visitors

free counters

Thursday 26 May 2011

المورد کا تعارف

المورد ملت اسلامیہ کی عظیم علمی روایات کا امین ایک منفرد ادارہ ہے۔ پندرھویں صدی ہجری کی ابتدا میں یہ ادارہ اس احساس کی بنا پر قائم کیا گیا ہے کہ تفقہ فی الدین کا عمل ملت میں صحیح نہج پر قائم نہیں رہا۔ فرقہ وارانہ تعصبات اور سیاست کی حریفانہ کشمکش سے الگ رہ کر خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر دین حق کی دعوت مسلمانوں کے لیے اجنبی ہو چکی ہے۔ قرآن مجید جو اس دین کی بنیاد ہے، محض حفظ و تلاوت کی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ دینی مدرسوں میں وہ علوم مقصود بالذات بن گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ قرآن مجید تک پہنچنے کا وسیلہ ہو سکتے تھے۔ حدیث، قرآن و سنت میں اپنی اساسات سے بے تعلق کر دی گئی ہے اور سارا زور کسی خاص مکتب فکر کے اصول و فروغ اور دوسروں کے مقابلے میں اُن کی برتری ثابت کرنے پر ہے۔

المورد کے نام سے یہ ادارہ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس ادارے کا بنیادی مقصد دین کے صحیح فکر کی تحقیق و نتقید، تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر اس کی نشر و اشاعت اور اس کے مطابق لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہے۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے، اُس کے اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ دین کے صحیح الفکر علماء اور محققین کو ادارے سے متعلق کیا جائے اور انھیں ادارے کی طرف سے یا خود اُن کی تجویز پر علمی اور تحقیقی منصوبے تفویض کیے جائیں۔
۲۔ دور حاضر میں ابلاغ کے جو غیر معمولی ذرائع پیدا ہو چکے ہیں، انھیں کام میں لا کر دین کے صحیح فکر کی تعلیم دی جائے اور اسے پوری دنیا میں عام کیا جائے۔
۳۔ قرآن مجید کی اساس پر انذار عام اور تطہیر فکر و عمل کی ایک ایسی تحریک برپا کی جائے جو قوم کے ذہین عناصر کو اس دعوت سے متعلق کرنے کی جد و جہد کرے۔
۴۔ لوگوں کو آمادہ کیا جائے کہ جہاں جہاں ممکن ہے:
ا۔ اسلامی علوم کی ایسی درس گاہیں قائم کریں جن کا مقصد دین کے صحیح الفکر علماء اور محققین تیار کرنا ہو۔
ب۔ ایف اے، ایف ایس سی اور اے لیول تک نہایت اعلیٰ معیار کے اسکول قائم کریں جن میں تعلیم و تعلم کے ساتھ طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشو و نما اور ان کی دینی اور تہذیبی تربیت بھی پیش نظر ہو۔
ج۔ عام اسکولوں کے طلبہ کی دینی تعلیم کے لیے ایسے ہفتہ وار مدارس قائم کریں جن میں قرآن کی دعوت خود قرآن ہی کے ذریعے سے طالب علموں کے ذہن میں اس طرح راسخ کر دی جائے کہ بعد کے زمانوں میں وہ پورے شرح صدر کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہ سکیں۔
د۔ ایسی خانقاہیں قائم کریں جہاں لوگ وقتاً فوقتاً اپنے دنیوی معمولات کو چھوڑ کر آئیں، علماء و صالحین کی صحبت سے مستفید ہوں، ان سے دین سیکھیں اور چند روز کے لیے یک سوئی کے ساتھ ذکر و عبادت میں مشغول رہ کر اپنے لیے پاکیزگی قلب و نظر کا اہتمام کریں۔

المورد کا نظم اس کے ارکان کی منتخب کردہ مجلس منتظمہ (Board of Governors) کے سپرد ہے۔ ادارے کا نظام جمہوری اصولوں پر قائم ہے۔ صدر ادارہ کی حیثیت اس کے علمی اور فکری رہنما کی ہے اور نتظامی امور سیکرٹری جنرل انجام دیتا ہے۔

المورد سوسائٹی ایکٹ (۱۸۶۰) کے تحت ایک غیر حکومتی اور غیر کاروباری ادارے (Non-Profit NGO) کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہے۔ اسے دی جانے والی اعانت انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے اور یہ اُن سب لوگوں سے جو اس کے مقاصد سے متفق ہیں، تعاون کی توقع رکھتا ہے۔

ویب سائٹ:
http://al-mawrid.org/
http://ww.tv-almawrid.org/
ای میل:
info@al-mawrid.org
almawrid@brain.net.pk

جنگ و فتح اور مولانا وحید الدین خان

جنگ کے بغیر فتح (مولانا وحید الدین خان)

مسٹر رچرڈنکسن 1968ءسے 1974 تک امریکہ کے صدر رہے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے جنگ کے بغیر فتح:
Victory Without War
اس کتاب میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان میں سے ایک بات امریکہ اور جاپان کے باہمی تعلق کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں مسٹر نکسن نے جو باتیں لکھی ہیں، ان میں سے ایک بات مختصر طور پر یہ ہے۔
امریکنوں نے 1948ءمیں جاپان کے بڑے حصہ کو تباہ کر دیا۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد انہوں نے زبردست اقتصادی امداد کے ذریعہ جاپان کی دوبارہ تعمیر کی۔ جاپان کے ساتھ یہ معاملہ انہوں نے اپنے ذاتی مقصد کیلئے، ایک نمونہ کے طور پر کیا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس اشتراکی نظریہ کو غلط ثابت کر سکیں کہ غربت کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ جاپان میں قدیم بادشاہت کی جگہ جمہوریت لائی گئی۔ امریکنوں نے خود وہاں کا دستور لکھ کر تیار کیا۔ اس کا دفاع مکمل طور پر واشنگٹن کے تحت کر دیا گیا۔ اس تجربہ کے 35سال بعد تلخ اقتصادی اختلافات کے بادل امریکہ اور جاپان کے تعلقات پر چھا گئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی توازن ہولناک حد تک بگڑ گیا۔ 1986ءمیں امریکہ نے جتنا سامان جاپان کے ہاتھ بیچا، اس کے مقابلہ میں جاپان نے ساٹھ بلین ڈالر کے بقدر زیادہ سامان امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا۔ واضح ہو کہ اس سال امریکہ کا کل تجارتی خسارہ 170بلین ڈالر تھا۔ جاپان اس پوزیشن میں ہو چکا ہے کہ اس نے امریکی چاول کی خریداری کیلئے 180 ڈالر فی ٹن کی پیش کش کو رد کر دیا جبکہ اسے اپنے ملک میں چاول پیدا کرنے کیلئے 2000 ڈالر فی ٹن خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اب امریکہ کو یہ شکایت ہے کہ جاپانیوں نے امریکی سامان کیلئے اپنی مارکیٹ کو بند کر دیا ہے (ٹائمس آف انڈیا 12اپریل 1979ئ)۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی حیثیت فاتح اور غالب کی تھی اور جاپان کی حیثیت مفتوع اور مغلوب کی۔ مگر فاتح نے جو اقدامات اپنے مفاد کیلئے کیے۔ اس کو مفتوح نے اپنے مفاد میں تبدیل کر لیا۔ یہی موجودہ دنیا کا امتحان ہے۔ اس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیںجو دشمن کے مخالفانہ منصوبوں میں اپنے لیے موافق پہلو تلاش کر لیں جو دشمن کی تدبیروں کو اپنے لیے زینہ بنا کر آگے بڑھ جائیں۔
اس دنیا میں شکست بھی فتح کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہاں جنگ کے بغیر بھی کامیاب مقابلہ کیا جاتا ہے مگر یہ سب کچھ دانش مندوں کیلئے ہے۔ نادانوں کیلئے خدا کی اس دنیا میں کوئی بھی حقیقی کامیابی مقدر نہیں۔ ان کیلئے فتح بھی شکست ہے اور شکست بھی شکست ہے۔

قومیت اور مولانا وحیدالدین

وطن سے تعلق




درج ذیل مضمون میں مولانا وحید الدین کے مضمون'' ہندوستانی قومیت'' ١ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مولانا نے اپنے اس مضمون میں یہ نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ ''وہ چیز جس کو ہم انڈین نیشن ( Indian Nation) کہتے ہیں، اس کے دو دائرے ہیں۔ ایک دائرے میں یکسانیت مطلوب ہے اور دوسرے دائرے میں تنوع۔ یکسانیت والے دائرے میں تفرق برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مگر تنوع والادائرہ اس سے مختلف ہے۔ یہاں کامیاب زندگی کا راز صرف ایک ہے اور وہ ہے ایک دوسرے کے فرق کو ٹالریٹ (Tolerate) کرنا۔ پہلے میں اگر 'من توشدم تومن شدی 'کا اصول کار فرما ہے، تو دوسرے میں''Let usagree to disagree کا اصول۔''

انھوں نے اپنا نقطہ نظر خاندان کی مثال سے واضح کیا ہے۔جس طرح گھر میں خاندان کے اجتماعی مفاد کے لیے تمام افراد خانہ کی ہم آہنگی مطلوب ہے اور اس کے بر خلاف افراد کے اپنے انفرادی ذوق و رجحان میں آزادی،اسی طرح ملک کے اجتماعی مفاد میں ہم رنگی اور یک جہتی ہونی چاہیے اور انفرادی دائرے میں اپنے اپنے طریقے پر قائم رہنے کی آزادی۔

ان کے نزدیک، مثلاً ملک کے دفاع اور ملک کی کامرانی کے لیے سعی و جہد میں ہر ہندوستانی صرف ہندوستانی ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہواور خواہ بھارت کی برتری کسی ایسے ملک پر قائم ہوئی ہو جو کسی ہندوستانی کے ذاتی مذہب کے ماننے والوں کا ملک ہو۔یہاں تک کہ ان کے خیال میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہر ہندوستانی مسلمان کو حکومت ہند کا، دل اور دماغ، دونوں سے، ہمنوا ہونا چاہیے اور یہ اس کے ہندوستانی شہری ہونے کا تقاضا ہے۔ اس طرح وہ یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی ہر ہندوستانی شہری کو خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، یکساں طور پر اپنے ملک کی جیت کے لیے دل سے خواہاں ہونا چاہیے۔ ہم مولانا کے اس نظریے کو، نہایت ادب کے ساتھ، غیر فطری اور غلط سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنی رائے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ [مرتّب]

اس میں شبہ نہیں کہ قومی مفاد پر اتحاد اور ذاتی معاملات میں آزادی کا اصول ہی کسی قوم کے اتحاد اور یک جہتی کا ضامن ہے۔ لیکن مولانا نے اس اصول کو جس طرح عملی زندگی سے متعلق کیا ہے، اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔

مسلمان اپنے مذہبی وجود میں تمام عالم اسلام سے جڑا ہوا ہے۔اس کی بنیادی وجہ وحدت مذہب ہے اور پھر یہ اس کے ملی اور تاریخی شعور کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ کوئی خارجی اثر نہیں ہے کہ اسے کھرچ کر اتار دیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی ایسی منفی شے بھی نہیں ہے،جسے ختم ہو جانا چاہیے۔

یہ چیز مسلمانوں ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر مذہبی گروہ فطری طور پر اس کا اظہار کرتا ہے۔میں اس ضمن میں ذاتی مشاہدے سے ایک مثال پیش کرتاہوں۔چند سال پہلے میں لاہور سے لیاقت پور گیا۔اس شہر میں ہندو بھی آباد ہیں۔بازار سے گزرتے ہوئے ہم لوگ ایک جوتوں کی دکان پر گئے۔یہ دکان ایک ہندو کی تھی۔اس نے ہمیں چائے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ میں ہندو ہوں ۔اگر پسند کریں تو پیش کروں۔اس اٹھارہ بیس سال کے نوجوان دکان دار نے بھارت کے بارے میں گفتگو کی ۔ اس کی معلومات حیرت انگیز تھیں اور اس کا لب و لہجہ فخر کے جذبات سے لبریز تھا۔ سادہ سی بات ہے، یہ چیز اس کے ہندو ہونے کا فطری نتیجہ ہے۔یہی چیز ہمارے ہاں عیسائیوں میں عیسائی ریاستوں کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ اندرا گاندھی جیسی سیکولر لیڈر بھی سقوط ڈھاکہ کے موقع پر فخر کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ ہم نے ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا ہے۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی بکھری ہوئی ریاستوں کے اتحاد کی صورت میں ایک بہت بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ ہر باشعور مسلمان اس خواب کو دیکھتا اور اس کی تعبیر چاہتا ہے۔ چنانچہ پاکستانی مسلمان ہو یا سعودی، مراکشی ہو یا روسی، ان کے ملی مفادات یا اجتماعی شعور کا رخ ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان میں پاکستان نے روس کے خلاف جنگ لڑی تو عالم اسلام کے تمام خطوں سے مسلمان اس جنگ میں شریک ہوئے، جبکہ ان کی ریاستیں اپنے سیاسی اور بین الاقوامی مصالح کی بنا پر اسے پسند نہیں کرتی تھیں۔

کسی مسلمان سے یہ تقاضا ایک غیر فطری امر ہے کہ وہ اسلامی ریاستوں کی فلاح اور ان کی کامیابی پر خوش نہ ہو۔ جس اصول پر نکاح و طلاق جیسے معاملات میں آزادی دینا ضروری ہے،اسی اصول پر دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار تعلق کو بھی قبول کر لینا چاہیے۔

بھارتی مسلمان ہو یا کسی اور غیر مسلم ریاست کا شہری،اس سے شہریت کا تقاضا صرف یہ ہے کہ وہ اپنے ملکی قانون (جو اس کے دینی تقاضوں سے متصادم نہ ہو) کی پابند ی کرے۔ کوئی مسلمان اپنے اسلامی اور ملی وجود کی بنا پر کسی غیر مسلم ملک کی نظریاتی اور جغرافی سرحدوں کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ کوئی غیر مسلم ریاست کسی مسلمان کا اپنا گھر ہوتی ہے، یہ شعور اس کے اندر جڑ ہی نہیں پا سکتا،برگ و بار کیسے لائے گا۔

ممکن ہے مولانا کی رائے یہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی غلط تربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ رائے بوجوہ محل نظر ہے۔ ہمارا مذہب اور خود مولانا کی تحریریں بھی اس پر گواہ ہیں،مسلمانوں کو ایک ملت بننے اور اپنے اندر معاشرتی تنظیم پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ تعلیمات مسلمان کو اس پر راضی نہیں کر سکتیں کہ وہ بھارت میں رہنے کی وجہ سے بھارتی اور امریکہ میں رہنے کی وجہ سے امریکی بن جائے۔اس کا اسلامی وجود اسے، اوّلاً، ملت اسلامیہ سے جوڑتا ہے۔ یہ جذبہ فطری ہے۔ اس کی جڑیں اسلام کے ساتھ وابستگی کے شعور میں گڑی ہوئی ہیں۔ اس کی تصویب قرآن مجید نے روم وایران کے حوالے سے مکہ میں برپا ہونے والی کشمکش کے حوالے سے کر دی ہے۔ اگر مسلمان محض سلسلہ نبوت کے اشتراک کی وجہ سے اور کفاربت پرستی کے اشتراک کی وجہ سے، ہمدردیوں اور مسرتوں کے اعتبار سے، دو گروہ ہو سکتے ہیں اور قرآن اس جذبے پر کوئی منفی تبصرہ نہیں کرتا، بلکہ پیشین گوئی کر کے اہل کتاب کی کامیابی کی نوید سناتا ہے، تو پھر یہ چیز خود مسلمانوں میں اسلامی ممالک کے بارے میں کس طرح نا پسندیدہ ہو سکتی ہے؟

ہمیں مولانا کے مشن اور مساعی سے گہرا قلبی تعلق ہے،لیکن ان کا یہ نقطہ نظر، قطعاً ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ مذہب سے تعلق اگر احکام و معاملات میں انفرادی آزادی کا مقتضی ہے تو پھر مسلمانوں سے، بحیثیت ملت (اگرچہ وہ بدقسمتی سے سیاسی وحدتوں میں منقسم ہے) قلبی لگاؤ کا مقتضی کیوں نہیں ہے؟ شیعہ، ایرانی انقلاب سے مسرت پائیں، اہل حدیث سعودی عرب کی کامیابیوں پر خوش ہوں اور یہ سب کسی مسلمان فرداورکسی مسلمان ملک کی فائز المرامی پر خوشی محسوس نہ کریں، یہ کیسے ممکن ہے؟

اگر مسلمانوں کی قلبی وابستگی کا گراف بنایا جائے تو سب سے نمایاں چیز مذہب سے وابستگی ہو گی۔یہ ایک امرواقعہ ہے اور مولانا کا نقطہ نظر اس کو نظرانداز کر دیتا ہے۔

[١٩٩٥ء]
ـــــــــــــــــــــــــ
١- ماہنامہ الرسالہ، فروری ١٩٩٥۔

حکیمی غزل

جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے

اگر خوں کم بنے، بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے ، شلغم زیادہ

جگر کے بل پہ ہے انسان جیتا
اگر ضعف جگر ہے کھا پپیتا

جگر میں ہو اگر گرمی کا احساس
مربّہ آملہ کھا یا انناس

اگر ہوتی ہے معدہ میں گرانی
تو پی لی سونف یا ادرک کا پانی

تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے
تو فوراََ دودھ گرما گرم پی لے

جو دکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی کے غرارے

اگر ہو درد سے دانتوں کے بے کل
تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مَل

جو طاقت میں کمی ہوتی ہو محسوس
تو مصری کی ڈلی ملتان کی چوس

شفا چاہیے اگر کھانسی سے جلدی
تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی

اگر کانوں میں تکلیف ہووے
تو سرسوں کا تیل پھائے سے نچوڑے

اگر آنکھوں میں پڑ جاتے ہوں جالے
تو دکھنی مرچ گھی کے ساتھ کھا لے

تپ دق سے اگر چاہیے رہائی
بدل پانی کے گّنا چوس بھائی

دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی
کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھلی
اگر تجھ کو لگے جاڑے میں سردی
تو استعمال کر انڈے کی زردی

جو بد ہضمی میں تو چاہے افاقہ
تو دو اِک وقت کا کر لے تو فاقہ

بابری مسجد

بابری مسجد اور مولانا وحید الدین کا نقطہ نظر ایک تجزیہ

اسلامی سزاءیں

اسلامی سزائیں!

شرعی سزاؤں کی تعریف اور ان کی اقسام
دنیا کے عام قوانین میں جرائم کی تمام سزاؤں کو تعزیرات کا نام دیا جاتاہے‘ خواہ وہ کسی بھی جرم سے متعلق ہوں‘اس لئے تعزیرات ہند‘ تعزیرات پاکستان کے نام سے جو کتابیں ملک میں پائی جاتی ہیں‘ اس میں ہرقسم کے جرائم اور ہرطرح کی سزاؤں کا ذکر ہے جب کہ شریعت اسلامیہ میں جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں ہیں:
۱:․․․حدود ۲:․․․قصاص ۳:․․․تعزیرات۔
جرائم کی وہ سزا جو قرآن وسنت اور اجماع نے متعین کردی ہو‘ اس کی دو قسمیں ہیں: ۱:․․․حدود،۲:․․․․قصاص
حدود
شرعی اصطلاح میں ایسے جرم کی سزا کو کہا جاتاہے جس میں حق اللہ غالب ہو۔
قصاص
ایسی سزا جس میں حق العبد غالب ہو۔
تعزیرات
کسی بھی جرم کی وہ سزا جو قرآن وسنت نے متعین نہیں فرمائی‘ بلکہ اسے حاکم ِ وقت یا قاضی کی صوابدید پر چھوڑدیا۔
شریعت اسلام میں حدود کی تعداد چھ ہے: ۱:․․․ ڈاکہ‘ ۲:․․․چوری‘ ۳:․․․زنا‘ ۴:․․․تہمتِ زنا‘ ۵:․․․ شراب خوری‘ ۶:․․․مرتد کی سزا۔حدود وقصاص میں فرق
جرائم کی وہ سزا جو قرآن وسنت نے متعین فرمادی ہے‘ اس کی دو قسمیں ہیں:۱:․․ ایک حد ۲:․․․ قصاص۔ بنیادی طور پر یہ دونوں اگرچہ اس امر میں مشترک ہیں کہ ان میں سزاکی تعیین قرآن کریم اور سنت رسول کریم ا سے کی جاتی ہے‘ لیکن ان دونوں کے حکم میں یہ فرق ہے کہ: حدود ․․․پانچ جرائم کی سزائیں․․․ جس طرح کوئی حاکم وامیر کم یا معاف نہیں کرسکتا اسی طرح توبہ کر لینے سے بھی معاف نہیں ہوتیں‘ البتہ اگر اخلاص کے ساتھ توبہ کرلے تو آخرت میں معافی ہوجاتی ہے۔ ان پانچ میں سے صرف ڈاکہ کی سزا ایسی ہے کہ اگر ڈاکو گرفتاری سے قبل توبہ کرلے اور معاملات سے اس کی توبہ کا اطمینان ہوجائے تو یہ حد ساقط ہوجائے گی‘ البتہ گرفتاری کے بعد کی توبہ کا اعتبار نہیں ہے۔ دوسری حدود توبہ سے بھی دنیا کے حق میں معاف نہیں ہوتیں ‘ خواہ توبہ گرفتاری سے قبل کرے یا بعد میں۔ قصاص کی سزا بھی اگرچہ حدود کی طرح قرآن کریم میں متعین ہے کہ جان کے بدلے میں جان اور زخموں کے بدلہ میں مساوی زخموں کی سزا دی جائے ‘ لیکن حدود کو چونکہ بحیثیت حق اللہ کے نافذ کیا جاتا ہے‘ اس لئے اگر صاحب حق معاف بھی کرنا چاہے تو معاف نہیں ہوگا اور حد ساقط نہیں ہوگی‘ مثلاً جس کا مال چوری کیا ہے وہ معاف بھی کردے تو چوری کی شرعی سزا معاف نہ ہوگی۔رہا قصاص کا معاملہ تو چونکہ اس میں حق العبد غالب ہے‘ اس لئے ولی مقتول کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لے لے یا معاف کردے‘ اسی طرح زخموں کے قصاص میں بھی یہی حکم ہے۔
حدود اور تعزیر کا فرق
حدود اللہ ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جو متعین سزائیں ہیں اور تعزیر غیر متعینہ سزاؤں کوکہا جاتاہے۔ تمام تعزیری جرائم میں صحیح اور جائز سفارش سنی جاسکتی ہے‘ لیکن حدود میں سفارش کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کا سننا جائز ہے۔ حدود کی سزائیں چونکہ سخت ہیں اور ان کی شرائط بھی کڑی ہیں‘ اس لئے شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں‘ چنانچہ مسلمہ قانون ہے : ”الحدود تندرئ بالشبہات“ جبکہ تعزیر شبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ تعزیری سزائیں حالات کے تحت ہلکی سے ہلکی بھی کی جاسکتی ہیں اور سخت سے سخت بھی اور یہ اختیار بھی ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے اور حدود میں کسی حکومت‘ امیر اورحاکم کو نہ معاف کرنے کا اختیار ہے اور نہ ہی کسی قسم کے رد وبدل اور تغیر کا۔
تعزیر کے سلسلہ میں ایک وضاحت
جن جرائم میں شریعت نے سزا متعین نہیں فرمائی‘ ان میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ قاضی کے اختیار میں دیدیا جائے کہ وہ ہر زمانہ‘ ہر مکان اور ماحول کے لحاظ سے جیسی اور جتنی سزا انسداد جرم کے لئے ضروری سمجھے وہ جاری کرے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی حکومت شرعی قواعد کا لحاظ کرتے ہوئے قاضیوں کے اختیارات پر کوئی پابندی لگادے اور جرائم کی سزاؤں کا کوئی خاص پیمانہ مقرر کردے‘ دونوں صورتیں جائز ہیں ‘ لیکن دوسری صورت آج کل کے حالات کے پیش نظر زیادہ بہتر ہے۔

Wednesday 25 May 2011

بلاگ کا تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام جتنا غریب آج کےدور میں ہے پہلے کبھی نہ تھاکہیں اسلام سشمن ادارے اور شخصیات اسلام کی ایسی تصویر پیش کر رہے ہیں جس کا اسلام سے دور کا بھی واستہ نہیں ہے تو کہیں مسلمانوں کا کردار اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ اگر غیر مسلم اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی غلط تصویر کشی میں سر فہرست ہیں تو مسلمان بھی اپنے کردار کے ذریعے اسلام کی صحیح تصویر نہیں پیش کر رہے۔آج نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اسلام کی حقیقی تصویر بنی نوع انسان کے سامنے رکھی جاءے کسی مسلم فرد کی کوتاہی اسلام کی کوتاہی نہیں ہے بلکہ اسلام کی لازوال تعلیمات آج بھی اسی طرح تابندہ ہیں جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل تھیں  اسلام ایک مکمل دین ہے جس نے بنی نوع انسان کی ہر شعبہ زندگی میں رہنماءی کی ہے اور آج بھی اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو دنیا کے تمام مساءل کا حل پیش کر سکتا ہےضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اسلام کو کسی فرد کے حوالہ سے نہ دیکھا جاءے بلکہ اس کی تعلیمات کو سامنے رکھا جاءے اس بلاگ کے زریعے اسلام کی حقیقی تصویر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاءے گی۔
اللہ تعالی سے دعا ہے وہ اس کوشش کو قبول فرماءے اور اس کو ہماری اور تمام لوگوں کیہدایت اور بخشش کا زریعہ بناءے
آمین