visitors

free counters

Friday, 16 September 2011

فقہ اسلامی کی تدوین ایک جائزہ

ہرعلم وفن کی تدوین اور اس کے ارتقاء بتدریج پایہ کمال کو پہونچتا ہے ،فقہ اسلامی پر بھی تدوین کے کئی مراحل گذرچکے ہیں۔

فقہ اسلامی کا پہلا دوراور اس کی خصوصیات

آپ  کی رسالت ونبوت سنہ۶۱۰ء سے شروع ہوتی ہے اور وفات سنہ۱۰ھ مطابق سنہ۶۳۲ء میں ہوئی ،اس دور میں فقہ اسلامی کا سرچشمہ قرآن تھا، آپ  کے ارشادات اور آپکی مکی ومدنی زندگی کے حالات وواقعات قرآن کریم کی تشریح کی حیثیت رکھتے تھے،الغرض دورِنبوت میں فقہ اسلامی کا تمام ترمدار وحی پر تھا، چاہے وحی متلو قرآن کریم ہو یاغیرمتلو احادیث مبارکہ۔

(مقدمہ درمختار:۱/۶)

آپ  کے دور میں موجودہ زمانہ کی طرح فقہ اسلامی مدون نہیں ہوا تھا، جس طرح بعد میں فقہاء کرام نے ہرمسئلہ کی تحقیق وتفتیش کرکے اس کے ارکان وشرائط اور آداب وسنن کی وضاحت کردی ،یہ تحدید زمانۂ نبوت میں نہیں ملتی ہے، آپ سے جو عمل جس طور پر صادر ہوتا، صحابہ کرام بعینہ بغیر کمی وبیشی کے اپنالیتے، مثال کے طور پر آپ کو جس طرح وضو کرتے اور نماز پڑھتے دیکھا صحابہ نے اسے اپنالیا،انہوں نے اس بات کی تحقیق وجستجو نہیں کی کہ وضو میں کتنے ارکان اور کیا کیا ہیں؟ نماز میں کون فرض ہے؟ کون واجب اور کون سنت ہے؟۔                     

(تاریخ الفقہ الاسلامی:۴۱)

آپ نے اپنے دورمیں قرآن کریم کے علاوہ دیگر چیزو ں کو لکھنے سے منع فرمادیا تھا (حجۃ اللہ البالغہ:۱/۱۴۰) حتی کہ احادیثِ مبارکہ کو تحریر کرنے سے بھی روک دیا تھا؛ تاکہ قرآن کریم کا غیرقرآن سے اختلاط نہ ہوجائے اور سابقہ امتوں کی طرح آسمانی کتابوں کا صلحاء اور علماء کے اقوال سے اختلاط ہوکر ان کی روحانیت اور اعجازی شان فنا نہ ہوجائے اور نہ محرف ہوجائے؛ چونکہ دورِ نبوت میں کاغذات اور پریس وغیرہ کی موجودہ سہولت نہ تھی ؛بلکہ ہڈیوں چمڑوں اور پتوں کو تحریر کے کام میں لاتے تھے ،اس لیے قوی اندیشہ تھا کہ قرآن غیرقرآن سے خلط ملط ہوکر ضائع نہ ہوجائے؛ اگرچہ انفرادی طور پر جمع قرآن کے علاوہ جمع حدیث کے تعلق سے بھی کام ہوا۔

(مسلم:۲/۲۱۴)

آپ کی ممانعت کی وجہ سے حدیث وفقہ کی باضابطہ تدوین کا آغاز آپ  کے دور میں نہ ہوسکا۔

فقہ اسلامی کا دوسرا دور اور اس کی خصوصیات

یہ خلفاءِراشدین اور کبارِ صحابہ کرامؓ کا دور ہے ،نبی کریم  کی وفات کے بعد سنہ ۱۱ھ سے خلفاء راشدین اور دیگر کبار صحابہ کا دور شروع ہوتا ہے اور یہ دور سنہ۴۰ھ میں اختتام کو پہونچتا ہے، آپ کی وفات کے بعد فتوحات اسلامی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، بالخصوص حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں توہرروز کوئی نہ کوئی علاقہ مملکتِ اسلامیہ میں داخل ہو، صحابہ کرام "بلغوا عنی ولو آیہ" (ابوداؤد:۲/۵۱۳) کے تحت اسلام کا پیغام پہونچانے کے لیے چہاردانگِ عالم میں پھیل گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا دوسری اقوام سے اختلاط بڑھتا گیا، بعض عجمی اقوام دامن اسلام میں آئیں اور نئے نئے مسائل وواقعات درپیش ہونے لگے ،صحابہ کرامؓ کو ان حوادث اورواقعات کا حکم شرعی معلوم کرنے اور جاننے کی فکر لاحق ہوئی؛ چنانچہ خلفاءراشدین اور کبارِ صحابہ جو فتویٰ دینے کی اہلیت رکھتے تھے ،قرآن وحدیث کی طرف رجوع ہوئے اور قرآن وحدیث کے قواعد وجزئیات کو سامنے رکھ کراحکام شرعی بیان کرنا شروع کیا، جو حکم قرآن وحدیث میں مذکور نہ ہوتا تو آپس میں مشورہ کرتے اور اجتہاد واستنباط سے کام لیتے، اس شورائی اور اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ بہت سے مسائل حل ہوئے۔                         

  (ترمذی:۲/۹۵)

فقہاء صحابہ

علامہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے کہ صحابہ سب کے سب صاحب فتویٰ نہ تھے اور نہ ہی ان سب سے دین کا علم حاصل کیا جاتا تھا؛ بلکہ دین کے خصوصی معلمین حاملین قرآن تھے، جو قرآن کے ناسخ ومنسوخ ،مشابہ ومحکم اور اس کے سارے دلائل سے پوری طرح واقف تھے؛ انھوں نے یاتونبی اکرمسے براہِ راست تعلیم وتربیت حاصل کی تھی یاان جلیل القدر صحابہ سے اکتساب فیض کیا تھا جنھوں نے براہِ راست نبی اکرم  سے فیض پایا تھا، ان حضرات کو اس زمانہ میں قراء کہا جاتا تھا، صحابہ کرامؓ میں ایک سو تیس افراد فقہ وفتاویٰ کی رونق تھے، جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی، ان میں سے سات صحابہ کرامؓ اپنی فقہی خدمات اور کثرت فتاویٰ کی وجہ سے مکثرین کہلاتے ہیں؛ کیونکہ ان حضرات کے فتاویٰ کثرت سے منقول ہیں، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:

(۱)حضرت عمر بن خطابؓ

(۲)حضرت علی بن طالبؓ

(۳)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ

(۴)ام المؤمنین حضرت عائشہؓ

(۵)حضرت زید بن ثابتؓ

(۶)حضرت عبداللہ بن عباسؓ

(۷)حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔         

          (تاریخ الفقہ الاسلامی:۶۴)

جو صحابہ فقہ وفتاویٰ میں متوسط تھے اُن کی تعداد تیرہ تھی:

(۱)حضرت ابوبکر صدیقؓ

(۲)حضرت اُم سلمہؓ

(۳)حضرت انس بن مالکؓ

(۴)حضرت ابوسعید خدریؓ

(۵)حضرت ابوہریرہؓ

(۶)حضرت عثمانؓ

(۷)حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ

(۸)حضرت عبداللہ بن زبیرؓ

(۹)حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ

(۱۰)حضرت سعد بن ابی وقاصؓ

(۱۱)حضرت سلمان فارسیؓ

(۱۲)حضرت جابر بن عبداللہؓ

(۱۳)حضرت معاذ بن جبلؓ،

ان حضرات کے علاوہ جو صحابہؓ ہیں انہیں مقلین کہا جاتا ہے، یعنی ان حضرات سے صرف ایک یادوفتاویٰ منقول ہیں۔          

  (مقدمہ ابن خلدون:۴۴۶)

فقہ اسلامی کا تیسرا دور

یہ دورپہلی صدی کے نصف آخر سے چوتھی صدی کے نصف اوّل تک ہے۔

اس دور کی چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں:

الف..... اس دور میں داخلی سیاسی کشمکش میں شدت پیدا ہوگئی، شیعہ اور خوارج کے گروہ مضبوط ہوئے جن کی بنیاد عہد عثمانی اور عہد علوی ہی میں پڑچکی تھی، انہوں نے باہم تکفیر وتفسیق کا بازار گرم کررکھا تھا دوسری طرف مملکت اسلامیہ کا دائرہ چین کی سرحدوں سے اندلس تک پھیل گیا، صحابہؓ اس عہد میں فتوحات کے ساتھ دوسرے ممالک میں پھیلتے چلے گئے۔  

   (اعلام الموقعین:۱/۱۲۶)

ب..... یہ دور چونکہ زمانۂ نبوت سے قریب تھا، جس کی وجہ سے اس دور کے لوگوں میں دینی مزاج راسخ اور پختہ تھا، وہ ہربات کے لیے سند کے طلب گار ہوتے تھے، اس لیے کہ بعض فرقوں نے احادیث گھڑنا اور آپ کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا؛ چنانچہ اسی دور میں وضع حدیث کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

ج..... اس دور میں سب سے بڑا کام تدوین حدیث کا ہوا اور اس دور میں حدیث کے مشہور ائمہ کرام کی قیادت کو جمہور نے تسلیم کیا، اسی دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ احادیث کا ذخیرہ اور صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ اور اقوال ضائع نہ ہوجائیں، ادھرقرآن کا غیرقرآن سے اختلاط کا خوف بھی  نہ تھا؛ کیونکہ قرآن کریم سینوں اور اوراق میں محفوظ ہوچکا تھا، حفاظ کرام ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے، کوئی ایسا گھر نہ تھا جہاں قرآن کریم کا نسخہ موجود نہ ہو؛ لہٰذا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تدوین حدیث کی طرف توجہ فرمائی اور حاملین علوم حدیث کو اس کی تدوین کا حکم دیا؛ چنانچہ آپ کے حکم پر إبنِ شہاب زہریؒ نے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے یہ کام انجام دیا۔                            

(تاریخ الفقہ الاسلامی:۸۳)

د..... اس عہد کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ صحابہؓ چونکہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے اس لیے ہرعلاقہ کے فقہی مسالک پر ان کا اثر  ہوا؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ مکہ میں رہے تو امام شافعیؒ کی فقہ پر ان کے گہرے اثرات پڑے اور آپ  نےزیادہ تر انہی کی روایات پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قیام پذیر تھے اور آپ کے علوم کے حامل حضرت ابراہیم نخعیؒ تھے تو امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کا غالب ترین حصہ انہی سے ماخوذ ہے، اسی طرح جن علاقوں میں صحابہ پہونچے وہاں ان کا منہج فکر زیادہ مشہور ہوا۔

ھ..... یہ دور سابقہ ادوار سے اس اعتبار سے بھی امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس دور میں فقہی نقطۂ نگاہ سے علماء دوگروہ میں منقسم ہوگئے اور دومدرسہ فکر وجود میں آئے، ایک حجاز، وہاں کے فقہاء اہل حجاز اور اصحاب حدیث سے مشہور ہوئے، دوسرا عراق میں اوریہاں کے فقہاء اہل عراق اور اصحاب الرائے سے مشہور ہوئے۔           

   (فیض الباری:۱/۱۴۔ تاریخ الفقہ الاسلامی:۹۴)

دونوں مدرسوں کا نہج اور طرزِتعلیم کسی قدر مختلف اور جداگانہ تھا، مدرسہ حجاز کی بنیاد کتاب وسنت کے ظاہر اور الفاظ پر تھی اور یہاں کے علماء رائے اور قیاس سے حتی الامکان اجتناب کرتے، مدرسہ عراق کے علماء اور اساتذہ نصوص کے الفاظ کے ساتھ معانی میں بھی غواصی کرتے، شریعت کے اصل منشاء کو پیش نظر رکھتے اور روایت ودرایت کو ساتھ لیکر چلتے۔

(مقدمہ الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۷)

و..... اس دور میں باب وار فقہی احکام کی ترتیب کے مطابق جمع حدیث کا آغاز ہوا ؛چنانچہ بہت سے آئمہ نے أحادیث کو فقہی ترتیب کے مطابق ایک مکمل کتابی اور فنی صورت میں مرتب کیا، مدینہ میں امام مالکؒ نے، کوفہ میں امام ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ نے، بصرہ میں حماد بن سلمہ اور شام میں عبدالرحمٰن بن اوزاعیؒ نے، مکہ میں عبدالعزیز ابن جریجؒ نے اور خراسان میں عبداللہ بن مبارکؒ نے احادیث کی تدوین شروع کی۔                      

    (مقدمہ الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۸)

پھراسی دور کے اواخر میں احادیث کے بڑے بڑے مجموعے صحیح اور مستند طریقہ سے مرتب ہوئے، بعض میں صرف احادیث صحیحہ کے جمع کرنے کا التزام کیا گیا اور ضعیف وغیر مستند احادیث کو اس میں جگہ دینے سے اجتناب کیا گیا اور اس سلسلہ کی مشہور کتابوں میں صحاحِ ستہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں، جسے امت نے صحیح ترین مجموعہ تسلیم کیا ہے اور وہ یہ ہیں .

(۱)بخاری

(۲)مسلم

(۳)ابوداؤد

(۴)ترمذی

(۵)ابن ماجہ

(۶)نسائی۔

پھراس دور میں صحیح اور غیرصحیح مستند ،قوی اور ضعیف حدیث کے درمیان امتیاز کے لیے فن اسماءرجال مرتب ہوا اور اس فن پر بڑی بڑی کتابوں کی تصنیف ہوئی۔          

  (فیض الباری:۱/۱۴)

ز..... اس عہد میں قواعد فقہ اور فن اصول فقہ کا بھی وجود ہوا اور اس کی باقاعدہ تدوین وترتیب عمل میں آئی۔

(تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۰۲)

ح..... فقہی اصطلاحات کا ظہور بھی اسی دور میں ہوا، یعنی جائز وناجائز، حلال وحرام، مکروہ ومستحب، فرض، واجب وغیرہ کی درجہ بندی گوعملاً یہ درجات پہلے بھی پائے جاتے تھے۔

(چراغِ راہ:۳۶۵)

ط..... اس دور میں چار بڑے مکاتب فقہ وجود میں آئے اورہرمکتب فکر کے لحاظ سے فقہی کتب کی تدوین وترتیب کا سلسلہ شروع ہوا۔  

(تاریخ التشریع الاسلامی:۱۶۶)

یہ تو طئے ہےکہ اسلام ایک ہمہ گیر وسیع اور دائمی نظام حیات ہے اور اس نے اپنی اس امتیازی شان ہمہ گیری اور دائمی حیثیت کی بقاء کے واسطے اپنے اندر ایک ایسی لچک اور گنجائش رکھی ہے کہ ہردور میں اور ہرجگہ انسانی ضرورت کا ساتھ دے سکے اور کسی منزل پر اپنے پیروکی رہبری سے قاصر نہ رہے؛ چنانچہ علماء ربانین نے اس ضرورت کا احساس کیا اور اس کے لیے سب سے پہلے سراج الامت حضرت امام ابوحنیفہؒ متوفی:سنہ۱۵۰ھ آمادہ ہوئے۔   

(فیض الباری:۱/۱۴)

فقہ حنفی

ائمہ اربعہ جن کے مذاہب اس وقت دنیا میں رائج ہیں، ان میں امام ابوحنیفہؒ اپنے علم وفضل اور سن وسال میں سب سے مقدم تھے اور بالواسطہ یابلاواسطہ تمام ائمہ آپ کے فیض یافتہ تھے۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ایک طرف تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے، جو بقیہ ائمہ میں سے کسی کو حاصل نہیں، دوسری طرف آپ عمر میں ان میں سب سے بڑے ہیں، ملاعلی قاریؒ امام ابوحنیفہؒ کے فضائل مناقب میں تحریر فرماتے ہیں:

"الحاصل ان التابعی افضل الامۃ بعد الصحابۃ ونعتقد أن الامام الاعظم والھمام الاقدم ابوحنیفہؒ افضل المجتھدین واکمل الفقھاء فی علوم الدین ثم الامام مالک فانہ من اتباع الدین ثم الامام الشافعیؒ لکونہ تلمیذ الامام مالک بل تلمیذ الامام محمدؒ ثم الامام احمد بن حنبلؒ فافہ کتلمیذ الشافعیؒ۔

(مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم:۱/۶۳)

ترجمہ:حاصل یہ ہے کہ تابعین کا درجہ صحابہ کرامؓ کے بعد امت میں سب سے بڑھا ہوا ہے، اسی وجہ سے ہمارا اعتقاد ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا مرتبہ ائمہ مجتہدین میں سب سے اونچا ہے اور فقہاء علوم دینیہ میں آپ سب سے بلند واکمل ہیں، آپ کے بعد امام مالکؒ کا درجہ ہے، جو تبع تابعین کی صف میں ہیں؛ پھرامام شافعیؒ کا اس لیے کہ آپ امام مالکؒ؛ بلکہ امام محمدؒ کے شاگرد ہیں؛ پھرامام احمدؒ کا جو امام شافعیؒ کے شاگرد کے درجہ میں ہیں۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلامذہ جو فقہ کی تدوین میں شریک تھے

امام ابوحنیفہؒ نے جس طریقہ سے فقہ کی تدوین کا ارادہ کیا وہ نہایت وسیع اور پُرخطر کام تھا، اس لیے انہوں نے اتنے بڑے کام کواپنی ذاتی رائے اور معلومات پر منحصر کرنا نہیں چاہا، اس غرض سے امام صاحبؒ نے اپنے شاگردوں میں سے چند نامور اشخاص کا انتخاب کیا، جن میں سے اکثر خاص خاص فنون میں ماہر تھے، مثلاً یحییٰ بن ابی زائدہ، حفص بن غیاث، قاضی ابویوسف، داؤدالطائی، ابن حبان مندل،آپ کو حدیث اور آثار میں نہایت کمال تھا، امام صاحب نے ان لوگوں پر مشتمل ایک مجلس مرتب کی اور باقاعدہ طور پر فقہ کی تدوین شروع ہوئی، امام طحاویؒ نے بسند متصل اسد بن فرات سے روایت کی ہے کہ ابوحنیفہؒ کے تلامذہ جنھو ں نے فقہ کی تدوین  میں حصہ لیا تھا ان کی مجموعی تعداد  چالیس تھی، جن میں یہ لوگ زیادہ ممتاز تھے:ابویوسفؒ، زفرؒ، داؤدطائیؒ، اسد بن عمرؒ، یوسف بن خالد التیمیؒ، یحییٰ بن ابی زائدہؒ ۔امام طحاویؒ نے یہ بھی روایت کی ہے کہ لکھنے کی خدمت یحییٰ سے متعلق تھی، امام طحاویؒ نے جن لوگوں کے نام گنائے ہیں ان کے سوا عافیہ، ازی، ابوعلی ، علی بن مسہر،قاسم بن معن، ابن مندل اس مجلس کے منبر رہےتھے۔              

  (شرح فقہ اکبر:۱۴۶)

طریقۂ تدوین

تدوین کا طریقہ یہ تھا کہ کسی خاص باب کا کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا تھا ؛اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق الرائے ہوتے تھے تواسی وقت قلمبند کرلیا جاتا؛ ورنہ نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں، کبھی کبھی بہت دیرتک بحث قائم رہتی، امام صاحب غور وتحمل کے ساتھ سب کے دلائل سنتے اور بالآخر ایسا جچاتلا فیصلہ کرتے کہ سب کو تسلیم کرنا پڑتا، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ امام صاحب کے فیصلہ کے بعد بھی آپ کے شاگردان اپنی اپنی آراء پر قائم رہتے اس وقت ان سب کے مختلف اقوال قلم بند کرلیے جاتے۔     

(سیرۃ النعمان:۱۲۹)

جب کوئی نیا مسئلہ سامنے آتا تو اسے مجلس میں پیش کیا جاتا اس پر اصول شرع کی روشنی میں غور وخوض ہوتا کبھی اس کی تحقیق میں مہینوں لگ جاتے امام ابوحنیفہ اپنی رائے کو اپنے شاگردوں پر مسلط نہیں کرتے اور نہ بغیر تحقیق ومناقشہ کے اپنی آراء لکھواتے؛ بلکہ جدید مسائل کے بارے میں پوری تحقیق کی جاتی ،مسائل کے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر ڈالی جاتی ؛پھر بحث ومباحثہ میں تلامذہ کو پوری آزادی رائے دیتے؛ اگرمجلس کا کوئی رکن حاضر نہیں ہوتا تو انتظار کیا جاتا، بیان کیا جاتا ہے کہ "امام عافیہ" آپ کے اس مجلس کے ایک رکن تھے، جب وہ موجود ہوتے اور بحث ومباحثہ میں حصہ لیکر اتفاق کرلیتے تو اس مسئلہ کو لکھ لیا جاتا اگر وہ شریک نہیں ہوتے تو امام صاحب فرماتے "لاترفعوھا حتی یحضر عافیہ" عافیہ کے آنے تک اس مسئلہ کو آخری شکل نہ دو؛ پھر جب وہ حاضر ہوتے اور اس مسئلہ میں اتفاق کرلیتے تو امام صاحب اسے قلمبند کرلینے کا حکم دیتے اور اگر اختلاف کرتے تو اسے مجموعہ میں شامل نہیں کیا جاتا۔

(سیرۃ النعمان:۱۳۰)

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا منہج استنباط

مسائل کی تحقیق وتخریج میں امام ابوحنیفہؒ کا طریقہ اجتہاد کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خود امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا ہے میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں؛ اگراس میں مسئلہ نہیں ملتا ہے تو سنت رسول کی طرف رجوع ہوتا ہوں اور اگر اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ملتا ہے تو پھر اقوال صحابہؓ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور جس صحابی کا قول کتاب وسنت سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے اسے اختیار کرلیتا ہوں؛ لیکن اقوال صحابہؓ کے دائرہ سے قدم باہر نہیں نکالتا؛ لیکن جب صحابہؓ کے بعد معاملہ ابراہیمؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسنؒ، عطاءؒ اور سعید ابن مسیبؒ وغیرہ تک جاتا ہے تو یہ وہ لوگ تھے جو اجتہاد کرتے تھے اور میں بھی ان کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔   

(مقدمہ فتاویٰ تاتارخانیہ:۱/۱۳۔ المدخل:۱۳۹)

علامہ مکی نے مناقب میں امام ابوحنیفہؒ کے طریقہ اجتہاد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ حسب ضرورت قیاس سے کام لیتے تھے، اس سے کام نہ چلتا تو استحسان کو اپناتے اور اس سے بات نہ بنتی تو تعامل مسلمین کو دلیل بناتے۔

(مناقب للمکی:۷۵)

غرض امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک مصادر فقہ اور اصولِ استنباط سات تھے:

(۱)کتاب اللہ

(۲)سنتِ رسول

  (۳)اقوالِ صحابہؓ

(۴)اجماعِ امت

(۵)قیاس

(۶)استحسان

(۷)عرف  یعنی تعاملِ ناس۔

فقہ مالکی

فقہ مالکی:یہ فقہ امام دارالہجرۃ مالک بن انس کی طرف منسوب ہے، فقہ مالکی اہل سنت والجماعت کا دوسرا بڑا فقہی مسلک ہے اس کی نشوونما "مدینۃ الرسول"میں ہوئی ،جو مہبط وحی ،مسکن رسول اور ہزاروں جلیل القدر صحابہ کا ماوٰی وملجا تھا اور یہاں سے پورے حجاز میں اس کی اشاعت ہوئی؛ پھربصرہ، مصر، افریقہ، اندلس وغیرہ میں اس کو غلبہ حاصل ہوا ،امام مالک کے اصول میں سے سب سے اہم چیز علامہ ابن خلدون کے بقول اہلِ مدینہ کا تعامل تھا۔                       

  (مناقب للمکی:۷۵)

امام مالک تقریباً پچاس سال درس وافتاء میں مشغول رہے، طلبہ اور عوام جو مسائل آپ سے پوچھتے تھے آپ کے شاگرد ان مسائل کے جوابات یاد کرلیتے یالکھ لیتے تھے، آپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگردوں نے آپ کے جوابات اور فقہی اقوال وآراء کومدون کیا، یہ مجموعہ فقہ مالکیؒ کے نام سے مشہور ہوا۔

امام مالک رحمہ اللہ کا طریقہ اجتہاد

امام مالکؒ کا طریقہ اجتہاد اور منہج استنباط یہ تھا کہ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف مراجعت فرماتے اور اگر اس مسئلہ کی کتاب اللہ میں کوئی صراحت نہیں ملتی تو پھرآپ سنتِ رسول کی طرف متوجہ ہوتے؛ اگر اس میں بھی کوئی حکم شرعی نہیں ملتا تو پھر اقوالِ صحابہؓ، تعامل مدینہ، قیاس، اجتہاد، استحسان اور سدذرائع کی طرف متوجہ ہوتے۔    

   (المدخل:۱۵۶)

فقہ شافعی

یہ فقہ امام محمدبن ادریس شافعی کی طرف منسوب ہے، اس کی نشوونما مکہ مکرمہ میں ہوئی اور پھر اطراف واکناف عالم میں پھیل گئی اور امام شافعیؒ نے اوّلاً مالک بن انس کی خدمت میں رہ کر ان کے مناہج استنباط اور اصول استنباط وطرق اجتہاد سے خوب آگاہی حاصل کی؛ پھرامام اعظم کے معتمد شاگردِرشید امام محمد بن الحسن الشیبانی کی صحبت میں رہ کر فقہ حنفی کے مناہج اور اس کے اصول وکلیات کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور پھر دونوں مکاتب فقہ کا نچوڑ وماحصل فقہ شافعی کی صورت میں مدون کرکے ایک نئی راہ قائم کی، آپ کی فقہ دوحصوں پرمشتمل ہے .

(۱)فقہ شافعی قدیم

(۲)فقہ شافعی جدید۔

فقہ شافعی قدیم فقہ شافعی کا وہ حصہ ہے جسے امام شافعی نے عراق میں آکر مرتب کیا تھا، اس میں عراقی رنگ کا غلبہ ہے، فقہ شافعی جدید یہ وہ حصہ ہے جسے آپ نے مصر میں آکر مرتب کیا تھا، اس میں حجازی رنگ کا غلبہ ہے، فقہ شافعی میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی فقہی آراء اور ان کے مناہج فکر سے بہت فائدہ اٹھایا گیا ہے۔                 

    (کشف الظنون:۲/۱۲۸۵)

امام شافعی رحمہ اللہ کا منہج استنباط

ائمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ وہ خوش بخت انسان ہیں جنھیں اپنے مناہج فکر اور اصول استنباط واستخراج کو خود مدون کرنے کا موقع ملا ہے، امام صاحب کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے، وہ بالترتیب سات ادلہ کو پیش نظر رکھ کر مسائل مستنبط کرتے تھے

(۱)اولا کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے اور اسے اپنے مسائل کی بنیاد بناتے (۲)اگرکتاب اللہ میں حکم نہیں ملتا تو سنت رسول کی طرف متوجہ ہوتے

(۳)اگرسنت رسول میں کوئی حکم نہیں ملتا تو پھراجماع امت کا سہارا لیتے (۴)اگران تینوں میں حکم نہیں ملتا ہے تو پہلے کتاب اللہ کی روشنی میں قیاس کرتے (۵)پھرسنت رسول  کی روشنی میں قیاس کرتے

(۶)اجماع کی روشنی میں قیاس کرتے

(۷)اور آخر میں مختلف فیہ احکام پر قیاس کرتے۔              

  (المدخل:۱۴۹)

فقہ حنبلی

فقہ حنبلی امام احمدبن حنبلؒ کی طرف منسوب ہے، امام احمدبن حنبلؒ بلند پایہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ شافعی کے سربراہ امام شافعیؒ سے فقہ میں کمال پیدا کیا اور ان کی خدمت میں رہ کر ان کے اصول اور مصادر فقہ سے پوری طرح واقفیت حاصل کی اور پھر حدیث وفقہ کے امتزاج سے ایک نئے فقہی مسلک کی بنیاد ڈالی، جو فقہ حنبلی کے نام سے موسوم ہوئی، آپ کی فقہ بہت سادہ اور زیادہ ترنصوص کے ظاہر تک محدود ہے؛ کیونکہ آپ عقل ودرایت سے کام لینے کے زیادہ قائل نہ تھے، آپ کی فقہ کی بنیاد دراصل احادیث وآثار پر ہے، قیاس واجتہاد کو اس میں بہت کم دخل ہے ،اس لیے بعض بعض مسائل میں امام صاحب کے سات سات اقوال بھی ملتے ہیں۔

(فقہ شافعی اور اس کی خصوصیات سہ ماہی بحث ونظر شمارہ:۱۴)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا طریقہ اجتہاد

وہ اصول استنباط اورمناہج استخراج جن پر امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے فقہ وفتاویٰ کی بنیاد رکھی ہے، علامہ ابن قیم حنبلی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق چار ہیں:

(۱)نصوص:امام صاحب جب کسی مسئلہ میں قرآن وحدیث کی نص پاتے تو اس کے مطابق فیصلہ فرماتے اور اس کے خلاف جواقوال وفتاویٰ ہوتے ان کا اعتبار نہیں کرتے۔

(۲)فتاویٰ صحابہؓ:اگر کسی مسئلہ میں نص نہیں ملتی اور اس مسئلہ میں کسی صحابی کا فتویٰ ہوتا، اس کو اختیار کرتے اور صحابہؓ کے اقوال کے دائرہ سے باہر نہیں نکلتے۔

(۳)اگر کسی مسئلہ میں مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ملتی تو حدیث مرسل اور ضعیف کو اپنے فتویٰ کی بنیاد بنالیتے۔

(۴)ضرورۃ ہی قیاس سے کام لیتے۔         

(المدخل:۱۶۶)

دیگر فقہی مکاتب

ائمہ اربعہ کے فقہی مکاتب ان کے طریقہ کار اور اصول فقہ کی تدوین کے ساتھ اسی دور میں بعض دیگر ائمہ مجتہدین کے فقہی  مکاتب بھی وجود میں آئے ، مثلاً امام ابوسعید، حسن بن یسار بصری، امام اوزاعی، امام سفیان بن سعید ثوری، امام لیث بن سعد، امام سفیان بن عیینہ، امام داؤد بن علی اصبھانی ظاہری، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ؛ لیکن ان حضران کا مسلک مدون نہ ہوسکا، اس لیے امت مسلمہ کی اکثریت مذاہب اربعہ کی مقلد ہوئی اور قبول عام انہی ائمہ اربعہ کے مسائل مستخرج کو حاصل ہوا۔ 

   (اعلام الموقعین:۱/۱۳۵۔۴۰)

فقہ اسلامی کا چوتھا دور

یہ دورتقلید شخصی کا دور ہے اور امت کا سواداعظم تقلید شخصی کا پابند ہے اور امت کے علماء نے ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ میں سے کسی ایک کی تقلید کو امت کے لیے لازم اور ضروری قرار دیا ہے؛ چنانچہ اس دور میں بڑے بڑے علماء نے ان ائمہ کی تقلید کو اپنے لیے ضروری تصور کیا اور اس پر عمل کیا اور آج تک پوری امت سوائے چند حضرات کے تقلید شخصی کے وجوب کے قائل ہیں۔           

    (المدخل:۱۷۱۔۱۸۲)

فقہ اسلامی کا پانچواں دور

چوتھی صدی کے نصف آخر سے عصر حاضر تک ہے، اس دور کی چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں:

الف:اس دور کے اہم امور میں سے یہ ہے کہ فقہی کتابوں کی طباعت شروع ہوئی اگر اس زمانہ میں کتابوں کی طباعت نہ ہوتی تو آج اتنی کتابیں میسر نہ ہوتیں۔                                                       

(تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)

ب:فقہ کے قواعد اور اصطلاحات کتابی شکل میں جمع کئے گئے۔              

    (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)

ج:اسی عہد میں شخصی اور عائلی مسائل کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔                

  (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)

د:اسی عہد میں فقہی تطبیقات کی تدوین اور کتب فتاویٰ کی تالیف ہوئی گو اس کا آغاز پہلے ہی ہوچکا تھا؛ مگراس دور میں اس کی کثرت ہوگئی اس لیے جو حضرات سرکاری مفتی کی حیثیت سے کام کرتے تھے یابلند پایہ علماء جن سے عوام الناس استفادہ کرتے تھے وہ اپنے فتاویٰ کو کتابی صورت میں جمع کرتے تھے ان میں سے اکثر کتب فتاویٰ ابواب فقہی پر مرتب کی گئی ہیں۔       

  (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۹۵)

ہ:اس عہد میں کتبِ فتاویٰ کی اہم کتابیں تصنیف کی گئیں، مثلاً فتاویٰ تاتارخانیہ، فتاویٰ خانیہ، فتاویٰ حامدیہ، فتاویٰ ہندیہ وغیرہ۔

(چراغِ راہ:۳۷۲، اسلامی قانون نمبر)

و:اسی عہد میں مجلۃ الاحکام الشرعیہ کی اشاعت بحیثیت قانون مدنی ازروئے فقہ احناف ہوئی۔

ز:اسی عہد میں قانون سازی کا حلقہ بے حد وسیع ہوگیا؛ چنانچہ تمام بلاداسلامیہ میں مختلف موضوعات کے متعلق قوانین وضع ہوئے، مثلاً تجارتی قوانین، جائیداد کے قوانین، اصولی قوانین، جسے قانون اجراء اور قانونِ مرافعہ جس کو ہمارے یہاں قانونِ محکمات حقوق کہا جاتا ہے، مملکتِ عثمانیہ اور ممالکِ اسلامیہ جیسے شام، فلسطین اور عراق میں اس زور شور سے قوانین وضع ہوئے کہ قریب قریب فقہ کے تمام ابواب کے احکام میں کم وبیش قانونی تعدیل یانسخ کا عمل نظر آتا ہے۔             

   (چراغِ راہ:۳۷۲، اسلامی قانون نمبر)


 

No comments:

Post a Comment