visitors

free counters

Wednesday, 28 September 2011

اصل جہاد

تاریخ کی گھڑیوں نے وہ وقت بھی دیکھا جب اسپین کے ایک ظالم عیسائی بادشاہ نے ، اسپین ہی کے ایک سابق حکمران کے داماد جولین کی جوان بیٹی کی عصمت دری کر ڈالی ۔ اس وقت مسلمان دنیا کی واحد سپر پاور تھے۔ ولید بن عبد الملک مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔ موسیٰ بن نصیر ان کے ماتحت مغربی ممالک کے وائسرائے تھے ۔ جولین نے چند عیسائی سرداروں کے ساتھ موسیٰ بن نصیر سے ملاقات کی اور بتایا کہ اسپین کی حکومت عوام پر ظلم ڈھاتی ہے ۔ آپ عوام کو اس ظلم سے نجات دلائیں ۔ آپ کے سوا دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے پاس ہم اپنی فریاد لے کرجا سکیں ۔ موسیٰ نے خلیفہ کی اجازت سے معاملے کی تحقیق۔ تصدیق حاصل کرنے کے بعد اپنے ایک بہادر اور قابل گورنر طارق بن زیاد کو اسپین پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا ۔ جنگ شروع ہوئی اور طارق کو فتح ہوئی ۔ اس طرح ایک ظلم کا خاتمہ ہوا ۔ 
ولید بن عبد الملک ہی کا دورِ حکومت تھا ۔ سند ھ میں کچھ بحری قزاقوں نے مسلمانوں کے جہاز کو لوٹ لیا ۔ پھر مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کو بھی قید کر لیا ۔ عراق اسلامی سلطنت کا ایک صوبہ تھا ۔ عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو اس واقعہ کی اطلاع ملی ۔ انھوں نے پہلے سفارتی ذرائع سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ،مگر سندھ کے حکمران راجہ داہر نے تعاون نہ کیا ۔پھر حجاج نے ولید کی اجازت لی ۔ سندھ کی جانب دو مہمیں روانہ کیں ،مگر وہ ناکام رہیں ۔ پھر ایک ذہین جرنیل محمد بن قاسم کو فوج کے ساتھ بھیجا ۔ راجہ داہر نے ابن قاسم کا مقابلہ کیا ۔ ابن قاسم فاتح ہوا۔ اس طرح مظلوم خاندان کو رہا کرا لیا گیا اور ایک ظلم کا خاتمہ ہوا ۔۔ 
اس وقت دنیا میں کئی مقامات پر مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ کوئی ولید ، کوئی موسیٰ ، کوئی طارق ، کوئی ابن قاسم اٹھے ، آگے بڑھے اور اس ظلم کا خاتمہ کر ڈالے ۔ مگردنیا کے معاملات خواہشات نہیں ، حقائق کی بنیاد پر چلتے ہیں ۔ ولید کے دور میں مسلمان ایک تھے ۔ ان کی ایمانی ، اخلاقی ، علمی ، معاشی اور سیاسی حالت بہت اچھی تھی ۔ جبکہ آج ہم ان معاملات میں پستی کا شکار ہیں ۔ جب کوئی طاقت ور قوم مسلمانوںپر ظلم کرتی ہے تو مسلمان احتجاج کرتے ہیں ۔ ٹائر جلاتے ہیں ۔ ہڑتال کراتے ہیں ۔ اپنے ہی ملک کی عمارتیں تباہ کرتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی گاڑیوں کو آگ لگاتے ہیں ۔یعنی مسئلہ حل کرنے کے بجائے اپنے لیے مزید مسئلے پیدا کر لیتے ہیں۔ مسئلے کا اصل حل یہ ہے کہ ہم اپنی ایمانی ، اخلاقی ، علمی ، معاشی اور سیاسی حالت بہتر کریں ۔ اس کے لیے جہاد کرنا ہو گا ۔ جہاد کامطلب ہے غیر معمولی جدوجہد ۔ جب ہم دین و دنیا میں بلند مقام حاصل کر لیں گے تو پھر کوئی ہم پر ظلم نہ کر سکے گا ۔بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا نتیجہ صرف یہ نکلے گا کہ ہم مزید پستی میں گریں گے اور مزید ذلیل و رسوا ہوں گے ۔

No comments:

Post a Comment