visitors

free counters

Monday, 12 September 2011

بھارت کی ہاکی کھلاڑی کا قبولِ اسلام


میں نے فطرت کو پالیا

بھارت کی ہاکی کھلاڑی کا قبولِ اسلام

قبولِ اسلام سے قبل عفیفہ ایک آزاد خیال ہندو لڑکی اور ہاکی کی کھلاڑی تھی۔ مگر جب اس نے اسلام کو فطرت کے قریب اور اپنے ضمیر کی آواز پایا تو اسے قبول کرلیا۔ قبولِ اسلام کے بعد معروف مبلغ محمد کلیم اللہ صدیقی کی بیٹی اسما نے ان سے انٹرویو کیا جو پیش ہے۔ (ادارہ)
m ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہندستان کی ایک ہاکی کھلاڑی آرہی ہیں تو ہم سوچ رہے تھے کہ آپ ہاکی کے ڈریس میں آئیں گی، مگر آپ ماشاء اللّٰہ برقع میں ملبوس، اور دستانے پہن کر مکمل پردے میں ہیں۔ آپ اپنے گھر سے برقع اوڑھ کر کیسے آئی ہیں؟
l الحمدللہ میں پچھلے دو ماہ سے شرعی پردے میں رہتی ہوں۔
m ابھی آپ کے گھر میں تو کوئی مسلمان نہیں ہوا؟
l جی، میرے گھر میں ابھی میرے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے۔ اس کے باوجود میں الحمدللہ کوشش کرتی ہوں کہ میں اگرچہ گھر میں اکیلی مسلمان ہوں مگر میں آدھی مسلمان تو نہ بنوں، آدھی اِدھر، آدھی اُدھر، یہ تو نہ ہونا چاہیے۔
m آپ کو ہاکی کھیلنے کا شوق کیسے ہوا، یہ تو بالکل مردوں کا کھیل ہے؟
l اصل میں، مَیں ہریانہ کے سونی پت ضلع کے ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں۔ ہمارے گھر میں سبھی مرد پڑھے لکھے ہیں اور اکثر کبڈی کھیلتے ہیں۔ میں نے اسکول میں داخلہ لیا اور ابتدا ہی سے کلاس میں ٹاپ کرتی رہی۔ سی بی ایس ای بورڈ میں میری ہائی اسکول میں گیارھویں پوزیشن رہی۔ مجھے شروع ہی سے مردوں سے آگے نکلنے کا شوق تھا، اس کے لیے میں نے اسکول میں ہاکی کھیلنا شروع کی۔ پہلے ضلع میں نویں کلاس میں سلیکشن ہوا، پھر ہائی اسکول میں ہریانہ اسٹیٹ کے لیے لڑکیوں کی ٹیم میں میرا سلیکشن ہوگیا۔ ۱۲ویں کلاس میں بھی میں نے اسکول میں ٹاپ کیا اور سی بی ایس ای بورڈ میں میرا نمبر ۱۸واں رہا۔ اسی سال میں خواتین کی بھارتی ہاکی ٹیم میں منتخب ہوگئی۔ عورتوں کے ایشیا کپ میں بھی کھیلی اور بہت سے ٹورنامنٹ میری کارکردگی کی وجہ سے جیتے گئے۔ اصل میں ہاکی میں بھی سب سے زیادہ فعال کردار سنٹرفارورڈ کا ہوتا ہے، یعنی سب سے آگے درمیان میں کھیلنے والے کھلاڑی کا۔ میں ہمیشہ سنٹرفارورڈ پوزیشن پر کھیلتی رہی۔ مردوں سے آگے بڑھنے کا جنون تھا، مگر روزانہ رات کو میرا جسم مجھ سے شکایت کرتا تھا، کہ یہ کھیل عورتوں کا نہیں ہے۔ مالک نے اپنی دنیا میں ہر ایک کے لیے الگ کام دیا ہے۔ ہاتھ پاؤں بالکل شل ہوجاتے تھے، مگر میرا جنون مجھے دوڑاتا تھا اور اس پر کامیابی اور واہ واہ مجھے فطرت کے خلاف دوڑنے پر مجبور کرتی تھی۔
m اسلام قبول کرنے سے پہلے تو آپ کا نام پریتی تھا؟
l حضرت کلیم صدیقی نے میرا نام عفیفہ، ابھی یعنی کچھ ماہ پہلے رکھا ہے۔
m آپ کے والد کیا کام کرتے ہیں؟
l وہ سی بی ایس ای بورڈ کا ایک اسکول چلاتے ہیں، اس کے پرنسپل ہیں۔ میرے ایک بڑے بھائی اس میں پڑھاتے ہیں، میری بھابی بھی پڑھاتی ہیں۔ وہ سب کھیل سے دل چسپی رکھتے ہیں، میری بھابی بیڈمنٹن کی کھلاڑی ہیں۔
m ایسے آزاد ماحول میں زندگی گزارنے کے بعد ایسے پردے میں رہنا آپ کو کیسا لگتا ہے؟
l ا نسان اپنی فطرت سے کتنا ہی دُور ہوجائے اور کتنے زمانے تک دُور رہے، جب بھی وہ اس کی طرف پلٹتا ہے تو وہ کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرے گا۔ وہ ہمیشہ محسوس کرے گا کہ اپنے گھر لوٹ آیا۔ اللہ نے عورتوں کی فطرت مردوں سے بالکل الگ بنائی ہے۔ بنانے والے نے عورت کو چھپنے اور پردہ میں رہنے کے لیے بنایا۔ اسے سکون اور چین، لوگوں کی ہوس بھری نگاہ سے بچے رہنے میں ہی مل سکتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے، جس کے سارے حکم انسانی فطرت سے میل کھاتے ہیں، مردوں کے لیے مردوں کے فطرت کی بات، اور عورتوں کے لیے عورتوں کی فطرت کی بات۔
m آپ کی عمر کتنی ہے؟
l میری تاریخ پیدایش جنوری ۱۹۸۸ء ہے، گویا ۲۲سال ۔
m مسلمان ہوئے کتنے دن ہوئے؟
l ساڑھے چھے مہینے کے قریب ہوئے ہیں؟
m آپ کے گھر میں آپ کے اتنے بڑے فیصلے پر مخالفت نہیں ہوئی؟
l ہوئی اور خوب ہوئی، مگر سب جانتے ہیں کہ عجیب دیوانی لڑکی ہے، جو فیصلہ کرلیتی ہے پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ اس لیے شروع میں ذرا سختی ہوئی مگر جب اندازہ ہوگیا کہ میں دُور تک جاسکتی ہوں تو سب موم ہوگئے۔
m آپ ہاکی اب بھی کھیلتی ہیں؟
l نہیں، اب میں نے ہاکی چھوڑ دی ہے۔ 
m اسے تو گھر والوں نے بہت محسوس کیا ہوگا؟
l ہاں، مگر فیصلہ لینے کا حق مجھے تھا۔ میں نے فیصلہ لیا اور میں نے اپنے اللہ کا حکم سمجھ کر لیا، اب اللہ کے حکم کے آگے بندوں کی چاہت کیسے ٹھیرسکتی ہے۔
m آپ کے تیور تو گھر والوں کو بہت سخت لگتے ہوں گے؟
l آدمی کو ڈِھل مِل نہیں ہونا چاہیے۔ اصل میں آدمی پہلے یہ فیصلہ کرے کہ میرا فیصلہ حق ہے کہ نہیں، اور اگر اس کا حق پر ہونا ثابت ہوجائے، تو پہاڑ بھی سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔
m آپ کے اسلام میں آنے کا ذریعہ کیا چیز بنی؟
l میں ہریانہ کے اس علاقے کی رہنے والی ہوں جہاں کسی ہندو کا مسلمان ہونا تو دُور کی بات ہے، اُلٹا کتنے مسلمان ہیں جو ہندو بنے ہوئے ہیں۔ خود ہمارے گاؤں میں تیلیوں کے بیسیوں گھر ہیں جو ہندو ہوگئے ہیں، مندر جاتے ہیں، ہولی دیوالی مناتے ہیں۔ لیکن مجھے اسلام کی طرف وہاں جاکر رغبت ہوئی جہاں جاکر خود مسلمان اسلام سے آزاد ہوجاتے ہیں۔
m کہاں اور کس طرح؟ ذرا بتائیں؟
l میں ہاکی کھیلتی تھی تو بالکل آزاد ماحول میں رہتی تھی۔ آدھے سے کم کپڑوں میں ہندستانی روایات کا خیال بھی ختم ہوگیا تھا۔ ہمارے اکثر کوچ مرد رہے۔ مرد ٹیم کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ٹیم میں ایسی بھی لڑکیاں تھیں جو رات گزارنے بلکہ خواہشات پوری کرنے میں ذرّہ برابر کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں۔ میرے اللہ کا کرم تھا کہ مجھے اس نے اس حد تک نہ جانے دیا۔ گول کے بعد اور میچ جیت کر مردوں عورتوں کا گلے لگ جانا، چمٹ جانا تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔ میری ٹیم کے کوچ نے کئی دفعہ بے تکلفی میں میرے کسی شاٹ پر ٹانگوں یا کمر میں چٹکیاں بھریں۔ میں نے اس پر نوٹس لیا اور ان کو وارننگ دی، مگر ٹیم کی ساتھی لڑکیوں نے مجھے بُرا بھلا کہا کہ اتنی سی بات کو دوسری طرح لے رہی ہو، مگر میرے ضمیر پر بہت چوٹ لگی۔
ہماری ٹیم ایک ٹورنامنٹ کھیلنے ڈنمارک گئی۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ ڈنمارک کی ٹیم کی سنٹرفارورڈ کھلاڑی نے ایک پاکستانی لڑکے سے شادی کرکے اسلام قبول کرلیا ہے، اور ہاکی کھیلنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس نے شادی کے لیے اس لڑکے کی محبت میں اسلام قبول کیا ہے۔ مجھے یہ بات عجیب سی لگی۔ ہم جس ہوٹل میں رہتے تھے، اس کے قریب ایک پارک تھا، اس پارک سے ملا ہوا ان کا مکان تھا۔ میں صبح کو اس پارک میں سیر کر رہی تھی کہ ڈنمارک کی ایک کھلاڑی نے مجھے بتایا: وہ سامنے برٹنی کا گھر ہے جو ڈنمارک کی ہاکی کی مشہور کھلاڑی رہی ہے۔ اس نے اپنا نام اب سعدیہ رکھ لیا ہے اور گھر میں رہنے لگی ہے، مجھے اس سے ملنے کا شوق ہوا۔ میں ایک ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس کے گھر گئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جانے والی تھی، بالکل موزے ، دستانے اور پورے برقعے میں ملبوس۔ میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی اور ہم دونوں ہنسنے لگیں۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مجھے پہچانتی تھی۔ وہ بولی میں نے تمھیں کھیلتے دیکھا ہے۔ سعدیہ نے کہا: ’ہمارے ایک سسرالی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے، مجھے وہاں جانا ہے، ورنہ میں آپ کے ساتھ کچھ باتیں کرتی۔ میں تمھارے کھیلنے کے انداز سے بہت متاثر رہی ہوں۔ ہاکی کا کھیل عورتوں کی فطرت سے میل نہیں کھاتا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ تمھاری صلاحیتیں فطرت سے رچاؤ رکھنے والے کاموں میں لگیں۔ میں تم سے ہاکی چھڑوانا چاہتی ہوں‘۔ میں نے کہا: ’آپ میرے کھیل کے انداز سے متاثر ہیں اور مجھ سے کھیل چھڑوانا چاہتی ہیں، جب کہ میں تو آپ کا ہاکی چھوڑنا سن کر آپ سے ملنے آئی ہوں کہ ایسی مشہور کھلاڑی ہوکر آپ نے کیوں ہاکی چھوڑ دی؟ میں آپ کو فیلڈ میں لانا چاہتی ہوں‘۔ سعدیہ نے کہا:’اچھا آج رات کو میرے ساتھ کھانے کی دعوت قبول کرو‘۔ میں نے کہا کہ آج تو نہیں، کل ہوسکتا ہے، اور یہ طے ہوگیا۔
میں ڈنر پر پہنچی، تو سعدیہ نے اپنے قبولِ اسلام کی روداد مجھے سنائی اور بتایا کہ میں نے شادی کے لیے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اپنی شرم اور اپنی عصمت کی عزت و حفاظت کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کے لیے شادی کی ہے۔ سعدیہ نہ صرف ایک مسلم خاتون تھی بلکہ اسلام کی بڑی داعیہ تھی۔ اس نے فون کرکے دو انگریز لڑکیوں کو اور ایک معمر خاتون کو بلایا، جو ان کے محلے میں رہتی تھیں، اور سعدیہ کی دعوت پر مسلمان ہوگئی تھیں۔ وہ مجھے سب سے زیادہ اسلام کے پردے کے حکم کی خیر و برکت بتاتی رہیں اور بہت اصرار کر کے مجھے برقع پہنا کر باہر جاکر آنے کو کہا۔ میں نے برقع پہنا۔ ڈنمارک کے بالکل مخالف ماحول میں، میں نے برقعے پہن کر گلی کا چکر لگایا، مگر برقع میرے دل میں اُتر گیا۔ بیان نہیں کرسکتی کہ میں نے مذاق اڑانے یا زیادہ سے زیادہ اُس کی خواہش کے لیے برقع پہنا تھا، مگر مجھے اپنا انسانی قد بہت بڑھا ہوا محسوس ہوا۔ اب مجھے اپنے کوچ کی بے شرمانہ شہوانی چٹکیوں سے گھن بھی آرہی تھی۔ میں نے برقع اُتارا اور سعدیہ کو بتایا کہ مجھے واقعی برقع پہن کر بہت اچھا لگا، مگر آج کے ماحول میں جب برقعے پر مغربی حکومتوں میں پابندی لگائی جارہی ہے، برقع پہننا کیسے ممکن ہے، اور غیرمسلم کا برقع پہننا تو کسی طرح ممکن نہیں؟ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتی رہیں اور بہت اصرار کرتی رہیں۔ میں نے معذرت کی کہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ابھی مجھے دنیا کی نمبر ون ہاکی کی کھلاڑی بننا ہے، یوں میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر جائے گا۔ سعدیہ نے کہا: ’مجھے آپ کو ہاکی کی فیلڈ سے برقعے میں لانا ہے۔ میں نے اپنے اللہ سے دعا بھی کی ہے اور بہت ضد کرکے دعا کی ہے‘۔ اس کے بعد ہم ۱۰روز تک ڈنمارک میں رہے۔ وہ مجھے فون کرتی رہی، دوبار ہوٹل میں ملنے آئی، اور مجھے اسلام پر کتابیں دے کر گئی۔
m آپ نے وہ کتابیں پڑھیں؟
l کہیں کہیں سے دیکھی ہیں۔
m اس کے بعد اسلام میں آنے کا کیا ذریعہ بنا؟
l میں بھارت واپس آئی۔ ہمارے یہاں نریلا کے پاس گاؤں کی ایک لڑکی (جس کے والد ۱۹۷۴ء میں ہندو ہوگئے تھے، اور بعد میں آپ کے والد مولانا کلیم اللہ کے ہاتھوں مسلمان ہوگئے تھے، ان کی مرید بھی تھے اور حج بھی کر آئے تھے) ہاکی کھیلتی تھی۔ وہ دلی اسٹیٹ کی ہاکی ٹیم میں تھی اور بھارت کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد روس میں کھیلنے جانے والی تھی۔ وہ مشورے اور کھیل کے انداز میں رہنمائی کے لیے میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے ڈنمارک کی مشہور کھلاڑی برٹنی کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے والد صاحب کو ساری بات بتائی۔ وہ اپنی لڑکی کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے، اور مجھے حضرت کی کتاب آپ کی امانت اور اسلام ایک پریچے دی۔ آپ کی امانت چھوٹی سی کتاب تھی، برقعے نے میرے دل میں جگہ بنا لی تھی۔اس کتاب نے برقع کے حکم کو میرے دل میں بٹھا دیا۔ میں نے حضرت صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ دوسرے روز حضرت کا پنجاب کا سفر تھا۔ اللہ کا کرنا کہ بہال گڑھ ایک صاحب کے یہاں ہائی وے پر ملاقات طے ہوگئی اور حضرت نے ۱۰، ۱۵ منٹ مجھ سے بات کر کے کلمہ پڑھنے کو کہا، اور انھوں نے بتایا کہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ برٹنی نے اپنے اللہ سے آپ کو برقعے میں لانے کی بات منوا لی ہے۔ بہرحال میں نے کلمہ پڑھا اور حضرت نے میرا نام عفیفہ رکھا، اور کہا: عفیفہ پاک دامن کو کہتے ہیں۔ چونکہ فطرتاً آپ اندر سے پاک دامنی کو پسند کرتی ہیں، میری بھانجی کا نام بھی عفیفہ ہے، میں آپ کا نام عفیفہ ہی رکھتا ہوں۔
m اس کے بعد کیا ہوا؟
l میں نے برٹنی کو فون کیا اور اس کو بتایا۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ جب میں نے حضرت کا نام لیا تو انھوں نے اپنے شوہر سے بات کرائی۔ ڈاکٹر اشرف ان کا نام ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حضرت کی بہن کے یہاں رہنے والی ایک حرا کی شہادت اور اس کے چچا کے قبولِ اسلام کی کہانی سن کر ہمیں اللہ نے اسلام کی قدر سکھائی ہے، اور اسی کی وجہ سے میں نے برٹنی سے شادی کی ہے، یہ کہہ کر کہ اگر تم اسلام لے آتی ہو تو میں تم سے شادی کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعد میں نے اخبار میں اشتہار دیا، گزٹ میں نام بدلوایا، اپنی ہائی اسکول اور انٹر کی ڈگریوں میں نام بدلوایا اور ہاکی سے ریٹائرمنٹ لے کر گھر پر اسٹڈی شروع کی۔
m اب آپ کا کیا ارادہ ہے ، آپ کی شادی کا کیا ہوا؟
l میں نے آئی سی ایس (انڈین سول سروس) کی تیاری شروع کی ہے۔ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں ایک آئی سی ایس افسر بنوں گی اور برقع پوش آئی ایس آئی افسر بن کر اسلامی پردے کی عظمت لوگوں کو بتاؤں گی۔
m آپ اس کے لیے مطالعہ کر رہی ہیں؟
l میں نیٹ پر اسٹڈی کر رہی ہوں۔ میرے اللہ نے ہمیشہ میرے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے کہ میں جو ارادہ کرلیتی ہوں، اسے پورا کردیتے ہیں۔ جب کافر تھی تو پورا کرتے تھے، اب تو اسلام کی عظمت کے لیے میں نے ارادہ کیا ہے، اللہ ضرور پورا کریں گے۔ مجھے ایک ہزار فی صد اُمید ہے کہ میں پہلی بار میں ہی آئی سی ایس امتحانات پاس کرلوں گی۔
m مگر آپ کے انٹرویو کا کیا ہوگا؟
l برقع اوراسلام کے سارے مخالف بھی اگر انٹرویو لیں گے تو وہ میرے سلیکشن کے لیے ان شاء اللہ مجبور ہوجائیں گے۔
m گھر والوں کو آپ نے دعوت نہیں دی؟
l ابھی دعا کر رہی ہوں، اور قریب کر رہی ہوں۔ ہمیں ہدایت کیسے ملی؟ ہندی میں مَیں نے گھر والوں کو پڑھوائی۔ سب لوگ حیران رہ گئے، اور اللہ کا شکر ہے کہ ذہن بدل رہا ہے۔
m کوئی پیغام آپ دیں گی؟
l عورت کا بے پردہ ہونا اس کی حددرجہ توہین ہے۔ مرد خدا کے لیے، اپنے جھوٹے مطلب اور اپنا بوجھ عورتوں پر ڈالنے کے لیے ان کو بازاروں میں بے پردہ پھرا کر ان کی تحقیر و تذلیل سے باز رہیں، اور عورتیں اپنے مقام اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے اسلام کے پردے کے حکم کی قدر کریں۔ (بہ شکریہ ماہنامہ ارمغان، پھلت، ضلع مظفرنگر، یوپی، نومبر ۲۰۱۰ء)

No comments:

Post a Comment