visitors

free counters

Sunday, 18 September 2011

بخاری میں مذکور قسطنطنیہ پر چڑھائی کرنے والا لشکر اور مولانا وحید الدین خاں


بخاری میں مذکور قسطنطنیہ پر چڑھائی کرنے والا لشکر، نہ کہ خان صاحب کی جماعت!
حذیفہ عبد الرحمن- کراچی
  
  
دین اسلام پر 'فلسفہ' کی ملمع کاری وقت کا ایک مقبول فیشن بنتا جا رہا ہے۔ اس ذہنیت کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایمانیات کے بنیادی اموراور شرعی مسلمات 'عقیدہ کی کشمکش' کے بجائے محض 'رائے کے اختلاف' کا عنوان بن کر رہ جائیں۔ 'مولانا وحیدالدین خان' (جو کہ موجودہ دور کے مفکرین میں سے ہیں ) کااسم گرامی بھی بعض نظریات کے لحاظ سے ایسے ہی لوگوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ خود کو منہج ِسلف کا خوشہ چین ثابت کرنے کی جوکوشش 'تعبیر کی غلطی' اور 'دین و شریعت' میں جا بجا نظر آتی ہے،اس کے تار پود اب بکھرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔
'دعوت' (بہت ہی محدود معنوں میں)ان کے ذہن پر اس طرح چھا چکی ہے کہ اسلام کے دیگر امور اب ان کو اسی کا پرتو نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پیش خدمت ہے ۔
صحیح بخاری کی ایک مشہور حدیث کے مطابق ایک مرتبہ رسول اﷲ ام حرام بنت ملحانؓ کے ہاں دوپہر کا کھانا نوش فرما کر آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ ام حرامؓ نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا "میری امت کے کچھ لوگ مجھے دکھائے گئے جو سمندر میں ایسے سوار ہیں گویا بادشاہ اپنے تختوں پر۔ ام حرامؓ نے عرض کی ،یا رسول اﷲ آپ دعا فرمائیے کہ اﷲ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ نے فرمایا، ہاں! تم ان میں شامل ہو۔ پھر آپ دوبارہ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ مجھے دکھائے گئے جو بحر اخضر میں ایسے سفر کررہے ہیں گویا بادشاہ اپنے تختوں پر۔ ام حرامؓ نے پھر عرض کی کہ آپ دعا فرمائیے کہ اﷲ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ تم بعد والے گروہ میں نہیں البتہ پہلے گروہ میں شامل ہو۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد، کتاب الاستئذان، کتاب التعبیر )
مندرجہ بالا حدیث میں جن دو گرہوں کاتذکرہ ہے اس کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا رقم طراز ہیں:
"اس حدیث میں دو ایسے مسلم قافلوں کا ذکر ہے جو دعوتِ الی اﷲکے لئے بیرونی سفر کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں اس سے مراد دو مسلم ڈائسپورا (Muslim Diaspora) ہے۔پہلا ڈائسپورا وہ ہے جو صحابہ کے زمانے میں پیش آیا، جس کی ایک ممبر ام حرام تھیں۔ اور دوسرا ڈائسپورا وہ ہے جو موجودہ زمانے میں پیش آیا ہے، اور آپ جس کا ایک حصہ ہیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ ا س حدیث میں آپ کے لئے ایک بشارت ہے۔۔۔۔ ام حرام اگر پہلے قافلے میں شامل تھیں توآپ دوسرے قافلے میں شامل ہیں" ۔
(الرسالہ ۔ اپریل 2006۔ ص27)
'قتالِ فی سبیل اﷲ' کے لئے روانہ ہونے والے لشکر کو کس طرح ایک 'دعوتی گشت' میں تبدیل کر دیا گیا وہ ایک الگ داستان ہے، مگر جس 'دل' کی بات مانتے ہوئے تین برس قبل انہوں نے ایک خاتون کو دوسرے قافلے کا ممبرہونے کی 'بشارت 'سنائی تھی، اب اسی 'دل' نے بالآخر مولانا کوبھی مذکورہ گروہ کی رکنیت کے 'سرٹیفیکیٹ 'سے نواز دیا۔ ( ا لرسالہ ۔ فروری 2009۔ ص42)
'مغفرت کے پروانے ' جو کبھی کلیسا کی تاریخ میں ان کے مذہبی رہنما 'فروخت' کیا کرتے تھے کیا اب 'اسلامی مفکرین' کے ہاتھوں بھی 'فی سبیل اللہ' تقسیم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے؟ اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے کہ وہ حضرات بھی اب مولانا سے شاکی نظر آتے ہیں جو نہ صرف مولانا کی فکر کے سرگرم حامی ہیں، بلکہ انہوں نے اپنے بیشتر نظریات مولانا ہی کے افکار سے مستعا ر لیئے ہیں ۔
(ملاحظہ فرمائیں ماہنامہ 'الشریعہ' شمارہ اکتوبر 2006 ۔مضمون 'سی پی ایس انٹرنیشنل ، کسی نئے فتنے کی تمہید؟' ۔عمار ناصر )
اب ذرا اس حدیث کی طرف آئیے جو اس معاملہ میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ، جو مولانا کی نگاہوں سے نہ جانے کیوں اوجھل رہ گئی:
امام بخاریؒ روایت لائے ہیں کہ رسول اﷲ نے فرمایا:
"میری امت کا وہ پہلا لشکر جو بحری جہا د کرے گا، اس پر جنت واجب ہوگئی۔ ام حرامؓ نے پوچھا کیا میں اس لشکر میں شامل ہوں گی؟۔ آپ نے فرمایا ، ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میری امت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گا وہ بھی بخشا بخشا یا ہے۔ ام حرام ؓ نے پھرپوچھا کیا میں اس لشکر میں شامل ہوں گی؟۔ آپ نے فرمایا ، نہیں ۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب ما قیل فی قتال الروم ۔ملخصاً)
یہ حدیث اس بات کی صراحت کر دیتی ہے کہ جس لشکر کو "بشارت" دی جا رہی ہے وہ اسلام کے اُس عہدِ اول ہی کا وہ پہلا لشکر ہے جس نے قسطنطنیہ پر چڑھائی کی تھی، نہ کہ' صدیوں 'بعدظہور پذیر ہونے والی کچھ اور شخصیات۔اس روایت کی تشریح فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں حافظ ابن حجرؒ نے ان دونوں گروہ کی نشاندہی بھی کر کے بتا دی ہے۔ ' اول جیش' والی اس حدیث کی طرف اشارہ تک نہ کرنے میں کیوں انہوں نے اپنی عافیت سمجھی،اس کی وجہ وہی بتا سکتے ہیں۔
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
ایک معتبر روایت کے مطابق جب مولانا سے سوال کیا گیا کہ جاوید احمد غامدی حدیث اور سنت میں فرق کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ مولانا نے جواب دیتے ہوئے غامدی صاحب اور ان کے ہمنواؤں کے متعلق فرمایا کہ 'یہ لوگ شوشے چھوڑنے کے عادی ہیں'۔ حضرت کا تبصرہ بالکل بجا، مگر کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جو 'نادر تشریحات' مولانا کے قلم سے نکل رہی ہیں ان کے' علمی مراجع' کون سے ہیں؟
پوری اسلامی تاریخ میں اگر مولانا کی نظر صرف 'صلح حدیبیہ' پر جا کر ٹھہر جاتی ہے تو آخر ان نکتہ سنج افراد کا کیا قصور ہے جن کے نزدیک حدیث اور سنت کی نئی تعریفات منظر عام پر لانا ہی علمی خدمت ہو۔ 'نظر' بہرحال اپنی اپنی ہوا کرتی ہے اور 'زاویہ نظر' کا معاملہ یقیناً اس سے بھی زیادہ نازک ہوتا ہے۔
ایک اور مثال 'بلا تبصرہ 'ملاخطہ فرمائیں۔
"عبداﷲبن زبیر کی ماں(اسماء)نے ان کو ایک بڑے اقدام پر ابھارا۔ چنانچہ ایک شخص جو اقدام کا ارادہ چھوڑ چکا تھا، وہ دوبارہ اقدام کے لئے آمادہ ہو گیا۔ شہنشاہ اکبر کی ماں (مریم مکانی) نے اکبر کو مُلّا عبدالنبی کے خلاف کارروائی سے روکا۔ چنانچہ اکبر ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے باز رہا۔ راقم الحروف اگر بچپن میں ماں سے محروم ہو جاتا۔ یا اگر مجھ کو ایسی ماں ملتی جو مجھے اپنے "دشمنوں" کے خلاف لڑنے پر اکساتی رہتی تو یقینی طور پر میری زندگی کا رخ بالکل دوسرا ہوتا۔ اﷲتعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسے انجام سے بچایا، اور مجھ کو اپنی صداقت کے اظہار کا ذریعہ بنا دیا۔(خاتونِ اسلام ۔ ص 204) کہیں یہ ایسی ہی تاویلات کا کمال تو نہیں کہ جن کی بدولت موصوف مغربی اور ہندو سامراج کی آنکھوں کا تارا بن چکے ہیں ۔ یہاں تک کہ اب عیسائی اور ہندو بھی ان کو اپنے اجتماعات میں 'اظہار خیال' کے لئے مدعو کرنے لگے ہیں۔ آپ ایسی'دعوت ' کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے جسے 'مشرکین' کی طرف سے نہ صرف 'پھولوں کی سیج' میسرآتی ہو، بلکہ اس 'دعوت'کو دشمنانِ اسلام بآسانی 'ہضم' بھی کر جاتے ہوں اور جس کی 'توحید' شرک کے ان متوالوں کے قلوب پر کانٹوں کی طرح چبھنے کے بجائے ان کو 'تفریح طبیعت 'اور 'گزارہ وقت 'کے لئے سامان ِلذت فراہم کرتی ہو!!۔
مولانا کی تحریر سے ایک اقتباس ہم قارئین کی خدمت میں رکھنا چاہتے ہیں جس کا ایک ایک حرف بصیرت ِایمانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ کاش موصوف خود اپنی ہی بات کو حرزِ جان بنا لیں۔
"وہ دن جو یقیناً بہت جلد آنے والا ہے، وہ اس طرح آئے گا کہ ہم میں سے ہر شخص رب العالمین کے سامنے کھڑا ہوگا۔ اس دن حقیقت آخری حد تک بے نقاب ہو چکی ہوگی۔ خوبصورت الفاظ اور حسین توجیہات کی دیواریں جو آج ہر شخص نے اپنے گرد کھڑی کر رکھی ہیں، وہ اس روز ڈھ جائیں گی۔۔۔۔۔ مبارک ہے وہ جس کے لئے وہ دن 'سعی مشکور' کی خوشخبری لے کر آئے۔ اور بد نصیب ہے وہ جس کا'دین' اس روز 'قبول' نہ کیا جائے۔ او ر خدا اس سے کہہ دے۔۔۔۔"تم جس بات کے لئے لڑ رہے تھے، وہ محض تمھارے دماغ کی اپج تھی۔ وہ میری بات ہی نہیں تھی"۔ (تعبیر کی غلطی۔ ص344۔343)
(مرسل: حذیفہ عبد الرحمن- کراچی)

No comments:

Post a Comment