visitors

free counters

Sunday, 11 September 2011

خدائی تدبیر


’’واللہ خیر الماکرین‘‘

سیف اللہ خالد
کس سے کب کیا کام لینا ہے یہ میرے رب کی حکمت ہے۔ کوئی طاقت کوئی سازش اس کی حکمت میں ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا خلل بھی نہیں ڈال سکتی۔ مگر آزماتا ضرور ہے۔ امتحان میں ضرور ڈالتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا مقدس مشن ہے کہ جس میں برکت ہی برکت ہے بس ہاتھ پیر ہلانے کی دیر ہے کہ وہ نتائج سے نوازنا شروع کر دیتا ہے۔ کس طرح اور کن ہاتھوں سے یہ اس کی حکمت ہے۔ جو اپنے بارے میں فرماتا ہے ’’واللہ خیر الماکرین‘‘
۷۰ء کے الیکشن میں قادیانی جماعت نے بہت سوچ سمجھ کر اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر ہر جگہ اور ہر طرح سے اثر انداز ہوئے۔ مگر جب فیصلہ کی گھڑی آئی تو اہل دین کا تمسخر اڑانے والا ذوالفقار علی بھٹو ختم نبوت کا محافظ بن کر سامنے آیا اور تاریخ کا ایسا فیصلہ کر گیا جس کی مثال نہیں ملتی۔یہ اس کی عطا ہے، جس کو جو چاہے عطا کر دے۔
ابھی کل کا قصہ ہے کہ امریکیوں کے دباؤ پر حکومت نے چپکے سے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کو ختم کرنے کی سازش کی۔ آسیہ مسیح کے معاملہ کو استعمال کرتے ہوئے میڈیا میں طوفان اٹھایا گیا، جگہ جگہ بیٹھے امریکی طوطے جی بھر کر بولے اور قوم کو گمراہ کرنے کی خاطر الیکٹرانک میڈیا نے مخصوص تکنیک کا پورا استعمال کیا اور اپنے تئیں یہ گرد خوب اڑائی کہ ’’توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر سزائے موت کا قرآن و حدیث میں ذکر نہیں‘‘ مگر ہوا کیا؟ عوام کا موڈ دیکھ کر، اسی حکومت کی وزارت قانون نے اس ساری بحث پر ایک ایسا تفصیلی جواب لکھ ڈالا کہ اس نے سارے سوالوں کے نہ صرف جواب دے ڈالے بلکہ سازشیوں کے تمام تر پروپیگنڈہ کو اڑا کر رکھ دیا۔ واللہ خیر الماکرین۔
دیگر مسائل اپنی جگہ، سیاسی امور میں کردار پر اعتراضات ایک طرف مگر اس تفصیلی جائزہ کے لیے بابر اعوان نے جو دلچسپی دکھائی اس کا اعتراف نہ کرنا بددیانتی ہو گی۔ اللہ رب العزت یقیناًانھیں اس پر اجر سے نوازے گا۔ وزارت قانون کے ذرائع سے یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ ان کو ایک سرسری سمری لکھ کر مولویوں کو مطمئن کر دینے کی راہ دکھائی گئی تھی مگر انھوں نے دوسری راہ اختیار کی۔ ۲۲ نکات پر مشتمل اس جائزہ میں، جس پر دستخط کر کے وزیر اعظم نے حکم کا درجہ دے دیا ہے، تمام اعتراضات کا شافی جواب موجود ہے اور یقیناًاس جائزہ کے قانون کا حصہ بن جانے کی صورت میں آئندہ کسی کوقانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کی جرأت نہیں ہو گی۔
۲۸ صفحات پر مشتمل اس جائزہ رپورٹ سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ علما اور دینی و سیاسی قیادت اگر تحریک ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اٹھی تھی تو یہ کوئی ان کا وہم نہیں تھا بلکہ حالات کا ادراک تھا۔ وہ برسر زمین اور پسِ پردہ پکتی ہوئی سازشوں کو دیکھ رہے تھے۔ اسی جائزہ رپورٹ میں جو وزیر اعظم پاکستان کے دستخطوں سے ڈائری نمبر 2011؍M؍PS PM؍ 611 کی صورت مرتب ہوئی، میں پہلی، دوسری اور تیسری شق میں پوری وضاحت سے تاریخوں کے ساتھ تفصیل دی گئی ہے کہ کون کون اس قانون میں تبدیلی کی خواہش رکھتا تھا۔ سب سے پہلے ۲۳؍ نومبر کو وزارت خارجہ کے امریکہ ڈیسک نے اس حوالے سے ریفرنس بھیجا۔ اس کے بعد وزیر اعظم سیکریٹریٹ، وزارت دخلہ، وزارت اقلیّتی امور اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اس قانون میں ترمیم و تبدیلی کے لیے ۶ ریفرنس وزارت قانون کو بھیجے اور آخر میں شیر بانو رحمن عرف شیری رحمن کا وہ پرائیویٹ بل بھی جو تمام ریفرنسز کی خواہش کا حاصل تھا۔ یعنی توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا میں تبدیلی۔
میڈیا کے دانشوروں نے جعلسازی کے ساتھ تین مغالطے پیدا کیے تھے۔ اوّل یہ کہ دنیا میں کسی بھی جگہ ایسا کوئی قانون نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ سزا قرآن و سنت سے ثابت نہیں، ضیاء الحق اور مولویوں کی اختراع ہے۔ تیسرے یہ کہ پارلیمنٹ جس قانون کو چاہے بدل سکتی ہے اور سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی تھی کہ یہ قانون غلط استعمال ہوتا ہے۔ علما کی بات اپنی جگہ کہ دینی قیادت کا استدلال بھی ایک الگ معاملہ ہے جسے یہ لوگ سننے کو تیار ہی نہ تھے۔ لیکن اب وزارت قانون کے بیورو کریٹس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر قانون بابر اعوان کے زیر قیادت ان تمام مغالطوں کا جواب پیش کر دیا ہے۔
شیری رحمن کے بل پر تبصرہ کر کے شق ۶ میں فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ ’’ آئین کی شق ۲۰۳۰ بھی آئینی و قانونی معاملہ کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے فیصلہ کا اختیار وفاقی شرعی عدالت کو دیتی ہے اور وفاقی شرعی عدالت اپنے ۱۹۹۱ء کے فیصلہ میں ۲۹۵۔ سی کے تحت توہین رسالتؐ کی سزا کو قرآن و سنت کے مطابق قرار دے چکی ہے اور آئین کی شق A.2 کے تحت پارلیمنٹ قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کی پابند ہے لہٰذا یہ بل مسترد کر دینے کے قابل ہے۔‘‘ اسی طرح جائزہ کی شق ۷ میں سورۃ توبہ کی آیت، ۶۱۔ احزاب کی ۴۷۔ حجرات کی۲۔ نور کی ۶۳۔ فتح کی آیت ۱۰۹۔ احزاب کی ۵۳۔ سورہ مجادلہ کی ۲۰۔ کوثر کی۳۔ مائدہ کی ۳۳ اور پھر سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۲ عربی متن اور ترجمہ کے ساتھ نقل کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ قانون عین قرآن کے مطابق ہے اور شق Bمیں صحیح بخاری، مجمع الزوائد، صحیح مسلم اور دیگر مستند احادیث کتب سے ۷ منتخب احادیث درج کر کے یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گستاخ رسول کوقتل کی سزا دی اور اس پر عمل کروایا۔ چاہے وہ بیت اللہ کے پردوں سے لپٹا ہو یا اپنے گھر میں موجود ہو۔شق ۹ وضاحت کر دیتی ہے کہ گستاخ رسول کو سزائے موت کا قانون براہ راستقرآن و سنت سے اخذ کردہ ہے اور آج کے دور کے عالمی معیارات کے عین مطابق ہے۔ شق ۱۰ میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں گستاخ رسول کی سزا ہے۔ یہودی جو سب سے زیادہ اس کے خلاف شور مچاتے ہیں ان کی اپنی کتاب توراۃ میں لکھا ہے کہ ’’گستاخ رسول کو لازماً قتل کر دیا جائے۔‘‘
جہاں تک اس پروپیگنڈے کا تعلق ہے کہ اس قانون کے تحت پاکستان عالمی برادری سے کٹ جاتا ہے تو جائزہ کی شق ۱۱ میں دنیا کے ۳۰ ممالک کے قوانین کا تفصیلی حوالہ موجود ہے جن میں اسرائیل اور بھارت بھی شامل ہے۔ انہی کالموں میں ’’امت‘‘ پہلے ہی تفصیل کے ساتھ اس بحث کو پیش کر چکا ہے۔
وزارت قانون کے جائزہ کی شق ۱۶، اس میں تبدیلی کے ہر راستے کو یہ کہہ کر بند کر دیتی ہے کہ ۲۹۵۔ سی کے قانون پر کئی بار پارلیمنٹ اور پارلیمانی فورمز اور آئینی عدالت میں بحث ہو چکی ہے اور حتمی فیصلہ یہ آ چکا ہے کہ موت کے سوا توہین رسالتؐ کی کوئی بھی سزا خلاف قرآن و سنت ہو گی اور شق ۲۲ میں یہ بات مزید وضاحت کے ساتھ دہرا دی گئی ہے کہ چونکہ یہ قانون قرآن وسنت سے اخذ کردہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی یا ترمیم کی گنجائش ہی نہیں لہٰذا تمام ریفرنس مسترد کیے جاتے ہیں۔
قانون توہین رسالت کے خلاف سازش کوناکام بنانے میں قوم نے ہمیشہ بیداری کا ثبوت دیا اور برقوت اس فتنہ کی سرکوبی کی۔ اسی کا حاصل ہے کہ وزارت قانون نے ایک جامع جائزہ پیش کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جائزہ کو میڈیا اور دانشوروں سے لے کر قانون ساز اور قانون دان حلقوں تک ہر جگہ تقسیم کیا جائے اور ناموس رسالت کے لیے خدمات سرانجام دینے والی تنظیمیں اور ادارے اس پر توجہ دیں تاکہ توہین رسالتؐ پر سزائے موت کا شعور پوری قوم میں پوری صراحت کے ساتھ راسخ ہو جائے اور ہر شخص کو معلوم ہو کہ یہ قانون قرآن و سنت سے اخذ کردہ ہے اور جب کوئی اس کے خلاف زبان کھولے تو دلیل موجود ہو۔ یقین رکھنا چاہیے کہ اگر آگاہی ہر ذہن تک رسائی حاصل کر لے گی تو پھر آئندہ کبھی کوئی اس میں ترمیم کے مطالبہ کی جرأت بھی نہیں کر سکے گا۔

No comments:

Post a Comment