visitors

free counters

Wednesday 28 September 2011

منصفانہ اور ممکنہ حل

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ قریش نے بعد میں جب کعبہ کی تعمیر کی تو انھوں نے اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اساس پر نہیں بنایا بلکہ اس کو بدل کر بنایا۔ (حضرت ابراہیم نے کعبہ کو لمبائی میں بنایا تھا ، مگر قریش نے اس کو مربع صورت میں بنا دیا ۔ انھوں نے قدیم کعبہ کے ایک حصے کو خالی چھوڑ دیا ، جس کو اب حطیم کہا جاتا ہے ) حضرت عائشہ بتاتی ہیں کہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، آپ کیوں نہیں کعبہ کو دوبارہ ابراہیمی اساس پر بنا دیتے ۔ رسول اللہ نے جواب دیا کہ تمھاری قوم (قریش) ابھی کفر کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئی ہے ، اندیشہ ہے کہ کہیں وہ اس سے بھڑک نہ جائے ۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور ایسا کرتا ۔
اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صورت حال کے مطابق چلنے کی تعلیم ملتی ہے۔ مگر آج مسلمان انفرادی اور اجتماعی ، دونوں سطحوں پر اس حقیقت اور حکمت کو نظر انداز کر نے کی روش اختیار کیے ہوئے ھیں۔ وہ مسائل کے "منصفانہ" اور "ممکن" حل کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے ۔ وہ مسائل کے "منصفانہ" ، "صحیح" اور "آئیڈیل" حل پر زور دیتے ہیں اور نتیجے کے طور پر مسئلے جوں کے توں موجود رہتے ہیں ،بلکہ کچھ مزید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ 
اصل میں مسلمانوں نے اس دنیا پرایک ہزار سال تک حکومت کی ہے ۔ وہ ایک ہزار سال تک سپرپاور رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی ایک غالب اور طاقت ور قوم کی طرح سوچتے اور اپنے مسائل کا حل اپنی خواہشات کے عین مطابق چاہتے ہیں ۔ حالانکہ اب وہ دنیامیں اپنی جہالت اور حماقت کی وجہ سے ایک مغلوب اور کمزور قوم بن چکے ہیں ۔ غالب اور طاقت ور ممالک جب چاہتے ہیں اور جس کے بارے میں چاہتے ہیں ، اس مسلم ملک کی پٹائی کر دیتے ہیں ۔ اور مسلم ممالک اس قدر کمزور ہیں کہ وہ پٹائی کرانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ وہ بے چارے دفاعی حملہ بھی نہیں کر پاتے ۔ امریکہ نے عراق کے ساتھ جو کچھ کیا ، یوگوسلاویہ نے کوسوا کے ساتھ جو کچھ کیا، اسرائیل نے عرب ممالک کے ساتھ جو کچھ کیا ، فلسطین میں جو کچھ ہوا اورہو رہا ہے ، اور اب افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ،مگر مسلمان اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ وہ اپنے مسائل کے آئیڈیل حل پر مصر ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔ وہ اپنے مسائل کے آئیڈیل حل پر ڈٹ جانے والے جذباتی لیڈر کو پسند کرتے ہیں۔ وہ جراءت مند انہ سختی اختیار کرنے والے لیڈر کو مبارک باد دیتے ہیں اور حکیمانہ نرمی اختیار کرنے والے کو غدار اور بزدل قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ اس سے ان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ،مگر وہ نہ حالا ت سے سبق حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے رہنمائی لینے پر آمادہ ہیں

No comments:

Post a Comment