visitors

free counters

Wednesday, 28 September 2011

عطیہ خون


 

عطیہ خون از مولانا ندیم الواجدی

ایک مرتبہ پھر دارالعلوم کا فتوی اخبارات کی سرخیوں میں ہے، کئی ٹی وی چینلوں نے اس فتوی کو خبر کے طورپر نشر کیاہے، ہم ان کا لموں میں کئی بار لکھ چکے ہیں کہ کچھ سالوں سے میڈیا غیر ضروری طورپر مسلمانوں کے با وقار اور قابل اعتماد اداروں کے بالخصوص دارالعلوم دیوبند سے جاری کئے گئے فتووں کو توڑ مڑوڑ کر یا ان کو سیاق وسباق سے جدا کرکے شائع کررہاہے، اس کا مقصد سستی شہرت حاصل کرنا بھی ہے اوردارالعلوم دیوبند کی ساکھ کو نقصان پہنچانا بھی ہے، حال ہی میں ایک ہندی اخبار نے دارالعلوم کی ویب سائٹ سے ایک فتوی لے کر شائع کیا ہے جوخون کا عطیہ دینے کے سلسلے میں ہے، خدا جانے فتوی کیا ہے، اس کے الفاظ کیا ہیں اس لیے کہ فتوے کاجو نمبر شائع کیاگیا ہے، ویب سائٹ پر اس نمبر کا فتوی موجودہی نہیں ہے، لینے والے نے کہاں سے یہ فتوی لیا اور اس سے کیا سمجھا۔ ہم نے دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ دارالافتاء کے ایک ذمہ دار مفتی صاحب سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے بتلایا کہ اخباروالے نے انگ دان (عضوکا عطیہ دینے )کے سلسلے میں مجھ سے سوال کیا تھا جس کے جواب میں میں نے کہہ دیا تھا کہ شریعت میں انگ دان جائز نہیں کیوں کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے ۔ اگلے دن اخبار نے مفتی صاحب کا بیان اس طرح پیش کیا گویا انھوں نے رکت دان یعنی خون کے عطیے کو حرام قرار دیا ہو۔ ابھی یہ بیان آیا ہی تھا کہ کئی مسلم اسکالرس میدان میں کودپڑے اور انھوں نے دارالعلوم کے اس فتوے کے خلاف بیان داغنے شروع کردئے۔ سب سے پہلے تو مولانا وحید الدین خاں بولے، انھوں نے فتوے کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ خون کا عطیہ دینے سے مسلمانوں کو روکانہیں جاسکتا۔ انھوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ خون کا عطیہ دینے آئیں اور ایسا کرتے رہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامی علوم کے شعبے کے چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے فرمایا کہ زندگیاں بچانے کے لیے خون کا عطیہ ضروری ہے۔ انھوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ اسلامی فقہ اکیڈمی نے پہلے ہی یہ کہا تھا کہ خون کا عطیہ دینا کوئی مسئلہ نہیںہے۔
اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ میڈیا کی موجودہ روش نہایت افسوس ناک ہے۔ مسلم تنظیموں کو بیٹھ کر اس مسئلے پر غور وخوض کرنا چاہئے کہ من گھڑت خبریں ، تبصرے اور بیانات شائع کرنے کا جو رجحان پیدا ہوا ہے اس پر کس طرح قابو پایا جائے۔ اس طرح کے رجحان سے بڑی غلط فہمیاں پھیلتی ہیں اور لوگوں کو اسلام جیسے صاف ستھرے مذہب پر انگلی اٹھانے کا موقع ملتاہے اور مذہبی ادارے بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ اس طرح کے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے، دوچار مرتبہ اگر یہ قدم اٹھالیا گیا تو اس رجحان میں کمی ضرور آئے گی، لیکن سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے ٹی وی چینل ہوں، ہماری ملّی جماعتیں بڑی آسانی کے ساتھ ٹی وی چینل قائم کرسکتی ہیں، بس اس کے لیے تھوڑے حوصلے اور ہمت اور بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
خون فی نفسہ ناپاک چیز ہے، اس کی نجاست اورحرمت نص قطعی سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  إنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَۃَ والدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ۔ (سورہ بقرہ: ۱۷۳) '' اس نے تم پر حرام کیا ہے مردہ جانور، خون، سور کا گوشت اور جوجانور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیاگیا ہو۔''
یہ آیت اگر چہ بہت واضح ہے، لیکن اس میں جواحکام ہیں وہ نہایت مجمل ہیں۔اس اجمال کو فقہائے امت نے کتاب وسنت کی روشنی میں دور کرکے بہت سے احکام مستنبط کئے ہیں۔ اب خون ہی کا معاملہ لے لیجئے، اس آیت میں خون کو حرام قرار دیاگیا ہے، اس سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ ہر طرح کا خون حرام ہے خواہ وہ انسان کا ہو یا جانور کا، تھوڑا ہو یا بہت، بہتا ہوا ہو یا منجمد، لیکن در حقیقت بات صرف اتنی ہی نہیںہے، اس کی مزید تشریح قرآن کریم کی دوسری جگہوں پر آئی ہے اور احادیث میں بھی وارد ہے جس کی روشنی میںخون کے احکام باضابطہ طورپر فقہاء نے مرتب کردئے ہیں اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ مثال کے طورپر قرآن کریم کی سورۂ انعام میں  او دَمًاا مَسْفُوحًا (الانعام:۱۴۵)فرمایاگیا ہے، جس کے معنی ہیں بہنے والا خون، گویا وہ خون حرام ہے جو بہنے والاہو، منجمد حرام نہیں ہے، اسی لیے گردہ ، کلیجی اور تلّی وغیرہ اجزاء اُن جانوروں کے باتفاق فقہاء جائز ہیں جن کا گوشت کھانے کی اجازت ہے اور جو شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے پر ذبح کئے گئے ہوں، مگر ان کا خون پینے کی اجازت نہیںہے۔ اس آیت کا اگلا حصّہ وہ ہے جس پر فقہی مسائل میں اضطرار کی عمارت کھڑی کی گئی ہے، فرمایا:
فَمَنْ اضطرّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا اِثْمَ عَلَیْہِ إنَّ اللّٰہَ غَفُوْرَ رَّحِیْمَ۔ (سورہ البقرہ:۱۷۳) '' پھر جو شخص بے اختیار ہوجائے نہ وہ نافرمان ہو اورنہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، بے شک اللہ بڑا غفور رحیم ہے۔'' یہ ایک ایسا اصول بیان کیاگیا ہے جس میں مجبور انسان کے لیے بڑی سہولتیں ہیں۔فقہاء نے اسی اصول کی روشنی میں مجبوری یعنی حالت اضطرار کے احکام مرتب کردئے ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہر وہ شخص جسے اضطرار کی حالت پیش آئے یہ فیصلہ کرسکتاہے کہ اسے ممنوعہ اشیاء استعمال کرنی چاہئیں یانہیں۔ قرآن کا طرز بیان بڑا حکیمانہ ہے، صرف دو تین لفظوں کے ذریعے قرآن کریم نے اضطرار کی حالت میں حرام کے استعمال کی نوعیت متعین کردی ہے، جن میں سے ایک لفظ غیر باغ ہے یعنی وہ فرماں بردار بندہ بن کر ہی یہ چیز استعمال کرے۔ ظاہر ہے فرماں برداری ایک ایسا وصف ہے جو اسے محض ضرورت کے مطابق ہی استعمال پر آمادہ کرے گی اور جیسے ہی یہ ضرورت پوری ہوگی اس کے ہاتھ خود بہ خود رُک جائیںگے۔ اسی کو ولا عاد کہہ کر اور مؤکد کردیا گیا کہ ذہن کے کسی گوشے میں بھی حد سے تجاوز کرنے کا خیال نہ ہونا چاہئے۔ مثال کے طورپر ایک شخص بھوک سے بے چین وبے قرار ہے اوربھوک اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اگر کھانے کو کوئی چیز میّسر نہ ہوئی تو اس کا دم بھی نکل سکتا ہے مگر کوئی جائز وپاک غذا پیٹ بھرنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے شریعت نے اضطرار سے تعبیر کیا ہے۔ اس صورت میں اس شخص کو حرام چیز استعمال کرنے کی اجازت ہے، مگر صرف اس قدر جس سے زندگی بچ جائے۔ ناجائز غذا کے استعمال سے لذت کام ودہن مقصود نہ ہو، اگر اس شرط کے ساتھ حرام غذا استعمال کرے گا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، اور وہ عند اللہ معذور اورمجبور سمجھا جائے گا،  فلا اثم علیہ  میںایک لطیف نکتہ یہ بھی پوشیدہ ہے کہ گناہ نہ ہونے کا یہ مطلب نہیںہے کہ وہ حرام وناپاک چیز حلال وطیب ہوگئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حرمت اور نجاست اپنی جگہ ہے، لیکن تم نے جان بچانے کے لیے اس کا جو استعمال کیاہے اس سے تم گنہ گار نہیںہوگے ، کیوں کہ تمہارا یہ فعل اللہ کی اجازت ومرضی سے اوراس کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر ہواہے۔
خون کے متعلق فقہاء نے ان آیات کی روشنی میں جوکچھ لکھا ہے اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ خون اصلاً ناپاک ونجس ہے اور ناپاک ونجس چیزوں کے جواحکام ہیں وہ احکام خون کے سلسلے میں بھی واجب العمل ہیں، یعنی اس کا کھانا پینا بھی حرام ہے۔ اس کا خارجی استعمال بھی جائز نہیںہے، بلکہ اگر خون بدن پر یا کپڑے پر لگ جائے تو اس کو صاف کرنا اور دھونا ضروری ہے۔ ورنہ ان عبادات کی تکمیل نہیں ہوگی جن میں بدن اورکپڑوں کی طہارت مقصود ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ از روئے قرآن کریم خون نجس ہے۔ اب صرف یہ سوال رہ جاتا ہے کہ کیا خون کو بہ طور دوا استعمال کیا جاسکتا ہے، آج کل اس کا استعمال عام ہے، خاص طورپر جب کسی حادثے کے بعد مجروح انسان کے بدن کا خون ضائع ہوجاتاہے، یا کسی بیماری کی وجہ سے جسم میں خون کی کمی پیدا ہوجاتی ہے اس صورت میں اطبا کسی دوسرے کا خون لے کر مریض کے جسم میں داخل کرتے ہیں۔ کیا از روئے شرع ایسا کیا جاسکتا ہے اور اگر اس کی اجازت ہے تو یہ خون کس کا حاصل کیاجائے۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ مریض کا کوئی عزیز قریب از راہ تعلق اپنا خون پیش کردے، دوسری صورت یہ ہے کہ بلڈ بینک سے سے خریدا جائے۔ دونوں صورتیں برابر ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے۔
جہاں تک میرے علم میں ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے غور وخوض کیا، نہ صرف خود غور کیا بلکہ اُس وقت کے متعدد پاکستانی علماء کو خون کے استعمال سے متعلق سوالات بھیج کر ان کی رائے دریافت کی ۔ یہ تمام تحقیقات اور ان کے نتائج مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ حضرت مفتی صاحبؒ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں اور جواہر الفقہ میں اس موضوع کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔بعد کے تمام فقہاء نے حضرت مفتی صاحبؒ کی تحقیقات پر ہی اپنے فتوئوں کی بنیاد رکھی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ نے فتاوی رحیمیہ میں اور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒنے ''آپ کے مسائل اور ان کا حل '' میں خون کے متعلق کئے گئے سوالات کے جواب میں حضرت مفتی صاحبؒ کے جواب کی عبارت من وعن نقل کردی ہے۔ دوسرے فتاوی بھی میں حضرت مفتی صاحب ؒ کی رائے سے انحراف نہیں کیاگیا، اس سے معلوم ہوا کہ آج سے پچاس سال پہلے جب کہ میڈیکل سائنس نے اس قدر ترقی بھی نہیں کی تھی ہمارے علماء نے بہت سے پیچیدہ طبی مسائل کاشرعی حل تلاش کرلیا تھا۔
تمام اصحاب فتوی ا س بات پر متفق ہیں کہ انسان کا خون اس کے جسم سے نکلنے کے بعد ناپاک ہوجاتاہے۔ اس کا تقاضا تو یہی ہے کہ ایک انسان کا خون دوسرے کے بدن میں داخل نہ کیاجائے، لیکن بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں جب خون دینا ناگزیر ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر متأثر شخص کی زندگی بچانے کے لیے خون چڑھانے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ کسی بیماری کی وجہ سے بھی بدن میں خون کی کمی ہوجاتی ہے جیسے گردے فیل ہوجائیں تو جسم میں خون کی پیدائش رک جاتی ہے اور اس کے تصفیے وتنقیے نظام درہم برہم ہوجاتاہے۔ اس طرح کے مریضوں کو مستقل طورپر جسم کا فاسد خون نکلواکر صاف اور نیا خون جسم میںداخل کرانا پڑتاہے۔ بعض اوقات انسان کسی حادثے میں مجروح ہوجاتاہے اور اس کے جسم سے خون کی بہت زیادہ مقدار بہہ کر اس کی کمزوری اور نقاہت کا سبب بن جاتی ہے۔ نہ صرف نقاہت پیدا ہوجاتی ہے بلکہ مریض موت وحیات کی کش مکش میں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس حالت میں اگر مریض کے جسم میں کسی دوسرے کا خون داخل نہ کیا جائے تو اس کے مرنے کا خطرہ پیدا ہوجاتاہے، یہ اضطرار کی حالت ہے۔ تمام فقہاء واصحاب فتاوی نے ایسے حالات میں جسم میں خون چڑھانے کی اجازت دی ہے اور یہ اجازت قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔
حضرت مفتی شفیع صاحب ؒنے لکھا ہے کہ اگر چہ خون انسان کا جزو بدن ہے، مگر اس کو کسی دوسرے انسان کے جسم میں منتقل کرنے کے لیے آپریشن کرنے یا جسم کے اعضاء کو کاٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلکہ سرنج کے ذریعے خون نکال کر دوسرے کے جسم میںداخل کردیا جاتاہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ماں کا دودھ بچے کی ضرورت کے لیے جائز قرار دیاگیا ہے، بلکہ اگر دودھ سے علاج ناگزیر ہو تو بڑے بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں، جیسا کہ فتاوی عالمگیری میںہے،  لا بأس بان یسعط الرجل بلبن المرأۃ ویشربہ للدوائ( ۵/ ۲۵۵) '' اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت کا دودھ بہ طور دوا آدمی کی ناک میں ڈالا جائے یا اسے پلایا جائے'' اگر خون کو دودھ پر قیاس کیا جائے تو یہ قیاس بعید نہیں ہے۔ دودھ بھی خون کی بدلی ہوئی صورت ہے اور یہ بھی جزو بدن ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دودھ پاک ہوتاہے اور خون ناپاک۔ حرمت کی پہلی وجہ تکریم انسانی تو وجہ ممانعت نہ ہونی چاہئے کیوں کہ اس اعتبار سے دودھ اور خون میں کوئی فرق نہیںہے، البتہ نجاست کا معاملہ رہ جاتاہے، اس کے باوجود علاج کے بہ طور بعض فقہاء نے خون کے استعمال کی اجازت دی ہے اس لیے انسان کا خون دوسرے انسان کے جسم میں منتقل کرنے کا شرعی حکم یہ معلوم ہوتاہے کہ عام حالات میں توایسا کرنا جائز نہیں، یعنی محض طاقت حاصل کرنے یا حسن بڑھانے کے لیے خون چڑھوانا تو جائز نہیں لیکن علاج ودوا کے بہ طور اضطراری حالت میں بلا شبہ جائز ہے۔ اضطراری حالت سے مراد یہ ہے کہ مریض کی جان کو خطرہ ہو اور کوئی دوسری دوا جان بچانے کی موجود نہ ہو اور خون دینے سے اس کی جان بچنے کا غالب امکان ہو۔ ان شرطوں کے ساتھ تو خون دینا تو اس نص قرآنی کی روسے جائز ہے، جس میں مضطر کے لیے مردار جانور کھا کر جان بچانے کی اجازت صراحتاً مذکور ہے، لیکن اگر اضطراری حالت نہ ہو او ردوسری دوائیں بھی کام آسکتی ہوں تو ایسی حالت میں مسئلہ مختلف فیہ ہے ( معارف القرآن: ۱/ ۴۱۹)
غیر اضطراری حالت میںخون دینے کا مسئلہ اس لیے مختلف فیہ ہے کہ اگر مریض کی جان کسی دوسری دوا سے بچ سکتی ہو تو پھر ناپاک چیز استعمال کرنے کی ضرورت کیا ہے، اسی لیے بعض فقہاء اضطراری حالت میں تو خون چڑھانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کی صورت میں اجازت نہیں دیتے، لیکن اکثر فقہاء نے درج ذیل دو صورتوں میں بھی اجازت دی ہے۔ (۱) جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو لیکن اس کی رائے میں خون دئے بغیر صحت کا امکان نہ ہو تب بھی خون دینا جائز ہے (۲) جب خون نہ دینے کی صورت میں ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا اندیشہ ہو، اس صورت میں خون دینے کی گنجائش ہے مگر اجتناب بہتر ہے، کما فی الہندیۃ:  وان قال الطبیب یتعجل شفاء ک فیہ وجہان( ج: ۵/ ۳۵۵)  ( آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۹/ ۱۷۵) جو حضرات حرام اشیاء سے تداوی کے قائل ہیں وہ واقعۂ عرینہ سے استدلال کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب عرینہ کو اونٹ کا پیشاب پینے کی اجازت دی تھی، ( بخاری: باب الدواء بابوال الابل:۵/ ۲۱۶۳رقم: ۵۳۹۵، سنن الترمذی: ۱/ ۱۰۶، رقم: ۷۲) اسی طرح حدیث کی کتابوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک صحابی حضرت عرفجہؓ کی ناک سڑگل گئی تھی۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت مرحمت فرمائی کی کہ وہ سونے کی ناک لگوالیں ، حالاں کہ سونا مردوں کے لیے حرام ہے،ـ ( ترمذی: ۱/ ۲۰۶)
اب اس وضاحت کے بعد کہ دوا کے بہ طور خون چڑھانا جائز ہے یہ سوال اپنی جگہ باقی رہ جاتاہے کہ کیا خون کا عطیہ دینا بھی جائز ہے یااسے بھی انسانی جسم کے دوسرے اعضاء پر قیاس کیا جائے گا جن کا دینا جائز نہیںہے۔ اس سے مربوط ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی کا خون عطیہ میں نہ ملے تو اسے خریدنے کی اجازت ہے یانہیں اور یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب خون کا خریدنا جائز ہے تو اس کا فروخت کرنا بھی جائز ہے یانہیں؟
جہاں تک اس آخری سوال کا تعلق ہے تو یہ بات بالکل طے شدہ ہے کہ خون کی فروخت قطعًا جائز نہیں ہے، کیوں کہ حدیث شریف میں خون کی فروخت سے صراحتًا منع فرمایاگیا ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جو چیزیں نجس العین ہوتی ہیں ان کی بیع جائز نہیںہے۔ البتہ ضرورۃً ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص خون فروخت کرتاہے تو بیچنے والے کے لیے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا جائز نہیںہے ( عنایۃ علی ہامش فتح القدیر: ۵/ ۲۰۲) یہ تو خون کی فروخت کا معاملہ ہوا، لیکن اس سلسلے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیںہے کہ اگر بلا قیمت خون نہ ملے تو قیمت دے کر خریدنا جائز ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے لکھا ہے '' خون کی بیع تو جائز نہیں لیکن جن شرائط کے ساتھ مریض کو خون دینا جائز قرار دیاگیا ہے ان حالات میںاگر کسی کو خون بلا قیمت نہ ملے تو اس کے لیے قیمت دے کر خون حاصل کرنا بھی جائز ہے ( جواہر الفقہ: ۲/ ۳۸)۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ کسی مریض کو خون دیدیا جائے، بشر طیکہ کوئی ماہر ڈاکٹر یہ رائے ظاہر کرے کہ اگر مریض کو خون نہ دیا گیا تو مریض کی جان بچنی مشکل ہے یا وہ یہ کہے کہ اگر چہ مریض کی ہلاکت کا فوری خطرہ نہیں ہے مگر خون دئے بغیر صحت کا امکان نہیںہے ۔( حوالۂ سابق)۔

No comments:

Post a Comment