visitors

free counters

Friday 16 September 2011

احکام شریعت کے مقاصد

اصولِ فقہ کے ذیل مباحث میں ایک عنوان "احکامِ شریعت کے مقاصد اور اس کے مدارج" کا بھی آتا ہے، موضوع کی اہمیت اور طبعی ترتیب کا تقاضا تھا کہ اس کوتمام اصولی موضوعات ومباحث کی تمہید قرار دیاجاتا، یاکم ازکم اصولِ اربعہ، کتاب، سنت، اجماع اور قیاس میں سے اصل رابع، یعنی قیاس کے مباحث کی ابتداء اس سے ہوتی؛ تاکہ وہ مقاصد ومصالح جوشرعی احکام میں ملحوظ رکھے گئے ہیں ان پرروشنی پہلے پڑتی اور متعلقہ مسائل کوسمجھنے میں اس سے مدد ملتی؛ لیکن اصولِ فقہ کے ماہرین اس موضوع کوایک ذیلی وضمنی بحث کے طور پرغالباً اس لیے ذکر کرتے ہیں کہ نصوص میں ان مقاصد کا ذکر یک جاطور پراور صراحت کے ساتھ کہیں نہیں ملتا؛ حالانکہ ان کا معتبر ہونا اور احکامِ شریعت کا ان کے گرد دائر ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیاجاسکتا اور یہ بات نصوص یعنی قرآنی آیات واحادیث کے استقراء اور تتبع سے ثابت ہے۔

نامور اصولی عالم علامہ شاطبیؒ نے اپنی کتاب "الموافقات" میں جواصولِ فقہ اور اسرارِ شریعت کی جامع کتاب ہے، اس موصوع پربہت زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالی ہے؛ انہوں نے خود ہی یہ سوال قائم کیا ہے کہ جب یہ حقیقت ہے کہ احکامِ شریعت میں مقاصد ومصالح کا لحاظ رکھا گیا ہے اور تمام احکام ضروری، حاجی اور تحسینی مصالح کے گرد دائر ہیں توپھر اس کا ثبوت توقطعی دلیل سے ہونا چاہئے؛ کیونکہ یہ مقاصد توشریعت کی روح اور بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے، انہوں نے لکھا ہے کہ دراصل شرعی احکام پرتفصیلی نظر ڈالنے سے ان مقاصد کے ملحوظ ہونے کا یقین اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح کہ لوگوں کوحاتم کی سخاوت کا یقین ہے، شرعی نصوص کے عموم وخصوص، مطلق ومقید اور دوسرے قرائن سب اس کی تائید کرتے ہیں کہ شریعت میں ان مقاصد کی رعایت رکھی گئی ہے اور تمام ترشرعی احکام کی بنیاد انہیں مقاصد اور کلیات واصول پرہے اور یہ علم استقرائی ہونے کے باوجود اسی طرح کا یقینی ہے، جس طرح کہ قدرِ مشترک کے تواتر سے یقینی علم حاصل ہوا کرتا ہے؛ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس کے ثبوت میں ایک نہیں بہت سے دلائل ہیں اور ان مقاصد کی واقعیت ہرشک وشبہہ سے بالاتر ہے۔      

(تفصیلی جواب کے لیے دیکھئے، الموافقات:۲/۳۴۔۳۶)

انسان کواللہ تعالیٰ نے عقل کی دولت سے نوازا ہے اور اس کا یہ امتیاز ہی اس کی تکلیف کا مدار اور شرعی احکام کا مخاطب ومکلف ہونے کی بنیاد ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ باری تعالیٰ حکیم ہے اور حکیم کا کوئی فعل حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہوتا اور وہ رؤف ورحیم بھی ہے، اس لیے اس کے ہرفرمان میں انسان کی سعادت اور اس کی بھلائی بھی ملحوظ رکھی گئی ہے، شریعت کے عمومی نصوص شے اس کی نشاندہی ہوتی ہے، حضوراکرم  کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:

"وَمَاأَرْسَلْنَاكَ إِلَّارَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ"۔          

(الأنبیاء:۱۰۷)

ترجمہ:ہم نے آپ  کوساری کائنات کے لیے رحمت ہی بناکر بھیجا ہے۔

عام دینی احکام کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:

"مَايُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ"۔

(المائدۃ:۶)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ دین میں تم پرتنگی پیدا کرے؛ لیکن وہ چاہتا ہے کہ تم کوپاک کرے اور تم پراپنی نعمتوں کومکمل کردے۔

نماز کے بارے میں کہا گیا ہےکہ:

"إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ"۔

(العنکبوت:۴۵)

ترجمہ:بے شک نماز بے حیائی کی باتوں اور منکرات سے روکتی ہے۔

روزہ کی فرضیت کے مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہےکہ:

"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ"۔

     (البقرۃ:۱۸۳)

ترجمہ:تم پرروزہاسی طرح فرض کیا گیا ہے؛ جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر؛ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔

قصاص کی مشروعیت کا ذکر کرتےہوئے فرمایا گیا ہے کہ:

"وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ"۔            

      (البقرۃ:۱۷۹)

ترجمہ:اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو!۔

یہ اور اس طرح کی سیکڑوں آیات اور احادیث ایسی ہیں جن میں واضح طور پران مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جوشرعی احکام میں ملحوظ رکھے گئے ہیں اور ان"مصالح" کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کا روبہ عمل لانا ان احکام کا مقصود ہے "مقاصد شریعت" کا جاننا ہرشخص کے لیے ضروری اور مفید ہے، شرعی حکم کے ساتھ اگراس کی مصلحت وحکمت بھی معلوم ہوتو آدمی کے یقین میں اضافہ اور ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور علم الیقین کے بعد حق الیقین کا درجہ حاصل ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عزالدینؒ، ابن عبدالسلامؒ، علامہ ابن القیمؒ، علامہ شاطبیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، حضرت مولانا محمدقاسم احمد نانوتویؒ سب نے اسرار شریعت کواپنا موضوع بنایا اور شرعی احکام کی لِمْ اورحکمت سے روشناس کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔

علماءِ مجتہدین کے لیے اصول وکلیات پرنظر اور شریعت کے مقاصد کوجاننا اور بھی ضروری ہے؛ تاکہ وہ نئے مسائل میں ان مقاصد سے رہنمائی حاصل کرسکیں اور ان نصوص میں جوبظاہرمتعارض نظر آتی ہوں، تطبیق دے سکیں اور کسی جزئیہ کا حکم تلاش کرنے میں شریعت کے عمومی مصالح اور مزاج ومقاصد کوفراموش کرکے غلطی کاارتکاب نہ کربیٹھیں؛ جہاں تک اس فرسودہ اشکال کا تعلق ہے کہ باری تعالیٰ کے افعال معلل بالاغراض ہیں یانہیں؟ اور ان مقاصد ومصالح پرزور دینے میں خدا کی ذات کی طرف نقص کا انتساب تولازم نہیں آئے گا؟ تویہ بحث اصولِ فقہ کی نہیں علمِ کلام کی ہے، امام رازیؒ نے گوکہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ باری تعالیٰ کے احکام بھی اسی طرح "معلل بالعلۃ" نہیں ہیں، جس طرح کہ اس کے افعال معلل بالاغراض نہیں ہیں؛ لیکن ان کی یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے اور جیسا کہ محقق ابن الہمام نے لکھا ہےکہ اکثر فقہائے متاخرین نے اس پراتفاق کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں بندوں کے مصالح کی رعات ملحوظ رکھی گئی ہے۔                 

(التحریر)

اشاعرہ اور ارباب ظواہر اگرچہ اس کے قائل ہیں کہ باری تعالیٰ ایسا حکم دے سکتا ہے جس کی کوئی مصلحت نہ ہو؛ لیکن وہ بھی اس بات پرزور دیتے ہیں کہ عملاً جواحکام دئے گئے ہیں، ان میں مصلحت پائی جاتی ہے، احناف اور شوافع میں سےجولوگ مصالح کوہی احکام کی علت قرار دیتے ہیں، وہ اس کی توجیہہ کرتے ہیں کہ علت سے مراد حکم کی علات ہے، ایسی علت نہیں ہے جوخدا کواس پرابھارنے والی ہو کہ وہ یہی حکم دے دوسرا نہ دے۔

جن حضرات نے مصالح کوہی علت قرار دیا ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حق میں رحیم ہے، وہ شروفساد کودور کرتا اور بندوں کی راحت کے لیے حرج اور تنگی کے اسباب کوختم کرتا ہے، اس لیے اس کا حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا، حاصل یہ ہے کہ جس طرح یہ بات زیبا نہیں ہے کہ خدا کے اوپر کوئی بات لازم وواجب کی جائے؛ اسی طرح یہ بات بھی نامناسب ہے کہ اس کے فعل کوبے مقصد اور عبث قرار دیا جائے؛ چنانچہ معتزلہ اور ارباب ظواہر دونوں ہی افراط وتفریط کا شکار ہیں اور صحیح نقطہ نظر وہی ہے جس کی تائید محقق ابن الہمام اور دوسرے فقہاء نے کی ہے، علامہ انورشاہ کشمیریؒ فرمایا کرتے تھے کہ باری تعالیٰ کے افعال کومعلل بالاغراض کے بجائے معلل بالغایات کہنا چاہئے:

(فیض الباری کے مقدمہ میں شاہ صاحبؒ کے نقطۂ نظر کی ترجمانی ان لفظوں میں کی گئی ہے:

"ذکرالشیخ ابن الھمام فی التحریر:ان الفقہاء والمحدثین اجمعوا علی ان افعالہ تعالیٰ معللۃ بالاغراض ولادخل فیہ للاستکمال فان کمالیتہ ھی التی استوجبت ان ترتب علی افعالہ تلک الاغراض فذاتہ تعالیٰ لاتخلو فی مرتبۃ من المراتب عن الکمال والصفات من فروع الذات کما یقول ابن الھمام وھو تعبیر بدیع والانسب عندی ان تترک لفظ الاغراض وان افعالہ تعالیٰ معللۃ بالغایات"۔                    

    (فیض الباری:۱/)

اور یہاں ہماری گفتگو کا محور تکوینی افعال نہیں؛ بلکہ تشریعی احکام ہیں؛ بہرِصورت لفظی نزاع خواہ جوبھی قائم کیا جائے؛ لیکن نصوص کی تعلیل ایک امرواقعہ ہے اور قیاس کے تمام ترمباحث اسی پرقائم ہیں؛ اسی لیے علماء متاخرین نے تعلیل الاحکام کے موضوع پرمستقل کتابیں لکھی ہیں، جن میں ڈاکٹرمحمدمصطفی شلبی کی کتاب "تعلیل الاحکام" قابل ذکر ہے؛ انہوں نے بھی ماتریدیہ کی رائے کواس بارے میں معتدل اور افراط وتفریط سے پاک قرار دیا ہے، وہ مصالح جن کوبروئے کارلانا شریعت میں ملحوظ رکھا گیاہے، یاوہ مقاصد جن کوشرعی احکام سے شارع نے پورا کرنا چاہا ہے، علمائے اصول نے استقراء اور تتبع کے بعد ان کی تین قسمیں کی ہیں.

یاان کے تین مدارج متعین کئے ہیں:

(۱)ضروری

(۲)حاجتی

(۳)تحسینی۔

(۱)ضروری مصالح

اس سے مراد وہ امور ہیں، جن پرانسان کی دینی اور دنیوی زندگی موقوف ہے اور جن میں خلل واقع ہونے سے نہ صرف انسان کی دنیوی زندگی فساد اور انتشار کا شکار ہوتی ہے؛ بلکہ آخرت کی زندگی بھی بگڑتی ہے اور ثواب وراحت کے بجائے آدمی عذاب ومصیبت کا مستحق بن جاتا ہے۔

ضروری مصالح کے ذیل میں پانچ چیزوں کی حفاظت شریعت کا مطمحِ نظر اور شرعی احکام کا مقصود ومدعا ہے اور انہیں پانچوں کلیات واصول کی حفاظت سے انسان کی دنیوی زندگی کی سلامتی بھی وابستہ ہے اور آخرت میں فوزوفلاح ار سعادات وکامرانی بھی اور وہ درجہ بدرجہ اس طرح ہیں:

(۱)دین کی حفاظت

(۲)جان کی حفاظت

(۳)عقل کی حفاظت

(۴)نسل کی حفاظت

(۵)مال کی حفاظت:

۱۔دین کی حفاظت:

اللہ تعالیٰ نے انسان کے صلاح وفلاح کے لیے دین نازل فرمایا اور انسان کی قوت نظری اور عملی دونوں کی تکمیل کے لیےصحیح عقیدہ اور عبادت کی تلقین کی اور یہ بات فرض کی کہ آدمی سچے دین سے وابستہ رہ اور دین کی حفاظتکی خاطر جہاد فرض کیا، غلط افکار وعیقہ کی ترویج کی ممانعت کی، ارتداد کی سزا متعین کی اور دینِ حق سے پھرجانے پرعقوبت رکھی ہے؛ گوکہ اصولی حیثیت سے فکروعقیدہ کی آزادی دی ہے؛ لیکن جب یہ آزادی دینِ حق کی راہ میں رکاوٹ بننے لگے توپھرفسادِ دین کے سدباب کا حکم دیا۔

۲۔جان کی حفاظت:

اس کرۂ ارض پراللہ تعالیٰ نے انسان کوپیدا کیا اور توالدوتناسل کے سلسلہ اور نسلِ انسانی کے وجود اور اس کی بقا اور استمرار کے لیے نکاح کومشروع رقرار دیا ہے، کھانا پانی اور لباس کی وہ مقدار جوجان کی حفاظت کے لیے ضروری ہو اس کے استعمال کوضروری قرار دیا، دوسری طرف انسانی جان کوپیش آنے والے خطرات سے باز رہنے کی تلقین کی ہے، خودکشی کوحرام کیا ہے قتل نفس کی سزا رکھی ہے اور قصاص، دیت اور کفارہ وغیرہ متعین کئے ہیں؛ تاکہ انسانی جان کی حفاظت کی جاسکے ۔

۳۔عقل کی حفاظت:

عقل اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جوانسان کوبہت سی دوسری مخلوقات پرامتیاز بخشتی ہے اور وہی اس کے احکامِ شریعت کے مکلف ہونے کی بنا بھی ہے، شریعت نے عقل کی حفاظت کی تلقین کی ہے اور اس میں بالید گی کے لیے علم کوضروری قرار دیا ہے اورہراس چیز سے روکا ہے جوانسان کی عقل کوکمزور کرے، یازائل کرکے جرم کا ارتکاب کرے، اس کی حد متعین کی اور اس کے لیے کوڑوں کی سزا طے کی ہے۔

۴۔نسل کی حفاظت:

نسل انسانی کی حفاظت کی خاطر ایک طرف نکاح کومشروع قرار دیا ہے تودوسری طرف نسب کے اختلاط سے بچانے اور عداوت ودشمنی سے روکنے کےلیے زنا کوحرام قرار دیا ہے؛ اسی طرح حدقذف متعین کی تاکہ معاشرہ میں بے حیائی کی باتیں نہ پھیلیں اور نسلِ انسانی شک وشبہہ کا شکار نہ ہو اور انسانی جان کی طرح اس کی نسل بھی محفوظ رہے۔

۵۔مال کی حفاظت:

مال بھی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، انسان کی زندگی کا قیام ونظام اسی سے وابستہ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف مال کمانے کی اجازت دی اور اس کے لیے جدوجہد اور سعی کا حکم دیا تودوسری طرف بیع وشراء اور اجارہ وعارت وغیرہ کومشروع قرار دیا؛ تاکہ مال کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا جاسکے۔

یہ پانچوں امور ان اصول وکلیات میں سے ہیں جودینِ حق کے بنیادی مقاصد قرار دئےگئے ہیں اور دنیا کی دوسری شریعتوں اور صالح قوانین میں بھی کسی نہ کسی حد تک ان امور کی رعات رکھی گئی ہے؛ لیکن جس جامعیت کے ساتھ اسلام نے ان امور کی حفاظت پرزور دیا ہے اور اس کے لیے قوانین وضع کئے ہیں وہ اس کا ہی امتیاز ہے، یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انسان کا اس دنیا میں وجود محض اس لیے کہ اس کی جان کی حفاظت کی جائے، یااس کی عقل اور مال کی حفاطت کی جائے، ایک فعلِ عبث ہے؛ چنانچہ یہ چیزیں اسلام میں آخرت کی زندگی سے مربوط ہیں، انسان کا وجود اس کائنات میں اس لیے مطلوب ہے کہـــــ  وہ خدا کی عبودیت کا حق ادا کرے اور آخرت کی زندگی کی سعادت کے لیے خود کوتیار کرے؛ البتہ جب تک وہ اس دنیا میں رہے اس وقت تک اس کی جان، مال، عزت اور عقل سب کی حفاظت کی ضمانت ان شرعی احکام میں مضمر ہے، جواسلام نے دئے ہیں۔

یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ ان پانچوں اصولوں میں جوزیادہ اہم ہو اس کی خارط اس سے کمتر اصولوں کوقربان کیا جاے گا، مثلاً اگردین کی حفاظت کی خاطر جان دینے کی ضرورت ہوتو اس میں دریغ نہیں کیا جائے گا؛ اسا طرح اگرکسی کا مال لےکر کھالینے سے جان کی حفاظت ممکن ہوتوجان کی حرمت کومال کی حرمت پرمقدم رکھا جائے گا، جن مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ شرعی احکام کا دارومدار ان کی تکمیل پر ہے، ان کا ذکرکرتے ہوئے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:

"وَمَقْصُودُ الشَّرْعِ مِنَ الْخَلْقِ خَمْسَةٌ: وَهُوَأَنْ يَحْفَظَ عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ، وَنَفْسَهُمْ، وَعَقْلَهُمْ، وَنَسْلَهُمْ، وَمَالَهُمْ، فَكُل مَايَتَضَمَّنُ حِفْظَ هَذِهِ الأُْصُول الْخَمْسَةِ فَهُوَمَصْلَحَةٌ، وَكُل مَايُفَوِّتُ هَذِهِ الأُْصُول فَهُوَمَفْسَدَةٌ، وَدَفْعُهَا مَصْلَحَةٌ"۔

(المستصفى في علم الأصول:۱/۱۷۴، شاملہ، المؤلف:محمد بن محمد الغزالي أبو حامد، الناشر: دارالكتب العلمية،بيروت)

ترجمہ:خلق کے بارے میں شریعت کے مقاصد پانچ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اس کے دین، ا س کی جان، اس کی عقل، اس کی نسل اور اس کے مال کی حفاظت کی جاے؛ پس ہروہ بات جوان اصولِ خمسہ کی حفاظت کی ضامن ہو وہ "مصلحت" قرار پاے گی اور ہروہ چیز جوان پانچوں امور کی حفاظت میں مخل ہو وہ "مفسدہ" قرار پائے گی اور اس کا ازالہ "مصلحت" ہوگا۔

پھرفرماتے ہیں:

"هَذِهِ الأُْصُول الْخَمْسَةُ حِفْظُهَا وَاقِعٌ فِي رُتْبَةِ الضَّرُورِيَّاتِ فَهِيَ أَقْوَى الْمَرَاتِبِ فِي الْمَصَالِحِ ومثاله قضاء الشرع بقتل الكافر المضل وعقوبة المبتدع الداعي إلى بدعته فإن هذا يفوت على الخلق دينهم وقضاؤه بإيجاب القصاص أدبه حفظ النفوس وإيجاب حد الشرب إذبه حفظ العقول التي هي ملاك التكليف وإيجاب حد الزنا إذبه حفظ النسل والأنساب وإيجاب زجر الغصاب والسراق إذبه يحصل حفظ الأموال التي هي معاش الخلق وهم مضطرون إليها وتحريم تفويت هذه الأصول الخمسة والزجر عنها يستحيل أن لاتشتمل عليه ملة من الملل وشريعة من الشرائع التي أريد بهاإصلاح الخلق"۔

(المستصفى في علم الأصول:۱/۱۷۴، شاملہ، المؤلف:محمد بن محمد الغزالي أبو حامد، الناشر: دارالكتب العلمية،بيروت)

ترجمہ:ان پانچوں اصول کی حفاظت ضروریات میں سے ہے جومصالح کا سب سے قوی ترین درجہ ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ شریعت نے ایسے کافر کے قتل کا حکم دیا ہے جس کا کفر دوسروں کت متعدی ہو؛ اسی طرح ایسے بدعتی کی سرزنش کا حکم دیا ہے جواپنی بدعت کی طرف لوگوں کودعوت دے؛ کیونکہ اس سے خلق دین کی حفاظت کا مقصد متاثر ہوتا ہے اور شریعت نے قصاص کا حکم دیا ہے؛ کیونکہ اس کے ذریعہ جان کی حفاظت ممکن ہے اور شراب پینے کی حدمتعین کی ہے کہ عقول کی حفاظت کی جاسکے، جوانسان کی تکلیف کا مدار ہےاور حدزنا متعین کی تاکہ اس کے ذریعہ نسل اور نسب کی حفاظت کی جاسکے اور چوروں اور غاصبوں کی سزا متعین کی ہے؛ تاکہ لوگوں کے مال کی حفاظت کی جاسکے، جس سے خلق کا معاش وابستہ ہے اور لوگوں کواس کی احتیاج ہے، یہ پانچوں ایسے امور ہیں جن کی حفاظت کا خیال نہ رکھنا کسی ایسی ملت وشریعت میں ممکن نہیں جوخلق کی اصلاح کے لیے نازل کی گئی ہو۔

(۲)حاجیاتی مصالح

شریعت کے مقاصد ومصالح کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی سے تنگی اور مشقت کودور کیا جائے؛ گویا ان مصالح وتحقیق پردنیوی واخروی زندگی موقوف تونہیں ہے؛ لیکن دفع حرج ومشقت کے لیے ان کی رعایت ضروری ہے، مثال کے طور پرسفر میں نماز کوقصر کے ساتھ پڑھنے کی اجازت؛ اسی طرح رمضان میں مریض اور مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت، یاقیام پرقدرت نہ رکھنے والے شخص کے لیے اس بات کی اجازت کہ وہ بیٹھ کرنماز ادا کرے، حیض ونفاس میں مبتلا عورت کے لیے نماز نہ پڑھنے کی تاکید اور سفروحضر میں خف پرمسح کرنے کی اجازت وغیرہ ایسے احکام ہیں جوشرعی مقاصد ومصالح کی اس دوسری قسم کے ذیل میں آتے ہیں۔

اسی طرح قرض لین دین کی اجازت، کسی دوسرے کی طرف سے حقوق کے بارے میں ضامن وکفیل بننے کی اجازت، ضرورت پڑنے پربیع کوفسخ کرنے اور نکاح کے رشتہ کوطلاق کے ذریعہ ختم کرنے کی اجازت بھی اسی ذیل میں آتی ہے، جیسا کہ حدود وعقوبات کے مسائل ہیں، مقتول کے ولی کواس بات کا حق کہ وہ قصاص معاف کردے، یادیت میں تخفیف کردے، یابعض حالات میں دیت کا بجائے قاتل کے اس کے اقارب واصدقا یاعاقلہ پروجوب، یہ ساری چیزیں اسی لیے مشروع کی گئی ہیں؛ تاکہ حرج اور مشقت کودور کیا جائے، علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

"وأماالحاجيات، فمعناها أنهامفتقر إليهامن حيث التوسعة ورفع الضيق المؤدي في الغالب إلى الحرج والمشقة اللاحقة بفوت المطلوب، فإذالم تراع دخل علتى المكلفين على الجملة الحرج والمشقة، ولكنه لايبلغ مبلغ الفساد العادي المتوقع في المصالح العامة، وهي جارية في العبادات، والعادات، والمعاملات، والجنايات ففي العبادات: كالرخص المخففة بالنسبة إلى لحوق المشقة بالمرض والسفر، وفي العادات كإباحة الصيد والتمتع بالطيبات مماهوحلال، مأكلا ومشربا وملبسا ومسكنا ومركبا، وفي المعاملات، كالقراض، والمساقاة، والسلم، وفي الجنايات، كالقسامة، وضرب الدية على العاقلة، وتضمين الصناع"۔                     

(الموافقات:۲/۶،۵، بحذف یسیر)

ترجمہ:"حاجیات" سے مراد وہ مصالح ہیں، جن کی ضرورت تنگی کودور کرنے اور حرج ومشقت کورفع کرنے کے لیے پیش آئے اوراگر ان کی رعایت نہ رکھی جائے تومکلفین کی زندگی مشقت کی وجہ سے دوبھرہوجائے؛ لیکن اس طرح کا فساد متصور نہ ہو، جوضروری مصالح کونظرانداز کرنے سے برپا ہوتا ہے "حاجیات" کا خانہ بھی عبادات، عادات، معاملات اور جنایات سب کوعام ہے؛ چنانچہ عبادات میں اس کی مثال وہرخصتیں ہیں جومشقت لاحق ہونے کے اندیشہ سے دی گئی ہیں، جومرض یاسفر کی وجہ سے پیش آتی ہیںــــــ  اورعادات میں شکار کا حلال ہونا، پاکیزہ اور حلال چیزوں سے استفادہ کرنے کی اجازت شامل ہے؛ خواہ اس کا تعلق کھانے پینے کی چیزوں سے ہو یالباس ومسکن اور سواری وغیرہ سے اور معاملات میں اس کی مثال مضاربت، مساقاۃ اور مسلم وغیرہ کی اجازت ہے اور جنایات میں قسامت اور عاقلہ پردیت کا وجوب اور ضائع شدہ مال کی ضمانت وغیرہ اس کی مثال ہے۔

(۳)تحسینی مصالح

مصالح ومقاصد کا تیسرا درجہ تحسینی اور کمالیاتی مصالح ہیں، جن کی رعایت پرنہ توزندگی موقوف ہو اور نہ ان کی عدم رعایت سے حرج اور مشقت ہی کا اندیشہ ہو؛ بلکہ ان کا تعلق اخلاق وعادات اور زندگی کے آداب سے ہو، یعنی مروت اور عقل انسانی کا تقاضا ہوکہ ان مصالح کا تحقق مستحسن ہے اور فطرتِ سلیمہ اس کا تقاضا کرتی ہے کہ انسانی معاشرہ میں یہ خصلتیں پائی جائیں اور انسانی زندگی ان خوبیوں سے آراستہ ہو، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول :

"الرتبة الثالثة مالايرجع إلى ضرورة ولاإلى حاجة ولكن يقع موقع التحسين والتزيين والتيسي والمزائد ورعاية أحسن المناهج في العادات والمعاملات"۔

(المستصفیٰ:۱/۲۹۰)

ترجمہ:تیسرا درجہ (مصالح کا) جو نہ "ضرورت" کے خانہ میں آتا ہو اور نہ "حاجت" کے؛ لیکن اس کا شمار ان امور میں ہوتا ہو، جس کوتحسین وتزئین کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور عادات ومعاملات میں جس کی رعایت مستحسن سمجھی جاتی ہے۔

عبدات میں نفلی نمازیں، نفلی روزے، نفلی صدقات کو اس کی مثال قرار دیا جاسکتا ہے؛ اسی طرح طہارت، سترعورت وغیرہ کے حکم کوبھی فقہاء نے اسی ذیل میں شمار کیا ہے، بیع وشراء میں ناپاک چیزوں کی خریدوفروخت کی ممانعت، کھانے پینے میں پاکیزہ چیزوں کا اہتمام اور خبائث سے اجتناب، عقوبات میں لاش کومثلہ کرنے کی ممانعت اور عورتوں اور بچوں وغیرہ کے قتل سے اجتناب کا حکم بھی اسی ذیل میں آتا ہے، علامہ شاطبیؒ مصالح کی اس قسم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وأماالتحسينات، فمعناها الأخذ بمايليق من محاسن العادات، وتجنب المدنسات التي تأنفها العقول الراجحات، ويجمع ذلك قسم مكارم الأخلاق في العبادات، كإزالة النجاسة وبالجملة الطهارات كلها وستر العورة، وأخذ الزينة، والتقرب بنوافل الخيرات من الصدقات والقربات، وأشباه ذلك وفي العادات، كآداب الأكل والشرب، ومجانبة المآكل النجسات والمشارب المستخبثات، والإسراف والإقتار في المتناولات، وفي المعاملات، كالمنع من بيع النجاسات، وفضل الماء والكلأ وفي الجنايات، كمنع قتل الحر بالعبد، أوقتل النساء والصبيان والرهبان في الجهاد"۔                       

(الموافقات:۲/۶)

ترجمہ:تحسینیات سے مراد اچھی عادتوں کا اختیار کرنا اور ان امور واحوال سے اجتناب ہے جن کوعقل سلیم ناپسند کرتی ہو اور ان سب کے مجموعہ کومکارم اخلاق سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، عبادات میں اس کی مثال نجاست کا ازالہ اور طہارت اور پاکیزگی کا حصول ہے سترعورت، زینت وآرائش اور نفلی عبادتوں اور صدقات کے ذریعہ خدا کاقرب حاصل کرنے کی کوشش وغیرہ، عادات میں کھانے پینے کے آداب، ناپاکی اور خبیث چیزوں سے اجتناب، اسراف اور بخل سے پرہیز، معاملات میں ناپاک چیزوں کی خریدوفروخت کی ممانعت، پانی اور چارہ کی زائد مقدار کی فروخت اور جنایات میں عورتوں، بچوں اور راہبوں کے جہاد کے دورن قتل کی ممانعت وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔

شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں جن کومذکورہ بالاتینوں مدارج "ضروری، حاجی اور تحسینی" کے تکملہ اور تتمہ کی حیثیت دی جاسکتی ہے، مثال کے طور پر:قصاص میں مماثلت کا لحاظ حفظ نفس کے مقصد کی تکمیل کے لیے ہے؛ اسی طرح شراب کی تھوڑی سی مقدار کی حرمت حفظ عقل کی مصلحت کا تتمہ ہے؛ کیونکہ شراب کی تھوڑی مقدار زیادہ کاخوگر بننے کا ذریعہ بن جاتی ہے؛ اسی طرح اجنبی عورت کودیکھنے اور اس کے ساتھ خلوت میں بیٹھنے کی ممانعت ہے، جوحفظ نسل کے مقصد کی تکمیل کے لیے ہے؛ اسی طرح ذان اور جماعت کی مشروعیت اقامتِ دین کی مصلحت کی تکمیل کے لیے ہے؛ تاکہ دین کا صحیح طور پرظہور اور اس کی حفاظت کا مقصد پورا ہوسکے؛ اسی طرح غصب کردہ مال کے ضمان میں مماثلت کی قید اور ربوکی حرمت کوحفظِ مال کے مقصد کی تکمیل کے لیے متعین کیا گیا ہے۔

دوسری قسم یعنی حاجیاتی مصالح کی تکمیل کے لیے جوچیزیں مشروع کی گئی ہیں ان میں نکاح میں کفأت کی رعایت؛ اسی طرح صغیرہ کے نکاح میں مہرِمثل کالحاظ اور مجہول کی بیع کی ممانعت اور مشتری کے لیے خیارِرؤیت اور خیارِ شرط وغیرہ کی مشروعیت بھی بیع وشراء کی عمومی مصلحت کا تتمہ اور تکملہ ہے، تحسینی مصالح کی تکمیل کے لیے صدقاتِ نافلہ میں پاک مال کا خرچ کرنا، عقیقہ اور قربانی وغیرہ میں افضل ترین جانور کے انتخاب کی تلقین کواس کی مثال قرار دیا جاسکتا ہے، وہ مصالح جن کو "ضروریات" میں شمار کیا گیا ہے، وہ بقولِ امام شاطبیؒ"اصولِ دین، قواعدِ شرعیہ اور کلیاتِ ملت" کی حیثیت رکھتی ہیں؛ چنانچہ ان کوہرحال میں مقدم رکھا جائے گا، مثال کے طور پراگر "ضروری" یاحاجی، مصلحت کا تقاضا ہوتو تحسینی مصلحت کونظر انداز کیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ آپریشن یامرض کی تشخیص کی خاطر جس سے جان کی حفاظت وابستہ ہے سترِ عورت کی مصلحت کونظرانداز کیا جائے گا جوکہ تحسینی مصالح میں شمار کیا جاتا ہے۔

اسی طرح ضرورت اور اضطرار کی حالت میں "میتہ" کا کھانا حلال ہوگا اور تحسینی مقصد یعنی مطعومات میں سے، خبیث چیزوں سے احتراز کی مصلحت کونظرانداز کیا جائے گا "بیع سلم اور استنضاع" کے جواز کی بناء بھی یہی ہے کہ "حاجت" کی خاطر"تحسینی" مقصد یعنی مبیع کے وجود کی شرط کونظرانداز کیا گیا اور ضروریات میں بھی باہم فرق مراتب کالحاظ ہوگا، دین کی حفاظت کی خاطر جان کی حفاظت کونظرانداز کیا جائے گا؛ اسی طرح جان کی حفاظت کی خاطر مال کی حفاظت کی مصلحت کونظرانداز کیا جائے گا، امام غزالیؒ اور بعض دوسرے ائمہ اصول نے نسل کی حفاظت کوعقل کی حفاظت پر مقدم رکھا ہے، جب کہ دوسرے فقہاء کے یہاں ترتیب میں "عقل" نسل سے مقدم ہے "مقاصد" اور "مصالح" کی ایک اور تقسیم بھی کی جاتی ہے کچھ مقاصد ایسے ہیں جن کاتعلق فرد کی ذات سے ہے اور کچھ مصالح ایسی ہیں جن کا تعلق ساری امت یاجماعتِ مسلمین سے ہے، مثال کے طور پردشمنوں سے ملک کی حفاظت، دین کی حفاظت، قرآنِ کریم کی حفاظت، سنت کی حفاظت، اسی طرح حرمین شریفین کی دشمنوں کے ہاتھ میں چلے جانے سے حفاظت، یہ سب کلی مصالح ہیں جن کی خاطر جزوی مصالح کونظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

علامہ ابن عاشور نے مصالح کی ایک اور تقسیم بھی کی ہے، جس کی رو سے کچھ مصالح تووہ ہیں جوقطعی ہیں جن کی نشان دہی خود نصوص سے ہوتی ہے یامجموعی طور پر شرعی احکام کے تتبع اور استقراء سے جیسا کہ "مصالحِ ضروریہ، یاکلیاتِ خمسہ" کی حفاظت کے بارے میں گذرچکا ہے، یاعقل اس بات کی شہادت دے کہ اس کوترک کرنے میں امت کوزبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑےگا، جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ کرنا کہ مانعینِ زکوٰۃ سے قتال کیا جانا ضروری ہے، دوسری قسم کی مصالح وہ ہیں جوظنی ہیں، اس کی مثال خوف کی وجہ سے حفاظت کے لیے کتے کے پالنے کا جواز ہے، جودلیلِ ظنی سے ثابت ہے اور تیسری قسم ان مصالح کی ہے جووہمی ہیں اور ان کا دئرہ بے حدوسیع ہے، اس کی مثال شراب، افیون، ہیروئین، کوکین اور قات وغیرہ کے بارے میں ان کے استعمال کرنے والوں کا یہ وہم کہ یہ چیزیں مفید اور نشاط آور ہیں، شریعت نے اس طرح کی "وہمی" مصالح کونظرانداز کیا ہے اور ان چیزوں کی حرمت کا حکم دیا ہے۔

چند ضرور وضاحتیں

(۱)مقاصد شریعت کے مدارج کے اس طرح پرذکر سے یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ وہ چیزیں جوضروریات میں شمار کی گئی ہیں وہ سب کی سب نفل اور مکروہ کے ذیل میں آئیں گی؛ بلکہ اس کے برعکس ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چیز مدارج کے لحاظ سے توتحسینیات میں شمار ہوئی ہو؛ لیکن شرعی حکم کے لحاظ سے وہ قطعی حرام ہو یاواجب ہو، اس لیے کہ ایجاب وتحریم اور اباحت وکراہیت وغیرہ علیحدہ موضوع ہیں اور مقاصد شریعت اور اس کے مدارج ایک علیحدہ بحث ہے اور اس کی فصیل حکم تکلیفی کے مدارج میں آئے گی؛ یہاں اس کے ذکر کا موقع نہیں ہے، مثال کے طور پرستر عورت اور طہارت کے مسائل کویہاں تحسینیات شمار کیا گیا ہے؛ لیکن سب جانتے ہیں کہ ستر عورت کی ایک مقدار فرض ہے اور طہارت بھی جنابت کی حالت میں ضروری ہے، اس کی تقسیم تومختصر طور پریوں ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خطاب جس چیز سے متعلق ہو وہاں طلب "جازم" ہوگا یانہیں ہوگا؛ اگرطلب فعل ہوتو "واجب" ہوگا اور اگرطلب ترک فعل ہو تو "حرام" ہوگا اور اگرطلب "غیرجازم" ہوتو دونوں جانب یاتوبرابر ہوں گے تووہ مباح ہوگا اور اگر جانب وجودغالب ہوتو مندوب ہوگا اور اگرجانب عدم غالب ہوتو مکروہ ہوگا؛ خواہ اس کا تعلق ان امور سے ہوجومقاصد ومصالح کے لحاظ سے ضروریات میں شمار کئے گئے ہوں یاحاجیات میں یاکمالیات میں۔

(۲)اصول وقواعد ہمیشہ عمومی احوال کوپیشِ نظررکھ کربنائے جاتے ہیں، بعض جزئیات پرکسی قاعدہ کے کسی خاص وجہ سے منطبق نہ ہونے کی وجہ سے اصل قاعدہ کی جامعیت پرکوئی اثر نہیں پڑتا، مثال کے طور پرعقوبات اس لیے مشروع کی گئی ہیں کہ جرم کا ارتکاب کرنے والا شخص اپنے جرم سے باز آجائے؛ لیکن یہ ممکن ہے کہ کسی خاص شخص پریہ اثرمرتب نہ ہو؛ چنانچہ قطع ید کے بعد بھی ایک شخص چوری کا ارتکاب کرے یاکوڑوں کی سزاپانے کے بعد بھی ایک شخص زنا سے باز نہ آئے؛ اسی طرح سفر میں قصر صلوٰۃ اور روزے کے افطار کی مشروعیت مشقت کے پیشِ نظر کی گئی ہے؛ لیکن یہ ممکن ہے کہ بادشاہ وقت یاکسی مرفہ الحال شخص کا سفراس طرح پرہوکہ اسے قطعی کوئی مشقت نہ ہو؛ لیکن اس کی وجہ سے وہ اس رخصت سے فائدہ اُٹھانے کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا؛ اسی طرح طہارت کی مشروعیت تونظافت کے لیے کی گئی ہے؛ لیکن مٹی کے ذریعہ تیمم کوبھی طہات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جس میں بظاہر آلودگی ہے، بقول علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ:

"فكل هذا غير قادح في أصل المشروعية لأن الأمر الكلي إذا ثبت فتخلف بعض الجزئيات عن مقتضى الكلي لا يخرجه عن كونه كليا فان حفظ النفوس مشروع وھٰذا کلی بقصد الشارع الیہ ثم شرع القصاص حفظ للنفوس فقتل النفس فی القصاص محافظ علیہ بالقصد"۔

ترجمہ:یہ ساری باتیں اصل مشروعیت کے لیے مضر نہیں ہیں؛ کیونکہ کسی امر کلی کے بعض جزئیات کا اگرتحقق نہ ہوتواس سے اس کی کلیت پرکوئی اثر نہیں پڑتا؛ چنانچہ جان کی حفاظت مطلوب ومشروع ہے اور یہ امرکلی ہے؛ کیونکہ شارع نے اس کوضروری قرار دیا ہے؛ لہٰذا جان کی حفاظت ہی کی خاطر قصاص میں قتل نفس اس کے منافی نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس کا مقصد لوگوں کی جانوں کی حفاظت ہی ہے۔

(۳)جان کی حفاظت شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے؛ چنانچہ اگرجان کی حفاظت مال کے اتلاف کے بغیرممکن نہ ہوتوجان کی حفاظت کوترجیح دی جائے گی؛ لیکن اگرجان کی حفاظت کا مقصد دین کومٹانے کا باعث ہوتو پھردین کی حفاظت کے مقصد کوترجیح دی جائے گی؛ جیسا کہ جہاد کی مشروعیت اور قتل مرتد کے مسئلہ سے یہ بات واضح ہے؛ اسی طرح اگرجان کی حفاظت سے کئی جانوں کا اتلاف لازم آتا ہوتوپھر کئی جانوں کی حفاظت کی فکر کی جائے گی؛ چنانچہ اگرکفار کسی مسلمان کوڈھال بنالیں اور اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوکہ مسلمان کی جان قربان کئے بغیر کفار پرغلبہ ونصرت حاصل کی جاسکے توایسی صورت میں اس مسلمان کی جان کواجتماعی مصلحت پرقربان کئے جانے کوگوارا کیا جائے گا۔

اوراگر کسی کوسلاح کے زور پراس بات پرمجبور کیا جائے کہ وہ کفریہ کلمات کہے؛ ورنہ اسے قتل کردیاجائے گا توایسی صورت میں اس کے لیے یہ جائز ہوگا کہ کلماتِ کفر زبان سے ادا کرے اور اس کا دل مؤمن ہو؛ اسی طرح اکراہ کی وجہ سے شراب کا پینا، کسی دوسرے شخص کا مال کھانا، نماز اور روزہ کوترک کرنا سب جان کی حفاظت کی خْاطر مباح ہوگا؛ لیکن اگر اسے اس بات پرمجبور کیا جائے کہ وہ کسی دوسرے شحص کوقتل کردے تو اس کے لیے یہ جائز نہ ہوگا؛ اسی طرح اگرکوئی شحص مخمصہ میں مبتلا ہو اور اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتواس کے لیے یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کوذبح کرکے اس کا گوشت کھائے۔

(۴)دومصلحتوں کے درمیان اگرتعارض ہوتوجوقوی ترمصلحت ہو، اس کوترجیح دی جاے گی، مثال کے طور پراگرایک شخص نماز ادا کررہا ہو اور اس کی نظر ایک ڈوبتے ہوئے شخص پرپڑگئی توڈوبنے والے شخص کوبچانا نماز کی ادائیگی پرمقدم ہوگا اور اس شخص کا فریضہ ہوگاکہ پہلے ڈوبتے شخص کوبچائے؛ پھراپنی نماز ادا کرے؛ اسی طرح محرمات کے درمیان بھی فرقِ مراتب اور درجات ہیں، شراب کا پینا شراب بیچنے کے مقابلہ میں زیادہس نگین جرم ہے اور شادی شدہ عورت سے زنا کرنا غیرشادی شدہ عورت سے زنا کے مقابلہ میں زیادہ سنگین جرم ہے، امام عزالدین بن عبدالسلام فرماتے ہیں:

"المقاصد الضروریہ اصل للحاجیہ والتحسینیہ وان الحاجی ومن ہنااذادعت الضرورۃ الی احیاء المہجۃ یتناول النجس کان تناولہ اولی؛ کمایجدر الاطلاع علی العورات للمباضعہ المداواۃ"۔

ترجمہ:ضروری مقاصد "حاجی اور تحسینی" مقاصد پرمقدم ہیں؛ چنانچہ حاجی ضروری کی تکمیل کرتے ہیں اور تحسینی حاجی کی؛ لہٰذا اگراس کی ضرورت پیس آئے کہ جان کی حفاظت کے لیے نجس چیز کوکھانا پڑے گا تواس کا کھانا جائز اور اولیٰ ہوجائے گا جس طرح کہ علاج اور آپریشن کی ظاطر مریض کے کشفِ عورت کی اجازت ہوگی۔

اگرچندافراد کسی جزیرہ یاصحرا، یاکسی ظالم حکمراں کی جیل میں اس طریقہ پرمحصور ہوگئے ہوں کہ ان کے پاس کھانے کاکوئی سامان نہ ہو اور فاقہ کے اس درجہ کوپہونچ گئے ہوں کہ ان کے لیے سوائے اس کے کوئی چارۂ کار نہ رہ گیا ہو کہ وہ اپنے رفقاء میں سے کسی ایک کوقربان کرکے اس کا گوشت کھالیں؛ تاکہ باقی لوگوں کی جان بچ سکے توکیا شرعاً اس کی اجازت ہوگی؟۔

چند افراد کشتی میں سوار ہوئے موجوں کی شدت اور ہوا کہ تھپیڑوں نے ان کوایسی حالت سے دوچار کردیا کہ ان کے لیے ڈوبنے سے بچنے کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی رہ گیا ہو کہ وہ اپنے ساتھ سوار کسی ایک فرد کودریا میں ڈال دیں تاکہ کشتی کا وزن کم ہو اور کشتی سلامت رہ سکے؛ ورنہ اس کا یقین ہے کہ سب کے سب ڈوب کرہلاک ہوجائیں گے توکیا ایسی صورت میں یہ بات جائز ہوگی کہ کسی فرد کواس ارادہ سے دریا کی نذر کردیا جائے؛ تاکہ دوسروں کی جان بچائی جاسکے؟۔

کفار نے چند مسلمانوں کواس طریقہ پرڈھال بنالیا ہو کہ اگران مسلمان قیدیوں کی جان کا خیال کیا جائے توسارا عالمِ اسلام کفار کے تسلط میں چلاجائے گا اور سیکڑوں افراد کی جانوں کوخطرہ لاحق ہوجائے گا،ایسی صورتمیں کیا یہ درست ہوگا کہ ان بے قصور مسلمان قیدیوں کی جان کی پرواہ کئے بغیر عمومی مصلحت کوسامنے رکھا جائے اور انہیں نشانہ بنایا جائے؛ تاکہ کفار پرغلبہ حاصل ہوسکے، یہ اور اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جن کا جواب مقاصدِ شریعت اور ان کے مدارج کوسامنے رکھ کرمعلوم کیا جاسکتا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے امام غزالی رحمہ اللہ کی "المستصفیٰ" اور امام سرخسی رحمہ اللہ کی "المبسوط" وغیرہ۔

No comments:

Post a Comment