک بڑے ستارے (سپرنووا) کی خودکشی کی یہ تصویر لی ہے۔ ستارے کے از خو دتباہ ہونے کا منظر ٢٣فروری١٩٨٧ءکو جنوبی کرۂ ارض میں سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا تھا۔ سپر نووا کی تباہی کا عمل طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے۔(''نوائے وقت'' لاہور١٠فروری١٩٩٩ء)

١١۔ مختلف رنگوں پر مشتمل ایک تصویر اور اس میں روشنیاں کا چکا چوند.... نیچے لکھا ہے اس تصویر میں دئیے گئے مقام پر بڑے بڑے سورج پھٹ رہے ہیں۔ اس مقام کو ماہرین فلکیات ''موج٣٠١''کے نام سے پکارتے ہیں۔ موج٣٠١کے اکثر سورج اپنی عمر پوری کرکے پھٹ کر سپر نووا میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ پھٹے ہوئے سورج اپنے اطراف میں تین سو میل فی سیکنڈ کے حساب سے مواد بکھیر رہی ہیں۔(روزنامہ''پاکستان'' ١٨اپریل١٩٩٩ء)

١٢۔ایک خبر: ہبل سپیسں دوربین نے تین سو متحرک کہکشاؤں کی تصویر اتارلی جو ایک دوسرے کے قریب ناچتی نظر آتی ہیں۔ منظر انتہائی خوبصورت ہے۔ اگر کبھی ان کے گھومنے کی رفتار میں کمی آگئی تو آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے میں مدغم ہوسکتی ہیں۔ یہ تینوں کہکشائیں مرغولوں کی صورت میں ہیں۔(''دن''٨دسمبر١٩٩٩ء)

١٣۔سیاہ اور براؤن رنگ کی عجیب خوفناک ، ڈراؤنی تصویر کے نیچے لکھا ہے : ناسا کی ہبل دوربین نے کار نیا نامی نبولاکے اندر موجود کروڑوں اربوں میل لمبے چوڑے پر اسرار و پیچیدہ جسم کی تفصیل پر مبنی تصویر حاصل کی ہے۔ یہ پر اسرار جسم پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا.... اس نبولا میں ایسے بہت سے سورج ہیں جو ہمارے سورج سے دس گناہ زیادہ گرم اور سو گنا بڑے ہیں۔(''دن''لاہور٤فروری٢٠٠٠ء)

١٤۔ ایک خبر: سائنس دانوں نے ایک کہکشاں میں ایک مقناطیسی بلبلہ دریافت کیا ہے اور اس پر وہ حیران رہ گئے ہیں کہ یہ بلبلہ کیسے بنا؟''یہ کہکشاؤں کی نئی خصوصیت ہے جس کا ہمیں پہلے علم نہ تھا۔''(''دن'' ١٩اپریل٢٠٠٠ء)

١٥۔ایک خبر تصویر: ایک اور بلیک ہول دریافت ۔ سینکڑوں نوری سال بلند بلبلے اٹھ رہے ہیں۔ بلبلوں کی لمبائی، چوڑائی آٹھ آٹھ سو نوری سال کے برابر ہے۔ گرد کے دھبوں کے نیچے سے اُٹھ رہے ہیں۔ سائنس دان بلبلے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اپنی نوعیت کا واحد بلیک ہول جس میں گیس کی مقدار بے پناہ ہے۔ تصویر میں ایک شعلہ بلند ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔(روزنامہ''دن'' ٢٥جون٢٠٠٠ء)

١٦۔ ہماری کہکشاں میں اگر چہ ایک ارب سے زیادہ ستارے ہیں لیکن مجموعی طور پر نسبتاًخاموش اور کم عمل کہکشاں ہے۔اس کے مقابلے میں ''سین ٹارس'' کہکشاں کے مرکز میں بڑے پیمانے پر دھماکے ہورہے ہیں۔ ابھی پتہ نہیں چلا کہ اس قدر غیر معمولی توانائی کا ماخذ کیا ہے۔(روزنامہ''دن'' ٢٥جون ٢٠٠٠ء)

١٧۔گہرے سرخ رنگ کی تصویر جس میں پیلے اور سفید دھبے ہیں ۔نیچے لکھا ہے ''ناسا کی جاری کردہ تصویر میں باہم متصادم دو کہکشاؤں کے مرکزی حصے کو دکھایا گیا ہے۔ درجنوں روشن نقطے وہ نیوٹران سٹار(بلیک ہول) ہیں جو نزدیکی سورجوں سے روشنی کھینچ رہے ہیں۔ روشن قطعہ عظیم بلبلے ہیں جن کی چوڑائی ہزاروں نوری سال پر مشتمل ہے۔ یہ بلبلے ہزاروں سپر نوواز کی اجتماعی طاقت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔''(''پاکستان''١٨اگست٢٠٠٠ء)

١٨۔زمین سے چھ سو نوری سال کے فاصلے پر ایک ایسا غیر معمولی کا بلیک ہول دریافت ہوا ہے جہاں وقت تھم جاتا ہے، خلا بے معنی اور روشنی قید ہوجاتی ہے۔ (روزنامہ''پاکستان''١٥ستمبر٢٠٠٠ء)

١٩۔ تین تصویر مع وضاحتی خبر: خلاؤں میں روپوش ١یم١٦ایگل نبولا ہبل کی خلائی دوربین نے ١٩٩٦ءمیں دریافت کیا۔ جب ماہر فلکیات پیڑ نے ہبل کی تصاویر کا تجزیہ کیا۔ پیڑ نے دیکھا کہ تصویروں میں چھوٹے چھوٹے مدار ستاروں کا گروہ موجود ہے اور یہاں سے گیسیس اٹھ رہی ہیں جو جمی ہوئی ہائیڈروجن کے ستونوں سے بیرونی ریڈی ایشن کی وجہ سے بنتی ہے۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ ایگل نبولا کے ستونوں سے نکلنے والی گیسیس رنگین ہیں اور ان کا درجہ حرارت ٢٥٠سے (کے ٣٢٠)ہے۔ ہاتھی کی سونڈ کی مانند ان ستونوں کے درمیان موجود مادوں سے تارے تشکیل پارہے ہیں۔ ایگل نبولا زمین سے سات ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے اور اس کے اندر کل مادہ میں سے ٢٠فیصدغاروں کی شکل اختیار کررہا ہے ۔(''نوائے وقت''١٦اکتوبر٢٠٠٠ء)

٢٠۔ ایک خبر : ملکی وے گلیکسی اربوں سال سے چھوٹی کہکشاؤں کو نگل رہی ہے۔ پوری گلیکسی اپنے مرکز کے گرد خاص ردھم کے ساتھ حرکت پذید ہے۔(''نوائے وقت'' ١٠جنوری٢٠٠١ء)

٢١۔ایک تصویر: سرخ ، سیاہ رنگ، عظیم الجثہ نومولود ستارے نظرآرہے ہیں جو نیبولا (این ٨٣ بی) میں شدید تابکاری کے باعث دائرہ نما بلبلے خارج کررہے ہیں۔ تصویر میں بہت زیادہ روشن حصے کے بالکل نیچے نیبولہ کے مرکز میں واقع بے ضرر سا نظر آنے والا ستارہ حقیقت میں ہمارے سورج سے تیس گنا بڑا اور اس سے دو لاکھ بار زیادہ روشن ہے ۔(''جنگ''لاہور٢٩مارچ٢٠٠١ء)

٢٢۔ روزنامہ جنگ لاہور کے سنڈے میگزین مورخہ ٦مارچ٢٠٠١میں ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ عنوان ہے''ایک ستارے کی موت''۔ نظر بظاہر یہ کسی انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے۔ ساتھ تین تصویریں بھی ہیں جو دہکتے ہوئے مواد کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس مضمون کے بعض فقرے معنی خیز اور غور طلب ہیں۔ملاحظہ ہوں:

''ہماری اس پوری کہکشاں میں ہر پل ستارے بنتے ہیں، اپنی عمر پوری کرتے ہیں اور پھر فنا ہوجاتے ہیں۔''

''بڑے ستارے ، ستاروں کے اس گروہ کو کہتے ہیں جن کی کمیت دس سو رجوں سے زیادہ ہوتی ہے اور ایسے ستارے غیر معمولی انجام سے دوچار ہوتے ہیں جس کا نظارہ دیدنی قراردیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ان کا حجم بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور یہ ہئیت میں کسی سرخ عفریت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ جہاں ان کی بیرونی پرت ٹھنڈی ہونے کے ساتھ ساتھ پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔ بالآخر ان کا مرکزی حصہ جسے مرکزہ کہتے ہیں، ایک عظیم دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑتا ہے۔یہ دھماکا اس قدر شدید ہوتا ہے کہ بالا ئے فضا اس کی دھمک دور دور تک محسوس ہوتی ہے۔ اس دھماکے کو سپر نووا کہا جاتا ہے (سپر نووا ایک انفجاری جس کے پھٹنے سے ہمارے سورج کی روشنی سے ایک سو ملین (یعنی ایک کروڑ گنا) سے بھی زیادہ روشنی پیدا ہوتی ہے)۔

٢٣۔ پیچ در پیچ گھنے شعلوں کی تصویر: نیچے لکھا ہے ''زمین سے ایک لاکھ ستر ہزار نوری برس کے فاصلے پر ملکی وے کہکشاں میں واقع نبولا۔ اس میں گیسوں اور گردو غبار پر مبنی وسیع علاقہ نظر آرہا ہے ۔ یہاں ہزاروں ستارے جنم لے رہے ہیں۔''(''جنگ''٢٨جولائی ٢٠٠١ء)

٢٤۔ سرخ، زرد، نیلے ، نارنجی اور سفید رنگوں میں ایک کیکڑا نما شعلہ۔ نیچے لکھا ہے''ریڈسپائڈرنبولا''تین ہزار نوری فاصلے پر ۔ اس نبولا میں سرخ رنگ کے گندھک کے آئنز یعنی برق پارے، نارنجی رنگ میں نائٹروجن آئنز ، سبز رنگ میں ہائیڈروجن آئنز ، ہلکے نیلے رنگ میں معمول کی آکسیجن ، جبکہ گہرے نیلے رنگ میں آئنا ئزڈ آکسیجن دکھائی دے رہی ہے۔ یہ تصویر ہبل ٹیلی سکوپ نے حاصل کی ہے۔(''نوائے وقت''٣٠جولائی٢٠٠١ء)

٢٥۔ایک تصویر اور خبر:راٹن ایگ نبولا کی دریافت :( ایک بادل نما انبار جس میں سے لگے سڑے انڈے کی بدبو آرہی ہے) کاش انسان خلا میں سونگھ سکتا تو گندھک کے جلنے کی ناقابلِ برداشت بواسے راٹن ایگ نبولا کی طرف رہنمائی کرتی۔ یہ نبولا١٤٤نوری سال پر محیط ہے۔ سائنس دانوں نے ''ہبل'' کی فراہم کردہ اس تصویر کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ''نبولا'' کے مرکزہ سے نکلنے والی گیس مختلف تہوں اور رنگوں پر مشتمل ہے۔ گاڑھا سنہری رنگ دراصل وہ مواد ہے جس کاستارے کے مرکز سے حال ہی میں اخراج ہوا ہے اور اس کی رفتار کروڑوں میل فی گھنٹہ ہے۔ یہ گیس اندر پھیلتی ہے اور نیلے رنگ میں دکھائی دینے والے سست رفتار مواد کو گرماتی ہے۔(''نوائے وقت'' ٣١اگست ٢٠٠١ء)

٢٦۔ایک خبر: ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ کائنات کے دور دراز گوشے میں غیر معمولی جسامت کا ایک بلیک ہول ہے جو ستاروں کو ان کی روشنیوں سمیت نگل جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے بعض ستاروں کو پچاس لاکھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی ناقابلِ تصویر رفتار سے بلیک ہول کی طرف بڑھتے اور معدوم ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کا رقبہ ہمارے سورج سے ٢٦لاکھ گنا بڑا ہے۔(''پاکستان'' ٦ستمبر ٢٠٠١ء)

٢٧۔ ایک تصویر میں دو روشنیاں۔ ایک نیم دائرے کی صورت میں، دوسری لیکر کی شکل میں۔ نیچے لکھا ہے ''ناسا ہبل ٹیلی سکوپ نے٨ اگست کو یہ تصویر کھینچی ہے اس میں پہلی بار ایک بڑی گلیکسی کو چھوٹی گلیکسی نگلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔''(''نوائے وقت ''١٠اگست٢٠٠٣ء)

٢٨۔ ایک خبر: بلیک ہول کی آواز سن لی گئی۔ ماہرین فلکیات پہلی بار خلا میں واقع ایک بہت بڑے بلیک ہول سے برآمد ہونے والی آواز کو سننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ناسا کے ماہرین نے اسے ایک عظیم ترین کامیابی قرار دیتے ہوئے یقین ظاہر کیا ہے کہ اس سے ایک بات بہت بڑے سائنسی راز کے افشا ہونے میں مدد ملے گی۔ بلیک ہول سے برآمد ہونے والی مذکورہ آواز کا زیروبم اتنا گہرا ہے کہ انسانی قوتِ سماعت اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔(روزنامہ''امت'' ١١ستمبر٢٠٠٣ء)

............


قارئین کرام! آپ نے یہ خبریں مطالعہ فرمائیں۔ یہ کائنات کے دور دور گوشوں کے حوالے سے بڑی نادرو نایاب معلومات ہیں اور ہمیں ان سائنس دانوں اور اہل کمال کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے فلکیات کے بعید ترین گوشوں کی جھلکیاں ہم تک پہنچادیں۔ یہ خبریں پڑھتے ہوئے اور تصویرں دیکھتے ہوئے میں بار بار غور کرتا رہا کہ سائنس دانوں نے ایک خاص حوالے سے معلومات تو یقیناً بے مثال نوعیت کی حاصل کر لیں، مگر افسوس وہ اپنی کوتاہی کی وجہ سے صحیح نتائج تک نہ پہنچ سکے۔ یہ تصاویر دیکھ کر اور خبریں پڑھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ کائنات کے جس گوشے اور علاقے کی اس میں عکاسی کی گئی ہے وہ جہنم کا علاقہ ہے۔ یہ تصویریں جن کے نیچے ''پیدا ہوتے ہوئے ستارے''اور ''خودکشی کرتا ہوا ستارہ'' کا تعارفی کلمات لکھے ہوئے ہیں، واضح طور پر بھرکتے ہوئے ، پیچ وتاب کھاتے ہوئے شعلوں کی تصویریں ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا ستارے بکری یا گائے کے بچے ہیں کہ انہیں پیدا ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے یا وہ کوئی انسان یا حیوان ہیں کہ ان کے عالم برزخ کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ شعلوں کی تصویریں ہیں اور یہ لازماً جہنم کے شعلے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور دوربین نے زمین سے کروڑوں نوری میل کے فاصلے سے کائنات کے دور دراز گوشوں کی جو تصاویر حاصل کی ہیں، ان میں مختلف زاویوں سے جہنم کے کچھ مناظر محفوظ ہوگئے ہیں۔ بھڑکتے ، دہکتے، چنگاڑتے ہوئے جہنم کے مختلف گوشوں کو ان سائنس دانوں نے کہکشاں (گلیکسی) کا نام دیا ہے جہاں ان غیر معمولی جسامت کے شعلوں کا دھواں یافضا میں تحلیل ہوتی ہوئی باقیات نظر آتی ہیں۔ لیکن انہوں نے تعبیر یہ کی ہے کہ ''ستارہ مررہا ہے''یا''خودکشی کررہا ہے'' تحلیل ہوتے ہوئے شعلوں اور دھوؤں سے انہوں نے اندازہ کرلیا کہ ''سپر ہاٹ'' ستاروں کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔

جہنم کے اس علاقے سے دھوئیں اور گیسوں کے مرغولے اٹھتے ہیں ، غیر معمولی چنگھاڑ کی آواز آتی ہیں، شعلے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں، تو سائنس دان فرض کرلیتے ہیں کہ دو کہکشائیں ایک دوسری کو نگل رہی ہیں یا بڑے بڑے سورج پھٹ رہے ہیں۔ ''حمیم''اور ''غسلیں'' کی جھیلوں میں دیو ہیکل بلبلے پیدا ہوتے ہیں، تو سائنس دان پریشان ہوجاتے ہیں ، ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس کی کیا تعبیر کریں۔

جہنم کے گڈھوں سے بے پناہ خرج کی آوازیں آتی ہیں.... یہاں ہائیڈروجن گیس کے مہیب ستون ہیں (آیات کا ترجمہ''وہ سمجھتا ہے کہ اس کامال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں وہ شخص تو چکنا چور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کردینے والی جگہ؟ اﷲ کی آگ، خوب بھڑکائی ہوئی، جودلوں تک پہنچے گی، وہ ان پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی۔(اس حالت میں کہ وہ) اونچے اونچے ستونوں میں گھڑی ہوں گے۔''

امریکہ اور یورپ کے سائنس دان کا المیہ یہ ہے کہ وہ انفس وآفاق کی غیرمعمولی معلومات رکھنے کے باوجود اور ہرجانب ایک شاندار ، بے مثال اور محیر العقول نظام کی کار فرمائی دیکھنے کے باوجود وہ اس سب کچھ کو محض اتفاق قراردیتے ہیں اور اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ ادراک کرنے سے معذور ہیں کہ یہ کائنات کسی حادثے یا اتفاق کے نتیجے میں معرض وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کے حی وقیوم خالق نے اسے بڑی ہی حکمت کے ساتھ، ایک خاص منصوبے اور پلان کے مطابق تخلیق کیا ہے۔ وہ انسانوں کو بے مثال صلاحیتوں کے ساتھ، بے حدوحساب وسائل فراہم کرکے اس دنیا میں ایک محدود مدت کے لیے محض امتحان کی خاطر بھیجتا ہے.... اور پھر ایک وقت آتا ہے جب لازماً ان پر موت وارد ہوجاتی ہے اورکوئی شخص خواہ کتنے ہی لامحدود اور غیرمعمولی اختیارات کا مالک ہو یا اپنے غیر معمولی کردار اور حیثیت کی وجہ سے وہ انسانیت کے لیے خواہ مخواہ کتنا ہی اہم اور ناگزیر کیوں نہ ہو، بہر حال اس کا مادی وجود ختم ہو کے رہتا ہے (لیکن اس کی روح زندہ محفوظ رکھی جاتی ہے).... اور پھر جیسا کہ سارے نبیوں نے اس کی تعلیم دی، توریت، زبور اور انجیل نے اس کی تصدیق کی اورآخری الہامی کتاب، قرآن پاک میں اس کا تفصیل اور تکرار کے ساتھ ذکر موجود ہے کہ ایک روز لازماً قیامت برپاہوگی۔ یہ دنیا ختم کردی جائے گی، اس کی بعد حشر برپا ہوگا ، تاریخ ِ انسانی کے ہر فرد بشر کو اپنے مادی جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا، اس کے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا۔ پھر اگر اس نے خوش قسمتی سے اﷲ کی رضا حاصل کرلی تو اسے غیر معمولی نعمتوں اور راحتوں سے آراستہ باغوں میں داخل کیا جائے گا اور اگر خدانخواستہ وہ میزانِ عدل پر پورا نہ اُتر ا تو اسے سزا اور تعذیب کے حوالے کردیا جائے گا۔

عقوبت کے اس مقام کا نام جہنم ہے۔ قرآن پاک اور مستند احادیث کے مطابق جب یہ دنیا تخلیق کی گئی تھی تو اس کے ساتھ ہی جنت اور جہنم بھی معرض وجود میں آگئے تھے۔ وہ ہمیشہ سے موجود ہیں لیکن انسان کی نظروں سے بہت دور کائنات کے دور دراز گوشوں میں مستور رکھے گئے ہیں۔

قرآن پاک جہنم کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیلات کا جابجا تذکرہ فرمایا ہے۔ جہنم کی دہشت ناکی کا یہ عالم ہے کہ حضوراکرم صلی علیہ وسلم ان سورتوں کو پڑھتے ہوئے جن میں عذابِ جہنم کا ذکر ہے، سخت خوفزدہ ہوکر رویا کرتے تھے۔ فرمایا کہ مجھے سورہ تکویر، انفطار اور انشقاق نے بوڑھا کردیا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں جہنم کی دہشت کا جو نقشہ نظر آتا ہے وہ مختصراً یو ں ہے:

سورة الفرقان٢٥آیات ١١۔١٤میں ہے :''اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کررکھی ہے۔ وہ جب دور سے ان کو دیکھے گی تو یہ اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سن لیں گے اور جب یہ دست و پابستہ اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے ( اس وقت ان سے کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہیں، بہت سی موتوں کو پکارو۔''

سورة الملک ٦٧آیات٧۔٨:''جب کافر جہنم میں پھینکے جائیں گے تو وہ جہنم کے دھاڑنے کی خوفناک آوازیں سنیں گے۔ جہنم انہیں کھارہی ہوگی۔ ایسا معلوم ہوگا کہ وہ غصے کے مارے پھٹ جائے گی۔''

ابوداؤداور ترمذی کی ایک طویل حدیث ہے جس میں یہ غور طلب الفاظ ہیں کہ جہنم کے بعض حصے بعض پرسوار ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر غالب اور مسلط ہیں ۔(یعنی شدت غضب میں)

حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں: حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کفار کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا تو جہنم چیخنے لگے گی اور ایک ایسی جھرجھری لے گی کہ تمام اہلِ محشر خوف زدہ ہوجائیں گے۔ حضرت عبید عمیر فرماتے ہیں کہ جب جہنم غصے سے تھر تھرائے گی، شور وغل، چیخ پکار اور جوش وخروش شروع کرے گی تو تمام مقرب فرشتے اور بلند مرتبہ انبیاءکانپنے لگیں گے حتیٰ کہ خلیل اﷲ حضرت ابراہیم بھی اپنے گھٹنوں کے بل گرجائیں گے اور پکاریں گے کہ یااﷲ میں آج تجھ سے صرف اپنی جان کی سلامتی چاہتا ہوں اور کچھ نہیں مانگتا۔(تفسیر ابن کثیر،سورة الفرقان)

نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جہنم اس قدر گہرا ہے کہ اگر ایک پتھر اس میں پھینکا جائے تو وہ ستر سال تک گرتا ہی چلا جائے گا۔

قرآن پاک کے مطابق پتھر اور انسان جہنم کا ایندھن ہوں گے۔(سورة البقرہ:٢٤)

ابنِ کثیر نے اس کی تفسیر میں متعدد روایات نقل کی ہیں کہ یہ پتھر گندھک کے ہوں گے، سیاہ گندھک کے بے حد بدبودار۔ ان پتھروں کی بدبومردار سے بھی زیادہ ہوگی۔

جہنم کی حرارت کا یہ عالم ہے کہ بنی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دنیا اور آگ جہنم کے ستر حصے میں سے ایک ہے اور اگر سوئی کے ناکے کے برابر اس کی حرارت دنیا تک پہنچ جائے تو آنِ واحد میں سب کچھ بھسم ہوجائے (ستر کاعدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عموماً کثرت کے معنوں میں استعمال کیا ہے)

جہنم کے سات مختلف طبقات ہیں یعنی ''الجحیم'' ہے، بھڑکتی ہوئی آگ کا گڑھا۔''الحطمہ'' ہے، توڑ پھوڑ دینے والی، چکنا چور کردینے والی۔ ''ھاویہ'' ہے یعنی گہری کھائی۔'' سقر'' ہے یعنی شدید ترین انداز میں جھلسا دینے والی''لظی'' ہے یعنی بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ۔''سعیر'' ہے یعنی دہکتی ہوئی آگ اور ''زمھریر'' جس میں شدید ترین سردی ہے۔ جہنم کی ایک وادی کانام''ویل'' ہے۔ اس کی ایک جھلک سورة المرسلات (٧٧)کی ان آیات میں نظر آتی ہے:(کافروں کو حکم ہوگا) چلو اس سائے کی طرف جو تین شاخوں والا۔ یہ آگ محل جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکے گی ، یوں محسوس ہوگا جیسے زرد رنگ کے اونٹ ہیں۔ ہلاکت اور بربادی ہوگی اور روز جھٹلانے والے کے لیے۔(آیات ٣٠تا٣٤)

دلچسپ اور غو ر طلب بات یہ ہے کہ سائنس دانوں نے جو مختلف ''کہکشائیں'' دریافت کی ہیں، ان کی مختلف اقسام ہیں اور انہیں مختلف نام دئیے گئے ہیں۔

جہنم کے بارے میں قرآن و احادیث کی فراہم کردہ ان معلومات کو دیکھیئے اور پھر امریکی خلائی ادارے ناسا کی جاری کی ہوئی تصویر اور خبروں کا مطالعہ فرمائیے، آپ کو دونوں میں حیرت انگیز مشابہت نظر آئے گی اور یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ یہ لازماً جہنم کے اشارات ہیں جو دنیا تک آپہنچے ہیں۔ چناچہ '' ہبل'' کی سارے تصویروں میں مختلف گیسوں یعنی گندھک ، ہائیڈروجن، آکسیجن ا ور نائٹروجن کا ذکر کثرت سے ہے۔ وہاں حرارت کا وہ عالم ہے کہ اس کے تصور سے پسینے چھوٹے جاتے ہیں۔ وہاں کثافت کی یہ کیفیت ہے کہ چمچہ بھر مواد کا وزن اربوں ٹن ہے۔ وہاں شعلوں کی چیخم دھاڑاس قدر بے پناہ ہے کہ انسانی کان اس کی سماعت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہاں شعلے ایک دوسرے کو نگل رہے ہیں(جس کی تعبیریوں کی گئی ہے کہ ایک کہکشاں دوسری کو نگل رہی ہے)

جہنم میں کھولتا ہوا پانی، پیپ اور خون ہوگا اور ہبل کی تصویروں میں بھی سائنس دانوں نے غیر معمولی جسامت کے بلبلے اُٹھتے ہوئے دیکھے ہیں۔ وہاں بے حد وحساب جسامت کے شعلے بھڑکتے اور دہکتے ہیں جن کی چنگاریاں غیرمعمولی ہیں(''محل جیسی''،''زردرنگ کے اونٹوں جیسی'')اور ناسا کے سائنس دانوں نے انہیں نئے ستاروں کی پیدائش سے تعبیر کیا ہے۔

جہنم کے بعض طبقے بے حد تاریک اور گہرے ہیں اور یہاں حرارت کا تناسب بہت ہی غیرمعمولی اور لرزا دینے والا ہے اور یہی غالباً بلیک ہولز ہیں.... جو سائنس دانوں کے نزدیک ''مردہ ستاروں'' کے ملبہ ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ جو شخص کسی کی ہاتھ برابر جگہ پر ناجائز قبضہ کرے گا، جہنم میں اس کے گلے میں سات زمینوں کے برابر طوق ڈالا جائے گا(بخاری، کتاب الفتن، باب١٣،روایت سعید بن زید) اس حدیث کو دیکھئے اور پھر ناسا کی سائنس دانوں کی ایک تحقیق پر غور فرمائیے کہ بلیک ہول میں کثافت کا یہ عالم ہے کہ وہاں چمچہ بھر مواد کا وزن کروڑوں ٹن (بلین ٹن) ہوگا۔(خبرنمبر٤)

یوں لگتا ہے کہ بلیک ہول دراصل جہنم کے گڑھے ہیں جہاں ان ظالموں ، جفاکاروں کو بند کیا جائے گا جنہوں نے خلق خدا پر ظلم کئے ہوں گے، انہیں تباہ برباد کیا ہوگا اور ان کے حقوق غضب کئے ہوں گے۔ وہاں ان کے گلے میں تھوڑا سا مواد ڈالا جائے گا لیکن اس کا وزن کروڑوں اربوں ٹن ہوگا اور وہ یوں محسوس کریں گے جیسے سات زمینیں ان کے گردن کے ساتھ باندھ دی گئی ہیں۔

چناچہ مجھے اس امر میں کوئی شبہ نظر نہیں آتا کہ ہبل کی تصویرں جہنم کے شعلے ہیں جبکہ بلیک ہول جہنم کے گڑھے ہیں اس کے سوا ان کی کوئی علمی ، عقلی یا سائنسی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔

٠........٠........٠

اب آئیے دیکھئے ہیں کہ زمین پر گرمی تیزی سے کیوں بڑ ھ رہی ہے اور گلیشیئر کیوں پگھلنے لگے ہیں؟

میں نے اوپر ناسا کے حوالے سے جو خبریں درج کی ہیں، ان میں سے نمبر٤کودوبارہ دیکھئے۔ امید ہے اس سوال کا جواب آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔ فلکیات کے ماہرین سائنس دانوں کے مطابق سورج سے ایک کروڑ گنا روشن اور جسامت میں سینکڑوں گنا بڑا ایک ''ستارہ'' تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جن سائنس دانوں نے ہبل کی تصویروں کا تجزیہ کرکے یہ رائے قائم کی ہے ، وہ یہ بتاتے ہوئے خوف اور دہشت سے کانپ جاتے ہیں۔ امریکی سرکاری حکام بھی اس بہت بڑے خطرے کے بارے میں اپنا منہ بند کئے ہوئے ہیں تاکہ لوگ دہشت زدہ نہ ہو جائیں۔

لیکن قیامت کے حوالے سے اتمام حجت کا ایک مضبوط قرینہ سامنے آگیا ہے اور دہکتا ، بھڑکتا غیر معمولی علاقہ جسے ناسا کے سائنس دان'' ستارہ'' کہہ رہے ہیں وہ دراصل جہنم ہے جسے یوں لگتا ہے کہ اپنے اصل مقام سے دنیا کی طرف سفر کا حکم دے دیا گیا ہے اور وہ نہایت تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا ہے۔(سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق یہ علاقہ دنیا سے چھ کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہے اور پانچ لاکھ سال کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔)

قرآن مجید میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ جہنم گھات لگائے بیٹھا ہے ۔ سورة النباء٧٨ میں ہے :'' بے شک جہنم مطابق قیامت کے روز جہنم دنیا کے بالکل قریب آجا ئے گا۔''سورة الفجر ٨٩میں ہے :'' جہنم اس روز سامنے لے آئی جائے گی، اس روز انسان کو سمجھ آجائے گی لیکن اس وقت سمجھنے کا کیا فائدہ ہوگا؟''(آیت ٢٣) .... چناچہ جہنم اس روز اہلِ زمین کے عین سامنے ہوگی اور اس کی بھڑک ، تندی وتیزی ، دہشت و وحشت اور دھاڑ کا یہ عالم ہوگا کہ جلیل القدر انبیاءتک شدید خوفزدہ ہو جائیں گے۔

متعدد احادیث سے پتا چلاتا ہے کہ قیامت کا زمانہ بہت قریب آگیا ہے اور جن معدود دے چند لوگوں کو اﷲ نے قیافہ شناسی اور پیش بینی کی صلاحیت عطا فرمائی ہے،ان کا بھی کہنا ہے کہ دنیا کی عمر بس اب ڈیڑھ سو سال رہ گئی ہے۔ پھر یہ بساط لپیٹ دی جائے گی اور قیامت لازماً برپا ہوگی۔

چناچہ امکان یہ ہے کہ جہنم کو اپنے مرکز سے روانگی کا حکم مل چکا ہے اور ناسا کے سائنس دانوں کا تجزیہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ بے حد تیز روی کے ساتھ زمین کے قریب آرہا ہے.... اور اسی سبب سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور گلیشیئر تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں سائنس دانوں نے جو شواہد حاصل کئے ہیں ، ان کی چند خبریں ملاحظہ ہوں:

١۔ وائس آف امریکہ کے مطابق کوہِ ہمالیہ میں موجود گلیشئیر خطرناک حد تک تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چالیس سال میں کوہِ ہمالیہ کے بیشتر گلیشئیر ناپید ہوجائیں گے۔ جس کے نتیجے میں پہلے سیلاب آئیں گے اور پھر علاقے میں دریا خشک ہوجائیں گے۔(روزنامہ ''دن''لاہور،١١جون١٩٩٩ء)

٢۔ واشنگٹن کے تحقیقی ادارے کے مطابق دنیا بھر میں گرمی بڑھنے سے ہمالیہ کی برف تیزی سے پگھلنے لگی ہے۔ گلیشئیر پگھلنے سے پہلے تو دریائے گنگا اور دریائے سندھ میں سیلاب آئے گا اور پھر اگلے ٣٥سال میں پانی کی مقدار خطرناک حد تک کم ہوجائے گی۔

(روزنامہ ''پاکستان''٢٥جولائی٢٠٠٠ء)

٣۔ گزشہ تیس سالوں کے دوران دنیا بھر کے درجۂ حرارت میں کم از کم چھ ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ انکشاف ایک مطالعاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے جو نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے تعاون سے تیار کی گئی ۔ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے باعث کرۂ عرض کا ماحول متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ (''پاکستان'' ١٧اگست٢٠٠٠ء)

٤۔ امریکہ کی نیشنل فاؤنڈیشن کے ایک جائزے کے مطابق بیسویں صدی کے آخری تیس سالوں میں قطبیں پر درجہ حرارت گزشتہ چار سو سالوں میں سب سے زیادہ رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا میں زبردست ماحولیاتی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔(''جنگ ''لاہور ١٧اگست٢٠٠٠ء)

٥۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق قطب شمالی پر موجود برف اندازے سے زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ ادارے کی تحقیقات کے مطابق برف ہر سال نو فیصد کی شرح سے پگھل رہی ہے اور اگر یہی شرح قائم رہی تو صدی کے آخر تک یہاں کی ساری برف معدوم ہوجائے گی اور دیگر مسائل کے علاوہ عالمی درجہ حرارت غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گا۔(روزنامہ''امت'' کراچی،٢٨نومبر٢٠٠٢ء)

٦۔چلّی کے سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ قطب جنوبی میں دنیا کا سب سے بڑا گلیشئیر تیزی سے پگھلتا ہوا سمندر میں سرک رہا ہے اور اگر اس کے پگھلنے اورسرکنے کی یہی رفتار رہی تو سمندروں کی موجودہ سطح بلند ہوجائے گی۔(''جنگ'' لاہور،١٧جنوری٢٠٠٣ء)

٧۔سوئٹرز لینڈ کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ یورپ میں شدید گرمی کی لہر کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہے گا.... واضح رہے کہ گزشتہ سال شدید گرمی سے یورپ میں سینکڑوں افراد مرگئے تھے اور براعظم کے مختلف ملکوں کے جنگلات میں آگ لگ گئی تھی۔ ٢٠٠٣ءکے موسم گرما میں یورپ میں ہفتہ مسلسل دن کے وقت ٣٠ڈگری سینٹی گریڈ حرارت نوٹ کی گی جب کہ کئی ملکوں میں ریکارڈ توڑ ٤٠سینٹی گریڈ سے زیادہ گرمی نوٹ کی گئی جس کے سبب کئی جنگلات میں آگ لگ گئی، پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ بہت سی انسانی ہلاکتیں بھی ہوئیں ۔(''امت'' کراچی،١٤جنوری ٢٠٠٤ء)

دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی کے نتیجے میں پہاڑوں کی برف پگھلے گی اور گلیشیئر معدوم ہوں گے اور اس کے نتیجے میں پہلے سیلاب آئیں گے اور پھر پانی کی قلت پیدا ہوگی تو ان آفتوں اور بحرانوں کی ایک حکمت تویہ ہوسکتی ہے کہ دنیا والوں نے اﷲ تعالیٰ اور اس کے قوانین کے خلاف بغاوت پر جو کمرہ باندھ رکھی ہے، اس کی انہیں سزادی جائے گی اور انہیں طرح طرح کی پریشانیوں اور دکھوں میں مبتلا کیا جائے گا۔ لیکن غور کرنے سے سمندر کے گلیشیئر پگھلنے کا بڑا سبب نظر آتا ہے کہ قیامت سے پہلے پہلے دنیا سے پہاڑوں اور سمندروں کی برف کا مکمل خاتمہ ضروری ہے.... قرآن میں ہے کہ قیامت آئے گی تو سمندروں میں آگ لگ جائیگی (٦:٨١) (جب سمندر بھڑکا دئیے جائیں گے) (٣:٨٢) (جب سمندر پھاڑ دیئے جائیں گے)۔

اور ایسا تب ہوگا کہ پانی کے دوبنیادی اجزا ءیعنی اکسیجن اور ہائیڈورجن کو الگ الگ کردیا جائے گا اورچونکہ ایک گیس جلنے والی جبکہ دوسری جلانے والی ہے، اس لیے سمندر فوراً ہی بھڑک اٹھیں گے اور اپنی بھک سے اڑ جائے گا۔ چناچہ اس عمل کی تکمیل کے لیےضروری ہے کہ قیامت سے پہلے دنیا سے برف کا وجود معدوم ہوجائے اور سمندروں میں صرف پانی رہ جائے ۔

قارئین گرامی! میں متذکرہ بالا معلومات کی روشنی میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ تو جہنم کے ارشادات تھے جو دنیا تک آپہنچے ہیں اور ظاہر ہے جہنم میں چونکہ آگ ہے، حرارت ہے، شور ہے، اس لیے اس کے اشارات بہت دور تک پہنچ سکتے تھے لیکن دنیا تک جنت کے اشارات کی دسترس کیسے ہوگی کہ وہاں تو باغات ہیں، نہریں ہیں، مرغزار ہیں.... تب اﷲ نے کرم فرمایا اور روزنامہ ''جنگ'' لاہور کی ٤جون١٩٩٤ءکی ایک خبر نے دل ودماغ اور روح کو اطمینان کامل سے سرشار ونہال کردیا کہ''زمین سے دو سو ملین یعنی بیس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر سائنس دان پانی کی کثرت کو دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں۔یہ انکشاف امریکہ اور جرمنی کے سائنس دانوں نے ایک ریڈیائی دور بین استعمال کرتے ہوئے کہا''.... اور ظاہر ہے کہ یہ علامت جنت کی ہے کہ اس سے قبل سائنس دانوں کوپوری کائنات میں زمین کے سوا، پانی کا کہیں سراغ نہیں ملا اور جنت کی بڑی خصوصیات یہ ہے کہ وہاں نہروں اور آبشاروں کی کثرت ہے۔

قارئین گرامی! میں نے اپنی محدود سمجھ بوجھ اور دستیاب معلومات کی بنا پر عہدِ حاضر کے چند اہم سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اﷲ کرے کہ آپ ان دلائل سے مطمئن ہوں اور اﷲ تبارک وتعالیٰ کی قدرتوں وعواقب کو بھگتنے کی تیاری بھی کرلیں۔ دیکھئے'' کتابِ زندہ'' ہمیں اس حوالے سے کیسے معجزانہ انداز میں خبر دار کررہی ہے:

''کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اﷲ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھک جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی.... پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں۔ خوب جان لو کہ اﷲ زمین کو اس کی موت کی بعد زندگی بخشتا ہے۔ ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھادی ہیں، شاید کہ تم عقل سے کام لو۔''(سورة الحدید٥٧: آیات ٦،١٧)


 

(ماہنامہ ظلال القرآن اسلام آباد)


 

[1] یونیورسٹی کالج لندن کے سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے کہ زمین کا مرکز ٥٥٠٠ڈگری گریڈ پر دہک رہا ہے جو سورج کے درجہ حرارت کے برابر ہے۔ یہ تحقیق سپر کمپیوٹر کے ذریعے کی گئی ۔(روزنامہ "جنگ"لاہور۔ یکم اکتوبر ١٩٩٩ئ)

Wednesday 11 April 2012

اشاریہ سازی کی اہمیت اور اس کی دقتیں

-اشاریہ سازی کی اہمیت اور اس کی دقتیں
ملک نواز احمد اعوان
کتاب : اشاریہ ماہنامہ’ الحق‘ اکوڑہ خٹک موضوع وار اور مصنف و ار اشاریہ مرتب : محمد شاہد حنیف صفحات : 498 قیمت 600 روپی ناشر : موتمر دارالمصنفین، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک خیبر پختون خوا فون نمبر : 0923-630340/0923-630435 ای میل : editor_alhaq@yahoo.com ....٭٭.... کتاب : اشاریہ ماہنامہ’ القاسم‘ نوشہرہ مرتب : محمد شاہد حنیف صفحات : 218 قیمت ناشر : جامعہ ابوہریرہ۔ برانچ پوسٹ آفس۔ خالق آباد ضلع نوشہرہ۔ خیبر پختون خوا ....٭٭٭.... کتاب : اشاریہ ششماہی مجلہ ’علوم القرآن‘ علی گڑھ بھارت مرتب : سمیع الرحمن ۔ محمد شاہدحنیف صفحات : 40 قیمت 60 روپی ناشر : الاشراق پبلی کیشنز لاہور ملنے کا پتہ : کتاب سرائے ۔اردو بازار۔ لاہور فضلی سنز ، اردو بازار کراچی جناب محمد شاہد حنیف صاحب کو اللہ پاک نے اشاریہ ترتیب دینے کی خصوصی صلاحیت عطا کی ہے۔ انہوں نے بہت سے مجلات کے اشاریے ترتیب دیے ہیں۔ موصوف انچارج شعبہ رسائل و جرائد ماہنامہ ’محدث‘ ماڈل ٹاون لاہور ہیں۔ انہوں نے جن رسائل کے اشاریے تیار کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں: ماہنامہ محدث لاہور کا 40 سالہ اشاریہ [مجلس التحقیق الاسلامی، 99 جے ماڈل ٹاون لاہور]، ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کا 75 سالہ اشاریہ [ادارہ ترجمان القرآن، منصورہ لاہور]، ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک کا 45 سالہ اشاریہ [دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک، پشاور]، ماہنامہ القاسم نوشہرہ کا 13 سالہ اشاریہ [القاسم اکیڈمی خالق آباد، نوشہرہ، پشاور]، مجلہ الثقافة الاسلامیہ کراچی یونیورسٹی کا 20 سالہ اشاریہ [شیخ زائد اسلامک سینٹر، کراچی یونیورسٹی، کراچی]، ماہنامہ حق چار یارؓ لاہور کا 22 سالہ اشاریہ [ماہنامہ حق چار، اچھرہ، لاہور]، ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا 15 سالہ اشاریہ [الشریعہ اکادمی، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ]، ماہنامہ میثاق لاہور کا 45 سالہ اشاریہ [قرآن اکیڈمی، ماڈل ٹاون، لاہور]، ماہنامہ حکمت ِ قرآن لاہور کا 28 سالہ اشاریہ [قرآن اکیڈمی، ماڈل ٹاون لاہور]، ماہنامہ فقہ اسلامی کراچی کا 10 سالہ اشاریہ [اسلامک فقہ اکیڈمی، کراچی]، سہ ماہی پیغام آشنا اسلام آباد کا 10 سالہ اشاریہ [ایران، پاکستان کلچرل کونسل، اسلام آباد]، سہ ماہی اقبال ریویو حیدرآباد کا اشاریہ [اقبال اکیڈمی، حیدرآباد، انڈیا]، سہ ماہی اقبالیات لاہور کا 50 سالہ اشاریہ [اقبال اکادمی پاکستان، ایوانِ اقبال، لاہور]، سہ ماہی ادبیات اسلام آباد کا 23 سالہ اشاریہ [اکادمی ادبیات پاکستان، پطرس بخاری روڈ، اسلام آباد]، سہ ماہی صحیفہ لاہور کا 50 سالہ اشاریہ [مجلس ترقی ادب، لاہور] .... مزید چند اشاریی: قرآن و علوم قرآن، حدیث، سیرت، اجتہاد، امام شاہ ولی اللہؒ، امام الہند ابوالکلام آزادؒ .... و دیگر اہم موضوعات پر مبنی وضاحتی کتابیات کے علاوہ پاکستان کی 10 یونیورسٹیوں کے 25 علمی مجلات کا مشترکہ موضوع وار اور مصنف وار اشاریہ۔ اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور بڑا اہم علمی کام ہے۔“ ڈاکٹر سفیر اختر صاحب اشاریوں کے متعلق لکھتے ہیں: ”میں ذاتی طور پر کتابیات، اشاریہ سازی اور ان سے ملتے جلتے کاموں کو ”سبیل“ سمجھتا ہوں۔ تپتی دھوپ میں راہ گیر راستے پر ”سبیل“ سے پیاس بجھاتا، تازہ دم ہوتا اور دعا دیتا آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح اشاریہ اور کتابیات مستقبل کے محققین، ادبی مو ¿رخین، ناقدین اور تھیسس قلم بند کرنے والے طالب علموں کے لیے بھی سبیل کا کام کرتے ہوئے علمی تشنگی دور کرتی ہے۔“ پروفیسر ڈاکٹر عبدالروف ظفر صاحب ڈائریکٹر سیرت چیئر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور اشاریہ اور اشاریہ سازی کے عنوان سے لکھتے ہیں: ”کسی کتاب یا رسالے کی فہرست ِمشتملات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کتاب یا رسالے کے اندر فلاں مصنف کا لکھا ہوا فلاں مضمون فلاں صفحہ سے شروع ہوتا ہے۔ گویا یہ فہرست اس کتاب کے بارے میں جملہ معلومات کو مختصر ترین الفاظ میں بیان کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ بہت ساری کتابوں اور رسائل کی سیکڑوں مجلدات کے مشتملات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے بھی یقینا کوئی طریقہ ایسا ہونا چاہیے تھا جس کے ذریعے یہ آگاہی ممکن ہوسکتی۔ اسی ضرورت کے پیش نظر اہلِ تحقیق نے رسائل کی اشاریہ سازی اور موضوعات کی کتابیات سازی کا طریقہ وضع کیا۔ چونکہ یہ ایک مشکل امر کو آسان تر بنانے کی کوشش تھی لہٰذا ہر محقق نے اپنے اپنے انداز میں اس کو مرتب کیا۔ یہ سبھی کام اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، لیکن نئے سے نئے اور آسان سے آسان تر کی تلاش کا سفر نہ کبھی رکا ہے نہ رک سکتا ہے۔ اس کام کا خاص ذوق رکھنے والے نوجوان محقق محمد شاہد حنیف صاحب نے اس میدان میں اہلِ علم کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کرنے کا عزم کررکھا ہے۔ ان کا یہ عزم ہی انہیں قدیم سے قدیم رسائل کی تلاش و حصول کے لیے بے تاب رکھتا ہے۔ یہ کام جس قدر عام محققین کے لیے بے رغبتی کا باعث ہوتا ہی، محمد شاہد حنیف کے لیے اسی قدر مرغوب و محبوب دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے ان کو خصوصی مہارت سے نوازا ہے۔ پاکستان میں غالباً وہ واحد فرد ہیں جو اشاریہ سازی و کتابیات سازی کے حوالے سے ایک ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، اور ان کی نگرانی میں ان کے ساتھی بہت سے رسائل و موضوعات کے اشاریے مرتب کرکے اہلِ علم و تحقیق سے دادِ تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ پاک و ہند کے بہت سے قدم و جدید رسائل کو وہ عوامی استفادے کی غرض سے جلدوں کی صورت میں جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ رسائل سے متعلق اس کام کو مکمل کرکے طلب گار اہلِ تحقیق تک پہنچانے میں ان کی لگن اور تڑپ قابل دید ہے۔ اشاریہ سازی ایک خاصا مشکل اور دقت طلب کام ہی، لیکن انہوں نے بہت زیادہ محنت کرکے برصغیر کے اہم اشاریے تیار کرکے شائع کرائے ہیں۔ ان کے مرتب کردہ کئی اشاریے دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس سے ان کی لگن اور محنت کا بخوبی اندازہ ہوا ہے۔ بلاشبہ اس سے قبل مختلف افراد کے طبع شدہ و بطور مقالہ مرتب کردہ بہت سے اشاریے چیک بھی کیے ہیں لیکن جو اسلوب، طریقہ کار اور آسانی سے استفادہ کی سہولت ان کے مرتب کردہ اشاریوں میں ہے وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ ان کے اشاریوں سے متعلقہ موضوع تک پہنچنا نہایت آسان ہی، جو کہ صرف ان اشاریوں کا ہی خاصہ ہے۔ بطور مثال ان کا مرتب کردہ ماہنامہ الحق کا اشاریہ جو کہ 45 سال پر محیط ہی، اس کے موضوعات کی تعداد 400 سے زائد ہی، جس سے محققین کو اپنے مطلوبہ موضوع کے بارے میںکوئی چیز تلاش کرنے میں بہت زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ مزید برآں انہوں نے استفادے کے دائرے کو وسیع تر کرنے کی غرض سے کئی ایسے طریقے وضع کیے ہیں جن سے کسی رسالے کے مندرجات اور کسی مصنف کی نگارشات و تخلیقات سے استفادہ بہت آسان ہوجاتا ہے۔“ ششماہی علوم القرآن کے اشاریے کی فہرست ِموضوعات درج ذیل ہی: حفاظت و کتابتِ قرآن، اعجازِ قرآن و نظم قرآن، تراجم قرآن [مقالات]، تراجم قرآن [اطلاعات/ خبریں]، تفسیر قرآن: اصول و ارتقائ، تفاسیرِ قرآن: تعارف/تنقید /تاریخ، تفسیر تدبرِ قرآن، تفسیر تفہیم القرآن، فہم قرآن، لغات القرآن، تجوید و قرا ¿ت، ایمانیات، قصص القرآن، سائنس و فلسفہ اور قرآن، دیگر سماوی کتب، انسائیکلو پیڈیاز، قدیم ونایاب نسخے اور مخطوطات، قانون و قضا، تعلیم و تربیت اور معاشرتی نظام، معاشیات، عصر حاضر کے مسائل اور قرآن، مغرب اور قرآن، تذکری، سوانح و خدماتِ قرآن، مولانا حمید الدین فراہی، مولانا امین احسن اصلاحی، اشاریے / کتابیات/ فہارس، قرآنیاتی علمی مجلات، ادارہ علوم القرآن و مجلہ علوم القرآن، شاہ فہد قرآن کمپلیکس، ادارے [متفرق]، سیمینار/ کانفرنسیں/ رپورتاژ، متفرقات، متفرق خبریں، مصنف وار اشاریہ۔ اسی طرح ماہنامہ ’القاسم‘ کے چودہ سال میں شائع ہونے والے چھ سو مصنّفین کے دو ہزار سے زائد مقالات و نگارشات اور ایک ہزار کے قریب کتابوں پر تبصروں کا ایک سو موضوعات پر محیط اشاریہ ہی، جن میں قرآن و علوم قرآن، حدیث و علوم حدیث، ایمان و عقائد، فقہ و اجتہاد، عبادات، تعلیم و تعلم اور مدارس، شعر و ادب، اسلام اور سیاست، اسلام اور اقتصادیات، اسلام کا نظام عدل، طب و سائنس، اسلام اور مغرب، عالم اسلام اور عالم مغرب، تقابل فِرق و ادیان، سِیَر و سوانح تاریخ، ادارے / جماعتیں، صحافت اور رسائل و جرائد، متفرقات وغیرہ کے موضوعات شامل ہیں۔ مولانا عبدالقیوم حقانی کی نگرانی میں ماہنامہ” القاسم“ پابندی سے ہر ماہ شائع ہوتا ہے۔ ”الحق“ ماہوار رسالہ ہے اور موجودہ خیبر پختون خوا سے شائع ہونے والے دینی اور علمی رسائل میں سرفہرست ہی، بلکہ پاکستان میں چھپنے والے مجلات میں اہم مقام کا حامل ہے۔ ماہنامہ الحق کے 45 سال میں شائع ہونے والے 488 شماروں کے 33564 صفحات میں 1500 مصنفین کے 9000 مقالات و نگارشات اور 1000 کے قریب کتابوں پر تبصرے کا 325 موضوعات پر مشتمل اشاریہ وجود میں آگیا ہے جو بڑی خوشی کی بات ہے۔ ان اشاریوں میں بعض جگہ اغلاط رہ گئی ہے۔ امید ہے دوسری اشاعت میں درست کر دی جائیں گی۔ ان کتابوں پر نظرثانی جناب سمیع الرحمن صاحب نے کی ہے۔
http://www.jasarat.com/unicode/detail.php?category=15&newsid=64879

Sunday 18 March 2012

مولانا وحید الدین خان کا امام مہدی علیہ السلام ہونے کے دعویٰ سےا نکار


نام کتاب : مولانا وحید الدین خان اور دعوائے مسیحیت و مہدیت
مصنف : غلام نبی کشافی ، صفحات:64، قیمت :30روپے ،سال اشاعت :2011
ناشر: نعمانی اکیڈمی 31/114نظیر آباد لکھنؤ
مبصرین : ذیشان احمد مصباحی
اسلام ہر شے میں اعتدال کا نام ہے۔ اس لئے اسے دین وسط اور دین فطرت کہا گیا ہے۔ گمراہی اسی اعتدال سے انحراف کا نام ہے۔ خواہ وہ انحراف تقصیر اور کمی کے ذریعے ہو خواہ مبالغے اور اضافے کے ذریعہ اس لئے سورۃ الفاتحہ میں صراط مستقیم کے لئے دعا کی گئی ہے اور مغضوبین اور ضالین کی راہ سے پناہ مانگی گئی ہے۔
بیسوی صدی میں برپا ہونے والی مولانا ابو الاعلی مودودی کی علمی وفکری تحریک جماعت اسلامی، اسلامی نظام/حکومت الہٰیہ کے قیام کے ایجنڈا کے تحت قائم ہوئی۔ اس کی فکر ی غذا کے لئے مودودی صاحب اور ان کے احباب نے لٹریچر کا انبار لگادیا ۔ اس لٹریچر میں بھی یہ  اصول اپنا یا گیا تھا کہ جو بات کہی جائے ٹھونک بجاکے غیر جانبداریت کے ساتھ کہی جائے۔ صرف تنقید ی فکری کے تحت نہ کہی جائے۔ یہ بات اچھی تھی اگر اعتدال پر قائم رہتی لیکن اس کے برعکس ہر بات کو صحیح فریم میں دیکھنے سے زیادہ جماعتی ارباب قلم کے اندر ایک دوسرا شوق پروان چڑھنے لگا اور وہ تھا ائمہ اعلام سے لے کر اصحاب رسول تک کے قدناپنے کا شوق ۔بجائے اس کے کہ اسلام کو اصحاب ،تابعین اور تبع تابعین کے توارث سے سمجھنے کی کوشش ہوتی اپنی مخصوص فکر کے تحت اصحاب ،تابعین اور تبع تابعین کا احتساب شروع ہوگیا۔ اس طریق فکر نے درجنوں انحرافات جنم دیے جن میں ایک نمایاں انحراف یہ تھا کی جماعت اسلامی کا پورا دماغ حکومت الہٰیہ کی تشکیل پر صرف ہونے لگا اور اس کے لئے حرب وضرب کے مسائل پرغور کیا جانے لگا اور اسلام کے دوسرے احکام خصوصاً اسلام کے تعبدی پہلو (خالق اور بندے کے درمیان رشتہ عبودیت) کو ثانوی درجہ دیا جانے لگا۔
مولانا وحید الدین خان صاحب جو جماعت اسلامی کے ابتدائی دور میں تقریباً پندرہ سالوں تک اس کے سرگرم رکن رہے ،انہیں اس بات کا احساس ہوا اور انہوں نے جماعت اسلامی کے اس انحراف فکری کے حوالے سے اس کے ارباب حل و عقد سے مراجعت و مراسلت کی اور جب کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا تو آخر میں انہوں نے اپنا علمی اختلاف تعبیر کی غلطی کی شکل میں پیش کردیا۔ پھر اس کے بعد غیر شعوری طور پر جماعت اسلامی کا تعاقب ،اعتدال کی دعوت اور مثبت طریق فکر وعمل کی تحریک مولانا کی فکر وقلم پر گویا سوار ہوگئی ۔ اگر یہ بات یہیں تک محدود رہتی توکیا اچھا ہوتا، مولانا کو جو قدرت کی طرف سے زرخیز دماغ اورغیر معمولی قوت تجزیہ عطا ہوئی تھی، اس سے وہ ملت اسلامیہ کی فکری تشکیل جدید کا بڑا کام کرسکتے تھے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔مثبت مثبت کی رٹ لگاتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ نفسیاتی طور پر منفی ذہنیت مولانا پر مسلط ہوگئی۔ اب انہیں اپنے علاوہ پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی کوئی قابل قدر  شخصیت یا تحریک نظر نہیں آتی۔ مثبت  مثبت کی رٹ کے ساتھ تاریخ اسلام، شخصیات اسلام اور ماضی اور حال کے مسلمانوں میں کیڑے نکالنا مولانا کا محبوب مشغلہ بن گیا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ شروع شروع مولانا کی مثبت فکر کی دعوت نے بہتوں کو متاثر کیا اور پھر رفتہ رفتہ ہر شخص ان سے بیزر ہوتا چلا گیا۔ مولانا کی شناخت مصلح امت کی بجائے مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کے وکیل کی بن گئی ۔2007کے الرسالہ میں انہوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑ ا اور موجودہ دنیا کے لئے محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ماڈل سے زیادہ مسیحی ماڈل کو قابل انطباق بتایا۔ یہ بات بھی جماعت اسلامی سے فکری اختلاف کی آخری متشدد انہ شکل تھی۔ کیو نکہ جماعت اسلامی کے لٹریچر میں جہاد پر زور دیا گیا تھا۔ خان صاحب کو جہاد کی تاویل اور تشریح جدید کرتے کرتے جب جی نہیں بھرا تو آخر کار عصر حاضر کے لئے محمدی طریق دعوت کو ہی ناقص اور ناقابل انطباق ٹھہرادیا جس میں دیگر تعلیمات کے ساتھ واضح طور پر جہاد کے احکام بھی شامل ہیں۔
مولانا کا یہ فکری سفر 2010میں اپنے آخری پڑاؤ پر پہنچ گیا ۔ مولانا کا الرسالہ مئی 2010،قیامت کا الارم بن کر سامنے آیا جس میں آثار قیامت پر گفتگو کرتے ہوئے اشاروں کی زبان میں خود کو مسیح و مہدی بتاتے ہوئے مولانا نے جو کچھ کہا وہ ہی ساتھ ہی اس کے اگلے شمارے یعنی جون 2010میں یہ بھی فرمادیا کہ حدیث میں بیان کردہ علامتیں بتاتی ہیں کہ قیامت اب بہت قریب ہے اس اعتبار سے غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ دجال او رمہدی اور مسیح کا ظہور ہوچکا ہے ۔ (الرسالہ جون 2010،ص:5)
جس مسیح او رمہدی کا ظہور ہوچکا ہے اس کے اوصاف یہ ہیں:
ایسی حالت میں مہدی یا مسیح کا پہلا کام یہ ہوگا کہ اسلام کی ایک غیر اسکری آئیڈ یا لوجی دریافت کریں گے۔ (الرسالہ اگست 2010)،
دجال کے مقابلے میں جو واقعہ پیش آئے گا وہ یہ ہے کہ مسیح اس کے دجل کا علمی تجزیہ کر کے اس کو ایکسپوز(Expose )کردیں گے۔ ،(الرسالہ ،مئی 2010،ص ،53)
مہدی اپنے احوال کے برعکس استشنائی طور پر ایک ہدایت یاب انسان ہوگا.....مہدی نہ خود اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا او رنہ آسمان سے یہ آواز آئے گی کہ فلاں شخص مہدی ہے ، اس کو مانو اور اس کی اتباع کرو۔ (الرسالہ ،مئی 2010،ص:36)
مہدی کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کے یو اظی اسمہ اسمی یعنی اس کا نام میری نام کےموافق ہوگا۔ یہاں نام سے مراد صفت  ہے۔ (ص:38)
مہدی کا کام سیاسی انقلاب کے ہم معنی نہیں ہوگا بلکہ وہ افراد کے اندر ہی ذہنی سطح پر انقلاب پیدا کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ (ص:39)،
حدیثوں کے مطالعہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجال یا دجالیت دراصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہوگا کہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے، وہ یہ تاثر دیں گے کہ حق علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعہ اس دجالی فتنے کا خاتمہ کردے گا۔ (ص:18)۔
مہدی اور مسیح موعو د دونوں ایک ہی شخصیت کے علامتی طور پر الگ الگ نام ہیں۔ (ص:41) کاغذ کے ان ٹکڑوں کو کوئی بھی جوڑ کر دیکھ لے مولانا وحید الدین خان صاحب کی تصویر بالکل واضح طور پر دکھائی دے گی۔ مولانا نے واضح لفظوں میں کہیں نہیں لکھا کہ میں مہدی اور مسیح ہوں لیکن اس کے ساتھ واضح لفظوں میں یہ ضرور لکھ دیا کہ مسیح اور مہدی خود دعوی نہیں کریں گے باقی جو کچھ کہا اس میں اشاروں کی زبان میں سب کچھ کہہ دیا اور وہ بات ہوگئی جس کا شاعر کو خدشہ تھا:
بے زبانی زباں نہ ہوجائے             راز الفت عیاں نہ ہوجائے
زیر تبصرہ کتاب، مولانا وحید الدین خان اور دعوائے مسیحیت و مہدیت ،جناب غلام نبی کشافی نے مولانا کے اسی قیامت کا الارم ،کے جواب میں لکھی ہے۔ کشافی صاحب نے بہت محنت ،جان فشانی ،توازن ، حقیقت پسندی اور غیر جانب دارانہ تجزیے کے ساتھ لکھا ہے۔ یہ کتاب اور اس کے ساتھ مدیر اعلیٰ جام نور کے نام کشافی صاحب کا خط جب موصول ہوا تو دیر تک ہم سوچتے رہے کہ کیا یہ اسی قلم کی سیاہی ہے جو پچھلے دس سالوں سے مولانا کے دفاع میں شعلے اگل رہا تھا اور اسے عرب وعجم میں مولانا کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا تھا ۔ اور تو اور مولانا وحید الدین خان صاحب کے بارے میں گزشتہ سالوں میں جب کبھی جام نور نے بھی کچھ لکھا کشافی صاحب نے آستین چڑھالی اور دفاعی مورچہ سنبھال لیا۔ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ خان صاحب کا اتنا بڑا دفاعی ان کا مخالف کیوں کر ہوسکتا ہے۔
کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ کشافی صاحب طبعا حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ وہ خان صاحب کی موافقت اور دفاع میں بھی اپنے طور پرمخلص تھے اور مخالفت میں بھی مخلص تھے۔ لکھتے ہیں:ان کی ہر تحریر کے احسن پہلو کی تلاش میں اتباع کا جزبہ لئے ان کے الرسالہ مشن کے ساتھ جڑ گیا اور یہاں سری نگر میں سیکڑوں افراد کو الرسالہ کا مستقل قاری اور مولانا کے فکر و نظر کا حامی بنادیا ۔ اس سلسلے میں پچھلی دودہائیوں سے کام کرتا آیا ہوں، اور اس طویل عرصہ کے دوران میں نے مولانا سے بہت سے معاملات ومسائل میں اختلاف بھی کیا اور درجنوں لمبی تحریریں بھی لکھی ہیں اور اپنے اختلاف کو قرآن اور حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں ان کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔ مگر افسوس کہ عام طور پر میں نے ان کو جواب دینے کے معاملے میں قاصر ناکام اور راہ فرار اختیار کرتےہوئے پایا۔ اور میں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے جزبے کے تئیں ان سے اپنے اختلاف کو نظر انداز کرتا رہا۔ اور ان کا برابر ساتھ دیتا رہا۔ لیکن پچھلے چند برسوں کے دوران ان کی نئی کاوشیں اور نئے نظریات ،مسیحی ماڈل، اسوۂ حسنہ کی صورت میں سامنے آنے لگے تو شروع شروع میں  میں نے قلم اٹھا کر ان کے نت نئے نظریات کو حق ثابت کرنے کےلئے انہیں روش پر چل کر نہ صرف آمنا وصدقنا کہا بلکہ تاویل وتعبیر کا سہارا اور نئے دلائل کو تلاش کر کے ان کے حق میں چند تائیدی تحریریں بھی لکھ ڈالیں۔ اور میرے اس کام کو بڑی حوصلہ افزائی ملی اور الرسالہ کے خبر نامہ کے تحت میرا بھی ذکر آنے لگا۔ مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ یاتو میں استعمال ہورہا تھا یا پھر میں غیر محسوس طریقے سے گمراہی کی طرف سے برھنے لگا۔ لیکن جب پہلی بار محسوس ہونے لگا کے مولانا اب فائنل طور پر خودہی مہدی ماڈل اور مسیحی ماڈل کے روپ میں جلوہ افروز ہونے کی تیاری کررہے ہیں ۔ تو مجھے سخت بے اطمینانی وبے چینی ہونے لگی اور مجھے اب تک کے مولانا کی حمایت و تائید کرنے کے معاملے میں شرمندگی کا احساس ہونے لگا ۔ اس طرح پھر میں نے مولانا کے تمام نظریات کے حوالے سے نئے سرے سے سوچنا اور غور کرنا شروع کیا تو اس سلسلہ میں الرسالہ مئی 2010کا شمارہ مولانا کے مغالطہ انگیز نظریات سے باہر آنے کےلئے بنیاد بنا۔
الرسالہ مئی 2010کا مسودہ اشاعت سے قبل مختلف اہل نظر کو ارسال کیا گیا تھا جن میں ایک خوش نصیب کشافی صاحب بھی تھے۔ کشافی صاحب نے مولانا کے معتمد مولانا ذکو ان ندوی کو فون کر کے اپنا اختلاف اور احتجاج درج کرایا اور اس کی اشاعت کو روکنے کا مشورہ دیا لیکن اس کے باوجود وہ مسودہ مئی کے شمارے کے طور پر منظر عام پرآگیا تو کشافی صاحب نے اپنا دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے اس کا تنقیدی تجزیہ تاویل سے تکبیس تک کے عنوان سے لکھ کر مولانا کے پتے پر روانہ کردیا پھر مزید اضافے کے بعد نعمامی اکیڈمی لکھنؤ نے اسے کتابی شکل میں شائع کیا جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔
زیر تبصرہ کتاب 64صفحات پر مشتمل ہے جس میں اصلی گفتگو 50صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ کشافی صاحب نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ خاں صاحب کے زعم مہدیت و مسیحیت کا تجزیہ کیا ہے ۔ الفاظ و تعبیرات اور طرز تحریر ایک حد تک خود مولانا کے نام کیا گیا ہے اس اعتراف کے ساتھ کہ میں نے معاصر علما میں سب سے زیادہ استفادہ انہی کی تحریروں سے کیا،
کشافی صاحب نے دعوائے مہدیت کا تجزیہ نسبتاً زیادہ مفصل انداز میں کیا ہے۔ دعوائے مہدیت کے ذیل میں پہلا عنوان  ،غلط فہمی یا کچھ اور کے تحت لکھا ہے کہ روایات میں جس مہدی اور مسیح کاذکر آیا ہےوہ دونوں ایک ہیں اور وہ کوئی اور نہیں ،وہ خود ہیں، مولانا اپنے بارے میں اس قدر شدید غلط فہمی کا شکار ہوجائیں گے مجھے آج تک کبھی اس کی امید نہیں تھی او رنہ میرے حاشیہ خیال میں اس طرح کا کوئی تصور تھا۔ (ص:14)
اس کتاب میں مثالوں کے ذریعہ یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ مولانا زیر بحث مسئلے میں دور ازکار تاویل کرتے ہوئے تلبیس کی حدیں کر اس کردیتے ہیں اور نقل روایت میں عموماً حدیث کا وہ ٹکڑا نقل کرتے ہیں جس سے ان کا مقصد پورا ہوتا ہے اور دوسرے حصے کو جس سے ان کی خیالی عمارت زمین بوس ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اس کو کلیۃ نظر انداز کردیتے ہیں ،مثال کے طور پر خاں صاحب نے ابن ماجہ کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ،دجال جب مسیح کو دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا  ہے اور وہاں سے بھاگنا شروع کردےگا ،مسیح کہیں گے کہ میرے پاس تیرے لئے ایک ایسی ضرب ہے جس سے بچنا ہر گز تیرے لئے ممکن نہیں۔
خان صاحب نے اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث تمثیل کی زبان میں ہے اور دجال کو قتل کرنے کا مطلب اس کے دجل  کا علمی تجزیہ کرکے اس کو ایکسپوز کرنا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ تاویل بہت بعید ہے اور ایسی تاویل شریعت اسلامی کو بازیچہ اطفال بنادینے کے لئے کافی ہے مگر اس سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حدیث کا وہ ٹکڑا جو ہر گز اس تاویل کا متحمل نہیں خاں صاحب نے اسے حزف کردیا کیو نکہ اس حدیث میں کہا گیا ہےکہ دجال کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لدشہرکے مشرقی دروازے پر قتل کریں گے ، خاں صاحب نے اس کو حزف کردیا کیو نکہ شاید ان کے لئے اس واقعے کی تاویل ،علمی تجزیہ ، سے ممکن نہیں تھی۔
اس طرح ابوداؤد کی ایک حدیث جس میں کہا گیا ہے کہ نہر کے اس پار ایک شخص نکلے گا جس کانام حارث بن حراث ہوگا، اس کے آگے ایک شخص ہوگا جس کا نام منصور ہوگا ، وہ آل محمد کو غالب کرے گا جس کہ قریش نےرسول اللہ کو غالب کیاتھا اس کی مدد کرنا یا فرمایا اس کا حکم ماننا سب پر واجب ہے۔ خان صاحب نے اس حدیث کا صرف آخری فقرہ نقل کیا اور اسے مہدی پر چسپا کردیا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ مہدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نام ہوگا۔ خان صاحب نے اس کی تاویل کرکے فرمایا کہ نام سے مراد نام نہیں صفت ہے اور اس معنی کی تائید میں ایک دوسری حدیث کو پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی رسول اللہ کے اخلاس میں مشابہ ہوں گے اور صورت میں نہیں۔ خاں صاحب نے مذکورہ دونوں حدیثوں کو ناقص نقل کر کے اپنا مطلب کھینچ نکالا ہے ،کیو نکہ پہلی حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آل رسول ہوگا۔ خاں صاحب چونکہ آل رسول نہیں ہیں اب یہ ٹکڑا ان کے آڑے آرہا تھا اس لئے انہوں نے اس کو نقل نہیں کیا۔ اسی طرح دوسری حدیث میں جس سے انہوں نے ہم نامی کی تاویل فرمائی یہ بات بھی مذکور ہے کہ وہ شخص حضرت حسن کی صلب سے ہوگا۔ اس حصے کو بھی خان صاحب نے حزف کردیا کیونکہ اسے نقل کرنا ان کے مشن کے خلاف تھا۔
اسی طرح آثار قیامت کے  حوالے سے قرآن میں دابۃ الارض کا ذکر ہے کہ ایک جانور آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور وہ انسانوں سے باتیں کر کے حق کا اعلان کرے گا۔ خان صاحب نے دابۃ الارض کی تاویل کرتے ہوئے مئی 2010کے شمارے میں اس مر اد دور آخر کا داعی لیا ہے، جو دلیل کی زبان میں لوگوں سے ہم کلام ہوگا۔ اس تاویل بعید کے ضعف شدید سے قطع نظریہ بات مضحکہ خیز ہے کہ الرسالہ جون 2007کےشمارے میں دابۃ الارض سے مراد موجود ہ زمانے کا ملٹی میڈیا قرار دیا ہے اور اس سے پہلے اپنی تفسیر تزکیر القرآن میں دابۃ الارض سے مراد جانور ہی لیا ہے جور اس پر یہ نوٹ بھی لگایا ہے کہ انسانی داعیوں کی زبان سے جو بات لوگوں نے نہیں مانی اس کا اعلان ایک غیر انسانی مخلوق کے ذریعہ کرایا جائے گا۔ شاید انہی حالات کے لئے شاعر نے کہا ہے:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جناب غلام نبی کشافی ملت کا ترجمان ماہنامہ جام نور کی طرف سے بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے قابل مبارک باد ہیں  کہ انہوں نے ایسے شخص کے خلاف حق کی حمایت میں قلم اٹھایا ہے جس سے ا نہیں ہمدردی بھی ہے او رمحبت بھی ، صرف دین کے جزبے نے اظہار حق کی جرائت بخشی ہے وہ عنداللہ اور عند الناس جزاواحسان کے مستحق ہیں۔ کتاب کی چند باتیں نقل ہوئیں، پوری کتاب قابل مطالعہ و استفادہ ہے، مہدیت مسیحیت کے تعلق سے خاں صاحب کے افکار کو سمجھنے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری کیا جانا چاہئے۔ اس طرح مختلف مسائل میں ان اختلاف رائے رکھتے ہوئے بعض مسائل میں ان کا مداح اور قدردان بھی ہے۔ مسلم گھروں میں ایسی فکر رسالہ اور قلم سیال کے مالک کم پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حق ہے کہ وہ امت کی علمی وفکری قیادت کریں اگر وہ دین کی راہ مستقیم پر قائم ہوں۔ لیکن اس کے برعکس ایسے افراد جو امت کی قیادت ورہنمائی کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر اس صلاحیت کو امت کو توڑ نے اور عقائد ونظریات میں فساد برپا کرنے کےلئے صرف کریں تو یہ کتنے افسوس کی بات ہوگی۔
میں اپنی علمی اور فکری کوتاہی کے تمام تر اعترافات کے ساتھ الدین النصح لکل مسلم کے جزبے کے تحت مولانا وحید الدین خاں صاحب سے گزارش کروں گا کی وہ بہت سے مسائل جن میں انہیں تفرد حاصل ہے، ہمارے ناقص خیال میں دو مسئلے بہت ہی نازک اور بنیادی ہیں، جن کا تعلق ایک طرف دین اور تحریف ،امت میں انتشار اور دنیا میں رسوائی ہے تو دوسری طرف خسران عاقبت سے ۔پہلا مسئلہ اسوۂ محمدی کو اسوۂ ناقص ثابت کرنے کا ہے اور دوسرا مہدیت ومسیحیت کی تاویل وادعا کا مسئلہ جس طریق محمدی کے مکمل ہونے کا خالق کائنات نے اکملت لکم دینکم فرما کرمنصوص فرمادیا اسے لفظ حسنہ کے ذریعہ ناقص ثابت کرنا بے ایمانی کی حد تک علمی خیانت ہے۔ اس طرح مولانا نے اپنی زندگی میں جو علمی کام کئے ہیں اس کو مزید آگے بڑھا نے کی بجائے اپنےمہدی ومسیح ہونے کا خواب دیکھنا دنیا میں اس علمی کام کو بے قدر بنانا ہے اور آخرت کا معاملہ تو دنیا سےبھی سخت ہوگا۔ میں کبھی بھی اس خیال کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ مولانا میرے مشورے پر ان دومسائل پر نظر ثانی فرمائیں گے لیکن میں اللہ ورسول کا واسطہ دیکر ان سے اس کی گزارش ضرور کرتا ہوں ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو امت ایک بڑے فتنے سے محفوظ رہ جائے گی اور ان کا جو واقعی کام ہے اس کی قدر وقیمت بھی قائم رہے گی۔ربنا لا تزع قلو بنا بعد از ہدیتنا وہب لنا من الدنکار حمۃ انکا انت الوہاب(آمین)
بشکریہ: جام نور ماہنامہ، دہلی
URL for this article:

Wednesday 14 March 2012

برطانیہ میں جعلی علماء تیار کیے جاتے ہیں


مسلمانوں کو بہت سے مسائل کے ساتھ جس ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ ہے باہمی اتحاد کی کمی،ایک خدا،ایک رسول  ،ایک کتاب،ایک امت لیکن پھر بھی امت اتنی پارہ پارہ کیوں ہے ۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے ساتھ اسلام کے دشمنوں کی بھی محنت شامل ہے زیرِ نظر مضمون ایک ایسی ہی حقیقت ہے کہ کیوں ابھی تک ہم ایک چاند پر بھی متفق نہیں ہو پارہے۔یہ مضمون جولائی 2010 ءاُردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا۔


”نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940 ءکی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے۔انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔نواب چھتاری اپنی یاداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا ۔ان کے ایک پکے انگریز دوست نے جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا ،نواب صاحب سے کہا ”آئیے ! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کراوں جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔“نواب صاحب خوش ہوگئے ۔انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔دو روز بعدکلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا ”ہم کل صبح چلیں گے“ لیکن میری موٹر میں‘موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں۔
اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا ۔جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا ۔سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا نہ کوئی پیدل مسافر نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراُدھر دیکھ رہے تھے موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا ۔پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی،اس کے چاروں طرف کانٹے دور جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی جسے عبور کرنا ناممکن تھا،عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔
اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے اس میں سوار ہو جائیں،نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا،وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا :”بس منزل آنے والی ہے۔“آخر دورایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا ”یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جا سکتے ہیں “راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا ”یاد رکھیں ‘کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں ۔“
عمارت کے شروع میں دالان تھا اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے ۔پہلے نے عربی لہجے میں ”السلام علیکم“ کہا۔دوسرے نے ”وعلیکم السلام !کیا حال ہے ؟“نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھاہے عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔طلباءعربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے ۔نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے ،کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا ۔ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی ۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے ۔مثلاً وضو،روزے،نماز اور سجدہ سہو کے مسائل ،وراثت اور رضاعت کے جھگڑے ،لباس اور ڈاڑھی کی وضع قطع،چاند کانظر آنا،غسل خانے کے آداب ،حج کے مناسک،بکرا ،دنبہ کیساہو،چھری کیسی ہو ،دنبہ حلال ہے یا حرام،حج بدل اور قضاءنمازوں کی بحث،عید کا دن کیسے طے کیاجائے اورحج کا کیسے؟پتلون پہنناجائزہے یا ناجائز ؟عورت کی پاکی کے جھگڑے ،امام کے پیچھے سورة الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں ؟تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟وغیرہ ۔ایک استاد نے سوال کیا،پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شستہ اردو میں!”جماعت اب یہ بتائے کہ جادو ،نظربد،تعویذ ،گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں ؟“پینتیس چالیس کی جماعت بہ یک آواز پہلے انگریزی میں بولیTRUE,TRUE پھر عربی میں یہی جواب دیا اور اردو میں!

ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر سوال کیا ”الاستاد ،قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔“استاد بولے ”قرآن کی بات مت کرو،روایات اور ورد میں مسلمان کا ایمان پکا کرو۔ستاروں ،ہاتھ کی لکیروں ،مقدراور نصیب میں انہیں اُلجھاو۔“
یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا ”اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھا ہے؟“انگریز نے کہا ”ارے بھئی ،ان سب میں کوئی مسلمان نہیں یہ سب عیسائی ہیں تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوںخصوصاًمشرق وسطی،ترکی،ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں ۔انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں ،یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں،وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے ،صرف کھانا،سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔وہ موذن،پیش امام ،بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طورپراپنی خدمات پیش کرتے ہیں ،تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقررہوجاتے ہیں۔جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔“

نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ عظیم مدرسے کے بنیادی اہداف یہ ہیں:

(۱) مسلمانوں کو وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔

(۲) حضوراکرم صلى الله عليه وسلم کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے ،گھٹایا جائے۔اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اس طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا اسکی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی 
عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔