visitors

free counters

Monday, 19 September 2011

نزول عیسی علیہ اسلام اعتراضات اور جوابات

 

نزول عیسی علیہ اسلام اعتراضات اور جوابات
جیسا کہ دجال کے معاملے پر بحث کے سلسلے میں ایک معترضہ نقطہ سامنے آیا کہ دجال کے مرکزی کردار یعنی حضرت عیسٰی علیہ اسلام زندہ ہی نہیں تو آئیں گے کیسے؟ چنانچہ دجال کا مرکزی کردار ہی جب موجود نہیں تو دجال کی حقیقت بھی مشکوک ہے۔۔ اس سلسلے میں اعتراض کرنے والوں نے ابتداء میں درج ذیل آیت کا سہارا لیا:
"محمد ایک رسول تھے اس سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں۔(آل عمران آیت نمبر 144)"
پہلی بات تو یہ کہ اعتراض کرنے والے نے اس آیت کا ترجمہ ہی بلکل غلط کیا ہے اگر ہم سورہ آلِ عمران کی اس آیت کو غور سے پڑھیں تو اس کا اصل ترجمہ یہ بنتا ہے:
"اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔(سورہ آلِ عمران آیت نمبر 144)" (قرآن مجید کے تراجم میں سے زیادہ تر نسخوں میں اسی ترجمہ کو لکھا گیا ہے)
یعنی "رسول ہیں" کی جگہ "رسول تھے" ترجمہ کیا گیا جو علمی لحاظ سے ایک بہت بڑی خیانت ہے۔
اب اعتراض کرنے والے عربی گرامر کا اعتراض کریں گے چنانچہ میں ایک ایک لفظ کے لحاظ سے اس کا ترجمہ کرتا ہوں۔(اعراب کی غلطی کی معذرت اگر کسی کو غلطی دکھائی دے تو براہِ مہربانی از خود درست کر لیں)
وَمَا۔۔۔۔۔۔۔ اور نہیں
مُحَمَد اِلَا رَسُول۔۔۔۔۔۔۔ محمد مگر رسول
یعنی صیغہ حال استعمال ہو رہا ہے نہ کہ ماضی۔
یہ تو ہو گیا ہمارا اس لحاظ سے ترجمہ کہ "ہیں" اور "تھے" کی غلطی کو سدھارا جائے۔
اب اس آیت کو عقلی معیار پر پرکھا جائے تو یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب ابھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات تھے۔ تو پھر کج کلاہی میں اس کا ترجمہ اس طرح کیوں کیا جائے کہ "تھے"؟
(فائدہ:۔ اب اگر اس آیت میں ہم "تھے" والے ترجمے کو رواج دے دیں تو ایک وقت وہ بھی آئے گا جب یہی غلط ترجمہ کرنے والے اس سے مراد یہ لیں گے کہ وہ نبی تھے اب گزر چکے لہذا اب کسی نئے نبی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم اس کا ترجمہ "تھے" کریں گے تو کلمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس میں اقرار ہو رہا ہے کہ "اللہ ایک ہے اورمحمد اللہ کے رسول ہیں" لہٰذا اس علمی خیانت کو درست کیا جائے اور آیات کا ترجمہ پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ مستند تراجم کی طرف رجوع کریں نہ کہ خود ساختہ تراجم کی طرف)
اب آ جاتے ہیں ترجمہ کے آگے والے حصے پر یہاں ایک اور بہت بڑی علمی خیانت یہ کی گئی ہے کہ آگے کی پوری آیت کو پڑھے بغیر صرف اتنی آیت پر اپنے استدلال پیش کر دیا گیا ہے کہ "جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں" پہلے تو اعتراض کرنے والے پوری آیت تلاوت فرمائیں اللہ تعالٰی اس آیت میں کہاں اس بات کی صراحت فرما رہے ہیں کہ وہ سب اس طرح گزرے کہ انہیں موت آ گئی؟ جبکہ اعتراض کرنے والوں کے مطابق قرآن سے ہر لفظ کی صراحت بیان کی جائے۔
اس کا مطلب یہ بھی تو ہو سکتا کہ وہ سب اپنا زمانہ گزار چکے جبکہ ان میں سے جو وفات پا گئے وہ تو اپنا زمانہ گزارنے کے ساتھ موت کا مزہ چکھ چکے جبکہ جو اپنا زمانہ گزار چکنے کے بعد ابھی تک زندہ ہیں (جیسا کہ سورہ النسا میں حضرت عیسٰی سے متعلق بیان کیا گیا اس کا بیان بعد میں آئے گا) وہ زمانہ نبوت گزار چکے ہیں اب وہ جب آئیں گے تو منصبِ نبوت کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایک امتی کے لحاظ سے آئیں گے یعنی شریعت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع، اس آیت میں قطعاَََ یہ جامع انداز میں نہیں کہا گیا کہ سب موت کا ذائقہ چکھ چکے۔ اب حضرت عیسٰی علیہ اسلام کی حیات پراعتراض کرنے والے سب سے پہلے اس اعتراض پر واضح انداز میں صراحت دکھائیں کہ واقعی اس آیت کا مطلب سب کی موت ہی ہے۔
اب یہاں قرآن واضح انداز میں کچھ نہیں بتا رہا کہ گزر چکنے کا مطلب کیا ہے تو اب صرف "قرآن کافی ہے" کی رٹ لگانے والے بتائیں کہ کس جانب رجوع کیا جائے؟ اگر کہیں سے پتہ نہیں چلے گا تو دل میں شک بیٹھے گا کہ پتہ نہیں یہ درست ہے یا وہ۔ ایسی صورت میں آیات کے ساتھ احادیث کا سہارا لینا بے حد ضروری ہے تاکہ شک کو دل سے نکال باہر کیا جائے کیونکہ شک ایمان کو تباہ کر دیتا ہے۔
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ:
"سورة المائدة کی آیت 116 اور 117 میں لکھا کہ اللہ تعالی نے قیامت کے دن حضرت عیسی سے پوچھا گا کہ عیسی ابن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو جس پر عیسی علیہ اسلام نے جواب دیا کہ میں جب تک ان میں موجود رہا یہی کہا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے۔ لیکن جب تم نے مجھے وفات(یہاں ترجمہ کا بھی فرق ہے کئی تراجم میں "اٹھا لیا" لکھا ہے) دے دی تو اس کے بعد تو ہی ان کا نگہبان تھا"
پہلی بات تو اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ حضرت عیسٰی کی وفات کے فوراََ بعد پوچھا؟ جبکہ آیت میں قیامت کا ذکر ہو رہا ہے اور حضرت عیٰسی کا دوبارہ نزول قیامت سے پہلے ہو گا۔
دوسری بات کہ حضرت عیسٰی کا مطلب یہی تھا کہ جو آپ مفہوم پیش کر رہے ہیں تو اس میں حضرت عیٰسی علیہ اسلام اپنے اٹھا لئے جانے کے بعد کی صفائی دیں گے نہ کہ اپنے دوبارہ نزول کے بعد کی یعنی اٹھا لئے جانے اور نزول کے درمیان اس عرصہ کی جس میں وہ لوگوں کے درمیان سے اٹھا لیے گئے۔
چنانچہ آپ کا یہ استدلال بھی باطل ہوا کیونکہ اس میں بھی وضاحت نہیں کہ وہ موت کا مزہ چکھ چکے۔
آپ نے اپنی منفرد قرآن فہمی استعمال کرتے ہوئے صحیح‌احادیث کو رد کرنے کی جو دلیل تراشی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ‌قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے لیے "متوفیک" اور "توفیتنی" یعنی وفات کا لفظ استعمال ہوا ہے جو موت کا مترادف ہے لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہو چکی ہے اور اب وہ دنیا میں تشریف نہیں لانے والے ہیں۔ اس قسم کی باتیں وہ شخص ہی کر سکتا ہے جو پہلے سے اپنے ذہن میں ایک عقیدہ بٹھا کر‌قرآن مجید سے اپنے حق میں دلائل کشید کرنا چاہتا ہو خواہ اس کے لیے اسے صحیح احادیث اور ائمہ امت کی تصریحات سے بے نیاز ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ خیر، یہ آپ کی اپنی مرضی ہے کہ آپ قرآن مجید کی وہ تفسیر پسند کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہے یا پھر اپنی عقل سے کلام اللہ کے نئے معنی متعین فرماتے ہیں۔ ہمارے لیے آپ کے پیش کیے ہوئےاشکال کو رفع کرنے کے لیے یہی امر کافی ہے کہ لغت کے اعتبار سے "وفات" کا لفظ‌ بہت سے معنوں میں‌استعمال ہوتا ہے جن میں ایک مطلب "واپس لینا"‌ بھی ہے اور ان آیات میں یہی مطلب مراد ہے۔ خود قرآن مجید میں "وفات"کا اطلاق نیند پر کیا گیا ہے مثلا:
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ (الانعام)
"اور وہی ہے جو تمہیں رات کو "وفات" دیتا ہے"
اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا [ الزمر : 42 ]
"اللہ وفات دیتا ہے جانوں کو موت کے وقت اور جو مری نہیں ہیں انہیں نیند میں"
عربی کی معتبر ترین لغت لسان العرب سے "وفات" کے دو مزید استعمال دیکھیے۔
تَوَفَّيْتُ المالَ منه
لفظی مطلب: "میں نے اس کے مال کو "وفات" دے دی"
حقیقی مراد: "میں نے اس سے سارا مال واپس لے لیا"
ایک اور مثال:
تَوَفَّيْتُ عَدَد القومِ
لفظی مطلب: "میں نے قوم کے افراد کی تعداد کو وفات دی"
حقیقی مراد: "میں نے قوم کے افراد کو شمار کیا"
ان مثالوں‌سے واضح ہوتا ہے کہ عربی زبان میں "وفات"‌کا مطلب ہمیشہ "موت"‌نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی شخص محض ‌لغت کی مدد سے ترجمہ کرنے بیٹھے تو وہ قائل کی حقیقی مراد سے بہت دور جا پڑے گا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیےکہ محض لغت کی مدد سے قرآن کی تفسیر نہیں کی جا سکتی۔ قرآن کریم کی تفسیر ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے جس کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی نہیں بلکہ تمام متعلقہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔ افسوس ہے کہ کچھ عرصے سے مسلمانوں میں یہ خطرناک وبا چل پڑی ہے کہ بہت سے لوگوں نے صرف عربی پڑھ لینے کو تفسیر قرآن کے لیے کافی سمجھ رکھا ہے، چنانچہ جو شخص بھی معمولی عربی زبان پڑھ لیتا ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر میں رائے زنی شروع کر دیتا ہے بلکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ عربی زبان کی نہایت معمولی شدبد رکھنے والے لوگ، جنہیں عربی پر بھی مکمل عبور نہیں ہوتا، نہ صرف من مانے طریقے پر قرآن کی تفسیر شروع کر دیتے ہیں بلکہ پرانے مفسرین کی غلطیاں نکالنے کے درپے ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمے کا مطالعہ کر کے اپنے آپ کو قرآن کا عالم سمجھنے لگتے ہیں اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔
ہمارے اور آپ کے درمیان مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ صحیح احادیث، علماء، فقہاء اور ائمہ امت کی تصریحات اور ان کے چھوڑے ہوئے علمی کام کو دریا برد کر کے اپنی عقل اور لغت کے بھروسے پر قرآن مجید کے نئے معنی متعین فرمانا چاہتے ہیں۔ بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ جن آیات میں عیسیٰ علیہ السلام کے لیے "وفات" کا لفظ آیا ہے وہاں اس کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائے ہوئے مطلب سےکی جائے یا کسی متجدد کے فہم و دانش کو معیار مانا جائے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث سے عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد معلوم ہے۔ ایک صحیح حدیث ملاحظہ کیجیے:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں ابن مریم حاکم عادل بن کر اتریں گے، پس وہ صلیب کو توڑ دیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے۔ ۔ ۔۔ "
اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے اور محدثین نے جانچ پرکھ کے کڑے اصولوں پر پرکھنے کے بعد اسے "صحیح"قرار دیا ہے۔
صحیح البخاری کتاب البیوع باب قتل الخنزیر
صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا
سنن ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی نزول عیسیٰ ابن مریم
مستخرج ابی عوانہ کتاب الایمان باب ثواب من آمن بمحمد صلی اللہ علیہ و علی‌آلہ وسلم
مصنف عبدالرزاق کتاب الجامع باب نزول عیسیٰ ابن مریم
مسند احمد بن حنبل باقی مسند المکثرین مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ
صحیح ابن حبان کتاب التاریخ باب ذکر خبر قد یوھم من لم یحکم صناعۃ الحدیث ان خبر
سنن البیہقی جلد 6 ص 110
علاوہ ازیں قرآن کریم کی ایک آیت سے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا اشارہ نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء 159)
"اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ بچے گا جو اس (عیسیٰ علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا"
مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے ہاں معتبر تفسیر ابن کثیر میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
وذلك حين ينزل إلى الأرض قبل يوم القيامة
"یہ واقعہ تب ہو گا جب عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے زمین پر دوبارہ نازل ہوں گے"
گزشتہ بالا آیات کی تشریح کرنے کے بعد ثابت ہوا کہ جو مدعا معترض حضرات بیان فرما رہے ہیں وہ قطعاََ اس بات پر مستقلاََ دلالت نہیں کرتا کہ حضرت عیسٰی موت کا مزہ چکھ چکے۔
اب آتے ہیں اس واضح آیت پر جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ اسلام کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ پھانسی چڑھایا گیا۔ پہلے آیت پڑھیں:
اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسٰی بن مریم کو قتل کردیا حالانکہ نہ توانھوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پرچڑھایا بلکہ ان کے لئے وہی صورت بنادی گئی تھی یقین جانو کہ عیسٰی کے بارے اختلاف کرنے والے انکے بارے میں شک میں ہیں انھیں اس کا کوئی یقین نہیں سوائے تخمینی باتوں پرعمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالٰی نےانھیں اپنی طرف اْٹھا لیا ، اوراللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والاہے۔اہلِ کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچےگا جو حضرت عیسٰی کی موت سے پہلے ا ن پر ایمان نہ لاچکےاورقیامت کےدن آپ ان پرگواہ ہوں گے۔
(سورہ النساء آیت١٥٦۔١٥٩)
اب جبکہ یہ بات یقینی طور پر بیان کی جا رہی ہے کہ قتل نہیں کیا گیا بلکہ اپنی طرف اٹھا لیا گیا تو اس اٹھانے کا کیا مطلب ہوا؟ کیا قتل ہونا موت نہیں یا یہ موت سے الگ کوئی چیز ہے؟ تو جب موت آئی ہی نہیں اور اٹھا لیا گیا تو اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ وہ موت کا مزہ چکھ چکے؟
اب اگر موت ہوئی ہی نہیں تو معترض حضرات کا یہ آیت پیش کرنا چہ معنی دارد؟
"تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (سورة البقرة آیت 28)"
ہاں البتہ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اسی طرح نزول کے بعد حضرت عیسٰی علیہ اسلام بھی موت کا ذائقہ چکھیں گے۔
اب اس کے بعد سورہ الِ عمران کی آیت کا مطالعہ کرتے ہیں:
آیتِ ترجمہ
وہ (عیسٰی )لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا ا ور پختہ عمر میں بھی ا ور وہ نیک لوگوں میں ہو گا
(سورہ الِ عمرا ن آیت٤٥)
(عیسٰی علیہ اسلام کا گود میں کلام کرنے کاواقعہ سورہ مریم آیت٢٩تا٣٣میں بیان ہوا ہے) اس آیت میں عیسٰی کے پختگی کی عمر میں کلام کا تذکرہ کیا جارہا ہے اور قرآن مجید نے پختگی کی عمر چالیس سال بیان کی ہے ملاحظہ فرمائیں:
آیتِ ترجمہ
یہاں تک کہ وہ اپنی کمالِ عمرکو پہنچاعمر چالیس برس کی
(سورۃ الاحقاف آیت١٧)
اب اگر ہم احادیث کا مطالعہ کریں تو اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ عیسٰی علیہ اسلام کو ٣٣ برس کی عمر میں اللہ نے اپنی طرف اٹھالیا تھا اور بائیبل میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے اور احادیث کے مطابق عیسٰی علیہ اسلام سات سال زمین میں رہیں گے اور چالیس برس کی عمر میں وہ لوگوں سے کلام کریں گے پھران کی وفات ہو جائے گی تب قرآن مجید کی یہ آیت پوری ہوگی کہ عیسٰی علیہ اسلام پختگی کی عمر میں بھی لوگوں سے کلام کریں گے یہ آیت بھی عیسٰی علیہ اسلام کی دوبارہ آمد کی طرف اشارہ کرتی ہے ا ب اسکے بعد ہم اُس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں جس سے بات بلکل واضح ہو جائی گی۔

آیت:
وَ اِنَّہ لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاوَاتَّبِعُوْنِ،ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ" اور یقیناَ وہ (عیسٰی) قیامت کی علامت ہے پس تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
(سورہ الزخرف:٤٣ ، آیت٦١)
اس آیت میں عیسٰی علیہ اسلام کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ قیامت کی علامت ہیں اس آیت کے بارے میں حضرت ابن عباس سے قول منقول ہے (لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ)یعنی علامتِ قیامت سے مرا د نزول عیسٰی علی اسلام ہیں ،
دیکھئے
(تفسیرطبری،تفسیرقرطبی،تفسیر ابن کثیر)اور ایک حدیث سے بھی ابن عباس کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
مفہوم حدیث:
حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برآمد ہوئے ہم پر اور ہم باتیں کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے کہا ہم قیامت کا ذکر کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے ان نشانیوں میں سے ایک نزول عیسٰی بھی ہے
(صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جاناجلد٢)

نزول عیسٰی علیہ اسلام قیامت کی علامت ہے جیسا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اورابن عباس کےاس قول سے جو اس آیت کے بارے میں بیان ہواہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں(لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ) سے مراد عیسٰی علیہ اسلام کی دوبارہ آمد ہے، یہا ں نزول عیسٰی علیہ اسلام کے حوالے سے یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ معترضین کا یہ کہنا ہے کہ یہ تصور احادیث سے منتقل ہوا ہے تو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی اشارہ کسی حدیث میں بیان ہوا ہو یا کسی ایک حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہوجس سے یہ تصور کیا گیا ہو بلکہ نزول عیسٰی علیہ اسلام کے بارے میں کثرت کے ساتھ روایات موجود ہیں اور صحابہ کرام کی کثیر جماعت نے اسے روایت کیا ہے اس کےبعد تابعین محدثین مفسرینِ قرآن سب کا اس بات(نزول عیسٰی علیہ اسلام)پراجماع ہے یہاں تک کہ ابن کثیرنے سورہ النساء آیت١٥٦،١٥٩کی تفسیرمیں بیان کیا ہےکہ اِن تمام روایات کو ایک جگہ جمع کرنا بہت مشکل ہےاوریہ روایات تواتر کے ساتھ موجود ہیں۔

آئیے اب ان احادیث کا مطا لعہ کرتے ہیں ۔
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ نےبیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے عیسٰی تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سےنزول کریں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے ،سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گےاس وقت مال ودولت کی اتنی کثرت ہو جائی گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اورایک سجدہ دنیا ا ور ما فیہا سے بڑھ کر ہو گاپھرابوہریرہ نے فرمایا کہ تمھارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو اور کوئی اہلِ کتاب ایسا نہیں ہو گا جو حضرت عیسٰی کی موت سے پہلے ایمان نہ لاچکےاور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے۔
(صحیح بخاری کتاب الانبیاء)
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سےروایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور عیسٰی کے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا اور بیشک عیسٰی اتریں گے جب تم ان کودیکھو توپہچان لووہ ایک شخص ہیں متوسط قدوقامت کے رنگ ان کا سرخی اورسفیدی کے درمیان میں ہے وہ زرد کپڑے ہلکے رنگ کے پہنے ہوں گےان کےبالوں سے پانی ٹپکتا معلوم ہوگا اگرچہ وہ تربھی نہ ہوں گے وہ لوگوں سے جہا د کریں گے اسلام قبول کرنےکے لئےاور توڑڈالیں گےصلیب کواورقتل کریں گے سورکو اورموقوف کردیں جزیے کواورتباہ کر دے گااللہ تعالٰی ان کےزمانے میں سب مذہبوں کو سوا اسلام کے اور ہلاک کریں گے وہ دجال مردودکو پھر دنیا میں رہیں گے چالیس برس تک بعد اس کےان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان پرجنازے کی نمازپڑھیں گے
(سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣)

مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے اُتریں گے تم لوگوں میں پھر امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے(ابن ابی ذئب نے کہا جو( راوی حدیث ہیں)امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے مراد ہے کہ عیسٰی امامت کریں گے اللہ کی کتاب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے (یعنی تابع ہوں گے شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور پیروی کریں گے قرآن و حدیث کی)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول بمع شرح امام نووی)

مفہومِ حدیث:
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میں نے سنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا لڑتا رہے گا حق پر قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا ۔پھر عیسٰی اتریں گے اور اس گروہ کا امام کہے گا نماز پڑھایئے وہ کہیں گے تم میں سے ایک دوسرے پر حاکم رہیں ۔یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعا لٰی عنایت فرماوے گا اس امت کو( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول)اس کے علاوہ یہ روایات(بخاری کتاب الانبیاء جلد دوئم،مسلم کتاب الایما ن اور کتاب الفتن باب فتح قسطنطنیہ جلد اول،سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣ ،صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں اورخروج دجال جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جانا اور نزول عیسٰی اور قتل دجا ل جلددوئم ،مسند احمد،تفسیرابن کثیر)میں بیان ہوئی ہیں۔

یہاں پہ معترضین نے اعتراض کیا ہے کہ قرآن مکمل اور جامع ہے۔ بے شک قرآن مکمل اور جامع ہے مگر جس لحاظ سے یہاں اعتراض کیا گیا اس لحاظ سے قرآن کا اپنا فیصلہ سنو:
"وہی ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی۔ اسکی کچھ آیات محکم ہیں اور وہی کتاب کی اصل و بنیاد ہیں ۔ دوسری متشابہات ہیں۔ سو۔ ۔ ۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ اس کتاب کی ان آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں۔ تاکہ فتنہ برپا کریں اور معنی پہنائیں۔"

آیات متشابہات سے مراد ایسی آیات ہیں جن میں انسانی حواس سے ماورا حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حقیقتیں چونکہ براہ راست انسان کے تجربے اور مشاہدے میں نہیں آئی ہیں، اسی بنا پر انسانی زبان میں ان کے لیے ایسے الفاظ موجود نہیں جو انہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں۔ اس لیے لامحالہ انکو بیان کرنے کے لیے وہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو دراصل محسوس چیزوں کے لیے وضع کیے گئے ہوں۔ مثلاََ اللہ تعالی کے لیے زندگی، بینائی،سماعت اور گویائی وغیرہ کے الفاط کا استعمال یا اس کے لیے عرش اور کرسی کا ثابت کرنا یا یہ کہنا کہ وہ آسمان میں ہے یا یہ کہنا کہ وہ محبت کرتا ہے، یا غضب ناک ہوتا ہے۔ اس طرح کے الفاظ اور اسالیبِ بیان حقیقت کا ایک مجمل تصور تو دے سکتے ہیں اور وہی دینا مقصود بھی ہے لیکن ان الفاظ اور بیانات کی مدد سے حقیقت کا کُلی اورتفصیلی تصور حاصل کرنا اور ان ماورائے حواس واقعات کی پوری پوری کیفیت اور نوعیت معلوم کر لینا بہر حال ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن انکی تاویل کرنے والوں کی کوشش کرنے والوں کو غلط ذہنیت قرار دیتا ہے۔

اب احادیث پر اعتراض کرنے والے بتائیں کہ متشابہات کے پیچھے بھاگنے والے اور ان کو غلط معنی پہنانے والے کون ہیں؟ اگر یہ بات کی جائے کہ معترضین کا ترجمہ و تفسیردرست ہے تو (معاذ اللہ) ان تمام صحابہ کرام اور بلند ہستیوں کا ترجمہ و تفسیر غلط ہو گی جو ان آیات کی ذیل میں بیان کی گئیں۔ جبکہ یہ بلکل خلاف واقع ہے کہ صدیوں بعد پیدا ہونے والے یہ جانتے ہوں کہ درست کیا ہے اور جن لوگوں نے براہِ راست علم قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیا وہ سب غلط و بھٹکے ہوئے ہیں(معاذ اللہ) اب فیصلہ معترضین خود کر لیں کہ فتنہ برپا کرنے والے کون ہیں۔

یہی حضرات یہ مسئلہ بھی چھیڑ دیتے ہیں کہ جب ایک آیت کے معنی اور مفہوم بالکل واضح ہوں اور وہ اسکا مفہوم صاف صاف محسوس کر رہا ہو تو اسکو حدیث کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کوئی شخص خؤاہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصنیف سمجھتا ہو یا اللہ کی طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتاری گئی کتاب دونوں صورتوں میں اس کا دعوی غلط ہوگا کہ اس کتاب کو سمجھنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قولی و عملی تشریح سے مدد لینے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ اسکو محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی تصنیف مانتا ہوگا تو اسکو ماننا ہو گا کہ مصنف نے اپنی کتاب کی جو تشریح کی ہے وہی اسکا مدعا ہے۔ اور اگر وہ یہ مانتا ہے کہ قرآن اللہ کی طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی گئی تھی اور خدا ہی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تعلیم دینے پر مامور کیا تھا تب بھی اسے ماننا پڑے گا کہ خدا کے کلام کا جو مفہوم نبی محمد صلی اللہ علیہ آلہ وآلہ وسلم نے بیان کیا ہے وہی مستند مفہوم ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ کوئی حدیث جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہے وہ صحیح ہے یا ضیعف، اور اس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے دلائل کیا ہیں۔ مگر بجائے خؤد یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے ہم حدیث سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔

اب پھر واپس معترضین کی پیش کردہ آیت اور خود ساختہ تفسیر کی طرف آتے ہیں۔

سورۃ النساء میں فرمایا:
وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (157) بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (15 وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159) سورۃ النساء
"انہوں نے مسیح کو یقین کےساتھ قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔ اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا" (159)
یہ اس معاملہ کی اصل حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے میں یہودی کامیاب نہیں ہوئے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اب رہا یہ سوال کہ اٹھا لینے کی کیفیت کیا تھی تو اس کے متعلق کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی۔ قرآن میں نہ اس کی تصریح ہے کہ اللہ ان کو جسم و روح کے ساتھ کرہ زمین سے اٹھا کر آسمانوں پر کہیں لے گیا اور نہ یہی صاف بیان ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی روح اٹھائی گئی۔ اس لیے محض قرآن کی بنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جا سکتی ہے اور نہ اثبات۔ لامحالہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح حدیث کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی لیے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کی طرف نازل کیے جانے والے اس "ذکر" کو کھول کھول کر واضح انداز میں بیان کر دیں اور اس کے اجمال کی شرح فرما دیں۔ لیکن افسوس کہ صحیح احادیث کو فلسفوں اور عقلی تاویلوں اور من چاہی تعبیروں سے رد کرنے کا رواج چل نکلا ہے۔ بہر حال، جیسا میں نے کہا کہ صرف قرآن میں مذکور الفاظ سے تو عیسیٰ علیہ السلام کی موت کی صراحت بھی نہیں ہوتی بلکہ یہ بات صاف محسوس ہوتی ہے کہ "اٹھائے جانے" کی نوعیت اور کیفیت خواہ کچھ بھی ہو بہرحال مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ نے کوئی ایسا معاملہ ضرور کیا ہے جو غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ اس غیر معمولی پن کا اظہار تین چیزوں سے ہوتا ہے:
ایک یہ اللہ تعالیٰ نے "رفع" کا لفظ استعمال کیا، باوجود اس کے کہ عیسائیوں میں رفع مسیح کے عقیدے کی وجہ سے ایک بڑا گروہ الوہیت مسیح کا قائل ہوا ہے۔ کتاب مبین کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ کسی خیال یا عقیدے کی تردید میں ایسی زبان استعمال کرے جو اس خیال کر مزید تقویت پہنچانے والی ہو۔
دوسرے یہ کہ اگر اس سے مراد محض درجات کی بلندی ہوتی تو اس مضمون کو بیان کرنے کا انداز یہ نہ ہوتا جو ہم یہاں دیکھ رہے ہیں بلکہ زیادہ مناسب الفاظ یہ ہو سکتے تھے کہ "یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اسے زندہ بچا لیا، پھر اسے طبعی موت دی، یہودیوں نے اسے ذلیل کرنا چاہا مگر اللہ نے اسے بلند درجہ عطا فرمایا"۔
تیسرے یہ کہ اگر یہ رفع عام قسم کا معمولی رفع ہوتا تو اس کا ذکر کرنے کے بعد یہ فقرہ بالکل غیرموزوں تھا کہ "اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے" یہ تو صرف کسی ایسے واقعہ کے بعد ہی موزوں ہو سکتا ہے جس میں اللہ کی قوت قاہرہ اور اس کی حکمت کا غیر معمولی ظہور ہوا ہو۔
اس کے جواب میں "صرف قرآن" سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں "متوفیک" کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کی کچھ وضاحت اوپر کر چکا ہوں۔ کہ یہ لفظ طبعی موت کے معنی میں صریح نہیں ہے۔ بلکہ قبض روح اور قبض روح و جسم دونوں پر دلالت کر سکتا ہے۔ قرآن میں موت کے صریح لفظ کو چھوڑ کر وفات کے لفظ کو ایسے موقع پر استعمال کرنا ان قرائن میں ایک اور اضافہ کر دیتا ہے جس سے عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے اور قیامت کے نزدیک دوبارہ آمد کے عقیدہ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ عقلی دلائل محض آپ کی تسلی کے لیےلکھے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمیں ان کی دوبارہ آمد میں کوئی شک نہیں ہے اور نہ اس پر ایمان کے لیے ہمیں کسی عقلی دلیل کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے وہ کثیر التعداد صحیح احادیث ہی کافی ہیں جو قیامت سے پہلے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آنے اور دجال سے جنگ کرنے کی تصریح کرتی ہیں۔

آپ کی منقولہ اور ہماری زیر فہم آیت مبارکہ کا ایک اور پہلو سے بھی وہی مفہوم بنتا ہے جو کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحیح ثابت شدہ فرامین میں ملتا ہے ، اور جسے سمجھنے میں آپ کو ایک اور شدید غلط فہمی ہو رہی ہے کہ اس آیت مبارکہ میں بیان کردہ کاموں کی قولی ترتیب سے ہوئی ہے،
اور وہ یوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلے فرمایا ( انی متوفّیکَ : میں تمہیں قبضے میں لوں گا ) اور پھر فرمایا ( و رافعکَ اِلیّ :اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا ) سے آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کو پہلے موت دی اور پھر اوپر اٹھا لیا۔

محترم """ ارفع """ کا معنی """ اس ایک مذکر نے اوپر اٹھایا """ ہوتا ہے اور اس کا مادہ """ رفع """ ہے ، پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں فرمان( رافعکَ الیّ : میں تہمیں اپنی طرف اوپر اٹھاوں گا ) سے مراد عیسی علیہ السلام کو اللہ کا اپنی طرف اوپر اٹھانا ہی ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ کچھ کاموں کو ایک خاص ترتیب سے ذکر کرنے کا یہ مطلب خاص نہیں کیا جا سکتا کہ ان کاموں کو اسی ترتیب سے کیا گیا یا کیا جائے گا۔
مثلا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( فأنجینَاہُ و أصحاب السَّفِینۃ : اور ہم نے نجات دے دی اس کو اور کشتی والوں کو ) سورت العنکبوت / آیت 15 ،
اب بتایے تو کس طور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلے تو ،،،،،،،،،،،،،،،،،، کو نجات دی گئی اور پھر کشتی والوں کو ؟
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( و جُمِعَ الشمسُ و القمر: اور سورج اور چاند کو جمع کر دیا گیا ) سورت القیامۃ /آیت 9 ،
اب بتایے کہ کہاں سے کوئی اس بات کی تخصیص کر سکتا ہے کہ پہلے سورج کو ہی چاند میں ڈالا جائے گا یا چاند کو سورج میں ؟
اسی طرح ( وَجَاء رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفّاً صَفّاً : اور آیا تُمہارا رب اور فرشتے صف باندھے ) سورت الفجر / آیت22 ،
بتایے تو بھلا اللہ تبارک و تعالیٰ پہلے آئیں گے یا فرشتے ؟ خیال رہے دُنیاوی پروٹوکولز اور انداز وہاں نہیں ہوں گے۔
اسی طرح ( يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفّاً لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرحْمَنُ وَقَالَ صَوَاباً : اُس دن جبریل اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے ، بات تک نہ کریں گے سوائے اس کے جس کو رحمان اجازت دے گا اور وہ درست بات کہے گا )سورت النبأ/ آیت 38 ،
اب معترضین یہ فرمائیں ، جبریل پہلے آئیں گے اور فرشتے بعد میں یہ ترتیب لازماً رہے گی اس کو کون مُقیّد کر سکتا ہے ؟
اور پھر ان میں سے اللہ تعالیٰ کس کو پہلے بولنے کی اجازت دے گا ، جبریل علیہ السلام کو یا فرشتوں میں سے کسی اور کو ؟ اس اجازت کو کون پابند کر سکتا ہے ؟
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ کچھ کاموں کا ایک ہی جگہ ایک ترتیب سے ذکر ہونا اس ترتیب کے لازم ہونے کی دلیل نہیں ، جب تک اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی تاکید وارد نہ ہو ،
اورابھی بیان کی گئی چار آیات میں سے درمیانی دو آیات مبارکہ میں یہ بھی غور فرمایے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں ہونے والے کام کا ماضی میں ہو چکے ہوئے کام کی طرح ذکر فرما رہے ہیں ،
کیا آپ ان کے الفاظ کے معانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہو چکا ہے ؟

اور اگر اس آیت مبارکہ کو اُسی ترتیب میں سمجھا جائے تو اوپر دئیے گئے دلائل میں "" متوفیکَ """ کا وہ معنیٰ اور مفہوم بیان یو چکا جو صحیح احادیث میں وارد ہے ، اور لغتاََ بھی زیادہ حقیقی ہے۔
اور اگر اس آیت میں """ متوفیکَ """ کو "" میں تمہیں موت دوں گا """ ہی کے معنیٰ میں لینا ہے تو محترم پھر یہ تفسیر ہو گی کہ یہاں """"" تقدیم الحقیقۃ العُرفیۃ علی الحقیقۃ اللغویۃ """"" والا اسلوب اپنایا گیا ہے لہذا پہلے موت دے کر پھر اوپر اٹھائے جانے کا ذکر فرمایا ہے ، لیکن آیت کی اس طرح تاویل (تفسیر نہیں ) کرنے میں بھی آپ کا ہدف حاصل نہیں ہو پاتا ، کیونکہ ( انی متوفیکَ : میں تمہیں موت دوں گا ) سے کہیں یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس فرمان کے بعد عیسی علیہ السلام کو موت دے بھی دی۔ جبکہ " دوں گا" حال یا ماضی پر دلالت نہیں کرتا بلکہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے۔
اور نہ ہی ترتیب کے ذِکر سے کاموں کا اسی ترتیب سے ہونا لازم ہوتا ہے اس کی تشریح ابھی کر چکا ہوں ،
پس اللہ تبارک و تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کسی کام کو کرنے کا ارداہ ظاہر فرما کر اسے کب کرتا ہے اور کسی ترتیب سے کرتا ہے ، کوئی اس کی خبر نہیں دے سکتا جب تک اسے خود اللہ کی طرف سے خبر نہ ہو یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کام کے ہو چکنے کی خبر نہ ہو ،
اور یہاں ہمیں ایسی کوئی خبر میسر نہیں ، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے یہ خبریں میسر ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو زندہ اٹھایا گیا اور زندہ ہی واپس اتارا جائے گا ،
براہ مہربانی ، صرف لغت کے چند معانی کے بنا پر اللہ کے کلام کو سمجھنے کی بجائے اللہ ہی کے فرامین اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین سے سمجھنے کی کوشش فرمایے کیونکہ ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہونے والا ہر کلمہ وحی ہے۔
جبکہ لغت سے مدد ہی لی سکتی ہے لیکن اسے حرف آخر نہیں بنایا جا سکتا ۔

موت اور وفات میں فرق:۔

مذکورہ بالا آیت کریمہ میں معلوم ہوا کہ موت اور وفات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
"يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ" میں وفات تو ہے مگر موت نہیں ۔
چنانچہ اللہ تعالی نیند کی حالت میں روح کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ مگر بیداری کے وقت پھرلوٹا دیتے ہیں
جبکہ موت میں روح قبضے میں تو لے لی جاتی ہے مگر اسے لوٹایا نہیں جاتا۔
اس سے ثابت ہوا کہ موت کا وقت آنا الگ چیز ہے ،
روح کا قبضہ الگ اور وفات پانا الگ چیز ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ عمر کا پورا ہونا ، روح کا قبضے میں لے لینا ، قبضے سے واپس لوٹا دینا اور موت وقت آنا یا نہ آنا یہ سب جدا جدا حقیقتیں ہیں۔
اپنے قبضے میں لے لینا یہ بھی وفات کا معنی ہے۔
جب قران مجید سے وفات کا معنی عمر پوری کرنا اور قبضہ میں لے لینا ثابت ہے تو اب لغت میں کے معنی موت تلاش کرنا نصِ قرانی کو بگاڑنے کے مترداف ہے۔
پس اس آیت کریمہ میں مُتَوَفِّيكَ کے دو معنی ہو سکتے ہیں
1۔ اے عیسی علیہ السلام ! میں تیرا عرصہ حیات پورا کرنے والا ہوں خواہ یہ یہودی جتنے بھی منصوبے بنائیں
ان کے باعث تیری موت واقع نہیں ہو گی بلکہ " وَرَافِفُکَ اِلَیَّ " میں اپنی قدرت کاملہ سے تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا۔
2۔ دوسرا معنی یہ ہوگا کہ اے عیسی علیہ السلام ! میں تجھے اپنے قبضہ قدرت اور حفاظت میں لے لوں گا وہ اس طرح کہ " وَرَافِفُکَ اِلَیَّ " تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا۔ یہ جتنی بھی تجھے صلیب پر چڑھانے کی سازشیں تیار کرتے پھریں ناکام و نامراد ہوں گے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ مُتَوَفِّيكَ لفظ میں وفات کا مطلب موت نہیں۔
جب وفات موت نہیں تو "وَرَافِفُکَ" سے مراد رفع روح نہیں بلکہ اس سے مراد کسی زندہ شخصیت کو معجزہ جسمانی طور پر اوپر اٹھا لینا ہے۔
بالفرض اس لفظ کا مطلب موت لیا جاۓ تو بھی اس سے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں : إِنِّي مُتَوَفِّيكَ : کا معنی یہ ہوگا کہ اے عیسی! بےشک میں موت دینے والا ہوں اور تجھے میں جب چاہوں گا موت دوں گا۔ یہ تجھے قتل کرنے کے چاہے جتنے منصوبے اور سازشیں تیار کریں وہ تجھے موت نہیں دے سکتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان عیسی لم یمت و انة راجع الیکم قبل یوم القیامہ
ترجمہ : بےشک عیسیٰ علیہ السلام پر موت واقع نہیں ہوئی اور وہ تمہاری طرف قیامت بپا ہونے سے پہلے دوبارہ آئیں گے۔

اب معترضین کا یہ فرمانا کہ "اس آیت میں یہ کہیں‌ نہیں‌ ملتا کہ عیسی علیہ السلام مستقبل میں زندہ آئیں گے بلکہ پچھلی دو آیات کے واقعات کی تصدیق میں ‌یہ بتایا جارہا ہے کہ جو اہل کتاب ان کے ساتھ تھے وہ ان کی موت سے قبل اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نہ وہ مصلوب کئے گئے اور نہ ہی ان کا قتل ہوا بلکہ ان کو وفات دے کر اللہ تعالی نے اوپر اٹھا لیا ۔ اللہ تعالی نے ان (عیسی علیہ السلام ) کو موت بصورت وفات دی یعنی عمر پوری کرکے دی۔"

اب ذرا آیت پر غور کیجیے اس میں کہیں بھی """ جو اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے """ صرف ان کے ایمان لانے کی بات نہیں ، کیونکہ یہاں """ ایل کتاب """ کا ذکر مطلقاً ہے ،
اگر آپ کی اس بات کو درست مانا جائے تو معاذ اللہ ، اللہ تعالیٰ کا یہ مذکورہ بالا فرمان درست نہیں رہتا ، کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھے ، یعنی یہودی ان میں سے صرف چند ایک ہی ان پر ایمان لا کر """ حواری """ بنے ، باقی تو سارے ہی عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے تھے۔
آپ کے بیان کردہ مفہوم میں آپ نے """"" جو اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے """"" کی """ قید """ یا """شرط """ لگائی ہے وہ درست نہیں ہے۔
اللہ کے فرامین کی روشنی میں سمجھیے :
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے ( وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْماً مَّقْضِيّاً ::: اور نہیں کوئی تُم میں سے ایسا جو جہنم پر وارد نہ ہو گا ) سورت مریم /آیت71 ،
اور فرمایا ( وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلاَّ خَلاَ فِيهَا نَذِيرٌ ::: اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں ڈرانے والا (یعنی نبی یا رسول) نہ آیا ہو )
اور فرمایا ( وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلاَّ عِندَنَا خَزَائِنُهُ : اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں )
تو محترم ( و إِن : اورکوئی بھی نہیں ، اورکچھ بھی نہیں ) کا معنی اور مفہوم رکھتا ہے ، """ بلا استثناء """ ، """ مُطلقاً """ ، اور """ عمومی """ ،
اس کے بعد آنے والا """ إِلاَّ """ بھی """ اہل کتاب """ میں سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کر رہا گو کہ عام طور پر لغتاً اسے حرفء استثناء کہا جاتا ہے ، لیکن یہاں وہ ( و إِن : اورکوئی بھی نہیں ، اورکچھ بھی نہیں ) کی تاکید کر رہا ہے ،
اس میں سے کسی قسم کا استثناء بنانے کے لیے ، اس کو """ مُقید """ بنانے کے لیے ، اس کو کسی خاص چیز یا عدد یا کیفیت کے لیے """ مخصوص """ کرنے کے لیے یقینی طور پر ہمیں کوئی دوسری نص چاہیے اور یقیناً قران یا صحیح ثابت شدہ سُنّت سے چاہیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کے کسی """ بلا استثناء """، """ مُطلق """ یا """ عمومی """کلام پر کسی قسم کا """ استثناء """ ، """ قید """ یا """ تخصیص """ وارد کرے ،
لہذا محترم ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ( وَإِن مِّن أَهلِ الكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤمِنَنَّ بِهِ قَبلَ مَوتِهِ وَيَومَ القِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيهِم شَهِيداً ::: اور نہیں ہو گا کوئی اہل کتاب جو عیسی کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لا چکا ہو اور وہ قیامت والے دن اس پر گواہ ہو گا ) تمام تر اہل کتاب کے بارے میں ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ ابھی تک تو لاکھوں ایسے اہل کتاب ہو چکے اور ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے ، اور یہ اس بات کی ایک واقعاتی دلیل ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی """ موت """ واقع نہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کی تکمیل کے لیے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نازل فرمائے گا اور پھر ان کی موت سے پہلے تمام تر اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے ، ان کی تعلیمات جو کہ اس وقت شریعتءِ محمدیہ ہوں گی پر ایمان لائیں گے ، اور وہ سب مسلمان ہو جائیں گے۔


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
49:1
اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بیشک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہے

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
49:14

دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بیشک اﷲ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

اس قدر تفصیل کے باوجود خدارا یہ مت کہو کہ ہمارے لئے قرآن ہی کافی ہے۔ واضح دلیل والی آیت میں کہا گیا ہے کہ نہ قتل کیا گیا اور نہ سولی دی گئی تو اب تیسری صورت کیا ہو گی؟ جبکہ آیت کے مطابق تمام اہلِ کتاب(یعنی حامل تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید) ان پر ایمان لائیں گے ابھی تک یہ حصہ نا مکمل ہے یعنی ابھی یہ مکمل ہونا باقی ہے۔ اب لوگوں کو شک میں ڈالنے کی بجائے قرآن دینے والے کے فرمانِ وحی بیان سے رجوع کرو۔

اب میں حضرت الیاس علیہ اسلام کی بات کرتا ہوں:
اعتراض کیا گیا کہ وہ وفات پا چکے ہیں اور آیت یہ پیش کی گئی:

اور یقیناً الیاس (علیہ السلام بھی) رسولوں میں سے تھے (سورة الصافات آیت 123)

اب میں یہاں تمام پڑھنے والوں سے انصاف کا طالب ہوں خدارا سب لوگ خود اس آیت کا مطالعہ کریں اور اس کے آگے اور پیچھے کی آیات کا بھی مطالعہ کریں آپ خود سمجھ جائیں گے کہ اس آیت کا مطلب قطعاََ اس انداز میں پیش نہیں کیا گیا جس انداز میں معترض بیان کر رہے ہیں جبکہ اس آیت میں کئی انبیاء کے ناموں کے ساتھ اس بات کی طرف یقین دلایا جا رہا ہے کہ حضرت الیاس علیہ اسلام بھی رسولوں میں سے تھے (یعنی ان کی رسالت کی تصدیق فرمائی جا رہی ہے) نہ کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موت کا مزہ چکھ چکے۔

اب میں اصل واقعہ پیش کرتا ہوں جو شاید معترض کے دل و دماغ میں کبھی آ ہی نہیں سکتا۔

حضرت الیاس علیہ اسلام کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت الیاس بن یاسین بن میشا ابن فخاخ بن الغرار بن ہارون اور حضرت خضر یہ دونوں پیغمبر زندہ ہیں اور جو احکامِ خدا ان کے متعلق ہوتے ہیں ان کو پورا کرتے ہیں مگر لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں حضرت خضر تو دریاؤں پر تعینات ہیں اور حضرت الیاس جنگلوں اور پہاڑوں پر۔ یہ دونوں حضرات موسم حج میں ضرور آتے ہیں اور باہم ملاقات بھی ہوتی ہے حضرت خرقیل کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل کی شرارتیں بڑھ گئیں تو حضرت الیاس ان کی ہدایت کو بھیجے گئے اس وقت کا بادشاہ اجینا پہلے تو ایماندار تھا مگر اپنی عورت اذبیل کے بہکانے سے کافر ہو گیا اور اس کی پیروی میں رعایا بھی بت پرستی کرنے لگی آپ نے ہر چند فہمائش کی مگر اثر نہ ہوا اسی اثناء میں اذبیل کی ایک عابد کے باغ پر جس سے اس کی بسر اوقات ہوتی تھی نظر لگی اور آخر اس بیچارے کو قتل کروا کے اس پر متصرف ہوئی ، اور اس قتل پر خدا کا غضب ہو گیا اور پُر عتاب خطاب ہوا کہ میں اس ناحق خون کا بدلہ ضرور لوں گا اور اسی باغ میں تو اور تیری عورت ماری جائے گے اور کوئی تیرا دفن کرنے والا بھی نہ ہو گا اور اس کے بعد پھر حضرت الیاس نے سمجھایا تو وہ مردود آپ کے بھی درپے آزار ہوا اور گرفتاری کا حکم دیا مگر آپ کی بدعا سے اس کا بیٹا بیمار ہوا اور وہ اس کی فکر میں مستغرق ہوا تو آپ وہاں سے نکل کر ایک پہاڑ پر عبادت میں مشغول ہوئے بادشاہ نے کچھ لوگوں کو شام کے بتوں کے سامنے دعائے صحت کے لئے بھیجا تو آپ سے ملاقات ہوئی پھر آپ نے فرمایا اپنے بادشاہ سے کہو ایمان لائے تو اس کو صحت ہو گی جب اس کو آپ کی جگہ معلوم ہو گئی تو اس نے کئی دفعہ بہت سے لوگوں کو آپ کی گرفتاری کے لئے بھیجا مگر سب کے سب آپ کی بدعا سے فی النار ہوئے آخر اس نے اپنے وزیر کو جو ایماندار تھا بھیجا تو وہ وہیں رہ گیا اور واپس نہ آیا غرض اس کا بیٹا مر گیا اور ان لوگوں میں سخت قحط آیا جب ایک مدت گزر گئی تو آپ پھر آئے اور ان کو سمجھایا کہ تم لوگ بتوں کے سامنے دعا کرو اگر بارش ہو جائے تو اپنے مذہب پر باقی رہو ورنہ میں خدا سے دعا کروں اور بارش ہو جائے تو ایمان لاؤ۔ ان لوگوں نے اقرار بھی کیا مگر بتوں سے کیا ہوتا ہے آخر آپ نے دعا کی اور خوب پانی برسا مگر یہ لوگ اپنی ہٹ سے باز نہ آئے آخر آپ خدا کے حکم سے الیسع کو اپنا خلیفہ مقرر کر کے وہاں سے ٹل گئے اور نظروں سے غائب ہو گئے اور خدا نے ان لوگوں پر ایک دوسرے بادشاہ کو مسلط کر دیا جس نے ان لوگوں سے خوب کسر لی اور بادشاہ اور اس کی عورت کو قتل کر کے اسی باغ میں ڈال دیا اور ان کا گوشت درندوں نے کھایا۔
(یہ واقعہ مجھے اسی اوپر بیان کی گئی آیت کی تفسیر میں ملا)

الرُّسُلُ‌ؕ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب رسول (الرُّسُلُ‌ؕ رسول کی جمع ہے مطلب سب رسول)
جبکہ ایک ادنی سا عربی دان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ عربی میں جمع کا لفظ 3 کے عدد سے شروع ہوتا ہے نہ کہ جمع کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سب۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ 3 سے اوپر کا کوئی بھی عدد لے لو ہم اسے جمع ہی کہیں گے 3 سے پہلے ہم جمع نہیں کہہ سکتے۔ عربی میں جمع 3 یا 3 سے اوپر شروع ہوتی ہے۔ تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ یہ جمع ہے لہذا "سب" ہی مراد ہو گی؟ اب یہاں مراد 3 بھی ہو سکتے ہیں چار بھی اور 50 ہزار بھی۔ تو آپ اس کو آسان الفاظ میں ترجمہ ایسے کر سکتے ہو کہ "بہت سے گزر چکے ہیں" نہ کہ سب گزر چکے ہیں۔
اسی لیے کہا قرآن کی از خود تفسیر سوائے فتنہ کے کچھ نہیں۔۔۔۔ 
اب آتے ہیں شہید ہو جائیں کی طرف۔۔۔۔ تو اللہ یہ آیت کس موقع پر بھیج رہا ہے؟ کیا اس موقع پر کہ "صحابہ کرام سمجھ رہے ہیں کہ دوسرے تمام انبیاء زندہ ہیں جبکہ اللہ یہ بتا رہا ہو کہ نہیں تم غلط ہو وہ تو سب وفات پا چکے"؟
بلکل نہیں بلکہ یہ ایک جنگ کے بعد نازل ہوئی یعنی مسلمانوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ ایسا مت کرنا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہو جائیں تو تم پچھلے مذاہب کی طرف واپس پلٹ جاؤ۔
یہاں بھی یہ بتانا مقصود ہے کہ پچھلے مذاہب متروک ہو چکے اس لیے اب واپسی کی مت سوچنا نہ کہ یہ بتانا کہ پہلے نبی سب وفات پا چکے اس لیے ان کی طرف مت پلٹنا۔
دوسرے تھا تھی کی بحث اس لیے اہم ہے کہ اس آیت میں بات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کی نہیں ہو رہی کہ وہ نہیں رہے تو تھے ہو گیے۔ بلکہ رسالت کی ہو رہی ہے اب جب تک رسالت باقی ہے اور رسالت کی گواہی باقی ہے ہم ہرگز اس آیت کا ترجمہ تھا تھی نہیں کر سکتے۔ یہ گواہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمانی ظہور کی نہیں بلکہ رسالت کے استقلال کی ہے۔ لہذا اس بات کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment