visitors

free counters

Sunday, 11 September 2011

اہل کتاب پر تنقید

نضر بن حارث کی تحریک سے یہود مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو نقصان پہنچانے کی جو کوششیں کیں ان کا تذکرہ تفصیل سے ہو چکا ہے۔ ان کے القا کیے ہوئے سوالات اور اعتراضات کے جوابات قرآن میں ایسے انداز سے آئے کہ وہ صحیح حقائق کو بھی سامنے لائیں، اہل کتاب کے لیے سبق آموز بھی ہوں اور قریش بھی ان کی مدد سے اپنی اصلاح کرنا چاہیں تو کر سکیں۔اس عمل میں یہ بھی ضروری ہو گیا کہ مکی دور ہی میں اہل کتاب کو ایک حد تک دین کی دعوت کے لیے مخاطب بھی کر لیا جائے تاکہ ان کے باصلاحیت لوگ اس کی جانب جھکیں اور ہدایت قبول کریں۔ اہل کتاب میں نصاریٰ اور یہود دونوں شامل تھے، لہٰذا ان دونوں کو اشارات و کنایات میں ضمناً مخاطب کیا گیا۔ اصل خطاب قریش ہی کی طرف رہا کیونکہ اصلاً حضورﷺ کی بعثت انھی کی جانب ہوئی تھی۔
اچھے اہل کتاب کارویہ
قرآن مجید کے بارے میں تمام اہل کتاب کارویہ یکساں نہیں تھا۔ اگرچہ مجموعی طور پر مخالفین ہی کی اکثریت تھی لیکن اچھے اہل کتاب کے ہاں انانیت، ضد اور ہٹ دھرمی کارویہ نہیں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید نے جگہ جگہ ان کے طرز عمل کی تحسین کی اور توجہ دلائی کہ قرآن مجید کی ہر بات ان کو اپنے دل کی بات نظر آتی ہے اور وہ والہانہ انداز میں اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وہ اس کے اندر وہی خوشبو پاتے ہیں جس کا تجربہ ان کو اپنی کتاب پڑھ کر ہوتا ہے۔ وہ جب قرآن کی آیات کو سنتے ہیں تو ان سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ گریہ مسرت اور گریہ خشوع کی دوہری کیفیت ان پر طاری ہو جاتی ہے۔ چونکہ ان کے صحیفوں میں ایک عظیم رسول کی آمد اور اس کے واسطہ سے کامل آسمانی کتاب کے نزول کی خبر موجود ہے، لہٰذا وہ منتظر و مشتاق رہے ہیں کہ کب وہ عظیم رسول مبعوث ہوتا ہے۔ اب وہ اس رسول اور اس کی لائی ہوئی کتاب میں ان پیشین گوئیوں کا مصداق پا رہے ہیں، جن پر پہلے سے ان کاایمان رہا ہے۔ قرآن مجید نے ان اہل کتاب کی بار بار تحسین فرمائی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ سورۂ عنکبوت میں ہے: بَل ھُوَ اٰیٰت’‘ بَیِّنٰت’‘ فِی صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ. وَمَایَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَا اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ.(العنکبوت ۲۹: ۴۹)’’بلکہ یہ تو کھلی ہوئی آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جن کو علم عطا ہوا ہے اور ہماری آیات کا بس وہی لوگ انکار کر رہے ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔‘‘
سورہ رعد میں ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰتَینٰھُمُ الْکِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیکَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْکِرُ بَعْضَہ‘.(الرعد ۱۳: ۳۶)

’’اور جن کو ہم نے کتاب عطا کی وہ اس چیز پر خوش ہیں جو تم پر اتاری گئی ہے اور ان جماعتوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اس کے بعض حصوں کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
سورہ انعام میں ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَینٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہ‘ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاءَ ھُمْ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لَا یُؤمِنُوْنَ.(الانعام ۶: ۲۰)

’’جن کو ہم نے کتاب عطا کی وہ اس کو پہچانتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں جو اس پر ایمان نہیں لاتےیہی مضمون سورہ قصص کی آیات ۵۲ تا ۵۵ میں بھی ہے۔ وہاں ان اہل کتاب کی سلامت روی کاصلہ دوہرے اجر کی صورت میں دینے کا وعدہ فرمایا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے پہلے دین پر بھی استقامت دکھائی اور جب آخری پیغمبر کا ظہور ہوا تو ان کو پہچاننے میں بھی دیر نہیں کی۔
اچھے اہل کتاب کے اس رویہ میں قریش کے لیے ایک سبق پوشیدہ تھا۔ وہ یہ کہ کسی صداقت کو خود اس کی اپنی کسوٹی پر جانچا جاتا ہے۔ لہٰذا اول تو قرآن مجید کی حقانیت کو خود اس کے دلائل پر پرکھا جانا چاہیے تھا۔ بصورت دیگر اگر اس کے حق میں کوئی خارجی شہادت ہی مطلوب تھی تو یہ کافی تھا کہ وحی و الہام کا علم رکھنے والے سنجیدہ اور صاحب کردار اہل کتاب کی اس شہادت کو قبول کیا جاتا جو وہ اپنے عمل سے دے رہے تھے، اگرچہ ان کی تعداد کتنی ہی کم تھی۔ سورۂ شعرا میں اسی بات کی طرف قریش کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ فرمایا:
وَ اِنَّہُ لَفِی زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ. اَوَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہ‘ عُلَمٰؤُا بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ.(الشعرآء ۲۶: ۱۹۶۔ ۱۹۷)

’’اور اس (قرآن) کا ذکر اگلوں کے صحیفوں میں ہے۔ کیا ان لوگوں کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ اس کو علماے بنی اسرائیل جانتے ہیں۔‘‘
سورہ بنی اسرائیل میں ہے:
قُلْ اٰمِنُوْا بِہٖ اَوْلَا تُؤمِنُوْا. اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْھِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا. وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَا اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا. وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُونَ وَ یَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًا. (بنی اسرائیل ۱۷: ۱۰۷۔ ۱۰۹)

’’ان سے کہہ دو کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، وہ لوگ جن کو اس کے پہلے سے علم ملا ہوا ہے جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا پروردگار، بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ شدنی تھا اور وہ ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے گرتے ہیں اور یہ ان کے خشوع میں اضافہ کرتا ہے۔‘‘رہ گیا یہ سوال کہ یہ اچھے اہل کتاب کون لوگ تھے تو اس بارے میں تعین کے ساتھ صرف حبشہ کا اور مکہ میں مقیم تھوڑے سے نصاریٰ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے نصاریٰ کی جگہ جگہ تعریف کی ہے اور اس کثرت سے کی ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہی وہ گروہ ہے جو اسلام کی تعلیم سے جلد متاثر ہوا۔ چنانچہ مکہ میں رہنے والے نصاریٰ، جن کا تعلق دوسرے علاقوں سے تھا، ابتداء ہی میں مسلمان ہو گئے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہو گا کہ یہود مکی دور میں آنحضرتﷺ کی دعوت سے بالکل متاثر نہیں ہوئے۔ جس قدر بحثیں اس دور میں انھوں نے اٹھائیں اور قرآن نے جس اہتمام سے ان کے موقف کو رد کیا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہو گا کہ ان کے انصاف پسند علماء کے ذہن مکی دور میں اسلام کے بارے میں صاف ہوئے ہوں گے اور وقت آنے پر وہ بھی اہل حق کے قافلہ سے آ ملے ہوں گے، اگرچہ ان کی تعداد بہت کم رہی ہو۔ مکی دور میں وہ اگر نمایاں نہیں ہوئے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہود کے مراکز مکہ سے باہر تھے جبکہ دین اسلام کا مرکز اس وقت مکہ شہر ہی تک محدود تھا۔
اہل کتاب کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ
ٓٓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ابتدائی سالوں میں اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ میں الجھنے سے مسلمانوں کو روکا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ گروہ دین و شریعت اور آسمانی صحف کا حامل اور پیغمبروں کی روایات کا امین تھا۔ اس سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ جلد با بدیر دعوت کے بارے میں اس کے شبہات رفع ہو جائیں گے اور وہ حق کا علم بردار بن کر آگے بڑھے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ بحث میں تلخی پیدا کرنے سے گریز کریں۔ اس کے برعکس ان کو احساس دلائیں کہ ان کے اور اہل کتاب کے درمیان دینی تعلیمات اور اخلاقی اقدار مشترک ہیں۔ مثلاً مسلمانوں اور اہل کتاب دونوں کا معبود ایک اللہ ہے۔ قرآن اور سابقہ صحیفوں میں توحید کی تعلیم یکساں ہے۔ اہل کتاب جس طرح اپنے صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں مسلمان نہ صرف قرآن پر بلکہ ان کے صحیفوں کی حقانیت پر بھی ایمان رکھتے ہیں کیونکہ تمام کتب سماوی کا منبع و ماخذ ایک ہی ہے۔ پھر اہل کتاب کے صحیفوں کی پیشین گوئیاں قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آ رہی ہیں۔ لہٰذا مسلمان اہل کتاب کو بتائیں کہ ان کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ ان مشترک تعلیمات و اقدار کے لوازم کو تسلیم کریں اور اپنی مانی ہوئی باتوں کی اپنے عمل سے تردید نہ کریں۔ سورۂ عنکبوت میں فرمایا:
وَلَا تُجَادِلُوْا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَقُوْلُوْا اٰمَنَّا بِالَّذِیْ اُنْزِلَ اِلَینَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِد’‘ وَّ نَحْنُ لَہ‘ مُسْلِمُوْن.(العنکبوت ۲۹:۴۶)

’’اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو بہتر ہے، بجز ان کے جو ان میں سے ظالم ہیں، اور کہو کہ ہم ایمان لائے اس چیز پر جو ہم پر نازل ہوئی اور اس چیز پر بھی جو تمھاری طرف اتاری گئی، اور ہمارا اور تمھارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔‘‘
چونکہ عرب معاشرہ میں اہل کتاب کو خاص احترام حاصل تھا قرآن نے اس کا لحاظ کیا۔ حتیٰ کہ قریش کو دین کی اس دعوت میں جو اشکالات درپیش تھیں ان کے بارے میں انھیں مشورہ دیا کہ اہل کتاب چونکہ دینی امور سے واقفیت رکھتے ہیں ، لہٰذا وہ ان اشکالات کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کریں۔ مثلاً سورۂ نحل میں ہے:
وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَسْءَلُوْا اَھْلَ الذِّکرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ. بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ.(النحل ۱۶:۴۳)

’’اور ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو دلائل اور کتابوں کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی کرتے رہے تو اہل کتاب سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔‘‘
یہ ہدایت اس موقع پر دی گئی جب قریش کو اس بات کا یقین نہیں ہوتا تھا کہ ایک بشر بھی خدا کا رسول ہو سکتا ہے۔ اہل کتاب کی تاریخ اس بات کی شاہد تھی کہ منصب رسالت پر ہمیشہ بشر ہی فائز ہوتے رہے۔ یہی مضمون سورہ انبیاء آیت ۷ میں بھی ہے۔ سورۂ یونس میں فرمایا:
فَاِنْ کُنْتَ فِی شَکٍّ مِّمَّا اَنْزَلنَا اِلَیکَ فَسْءَلِ الَّذِینَ یَقْرَءُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ لَقَدْ جَآءَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ. وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَتَکُونَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.(یونس ۱۰:۹۴۔۹۵)

’’پس اگر تم شک میں ہو اس چیز کے بارے میں جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے تو ان لوگوں سے پوچھو جو تم سے پہلے سے کتاب پڑھتے آ رہے ہیں۔ بے شک تم پر تمھارے رب کی طرف سے حق نازل ہوا ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو۔ اور تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجیو جنھوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی کہ تم بھی نامرادوں میں سے ہو جاؤ۔‘‘
اس آیت میں وحی الٰہی کے بارے میں شکوک و شبہات رفع کرنے کے لیے قریش کو اہل کتاب کی طرف رجوع کا مشورہ دیا ہے۔ اس میں خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن عتاب کا رخ حقیقت میں مشرکین کی طرف ہے جن کا اٹھایا ہوا طوفان لوگوں کے دلوں میں قرآن کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کافی تھا۔
اہل کتاب کے مخالفانہ رویہ پر گرفت
بعد میں جب اہل کتاب کا مجموعی رویہ قرآن کی مخالفت کی صورت میں سامنے آیا اور وہ اپنے تئیں حق پر قائم گروہ کی حیثیت سے سامنے لا کر کسی بھی نئی نبوت کو غیر ضروری قرار دینے لگے تو قرآن نے بھی ان کی اصلیت کو کھولنا شروع کر دیا اور واضح کیا کہ یہود ہوں یا نصاریٰ، یہ اس امانت کو ضائع کر چکے جو ان کے حوالہ کی گئی تھی اور جس کے سبب سے ان کی دینی حیثیت تسلیم کی جاتی تھی۔ اس عمل میں، مکی دور کے آخری سالوں میں، قرآن مجید نے ان دونوں گروہوں کے مرغوبات و عقائد پر سخت ضرب لگائی اور ان کی غلطیوں کو بے نقاب کیا۔ برے اہل کتاب کے قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں مسلمانوں کو بتایا کہ تمام انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو اپنے اپنے زمانے کے شیاطین کے ہاتھوں ایسے حالات سے سابقہ پیش آیا ہے۔ وہ پیغمبروں کے دعوتی منصوبوں کی راہ میں اپنے دجل و فریب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ یہ جو کچھ ہوتا ہے راہ حق کی آزمائش و ابتلا کا حصہ ہوتا ہے جس سے گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔تمام مخالفت آہستہ آہستہ دم توڑ جائے گی۔ اہل ایمان یکسوئی کے ساتھ اپنے کام سے کام رکھیں۔جوں جوں اہل کتاب کی طرف سے خلاف توقع مخالفت میں اضافہ ہوا تو ضروری ہو گیا کہ ان کی موجودہ دینی حیثیت کو واضح کیا جائے چنانچہ نصاریٰ اور یہود دونوں کے بارے میں نہایت اہم سورتیں مکی دور میں ہی نازل ہو گئیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ مکہ میں یہود و نصاریٰ دونوں کا عمل دخل خاصا بڑھ گیا تھا۔ اور وہ نئی دعوت کے مقابلہ میں خاصا موثر کردار ادا کر رہے تھے جن کا توڑ کرنا اسی دور میں ضروری ہو گیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ابتدائی سالوں میں تو اس بات کی گنجائش موجود تھی کہ بعض اہل کتاب آنحضرتؐ کے پیغام کو ٹھیک طور پر سمجھ نہ پائے ہوں یا آپ کی نبوت و رسالت کے دلائل ان پر پوری طرح واضح نہ ہو سکے ہوں یا ان کے ذہنوں میں واقعی شکوک و شبہات پائے جاتے ہوں جن کے ازالہ کے بغیر وہ اس دعوت کو قبول نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح تر ہوتی گئی کہ اہل کتاب اچھی طرح یہ جان چکے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت حقیقی نبوت ہے اور یہ وہی نبوت ہے جس کی بشارت انبیائے بنی اسرائیل دیتے رہے اور اپنی قوموں کو اس پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کرنے کی تلقین کرتے رہے، جس کی نوید مسیح علیہ السلام نے سنائی اور جس کے انتظار میں اہل کتاب کی آنکھیں تھکتی رہیں۔ اس کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے ایسا رویہ اختیار کر لیا جو مکروفریب، سازش اور دین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے عبارت تھا۔ لہٰذا مکی دور کے اواخر میں اہل کتاب کی ناسپاسی، منصب امامت کی ذمہ داریوں سے پہلوتہی، عہد خداوندی کی خلاف ورزی، اللہ کے دین کے خلاف مکروفریب، غرض ہر چیز کو نمایاں کیا گیا۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت کے معاملہ میں یہود اور نصاریٰ غیر جانب دار نہیں رہ گئے تھے اور نہ ان کا معاملہ اجنبیوں کا معاملہ تھا۔ وہ مخالفت بھی بھرپور انداز میں کر رہے تھے اور قرآن نے بھی ان کا جواب اسی انداز میں دیا۔
یہود پر تنقید
سورۂ اعراف کی آیات ۱۰۳ تا ۱۷۱ میں یہود پر اللہ تعالیٰ کے انعام و احسان کی تاریخ خاصی تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے پہلے فرعون کے ہاتھوں بڑے دکھ اٹھائے۔ فرعون حضرت موسیٰؑ کی دعوت سے سیخ پا ہو گیا جس کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کو طویل ابتلا سے دوچار ہونا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی سرکشی اور زیادتیوں کی سزا اس طرح دی کہ بنی اسرائیل کو تو سرزمین مصر سے بحفاظت نکال لیا اور فرعون کو دریا میں غرق کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ عظیم شان دیکھنے کے بعد بنی اسرائیل پر واجب تھا کہ وہ اپنے رب کے شکرگزار رہتے لیکن انھوں نے فرعون کی غلامی سے آزادی پاتے ہی شرک اور بت پرستی کی طرف میلان ظاہر کیا اور خود موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے لیے ایک محسوس معبود مقرر کریں۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کے اس مطالبہ پر جھڑکا تو انھوں نے ان کی عدم موجودگی میں ، جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تورات کے احکام لینے کوہ طور پر گئے ہوئے تھے، زیورات کو پگھلا کر بچھڑے کا مجسمہ تیار کیا اور اس کی پوجا میں لگ گئے۔ حضرت موسیؑ ٰ واپس آئے تو قوم کے ذمہ دار بزرگوں پر خفا ہوئے کہ انھوں نے اس فتنہ کو کیوں پنپنے دیا۔ بعد میں انھوں نے قوم کے ستر چیدہ بزرگوں کو ساتھ لیا اور اجتماعی توبہ کی غرض سے ان کو کوہ طور پر لے گئے۔ اس موقع پر سب نے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر واضح کر دیا کہ میری رحمت کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو میری نافرمانی سے بچتے رہیں گے، زکوٰۃ دیتے رہیں گے، میری آیات پر ایمان لائیں گے اور اس نبی امی رسول کی پیروی کریں گے جس کی علامات ان کو بتائی جائیں گی۔ انھیں اس کی عزت کرنی ہو گی، اس کی مدد کرنی ہو گی اور اس روشنی کی پیروی کرنی ہو گی جو میں اس کے ساتھ اتاروں گا۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے کے مستحق ہوں گے۔یہ مفصل روداد سنانے کا مقصد اہل کتاب ، بالخصوص یہود، کو ان کی ذمہ داری یاد دلانا تھا کہ وہ نبی امی رسولؐ پر، جو اب فی الواقع ان میں مبعوث ہو چکے ہیں ایمان لائیں اور ان کی حمایت و نصرت پر کمربستہ ہو کر اپنے آپ کو فلاح کا مستحق بنا لیں۔اسی بیان میں آگے بنی اسرائیل کی بعض نالائقیوں کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ ایسے جرائم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دنیا میں تتر بتر کر دیا اور وقتاً فوقتاً ان پر سخت گیر لوگ مسلط کیے جو ان کو طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالتے رہے۔ اگر یہ لوگ اپنے ماضی سے سبق سیکھیں تو اب ان کے لیے اصلاح احوال کا آخری موقع ہے ورنہ ان کا معاملہ دنیا کی ذلت کے علاوہ آخرت میں تباہی پر منتج ہو گا۔یہود کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عہد و پیمان کیا۔ حضرت موسیٰ ؑ احکام کے نزول کے زمانہ میں ہر حکم پر قوم کو اکٹھا کرتے اور حکم سنا کر ان سے عہد لیتے کہ وہ اس پر کاربند رہیں گے اور کسی صورت میں اس سے انحراف نہیں کریں گے۔ بنی اسرائیل جماعت کی حیثیت سے اللہ کو ضامن اور گواہ بنا کر سمع و طاعت کا عہد کرتے۔ مکی دور نبوت کے اواخر میں یہود کو توجہ دلائی گئی کہ خداوند سے عہد باندھنے کی ایک طویل تاریخ کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اس عہد کو پورا کریں اور مصلحتوں کے تحت اس عہد کے بخیے نہ ادھیڑیں ورنہ ان کی مثال اس بڑھیا کی ہو گی جو مدتوں بڑی محنت سے اپنا سوت نہایت مضبوط کاتے لیکن جب اس کے استعمال کاوقت آئے تو وہ اس کا تار تار ادھیڑ کر رکھ دے۔یہود اپنے مشوروں کو دلفریب بنا کر قریش کے سامنے پیش کرتے اور ان کا اعتبار قائم رکھنے کے لیے قسمیں کھا کھا کر ان کو یقین دلاتے کہ ان کی رائے محض خیر خواہی کے جذبہ پر مبنی ہے۔ اصل میں یہ مکروفریب کی ایک اسکیم ہوتی جس کا مقصد قریش کو اپنے موقف پر قائم رکھنا، آنحضرتؐ کی مخالفت پر مضبوط رکھنا، مسلمانوں کے حوصلے پست کرنا اور اللہ کے دین کی طرف بڑھنے والے قدموں کو روکنا ہوتا۔ قرآن مجید نے یہود کی اس سازش کا پردہ چاک کیا اور ان کی تگ ودو کے مضمرات آشکارا کر دیئے۔ اس نے بتایا کہ یہود کی تمام سرگرمی اس حاسدانہ اندیشہ کی بنا پر ہے کہ نئی قائم ہونے والی امت کہیں یہود سے تعداد اور قوت میں بڑھ نہ جائے۔ لہٰذا یہ مسلمانوں کے قدموں کو ڈگمگانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے اور نئی دعوت پر کان دھرنے والوں کے اندر وسوسے ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔یہود کا طرز عمل کسی طرح اخلاص پر مبنی نہ تھا۔ وہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ قرآن نے ان کے اس کردار کو کتوں کی حرص و دناء ت سے تشبیہ دی۔ کتا اپنی مرغوبات کی بو سونگھتا ہوا چلتا اور جس طرف سے اپنی پسند کی بو پاتا ہے اسی طرف مڑ جاتا ہے۔ اسی طرح یہود نے بھی ہدایت کے معاملہ میں اپنی خواہشات نفس اور مفادات دنیا کو رہنما بنا لیا اور اس حرکت میں وہ اپنے عہد و میثاق اور منصبی ذمہ داریوں ہر چیز کو بھول گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر انعامات بھی کیے اور تنبیہات بھی اتاریں لیکن یہ چیزیں ان کے لیے مفید ثابت نہ ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو زمین و آسمان کی سرفرازی سے نوازنا چاہا لیکن دنیا کی حرص اس میں رکاوٹ بن گئی اور یہ قوم اپنے آپ کو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے کام کرنے پر آمادہ نہ کر سکی۔ یہود کی اس خصلت کا ہر ہر پہلو مکی دور ہی میں قرآن نے بے نقاب کر دیا۔ اس کی بے رحم تنقید اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ یہود کا کردار اس دور میں معمولی نہیں رہ گیا تھا اور وہ آنحضرتؐ کی جدوجہد میں مسلسل روڑے اٹکا رہے تھے جس کا تدارک ضروری 
ہو گیا تھا۔
نصاریٰ پر تنقید
یہود کی طرح نصاریٰ کے معتقدات بھی مکی دور ہی میں زیر بحث آ گئے البتہ ان کے تذکرہ میں اس طرح کی تلخی نہیں معلوم ہوتی جو یہود کے لیے پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہود مکروفریب اور سازش سے کام لیتے جب کہ نصاریٰ گمراہی اور غلط فہمی کاشکار تھے۔ نصاریٰ کے غلط معتقدات میں اس زمانہ میں بھی الوہیت مسیح یا مسیحؑ کے مجسم خدا ہونے کا عقیدہ، ان کے خدا کا بیٹا ہونے کا تصور اور آخرت میں نجات دہندہ ہونے کا عقیدہ شامل تھے۔ ان کے ابطال کے لیے ایک کامل سورہ مریم نازل ہوئی۔ اس سورہ کا آغاز حضرت زکریا علیہ السلام کے ہاں خارق عادت طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے تذکرہ سے ہوا ہے۔ وہ خود بڑے بوڑھے اور ان کی بیوی بانجھ تھیں۔ ان کی عاجزانہ دعا کی قبولیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹے سے نوازا۔ اسی بیت المقدس میں، جہاں حضرت زکریاؑ متولی و سربراہ کار تھے، حضرت مریم علیہا السلام ایک عابدہ و زاہدہ خدمت گار خاتون تھیں۔ اس پرہیزگار عفیفہ خاتون کے ہاں بھی خارق عادت طریقہ سے اللہ تعالیٰ کے اپنے حکم خاص سے ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جو بن باپ پیدا ہوا اور ماں کی گود ہی میں اپنے متعلق گواہی دی کہ وہ اللہ کا بندہ اور بنی اسرائیل کی طرف اس کارسول ہے۔ یہ بچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جن کو عیسائیوں نے ابن اللہ کا درجہ دے دیا اور ان کی الوہیت کے قائل ہو گئے۔ مذکورہ دونوں ولادتوں کو پہلو بہ پہلو لا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اگر خارق عادت ولادت کسی کے الٰہ ہونے کی دلیل ہو سکتی ہے تو یہ شرف حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بھی حاصل تھا لیکن اس بنا پر نہ انھوں نے اپنی الوہیت کا دعویٰ کیا نہ کسی دوسرے نے ان کو الٰہ مانا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کے پیروکار عقل کا دامن کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔حضرت مریم ؑ ہیکل کی خدمت پر مامور خدا کی بندی تھیں۔ ان کے ہاں حضرت عیسیؑ ٰ کی ولادت ہوئی تو مسیح علیہ السلام کابشر ہونا از خود ثابت ہو گیا۔ اس کے باوجود سیدنا مسیحؑ نے گہوارے سے لے کر اپنی دعوت کے آخری مراحل تک اس حقیقت کا برملا اعلان کیا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں، اسی نے ان کو کتاب و نبوت سے سرفراز فرمایا اور دین و شریعت کی اساسات، نماز اور زکوٰۃ، پر قائم رہنے کا حکم دیا۔ وہ اپنے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ انھیں بھی دوسرے انسانوں کی طرح ولادت، موت اور دوبارہ جی اٹھنے کے مراحل سے گزرنا ہے لہٰذا ان کی حیثیت کسی طرح دوسرے انسانوں سے مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اعلان کیاکہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ وہ میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی۔ گویا جو نسبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی اپنی تھی وہی نسبت انھوں نے اپنے مخاطبوں کے لیے بھی بیان کی۔ اگر اس نسبت کا مفہوم ابن اللہ ہونا ہے تو پھر تمام لوگ ابن اللہ ٹھہرے اور مسیح علیہ السلام کی یہ الگ خصوصیت نہ رہی۔سورہ مریم میں انبیاء علیہم السلام کی روایت پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا گیا ہے کہ صالحین و اخیار کا یہ گروہ ہر دور میں شرک سے بیزار، اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے والا اور اس کے لیے عبودیت کا اظہار کرنے والا رہا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی روایت کے امین تھے اور یہی روایت ان کے پیروکاروں کو عزیز ہونی چاہیے۔ ان انبیائے کرام کی ایک بڑی صفت وحی الٰہی کے لیے ان کی رغبت تھی۔ وہ اس کی ایک ایک آیت سے متاثر ہوتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ ان کے حقیقی متبعین اہل کتاب کو انہی کی طرح اس وحی کی طرف صدق دل سے راغب ہونا چاہیے جو اب نازل ہو رہی ہے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ شیاطین کے پیچھے لگ کر اس سے بیزاری کااظہار کر رہے ہیں۔سورہ مریم کا ایک اہم مضمون یہ ہے کہ مرنے کے بعد تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ ان کے لیے کوئی دوسری منزل نہیں ہے۔ ہر شخص فرداً فرداً محاسبہ کے لیے پیش ہو گا۔ نہ اس کے اعوان و انصار ساتھ ہوں گے اور نہ کوئی حمایتی اور مددگار۔ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت بروئے کار آئے گی جس کا تقاضا اس دن یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان انصاف کرے، حق پرستوں کی دادرسی کرے، اور ظالموں کو جہنم رسید کرے۔ اس دن جنت میں داخلہ کے مستحق وہ لوگ قرار پائیں گے جو متقی ہوں گے اور ان کا عمل ان کی پرہیزگاری کی شہادت دیتا ہو گا۔ اس دن پذیرائی متقین کی ہو گی اور وہ خدائے رحمان کے حضور عزت و اکرام کے ساتھ پیش ہوں گے جب کہ مجرم پیاسے اونٹوں کی طرح جہنم کے گھاٹ کی طرف ہانکے جائیں گے۔ ان کے مزعومہ شفعاء کو شفاعت کاکوئی اختیار حاصل نہیں ہو گا۔ اس بیان میں عیسائیوں کے اس عقیدہ کی بھرپور تردید ہے کہ آخرت میں مسیح علیہ السلام نجات دہندہ ہوں گے اور ان پر ایمان کو اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام گناہوں کاکفارہ قرار دے دے گا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن نے قریش کی روش پر تبصرہ کر کے نہ صرف ان کو نیک و بد سمجھا دیا بلکہ ان کی حمایت میں بولنے والے اہل کتاب کی اپنی نالائقیوں سے بھی پردہ اٹھا دیا تاکہ قریش پر واضح ہو جائے کہ جن پر وہ تکیہ کیے ہوئے ہیں خود وہ خدا کی میزان میں کیا وزن رکھتے ہیں۔ اور اگر یہ اہل کتاب ان کو کوئی مشورہ دیں گے تو اس کی کیا وقعت ہو گی۔

No comments:

Post a Comment