visitors

free counters

Sunday 24 July 2011

علامہ اقبال کی غیر عقلی باتیں


ہمارے پیر و مرشد مولانا محمد اشرف سلیمانی ؒ فرماتے تھے کہ اقبالؒ نے قرآن کو دنیا کی مظلوم ترین کتاب بتایا ہے کہ جس کا جس طرح جی چاہے اس کی تفسیر کرتا پھرے مگر بقول حضرتؒ کے اقبال دنیا کے مظلوم ترین شاعر ہیں کہ جس کا جو دل چاہے اس کے کلام کی شرح بیان کرتا رہے۔ حضرتؒ کی یہ بات بجا ہے مگر میرے استاد گرامی کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یہ موقع اقبالؒ نے خود فراہم کیا ہے اور اپنے کلام کو کباڑی کی دکان بنا دیا ہے۔ ہر رنگ کا بیان، ہر فلسفے کا ذکر، ہر شخصیت کی تعریف و تنقیص، ہر نظام سیاست کی پہلے تعریف پھر تنقید، اور تصوف میں تو کسی ایک نکتے پر ان کا اتفاق یا ٹھہراؤ ہوا ہی نہیں۔ یہ آخری نکتہ ہی لے لیں، پروفیسر یوسف سلیم چشتی ؒ نے اقبالؒ کے ہر ہر مجموعہ کلام کی شرح لکھی ہے، کسی میں کہتے ہیں اقبال وجودی شاعر تھے، پھر کہتے ہیں شہودی ہو گئے، او ر آخیر عمر میں پھر وجودی ہو گئے۔ حافظؒ پر تنقید کی مگر خواجہ حسن نظامیؒ اور چند دوسرے مشائخ و کبار کے ردعمل سے اپنے الفاظ واپس لے لیے۔ ابن عربیؒ کے بارے میں بھی ان کا عمل ملا جلا رجحان قرار دیا جا سکتا ہے۔ مارکس کے بارے میں کہا کہ پیغمبر نہیں ہے مگر بغل میں کتاب رکھتے ہیں۔ یہ ایک بے باک حقیقت کا بیان تھا مگر شعر میں کہنے سے بچ گئے۔ اُستاد گرامی کی اس قسم کی باتوں سے مرحوم پروفیسر اشرف بخاریؒ اور پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے اقبال شناسوں کو اتفاق نہیں ہے۔ اُن کا فرمانا ہے کہ بادی النظر میں ایسے مغالطے اس لیے ہو جاتے ہیں کہ لوگ اقبال کو کسی ایک شارح کی نظر سے دیکھتے ہیں جو دراصل اپنے ہی خیالات اقبال کے کلام سے ثابت کرتے رہتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ کلام اقبال کو قرآن کی طرح کسی ایک حصے سے پڑھنا کافی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفصیل بیان کرتا ہے اسی طرح اقبال کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر ہے اور ہمیں ایک جزو کی بجائے کلام اقبال کو کلیت (Totality) میں دیکھنا چاہیے۔ محترم شریف فاروق صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ اقبال کا دور مسلمانوں کے لیے سخت ابتلاء، آزمائش اور افراتفری کا تھا۔ نہ مسلمانوں میں جدید تعلیم یافتہ لوگ تھے اور نہ سیاسی طور پر وہ مستحکم تھے اس لیے کسی کے ذہن میں بھی ایک مربوط خاکہ نہ تھا اور مسلمان ہر ہر آپشن کو دیکھ رہے تھے۔ میرے خیال میں شریف فاروق صاحب کی بات زیادہ قرین قیاس اور عملی ہے باقی یہ علمی مباحثے سب زبان کے چٹخارے، علمیت دکھانے اور دھاک بٹھانے والی باتیں ہیں۔ یہ تمہید اس لیے باندھی کہ آگے آپ اقبال کی بعض غیر عقلی باتوں کے بارے میں میرے ایک دوست کے ظریفانہ خیالات سے پریشان نہ ہوں۔
میرے ایک دوست جو اپنی آزاد خیالی اور فکری بے باکی پر فوج سے نکالے گئے مگر بعد میں اعلیٰ سیاسی گھرانے سے تعلق اور پنجاب کے ایک بہت بڑے سردار کے اکلوتے بیٹے کی سعادت کی بنا ء پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں افسر لیے گئے اقبال پر تنقید کرتے رہتے تھے۔ قابلیت میں شک نہیں اور دیو جانس کلبی کی طرح سارا دن اکیلے خاموش بیٹھنا عادت مگر جب بھی بولے اپنے تفردات کے بارے میں دلائل کے انبار لگائیں۔ ایک دن کہا کہ دیکھ اقبال کہتا ہے کہ قدرت ہر کسی کی تربیت نہیں کرتی اور ایسے طائر بہت کم ہیں جو قید و بند سے ارجمند ہوں، یہ چڑے چڑیاں اور کوے چیل جیل نہیں جاتے بلکہ یہ سعادت شاہین و شہباز کی قسمت میں ہوتی ہے۔ بجا، یہ اقبال کے مشہور شعر ہیں مگر ہمارے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح تو ایک دن کے لیے بھی قید نہیں ہوئے۔ کہنے لگے اب یا تو اقبال کی بات غیر عقلی ہے یا پھر بابائے قوم کی تربیت نہیں ہوئی تھی ؟ میں نے کہا، کہ قائد اعظم بہت بڑے قانون دان تھے اور قانون کی پاسداری اور حکمرانی پر یقین رکھتے تھے۔ یہی تو ان کی خوبی تھی، جو قانون کا احترام کرے وہ جیل کیوں جائے ؟ کہاتو پھر مان لو کہ اقبال نے ایک غیر عقلی بات کی ہے۔ میرا دوست کبھی مجھے حضرت اور کبھی علامہ کہتے تھے اور کبھی میں ان کو حضرت اور کبھی علامہ کہتا تھا۔ یہ من ترا حاجی بگویم والی دوستانہ بات ہوتی تھی۔ میں نے کہا، علامہ، علامہ بھی ہمارے ہی طرح انسان تھے، ممکن ہے غلطی ہوئی ہو۔ کہنے لگا دیکھو علامہ وحید الدین خان کو اقبال سے ہر وقت اختلاف رہتا ہے مگر وہ علمی اختلاف ہے، میرا اختلاف اقبال سے عقلی ہے۔ کہا، اقبال نے ہر جگہ شاہین اور شہباز کی تعریف کی ہے۔ آخر انسانیت کو ان شکاری پرندوں سے کیا فائدہ؟ یہ تو عرب شیوخ کے دھندے اور شوق ہیں۔ اقبال کو گدھے کی تعریف کرنی چاہیے تھی کہ وہ بوجھ بھی اُٹھاتا ہے، مسکین مزاج بھی ہے، زمانہ قدیم سے لے کر آج تک زراعت، تجارت حتیٰ کہ جنگوں میں کام آتا ہے، اپنے سائز کے گھوڑے سے زیادہ ذہین اور طاقتور ہوتا ہے، 25سال پہلے کے راستے کی پہچان رکھتا ہے، زیادہ سے زیادہ تکلیف ہو تو ایک لات مارتا ہے اور بس۔
برداشت میں پاکستانی قوم کی بہترین مثال ہے کہ جتنا بھی بوجھ ڈالو نہ چوں نہ چرا بلکہ ایک جلسہ جلوس کرکے خاموش، میں نے کہا، گدھے کو ہمارے ہاں بیوقوف سمجھا جاتا ہے اور آواز اس کی بڑی بھدی بیان ہوئی ہے، کہا، لو، یہ گدھے کی توہین ہے جو مشرق میں ہو رہی ہے جبکہ مغرب کے محاوروں میں گدھا عقل کی علامت ہے اور آواز تو قدرت کی عطا ہے اس میں گدھے کا کیا قصور ؟ بلکہ صحرا میں ساٹھ میل تک دوسرے ساتھی گدھے کی آواز سننا اس کا فائدہ ہے انگریزی شاعر گلبرٹ کیتھ چسٹرٹن کی گدھے پرنظم ہی پڑھ لو۔ کہا، دیکھو اقبال کہتاہے کہ اگر تہران عالم مشرق کا جنیوا ہو تو کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے اب یہ کیا غیر عقلی بات ہے۔ ایک تو ایسا ہوا نہیں، نہ ہوگا اور اگر ہوگا تو تیسری عالمگیر جنگ مغرب و مشرق نہیں، خود مسلمانوں کے عالم عرب اور عجم کے درمیان لڑی جائے گی اور عرب عجم کے اختلافات عباسی دور کے علمی اختلافات نہیں رہیں گے بلکہ بہت سارے ابومسلم خراسانی لوگوں کے گلے کاٹ کاٹ کر اس نئے جنیوا کے صدر دفتر کا افتتاح کریں گے۔ کہا، دیکھو، اقبال کہتا ہے کہ میں شاعر نہیں ہوں، بلکہ اپنے پیغام کے لیے جو کہ محل نظر ہے، شعر و سخن کا سہارا لیتا ہوں اور اونٹنی کو کشاں کشاں منزل کی طرف لے جارہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ کبھی زندگی میں اقبال نے جانور نہیں پالے بلکہ بچپن لڑکپن میں کبوتر بازی کے ساتھ ساتھ کبڈی کھیلتے تھے اور جیسا کہ پروفیسر جعفر بلوچ نے لکھا ہے مجالس اقبال میں، دوست اس کو اقبال بالا بالا کہتے تھے، ایک طرف شاعر ہونے سے انکار اور دوسری طرف درجن بھر شعری مجموعے ؟۔ کہا، دیکھو، ایک جگہ کہتا ہے کہ میں لوگوں کے دل باتوں سے موہ لیتا ہوں اور گفتار کا غازی ہوں کردار کا نہیں مگر پھر یہ آرزو رکھتا ہے کہ خدا یا میر ا نور بصیرت عام کردے۔
اب جو کردار کا غازی نہ بنے وہ اپنا نور بصیرت کیسے عام کرنے کی آرزو رکھ سکتا ہے ؟یہ تو سیاستدانوں والی بات ہوتی۔ کہا، حضرت، دیکھو، اقبال کہتا ہے میں اقبال سے آگاہ نہیں اور دوسری طرف کہتا ہے کہ وہ مجذوب فرنگی (فلسفی نطشے) اگر اس زمانہ میں ہوتے تو اقبال اس کو بتاتے کہ مقام کبریا کیا شے ہوتی ہے ؟ اب یہ کھلا تضاد نہیں کہ اپنے آپ سے تو آگاہ نہیں اور نطشے جیسے فلسفی کو تصوف کے مقامات و منازل پڑھانے بیٹھ گئے۔ میرے دوست کو اقبال کے سیاسی فلسفہ سے بھی اختلاف ہے کہ نہ ان کے کسی شعر میں پاکستان کا نام، نہ خطبہ الہ آباد میں کوئی ذکر، نہ کسی خط کتابت میں، پھر بھی پوری قوم سمجھتی ہے کہ پاکستان کا خواب انہوں نے دیکھا تھا جبکہ آجکل میرے خواب ریزہ ریزہ کی دھوم مچی ہے اور شاعر کا کہنا ہے خواب جھوٹے خواب تیرے خواب میرے خواب بھی۔ سب سے زور دار اعتراض یہ کیا کہ حضرت دیکھو اقبال ایک طرف ابلیس کی تمثیلی مجلسِ شوریٰ میں کہتا ہے کہ افغانیوں کی غیرتِ دیں کا علاج یہ ہے کہ ملا کو ان کے کو ہ و دمن سے نکال دو مگر دوسری جگہ کہتا ہے کہ دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد۔ اگر واقعی ملا فساد کرتاہے تو پھر ابلیس کو کیا ہمیں خود نکال دینا چاہئے۔ ورنہ امریکہ تو آج یہی کچھ کہہ رہا ہے جو ابلیس نے ایک صدی پہلے اپنی مجلسِ شوریٰ میں کہا تھا۔ میرے دوست کی ان باتوں سے روح اقبال کو بڑی تکلیف ہوئی اور نوجوانوں کی بزرگوں کے بارے میں اس قسم کی بے باکی جو جدید ذہن کی عقلیت ہے اور ہر شخص اپنے سوالات کے جوابات مانگتا ہے، سے اقبال نالاں ہوئے۔ میں نے دیکھا تو فرمایا، میاں میرے کلام کو پورا تو پڑھو، جگہ جگہ سے اور بے دلی اور بد عقیدگی سے پڑھنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے جو تمھارے دوست کے ساتھ پیش آیا ہے۔ مجذوب مرید بھی ہمراہ تھے، دھیمے لہجے میں عرفی کا مصرعہ دُہرایا کہ آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گد ارا۔ اقبال اقبال ہے اور اقبال ہی رہے گا۔ رومی اور ابن عربی کی طرح۔ رہے نام اللہ کا۔
http://www.dailyaaj.com.pkکالم از فصیح الدین بحوالہ

امریکہ دشمنی اور مولانا وحید الدین کے افکار


جو لوگ حضرت مولانا وحید الدین خان صاحب کو نہیں جانتے ان کے لیے مختصرعرض ہے کہ علامہ اپنے ایک مخالف کے الفاظ میں ’’انتہائی طباع عالم دین ہیں اور اپنے سوا ہر کسی سے اختلاف رکھتے ہیں‘‘۔ میرے خیال میں اس فقرے کا پہلا حصہ درست اور دوسرا قدرے محل نظر ہے۔ علامہ 1925ء میں پیدا ہوئے اور بچپن سے لے کر آج (2011ئ) تک عقل و دانش اور علم قرآن و علم حدیث کی خدمت کرتے آئے ہیں۔ جماعت اسلامی سے بھی وابستہ رہے مگر سیاسی انقلابی قسم کی باتوں پر الگ ہوئے اور’’ تعبیر کی غلطی‘‘ نامی کتاب لکھ ڈالی۔ اس کتاب پر ان کی دیگر کتابوں کی طرح لے دے بھی بہت ہوئی ہے۔ علامہ کی کتاب ’’قرآن اور علم جدید کا چیلنج‘‘ بہت ہی مشہور ہوئی اور اس کتاب نے ایک زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کی بڑی خدمت کی ہے۔ علامہ کی کتابوں کا شمار مشکل ہے۔ آج کل انٹرنیٹ سے بھی خوب فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور ان کی اکثر کتابیں انٹرنیٹ پر ملتی ہیں ’’الرسالہ‘‘ کے نام سے اپنے منفرد افکار بغیر کسی رکاوٹ اور تعطل کے ہر ماہ شائع کرتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر ’’تذکیر القرآن‘‘ کے نام سے کی ہے۔ اور ان کی کتابوں کے تراجم دنیا کی بہت ساری زبانوں میں ہو چکے ہیں بلکہ ’’الرسالہ‘‘ جو پاکستان میں ۔’’تذکیر‘‘ کے نام اور انگریزی میں Spiritual Message کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ علامہ کی سب سے بڑی علمی خوبی اُن کے تفردات اور ان کی منفرد آواز ہے۔ دوسری بڑی خوبی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت کے ساتھ بڑی لمبی عمر عطا فرمائی ہے اور سیر وفی الارض کی اطاعت میں زمین کا گوشہ گوشہ چھان مارا ہے‘ ان کی ڈائریاں اور سفرنامے علمی قدروقیمت میں بے بہا اور معلومات میں بے پنا ہ ہیں۔ جدید علوم اور مغربی افکار و خیالات سے ہمہ وقت آگاہ ہوتے ہیں اور دنیائے اسلام کے حالات پر بڑی عمیق نظر رکھتے ہیں۔ ایک بحرالعلوم نابغہ روزگار اور کنز الحقائق قسم کی علمی شخصیت ہیں۔ وسعت معلومات اور زود قلمی میں مثال نہیں رکھتے۔ البتہ ان کے تفردات سے چند دیگر علمی حلقوں کو اختلاف رہتا ہے اور اختلاف کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔ مخالفت اور دشنام طرازی نہیں ہونی چاہیے۔ باقی اختلاف کس مذہب‘ کس نظریے اور کس عقیدے میں نہیں۔ بلکہ حدیث رسولؐ کے مطابق اُمت محمدیؐ کا اختلاف تو رحمت کا باعث ہوتا ہے۔
حضرت علامہ کے چند افکار پیش کرنے سے قبل کہ شاید کوئی اور بھی اس پر اظہار خیال کرے‘ یہ بتانا چاہوں گا کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے مسلمان قوم کی مجموعی بدبختی‘ بدنصیبی یہ رہی ہے کہ ان کے اندر جب بھی کسی نے کوئی منفرد آواز اُٹھائی‘ کوئی نعرہ مستانہ بلند ہوا‘ کوئی تنقید یا اجتہاد کی بات کی گئی‘ کسی فکر ی حریت اور روشن خیالی کا دعویٰ کیا گیا تو فوراً کفر و شرک کے فتوے صادر ہوئے‘ قید اور جلا وطنی کے احکامات جاری ہوئے‘ مردود اور لعین شیطان کا طعنہ دیا گیا‘ غداری اور بغاوت کے ٹھپے لگ گئے‘ اس پر کیا سولی پر چڑھائے گئے اور بے دردی سے قتل کیے گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو بعد کے مسلمانوں نے نہایت عقیدت و احترام سے یاد کیا‘ ان کی کتابوں کو سرآنکھوں پر جگہ دی گئی اور ان کے مزاروں کی خاک سُرمہ بنانے کی باتیں کی گئیں۔ ان کے نام پر مسجدیں اور مدرسے بن گئے اور جہاں تک ممکن ہوا ان کے مزارات پر خوبصور ت زریں قبے اور مینار بنائے گئے۔ اپنے دور میں مجنونانہ ہرزہ سرائی کرنے والے بعد کے دور میں عظیم صوفی اور قلندران پاک کے نام سے یاد ہوئے‘ سیاسی جبرو ستم کا نشانہ بننے والے بعد میں دور ابتلاء کے مجتہد اور مجدد مانے گئے۔ ابن تیمیہؒ‘ منصور حلاجؒ‘ شاہ ولی اللہ ؒ‘ عبدالوہاب نجدیؒ‘ امام ابوحنیفہ ؒ سے لے کر آج تک ان عظیم مصلح بزرگان دین کو طرح طرح ستایا گیا۔ قارئین کرام اپنے اردگرد نظر ڈالیں کہ کیا آپ کے پاس بھی کوئی ایسا مصلح و مفکر ہے جو گاؤں کے مولوی کی طعن و تشنیع‘ خان خوانین اور استحصالی طبقے کے تیر و تلوار سے زخمی ہو رہا ہے۔ یہ قلندرانہ آواز کی قیمت ہوتی ہے جو بہر حال ایک مصلح اور مفکر کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اب علامہ کا ایک خیال دیکھیں۔
حضرت علامہ کا خیال ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری میں مسلمانوں کو بے جا طور پر ممولے کو شاہین سے لڑانے کی بات کی گئی ہے‘ علامہ کہتے ہیں کہ اقبال نے مسلمانوں کے دور انحطاط و زوال میں جذباتی بلکہ ہوائی شاعری کی ہے اور اقبال کومومن کو بے تیغ لڑنے کا مشورہ نہیں دینا چاہیے تھا اس لیے کہ مسلمان کمزور تھے اور ہیں۔ جب تک مسلمان فکری غلبہ پا کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے نہ بڑھیں تب تک مسلمانوں کو طاقتور قوموں سے لڑنا نہیں چاہیے۔ علامہ کا خیال ہے’’ کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے غیر مسلم اقوام سے اپنے جھوٹے قومی مسائل کے لیے جھوٹی لڑائی چھیڑرکھی ہے۔ اس لڑائی سے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا‘ علامہ کا مشورہ ہے کہ دوسری قوموں سے قومی اور مادی جھگڑے ختم کر دیں تو اسلام خود اپنی طاقت سے پھیلنے لگے گا‘‘۔ (عظمت اسلام۔ ص193)۔ علامہ سورۂ انفال کی آیت 62-61کہ دشمن صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ‘ سے یہ استدال کرتے ہیں کہ’’ یہ حکم اسلامی طریق کار کا خلاصہ ہے اور مسلمانوں کو دوسروں سے ٹکراؤ پیدا کیے بغیر اپنے لیے مواقع پیدا کرنے چاہیے اور وہاں اپنی قوتوں کو لگانا چاہیے‘‘۔ (پیغمبر انقلاب۔ ص113)۔ علامہ نے چند روز قبل جبکہ میری ان سے آٹھ دس سال بعد فون پر بات ہوئی مجھ سے کہا کہ’’ دیکھیں ترقی کے لیے انفراسٹرکچر اور تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کمزوری کی حالت میں لڑائی مول لینے والوں کو حضورؐ کی وہ حدیث پاک یاد رکھنی چاہیے جب مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حضرت عمر فاروقؓ نے ترکی بہ ترکی جواب دینا چاہا تو حضورؐ نے فرمایا‘ یاعمرانا قلیل‘ اے عمر ہم تھوڑے ہیں‘ یعنی ابھی ہماری قوت و طاقت اس کام کے لیے ناکافی ہے‘‘۔
قرآن نے بھی دشمن کے لیے تیاری کا کہا ہے مگربے خطر آتش نمرود میں کود پڑنے کی باتیں شاعرانہ خیالات ہیں‘ اب کوئی پیغمبر آنے والا تو نہیں کہ فرشتے قطار اندر قطار اب بھی اُتریں اور آگ انداز گلستان پیدا کرلے‘ علامہ کے نزدیک اقبال ہو یا کوئی اور یہ صرف ہوائی باتیں ہیں۔ علامہ نے مشہور شخصیات پر جو تنقیدیں کی ہیں ان میں اورنگزیب عالمگیر کو بھی رگیدا ہے کہ اس کو ہاتھ سے قرآن لکھنے کی بجائے ہندوستان میں پرنٹنگ پریس کا انتظام کرنا چاہیے تھانہ کہ ہاتھ سے ٹوپیاں سیتا اور کتابت کرتا۔ بلکہ علامہ کا کہنا ہے’’ کہ مغل حکمرانوں کو کیمبرج‘ آکسفور ڈ اور پیرس کی یونیورسٹیوں جن کا آغاز ان سے دوتین صدی پہلے ہو چکا تھا کے طرز پر علمی درسگاہیں قائم کرنی چاہیے تھیں‘‘۔ (فکر اسلامی۔ ص171)۔ علامہ نے 1988ء میں افغانستان کا سفر کیا اور تفصیل سے اس کی روئیداد لکھی۔ مسلمانوں کی قربانیوں کی تعریف کے ساتھ اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ افغانستان کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں‘ ’’مجھے اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اگر بالفرض روسی اثر ونفوذ افغانستان سے ختم ہو جائے تب بھی اصل مسئلہ ختم ہونے والا نہیں‘ کیونکہ عدم برداشت کا مزاج جو اس وقت روسیوں یا روس نوازوں کے خلاف کام کررہا ہے وہی خود اپنوں کے خلاف کام کرنے لگے گا۔‘‘۔ (سفر نامہ۔ ج اول ص421)۔ علامہ نے بتایا ’’ 9/11کے بعد وہ واحد مسلمان عالم تھے جو اس واقعہ پرروئے کہ مسلمانوں کے لیے سخت وقت آرہا ہے۔ باقی دنیا کے مسلمان خوشی منا رہے تھے اور میں رو رہا تھا۔ آج وہی خوشی منانے والوں نے سوائے تباہی کے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ اگر یاسر عرفات کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی تھا تو اتنے عرصے تک لڑائیوں میں بے شمار مسلمانوں کو شہید اور دربدر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ علامہ نے کہا کہ ’’اگر اُسامہ کو ایبٹ آباد میں چھپنا تھا تو امریکہ جیسی قاہر و جابر طاقت سے ٹکر لینے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ ۔
علامہ کے افکار سے اختلاف بہت سوں نے کیا ہے‘ مجھے بھی ان سے اختلاف ہو سکتا ہے‘ وہ خود بھی ہر کسی سے اختلاف رکھتے ہیں‘ مگر ان سے مکالمہ کیا جا سکتاہے کیونکہ ان کے افکار وحید میں بے پناہ معقولیت‘ توازن اور استد لال کا وزن ہے۔ امریکہ دشمنی اگر ہمیں تباہی کے دہانے پر لے جارہی ہے تو اس سے ہمیں رکنا چاہیے۔ ہمارے اپنے لوگ ہی امریکہ کے سامنے ہمیں دہشت گرد پیش کرکے ڈالروں سے تجوریاں بھر رہے ہیں‘ دراصل یہی لوگ بدترین دہشت گرد ہیں۔ ایک غریب مفلوک الحال بے روزگار پٹھان کیا تیر مارے گا اور کیا ڈرون گرائے گا؟ علامہ کی بات ماننی چاہیے بلکہ امریکہ کو بتانا چاہیے کہ ہماری بے چاری عوام تو روٹی کو ترس رہی ہے‘ دہشت گرد تو وہ ہیں جو اپنا مال دوبئی پہنچا چکے ہیں‘ امریکہ کو ہمیں ان سے نجات دلانی چاہیے۔ یہی سب سے بڑے دہشت گرد ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔

http://www.dailyaaj.com.pkکالم از فصیح الدین بحوال

نہر پانامہ

نہر پانامہ دنیا کی بہت بڑی آبی شاہراہ ہے، جسے جمہوریہ امریکا نے خاکنائے پانامہ کو کاٹ کر تیار کیا تھا۔ اس نہر نے اوقیانوس کو بحر الکاہل سے ملا دیا ہے۔
اس نہر کی کھدائی 1904ء میں شروع ہوئی اور 1914ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی، اس کے لیے ریاست  پانامہ سے دائمی پٹے پر زمین لے لی گئی تھی۔ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ نہر بنانے کا خیال پہلے پہل جمہوریہ امریکا کو آیا، بلکہ جس زمانے میں ہسپانیہ کی سلطنت عروج پر تھی اور نئی دنیا میں اس کی آبادکاری کا ڈنکا بج رہا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں سے ایک نہر بنانے کی تجویز زیر غور آئی تھی، اس وقت تک جمہوریہ امریکا کا وجود تک نہ تھا۔ جب امریکی ریاستوں نے آزادی حاصل کرلی تو انہیں یہ احساس ہوا کہ اگر پانامہ میں سے ایک نہر بنادی جائے ، جس سے جہاز بآسانی گزر سکیں تو اطلانطک سے بحرالکاہل میں جانے کے لیے جہازوں کو جونبی امریکا کا چکر نہ لگانا پڑے گا، اس طرح وقت بھی بچ جائے گا، خرچ بھی کم آئے گا اور تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔نہر کی تعمیر پر کل تینتیس کروڑ چھیاسٹھ لاکھ پچاس ہزار ڈالر خرچ ہوئے اور تقریباً چوبیس کروڑ مکعب گزر زمین کھودی گئی۔
انجینئر کا خاص کمال نہر کھودنے میں نہیں، بلکہ اس کے اندر بند بنانے سے ثابت ہوتا ہے مثلاً جو جہاز اوقیانوس کی طرف سے نہر میں داخل ہوا، اسے بندوں کے پہلے سلسلے میں سطح بحر سے پچاسی فٹ کی بلندی پر اٹھایا جاتا ہے، پھر جہاز ایک اور بند سے گزرتا ہوا بحرالکاہل کی جانب آخری سلسلے کے بند میں عام سطح پر آجاتا ہے اور بے تکلف دوسرے سمندر میں داخل ہوجاتا ہے۔ پورا فاصلہ طے کرنے میں سات آٹھ گھنٹے لگ جاتا ہیں۔

نہر سویز

 
نہر سویز
 
 
دنیا کی ایسی کوئی آبی شاہراہ پیش نہیں کی جاسکتی جس نے مشرق و مغرب کی تجارت، سیاست اور میل جول پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہو، جتنا کہ نہر سویز نے ڈالا، بحیرہ روم کو آبی راستے سے بحیرہ قلزم کے ساتھ ملانے کے منصوبے بہت پرانے تھے اور ان پر عمل بھی ہوتا رہا۔
انیسیوں صدی کے وسط میں ایک فرانسیسی انجینئر ڈی میسپ نے نہر کی اسکیم تیا رکی۔ سعید پاشا خدیو مصر سے لیسپ کے دوستان تعلقات تھے۔ چنانچہ اس نے نہر کے لیے ایک کمپنی بنانے کی تجویز منطور کرالی جس کا سرمایہ بیس کروڑ فرانک رکھا گیا۔
نہر کی تعمیر اور توسیع پر کل اٹھاسی کروڑ اکتالیس لاکھ چھیانوے ہزار فرانک خرچ ہوئے۔ یہ ایک سو ایک میل لمبی ہے اور چوڑائی ایک سو چھیانوے فٹ دس انچ سے کم کہیں نہیں۔ اس کی گہرائی 33 فٹ ہے اس میں سے جہاز گزرنے کا عام وقت گیارہ گھنٹے اور اکتیس منٹ رکھا گیا ہے۔ اس نہر نے یورپ اور جنوبی و مغربی ایشیا کو ایک دوسرے کے بہتر قریب کردیا ہے۔ راس امید کے راستے بہت چکر پڑتا تھا۔
نہر کا سارا انتظام اور نگہداشت مصر کی قومی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔

Sunday 17 July 2011

Zubaida canal

ZUBAIDA, A MUSLIM QUEEN


 

On the bank of River Dejlah (now called River Tigris, in Iraq) a crowd had gathered outside the beautiful palace of the queen, waiting for her audience. The queen appeared in the balcony and very gracefully addressed the crowd: "Today I close all the account books on the canal. Those who owe me money need not to pay back. And those whom I owe, will be paid immediately and double the amount." Saying this, she ordered that the account books be thrown into the river and said: "My reward is with Allah."


 

The queen was none other than Zubaida, the daughter of the Abbasid caliph Mansur's elder son, Jaffer, the cousin and wife of the richest and the most powerful of the caliphs, Haroon al-Rashid (170-193 Hijra), the fifth Abbasid caliph. She ordered that a canal be built up to Mecca to provide drinking water to pilgrims. The canal, a remarkable feat of engineering and construction at that time when no modern technology was available, was named after her – Nehr-e-Zubaida (Zubaida Canal). It served the believers for more than one thousand years.


 

The queen had a passion for serving humanity. After having improved the road used by the pilgrims – 900 miles of desert from Kufa to Medina and Mecca – still there in south Kufa and known as Darb-e-Zubaida, the newly built canal was another feat that she had accomplished. Till she died in 226 Hijra, about 32 years after her husband's death, serving humanity remained her prime goal.


 

In those days there was an acute shortage of water in Mecca. The pilgrims coming for Hajj solely depended on ZamZam water. There were no other source from where water could be provided to the pilgrims in the arid plains of Arafat, Mina and Muzdalfa.


 

Realizing this difficulty, the second caliph, Hazrat Umar bin Khattab, while performing Hajj in 17 Hijra, made some emergency arrangements to increase the supply of water. Later, the companions of the Holy Prophet (Peace Be upon Him) Hazrat Abdullah bin Amer and Amir Muawiyah also made several arrangements but all the efforts could not meet the increasing demand of water. The pilgrims continued suffering.


 

During the time of Caliph Haroon al-Rashid, water shortage during Hajj became so acute that one pail of water would sell for 20 dirham. The additional arrangements made by the caliph also did not bring relief to the pilgrims. After his death in 193 Hijra, Zubaida went for Hajj. The water problem in Mecca grieved her so much that she immediately decided to make a great canal to solve the water problem forever.


 

She called prominent engineers and surveyors from different parts of the world to build the canal. After surveying the entire area they decided to bring the canal from Hunnain valley where a water spring from the mountains provided water to the residents and for irrigation. The valley of Hunnain is the same valley where the Holy Prophet had fought a battle called Ghazwa-e-Hunnain with the infidels. The area was rocky, the land was barren and dry, and the weather very hot. It was very difficult to sustain a canal on the surface of the earth, so the engineers planned to make a subterranean canal in the form of a tunnel (aqueduct), with water stations raised above the ground at different intervals, wherefrom people could meet their water needs.


 

At the orders of Zubaida, the entire area of Hunnain valley, which contained spring and other sources of water, was bought by paying a huge amount of money. To bring the water through the mountains was nothing less than a Herculean task, which required a large number of manpower, enormous funds and expertise for cutting the mountains and digging the barren and rocky hills. Nothing could frustrate her determination.


 

"For each stroke of spade and shovel, I'm ready to give a dirham if needed", saying this she ordered to launch the work.


 

After several years of hard work, the canal was eventually brought all the way down to Jabal-e-Rahma (the Mountain of Blessings) in Arafat, and then to Mina and Muzdalfa. The spring water from Hunnain valley and whatever water sources found on the way were converged into the canal. The water supply through this canal brought a great relief to the pilgrims as well as to the locals.


 

In 245 Hijra, an earthquake in Mecca made several cuts and cracks in the canal but they were immediately repaired at the behest of the sitting caliph. Later, several rulers made additional improvements to the canal.


 

With the passage of time the canal seriously suffered from lack of repair and maintenance, and consequently the supply of water was stopped. Also, over the span of several centuries, new sources of water had already been made available to meet the water needs and therefore no attention was given to restore the canal.


 

In 1295 Hijra, a committee was formed by the Saudi Government to look after the repair and maintenance of the canal. The committee was able to regulate its water. But unfortunately in 1344 Hijra, a huge flood in Numan valley damaged the canal and its water supply stopped for three months. King Abdul Aziz, who took over in 1343 Hijra, had it repaired but in the beginning of 1400 Hijra the water of the canal stopped completely due to certain reasons and could no be restored.


 

In recent times, the rulers of Saudi Arabia took special interest to meet the water needs of the pilgrims. In addition to bringing in more supplies of water to Mecca, they installed a water desalination plant, 100 kilometres away from Mecca, which now meets the water needs during the Hajj season. The plant, built in four years, was inaugurated by the late King Fahad on July 21, 1988. This, however, did not leave the great canal forgotten.


 

The current king of Saudi Arabia, Abdullah (then crown prince), in 2001, gave the instructions to revive the canal to substantiate the water supply to Mecca and save the remarkable heritage of the Muslim Queen, which served the Ummah for more than one thousand years!

Friday 15 July 2011

متبادل توانائی کا استعمال

متبادل توانائی کا استعمال کیسے کیا جائے

 پاکستان توانائی کے مسائل میں شدیدطرح الجھا ہوا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہمارے پاس تقریباً تمام قدرتی وسائل موجود ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم پریشانیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ خدا نے انسان کو عقل دی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ نہایت پیچیدہ مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم توانائی کے متبادل کا انتخاب نہیں کررہے؟ ہمارے ملک میں متبادل توانائی پالیسی ترتیب کیوں نہیں دی جا رہی؟
ہاں یہ درست ہے کہ پاکستان پانی، گیس اور تیل کی کمی کا شکار ہے اور ان تمام ذرائع سے بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا مگر ہم سورج کی کرنوں، ہوا اور دیگر ذرائع سے توانائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ہمارا ملک دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جہاں سورج کی کرنیں اوسطً نو سے دس گھنٹے پڑتی ہیں۔ ہم ان سورج کی کرنوں سے توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔ سورج کے ذریعے حاصل کی جانے والی توانائی کو شمسی توانائی کہا جاتا ہے۔ شمسی توانائی خدا کا ایک انمول تحفہ ہے، اگرچہ شمسی توانائی پانی کی نسبت زیادہ طاقت ور نہیں مگر پھر بھی اس سے توانائی کا بڑا حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسپین کے علاقے نیورا جہاں توانائی کے روایتی ذرائع نہ ہونے کے باوجود بجلی کی ساٹھ سے ستر فی صد ضرورت کو شمسی توانائی سے پورا کیا جاتا ہے شمسی توانائی کے بہترین استعمال کی بہترین مثال ہے۔
وزارت بجلی وپانی کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی سے انتیس لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، شمسی توانائی کے استعمال پر زور کیوں نہیں دیا جا رہا۔ شمسی توانائی دیگر تمام ذرائع کی نسبت آلودگی سے پاک ہے۔ کوئلے ، گیس اور تھرمل سے حاصل ہونے والی توانائی سے گرین ہاﺅس گیسز کا اخراج ہوتا ہے جبکہ شمسی توانائی ایسی کوئی گیسز کا اخراج نہیں کرتی جو کہ ماحول کی خرابی کا باعث ہوں۔
لوڈشیڈنگ کے باعث زیادہ استعمال ہونے والے یو پی ایس سے دو سے چار گنا اضافی بجلی استعمال ہوتی ہے جس کی ادائیگی ہمیں بجلی کے اضافی بل کی صورت میں کرنی پڑتی ہے۔یوپی ایس کی نسبت شمسی پینل کو لگوانے سے اضافی بل کی ادائیگی سے بچا جا سکتا ہے ۔ شمسی پینل ایک دفعہ کا خرچا ہے اور اس کی مدت کم سے کم بیس سال ہے اس دوران دو سے چار سال بعد صرف انونٹر کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے توانائی کی ضروریات کے پیش نظر شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دیا ہے۔ دہلی کے نزدیک گوالی پہاڑی میں سورج سے بجلی کی توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک بجلی گھر بنایا گیا ہے جہاں پیداوار اور تحقیقی کام کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے دیگر حصوں میںفوٹو وولٹالک سنٹرز قائم کیے جا چکے ہیں جو ایک کلوواٹ سے ڈھائی کلوواٹ تک بجلی پیدا کرتے ہیں۔ گھروں، کارخانوں، ہوٹلوں اور اسپتالوں میں پانی گرم کرنے کے لیے ایسے آلات لگے ہیں جوایک سو لیٹر سے لے کر سوا لاکھ لیٹر تک پانی گرم کر سکتے ہیں۔ بھارت شمسی توانائی سے ایک فیصد سے بھی کم بجلی پیدا کرتا ہے۔
توانائی کا ایک اور متبادل ہوا بھی ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک ہوا سے توانائی حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں امریکہ، جرمنی، فرانس، چائنہ، اٹلی، اسپین، پرتگال اور انڈیا شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہوا سے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی با آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کا موسم ہواسے توانائی پیدا کرنے کے لئے بہترین ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے امکانات روشن ہیں۔
ہو اسے توانائی یعنی ونڈ انرجی سے توانائی کا حصول حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔ ہوا کی کم از کم دو سے تین کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو ونڈ انرجی کے لئے موزوں سمجھا جاتا ہے جو خوش قسمتی سے کراچی، ٹھٹھہ، کوئٹہ ، جیوانی، حیدرآباد، بلوچستان کی ساحلی پٹی، صوبہ سرحد کی چند شمالی وادیوں اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں ہوا کے ذریعے تقریباً تین ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
اس وقت جرمنی ہواسے اٹھارہ ہزار میگا واٹ، اسپین آٹھ ہزار میگاواٹ ، امریکہ سات ہزار میگاواٹ جبکہ بھارت تیرہ ہزار سے زائد بجلی پیدا کررہا ہے۔ شمسی توانائی کی طرح ہوا یعنی ونڈ انرجی بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے اور اس سے ماحول آلودہ نہیں ہوتا۔
میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہوا سے چلنے والے ٹربائنوں کا دنیا کا سب سے بڑا پراجیکٹ برطانیہ میں مکمل ہوا ہے۔ رودبار انگلستان کے ساحلی علاقے کینٹ میں قائم کیے جانے والے تھانٹ ونڈ فارم میں ایک سو انتہائی طاقت ور ٹربائن لگائے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں سے حاصل ہونے والی بجلی دولاکھ سے زیادہ گھروں کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ اکثر ساحلی علاقوں میں زیادہ تر تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں جن کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن باآسانی چلائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی ساحلی پٹی میں اس طرح کے منصوبوں کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے جس سے لاکھوں گھروں کو توانائی فراہم کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں توانائی کے اس متبادل ذریعے سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
یو ایس ایڈ کے تعاون سے پاکستان میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں ہوا سے تین لاکھ چھیالیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس وقت پاکستان توانائی کے سخت بحران کا شکار ہے اور صنعتیں بند ہونے سے سینکڑوں مزدور روزگار سے محروم ہیں جبکہ ملک بھر میں پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کو استعمال میں لاکر ہی توانائی کے بحران سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔

تحریر: سید محمد عابد

 
 

اسلام اور مستشرقین

Top of Form


اسلام اور مستشرقین 2

     

 مستشرقین کے خصوصی اہداف
مستشرقین نے اپنے اپنے مقاصد اور اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسلام پر ہر طرف سے وار کیے ۔ جن لوگوں کے اندرکچھ اخلاقی اقدار کا پاس یا انصاف کی رمق موجود تھی ، انھوں نے اسلام کی بعض تعلیمات کو سراہا بھی، لیکن ان کے اسلام کے خلاف عناد اور دلی تعصب نے ہر مرحلے پر قبول حق سے روکے رکھا۔ ان میں سے بعض سلیم الفطرت مستشرقین ایسے بھی تھے جنہوں نے 
اسلام کی آفاقی تعلیمات کو فطرت کے قریب پایا اور اسے آسمانی ہدایت کے طور پر تسلیم کر کے اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کر گئے ۔ مثلاڈبلیو ایچ کویلیم(شیخ عبداللہ)(
William Henry Quilliam) (1856-1932)، رسل ویب(Mohammed Alexander Russell Webb)(۱۸۴۶ء۔۱۹۱۶ء)، مارٹن لنگز(Martin Lings)(ابوبکر سراج الدین) (۱۹۰۹ء۔۲۰۰۵ء)، علاء الدین شلبی، ناصرالدین الفونس اتیین(۱۸۶۱ء۔۱۹۳۰ء) ، لارڈ ہیڈلے الفاروق(رحمت اللہ الفاروق)( Rowland George Allanson Allanson-Winn )( 1855 [L:150]1935)، علامہ محمد اسد(Sylvius Leopold eiss)(۱۹۰۰ء۔۱۹۹۲ء)، ڈاکٹر عمر رالف ایرنفلس(Dr. Baron Omar Rolf von Ehrenfels) (۱۹۰۱ء۔۱۹۸۰ء)، خالدشیلڈرک(Bertram William Sheldrake)، مریم جمیلہ(۱۹۳۴ء)(margaret marks) وغیرہ۔
چنانچہ اول الذکر اقسام کے مستشرقین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، نزول وحی، آپ کے خاندان،اہل بیت،صحابہ کرام، قرآن مجیداوراحکام قرآن، احادیث مبارکہ، تعدد ازواج، غلامی اور جہاد کو اپنی تیراندازی کا ہدف بنایا۔ ہم بالترتیب ، مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں :
۱۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی دین اسلام کے تنہا ماخذ ہیں اور ہمیں دین اسلام آپ ہی کی وساطت سے قرآن و سنت ثابتہ کی صورت میں ملا ہے ۔ اس لیے مستشرقین نے سب سے زیادہ حملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیے ہیں تاکہ دین کی اصل بنیا د ہی پر شکوک و شبہا ت کے پردے ڈال دیے جائیں ۔چونکہ عام طور پر لوگ کسی بھی مذہب کے پیشوا کی شخصیت سے متاثر ہوکر اس کی اتباع کرتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھٹیا حملوں کا شکا ر بنا لیا۔ مستشرقین کے ذات قدسی پر حملوں کا ذکرکرنے سے پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مستشرقین کس حدتک آپ کی 
ذات گرامی کے بارے میں انصاف سے کام لیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش ۵۷۱ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔آپ نے پیدایش سے لے کر چالیس سال کی عمر تک سارا عرصہ اہل مکہ کے درمیان میں گزارا۔ اس دوران سوائے چند تجارتی اسفار کے آپ اپنے علاقے سے باہرتشریف نہیں لے گئے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلسلے میں ،چونکہ پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ نبوت و رسالت کا عظیم منصب آپ کے حوالے کیا جائے گا اس لیے آپ کی ذات گرامی کے حوالے سے چند باتوں کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔آپ کو عام رسمی تعلیم اورعلم الکتابت وغیرہ سے ناواقف رکھا گیا۔اس کی غرض وغایت یہی تھی کہ جن لوگوں کے پاس آپ کو بھیجا جا رہا ہے ان کویقین آجائے کہ آپ اپنے پاس سے کچھ ایجاد نہیں کر رہے ، بلکہ یہ سب کچھ کسی اعلیٰ و ارفع ذات کی طرف سے بھیجا جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جو زندگی گزاری وہ ایک عام انسان کی زندگی تھی ، جس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو غیر معمولی ہو۔آپ سے کبھی کوئی ایساکارنامہ سرزد نہیں ہواجس کی بنا پر آپ کو معاشرے میں خصوصی اہمیت حاصل ہوجائے ۔نہ ہی آپ علم وادب ، شاعری،خطابت وغیرہ کی دنیا کے آدمی تھے ۔البتہ ، اللہ تعالی نے آپ کی ذات گرامی اعلیٰ اخلاق و کردار کا ایک ایسا نمونہ بنا یا تھا کہ پیدایش سے لے کر اعلان نبوت تک آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پاکیزگی، سچائی ، امانت داری، احترام انسانیت ، حسن سلوک ، خدمت خلق اور حسن معاشرت کی ایک ایسی تابندہ مثال تھی ، جس کا اعتراف آپ کے تمام مخاطبین اورمخالفین نے کیا۔آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا گیا تھا۔نبوت کا منصب ملنے کے بعد کچھ عرصہ آپ نے خفیہ طور پر اپنے قریبی احباب کواپنی ذمہ داری اور مقاصد سے آگاہ کیا۔ان کی طرف سے حمایت اور تعاون کے بعداللہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ سے ڈراؤ۔ قرآن 
مجید میں ارشاد ہے :
و انذر عشیرتک الاقربین۔(الشعراء ۲۶:۲۱۴)
''اور اپنے قریبی عزیزوں کو(اپنے رب کے معاملے میں )ڈرا۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں کو ہ صفا پر چڑ ھ کر سب سے پہلے اپنی ذات کو قریش مکہ والوں کے سامنے پیش کیا ، تاکہ کسی کو اس امر میں کوئی شک نہ رہے کہ آپ کسی لالچ، فریب، بددیانتی، یا کسی دنیاوی مقصد کے زیر اثر یہ کام کر رہے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس واقعے کی تفصیل اس طرح سے بیا ن ہوئی ہے :
عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال لما نزلت 'وانذر عشیرتک الاقربین' صعدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم علی الصفا فجعل ینادی یا بنی فھر یابنی عدی لبطون قریش حتی اجتمعوا فجعل الرجل اذا لم یستطع ان یخرج ارسل رسولا لینظرما ھو فجاء ابو لھب و قریش فقال اَراَیْتَکُم لو اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً بالوادی ترید ان تُغِیْرَ علیکم اکنتم مُصَدِّقِی۔قالوا نعم ما جَرَّبْنَا علیک الا صدقا قال فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید فقال ابو لھب تبا لک سائر الیوم الھذا جَمَعْتَنَافنزلت: تبت یدا ابی لھب وتب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب۔(بخاری ، کتاب التفاسیر)
''حضرت ابن عباس سے روایت ہے ، آپ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی:'وانذرعشیرتک الاقربین'(اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں )تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر چڑ ھے اور بلند آواز سے پکارنے لگے ۔اے بنی فہر ، اے بنی عدی، قریش کے تمام لوگوں کو بلایا ۔جب لوگ آ گئے اور جو نہیں آسکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا ۔ ابو لہب اور قریش بھی آئے تھے ۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگرمیں تم سے یہ کہوں کہ ایک بہت بڑا لشکر تمہارے اوپر حملہ کرنے کو تیا ر کھڑ ا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کر لو گے ۔سب نے کہا ضرو ر کریں گے کیونکہ ہم نے آپ کی ساری باتیں سچی دیکھی ہیں ۔تب آپ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے شرک وکفر سے بازنہ آئے تو تم پر بڑ ا بھاری عذاب آنے والا ہے ۔ابو لہب بولا ، تو ہلاک ہو ، کیا تو نے ہمیں اسی لیے یہاں بلایا تھا۔چنانچہ اس وقت سورہ :'' تبت یدا ابی لھب وتب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب'' نازل ہوئی۔''
صاف ظاہر ہے کہ جو شخص کسی معاشرے میں پیدایش سے لے کر ادھیڑ عمر ہونے تک ، چالیس سال گزارے اور اس کے کردار میں ، اس کے دشمن اور مخالفین کسی بھی قسم کی معمولی خامی تک بیان نہ کرسکیں ۔تو عقلا یہ بات محال نظر آتی ہے کہ ایسا سلیم الفطرت شخص اچانک عمر کے اس حصے میں جب ہر شخص تمام سرگرمیاں ختم کر کے اللہ اللہ کرنے لگتا ہے ، کسی لالچ 
اور دنیاوی مفاد کے لیے جھوٹ، بناوٹ اورفریب سے کام لے ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل از نبوت مکی زندگی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کی ذات سے زبان و بیان کے معاملے میں بھی کوئی غیر معمولی چیزصادرنہیں ہوئی۔اس لیے جب قرآن مجید نازل ہوا توجو لوگ آپ سے واقف تھے انھیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ اس طرح کا کلام کوئی بڑ ے سے بڑ ا قادرالکلام عرب شاعر یا ادیب تخلیق نہیں کرسکا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح خود ایسا کلام کہہ سکتے ہیں ۔دوسری طرف اگر آپ نے دنیاوی لالچ میں یہ کا م کیا ہوتا تو کفار مکہ نے آپ کو عرب کی بادشاہی، مال ودولت اور بعض روایات کے مطابق عرب کی حسین ترین خاتون جو آپ کو پسند ہو، اس کے ساتھ شادی کی پیش کش کی تھی، کہ آپ اس کے بدلے میں بت پرستی پر اعتراضات کرنا بند کر دیں ۔لیکن آپ نے ایسی ہر پیش کش رد کر دی۔ ابوالولید عتبہ بن ربیعہ 
مشرکین کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اور قریش کی طرف سے بہت ہی دلفریب قسم کی پیش کشیں کیں :
''بھتیجے یہ معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرہ تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ، اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمھیں سردار بنالیتے ہیں ، یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں گے ۔اور اگر تم چاہتے ہوکہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں ۔اور اگر یہ جوتمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو، لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کر سکتے تو ہم تمہارے لیے اس کا علاج تلاش کیے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا اتنا مال خرچ کرنے کو تیا رہیں کہ تم شفایاب ہو جاؤ، کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آ جاتا ہے اوراس کا علاج کروانا پڑ تا ہے ۔[19] 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تمام پیش کشیں رد کر دیں اور اپنے مقصد کے ساتھ خلوص کے ساتھ وابستہ رہے اوربالاخر تمام عرب جو کسی واضح عقلی دلیل کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ محض اس ہٹ دھرمی اور تعصب کی وجہ سے آپ کے خلاف تھے کہ جس راستے پر ان کے اباء و اجداد گام زن رہے ہیں اس کو کس طرح چھوڑ دیں ، وہ سب کے سب آپ کے حامی و مددگا ر اور جان نثار 
ساتھی بن گئے ۔مستشرقین جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں تو ان کی تاریخ سے عدم واقفیت اور تعصب کا بھرپور اظہارہوتا ہے ۔ وہ تمام حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ایسے اعتراض کرتے ہیں جو خود ان عربوں اور اس دور کے یہود و نصاریٰ نے بھی نہیں کیے جن 
کے درمیان آپ نے حیات طیبہ کا ایک بڑا عرصہ بسر کیا تھا۔
چنانچہ اب ہم ان اعتراضات کا ترتیب سے جائزہ لیتے ہیں جو ، و قتافوقتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے جاتے رہے ہیں :
۱۔نبوت سے انکار
مستشرقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اسی طرح سے انکا ر کرتے ہیں جس طرح ان کے پیش رو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔یہود نبوت و رسالت کو بنی اسماعیل میں جاتے ہوئے برداشت نہ کر سکے اور اپنی تمام تعلیمات اور کتب میں بے تحاشا تحریفات کر ڈالیں ۔انھوں نے حضرت اسماعیل کے ذبیح ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ ذبیح حضرت اسحق تھے ۔ جبکہ دنیا کی معلوم تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی کسی مذہب کے ماننے والوں نے اپنی اولاد کو اپنے مذہبی مقاصد کے لیے قربان یا وقف کرنے کا ارادہ کیا تو ہمیشہ اس مقصدکے لیے پہلوٹھی کا بچہ استعمال کیا ۔ چونکہ حضرت اسماعیل عمر میں حضرت اسحق سے بڑ ے تھے اس لیے یہ بات بالبداہت ،واضح ہے کہ راہ خدا میں قربانی کی سعادت بھی انھی کے حصے میں آئی ہو گی۔ یہ روایات کہ کعبہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام نے تعمیر کیا تھا، اور عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ، تاریخ عرب میں تسلیم شدہ تھیں ۔ان پر نہ اس وقت یہود نے اعتراض کیا تھا اور نہ نصاریٰ نے ۔اسی طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی کتب سے ایسی تمام نشانیاں مٹا دینے کی کوشش کی جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تائید ہوتی تھی، جب کہ قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور نبی اس طرح پہچانتے 
ہیں جیسے اپنی اولا د کو پہچانتے ہیں ۔اس کے باوجود ، چونکہ انسانی کوشش غلطی سے مبرا نہیں ہوتی، ان کی کتب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں کچھ آیات باقی رہ گئی تھیں جن کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں کر چکے ہیں ۔
عیسائیوں کی اپنی کتابوں میں بیان کردہ پیش گویوں کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلومات اوراسلام کے متعلق ان کے رویوں کا اندازہ ہم پروفیسرٹی۔ڈبلیو۔آرنلڈ(1864-1930) کے اس بیان سے کر سکتے ہیں جو انھوںنے اپنی کتاب "
The preaching of Islam"میں ایک نومسلم عبداللہ بن عبداللہ کے قبول اسلام کے ذیل میں درج کیا ہے ، آرنلڈ کے بقول یہ واقعہ عبداللہ نے اپنی خود نوشت"The book of the present of the scholar to refute the people of the cross" میں ذکر کیا ہے ، جوکہ ۱۴۲۰ء میں لکھی گئی تھی۔آرنلڈ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ 
میورقہ(
Majorqa) میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک عیسائی مشنری تھے ۔انھوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے عیسائیت کی تعلیمات حاصل کرنے کے بعداپنے آپ کو ایک معروف عیسائی پادری (Nicolas Martil)کے ساتھ وابستہ کر لیا. مذکورہ پادری بہت تعلیم یافتہ اور مسیحی حلقے میں عزت و احترام کا حامل تھا۔عبداللہ بتاتے ہیں کہ ایک دن پادری اپنی درس گاہ میں نہ جا سکے اور ان کی غیر موجودگی میں طالب علم انجیل میں حضرت عیسیٰ کی بیان کردہ آنے والی شخصیت ''Paraclete''کے متعلق بحث کررہے تھے ۔ہر طالب علم اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔یہ بحث کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی۔جب میں نے پادری کو اس بحث کی روداد سنائی تو اس نے کہا کہ تم لوگوں نے ۔۔'' فارقلیط ''کے معنی کا صحیح تعین نہیں کیا۔چنانچہ میں نے خود کو پادری کے قدموں پر گرا دیا اور ان سے اس کا صحیح مفہوم معلوم کیاتو اس نے کہا کہ تم نے میری بڑی خدمت کی ہے اور تم مجھے بہت عزیز ہو۔لیکن اگر میں نے تمہیں صحیح بات بتا دی تو عیسائی تمھیں زندہ نہیں چھوڑ یں گے۔ میں نے راز افشا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ وہ ضرور مجھے اس راز سے آگاہ کریں۔ تو پادری نے کہا:
''بیٹے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ فارقلیط پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے گرامی میں سے ہے ۔اور یہ وہی پیغمبر ہیں جن پر وہ چوتھی کتاب نازل ہوئی جس کا اعلان دانیال نبی کی زبان سے ہوا تھا۔پیغمبر اسلام کا دین یقیناسچا دین ہے اور ان کا مذہب وہی شان دار اور پرنور مذہب ہے ، جس کا ذکر انجیل میں آیا ہے ۔''[20]
چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ہاں ، دنیا اورآخرت دونوں میں نجات اسلام سے مشروط ہے ۔اس پر میں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ان سے مشورہ کیا کروں تو انھوں نے اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیا ۔جب میں نے ان سے بھی مسلمان ہونے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ میں اب بوڑ ھا ہو چکا ہوں اورعیسائی دنیا 
میں میری بہت عزت ہے ۔اگرمیں مسلمان ہو جاؤں تو میرے لیے جان بچانا بہت مشکل ہے ۔آخر کا ر میں نے ان کے مشورے سے مسلمان ملک تیونس میں جا کر اسلام قبول کر لیا۔
صدیوں سے کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بنی اسماعیل سے ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ ہی کسی نے اس حقیقت کو جھٹلایا تھا۔لیکن موجودہ دور کے بزعم خود انصاف پسنداور حقیقت بیان مستشرقین نے بغیر کسی دلیل کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کا بھی انکا ر کر دیا۔مشہور مستشرق ولیم میور) (1819[
L:150]1905نے اپنی کتاب "The Life of uhammad"میں اس بات کا ذکر اس انداز سے کیا ہے :
''اس بات کی خواہش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت اسماعیل کی اولاد سے خیال کیا جائے اور یہ کہ اس بات کو ثابت کر دیا جائے کہ آپ اسماعیل کی اولاد سے ہیں ، پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں ہوئی۔اور اس کے لیے آپ کے ابراہیمی نسب نامے کے ابتدائی سلسلے گھڑ ے گئے اور حضرت اسماعیل اور بنی اسرائیل کے بے شمار قصے عربی زبان میں شامل کیے گئے 
۔''[21]
ولیم میور کے اس مفروضے کو منٹگمری واٹ نے زیادہ اچھالا اور یہ دعویٰ کیا کہ عربوں کو اپنے حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل کی اولاد ہونے کا کوئی علم نہیں تھا، بلکہ یہ تصور مدینہ جانے کے بعد یہود ی لٹریچر اور روایات کو جاننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں میں پیدا ہوا۔اس کی دلیل اس نے یہ دی ہے کہ مکی سورتوں میں اس معاملے کا کوئی ذکرنہیں ہے ، جن آیات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق حضرت ابراہیم سے ہونا ثابت ہوتا ہے وہ مدنی سورتوں کی ہیں ۔اس سے یہ تاثر دینا بھی مقصود ہے کہ معاذاللہ قرآن مجید آپ کی اپنی تخلیق ہے جو 
مختلف ضروریات کے نتیجے میں تخلیق کیا جاتا رہا۔ یہ اعتراضات انتہائی کمزور ہیں ۔عربوں کی روایات میں یہ بات بہت اہمیت رکھتی تھی کہ خاندانی حسب و نسب کو یا د رکھا جائے ۔ان کا حافظہ بھی کمال کا تھا اور علم الانساب کی مہارت اور نسب کے خالص ہونے کی خواہش اس درجہ قوی تھی کہ وہ لوگ گھوڑوں اور اونٹوں کی نسلوں کا بھی لحاظ رکھتے تھے ۔جو لوگ مجہول النسب 
جانور پالنا پسند نہ کرتے ہوں ان پر یہ اعتراض لگانا کہ وہ اپنے نسب میں ہیر پھیر کریں گے ، انتہائی احمقانہ الزام ہے ۔نسب کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کو خالص رکھنے کی خواہش بھی اتنی قوی تھی کہ عرب اپنے جگر کے ٹکڑ وں کو سالوں تک دیہاتی خواتین کے حوالے کردیتے تھے ۔ انھیں اپنے بچوں سے دوری گوارا تھی لیکن اپنی زبان میں کسی قسم کی آمیزش برداشت نہ کرسکتے تھے ۔مکی سورتیں ، چونکہ مکہ کے ماحول میں نازل ہوئی تھیں اور عرب اپنی تاریخ اور نسب سے واقف تھے لہٰذا ان کے سامنے ایسے کسی ذکر کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید مخالفت اور دشمنی کے باوجو د کسی عرب نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب و 
نسب پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔یہ ضرورت انھی لوگوں کو پیش آئی جو اپنی کتب میں تحریف کے 
نتیجے میں اور زیادہ مشکلات میں پھنس چکے تھے ۔عربوں کے دین ابراہیمی کی تمام روایت کسی نہ کسی صورت میں موجود تھیں ۔مثلا حج، نماز، قربانی، طواف، تجہیز و تکفین وغیر ہ کی رسومات۔اسی طرح خانہ کعبہ ان کا قبلہ تھا اور اسے بھی وہ حضرت ابراہیم کی پیروی میں قبلہ سمجھتے تھے ۔مستشرقین کے اس بیہودہ اور غیر حقیقی الزام کے رد میں مشہور مستشرق ایڈورڈ گبن لکھتا ہے :
''محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاندانی بنیا د کوعامیانہ اور حقیر ثابت کرنے کی کوشش عیسائیوں کی ایک غیر دانش مندانہ تہمت ہے جس سے ان کے مخالف کا مقام کم ہونے کے بجائے مزید بڑ ھا ہے ۔''[22]
۲۔ کیفیات وحی کی غلط تعبیر
مستشرقین کی منفی ذہانت اور ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت آمنہ کو فرشتوں کی بشارت، واقعۂ شق صدر اور نزول وحی کی کیفیات کے بارے میں روایا ت کو غلط رنگ دیا۔ان روایات کی توجیہ یہ کی گئی کہ حضرت آمنہ کو فرشتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کی خوش خبری نہیں دی تھی بلکہ یہ خاندانی طور پر مرگی کا موروثی مرض 
تھا۔اسی طرح واقعہ شق صدر کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرگی کے دورے سے موسوم کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ کی کیفییات میں تغیر پیدا ہوتا۔شدیدسردی کے موسم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آ جاتا۔اگر آپ سواری پر ہوتے تو وہ سواری بوجھ کی شدت سے بیٹھ جاتی۔ یہ کیفیا ت کئی روایات میں بیان ہوئی ہیں ۔مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت منقول ہے :
''حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آوازکی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تھاتو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں ۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا۔پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔''(بخاری ، کتاب الوحی)
اس کیفیت کو مستشرقین نے مرگی کا دورہ قرار دیا ہے ۔ظاہر ہے کہ خدائی جلوے اور کلام خدا کو برداشت کرنا انسانی بس کی بات نہیں ہے ۔کسی پیغمبر کو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی اہتمام اور نگرانی میں اس بات کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ اس کے پیغام کو وصول کرکے آگے پہنچا سکے ۔مستشرقین ، باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ کے واقعے میں کوہ طورپر تجلی رب سے قوم موسیٰ کی موت اورحضرت موسیٰ کے بے ہوش ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیفیات وحی کو مرگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض مغرب زدہ مسلمان سکالر بھی جو مغرب سے آنے والی ہر چیز کو معیاری سمجھتے ہیں ، مستشرقین کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کوئی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتاکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرصرف نچلے طبقے کے چند غریب لوگ ایمان نہیں لائے تھے ، بلکہ عرب کے عظیم دانش ور، شاعر، خطیب، سپہ سالار،طبیب، فلسفی، علمائے یہود و نصاریٰ بھی ایمان 
لائے تھے اور زندگی بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ۔ ان میں سے کسی کوکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کی کیفیت میں مرگی یا کسی اور بیماری کی جھلک نظر نہیں آئی۔ اسی طرح اس دور کے مخالفین نے بھی آپ پر ہر طرح کی الزام تراشی کی لیکن اس کیفیت کو مرگی قرار نہیں دیا۔اس مرض اور اس سے متاثرہ مریض کے بارے میں اہل علم و فن نے بہت کچھ لکھا ہے جن میں سے کوئی کیفیت بھی آپ پر لگائے گئے اس الزام کی تائید نہیں کرتی۔
قرآن مجید
اسلام کے رخ روشن کو دھندلانے کی سعی و جہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذات گرامی کے بعد مستشرقین کا سب سے بڑ ا ہدف قرآن مجید ہے ۔یہ لوگ اچھی طرح سے جان گئے ہیں کہ جب تک مسلمان قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں گے تب تک ان کو صراط مستقیم سے ہٹانا نا ممکن ہے ۔ولیم جیفورڈ بالگراف نے اس راز کو اس طرح سے بیان کیا ہے :
''جب قرآن اور مکہ کا شہر نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے تو پھر ممکن ہے کہ ہم عربوں کو اس تہذیب میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے دیکھ سکیں جس تہذیب سے ان کو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کی کتاب کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک سکتی۔'' [23]
چنانچہ مسلمانوں کو ان کی بنیاد سے ہٹانا مستشرقین کے نقطہ نظر سے انتہائی ضروری تھا ۔انھوں نے اس عظیم الشان کلام پرایسے اعتراضات کیے جو اس سے پہلے کسی کے خواب و خیال میں نہیں آئے تھے ۔قرآن کے مخاطبین ، جن کی اپنی مادری زبان میں قرآن نازل ہوا تھا ، انھیں اس پراعتراض کی جراء ت نہیں ہوئی۔زبان و بیان کے ماہر عرب جو اپنے علاوہ پوری دنیا کو عجم یعنی 
گونگا قرار دیتے تھے ، قرآن مجید نے ان کی قوت بیان کو متحیر کر دیا ۔قرآن نے انہیں چیلنچ کیا اگر تم قرآن کو کلام الٰہی تسلیم کرنے سے انکا رکر رہے ہوتو اپنی زبان اور قوت بیان کو ، جس پر تم اتنا فخر کرتے ہو، استعمال کر کے قرآن مجید کے مقابلےمیں کلام لے آؤ:
وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاْتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صٰدقین۔ فان لم تفعلوا ولن تفعلوافاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ،اعدت للکٰفرین۔(البقرۃ۲:۲۴۔۲۳)
''اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پرنازل کی ہے توپھر تم ویسی ہی ایک سورت بنا کر لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ پس اگر تم ایسا نہ کر سکو، اور (یقینا)تم ہرگز ایسا نہ کر سکوگے ، تو پھر آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لیے تیا رکی گئی ہے ۔''
ٓ صاف ظاہر ہے کہ زبان و بیان کی قوتیں جس ہستی کی بخشی ہوئی تھیں ، وہ جو نطق اور فوادکا خالق ہے ، اس کا مقابلہ کون کر سکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلام مجید ، آپ کی نبوت کی تائید میں ،بطورمعجزہ عطاء فرمایا تھا۔اس کی معجزانہ خصوصیات کے بارے میں وہی لوگ جان سکتے تھے ، جن کی زبان عربی مبین تھی، یا جو زبان و بیان کے ماہر تھے 
۔اللہ تعالیٰ کا طریقہ انبیائے کرام کے معاملے میں یہ رہا ہے کہ جس امت میں ان کو مبعوث کیا ، ان کے حالات کے لحاظ سے ، اتمام حجت کے لیے معجزات بھی عطاء فرمائے ۔تاکہ وہ قوم یقین کامل حاصل کر لے کہ یہ شخصیت اللہ کی طرف سے ہے اور اسے اس معاملے میں کوئی شک نہ رہے ۔مثلاً حضرت موسیٰ کے زمانے میں جادو کا شہرہ تھا۔سینکڑ وں ماہرین فن مصر کے طول و عرض میں موجود تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا معجزہ عطا کیا جس کا تعلق اسی فن سے تھا، لیکن درحقیقت اس کی نوع الگ تھی جسے صرف ماہرین فن جادوگروں نے پہچانا اور اس کے بعد اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ و ہارون علیھما السلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں ۔اسی طرح حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب و حکمت کا فن عروج پر تھا۔ اللہ نے آپ کواس فن سے متعلق معجزات عطا کیے تھے ۔ مثلا ً آپ اندھوں کو بینائی ، کوڑ ھیوں کو صحت یابی اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندگی بخش دیتے تھے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین میں شعر و خطابت اور زبان و بیان کا چرچا تھا۔اس لیے اللہ نے آپ کی نبوت کی تائید میں قرآن مجید کو ایک معجزانہ 
کلام کی صورت میں نازل کیا تاکہ زبان و بیان کے ماہر عرب یہ بات آسانی سے جان لیں کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ یہ کلام الٰہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے عربوں کی زبانیں گنگ کر دیں. جو لوگ زبان و بیان کے ماہر تھے انھیں قرآن پر ایسا کوئی اعتراض کرنے کی جرات نھیں ہوئی ۔ یہ کام اجڈاور جاہل دیہاتی عربوں اور عربی زبان و ادب سے ناواقف مستشرقین نے کیا ہے ۔ ان لوگوں نے قرآن مجید کو کبھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تخلیق اور کبھی کسی عیسائی پادری اور یہودی عالم سے مستعار لیے گئے خیالات قرار دیا۔اور کبھی یہ الزام لگا دیا کہ یہ کتاب منتشر خیالات کا مجموعہ ہے جن کا آپس میں کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے ۔قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے مشہورمستشرق جارج سیل (
George Sale)(1697-1736)نے قرآن مجید کے بارے میں 
اپنے سنہری خیالات کا اظہار اپنے ترجمہ قرآن (
The Koran)کے مقدمے میں اس طرح سے کیا ہے :
''اس حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کے مصنف یا موجد محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)ہیں ، اگرچہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ آپ کو اس منصوبے میں دوسروں سے جو مدد ملی وہ کم نہ تھی، جیسے کہ آپ کے ہم وطنوں نے آپ پر یہ اعتراض کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔البتہ ان کو اس قسم کی مدد مہیا کرنے والے مخصوص شخص کا تعین کرنے میں ان کے مفروضے 
اتنے متضاد ہیں کہ وہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف یہ الزام ثابت نہ کر سکے ۔یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس معاملے کو خفیہ رکھنے کے لیے اتنے عمدہ اقدامات کیے جن کی وجہ سے اس راز کا انکشاف ممکن نہ تھا۔ڈاکٹر پیریڈیکس نے اس مسئلے کی ایسی تفاصیل بیان کی ہیں جو حقیقت کے زیادہ قریب ہیں ۔یہ تفاصیل اکثر عیسائی مصنفین کی کتب سے لی گئی ہیں ، جو اپنے بیانات میں بعض مضحکہ خیز قصوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی اعتبار کے قابل نہیں رہتے
۔''[24]
مستشرقین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگایا کہ آپ نے قرآن مجید انجیل ، تورات اور اہل کتاب کی روایات سے اخذ کیا ہے ۔چونکہ اس بات سے انکا ر کرنا مشکل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روایتی تعلیم اور کتابت سے ناآشنا تھے ، لہذا ان لوگوں نے یہ شوشا چھوڑا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ورقہ بن نوفل ، بحیرہ راہب، شام کی سرحدوں پر آباد عیسائیوں ، مقامی میلوں میں 
آنے والے اہل کتاب اور عیسائی غلاموں سے واقعات اخذکر کے قرآن مجید تخلیق کرتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ادب اور زبان وبیان سے نا آشنائی ان لوگوں کے لیے بہت مشکلات کا باعث بن جاتی ہے ۔ اس بات کو ثابت کرنا کہ یہ سراسر آ پ کی اپنی تخلیق ہے ، اس لیے بھی مشکل ہے کہ آپ کا امی ہونا ہر لحاظ سے ثابت ہے ۔جب کہ دوسری طرف قرآن مجید کا کلام معجزپکار پکا رکر کہہ رہا ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔جارج سیل (
George Sale)(1697-1736) بھی قرآن مجید کی اس خصوصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے :
''کلام میں لفاظی حاضرین کے ذہنوں پر جو اثر ڈالتی ہے، محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے بے خبر نہ تھے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے ان نام نہاد الہامات میں اسلوب بیان کے اس وقار اور رفعت کو قائم رکھنے کے لیےاپنی پوری صلاحیتیں استعمال کی ہیں ، جو اس ذات کے شایان شان ہو جس کی طرف وہ اس کو منسوب کرتے ہیں اور اس اسلوب کو اختیار 
کیا ہے جو عہد نامہ قدیم کے پیغمبرانہ اسلوب سے ہم آہنگ ہو سکے ۔''[25]
اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مخالفین کی اس جسارت کا جو آغاز اسلام سے لے کر اب تک اوراب سے لے کر یوم حساب تک ،نہایت عمدہ جو اب دیا ہے ۔جو لوگ اس کلام کو کبھی کسی راہب سے ملاقاتوں کا نتیجہ اور کبھی آپ کی اپنی کاوش اور کبھی کسی بلعام لوہار، مغیرہ کے غلام یعیش اور عیش و جبرنامی لوگوں کی تعلیم قرار دیتے ہیں [26] ، ان سے اللہ نے فرمایا ہے :
ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی و ھذا لسان عربی مبین۔ (سورۃ النحل۱۶:۱۰۳)
''اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ انھیں ت یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے ۔حالانکہ اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ تعلیم قرآن کی نسبت کرتے ہیں ، عجمی ہے اور قرآن فصیح وبلیغ عربی زبان میں ہے ۔''
یہ بات واقعی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کو مشرکین اور مستشرقین، دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استاد قرار دے رہے ہیں وہ عجمی الاصل ہیں اور ان میں سے کسی کی مادری زبان عربی نہیں ہے ۔ اس عظیم الشان کلام کو، جس کی تاثیر ، قوت اور عظمت کا اقرارعرب کے تمام مسلم اور غیر مسلم اہل زبان و ادب کر چکے ہوں ، ایسے لوگوں کی طرف منسوب کرنا جہالت اور نادانی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ۔اور قرآن کی سچائی اور اعجاز کے لیے یہی کافی ہے کہ چودہ سو سال سے ہر علم و فن کے ماہر اسی سے رجوع کررہے ہیں اور سینکڑوں ، بلکہ ہزاروں علوم و معارف کا استنباط اس سے کر چکے ہیں ۔لاکھوں غیر مسلم کسی تبلیغی مشن کے نتیجے میںنہیں ، بلکہ اس کتاب عظیم کے مطالعے کے نتیجے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔مثلاڈبلیو ایچ کویلیم، رسل ویب، ڈاکٹر مارٹن لنگز، ڈاکٹر آرتھر کین، جان سنٹ،جرمن مفکر علاء الدین شلبی، علامہ محمد اسد، خالد شیلڈرک، مریم جمیلہ وغیرہ۔ ڈاکٹر موریس بوکائیلے نے اپنی کتاب (
TheBible, The Quran And Science)میں بائیبل سے بیسیوں ایسی آیات نقل کی ہیں جوآپس میں متناقض،سائنسی نظریات کے متعارض اور تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔لیکن انھیں قرآن مجید کا ایک بھی بیان ایسانہیں ملا جومسلمہ عقلی اورسائنسی نظریات کے خلاف ہو۔ موریس بوکائیلے لکھتے ہیں :
''قرآن کا سائنسی طریق سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلقرکھنے والے کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن میں بیان کیے گئے مختلف النوع بیانات دے سکے جواس کے زمانے سےتعلق نہیں رکھتے تھے اور جن کے بارے میں صدیوں کی تحقیق کے بعد کوئی حتمی رائے قائم کی گئی۔میرے نزدیک قرآن کی کوئی انسانی توجیہ ممکن نہیں ہے ۔''[27]
تعدد ازواج
اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات کا ایک ہدف تعدد ازواج کی اجازت ہے ۔ اس موضوع پر انھوں نے اسلامی تعلیمات کو اورخصوصا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید طریقے سے ہدف تنقید بنایا ہے ۔لیکن حیر ت کی بات یہ ہے کہ عیسائیت اور یہودیت کی طویل تاریخ میں عورتوں کے خلاف جو ظلم و ستم روا رکھا گیا ، یا انجیل و تورات کے اندر سینکڑ وں شادیوں ، اور بے شمار لونڈیوں کے ساتھ رفاقت کے جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔جب ہم یہودیت اور عیسائیت کی قدیم تاریخ پرنگاہ ڈالتے ہیں تو ہردور میں خواتین کی حیثیت مردوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تر نظر آتی ہے ۔ ان کو معاشرے میں نہایت گھٹیا مقام دیا جاتا تھا۔ اہل مذہب ان کوتمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے تھے اور ان سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے تھے ۔بائیبل میں بعض انبیا ء کی بھی سینکڑ وں بیویاںبیان کی گئی ہیں ، مثلا حضرت سلیمان کے ایک رات میں اسی بیویوں کے پاس جانے کی کہانی یہودی اساطیر ہی سے اسلامی تفاسیر میں در آئی 
ہے ۔ یونانی اساطیر میں ایک خیالی عورت پانڈورا (
Pandora) کو تمام انسانی مصائب کا ذمہ دار ٹھرایا گیا تھا۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کی مذہبی خرافات میں حضرت حوا کوآدم کے جنت سے نکالے جانے کا باعث قرار دیا گیا تھا۔ یونانی اورایرانی تہذیب میں بھی مرد وزن کے تعلقات اخلاقی رکاوٹوں سے آزاد ہوگئے تھے اور کثرت ازواج پر کوئی قدغن نہیں تھی۔مسیحی تعلیمات میں عورت کو ایک خطرہ،مصیبت اور غارت گر ایمان قرار دیا گیا۔مذہبی لوگ عورت سے دور رہنے کو تقویٰ ، تقدس اور اعلیٰ اخلاق کی علامت سمجھنے لگے ۔اس طرح سے عورت اس معاشرے میں تیسرے درجے کی مخلوق بن گئی تھی۔چونکہ مذہبی طبقے کو معاشرے میں فوقیت حاصل تھی اور تمام 
قوانین اورضوابط کا مرکز و محور یہی طبقہ تھا جو عورتوں کو تمام مصائب کی جڑ قرار دیتا تھا، لہٰذا عورتوں کو کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل نہیں تھے ۔عرب معاشرے میں بھی کثرت ازواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی۔ اسی طرح طلاق پر بھی کسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔ اس قسم کے حالات 
میں اگر اسلام کی تعلیمات کو دیکھا جائے توہر سلیم الفطرت انسان یہ بات تسلیم کر لے گا کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں پہلی بار خواتین کو کسی نے برابر کے حقوق دیے ہیں ۔جہاں شادیوں کی کوئی حد مقرر نہیں تھی وہاں اسلام نے چار کی تحدید کر دی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ان کے ساتھ انصاف کرنا لازمی ہے ۔ایک اور بات جو پیش نظر رکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے شادی کے ارادے ،بیوی کے انتخاب، اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے معاملات کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا ہے اور ریاست کو ازخود اس میں مداخلت کا حق نہیں دیا۔البتہ ان معاملات میں اچھے اور برے کی تمیزضرور کر دی ہے ۔اسی طرح اسلام میں چار شادیاں کرنا لازمی بھی قرار نہیں دیا گیا ، بلکہ صحابہ کرام کے کثرت سے شہید ہونے اور شہداء کے اہل و عیال کی کفالت کے سلسلے میں معاشرتی مسائل اور منفی رویوں سے بچاؤ کے لیے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت کے معاملے میں جن مسائل کا شکار ہیں ، ان سے بچنے کے لیے ان کی بیویوں سے 
شادی کر لیں ۔اس اجازت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آیندہ بھی کبھی دنیا میں کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے جب عورتوں کی تعدادمردوں سے بڑ ھ جائے ، یا کسی شخص کوطبی یا معاشرتی بنیادوں پر دوسری شادی کرنی پڑے تو وہ کر سکے ۔مثلا کسی کی بیوی دائمی مرض میں مبتلا ہو، یا کسی گھر میں کسی ایک بھائی کی وفات ہوجائے وغیرہ۔ اس پر بھی یہ پابندی لگا دی گئی کہ اگربیویوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکتے تو ایک ہی شادی پراکتفا کرو۔ قرآن مجید میںارشاد ہے:
و ان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتٰمیٰ فا نکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ و ثلٰث و ربٰع، فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ۔ ( سورۃ النساء ۴:۳)
''اگر تمھیں ڈر ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے توان کی ماؤں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، دو دو،تین تین، چار چار سے ، لیکن اگر تمھیں خدشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو۔''
اسلام نے خواتین کو، تاریخ میں پہلی بار، شادی اور طلاق کے معاملے میں اختیار دیا۔ عورت کو معاشرے میں عزت و احترام کا مقام دیا۔اس کو کمانے اور جائیداد بنانے کا حق دیا۔بچوں کی پرورش اور ان کے بارے میں فیصلوں میں معاونت کا اختیار دیا۔ 
مردو عورت کوایک دوسرے کا لباس اور سکون و اطمینان کا ذریعہ قرار دیا۔اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے مذہب کو مستشرقین یہ الزام دیں کہ اس نے خواتین سے زیادتی کی ہے ۔ یہ تو عمومی طور پر مسلمانوں کے درمیان تعدد ازواج پر مغرب کے اعتراضات کا سرسری جواب تھا۔ اب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تعدد ازواج کے الزامات کی طرف آتے ہیں ۔مستشرقین نے کثرت ازواج کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنسی طور پرحد سے تجاوز کرنے والے انسان کے طور پر پیش کیا ہے ۔ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہے جو علمی وتحقیقی معیار سے تو کوسوں دور ہے ہی، عام انسانی اخلاقیات بھی اس کے ذکر کی اجازت نہیں دیتے ۔ اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان بازاری اوربدزبان لوگوں کو سکالر اور محقق بھی کہا جاتا ہے ۔ولیم میورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھتا ہے :
''اب محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی لیکن جنس مخالف کی طرف میلان کی کمزوری میں عمر بڑ ھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔آپ کے بڑ ھتے ہوئے حرم کی کشش آپ کو اپنی وسیع حدود سے تجاوز سے روکنے کے لیے کافی نہ تھی۔''[28]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنس پرستی اور ہوس پرستی کا الزام لگانے والوں نے اپنے تعصب، تنگ نظری اور اسلام دشمنی کے باعث بہت سے حقائق کو نظر انداز کر دیا ہے ۔اگر تعدد ارواج کسی شخص کی جنس پرستی کا ثبوت ہے تو تاریخ عالم میں بہت سی شخصیات اس الزام کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں ۔ان شخصیات میں عام لوگوں اوریہود و نصاریٰ کے قائدیں کے علاوہ ان کے بہت سے انبیا 
ء بھی شامل ہیں ۔مثلاً بائبل کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویاں اور تین سو لونڈیاں تھیں ۔[29] اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یعقوب کی چار چار بیویوں کا ذکر ملتا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا جائزہ لینےسے ہمیں واضح طور پر اس بات کے ثبوت مل جاتے ہیں کہ مستشرقین کے ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔آپ نے زندگی کے اس دور میں جو جسمانی تقاضوں اور نفسانی خواہشات کے معاملے میں سنہری دور 
کہلاتا ہے ، ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے نکاح کیا۔ان کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ان کی وفات کے بعد، جب گھر میں بچیاں اکیلی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کی ذمہ داریوں میں ان کی ضروریات کو پورا نہیںکرسکتے تھے ، اس بنا پر آپ نے عمر رسیدہ بیوہ خاتون حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاندان اور آپ کی شخصیت کا تاثر اتنا عمدہ تھا کہ آپ عرب کی جس خاتون سے چاہتے ، وہ آپ سے شادی کے لیے تیار ہوجاتی۔اس سے پہلے عرب آپ کو دعوت دین سے باز رہنے کے لیے عرب کی حسین ترین خاتون 
سے شادی کی پیش کش کر چکے تھے ، جسے آپ نے رد کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ایک ہی کنواری خاتون حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اللہ کے احکام کے مطابق ہی بسر ہوئی تھی اور تمام شادیاں بھی یقینا اللہ کے حکم سے ہوئی تھیں ، لیکن اسلامی روایات کی رو سے آپ کی یہ شادی ، خالصتاً، اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوئی تھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ کی طرف سے خواتین کے معاملات میں نبوت کی ذمہ داریوں میں آپ کی معاون بنائی گئی تھیں ۔آپ کی تمام شادیاں نبوت و رسالت کی ذمہ 
داریوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف مقاصد کے تحت انجام پائی تھیں ۔مثلاًحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان حالات میں جب پورا عرب آپ کے خلاف تھا، آپ کی ممد و معاون بنیں اور اپنی ذات ، اپنا مال اور اپنی اولاد ہر چیز اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کر دیا۔اسلام کے راستے میں پہلی شہادت حضرت حارث بن ابی ہالہ کی تھی، جو حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے آپ کی واحد اورنرینہ اولاد تھے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پل کربڑ ے ہوئے تھے ۔حضرت عائشہ سے آپ کا نکاح کی وجہ یہ تھی کہ خواتین کے خصوصی معاملات میں کسی خاتون کی معاونت ضروری تھی۔ فطری شرم کی وجہ سے خواتین ایسے مسائل مردوں کے سامنے ذکرنہیں کر سکتیں ۔حضرت سودہ سے نکاح بچیوں کی کفالت کی غرض سے ہوا۔حضرت زینب بنت جحش سے نکاح تشریعی مقاصد کے لیے ، متبنی کی بیوی سے نکاح کی حرمت ختم کرنے کے لیے ، جو کہ عربوں نے اللہ کے حکم کے خلاف خودپرمسلط کر لی تھی، کیا گیا۔معاشرتی مقاصد کے لیے اسلام کی خاطرقربانیاں دینے والے ساتھیوں کی دلجوئی اور ان سے تعلقات میں مضبوطی لانے کے لیے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم سے قریبی رشتہ داریاں قائم کی گئیں ۔سیاسی مقاصد کے لیے آپ نے بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، جس کے نتیجے میں ایک کٹرمخالف قبیلہ اسلام کا حامی بن گیا۔یہود اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن تھے ۔غزوہ خیبر میں یہود کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہااسیر ہوئیں تو آپنے ان کو نکاح کی پیش کش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔یہود کی مقامی روایات میں داماد کے خلاف لڑ ائی کرنا برا سمجھا تا تھا، اس نکاح کے باعث یہود نے مسلمانوں کے خلاف کوئی لشکر کشی نہیں کی۔اسی طرح حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے ذریعے اسلام کے ایک بہت بڑ ے مخالف اور عربوں میں تقدس اور احترام کے حامل شخص کی دشمنی کا زور ٹوٹ گیا۔حضرت زینب بنت خزیمہ کے یکے بعد دیگرے دو شوہرحضرت عبیدہ بن حارث اور عبداللہ بن جحش شہید ہوئے تو ان کی دل جوئی اور انھیں مسائل سے بچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا۔اس وقت ان کی عمرساٹھ سال تھی۔حضرت ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ کے خاوند حضرت عبداللہ بن عبدالاسد حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی تھے ۔ان کی شہادت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوہ کولاوارث چھوڑ نے کے بجائے ان کو نکاح کا پیغام دیا۔حضرت میمونہ بنت حارث بھی ایک بزرگ بیوہ خاتون تھیں ، جن کی آٹھ دیگربہنیں عرب کے اہم لوگوں کی زوجیت میں تھیں ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ترغیب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا جس کے نتیجے میں آپ کی رشتہ داری بہت اہم خاندانوں سے ہوگئی۔اسلامی نقطہ نظر کے لحاظ سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کے مقابلے میں نکا ح کے معاملات میں خصوصی مراعات بھی دیں اور کچھ اضافی پابندیاں بھی لگائیں ، جن کاذکراللہ تعالیٰ نے سورۃالاحزاب کی آیات ۵۰تا ۵۲ میں کیا ہے ۔
مسئلہ غلامی
ایک اور اہم معاملہ جسے مستشرقین نے اپنے طنز وتضحیک کا ہدف بنایا ہے ، وہ اسلام میں غلامی کا تصور ہے ۔مستشرقین نے عام طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام غلامی کو تحفظ دیتا ہے ۔اس غلط تاثر کی بنیادی وجوہات میں جہاں مستشرقین کی اسلامی احکام کے نزول کے طریق کار اور اسلامی تاریخ سے نا واقفیت اور تعصب کارفرماہیں ، وہیں بعض اسلامی سلاطین کی طرف سے اسلام کے احکام سے روگردانی بھی ہے ۔اسلامی احکام اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے پیش نظرتدریج کے اصول پر نازل فرمائے ہیں ۔معاشرے میں پھیلی ہوئی بعض برائیاں جن کی جڑ یں کسی معاشرے میں بہت دور تک پھیل جائیں ، ان کو یک لخت ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔اس طریقے سے معاشرے میں بجائے خیر کے ، انتشار اور بدنظمی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔اسلام کے احکام میں تدریج کا باعث یہی چیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کے احکام بھی اسی طرح سے نازل فرمائے تھے ۔چونکہ عرب میں غلامی ایک ادارے کی صورت پر موجود تھی، اور ایک ایک آدمی کےپاس بیس ، تیس اور سو تک غلام ہوتے تھے ۔اسلام نے اس لعنت کا آغاز نہیں کیا تھا،بلکہ یہ لوگ صدیوں اور نسلوں سے اسی طرح کام کررہے تھے ۔عرب کے طول و عرض اور عراق ، شام اور مصر کی ریاستیں فتح ہوئیں تواس سارے علاقے میں کروڑ وں غلام کام کر رہے تھے ۔چنانچہ اگر ان سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو معاشرے میں بدنظمی اور انتشار پھیل جاتا۔لاکھوں خواتین، مرد اور بچے بے گھر اورلاوارث ہوجاتے ۔چوروں ، ڈاکوؤں ، بھکاریوں اور بدکاروں کی وہ فوج منظر عام پر آتی جسے سنبھالنا کسی کے بس میں نہ ہوتا۔ چنانچہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یہ نکا لا کہ مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد یہ پابندی لگا دی کہ جو خود کھاؤ ، پہنو ان کو بھی وہی کچھ دو۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم پر اس انداز سے عمل کیا کہ آقا و غلام میں تمیز کرنا مشکل ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ غلاموں اور لونڈیوں کی اچھی تربیت کرو۔لونڈیوں کو آزاد کر کے ان کے ساتھ شادی کودہرے اجر کا باعث قرار دیا۔غلاموں کو آزاد کرنے کو اسلام نے سب سے بڑ ی نیکی قرار دیا۔ اس کے بعد مختلف گنا ہوں کے کفارے میں غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی۔پھر مکاتبت کا اصول قرآن نے دیا ، جس کی رو سے جو غلام آزاد ہونا چاہتا وہ اپنے مالک سے رقم طے کرکے قسطوں میں ادا کر کے آزاد ہو سکتا تھا۔اسی طرح قرآن نے نیک اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا حکم دیا۔انسانی غلامی کے سارے طریقوں اور انسانوں کی خرید و فروخت سے روک دیا گیا۔ان سارے احکام کے بعد انسان کو غلام بنانے کی صرف ایک صورت رہ گئی تھی کہ جو لوگ جنگ کی صورت میں قید ہوجائیں ان کو غلام بنا یا جاتا تھا۔چنانچہ آخر میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ محمد میں اس چیز پر پابندی لگا کرغلامی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ قرآن میں ارشاد ہے :
فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب، حتیٰ اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق فامامنا بعدُ واما فداء حتی تضع الحرب اوزارھا۔(سورۃ محمد۴۷:۴)
''تو جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو گردنوں پروار کرو۔جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تواب خوب مضبوطی سے گرفتار کرو۔(اس کے بعد تمھیں اختیار ہے )خواہ احسان کر کے چھوڑ دو یا فدیہ لے کر، تاوقتیکہ لڑ ائی اپنے ہتھیار رکھ دے ۔''
نتیجہ بحث
اس ساری بحث میں بنیادی نکات جن کے متعلق ہر مسلمان کو جان لینا چاہیے ، وہ درج ذیل ہیں :
۱۔ استشراق کا مفہوم صرف مشرقی علوم و معارف کا مطالعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس پست مسلمانوں کے ساتھ چودہ سو سال کی دشمنی کی تاریخ ہے جسے یہود و نصاریٰ ہر گز نہیں بھولے ہیں ۔اس تحریک کی بنیاد میں یہی مقاصد کارفرما ہیں ، چاہے ان کو بظاہر علم و تحقیق کا لبادہ 
اوڑھا لیا جائے ۔
۲۔ مستشرقین کا بنیادی مقصد اسلامی علوم میں تحقیق نہیں ہے بلکہ اس سے اصل مقصود دین کے بنیادی ماخذنبی کریم کی ذات کو معاذاللہ دھندلانا ، ان کی نبوت کو مشکوک کرنا ، صحابہ کرام کی توہین، قرآن مجید کو انسانی کاوشوں کا شاہ کار ثابت کرنا ، اسلام کے چہرے کو داغ دار کرنا
اور اسلامی احکام و معار ف پر شکوک و شبہات کی دھند ڈالنا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو واضح طو ر پر ہدایت دے دی ہے کہ یہود و نصاریٰ ہرگز تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ۔ اسی طرح سورہ بقرہ ۲:۱۲۰میں فرما دیا کہ تم سے ہرگز خوش نہیں ہوں گے یہود ونصاریٰ یہاں تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔اسی طرح سورہ آل عمران میں فرمایا کہ اے ایمان والو! غیروں کو اپنا رازدارنہ بناؤ، وہ تمھیں خرابی پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے ۔وہ تو وہ چیز پسند کرتے ہیں جو تمھیں ضر ر دے ۔ پھرسورہ ممتحنہ میں مسلمانوں پر زیادتی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں کو دوست بنانے سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالایا تمہارے نکالنے میں مدد دی ۔اور جو انھیں دوست بناتے ہیں تو وہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔

حوالہ جات
1۔ لسان العرب ابن منظورالافریقی، محمد بن مکرم، دار صادر بیروت، ج10، ص174۔
2۔ الاستشراق، مازن بن صلاح مطبقانی
3۔ شرق شناسی، ایڈورڈ سوید، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد۔ص14۔
Word Web (Sofware Dictionary)Word"Oreientalism"
5۔المنجد.
6.الاستشراق، ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی، انٹرنیٹ ایڈیشن، ص۲۔
7.۔الاستشراق، ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی، انٹرنیٹ ایڈیشن، ص۲۔
8.۔استثنا ۸۱:۱۹۔۸۱۔
9۔ یوحنا 14:16.
10۔ ضیاء النبی، (بحوالہ، الاضواء علی الاستشراق والمستشرقین، ص۱۵)ضیاء القرآن پبلیکیشنزلا ہور۱۴۱۸ھ، ج۶، ص۱۲۶۔
11. الاستشراق، مازن بن صلاح مطبقانی، قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ مدینہ، ص۴۔
12۔ الاستشراق، مازن بن صلاح مطبقانی، قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ ۔مدینہ، ص۵۔
13۔ ضیاء النبی، پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن پبلیکیشنزلا ہور۱۴۱۸ھ، ج۶، ص۱۲۶۔
14۔ ضیاء النبی، پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن پبلیکیشنزلا ہور۱۴۱۸ھ، ج۶، ص۱۵۶۔
15.۔ ضیاء النبی، ج۶، ص۲۸۰.
16. ۔ ضیاء النبی، ج۶، ص۳۲۹۔
17. ضیاء النبی، ج ۶، ص۲۵۲۔
18. یورپ پر اسلام کے احسانات، غلام جیلانی برق، شیخ غلام علی اینڈ سنز لا ہور، ص۲۸۔
19۔۱۔الرحیق المختوم، صفی الرحمن مبارک پوری، المکتبہ السلفیہ لا ہور،مئی ۲۰۰۰ء ، ص۱۵۳۔
20..
The preaching of Islam, T.W.Arnold, W. Archibald Constable & CO.1896
21..
The Life of Muhammad,William muir,Smith Elder &Co London,1861,p34
22.
History Of The Decline And Fall Of The Roman Empire,E Gibbon Vol 5,p 58.
23۔ضیاء النبی، ج۶، ص۲۵۳۔
24..
The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill,London,1882,P107
25.
The Koran, George Sale,Trubner & Co., LudgateHill,London,1882,P105
26۔ ضیاء النبی ، ج۶، ص۳۷۰۔
27..
The Bible, The Quran And Science,Maurice Bucaille,Dar Al Ma'arif Cairo, Egypt,P125
28.ضیاء النبی، ج۷، ص۴۶۹۔
29۔ سلاطین۱۱:۳۔

 
 

اس پر تبصرہ کریں

Thursday 14 July 2011

مریم جمیلہ کی کہانی خود ان کی اپنی زبانی


 


 

مریم جمیلہ کی کہانی خود ان کی زبانی 

مریم جمیلہ کی کہانی خود ان کی زبانی نیاز سواتی سرسید احمد خان اور ابوالکلام آزاد کے ماڈرن ازم سے تعلق کے بارے میں مریم جمیلہ کی کتاب "اسلام اینڈ ماڈرن ازم" کے دو مضامین کے تراجم جسارت میگزین میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہ دونوں تراجم ایک انکشاف کے طور پر لیے گئے اور قارئین جسارت نے اپنی ای میلز کے ذریعے مطالبہ کیا کہ مریم جمیلہ کی زندگی، ان کے کام اور ان کے قبولِ اسلام کے متعلق معلومات فراہم کی جائیں۔ زیادہ بہتر سمجھا گیا کہ روایتی تعارف کے بجائے ان کے ایک ایسے دلچسپ اور ایمان افروز انٹرویو کا انتخاب کیا جائے جو تعارف کے ساتھ ان کی شخصیت کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہو۔ زیرنظر انٹرویو اسی خواہش کا مظہر ہے۔ ........٭٭٭........ سوال:۔ اسلام کے بارے میں آپ کو کیسے دلچسپی پیدا ہوئی؟ مریم جمیلہ:۔ میرا سابقہ نام مارگریٹ مارکیوس ہے۔ مجھے بچپن ہی سے موسیقی سے گہرا شغف تھا، خاص طور پر کلاسیکل اوپیرا اور سم فنی ((Somphony بہت پسند تھے جو کہ مغرب میں اعلیٰ نفاست کا معیار سمجھے جاتے ہیں۔ اسکول میں موسیقی میرا پسندیدہ مضمون تھا اور میں نے ہمیشہ اس میں اچھے نمبر لیے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ ایک مرتبہ میں نے ریڈیو پر عربی موسیقی سنی، یہ موسیقی مجھے بھاگئی۔ اس تجربے نے مجھے مزید عربی موسیقی سننے پر مجبور کردیا۔ میں نے اپنے والدین کو اُس وقت تک چین نہیں لینے دیا جب تک کہ میرے والد صاحب نے مجھے نیویارک سے عرب موسیقی کا ایک ذخیرہ نہ خرید کر دے دیا۔ میرے والدین، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے لیے عربی اور عرب موسیقی اس قدر تکلیف دہ ثابت ہوئی کہ جب بھی میں عرب موسیقی سنتی تو یہ سب مطالبہ کرتے کہ میں اپنے کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرلوں تاکہ وہ کم سے کم متاثر ہوں۔ 1961ءمیں اسلام قبول کرنے کے بعد نیویارک کی مسجد میںگھنٹوں بیٹھ کر مشہور مصری قاری عبدالباسط کی تلاوت کی ریکارڈنگ سنتی۔ ایک دن ہم مسجد میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ چھوٹے قد، دبلے جسم اور سادہ لباس میں ملبوس ایک سیاہ فام نوجوان نے اپنا تعارف زنجبار (افریقہ) کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کروایا اور سورة رحمن کی تلاوت کی۔ میں نے اس قدر خوش الحان تلاوت نہیں سنی تھی، حتیٰ کہ قاری عبدالباسط کی بھی نہیں۔ اس افریقی نوجوان کی تلاوت سن کر مجھے ایسا لگا کہ شاید حضرت بلال ؓ کی آواز بھی اسی طرح کی ہوگی۔ اسلام میں میری دلچسپی کا آغاز دس سال کی عمر سے ہوتا ہے جب میں یہودیوں کے سنڈے اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ مجھے یہودیوں اور عربو ں کے مابین تاریخی روابط سے بے انتہا دلچسپی پیدا ہوگئی۔ مجھے اپنی نصابی کتب کے ذریعے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم ؑ عربوں اور یہودیوں کے جدِّامجد ہیں، میں نے یہ بھی پڑھا کہ کس طرح قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی زندگی عذاب بنادی گئی، جب کہ مسلم اسپین میں یہودیوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ یہ اسلامی ثقافت کی برتر سخاوت تھی جس کی بدولت عبرانی زبان و ثقافت اپنے اعلیٰ ترین معیار تک جاپہنچی۔ صہیونیت کی اصل فطرت سے ناواقف ہونے کی بناءپر میرے ذہن میں یہ معصومانہ خیال آیا تھا کہ یہودی فلسطین واپس پلٹ کر اپنے سامی بھائیوں(عربوں) سے اپنے ان تعلقات کو مضبوط کریں گے جو حضرت ابراہیم ؑ کے توسط سے دونوں کے درمیان موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ یہودی اور عرب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ثقافت کے ایک نئے عہد کا آغاز کریں گے۔ یہودیت کی تاریخ سے اپنی انتہائی دل چسپی کے باوجود میں سنڈے اسکول میں خوش نہ تھی۔ اس تاریخی مطالعہ کے دوران میری تمام تر ہمدردیاں یورپی یہودیوں کے ساتھ رہیں جنہیں نازی دور میں شدید مصائب سے گزرنا پڑا، مگر یہ دیکھ کر مجھے شدید ذہنی دھچکا لگا کہ میرے ناصرف ہم جماعت بلکہ ان کے والدین بھی اپنے مذہب کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ یہودی عبادت گاہ میں بچے اپنی مذہبی کتابوں میں مزاحیہ کہانیاں رکھ کر پڑھتے رہتے اور اپنی مذہبی رسوم پر ہنستے رہتے۔ سنڈے اسکول میں تعلیم کے دوران بچے اس قدر شور مچاتے کہ اساتذہ کے لیے انہیں نظم وضبط میں لانا اور تدریس جاری رکھنا بے حد مشکل ثابت ہوتا۔ دینی تعلیمات پر عمل کے سلسلے میں ہمارے گھر کا ماحول بھی کوئی خوش گوار نہ تھا۔ میری بڑی بہن سنڈے اسکول سے شدید نفرت کرتی تھی، حتیٰ کہ اتوار کے دن میری والدہ کے سخت الفاظ اور آنسوﺅں کے بعد ہی اسے بستر سے نکال کر اسکول بھیجنا ممکن ہوپاتا تھا۔ بالآخر میرے والدین نے تھک ہار کر اسے سنڈے اسکول چھوڑنے کی اجازت دے دی۔ یہودیوں کے انتہائی مقدس دنوں میں معبد میں جاکر عبادت کرنے یا یوم کپور کا روزہ رکھنے کے بجائے میں اور میری بڑی بہن اپنے خاندان کے ساتھ تفریح اور بہترین ہوٹلوں میں تقریبات سے لطف اندوز ہوتے۔ جب ہم دونوں نے والدین کو قائل کرلیا کہ سنڈے اسکول کی تعلیمی حالت ناگفتہ بہ ہے تو انہوں نے ہم دونوں کو ایک الحادی اور انسان پرست تنظیم کے تعلیمی ادارے میں داخل کرادیا جو "ایتھیکل کلچر موومنٹ" کہلاتی تھی۔ یہ تنظیم انیسویں صدی میں فیلکس ایلڈر نے قائم کی۔ یہودیت کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ فیلکس اس بات کے قائل ہوتے گئے کہ اخلاقی تعلیمات اضافی اور انسان کی تخلیق کردہ ہیں۔ اس سلسلے میں روحانیت کے مکتبہ فکر اور مذاہب غیر ضروری ہیں۔ ان نتائج پر پہنچنے کے بعد فیلکس نے ایک ایسا مذہب تشکیل دیا جو جدید دنیا سے زبردست مطابقت رکھتا تھا۔ اس تحریک کے سنڈے اسکول میں، میں نے گیارہ سال کی عمر سے پندرہ سال کی عمر تک پڑھا۔ اس اسکول کے زیر سایہ میرے خیالات بھی اس نہج پر ڈھلتے چلے گئے اور میں تمام روایات اور مذاہب کو فضول سمجھنے لگی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں، میں نے صہیونی نوجوانوں کی مقامی تنظیم "میزراکی ہزائر" میں شمولیت اختیار کرلی، مگر جب مجھے احساس ہوا کہ صہیونیت کی فطرت ہی وہ چیز ہے جس نے یہودیوں اور عربوں کے درمیان حائل خلیج کو ناقابل عبور بنادیا ہے تو یہ تنظیم میں نے ازخود بے اطمینانی کے ساتھ چھوڑ دی۔ بیس سال کی عمر میں، میں نے نیویارک یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم "اسلام میں یہودیت" کو اختیاری مضمون کے طور پر لیا۔ میرے استاد پروفیسر ربی ابراہام کاش تھے جو شعبہ عبرانیات کے سربراہ بھی تھے۔ پروفیسر صاحب اپنے تمام یہودی طلبہ کو یہ بات ذہن نشین کروانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے تھے کہ اسلام یہودیت سے اخذ شدہ ہے۔ ہماری درسی کتاب جو مذکورہ پروفیسر صاحب کی تصنیف تھی، اس میں یکے بعد دیگرے قرآنی آیات کو انتہائی جاں فشانی سے یہودی کتب سے اخذ کردہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اس طرح پروفیسر صاحب کا حقیقی مقصد اسلام پر یہودیت کی برتری ثابت کرنا ہوتا تھا۔ مگر ہوا یوں کہ ان کی اس کوشش کے نتیجے میں، میں قرآن کی حقانیت کی قائل ہوتی چلی گئی۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ صہیونیت، یہودیت کا ایک نسلی اور قبائلی پہلو ہے۔ جدید سیکولر قوم پرستانہ صہیونیت میری نگاہوں میں اس وقت گر گئی جب مجھے علم ہوا کہ صہیونی قائدین میں شاید ہی کوئی ایک یہودیت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو، اور راسخ العقیدہ یہودی تو ان میں کوئی بھی نہیں۔ اس طرح روایتی یہودیت کو اسرائیل میں بھی شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ امریکہ کے تمام اہم یہودی رہنما صہیونیت کے نہ صرف حمایتی ہیں بلکہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں پر ہونے والی زیادتیوں پر ذرا سا دکھ بھی محسوس نہیں کرتے تو میں نے قلبی طور پر اپنے آپ کو یہودی سمجھنا چھوڑ دیا۔ نومبر 1954ءکی ایک صبح پروفیسر کاش نے اپنے خطاب میں منطقی دلائل سے پُر نظریہ پیش کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیش کردہ توحید اور ان پر نازل شدہ خدائی قوانین ہی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد ہیں۔ اگر اخلاقیات کو انسانی ساختہ مانا جائے جیسا کہ اس تحریک اور دیگر اس طرح کے ملحدانہ فلسفوں کا ماننا ہے تو اخلاقیات کو محض ارادہ ¿ انسانی، فوری ضرورت، سہولت اور حالات کے مطابق تبدیل ہوجانا چاہیے۔ مگر اس سب کا نتیجہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں ابتری اور تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ عقیدہ ¿ آخرت پر یقین (جیسا کہ ربی تلمود پڑھاتے ہوئے بتاتے ہیں) کے بارے میں پروفیسر کاش نے کہا کہ یہ محض خوش کن خیال نہیں بلکہ ایک اخلاقی ضرورت بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شخص روزِ آخرت جواب دہی کا حقیقی احساس رکھتا ہی، دراصل وہ اپنی تمام زندگی، اس کی عارضی خوشیوں کی قربانی کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایسا شخص مشکلات کو آسانی سے برداشت کرتا ہے اور ابدی جنت کے حصول کے لیے قربانیاں دیتا ہے۔ یہ پروفیسر کاش کی جماعت تھی جہاں میں ایک انتہائی غیر معمولی اور حد درجہ شوق رکھنے والی لڑکی زینیٹا سے ملی۔ پہلی مرتبہ جب میں پروفیسر کاش کے کمرہ ¿ جماعت میں داخل ہوئی تو میں نے دو عدد خالی کرسیاں پائیں، ان میں سے ایک کرسی پر یوسف علی کے ترجمہ و تفسیر کی تین عدد خوب صورت جلدیں رکھی ہوئی تھیں۔ میں بھی وہیںبیٹھ گئی۔ میرے دل میں اس تفسیر کے مالک کے بارے میں تجسس کا شعلہ بھڑک اٹھا۔ پروفیسر کاش کی آمد سے تھوڑی دیر قبل طویل قد، سفید رنگت اور سرخی مائل بھورے بالوں والی ایک لڑکی میرے برابر والی نشست پر بیٹھ گئی۔ میں نے سوچا یہ ترکی، شام وغیرہ سے آنے والی کوئی غیر ملکی لڑکی ہوگی۔ زیادہ تر طلبہ جو راسخ العقیدہ یہودی سیاہ ٹوپی پہنے ایسے لڑکے تھے جو یہودی ربی بننا چاہتے تھے۔کمرہ ¿ جماعت میں صرف ہم دو لڑکیاں تھیں۔ ایک دن جب ہم کافی دیر کے بعد دارالمطالعہ سے باہر نکل رہے تھے تو اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس کا تعلق ایک راسخ العقیدہ یہودی خاندان سے ہے۔ اس کے والدین 1917ءکے اشتراکی انقلاب سے چند سال قبل روس سے فرار ہوکر امریکہ پہنچے۔ میں نے محسوس کیا کہ میری نئی دوست غیر ملکیوں کی طرح انتہائی نپے تلے انداز میں انگریزی بولتی ہی، میرے اندازوں کی تصدیق اس نے یہ بتاکر کی کہ اس کے خاندان کے افراد اور دوست احباب آپس میں صرف ییڈش (جرمن یہودیوں کی زبان) میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اسکول جاکر ہی انگریزی سے واقف ہوئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کا نام زینیٹا لیبرمین تھا مگر حال ہی میں، زیادہ سے زیادہ امریکی بننے کے لیی، اس کے والدین نے اپنے خاندانی نام کو مختصر کرکے لیبرمین کے بجائے لین کردیا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس کے والد نے ہمیشہ اسے عبرانی کی تعلیم دی، زینیٹا نے اپنا زیادہ تر وقت عربی پڑھنے میں لگادیا۔ بہرحال، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے زینیٹا نے کلاس چھوڑ دی اور نصاب کے اختتام تک کبھی پلٹ کر واپس نہ آئی۔ کئی مہینے گزر گئے اور میں اسے بھول چکی تھی کہ اچانک مجھے اس کا پیغام ملا جس میں اس نے مجھ سے میٹرو پولیٹن میوزیم میں ملنے اور عربی خطاطی اور قرآن کے قدیم قلمی نسخوں کی نمائش میں شریک ہونے کی درخواست کی۔ اس نمائش کو دیکھتے ہوئے زینیٹا نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے دو فلسطینی دوستوں کے سامنے اسلام قبول کرچکی ہے۔ میں نے پوچھا "تم نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیسے کرلیا؟" اس نے بتایا کہ گردے میں انفیکشن کی وجہ سے اس نے پروفیسر کاش کی کلاس ترک کردی تھی۔ زینیٹا کی حالت اس قدر دگرگوں تھی کہ اس کے والدین اس کی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے۔ "ایک دن جب میں بخار سے جل رہی تھی کہ مجھے اپنے برابر والے بستر کے سرہانے قرآن مجید ملا، میں نے اسے پڑھنا شروع کردیا۔ قرآنی آیات نے میرے دل کو اتنا متاثر کیا کہ میں رونے لگی۔ اسی لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میں ٹھیک ہوجاﺅں گی۔ اس وقت میرے اندر اتنی ہمت پیدا ہوگئی کہ میں نے بستر سے اتر کر اپنے دو مسلم دوستوں کو بلایا اور کلمہ ¿ شہادت پڑھ لیا۔" زینیٹا اور میں شامی ریستورانوں میں کھانا کھانے لگے۔ جب بھی ہمارے پاس رقم ہوتی ہم اس ریستوران میں آکر بھنے ہوئے دنبے کے گوشت اور چاول یا دیگر عرب کھانوں سے لطف اندوز ہوتے۔ جب پروفیسر کاش ہمیں پڑھا رہے ہوتی، تو میں اپنے ذہن میں "عہدنامہ قدیم" اور "تلمود" کا قرآنی آیات اور احادیث سے تقابل کرتی تو یہودیت کو مسخ شدہ پاتی، نتیجتاً میں نے اسلام قبول کرلیا۔ سوال:۔ آپ کو کبھی یہ خدشہ محسوس ہوا کہ مسلمانوں میں آپ کو قبول نہیں کیا جائے گا؟ مریم جمیلہ:۔ اسلام اور اسلامی نظریات کے لیے میری بڑھتی ہوئی ہمدردی نے میرے اردگرد موجود یہودیوں کو مشتعل کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ میں انہیں گمراہ کررہی ہوں۔ وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ تمہاری یہ شہرت تمہارے آباو اجداد کے لیے شرم کا باعث اور تمہارے خاندان کے لیے نفرت کا سبب بنے گی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر تم نے اسلام قبول کرنے کی کوشش کی تو تمہیں مسلمانوں کے ہاں کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ خدشات میرے قبولِ اسلام کے بعد یکسر بے بنیاد ثابت ہوئے کیونکہ کسی مسلمان کی طرف سے مجھے میری یہودی وراثت سے کبھی وابستہ نہیں کیا گیا۔ قبولیت ِاسلام کے فوراً بعد مجھے اسلامی برادری نے انتہائی جوش و خروش سے خوش آمدید کہا۔ سوال:۔ آپ کے خاندان نے اسلام کے مطالعے پر اعتراض نہیں کیا؟ مریم جمیلہ:۔ میں 1954ءہی سے اسلام قبول کرنا چاہتی تھی مگر میرے خاندان نے مجھے اس سے باز رکھا۔ مجھے تنبیہ کی گئی کہ اسلام میری زندگی کو الجھاکر رکھ دے گا۔ کیوں کہ اسلام عیسائیت اور یہودیت کی طرح امریکی منظرنامے کا حصہ نہیں، مزید یہ کہ اسلام مجھے اپنے خاندان اور برادری سے الگ تھلگ کردے گا۔ اُس وقت میرا عقیدہ اس قدر پختہ نہ تھا کہ میں یہ دباﺅ برداشت کرسکتی۔ بہرحال کچھ دیگر وجوہات اور کچھ اندرونی کش مکش کے نتیجے میں، میں اس قدر بیمار ہوگئی کہ مجھے کالج کو خیرباد کہنا پڑا۔ اگلے دو سال تک میں اپنے گھر میں زیر علاج رہی اور میری حالت خراب ہوتی چلی گئی۔ 1957ءسے 1959ءتک، انتہائی مایوسی کے عالم میں میرے والدین مختلف نجی اور حکومتی ہسپتالوں میں میرا علاج کرواتے رہی، جہاں میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ اگر صحت یاب ہوگئی تو اسلام قبول کرلوں گی۔ جیسے ہی میں صحت یاب ہوکر گھر پہنچی، میں نے نیویارک کے مسلمانوں سے ملنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خوش قسمتی سے میری ملاقات چند بہترین مسلم خواتین و حضرات سے ہوئی اور میں نے مسلم جریدوں میں مضامین و مقالات تحریر کرنا شروع کردیے۔ سوال:۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے والدین اور دوستوں کا کیا رویہ رہا؟ مریم جمیلہ:۔ میں نے اسلام قبول کیا تو میرے والدین، رشتے داروں اور دوستوں نے اسے جنون سمجھا، کیوں کہ میں اسلام کے علاوہ کسی موضوع پر بات کرنے اور سوچنے کو تیار نہ تھی۔ لیکن تبدیلی ¿ مذہب ان کے خیال میں خالصتاً ذاتی معاملہ تھا۔ اسے وہ ایک ایسا معاملہ سمجھتے تھے جسے مشغلے کے طور پر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مگر جیسے جیسے میں نے قرآن کا مطالعہ کیا یہ بات عیاں ہوتی گئی کہ اسلام کوئی مشغلہ نہیں بلکہ خود ایک زندگی ہے۔ سوال:۔ قرآن آپ کی زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوا؟ مریم جمیلہ:۔ ایک شام میں جب عجیب سی اکتاہٹ اور بے خوابی محسوس کررہی تھی تو میری والدہ نے میرے کمرے میں داخل ہوکر پوچھا کہ وہ لائبریری جارہی ہیں اگر مجھے کوئی کتاب منگوانی ہو تو بتادوں۔ میں نے کہا کہ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ تلاش کریں، اگر مل جائے تو لے آئیں۔ ذرا سوچیں! مجھے کئی سال سے عربوں کے بارے میں جاننے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور میں نے کتب خانے میں موجود عربوں سے متعلق ہر کتاب پڑھ ڈالی تھی، مگر یہ سوچا تک نہ تھا کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے۔ بہرحال میری والدہ میرے لیے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ لے آئیں۔ قرآن کے لیے میں اس قدر بے چین تھی کہ میں نے یہ نسخہ ان کے ہاتھ سے تقریباً جھپٹ لیا اور اسے ایک رات میں ختم کرلیا۔ قرآن میں مجھے وہ قصص بھی ملے جو میں بچپن سے بائبل میں پڑھ چکی تھی۔ اپنی آٹھ سالہ ابتدائی مدرسے اور چار سالہ ثانوی مدرسے کی تعلیم اور ایک سالہ کالج کے زمانہ ¿ طالب علمی کے دوران میں نے انگریزی قواعد و انشائ، فرانسیسی، ہسپانوی، لاطینی، یونانی، حساب، جیومیٹری، الجبرا، یورپی و امریکی تاریخ، ابتدائی سائنس، حیاتیات، موسیقی اور فنون لطیفہ غرض کیا کیا نہیں پڑھا.... مگر نہیں پڑھا تو خدا کے متعلق کچھ نہ پڑھا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ میں اس معاملے میں کس قدر لاعلم تھی کہ میں نے پاکستان میں اپنی ایک قلمی دوست کو لکھا کہ میں اس لیے ملحدانہ خیالات رکھتی ہوں کہ میں اس بات پر یقین نہیں لاسکتی کہ خدا ایک باریش اور بزرگ آدمی ہے جو جنت میں اپنے تخت پر بیٹھا ہے۔ جب دوست نے پوچھا کہ یہ فضول معلومات تمہیں کہاں سے حاصل ہوئیں؟ تو میں نے سسٹین چیپل اول کا حوالہ دیا جو میں نے مائیکل اینجلو کے رسالی"لائف" میں "تخلیق" اور "حقیقی گناہ" کے ضمن میں پڑھا تھا، لیکن جب میں نے قرآن پڑھا تو معلوم ہوا (یہاں دونوں حوالوں کا اردو ترجمہ لگائیں)۔ قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد جو سب سے پہلا خیال میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ یہ سچا دین ہی.... مکمل طور پر خالص.... جو گھٹیا مصلحتوں اور منافقت سے بالاتر ہے۔ 1959ءکا سال میں نے اپنا بیشتر فارغ وقت نیویارک پبلک لائبریری میں اسلام کے بارے میں پڑھتے ہوئے گزارا۔ وہیں میں نے مشکوٰة المصابیح کی چار بھاری جلدوں کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کے نتیجے میں، میں نے جانا کہ قرآن کا حقیقی و تفصیلی مطالعہ متعلقہ حدیث کے جانے بغیر ناممکن ہے۔ قرآنِ مقدس کی تشریح آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کیسے کی جاسکتی ہے جب کہ قرآن نازل ہی آپ پر ہوا۔ جب مشکوٰة کا مطالعہ کیا تو میں نے مانا کہ قرآن ایک الہامی کلام ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ مجھے یہ یقین کیسے ہوا کہ قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریر کردہ (نعوذباللہ) تو میں کہوں گی کہ کائنات کے بنیادی سوالات کے بارے میں اس کے اطمینان بخش جوابات سے۔ یہ جوابات مجھے کہیں اور سے کبھی نہ مل سکے۔ بچپن میں، میں ہمیشہ موت سے خوف زدہ رہتی تھی، خاص طور پر اپنی موت کے بارے میں۔ موت سے متعلق ڈراﺅنے خواب دیکھنے کے بعد کبھی کبھی میں اپنے والدین کو چیختے ہوئے جگا دیتی اور ان سے پوچھتی کہ میں کیوں مروں گی اور مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ وہ محض یہی بتاتے کہ موت ناگزیر ہے اور تمہیں اس کو قبول کرنا ہوا۔ مگر یہ صبر آزما سوال ہے۔ طبی علوم اس قدر حیرت انگیز طور پر ترقی یافتہ ہوچکے ہیں کہ ہوسکتا ہے میں سو سال کی عمر تک زندہ رہوں! میرے والدین، خاندان، ہمارے تمام دوست احباب موت کے بعد زندگی کو محض وہم سمجھ کر ٹھکرا چکے ہیں۔ ان کے خیال میں روزِ قیامت اور جنت و دوزخ کی جزا و سزا دور گزشتہ کے تصورات ہیں۔ اپنی لاحاصل کوشش کے دوران میں نے "عہدنامہ قدیم" کے تمام اسباق کا مطالعہ کیا تاکہ حیات بعدالممات کا کوئی واضح جواب پاسکوں، مگر ندارد۔ بائبل میں مذکورہ تمام انبیاءعلیہم السلام کو جزا وسزا اسی دنیا میں ملی۔ خاص طور پر حضرت ایوب علیہ السلام کے قصے میں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جائداد اور پیارے سب مشیت ِالٰہی سے تباہ ہوگئے اور خود انہیں اذیت ناک بیماری لاحق ہوئی تاکہ ان کے ایمان کی آزمائش کی جائے۔ حضرت ایوب ؑ (بائبل کے مطابق) سخت تکلیف میں خدا سے سوال کرتے ہیں کہ آخر ایک صالح شخص کو اتنی تکلیف اور صعوبت سے کیوں گزارا گیا؟ بالآخر خدا، ایوب ؑ کے تمام نقصانات کا ازالہ کردیتا ہی، مگر پورے قصے میں آخرت میں جزا کا خانہ مکمل طور پر غائب ہے۔ بہرحال حیات بعدالممات کے متعلق میں جو کچھ بائبل کی"عہد نامہ جدید" میں پاسکی وہ قرآن میں اس موضوع پر موجود آیات کے مقابلے میں ایک مبہم اور الجھا دینے والا مواد تھا۔ مجھے یہودیت کی روایتی اور راسخ العقیدہ تعلیمات میں بھی حیات بعد الممات کے متعلق کوئی مواد نہ مل سکا بلکہ اس کے برعکس تلمود کی تعلیمات کے مطابق بدترین زندگی کو بھی موت کے مقابلے میں بہتر کہا گیا۔ میرے والدین کے فلسفے کے مطابق ہر شخص کو موت کے سوال سے بچتے ہوئے زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونا چاہیے کیونکہ زندگی کا دورانیہ مختصر ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زندگی کا مقصد خوشیوں کا زیادہ سے زیادہ حصول ہی، اور یہ مقصد اپنی صلاحیت کے زیادہ سے زیادہ اظہار، اپنے خاندان سے محبت، بہترین دوستوں کے ساتھ، بہترین معیار زندگی اور مختلف قسم کی تفریحات سے حاصل ہوتا ہے جن سے امریکہ بھرا پڑا ہے۔ میرے والدین زندگی کے بارے میں اپنی اس سطحی سوچ کا مسلسل اور دانستہ اظہار کرتے رہتے تھی، گویا یہ نظریہ اُن کے نزدیک ان کے بہترین مستقبل اور ابدی خوشیوں کی ضمانت تھا۔ زندگی کے تلخ تجربے کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ عیش و عشرت کا طرزعمل درماندگی اور خستہ حالی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے بجائے تکمیل ذات کا مقصد بغیر جدوجہد اور قربانی کے ناقابلِ حصول ہے۔ بچپن ہی سے میں اہم اور نمایاں ترین اہداف کو سامنے رکھتی تھی اور اپنی موت سے قبل بھی میں صرف یہ اطمینان اور ضمانت چاہوں گی کہ میں نے اپنی زندگی گناہوں اور فضول مقاصد کے حصول میں ضائع نہیں کی۔ میں نے اپنی پوری زندگی انتہائی سنجیدگی سے بسر کی ہے۔ غیرسنجیدگی اور سطحیت جو جدید دور کی ثقافت کا خاصہ ہی، میرے لیے ہمیشہ ناپسندیدہ اور قابلِ نفرت رہی ہے۔ ایک مرتبہ میرے والد نے اپنے غیر تسلی بخش دلائل کے ذریعے مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ دنیا میں دیرپا اور دائمی اقدار نام کی کوئی چیز نہیں، اور جدید دور کے تمام لوگ نئے رجحانات کو لازمی سمجھ کر قبول کرچکے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی انہی کے مطابق ڈھل جانا چاہیے۔ میں تو بہرحال دائمی اور ابدی اہمیت کے حامل مقاصد اور خوشیوں کی پیاسی رہی ہوں۔ یہ صرف قرآن ہے جہاں سے مجھے اس مقصد کا حصول ممکن نظر آیا۔ ہر وہ صالح عمل جو رب کی خوشنودی کے لیے کیا جائے کبھی ضائع نہیں ہوسکتا۔ ایسا شخص جو دکھاوے کا طلب گار نہ ہو، اس کا صلہ آخرت میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ اس کے برعکس قرآن بتاتا ہے کہ جو لوگ محض دنیاوی فائدے کے حصول، نمود و نمائش اور آزادی کی خواہش سے ہٹ کر کوئی اخلاقی مقصد سامنے نہیں رکھتے وہ روزِ جزا خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے خواہ انہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں کتنی ہی کامیابیاں کیوں نہ حاصل کرلی ہوں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف اپنی توجہ مبذول کرلینی چاہیے اور ایسی تمام بے مقصد سرگرمیوں کو ترک کردینا چاہیے جو اس مقصد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوں۔ قرآن مجید کی یہ تعلیمات جن کی مو ¿ثر وضاحت احادیث مبارکہ کے ذریعے ہوتی ہی، میرے مزاج سے مماثلت رکھتی ہیں۔ سوال:۔ اسلام قبول کرنے کے بعد عربوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہی؟ مریم جمیلہ:۔ ماہ وسال گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت درجہ بدرجہ مجھ پر منکشف ہوتی گئی کہ یہ عرب نہ تھے جنہوں نے اسلام کو عظمت بخشی بلکہ یہ اسلام ہی تھا جس نے عربوں کو عظمت اور وقار عطا کیا 

http://abdulhannankhan.weebly.com/1605158517401605-15801605174016041729-17051740-17051729157516061740-158216081583-15751606-17051740-15861576157516061740.html