visitors

free counters

Sunday 11 September 2011

برطانیہ میں قانون توہین مذہب


برطانیہ کے قانون توہین مذہب BLASPHEME-LAWکے تحت ۱۶۱۲ء میں ایک مرتد کو زندہ جلا دیا گیا۔
الیور کرامویل کے دور ۱۶۴۸ء تا ۱۶۶۰ء میں تثلیث کے انکار یا عیسائی عقیدے کے کسی بھی جزو کی توہین مستوجب سزائے موت تھی۔ مذہبی مقدمات کے لیے اس دور میں مذہبی عدالتیں ہوتی تھیں۔ پھر مذہبی مقدمات کی سماعت عام عدالتوں کے سپرد کر دی گئیں۔
۱۶۷۷ء میں توہین مذہب کا انکار عیسائیت کے سلسلے میں موت کی سزا تو ختم کر دی گئی لیکن عدالتیں توہین مذہب کے ہر مقدمے میں بدستور شدید سزائیں دیتیں رہیں قانون میں کہا گیا تھا مذہب کی توہین حقیقت میں معاشرے کے خلاف بغاوت ہے۔
توہین مذہب کے متعلق قانون میں نرمی اس وقت آئی جب یورپ میں یہ حقیقت عملی طور پر مسلّم ہو گئی کہ بائیبل خدا کا کلام نہیں بلکہ انسانوں کی لکھی ہوئی تاریخ ہے۔ بائیبل کے تاریخ بن جانے کے بعد اس کی توہین بھی سنگین جرم نہ رہی۔ لیکن توہین کا قانون پھر بھی برطانیہ میں باقی رہا۔ اٹھارہویں صدی تک عدالتوں کے سامنے توہین عیسائیت یا توہین بائیبل کا جو بھی مقدمہ آتا وہ اس میں سخت سزا دیتیں۔ ۱۸۱۳ء کے بعد عقیدہ تثلیث کا انکار اگرچہ قانون توہین سے خارج کر دیا گیا تاہم مذہب کی توہین فوجداری قانون کے دائرے میں رہی۔ عیسائیت کے عقائد پر بحث و تمحیص تو جرم نہ رہی۔ لیکن ان کی توہین بدستور مستوجب سزا رہی یہ قانون اب بھی موجود ہے اگرچہ اس پر عمل شاذ ہوتا ہے۔
۱۹۷۸ء میں ایک مقدمے میں قانون توہین کے حوالے سے ایک جریدے کے ایڈیٹر کو جرمانہ کیا گیا۔ اس جریدے کا نام (GAY EYES) تھا۔ یہ ہم جنس پرستوں کا ترجمان تھا۔ اس میں ایک مضمون میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نعش کے بارے میں جب وہ صلیب سے اتارے گئے نہایت بے ہودہ زبان استعمال کی گئی تھی۔ اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے لکھا تھا کہ مسیحیت کی ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کی توہین جرم ہونی چاہیے۔

No comments:

Post a Comment