visitors

free counters

Saturday 6 August 2011

قادیانی گستاخیاں

مرزا قادیانی کی گستاخیوں پر مشتمل باحوالہ دستاویز
عقیدہ توحید اور قادیانی گستاخیاں:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس میں تمام عقائد و اعمال کی حدود متعین ہیں جو اسلام کی ہر بات کو اسی کے فیصلے کے مطابق قبول کرے ‘اسے مسلمان کہا جاتا ہے۔ذات باری تعالیٰ کے بارے میں جو فیصلہ اسلام نے کیا ہے ‘وہ یہ ہے کہ ذات باری ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔اس کا کوئی قبیلہ نہیں ‘نہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی پیدا ہوگا ۔وہ ماں باپ ، بیوی بچوں سے پاک ہے۔کائنات میں اس کی کوئی مثال نہیں ،وہی ذات ہے جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا ،زمین و آسمان اور انسان کو پیدا کیا ،وہی زندہ کرتا ہے ،وہی مارتا ہے ،وہ ذات باری تعالیٰ کن فیکون کی صفت کی مالک ہے ،وہ وحدہ لاشریک ہے ،نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور نہ ہی کوئی اس کی صفات میں اس کے شریک ہے۔مگر مرزا قادیانی کی کتب پڑھئے کہ کس طرح اسلامی عقیدہ ¿ توحید کو تار تار کیا ہے۔

(۱) ”میں نے اپنے کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں....اور اسی حالت میں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان چاہتے ہیں تو میں نے پہلے تو آسمان و زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب و تفریق نہ تھی پھر میں نے منشاءحق کے موافق اس کی ترتیب و تفریق کی ،میں دیکھتا تھا کہ اس کے خلق پر قادر ہوں پھر میں نے آسمانی دنیا کو پیدا کیا اور کہا انا زینا السما ¿ الدنیا بمصابیح ۔پھر میں نے کہا اب انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے پھر میری حالت کشف الہام کی طرف منتقل ہوگئی۔“(”روحانی خزائن“۔جلد ۵‘صفحہ ۵۶۵)

(۲) ”اعطیت صفة الافناءوالاحیاءمجھے فنا کرنے اور زندہ کرنے کی صفت عطا کی گئی ہے۔“ (”خطبہ الہامیہ“۔صفحہ ۵۵)

(۳) ”انما امرک اذاارت لشیئی ان تقول لہ کن فیکون (ارے مرزا)تیرا کام صرف یہ ہے کہ کسی چیز کا ارادہ کرے تو اسے کہے ہو ‘جاﺅ‘وہ ہوجائے گا۔“

(”خزائن“۔صفحہ۵۰۱‘جلد۲۲)

(۴) ”انت من مائنا وہم فی فشل (اﷲ نے مجھے کہا اے مرزا) تو ہمارے پانی سے ہے اور وہ لوگ فشل سے۔“(”خزائن“۔جلد۱۱‘ص۰۵)

(۵) ”انت منی بمنزلة اولادی (اے مرزا)تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد۔“

(”خزائن“۔جلد ۸۱‘صفحہ ۹۱)

(۶) ” انت منی منزلة بروزی (اے مرزا ) تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہوگیا۔“ (”خزائن“۔جلد ۰۲‘صفحہ ۰۰۴)

(۷) ”خاطبنی اﷲ بقولہ اسمع یا ولدی ۔اﷲ نے مجھے مخاطب کرکے کہا اے میرے بیٹے !سن “ (”البشریٰ“۔صفحہ ۹۴)

(۸) ”انت منی بمنزلة لا یعلمہا الخلق ۔تو مجھ سے بمنزلہ اس انتہائی قرب کے ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔“(”خزائن“۔جلد ۷‘صفحہ ۶۲)

(۹) ”حضرت مسیح موعود (مرزا ) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی قوت کااظہار فرمایا۔“ (”اسلامی قربانی“۔مصنفہ:قاضی یار محمد قادیانی۔صفحہ۲۱)

(۰۱) ”قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لےے بے شمار ہاتھ پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ خارج اور لاانتہا عرض اور طول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود ِ اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ¿ ہستی کی تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں۔“(”خزائن“۔جلد ۳‘صفحہ ۰۹)

(۱۱) ”وہ خدا ‘جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے ‘اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے ‘وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آﺅں گا۔“(”خزائن“۔جلد۲‘صفحہ ۲۹)

(۲۱) ”بعض نبیوں کی کتابوں میں میری نسبت بطور استعارہ فرشتہ کا لفظ آگیا ہے اور دانی ایل بنی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی لفظی معنیٰ میکائیل کے ہیں ‘خدا کی مانند۔“(”خزائن“۔جلد۷‘صفحہ ۳۱۴)

(۳۱) ”ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں ‘جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگا گویا آسمان سے خدا اُترے گا ۔“(”خزائن“۔جلد۲۲‘صفحہ ۸۹،۹۹)

مندرجہ بالا عبارات پڑھنے کے بعد کوئی عقل مند ان عبارات سے اتفاق کرسکتا ہے؟کیا ان عبارات سے اسلام کے عطا کردہ عقیدہ ¿ توحید کی عمارت برقرار رہ سکتی ہے؟کیا ان عبارات میں اسلامی عقیدہ ¿ توحید کو پارہ پارہ نہیں کیا جارہا ؟کیا ان عبارات کو سچا جاننے والا اسلامی قانون کے مطابق مسلمان کہلاسکتا ہے ؟اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر آپ باخبر رہیں کہ یہ عبارات مرزا قادیانی کی کتب سے باحوالہ پیش کی گئی ہیں ۔ان عبارات میں ذات باری تعالیٰ کی ذات صفات میں شرکت کے دعوے کئے ہیں جو شرک بھی ہے اور کفر بھی ۔ایسے شخص کو مسلمان سمجھنا ، اس کے پیروکاروں کو اچھا سمجھنا بجائے خود ظلم ہے۔

خبردار!زہر کو اس لیے کھا جانا کہ میٹھا ہے ‘عقل مندی نہیں بلکہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے ۔ایسا ہی مذکورہ خیالات رکھنے والے کسی شخص کو مسلمان جاننا اور اس کے لےے دل میں کسی حیثیت سے نرم گوشہ رکھنا دنیا وآخرت خراب کرنا ہے۔

مسلمانو!قادیانیوں سے خود بچواوراپنے بھائیو ں کوبھی بچاﺅ ۔اگر کسی میں خدانخواستہ قادیانیت کی مرض کی علامتیں نظر آئیں تو فوراً اس کی فکرکریں کہ یہ موذی مرض ہے اور اس سے بچاﺅ کی تدبیر کریں ۔اگر مریض انتہائی سخت حالت میں ہے تو فوراً کسی احرارسنٹر سے رجوع کرے۔

خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم اور قادیانی گستاخیاں:

اﷲتعالیٰ نے اپنا پیغام ‘مخلوق تک پہنچانے کے لےے انبیاءورسل کا سلسلہ شروع کیا جوسیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر نبی کریم سیدنا محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم پر آکر اختتام پذیر ہوا ۔سابقہ انبیاءکے حالات پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی خاص قوم یا کسی علاقہ کے لےے مبعوث ہوئے تھے مگر اﷲ کے آخری نبی علیہ السلام بنی نوعِ انسان کے لےے قیامت کی صبح تک نبی و رسول مبعوث ہوئے۔

نبوت و رسالت یقینا رحمت ِ خداوندی ہے مگر اس سلسلہ کو جب ختم کیا گیا تو آخری نبی علیہ السلام کو رحمت اللعالمین بناکر بھیجا گیا ۔اس اعتبار سے کائنات ‘رحمت ِ خداوندی سے محروم نہیں کی گئی بلکہ رحمت ِ خداوندی اب بھی نبی کریم علیہ الصلوٰةو السلام کی نبوت و رسالت کی صورت میں کائنات پر سایہ فگن ہے۔آپ پر جو کتاب نازل کی گئی ‘ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ کی کوئی کتاب نہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو فضیلت عطا کی گئی ۔تمام انبیاءمل کر بھی آپ کی عظمت شان کو نہیں پہنچ سکتے۔حضور علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے مقصود ِ کائنات فرمایا کہ (اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم)اگر تجھے پیدا نہ کرتا تو کائنات کو پیدا نہ کرتا۔ آپ کو سراج منیر فرمایا گیا اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا” ورفعنالک ذکرک “ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا ۔آپ کی صفات حمیدہ اتنی ہیںکہ شمار نہیں ہوسکتیں اور کسی نے سچ کہا ہے :

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے مقام رفیع کا بیان ممکن نہیں۔

حضور علیہ السلام کی حیات ِ طیبہ ایسی بے نظیر و بے مثال ہے کہ کائنات میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔آپ رحمت ہی رحمت ہیں۔دشمن بھی آپ کو صادق و امین کے لقب سے یاد کرتے ۔ آپ کی ہمسری کائنات میں کوئی نہیں کرسکا۔چہ جائے کہ کوئی آپ پر فضیلت کا قائل ہو‘ معاذ اﷲ!مگر کائنات کا بدقسمت مرزا قادیانی کس قدر بدتمیزی پر اتر آیا ہے ۔کبھی آپ کی برابری کا دعویٰ کرتا ہے تو کبھی افضلیت کا (معاذاﷲ)پڑھیے اور مرزا قادیانی کی کفریہ جسارت ملاحظہ کیجیے:

(۱) ”محمد رسول والذین مع اشد اءعلی الکفار رحماءبینہم اس وحی الہٰی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی ۔“(”رو حانی خزائن“۔جلد۸۱،ص۷۰۲)

(۲) ”خداتعالیٰ نے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بروز قراردیا۔“(”روحانی خزائن“۔جلد۲۲،ص۲۰۵)

(۳) ”اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے ‘اس نے مجھے نہیں پہچانا۔“

(”روحانی خزائن“۔جلد۶۱،ص ۹۵۲)

(۴) ”میں آدم ہوں ،میں نوح ہوں ،میں داﺅد ہوں ،میں عیسیٰ بن مریم ہوں ،میں محمد صلی اﷲعلیہ وسلم ہوں۔“(”روحانی خزائن“۔جلد۲۲،ص۱۲۵)

(۵) ”میں بارہا بتلاچکا ہوں کہ بموجب آیت واخرین منہم لما یلحقو بہم بروزی طور پر وہی نبی و خاتم الانبیاءہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہی وجود قراردیا ہے ۔ پس اس طور سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاءہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔“(”روحانی خزائن“۔جلد۸۱،ص ۲۱۲)

(۶) ”چونکہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیل اشاعت ہدایت ہے ۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا۔اس لیے قرآن شریف کی آیت واخرین منہم لما یلحقوبہم میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد ثانی کا وعدہ دیا گیا ہے۔اس وعدہ کی ضرورت اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ دوسرا فرض منصبی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یعنی تکمیل اشاعت ہدایت دین جو آپ کے ہاتھ سے پورا ہونا چاہیے تھا۔اس وقت عدم وسائل پورا نہیں ہواسو اس فرض کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی آمد ثانی سے جو بروزی رنگ میں تھی۔ایسے زمانہ میں پورا کیا جبکہ زمین کی تمام قوموں تک اسلام پہنچانے کے لےے وسائل پیدا ہوگئے تھے۔“(”روحانی خزائن“۔جلد۷۱،ص۳۶۲حاشیہ)

(۷)

”محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں

اور آگے سے بڑھ کر ہیں اپنی شاں میں

محمددیکھنے ہوں جس نے اکمل

غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں“

(”اخباربدر“۔قادیان۵۲اکتوبر۶۰۹۱ئ)

قارئین !یہ چند خرافاتِ قادیانیت باحوالہ پیش کردی ہیں جن میں ہر ایک اپنی جگہ کفر پر مبنی ہے۔کیا کوئی مسلمان ان عبارات کو پڑھنے کے بعد بھی قادیانیوں کے لےے کوئی نرم گوشہ رکھے گا۔

گستاخی ¿ رسول اور کس چیز کا نام ہے؟مسلمانو!اپنے دلوں میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کو جگہ دو اور قادیانیوں سے بھرپور نفرت کا اظہارکرو کہ اسی میں دین و دنیاکی کامیابی ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور قادیانی گستاخیاں:

اﷲ کے آخری رسول سیدنا و مولانا محمدکریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام رسول تھے۔جو صاحب ِ شریعت اور صاحب ِ کتاب نبی و رسول تھے۔آپ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی ۔آپ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی آیت کہا ،کلمہ اور روح کے لقب کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔وجیہا فی الدنیا والآخرة کہا جب ماں پر تہمت لگی تو گود میں ہی اپنی ماں پر لگی تہمت سے برا ¿ت کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا :انی عبداﷲ اٰتانی الکتاب وجعلنی نبیا وجعلنی مبارکا این ماکنت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آسمان سے بڑی کتابوں میں انجیل نازل فرمائی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ نے نبیوں اور رسولوں کی طرح معجزات عطاکئے ۔آپ کا یہ معجزہ تھا کہ آپ مادرزاد اندھے پر ہاتھ پھیرتے تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے دیدہ ور ہوجاتا۔مرض برص میں مبتلا شخص پر ہاتھ پھیرتے تو برص کی مرض سے ٹھیک ہوجاتا ۔آپ مردے پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اﷲ کے حکم سے زندہ ہوجاتا۔یہ بھی آپ کا معجزہ تھا کہ جو کچھ لوگ کھاتے یا گھر ذخیرہ کرتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام معجزہ کے طور پر بتادیتے ۔آپ ہر وقت تبلیغ دین کے لےے سرگرداں رہتے ۔تبلیغ دین میں اتنے مگن کہ نہ شادی کرسکے نہ ہی رہائش کے لےے کوئی مکان بنایا۔اسی لیے آپ کو مسیح کا لقب عطا ہوا۔اﷲ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت آسمانوں پر اٹھالیا اور اب آسمان پر تشریف فرما ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات بالمشافہ ملاقات ہوئی۔قیامت سے پہلے دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ان کے ہاتھ سے دجال کا قتل مقدر ہوچکا ہے۔چالیس سال دنیا میں حاکم عادل اور خلیفہ ¿ راشد کی حیثیت سے رہیں گے ۔پوری زمین پر اسلام کا جھنڈا بلند ہوگا کہ اسلام کے علاوہ کوئی دین باقی نہیں رہے گا ۔آپ حج یا عمرہ کریں گے پھر چالیس سال کے بعد آپ کا انتقال ہوجائے گا۔اور حضور علیہ السلام کے روضہ اطہر میں دفن ہوں گے کہ ابھی تک روضہ رسول علیہ السلام میں انہی کے لےے قبر کی جگہ موجود ہے۔آپ اﷲ کے اولوالعزم پیغمبر تھے۔

مگر مرزا قادیانی کو دیکھئے کہ وہ اپنی ناپاک قلم سے اتنے بڑے برگزیدہ پیغمبر کی شان میں کس قدر ہرزہ سرائی کرتا ہے:

(۱) ”مریم کو ہیکل کی نذرکردیا گیا تاکہ وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو اور تمام عمر خاوند نہ کرے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایاں ہوگیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا‘ یوسف نامی ایک نجار سے نکاح کردیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا ‘وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا۔“

(خزائن ۔جلد ۰۲‘ص ۵۵۳۔۶۵۳)

(۲) ”مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے مگر خوانین سرحد کے بعض قبائل میں یہ مماثلت عورتوں کو اپنے منسوبوں سے حد سے زیادہ ہوتی ہے ۔حتیٰ کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے حمل بھی ہوجاتا ہے جس کو بر ا نہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات کو ٹال دیتے ہیں۔“(خزائن۔جلد۴۱‘ص۰۰۳)

(۳) ”آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں ،نانیاں آپ کی زنا کاراور کسبی عورتیں تھیں۔جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا مگر یہ بھی خدائی کے لےے ایک شرط ہوگی آپ کا کنجریوں سے میلان اور محبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگادے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے۔“ (خزائن۔جلد۱۱‘ص۱۹۲)

(۴) ”عیسائیوں نے بہت سے آپ کے (حضرت عیسیٰ کے) معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور اس دن سے آپ نے معجزہ مانگنے والوں کوگندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا ۔اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا اور نہ چاہا کہ معجزہ مانگ کر حرام کار اور حرام کی اولاد بنیں مگر آپ کی بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے ‘خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب سے فیصلہ کردیا کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہرہوا ہو تو وہ معجزہ آپ کا نہیں بلکہ اس تالاب کا معجزہ ہے اور آپ کے ہاتھ میں سوا مکرو فریب کے اور کچھ نہیں تھا۔“(خزائن۔جلد ۱۱‘ص۰۹۲۔۱۹۲‘حاشیہ)

(۵) ”آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی ۔ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا ۔ اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیتے تھے۔یہ بھی یادرہے کہ آپ کو (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام)کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی ۔“ (خزائن۔جلد۱۱‘ص۹۸۲)

(۶) ”یسوع اس لیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداءہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے۔چنانچہ خدائی کا دعویٰ شراب خوری کا ایک بدنتیجہ ہے۔“(خزائن ۔ جلد۰۱‘ص۶۹۲‘حاشیہ)

(۷) ”لیکن جس قدر حضرت مسیح الہٰی صداقت اور ربانی توحید کے پھیلانے سے ناکام رہے ۔شاید اس کی نظر کسی دوسرے نبی کے واقعات میں بہت ہی کم ملے گی۔“

(خزائن ۔جلد ۵‘ص۰۰۲)

(۸) ”ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ‘اس سے بہتر ہے غلام احمد “ (خزائن۔جلد۸۱‘ص ۰۴۲)

یہ ہیں مرزا قادیانی کی کفریہ تحریریں جن میں مرزا قادیانی نے کھلم کھلا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے ۔کیا کسی نبی کی توہین کرنا کسی دین و مذہب میں جائز ہے؟کیا کسی نبی کی تحقیر کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں کفر نہیں؟کیاسیدناعیسیٰ علیہ السلام کا بن باپ پیدا ہونے پر آپ کا ایمان نہیں؟کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے پاک دامن ہونے پر آ پ کا ایمان نہیں؟کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات پر آ پ کا ایمان نہیں ؟کیا آپ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سچے رسول ہونے پر ایمان نہیں؟تو پھر آپ کیوں مرزا قادیانی کے لےے نرم گوشہ رکھتے ہیں؟ایسے شخص کو اچھا جاننا یا اس کے پیروکاروں سے تعلق استوار رکھنا غیرت ایمانی کے منافی ہے۔

آج فیصلہ کریں ‘آئندہ کسی مرزائی سے آپ دوستی نہیں رکھیں گے ۔اگر خدا نخواستہ آپ کے حلقہ ¿ احباب میں کوئی مرزائی گھسا ہواہے تو اسے نکال باہرکریں کہ غیرت ایمانی کا تقاضا یہی ہے۔

انبیاءکرام اور قادیانی گستاخیاں :

اﷲ تعالیٰ نے اپنے احکامات اپنی مخلوق تک پہنچانے کے لئے بعض انسانوں کو منتخب کیا اور ان برگزیدہ انسانوں کو بچپن سے لے کر آخر تک اپنی نگرانی میں رکھا ان نفوس مقدسہ کو ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہ سے نہ صرف پاک رکھا بلکہ ان کے قریب ہی نہیں آنے دیا ۔ طبقہ انبیاءو رسل ‘اخلاق و عادات میںسب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ہے۔ان کی سیرت اتنی پاکیزہ ہے کہ ان کی پیروی میں دنیا و آخرت کی کامیابی پنہاں کردی گئی جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ ہمیشہ سچ ثابت ہوا۔ جس کا ان کے جانی دشمنوں نے بھی اقرار کیا ۔ کیا شان ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام خود علّام الغیوب کرتے رہے ۔ ان نفوس نے دنیا میں کسی سے ایک حرف تک نہیں سیکھا مگر اﷲ نے ان کو اپنی طرف سے اتنا علم دیا کہ دنیا میں ان کے علم کے برابرکسی کا علم نہیں ۔

تمام انبیاءو رسل علیہم السلام ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے اور ہمیشہ دوسرے کا احترام بجا لاتے رہے ۔ انبیاءکاسلسلہ حضرت آدم علیہ السّلام جو ابو لبشرتھے ، سے شروع ہو کر حضرت نوح علیہ السّلام ، حضرت ابراھیم علیہ السّلام ،حضرت یعقوب علیہ السّلام ، حضرت یوسف علیہ السّلام ، حضرت موسیٰ علیہ السّلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے ہوتا ہوا ہمارے آقاسیّدنا محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ۔ آپ اس سلسلہ کے آخری رہنماءتھے ، جو دوجہاں کے لئے نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے۔ آپ کے بعد نبی و رسول نہیں ۔قیامت کی صبح تک آپ کی تعلیمات پر عمل سے ہی اﷲکی رضا اور آخرت کی کامیابی ملے گی ۔

اسلامی تعلیمات میں سے یہ بھی ہے کہ جس طرح ہم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان کہلانے کے حقدار ہوئے ہیں ایسے ہی حضور علیہ السّلام سے پہلے تمام انبیاءاور رسل پر ایمان لانا بھی ہرمسلمان کے لئے ضروری ہے اور جس طرح حضور علیہ السّلام کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کرنا یا کسی طرح صراحتاً یا کنا یةً ایسے الفاظ لکھنا یا بولنا جس سے آپ کی معاذ اﷲ تحقیر ہوتی ہو موجب ِکفر ہے اسی طرح آپ سے پہلے انبیاءکرام علیہم السّلام کے لئے بھی ایسے الفاظ بولنا یا لکھنا اور ان کا احترام ملحوظ خاطرنہ رکھنا بھی موجب ِ کفر وضلالت ہے چاہے وہ نماز یں پڑھتا ہو، روزے رکھتا اور زکوٰة ادا کرتا ہو ، نیز باقی اسلامی احکامات پر مکمل عمل پیرا ہو

مگرمرزا غلام احمد قادیانی کو پڑھیے کہ اس نے اس سلسلے میں شرافت کی تمام حدیں پھلانگی ہیں اور انبیاءورُسل کی توہین و تحقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ملاحظہ فرمائیں:

(۱) ”خدا تعالیٰ میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھلارہا ہے کہ اگرنوح کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔“ (روحانی خزائن ، جلد ۲۲ص۵۷۵)

(۲) ”موسیٰ نے کئی لاکھ بے گنا ہ بچے مارڈالے ۔“ (روحانی خزائن ، جلد ۹ص۳۵۳ حاشیہ )

(۳) ”پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز مرزا غلام احمد قادیانی ‘اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ عاجز قید کی دعا کرکے بھی قید سے بچایا گیا مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا۔“ (روحانی خزائن ، جلد۱۲ص۹۹)

(۴) ”عیسائیوں نے بہت سے آپ کے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے)معجزات لکھے ، مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا ۔“ (روحانی خزائن ، جلد۱۱ص۰۹۲)

(۵) ”آپ(یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی ادنیٰ ادنیٰ بات پر غصہ آجاتا تھا۔ “ (روحانی خزائن ، جلد۱۱ص۹۸۲)

( ۶) ”یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو) کسی قد ر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی ۔ “(روحانی خزائن ، جلد۱۱ص۹۸۲)

(۷) ”ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو‘اس سے بہتر غلام احمد ہے ۔“(روحانی خزائن ، جلد۸۱ص۰۴۲)

(۸) ”خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمد یہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنخضرت ﷺ کا وجو د قراردیا ہے ۔“(روحانی خزائن ، جلد۸۱ص۲۱۲)

(۹) ”جو شخص مجھ میں او ر مصطفےٰ میں فرق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ۔“ (روحانی خزائن ، جلد۶۱ص۹۵۲)

(۰۱) ”اور جو یہ فرمایا کہ ”واتخذو ا من مّقام ابراہیم مصلیٰ“ یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ یہ ابراہیم (مرزا غلام احمد قادیانی ) جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجا لا ¶اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ تئیں بنا ¶۔“(روحانی خزائن ، جلد۷۱ص۰۲۴،۱۲۴)

(۱۱) ”خدا نے مجھے تمام انبیاءعلیہم السّلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اورتمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں ‘میں شیث ہوں‘ میں نوح ہوں‘ میں ابراہیم ہوں‘ میں اسحق ہوں‘ میں اسماعیل ہوں‘میں یعقوب ہوں ‘ میں یوسف ہوں ‘ میں موسیٰ ہوں ‘ میں دا ¶د ہوں‘ میں عیسیٰ ہوں ‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا میں مظہر

ا َتم ہوں یعنی ظلی طورپر محمد او ر احمد ہوں۔“(روحانی خزائن ، جلد۲۲ص۶۷ )

(۲۱) ”انبیاءگرچہ بود ہ اندبَسے ۔من بعرفان نہ کمترم کَسے ۔اگرچہ دنیا میں بہت سارے نبی ہوئے ہیں لیکن علم و عرفان میں مَیں کسی سے کم نہیںہوں۔“(روحانی خزائن ، جلد۸۱ص۷۷۴)

مذکورہ بالا عبارتیں مرزاغلام احمد قادیانی کی اپنی کتب سے بحوالہ پیش کی گئی ہیں ۔ ان عبارتوں کے ہر ہر لفظ سے اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاءورسل کی توہین و تحقیر ٹپک رہی ہے جو واضح کفر ہے کسی قسم کی حیل وحجت و تاویل کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ کو ن ہے جو کفریات کوپڑھنے کے بعد بھی مرزا غلام احمد قادیانی کو مسلمان تصورکرے ۔ اس کے باوجود بھی اگرکوئی قادیانیوں کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی خیر منائے ۔مرزا قادیانی ‘ایسے بدزبان و بدنہاد شخص کے گمراہ کن جال سے باہر نکلیں ‘حقائق کی دنیا میں آئیں اور ہدایت پائیں۔

صحابہ کرامث اور قادیانی گستاخیاں:

انبیاءکے بعدایک مبارک طبقہ ایسا ہے جو انتخاب الہٰی ہے۔جن کو اﷲ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لےے چنا اور منتخب کیا ۔اصحابِ رسول ثکے ایک ایک فرد کی ہمہ قسم تربیت اﷲ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بذریعہ وحی کرائی ۔پھر اﷲ تعالیٰ نے خود اصحاب رسول ث کے ہر فرد کا امتحان لیا اور کامیابی کی سند عطا فرمائی۔ان کے دلوں میں اﷲ نے ایمان کی محبت ڈال دی اور ایمان کو ان کے دلوں میں مزین کردیا ۔نیز یہ بھی کہ کفر،گناہ اور نافرمانی کی ان کے دلوں میں نفرت ڈال دی ۔چونکہ یہ خدائی منتخب کردہ جماعت تھی ۔اس جماعت کو اﷲنے اپنی جماعت قرار دیا اور تمام اصحابِ رسول ث کو اپنی خصوصی رضا کا تمغہ عنایت فرما کر جنت عطاءکرنے کا وعدہ فرمایا نیز فلاح پانے والی ،کامیاب ہونے والی جماعت قرار دیا اور کائنات اس کی گواہ ہے کہ جو کامیابیاں اور کامرانیاں اصحابِ رسول ث کے مقدر میں تھیں ‘کسی کو نصیب نہیں ہوئیں اور یہ سارا تربیتی اہتمام اس لیے کیا گیا کہ سلسلہ نبوت و رسالت ختم ہورہا ہے اور یہ بار امانت جس جماعت کے سپرد کرنا ہے ‘انہیں واقعی ایسے ہی ہونا چاہیے کہ اصحابِ رسول ث نے اس امانت کو ایسے سنبھالا اور اس دین کی اس قدر خدمت کی اور قرآن و حدیث کی روح سے دین اسلام کی عمارت کو اس قدر مضبوط کیا کہ قیامت کی صبح تک اس میں کسی قسم کی کمزوری واقع نہیں ہوگی ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس پاکیزہ جماعت کو آسمانِ ہدایت کے ستارے قرار دیا اور فرمایا کہ امت ان میںسے جس کی بھی اتباع کرے گی ‘کامیاب ہوجائے گی اور ارشاد فرمایا صحابہ کو تکلیف پہنچانا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو تکلیف پہنچانا ہے اورمجھ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو تکلیف دینا اﷲ کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب پر طعن کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ ‘فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق قرار دیا ہے لیکن دنیا میں ایسے بھی ازلی بدبخت ہیں جو اس پاکیزہ و مقدس جماعت کے خلاف زبانیں کھولتے ہیں انہی نامراد وں میںایک مرزاقادیانی بھی ہے ‘جس کی بدبختی کا اظہار اس کی تحریروں میں اس طرح ہے:

(۱) ”میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیر ین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر کے درجہ پر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر کیا وہ تو بعض انبیاءسے بہتر ہے۔“(”مجموعہ اشتہارات“۔جلدسوم ‘ص۸۷۲)

(۲) ”پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو ‘اب نئی خلافت لو ‘ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ کی تلاش کرتے ہو۔“(”ملفوظاتِ احمدیہ“۔جلد۲‘ص۲۴۱)

(۳) ”جو میری جماعت میں داخل ہوا ‘درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا۔“(”روحانی خزائن“۔جلد۶۱‘ص۹۵۲۔۸۵۲)

(۴) ”ابوہریر ہ جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔“

(۵) ”بعض کم تدبر کرنے والے صحابہ جن کی درایت اچھی نہ تھی جیسے ابوہریرہ۔“

(”روحانی خزائن“۔جلد۲۲‘ص۶۳)

(۶) ”اکثر باتوں میں ابوہریرہ بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکہ میں پڑ جایا کرتا تھا ‘ ایسے الٹے معنیٰ کرتا تھا جس سے سننے والے کو ہنسی آتی تھی۔“

(”روحانی خزائن“۔جلد۲۲، ص۶۳)

(۷) ”جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے ‘اس کو چاہیے کہ ابوہریرہ کے قول کو ایک ردّی متاع کی طرح پھینک دے۔“(”روحانی خزائن“۔جلد۱۲‘ص۰۱۴)

(۸) ”میں (مرزا) خدا کا کشتہ ہوں لیکن تمہار ا حُسین دشمنوں کا کشتہ ہے۔“

(”روحانی خزائن“۔جلد۹۱،ص۳۹۱)

(۹) ”اے قوم شیعہ !اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھا ہوا ہے۔“

(”روحانی خزائن“۔جلد۸۱،ص۳۳۲)

(۰۱) ”کربلائے است سیر ہرآنم صد حسین است در گریبانم“

میر ی سیر ہر وقت کربلا میں ہے ۔میرے گریبان میں سو حسین ہیں۔“

(”روحانی خزائن“۔جلد۸۱‘ص۷۷۴)

(۱۱) ”تم نے خدا ئے جلال و مجد کو بھلا دیا اور تمہارا وردصرف حسین ہے ۔کیا تو انکار کرتا ہے۔پس یہ اسلام پرایک مصیبت ہے ۔کستوری(مرزا) کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے۔“(”روحانی خزائن“۔جلد۹۱‘ص۴۹۱)

(۲۱) ”حق بات یہ ہے کہ ابن مسعود ؓ ایک معمولی انسان تھا۔“(”روحانی خزائن“۔ جلد۳‘ص۲۲۴)

(۳۱) ”حضرت معاویہ بھی تو صحابی ہی تھے ‘جنہوں نے خطا پر جم کر ہزاروں آدمیوں کے خون کرائے۔“(”روحانی خزائن“۔جلد۳‘ص۲۲۴)

(۴۱) ”بعض الہامات میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ اس عاجز (مرزا) کے خون کی بنی فاطمہ کے خون سے آمیزش ہے اور درحقیقت وہ ”کشف براہین احمدیہ“ص ۳۰۵کا ہے جس میں لکھا ہے کہ میں نے دیکھا کہ میرا سر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے مادر مہربان کی طرح اپنی ران پرر کھا ہوا ہے۔“(”روحانی خزائن“۔ص ۲۰۲)

قارئین آپ نے ملا حظہ فرمایا کہ مرزاقادیانی نے اﷲ کے محبوب بندوں اور مو ¿منین کاملین کی شان میں کس قدر گستاخی اور ہرزہ سرائی کی ہے ۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ گفتگو کسی شریف آدمی کی ہوسکتی ہے ؟ یہ تحریریں اگرچہ ناقابلِ اشاعت ہیں۔ ہم نے قادیانیوں کے دجل کو طشت ازبام کرنے کے لیے انہیں نقل کیا ہے۔قادیانی حضرات ان تحریروں کو بغور پڑھیں اور مرزاقادیانی کے بارے میں اپنے عقیدے پر نظرثانی کریں او رہدایت قبول کریں ۔ نیزوہ مسلمان جو قادیانیوں کی نام نہاد شرافت سے متاثر ہو کر ان کے اخلاق کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ بھی ان تحریروں کو پڑھ کر اپنا قبلہ درست کریں اور ہدایت کے راستہ پر آجائیں۔

اُمت ِ مسلمہ اورقادیانی گستاخیاں:

جب نبوت و رسالت‘ اﷲ کے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے ۔ تو قیامت کی صبح تک آپ کی امّت کے علاوہ کوئی امت بھی نہیں ہے ۔ آپ کی امت کو خیر امة قرار دیا گیا۔ فضیلت کی انتہا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السّلام جیسے نبی و رسول نے اس امت میںداخل ہونے کی خواہش کا اظہارکیا۔ اﷲ کا اس امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اس امت کو اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم(جو تمام انبیاءکے سردار ہےں ) عطا ءفرمائے‘ جو امت پر اس قدر شفیق ہےں کہ قیامت کی صبح تک امت کی ہمہ قسم رہنمائی فرماگئے اور انسانی زندگی کے ہر مسئلہ کو انتہائی واضح فرما گئے ۔ اعتقاد ات ہوں یا عبادات ‘ معاملات ہو ں یا انسانی زندگی میںپیش آنے والا کوئی مسئلہ‘ انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر مکمل طور پر رہنمائی فرماگئے ۔ اگر کوئی اہم واقعہ قیامت سے پہلے رونما ہونے والا تھا ،خیر کا یاشر کا تو اس سے مکمل آگاہ فرماکر پوری پوری علامات بیان فرماگئے۔

جب قیامت کے دن تمام انسانیت بشمول حضرات انبیاءو رسل علیہم السّلام نفسا نفسی کے عالم میں ہونگے تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام محمود پر سجدہ ریز ہوکر‘ امت کی شفاعت فرمائیں گے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم دی ہے اس پر ایمان لانے اور

آپ کی اتباع ہی سے مسلمان کہلایا جاسکتاہے ۔ مگر مرزا کادیانی کی سنیے وہ اپنی فرماںبرداری کو انسانیت پر لازم قراردیتاہے۔ اس کے خیال میں صرف حضورعلیہ السّلام کی اطاعت سے نہ جنت مل سکتی ہے ‘ اورنہ جہنم سے نجات۔ جو شخص مرزاقادیانی کو نہیں مانتا وہ مشرک ‘ عیسائی ‘ یہودی ‘ ولد الحرام ‘ خنزیر بلکہ کافر اور جہنمی ہے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) ”میری کتابوں کو ہرمسلمان محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اوراس کے معارف سے نفع اٹھاتا ہے مجھے قبو ل کرتا ہے اور میری تصدیق کرتا ہے مگررنڈیوں (بدکارعورتوں) کی اولاد جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر کردی وہ قبول نہیں کرتے ۔“(”خزائن “۔جلد۵ ص۷۴۵،۸۴۵)

(۲) ”ان الحداصارو خنازیر الفلا و نساءھم من دونھن الاکلب۔

دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں ۔“

(”خزائن“۔ جلد۴۱ ص۳۵)

(۳) ” اور جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا۔ “

(”خزائن “۔جلد ۸۱ ص۲۸۳حاشیہ )

(۴) ” اور (جو) ہماری فتح کاقائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ہے۔“ (”خزائن“ جلد۹ص۱۳)

(۵) ”اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے مجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی وہ جہنمی ہے ۔“(”تذکرہ“ طبع دوم ص۸۶۱)

(۶) ” خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے ۔“ (”تذکرہ“ ص۰۰۶ طبع دوم )

(۷) ”ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کومانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا یا محمد کو مانتاہے پر مسیح موعود (مرزا) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر ہے اوردائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ “ (”کلمة الفصل“ ص۰۱۱۔از مرزا بشیر)

(۸) ”کُل مسلمان جو حضرت مسیح موعود(مرزا ) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اوردائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ “

(”آئینہ صداقت“ ص۵۳۔ ازمرزا بشیر )

مندرجہ بالا عبارات کوپڑھنے کے بعد کوئی ہے اتنا مردہ دل کہ کادیانیوں کے بارے نرم رویہ رکھے ۔ اﷲ کے آخری نبی تو فرمائیں کہ اگر موسیٰ علیہ السّلام بھی زندہ ہوتے تو میری ہی تابعداری کرنے کے علاوہ ان کو کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ مگر مرزا ‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ہوتے ہوئے انسانیت کا رشتہ حضورعلیہ السّلام سے توڑنا چاہتا ہے ۔

Friday 5 August 2011

اقسام مطہرات اور ان کے احکام


مطھرات کسے کھتے ھیں ؟
وہ چیزیں جو نجاست کو پاک کرتی ھیں انھیں مُطھرات کھا جاتا ھے اور وہ بارہ ھیں ۔
(۱) پانی (۲) زمین (۳) سورج (۴) استحالہ (۵) انقلاب (۶) انتقال (۷) اسلام (۸) تبعیت(۹) عین نجاست کا زائل ھو جانا (۱۰) نجاست کھانے والے حیوان کا استبراء (۱۱) مسلمان کا غائب ھو جانا (۱۲) ذبح کئے گئے جانور کے بدن سے خون کا نکل جانا ۔
۱۔ پانی    
پانی چار شرطوں کے ساتہ نجس چیز کو پاک کرتا ھے :
پانی مطلق ھو ۔ مضاف پانی مثلاً عرق گلاب وغیرہ سے نجس چیز پاک نھیں ھوتی ۔
پاک پانی ھو ۔
نجس چیز کو دھونے کے دوران پانی مضاف نہ بن جائے ۔ جب کسی چیز کو پاک کرنے کے لئے پانی سے دھویا جائے اور اس کے بعد مزید دھونا ضروری نہ ھو تو یہ لازم ھے کہ اس پانی میں نجاست کی بُو ، رنگ یا ذائقہ موجود نہ ھو لیکن اگر دھونے کی صورت اس سے مختلف ھو (یعنی وہ آخری دھونا نہ ھو ) اور پانی کی بُو ، رنگ یا ذائقہ بدل جائے تو اس میں کوئی حرج نھیں ۔ مثلاً اگر کوئی چیز کر پانی یا قلیل پانی سے دھوئی جائے اور اسے دو مرتبہ دھونا ضروری ھو تو خواہ پانی کی بُو ، رنگ یا ذائقہ پھلی دفعہ دھونے کے وقت بدل جائے لیکن دوسری دفعہ استعمال کئے جانے والے پانی میں ایسی کوئی تبدیلی رو نما نہ ھو تو وہ چیز پاک ھو جائے گی ۔

 
نجس چیز کو پانی سے دھونے کے بعد اس میں عین نجاست کے ذرّات باقی نہ رھیں ۔ نجس چیز کو قلیل پانی یعنی ایک کُر سے کم پانی سے پاک کرنے کی کچھ اور شرائط بھی ھیں جن کا ذکر کیا جا رھا ھے ۔
نجس اشیاء کو کس طرح پاک کیا جائے؟
نجس برتن کو قلیل پانی سے دو طریقے سے دھویا جا سکتا ھے :
1۔ برتن کو تین دفعہ بھرا جائے اور ھر دفعہ خالی کر دیا جائے ۔
2۔ برتن میں تین دفعہ مناسب مقدار میں پانی ڈالیں اور ھر دفعہ پانی کو یوں گھمائیں کہ وہ تمام نجس مقامات تک پھنچ جائے اور پھر اسے گرا دیں ۔
دیگر نجس اشیاء کو پاک کرنے کا طریقہ:
٭ اگر کسی نجس چیز کو کُر یا جاری پانی میں ایک دفعہ یوں ڈبو دیا جائے کہ پانی اس کے تمام نجس مقامات تک پھنچ جائے تو وہ چیز پاک ھو جائے گی اور قالین یا دری اور لباس وغیرہ کو پاک کرنے کے لئے اسے نچوڑنا اور اسی طرح سے ملنا یا پاؤں سے رگڑنا ضروری نھیں ھے ۔ اور اگر بدن یا لباس پیشاب سے نجس ھو گیا ھو تو اسے کُر پانی میں دو دفعہ دھونا بھی لازم ھے ۔
٭      اگر کسی ایسی چیز کو جو پیشاب سے نجس ھو گئی ھو قلیل پانی سے دھونا مقصود ھو تو اس پر ایک دفعہ یوں پانی بھا دیں کہ پیشاب اس چیز میں باقی نہ رھے تو وہ چیز پاک ھو جائے گی ۔ البتہ لباس اور بدن پر دو دفعہ پانی بھانا ضروری ھے تاکہ پاک ھو جائیں ۔ لیکن جھاں تک لباس ، قالین ، دری اور ان سے ملتی جلتی چیزوں کا تعلق ھے انھیں ھر دفعہ پانی ڈالنے کے بعد نچوڑنا چاھئے تاکہ غُسَالہ ان میں نکل جائے ۔ ( غُسَالہ یا دھوون اس پانی کو کھتے ھیں جو کسی دھوئی جانے والی چیز سے دُھلنے کے دوران یا دھل جانے کے بعد خود بخود یا نچوڑنے سے نکلتا ھے ۔
٭ اگر کوئی چیز پیشاب کے علاوہ کسی نجاست سے نجس ھو جائے تو نجاست دور کرنے کے بعد ایک دفعہ قلیل پانی اس پر ڈالا جائے ۔ جب وہ پانی بھہ جائے تو وہ چیز پا ک ھو جاتی ھے البتہ لباس اور اس سے ملتی جلتی چیزوں کو نچوڑ لینا چاھئے تاکہ ان کا دھوون نکل جائے ۔
٭     اگر گندم ، چاول ، صابن وغیرہ کا اوپر والاحصہ نجس ھو جائے تو وہ کُر یا جاری پانی میں ڈبونے سے پاک ھو جائے گا لیکن اگر ان کا اندرونی حصہ نجس ھو جائے تو کُر یا جاری پانی ان چیزوں کے اندر تک پھنچ جائے اور پانی مطلق ھی رھے تو یہ چیزیں پاک ھو جائیں گی لیکن ظاھر یہ ھے کہ صابن اور اس سے ملتی جلتی چیزوں کے اندر آب مطلق بالکل نھیں پھنچتا ۔
٭ جب تک عین نجاست کسی نجس چیز سے الگ نہ ھو وہ پاک نھیں ھو گی لیکن اگر بُو یا نجاست کا رنگ اس میں باقی رہ جائے تو کوئی حرج نھیں ۔ لھذا اگر خون لباس پر سے ھٹا دیا جائے اور لباس دھو لیا جائے اور خون کا رنگ لباس پر باقی بھی رہ جائے تو لباس پاک ھو گا لیکن اگر بُو یا رنگ کی وجہ سے یہ یقین یا احتمال پیدا ھو کہ نجاست کے ذرّے اس میں باقی رہ گئے ھیں تو وہ نجس ھو گی ۔
٭    اگر برتن یا بدن نجس ھو جائے اور بعد میں اتنا چکنا ھو جائے کہ پانی اس تک نہ پھنچ سکے اور برتن یا بدن کو پاک کرنا مقصود ھو تو پھلے چکنائی دور کرنی چاھئے تاکہ پانی ان تک (یعنی برتن یا بدن تک ) پھنچ سکے ۔
٭   جو نل کُر پانی سے متصل ھو وہ کُر پانی کا حکم رکھتا ھے ۔
٭    اگر کسی چیز کو دھویا جائے اور یقین ھو جائے کہ پا ک ھو گئی ھے لیکن بعد میں شک گزرے کہ عین نجاست اس سے دور ھوئی ھے یا نھیں تو ضروری ھے کہ اسے دوبارہ پانی سے دھولیا جائے اور یقین کر لیا جائے کہ عین نجاست دور ھو گئی ھے ۔
8   اگر وہ زمین جس کا فرش پتھر یا اینٹوں کا ھو یا دوسری سخت زمین جس میں پانی جذب نہ ھوتا ھو نجس ھو جائے تو قلیل پانی سے پا ک ھو سکتی ھے لیکن ضروری ھے کہ اس پر اتنا پانی گرایا جائے کہ بھنے لگے ۔ جو پانی ڈالا جائے اگر وہ کسی گڑھے سے باھر نہ نکل سکے اور کسی جگہ جمع ھو جائے تو اس جگہ کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ھے کہ جمع شدہ پانی کو کپڑے یا برتن سے باھر نکال دیا جائے ۔
٭     اگرمعدنی نمک کا ڈَلایا اس جیسی کوئی اور چیز اوپر سے نجس ھو جائے تو قلیل پانی سے پاک ھو سکتی ھے ۔
۲۔ زمین
زمین پاؤں کے تلوے اور جوتے کے نچلے حصہ کو چار شرطوں سے پاک کرتی ھے ۔
1۔ زمین پاک ھو ۔
2۔ خشک ھو  (احتیاط کی بنا ء پر)۔
3۔ احتیاط لازم کی بناء پر نجاست زمین پر چلنے سے لگی ھو ۔
4۔ عین نجاست مثلا خون اور پیشاب یا متنجس چیز مثلاً مٹی پاؤں کے تلوے یا جوتے کے نچلے حصے میں لگی ھو وہ راستہ چلنے سے یا پیر زمین پر رگڑنے سے دور ھو جائے لیکن اگر عین نجاست زمین پر چلنے یا زمین پر رگڑنے سے پھلے ھی دور ھو گئی ھو تو احتیاط لازم کی بنا ء پر پاک نھیں ھوں گے ۔ البتہ یہ ضروری ھے کہ زمین مٹی یا پتھر یا اینٹوں کے فرش یا ان سے ملتی جلتی چیز پر مشتمل ھو ۔ پاؤں یا جوتے کے نجس تلوے کا تر ھونا ضروری نھیں بلکہ خشک بھی ھوں تو زمین پر چلنے سے پاک ھو جاتے ھیں ۔
۳۔ سو رج
سورج ۔ زمین ، عمارت اور دیوار کو پانچ شرطوں کے ساتہ پاک کرتا ھے :
1۔ نجس چیز اس طرح تر ھو کہ اگر دوسری چیز اس سے لگے تو تر ھو جائے لھذا اگر وہ چیز خشک ھو تو اسے کسی طرح تَر کر لینا چاھئے تاکہ دھوپ سے خشک ھو ۔
2۔ اگر کسی چیز میں عین نجاست ھو تو دھوپ سے خشک کرنے سے پھلے اس چیز سے نجاست کو دور کر لیا جائے ۔
3۔ کوئی چیز دھوپ میں رکاوٹ نہ ڈالے ۔ پس اگر دھوپ پر دے ، بادل یا ایسی ھی کسی چیز کے پیچھے سے نجس چیز پر پڑے اور اسے خشک کر دے تو وہ چیز پاک نھیں ھو گی البتہ اگر بادل اتنا ھلکا ھو کہ دھوپ کو نہ روکے تو کوئی حرج نھیں ۔
4۔ فقط سورج نجس چیز کو خشک کرے ۔ لھذا مثال کے طور پر اگر نجس چیز ھوا اور دھوپ سے خشک ھو تو پاک نھیں ھوتی ۔ ھاں اگر ھوا اتنی ھلکی ھو کہ یہ نہ کھا جا سکے کہ نجس چیز کو خشک کرنے میں اس نے بھی کوئی  مدد کی ھے تو پھر کوئی حرج نھیں ۔
5۔ بنیاد اور عمارت کے جس حصے میں نجاست سرایت کر گئی ھے دھوپ سے ایک ھی مرتبہ خشک ھو جائے ۔ پس اگر ایک دفعہ دھوپ نجس زمین اور عمارت پر پڑے اور اس کا سامنے والا حصہ خشک کرے اور دوسری دفعہ نچلے حصے کو خشک کرے تو اس کا سامنے والا حصہ پاک ھو گا اور نچلا حصہ نجس رھے گا ۔
۴۔ استحالہ
اگر کسی نجس چیز کی جنس یوں بدل جائے کہ ایک پاک چیز کی شکل اختیار کر لے تو وہ پاک ھو جاتی ھے ۔ مثال کے طور پر نجس لکڑی جل کر راکھ ھو جائے یا کتّا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جائے ۔ لیکن اگر اس چیز کی جنس نہ بدلے مثلا ً نجس گھیوں کا آٹا پیس لیا جائے یا ( نجس آٹے کی ) روٹی پکائی جائے تو وہ پاک نھیں ھو گی ۔
ایسی نجس چیز جس کے متعلق علم نہ ھو کہ آیا اس کا استحالہ ھوا یا نھیں ( یعنی جنس بدلی ھے یا نھیں ) تونجس ھے ۔
۵۔ انقلاب
اگر شراب خود بخود یا کوئی چیز ملانے سے مثلاً سر کہ اور نمک ملانے سے سرکہ بن جائے تو پاک ھو جاتی ھے ۔
نجس انگور ، نجس کشمش اور نجس کھجور سے جو سرکہ تیار کیا جائے وہ نجس ھے ۔
۶۔ انتقال
اگر انسان کا خون یا اچھلنے والا خون رکھنے والے حیوان کا خون، کوئی ایسا کیڑا جس میں عرفاً خون نھیں ھوتا اس طرح چوس لے کہ وہ خون اس کیڑا کے بدن کا جز ھو جائے مثلا ً مچھر ، انسان یا حیوان کے بدن سے اس طرح خون چوسے تو وہ خون پاک ھو جاتا ھے اور اسے انتقال کھتے ھیں
اگر کوئی شخص اپنے بدن پر بیٹھے ھوئے مچھر کو مار دے اور وہ خون جو مچھر نے چوسا ھو اس کے بدن سے نکلے تو ظاھر یہ ھے کہ وہ خون پاک ھے کیونکہ وہ خون اس قابل تھا کہ مچھر کی غذا بن جائے اگرچہ مچھر کے خون چوسنے اور مارے جانے کے درمیان وقفہ بھت کم ھو ۔ لیکن احتیاط مستحب یہ ھے کہ اس خون سے اس حالت میں پرھیز کرے ۔
۷۔ اسلام
اگر کوئی کافر "شھادتین " پڑھ لے یعنی کسی بھی زبان میں اللہ کی وحدانیت اور اور خاتم الانبیاء حضرت محمد  (ص) کی نبوت کی گواھی دیدے تو مسلمان ھو جاتا ھے ۔ اور اگرچہ وہ مسلمان ھونے سے پھلے نجس کے حکم میں تھا لیکن مسلمان ھو جانے کے بعد اس کا بدن ، تھوک ، ناک کا پانی اور پسینہ پاک ھو جاتا ھے لیکن مسلمان ھونے کے وقت اگر اس کے بدن پرکوئی عین نجاست ھو تو اسے دور کرنا اوراس مقام کو پانی سے دھونا ضروری ھے بلکہ اگر مسلمان ھونے سے پھلے ھی عین نجاست دور ھو چکی ھو تب بھی احتیاط ِ واجب یہ ھے کہ اس مقام کو پانی سے دھو ڈالے ۔
۸۔ تبعیت
تبعیت کا مطلب ھے کہ کوئی نجس چیز کسی دوسری چیز کے پاک ھونے کی وجہ سے پاک ھو جائے ۔
٭    جو کافر مرد مسلمان ھو جائے اس کا بچہ طھارت میں اس کا تابع ھے ۔ اور اسی طرح بچے کے ماں یا دادی یا دادا مسلمان ھو جائیں تب بھی یھی حکم ھے ۔ لیکن اس صورت میں بچے کی طھارت کا حکم اس سے مشروط ھے کہ بچہ اس نَومسلم کے ساتہ اور اس کے زیر کفالت ھو نیز بچے کا کوئی کافر رشتہ دار اس بچے کے ھمراہ نہ ھو ۔
٭   وہ تختہ یا سِل جس پر میت کو غسل دیا جائے اور وہ کپڑا جس سے میت کی شرمگاہ ڈھانپی جائے نیز غسال کے ھاتہ غسل مکمل ھونے کے بعد پاک ھو جاتے ھیں ۔
٭     اگر کوئی شخص کسی چیز کو پانی سے دھوئے تو اس چیز کے پاک ھونے پر اس شخص کا وہ ھاتہ بھی پاک ھو جاتا ھے جس سے وہ اس چیز کو دھوتا ھے ۔
٭    اگر لباس یا اس جیسی کسی چیز کو قلیل پانی سے دھویا جائے اور اتنا نچوڑ دیا جائے جتنا عام طور پر نچوڑا جاتا ھے تاکہ جس پانی سے دھویا گیا ھے اس کا دھوون نکل جائے تو جو پانی اس میں رہ جائے وہ پاک ھے ۔
۹۔ عین نجاست کا دور ھونا
اگر کسی حیوان کا بدن عین نجاست مثلا خون یا نجس شدہ چیز مثلا نجس پانی سے آلودہ ھو جائے تو جب وہ نجاست دور ھو جائے حیوان کا بدن پاک ھو جاتا ھے اور یھی صورت انسانی بدن کے اندرونی حصوں مثال کے طور پر منہ یا ناک اورکان کے اندر والے حصوں کی ھے کہ وہ باھر سے نجاست لگنے سے نجس ھو جائیں گے اور جب نجاست دور ھو جائے تو پاک ھو جائیں گے لیکن داخلی نجاست مثلا ً دانتوں کے ریخوں سے خون نکلنے سے بدن کا اندرونی حصہ نجس نھیں ھوتا اور یھی حکم ھے جب کسی خارجی چیز سے بدن کے اندرونی حصہ میں نجاست داخلی لگ جائے تو وہ چیز نجس نھیں ھوتی ۔ اس بنا پر اگر مصنوعی دانت منہ کے اندر دوسرے دانتوں کے ریخوں سے نکلے ھوئے خون سے آلودہ ھو جائیں تو ان دانتوں کو دھونا لازم نھیں ھے لیکن اگر ان مصنوعی دانتوں کو نجس غذا لگ جائے تو ان کو دھونا لازم ھے ۔
۱۰۔ نجاست کھانے والے حیوان کا استبراء
جس حیوان کو انسانی نجاست کھانے کی عادت پڑ گئی ھو اس کا پیشاب اور پاخانہ نجس ھے اور اگر اسے پاک کرنا مقصود ھو تو اس کا اسبتراء کرنا ضروری ھے ۔ یعنی ایک عرصے تک اسے نجاست نہ کھانے دیں اور پاک غذا دیں حتیٰ کہ اتنی مدت گزر جائے کہ پھر اسے نجاست کھانے والا نہ کھا جا سکے ۔
۱۱۔ مسلمان کا غائب ھو جانا
٭  اگر بالغ اور پاکی ۔ ناپاکی کی سمجھ رکھنے والے مسلمان کا بدن یا لباس یا دوسری اشیاء مثلا برتن اور دری وغیرہ جو اس کے استعمال میں ھوں نجس ھو جائیں اور پھر وہ وھاں سے چلا جائے تو اگر کوئی انسان یہ سمجھے کہ اس نے یہ چیزیں دھوئی تھیں تو وہ پاک ھوں گی۔
٭ اگر کسی شخص کی یہ حالت ھو جائے کہ اسے کسی نجس چیز کے دھوئے جانے کا یقین ھی نہ آئے اگر وہ اس چیز کو جس طرح لوگ عام طور پر دھوتے ھیں دھو لے تو کافی ھے ۔
۱۲۔ معمول کے مطابق ( ذبیحہ کے ) خون کا بہ جانا
کسی جانور کو شرعی طریقے سے ذبح کرنے کے بعد اس کے بدن سے معمول کے مطابق ( ضروری مقدار میں ) خون نکل جائے تو جو خون اس کے بدن کے اندر باقی رہ جائے وہ پاک ھے ۔