وطن سے تعلق
درج ذیل مضمون میں مولانا وحید الدین کے مضمون'' ہندوستانی قومیت'' ١ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مولانا نے اپنے اس مضمون میں یہ نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ ''وہ چیز جس کو ہم انڈین نیشن ( Indian Nation) کہتے ہیں، اس کے دو دائرے ہیں۔ ایک دائرے میں یکسانیت مطلوب ہے اور دوسرے دائرے میں تنوع۔ یکسانیت والے دائرے میں تفرق برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مگر تنوع والادائرہ اس سے مختلف ہے۔ یہاں کامیاب زندگی کا راز صرف ایک ہے اور وہ ہے ایک دوسرے کے فرق کو ٹالریٹ (Tolerate) کرنا۔ پہلے میں اگر 'من توشدم تومن شدی 'کا اصول کار فرما ہے، تو دوسرے میں''Let usagree to disagree کا اصول۔''
انھوں نے اپنا نقطہ نظر خاندان کی مثال سے واضح کیا ہے۔جس طرح گھر میں خاندان کے اجتماعی مفاد کے لیے تمام افراد خانہ کی ہم آہنگی مطلوب ہے اور اس کے بر خلاف افراد کے اپنے انفرادی ذوق و رجحان میں آزادی،اسی طرح ملک کے اجتماعی مفاد میں ہم رنگی اور یک جہتی ہونی چاہیے اور انفرادی دائرے میں اپنے اپنے طریقے پر قائم رہنے کی آزادی۔
ان کے نزدیک، مثلاً ملک کے دفاع اور ملک کی کامرانی کے لیے سعی و جہد میں ہر ہندوستانی صرف ہندوستانی ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہواور خواہ بھارت کی برتری کسی ایسے ملک پر قائم ہوئی ہو جو کسی ہندوستانی کے ذاتی مذہب کے ماننے والوں کا ملک ہو۔یہاں تک کہ ان کے خیال میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہر ہندوستانی مسلمان کو حکومت ہند کا، دل اور دماغ، دونوں سے، ہمنوا ہونا چاہیے اور یہ اس کے ہندوستانی شہری ہونے کا تقاضا ہے۔ اس طرح وہ یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی ہر ہندوستانی شہری کو خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، یکساں طور پر اپنے ملک کی جیت کے لیے دل سے خواہاں ہونا چاہیے۔ ہم مولانا کے اس نظریے کو، نہایت ادب کے ساتھ، غیر فطری اور غلط سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنی رائے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ [مرتّب]
اس میں شبہ نہیں کہ قومی مفاد پر اتحاد اور ذاتی معاملات میں آزادی کا اصول ہی کسی قوم کے اتحاد اور یک جہتی کا ضامن ہے۔ لیکن مولانا نے اس اصول کو جس طرح عملی زندگی سے متعلق کیا ہے، اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔
مسلمان اپنے مذہبی وجود میں تمام عالم اسلام سے جڑا ہوا ہے۔اس کی بنیادی وجہ وحدت مذہب ہے اور پھر یہ اس کے ملی اور تاریخی شعور کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ کوئی خارجی اثر نہیں ہے کہ اسے کھرچ کر اتار دیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی ایسی منفی شے بھی نہیں ہے،جسے ختم ہو جانا چاہیے۔
یہ چیز مسلمانوں ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر مذہبی گروہ فطری طور پر اس کا اظہار کرتا ہے۔میں اس ضمن میں ذاتی مشاہدے سے ایک مثال پیش کرتاہوں۔چند سال پہلے میں لاہور سے لیاقت پور گیا۔اس شہر میں ہندو بھی آباد ہیں۔بازار سے گزرتے ہوئے ہم لوگ ایک جوتوں کی دکان پر گئے۔یہ دکان ایک ہندو کی تھی۔اس نے ہمیں چائے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ میں ہندو ہوں ۔اگر پسند کریں تو پیش کروں۔اس اٹھارہ بیس سال کے نوجوان دکان دار نے بھارت کے بارے میں گفتگو کی ۔ اس کی معلومات حیرت انگیز تھیں اور اس کا لب و لہجہ فخر کے جذبات سے لبریز تھا۔ سادہ سی بات ہے، یہ چیز اس کے ہندو ہونے کا فطری نتیجہ ہے۔یہی چیز ہمارے ہاں عیسائیوں میں عیسائی ریاستوں کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ اندرا گاندھی جیسی سیکولر لیڈر بھی سقوط ڈھاکہ کے موقع پر فخر کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ ہم نے ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا ہے۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی بکھری ہوئی ریاستوں کے اتحاد کی صورت میں ایک بہت بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ ہر باشعور مسلمان اس خواب کو دیکھتا اور اس کی تعبیر چاہتا ہے۔ چنانچہ پاکستانی مسلمان ہو یا سعودی، مراکشی ہو یا روسی، ان کے ملی مفادات یا اجتماعی شعور کا رخ ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان میں پاکستان نے روس کے خلاف جنگ لڑی تو عالم اسلام کے تمام خطوں سے مسلمان اس جنگ میں شریک ہوئے، جبکہ ان کی ریاستیں اپنے سیاسی اور بین الاقوامی مصالح کی بنا پر اسے پسند نہیں کرتی تھیں۔
کسی مسلمان سے یہ تقاضا ایک غیر فطری امر ہے کہ وہ اسلامی ریاستوں کی فلاح اور ان کی کامیابی پر خوش نہ ہو۔ جس اصول پر نکاح و طلاق جیسے معاملات میں آزادی دینا ضروری ہے،اسی اصول پر دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار تعلق کو بھی قبول کر لینا چاہیے۔
بھارتی مسلمان ہو یا کسی اور غیر مسلم ریاست کا شہری،اس سے شہریت کا تقاضا صرف یہ ہے کہ وہ اپنے ملکی قانون (جو اس کے دینی تقاضوں سے متصادم نہ ہو) کی پابند ی کرے۔ کوئی مسلمان اپنے اسلامی اور ملی وجود کی بنا پر کسی غیر مسلم ملک کی نظریاتی اور جغرافی سرحدوں کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ کوئی غیر مسلم ریاست کسی مسلمان کا اپنا گھر ہوتی ہے، یہ شعور اس کے اندر جڑ ہی نہیں پا سکتا،برگ و بار کیسے لائے گا۔
ممکن ہے مولانا کی رائے یہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی غلط تربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ رائے بوجوہ محل نظر ہے۔ ہمارا مذہب اور خود مولانا کی تحریریں بھی اس پر گواہ ہیں،مسلمانوں کو ایک ملت بننے اور اپنے اندر معاشرتی تنظیم پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ تعلیمات مسلمان کو اس پر راضی نہیں کر سکتیں کہ وہ بھارت میں رہنے کی وجہ سے بھارتی اور امریکہ میں رہنے کی وجہ سے امریکی بن جائے۔اس کا اسلامی وجود اسے، اوّلاً، ملت اسلامیہ سے جوڑتا ہے۔ یہ جذبہ فطری ہے۔ اس کی جڑیں اسلام کے ساتھ وابستگی کے شعور میں گڑی ہوئی ہیں۔ اس کی تصویب قرآن مجید نے روم وایران کے حوالے سے مکہ میں برپا ہونے والی کشمکش کے حوالے سے کر دی ہے۔ اگر مسلمان محض سلسلہ نبوت کے اشتراک کی وجہ سے اور کفاربت پرستی کے اشتراک کی وجہ سے، ہمدردیوں اور مسرتوں کے اعتبار سے، دو گروہ ہو سکتے ہیں اور قرآن اس جذبے پر کوئی منفی تبصرہ نہیں کرتا، بلکہ پیشین گوئی کر کے اہل کتاب کی کامیابی کی نوید سناتا ہے، تو پھر یہ چیز خود مسلمانوں میں اسلامی ممالک کے بارے میں کس طرح نا پسندیدہ ہو سکتی ہے؟
ہمیں مولانا کے مشن اور مساعی سے گہرا قلبی تعلق ہے،لیکن ان کا یہ نقطہ نظر، قطعاً ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ مذہب سے تعلق اگر احکام و معاملات میں انفرادی آزادی کا مقتضی ہے تو پھر مسلمانوں سے، بحیثیت ملت (اگرچہ وہ بدقسمتی سے سیاسی وحدتوں میں منقسم ہے) قلبی لگاؤ کا مقتضی کیوں نہیں ہے؟ شیعہ، ایرانی انقلاب سے مسرت پائیں، اہل حدیث سعودی عرب کی کامیابیوں پر خوش ہوں اور یہ سب کسی مسلمان فرداورکسی مسلمان ملک کی فائز المرامی پر خوشی محسوس نہ کریں، یہ کیسے ممکن ہے؟
اگر مسلمانوں کی قلبی وابستگی کا گراف بنایا جائے تو سب سے نمایاں چیز مذہب سے وابستگی ہو گی۔یہ ایک امرواقعہ ہے اور مولانا کا نقطہ نظر اس کو نظرانداز کر دیتا ہے۔
[١٩٩٥ء]
ـــــــــــــــــــــــــ
١- ماہنامہ الرسالہ، فروری ١٩٩٥۔
No comments:
Post a Comment