visitors

free counters

Monday, 19 September 2011

جلالہ کیا ہے اور اس کے احکام

جلاّلہ کے احکام: ”جلاّلہ“ ایسے حلال جان دار (از قسم مرغ یا چوپایہ) کو کہتے ہیں جس کی خوراک کا پورا یا بیشتر حصہ نجس (ناپاک) اشیاءپر مشتمل ہو۔
درج ذیل سطور میں جلالہ کے بارے میں دو احکام بیان کئے جا رہے ہیں۔ یہ فتاوی سعودی عرب کے جید عالم دین ڈاکٹر سلمان عودہ کی ویب سائیٹ سے حاصل کئے گئے ہیں اور اس غرض سے ایقاظ میں شائع کئے جا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی برائیلر مرغ وسیع پیمانے پر فروخت ہوتی ہے اور جلالہ کے حکم میں آتی ہے

سائل: جلالہ (ایسی گائے جس کی خوراک کارخانے میں نجس اشیاءسے تیار کی جاتی ہو) کے دودھ پینے کا کیا حکم ہے۔ ہم یورپی ممالک میں مقیم ہیں اور ہمارے جیسے درمیانے طبقے کے مسلمان اس قسم کے گائے کے دودھ کو خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں جو بازار میں عام گائے کے دودھ سے کم قیمت پر دستیاب ہے اور سبز چارے پر پلنے والی گائے کا دودھ بازار میں گِراں قیمت ہے۔ جلالہ گائے کی خوراک مردہ جاندار کے گوشت سے کارخانوں میں تیار کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر خالد بن علی پروفیسر امام محمد یونیورسٹی سعودی عرب اس سوال کا جواب دیتے ہیں
جلالہ کے احکام میں فقہاءکرام کے ہاں تفصیلات پائی جاتی ہیں۔ بعض اہل علم ایسے جانور کا حکم نجس خوراک کی کثرت اور قلت کو سامنے رکھ کر دیتے ہیں۔ برسبیل مثال اگر ایسے جانور کی خوراک کا %٧٥ نجس ہو تو اس کا گوشت یا دودھ حرام ہوگا۔ البتہ اگر حلال خوراک کا بیشتر حصہ یا آدھا حصہ نجس خوراک پر مشتمل ہو تو ان علمائے کرام کی تحقیق کے مطابق اس کا حکم حلال جانو رکا سا ہے۔
اہل علم کی ایک دوسری رائے یہ ہے کہ خوراک کی مقدار سے قطع نظر یہ دیکھا جائے گا کہ جانور کے گوشت اور دودھ پر اُس خوراک کا کیا اثر ہوا ہے۔ اگر دودھ یا گوشت اِس خوراک کی وجہ سے متغیر ہو گیا ہے تو اس کا دودھ یا گوشت خوراک کے لئے استعمال کرنا ناجائز ہوگا بصورت دیگر اگر گوشت اور دودھ متغیر نہیں ہوتا تو یہ جانور خود اور اس سے حاصل ہونے والی خوراک (دودھ / انڈا) بھی حلال ہوگی۔
ہمارے نزدیک اہلِ علم کی یہ دوسری رائے درست ہے اور قاعدے کی رو سے بھی یہ رائے قرین قیاس ہے کہ موسمی اثرات اور دوسری زمینی اثرات سے ناپاک چیزیں تبدیل ہو جاتی ہیں اور تبدیل ہو جانے کے بعد حلال چیز کے حکم میں آجاتی ہیں۔
بنا بریں گائے کو جو خوراک دی جاتی ہے وہ خون، گوشت اور دودھ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ناپاک خوراک کا حکم اس تبدیل شدہ حلال اجزاءپر منطبق نہیں ہو سکتا۔
واﷲ اعلم بالصواب
سوال: کیا پالتو بلی کو حرام جانور کا گوشت کھلایا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر یوسف بن احمد مدرس شریعہ اکیڈیمی سعودی عرب جواب دیتے ہیں
الحمدﷲ وحدہ وبعد
بلی کو حرام گوشت کھلانے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ فقہائے اسلام نے جلالہ کے احکام میں اس بات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے خواہ یہ نجس خوراک حلال جانور کو دی جائے یا از قسم بلی، کتا اور شکاری باز کو دی جائے ہر دو قسم کے جانوروں کے احکام پر سیر حاصل بحث فقہ کی کتب میں مذکور ہے۔علامہ کاسانی کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسا آٹا جو نجس پانی سے گوندھا گیا تھا انسانی خوراک کیلئے استعمال میں نہیں لایا جائے گا البتہ کتے کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ جو پاک خوراک کسی معلوم نجاست کے گرنے سے ناپاک ہوئی ہو تو اُس کا کھانا ناجائز ہے اور کوئی دوسرا فائدہ حاصل کرنا درست ہے۔ اور یہی بیشتر علمائے کرام کی رائے ہے۔
جہاں تک حلال جانور کو نجس خوراک کھلانے کا تعلق ہے تو اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
امام احمد کہتے ہیں کہ حلال جانور کو نجس خوراک کھلانا جائز ہے ان کا یہ قول کتاب الفروع ج ٦ ص ٢٧٢ میں مذکور ہے۔ المجموع ج ٩ ص ٧٢ میں شافعہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ حلال جانور کو نجس خوراک کھلانا مکروہ ہے جبکہ نجس خوراک میں کوئی حلال اجزاءنہ ملائے گئے ہوں البتہ اگر اس میں پانی وغیرہ ملا لیا گیا ہو تو کچھ حرج نہیں۔
اِمام احمد کا ایک اور قول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حلال جانور کو نجس خوراک دی جاسکتی ہے جبکہ اُس سے فوری طور پر دودھ لینا مطلوب نہ ہو یا اِس نجس خوراک کے اثر کے دوران میں اُسے ذبح کرنا بھی مقصود نہ ہو۔ (الفروع ج ٦ ص ٢٧٢)
امام احمد سے ہی ایک اور قول ان الفاظ سے مذکورہ بالا کتاب میں نقل ہوا ہے کہ حلال جانور کو کسی صورت میں نجس خوراک نہ کھلائی جائے۔
ہمارے نزدیک حلال جانور کو نجس خوراک چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ نجس خوراک کا اثر اگر جانور کے گوشت یا دودھ میں سرایت کر جائے تو اُسے چرنے کیلئے کھلا نہ چھوڑا جائے بلکہ اُسے باندھ کر عام خوراک کھلائی جائے یہاں تک کہ نجس خوراک کا اثر زائل ہو جائے۔ ہمارا استدلال حضرت عبداﷲ بن عمر کی اِس روایت سے ماخوذ ہے کہ اصحاب رسول حِجر کے مقام پر فروکش ہوئے جو کہ قوم ثمود کی ایک بستی کا نام ہے۔ اپنی اقامت کے دوران میں انہوںنے حجر کے کنویں سے سفر کے لئے پانی بھی محفوظ کرلیا اور آٹا بھی گوندھ لیا۔ نبی علیہ السلام کو جب معلوم ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ مشکیزوں میں جو پانی ذخیرہ کیا گیا ہے وہ انڈیل دیں اور آٹا خوراک کے لئے اونٹوں کو کھلایا جائے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
حجر کی بستی جہاں کے پانی کو اﷲ کے عذاب کی وجہ سے نبی علیہ السلام نے پینے سے منع کردیا تھا، انسان کیلئے تو حرام تھا لیکن حلال جانور کو اُس پانی سے گوندھے گئے آٹے سے کھلانا جائز قرار دیا تھا۔ جب اونٹ کو حرام پانی سے گوندھے گئے آٹے کی خوراک کھلائی جا سکتی ہے تو ایسا جانور جو حلال نہیں ہے اِس خوراک کو بالاولی کھا سکتا ہے۔
ابن مفلح وغیرہ نے بھی مذکورہ بالا حدیث سے یہی استدلال کیا ہے اور الفروع ج ٦ ص ٢٧٢ میں مذکور ہے۔

No comments:

Post a Comment