visitors

free counters

Sunday 25 September 2011

کتاب المغازی الواقدی تعارف و تجزیہ


تعارف کتاب:
تیسری صدی ہجری کے امام السیر والمغازی امام فی التاریخ اور عظیم ترین سوانح نگار ابو عبداللہ محمد بن عمر واقد متوفی ٢٠٧ھ کی شخصیت اہل سیر والمغاز ی میں ایک روشن ستارے کی طرح نظر آتی ہے۔عمومی طور پر علمی حلقہ میں محمد بن عمر واقد ''واقدی ''کے نام سے جانے جاتے ہیں اس کی وجہ شہر ت آپکی تصنیف ''کتاب المغازی ''ہے جو کہ سیر ت نگاروں کے لیئے مرجع و ما خذ کی حیثیت سے اہم مقام رکھتی ہے اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ امام واقدی بالکل ابتدائی سیر ت نگار وں میں سے ہیں دوسرا وہ واقعات کو انتہائی قریب سے اور بڑی گہرائی سے بیان کرتے ہیں۔ اس کتاب کی تین جلدیں ہیں اور اسے موسسہ الا علمی لمطبوعات، بیروت ۔ لبنان نے شائع کیااور سن اشاعت کا ذکر نہیں کیا گیا۔
مضا مین کتاب المغازی (الواقدی)
جزواول کا آغاز مقدمہ الکتا ب سے کیا گیا ہے ۔ کتاب المغازی میں صرف مدنی زندگی بیان کی گئی اور مکی زندگی کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے ،مقدمہ کے بعد مصنف نے غزوات کا بیان شروع کیا ہے ان میں سر یہ حمزہ بن عبدالمطلب ، سریہ عبیدہ بن الحارث ابی رابغ ، سریہ سعدبن ابی وقاص الی الخرار، غزوۃ الا بو ا، غز وہ بواط، غز وہ بدراولی، غز وہ ذی العشیر ۃ، سریہ تخلہ ، سریہ عبداللہ بن جیش جنگ بدر، بدر میں ایسے مشرکین جن پر طعن کیا گیا، اولین قیدی لوگوں کے نام ، مشرکین میں سے قیدیوں کا بیان، بدر میں حاضر ہونے والے مسلمانوں کے نام، بدر میں قتل ہونے والے مشرکین ، قریش اورا نصار میں سے شہید ہونے والوں کے نام ، سریہ قتل عصما بنت مروان، سریہ قتل ابی عفک، غزوہ قینقا ع،غزوہ سویق ، غزوہ قرارۃ الکدر،قتل کعب بن اشرف ، غزوہ غطفان غزوہ بنی سلیم ، سریہ القردہ، غزوہ احد، احد میں شہید ہونے والے، مشرکین میں سے قتل ہونے والوں کے نام، احد میں نزول قرآن ، غزوہ حمراالا سد، غزوہ ابی سلمہ بن عبدالا سد، غزوہ بئر معونہ، قریش میں سے حاضرین کے نام ، غزوہ الرجیع ، غزوہ بنو نصیر ، بنو نصیر میں نزول قرآن ، غز وہ بدر الموعد ، سریہ ابن عتیک الیٰ ابی رافع، غزوہ ذات الرقاع غزوہ دومۃ الجندل اور غزوہ المریسیع پر پہلی جلد کا اختتام ہوتا ہے۔ (۱)
پھر دوسری جلد کا آغاز واقدی نے ابن ابی کے بارے میں حکم سے کیا دیگر عنوانا ت میں سے حضرت عائشہؓ اور واقعہ افک کا بیان ، غزوہ خندق ، خندق میں نزول قرآن ، خندق میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا ذکر ، مشرکین میں سے قتل ہونے والوں کے نام ، مال غنیمت کی تقسیم ، بنو قریظہ کے گھیرے میں شہید ہونے والے مسلمان ،سریہ عبداللہ بن انیس ابی سفیان بن خالد، غزوہ القرطاء ، غزوہ بنی لحیان ، غزوہ الغابہ، مسلمانوں اور مشرکین میں قتل ہونے والوں کے نام، سریہ عکاشہ، سریہ محمد بن مسلمہ ابی ذی القصہ، سریہ ذی قصہ میں امیر ابو عبیدہ ، سریہ زید بن حارثہ، سریہ دومتہ الجندل اور امیر عبد الرحمن ، سریہ علی بن ابی طالب الی بنی سعد بغدک ، سریہ کر زبن جابر، غزوہ الحدیبیہ ، غزوہ خیبر، غزوہ خیبر میں آپ ؐ کے ساتھیوں کے نام ، خیبر سے قبل کہے گئے اشعار کا ذکر، فد ک کا حال، رسول اللہ کا خیبر سے مدینہ تک سفر سرہ عمر بن خطاب (الی تربۃ) سریہ ابی بکر (الی نجد)، سریہ بشیر بن سعد (الی فدک) ،سریہ بنی عبد بن ثعلبہ ، عمر وبن العاص کا اسلام لانا، سریہ امیر ھا غالب بن عبداللہ بالکدید، سریہ کعب بن عمیر الی ذات اطلاع، سریہ شجاع بن وھب، سریہ الی خثعم بتبالہ، غزوہ موتہ، بنو ہاشم میں سے غزوہ موتہ میں موجود لوگ، غزوہ ذات السلاس ، سریہ الحبط (امیر ابو عبیدہ)، سریہ خضیرہ (امیر ابو قتادہ) اور دوسری جلد کا آخری عنوان غزوہ الفتح کا بیان ہے۔ (۲)
کتاب المغازی الوا قدی کی تیسری جلد کا آغاز واقعہ انہدام عزی سے ہوتا ہے دیگر واقعات میں یو م فتح میں شہید ہونے والے مسلمان ، عزوہ بنو خذیمہ، غزوہ حنین، حنین میں حاضرین کے نا م، غزوہ طائف کا بیان ، طائف میں حاضرین کے نام ، آپ ؐ کے جعرانہ کے طرف سفر کا حال، وفدھوازن، عاملین زکوۃ ، الو لید بن عقبہ کا بنی مصطلق کی طرف تقرر ، سر یہ قطبۃ بن عامر الی خثعم ، سریہ بنو کلاب (امیر الصحاک بن سفیان الکلابی )،سریہ امیر علقمہ بن مجزز المدالجی کا حال ، سریہ علی بن ابی طالب (الی الفلس)، غزوہ تبوک ، غزوہ تبوک اور نزول قرآن کا بیان ، غزوہ اکید ربن عبد الملک، دومتہ اجنرل ، حضرت ابو بکر ؓ کا حج ، سریہ علی بن ابو طالب (یمن )، صدقات کے طور پر کیا چیز لی جا ئے ، حجۃ الوداع میدان عرفات میں آپ ؐ کا خطبہ قبل نماز، رسول اللہ ؐکے بال مبارک کا ٹنے کا ذکر، آپ ؐ کا خطبہ یو م نحر، حجۃ الوداع کے بعد سعد بن ابی وقاص کی عیا دت اور غزوہ اسامہ بن زید (موتہ) کے نام شامل ہیں۔(۳)
اسلوب ومنہج کتاب المغازی:
مدنی دور کا بیان
واقدی نے کتاب المغازی میں مکی زندگی کوبالکل بیان نہیں کیا کتاب المغازی کی ابتدا رسول ؐ کی مدنی زندگی سے کی ہے۔ وہ ہجرت سے شروع کرتے ہیں۔جیسا کہ بیان کرتے ہیں۔ فکتبت لکل الذی حدثونی، قالوا: قدم رسول ؐ المدینۃ یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شھر ربیع الاوّل۔(۴)
(پس جس نے بھی مجھے بیان کیا میں نے لکھا کہ انہوں نے کہا کہ رسول ؐ پیر کے دن بارہ ربیع الاول کو مدینہ تشریف لائے)
احادےث نبویہ ؐکی سند کا سلسلہ:
امام واقدیؒ نے مغازی کو بیان کرتے ہوئے جن محدثین ،تابعین سے روایات اکٹھی کی ہیں۔ انکی مکمل سند، بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ روایت فلاں فلاں صاحب سے حاصل کی ہے۔ جیسے رسول ؐ کے مدینہ میں جانے سے متعلق جن جن محدثین کے واسطوں سے انہیں یہ روایت پہنچی ہے ان سب کو بیان کیا ہے۔ جیسے اخبرنأ ابو محمد الحسن بن علی بن محمد الجوھری قال: حدثنا ابؤ عمرمحمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن صیویہ لفظاً، قال:قریئ علی أبی القاسم عبدالوھاب بن أبی حیۃً من کتابہ وأنا أسمع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وعبدالحمید بن عمران بن أبی أنس وعبدالحمید بن أبی عبس۔(۵)
غزوات کی تاریخ :
امام واقدی عمومی طور پر کسی غزوہ کا نام ذکر کرنے کے بعد سب سے پہلے اس غزوہ کی تاریخ کے متعلق بتلاتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوا مثلاً ''غزوہ دومۃ الجندل''کے تحت:فی ربیع الاوّل علی رأس تسعۃ و اربعین شھرا۔(۶)(ربیع الاول میں ٤٩مہینوں کے گزرجانے کے بعد شروع میں واقع ہوا)
مغازی کے سلسلہ میں قرآن کا شان نزول :
امام واقدی نے جہاں مغازی کے ضمن میں گہرائی سے روایات بیان کی ہیں اسکے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی رو سے غزوات ومغازی کے حوالہ سے شان نزول بھی بیان کرتے ہیں جیسا کہ غزوہ احد کے ضمن میں لکھتے ہیں۔ اذھمت طائفتان منکم ان تفشلا۔۔۔۔۔۔الی آخرالایۃ۔(۷)(امام واقدی بیان کرتے ہیں کہ طائفتان سے مراد بنوسلمۃ اور بنوحارثہ ہیں انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ وہ نبیؐ کے ساتھ احد کی طرف نہیں جائیں گے)
غزوات کے متعلق تمام روایات کا احاطہ:
امام واقدی کا ایک بہت ہی عمدہ اسلوب یہ ہے کہ کسی غزوۃ کے متعلق جتنی بھی روایات ملتی ہیں انہیں بیان کردیتے اس طرح اس کے جزوی پہلوؤں کابھی احاطہ ہوتا رہتا ہے جیسے غزوۃالقضیۃ میں پہلے محمد بن عبداللہ سے روایت بیان کرتے ہیں۔غزوۃالقضیہ میں رسول اللہؐ کے ساتھ سوائے حدیبیہ والوں کے سب شریک تھے۔ (یعنی جو لوگ صلح حدیبیہ میں شریک نہ تھے وہ اس غزوہ میں بھی شریک نہ تھے)
پھر دوسری روایت میں خارجہ بن عبداللہ سے بیان ہے جس میں رسول ؐکا ذی القعدہ میں سند ٧ ہجری میں چارمہینوں کے بعد اوائل میں غزوہ کےلئے نکلنا بیان کرتے ہیں۔(۸)
عنوانا ت کی کمی:
امام واقدیؒ نے سیرت نگاری میں خاص اسلوب قائم کیا ہے کہ عنوانات کے تحت ابن اسحاقؒ یا ابن ہشام کی طرح عناوین(
Headings)بہت کم قائم کیے ہیں ایک دفعہ مضمون جس عنوان سے چلاتے ہیں تو پھر اسے تفصیل کے ساتھ آگے لے کر چلتے ہیں ایسانہیں ہے کہ درمیان میں ساتھ ساتھ نئے عنوانات بھی قائم کریں۔انہوں نے صرف خاص خاص عنوانات قائم کیے ہیں ذیلی عنوانات کی طرف نہیں گئے ہیں جیسا کہ فہرست عناوین سے ظاہر ہے۔مثلاًـواقدی نے غزوہ قینقاع(۹)،غزوہ السویق(۱۰)،غزوہ قرارۃالکدر(۱۱)،قتل ابن الاشرف (۱۲)

واقعات ِسیرت کاباسند بیان:
امام واقدیؒ نے کتاب المغازی میں سیرت رسولؐ کو بیان کرنے میں حالات وواقعات کو سند کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کی حسن ترتیب وعمدگی کے اعتبار سے بعد کے سیرت نگاروں کےلئے ماخذ ومرجع کی حیثیت حاصل ہے۔
غزوات و سرایا کی تعداد
کتاب المغازی میں واقدی کے مطابق آنحضرت ؐ کے غزوات کی تعداد(٢٧)ستائیس ہے جبکہ طبری نے ابوجعفر کی روایت کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپؐ نے (٢٦)چھبیس غزوات میں شرکت فرمائی۔ فرق اس بات کا ہے کہ غزوہ خیبر سے مدےنہ واپس آنے سے پہلے وادی القری کے سفر کو جو لوگ غزوہ کہتے ہیں ان کے مطابق غزوات کی تعداد ٢٧ ہے اور جوان دونوں(غزوہ خیبر اوروادی القری)کو ایک تصور کرتے ہیں ان کے مطابق غزوات کی تعداد٢٦ہے۔ اسی طرح سرایا کی تعداد میں اختلاف پایاجاتاہے۔ واقدی کے مطابق ٤٧، ابن ہشام کے مطابق ٣٨اور طبری کے مطابق ٣٥سرایا ذکر کئے گئے ہیں۔

تفردات:
کتاب المغازی میں چند مقامات پرتضاد بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ وہ ایک جگہ غزوہ رجیع کو ہجرت کے ٣٦ ویں مہینے ماہ صفر کے شروع میں ذکرکیا ہے اور لکھا ہے کہ اس غزوہ میں مسلمانوں پر حملہ سفیان بن خالد بن نبیح الہذلی کے قتل کے بعد ہوا لیکن دوسری جگہ پر وہ سفیان بن خالد بن نبیح الہذلی کے قتل کی تاریخ ہجرت کا ٥٤ واں مہینہ ماہ محرم ذکر کیا گیا ہے۔(۱۳)
واقدی نے آپ ؐ کے معاہدات کی تفصیل بھی محفوظ کی ہے۔ اس طرح یہ تاریخی اور اہم معاہدات استفادہ کے لیے محفوظ ہو گئے ہیں۔(۱۴)
واقدی نے مختلف مقامات کا حدود اربعہ اور ان مقامات کے درمیان فاصلہ کو بھی لکھا ہے جس سے معلوم ہوا کہ واقدی جغرافیہ کا بھی علم رکھتا تھا۔ (۱۵)
واقدی نے آپ ؐ کے غزوات میں شرکت کے لیے تشریف لے جانے کی وجہ سے پیچھے مدینہ میں نائبین کا تقرر کرنے کا تذکرہ ترتیب سے کیا ہے۔ (۱۶)
واقدی کا ایک منفرد اسلوب یہ بھی ہے کہ اس نے سریہ حمزہ سے غزوہ دومتہ الجندل تک واقعات کو مہینوں کے حساب سے ذکر کیا ہے (۱۷) پھر اس کے بعد کے واقعات میں پورے سال یعنی سن ہجری کا تذکرہ کیا ہے۔(۱۸)
محمد بن عمر الواقدی کے احوال و آثار اور کتاب المغازی کے مطالعہ سے ان کی شخصیت کی جو تصویر قاری کے سامنے آتی ہے اس کے مطابق سیرت و مغازی میں واقدی کو بہت اہمیت حاصل ہے آپ تاریخ رجال و طبقات اور اخبار کے جامع عالم تھے مغازی کے ابتدائی مصنیفین میں سے ہیں مدینہ میں تقریباً ُپچاس سال تک حدیث کی روایت کی ۔ ان کے متعلق علماء رجال کے اقوال مختلف ہیں ان کی مدح کے ساتھ ساتھ قدح میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ علماء اسماء الرجال کے اقوال کے مطالعہ سے یہ با ت سامنے آتی ہے کہ اصحاب اسماء الرجال، جرح وتعد یل کے میدان میں واقدی کے متعلق تین طبقات میں منقسم ہیں ایک طبقہ نے ان پر جرح ،دوسرے نے ان پر تعدیل اور تیسرے طبقہ نے جرح و تعدیل دونوں کی ہیں لیکن سیر و مغازی میں وہ بالا جماع ثقہ ہیں ۔مجموعی طور پر واقدی ثقہ، وسیع العلم اور علم الحدیث کے ماہر تھے
انساب ، تاریخ،رجال ، اخبار طبقات اور حدیث کے تقریباً تمام مصنفین نے ان سے استفادہ کیا ہے اور واقدی کے قول وروایات کے بغیر ان کی تصانیف نامکمل رہتی ہیں کتاب لمغازی تین جلد وں پر مشتمل ہے جس میں مغازی رسول ہجرت سے لے کر وصال تک کے احوال و واقعات بیان کیے گئے ہیں ،سیرت ومغازی کے حوالے سے کتاب المغازی ایک معتبر اور مستند کتاب ہے ۔

۱۔مغازی،ص ٤١٤-١
۲۔ص٧٨٠-٤١٥
۳۔ص١١١٧-٧٨٠
۴۔ص١/٤
۵۔ص١/٢۔١
۶۔٠١/٤٠٢
۷۔آل عمران:١٢١
۸۔ المغازی ،ص٢/٧٣١
۹۔ص١/١٧٦
۱۰۔ص ١/١٨١
۱۱۔ص١/١٨٢
۱۲۔ص١/١٨٤
۱۳۔٢/٥٣١
۱۴۔١/١٩٢،١٧٦،١٢
۱۵۔١/١٢، ١١،١٠،٦،٥،٢
۱۶۔ص ١/٨-٧
۱۷۔٤١-٢
۱۸۔١/٧-٤

No comments:

Post a Comment