visitors

free counters

Friday 16 September 2011

فقہ اسلامی پر کئے گئے شبہات اور جوابات

اسلامی قانون یافقہ اسلامی قانون فطرت کے ان ازلی، ابدی اور انقلابی اصولوں کے مجموعہ کا نام ہے جس کے اندر سارے انسانوں کی حقیقی فلاح وکامیابی کا راز پوشیدہ ہے، جس کو خالقِ فطرت نے اہلِ فطرت کی دنیوی واخروی کامیابی، جسمانی وروحانی تربیت اورہرخیر کی طرف ان کی رہنمائی کے لیے نازل فرمایا، اسلامی قانون اپنے روزِاوّل سے ان خدائی احکامات پر مشتمل ہے جنھیں کسی کمی ونقص، بھول چوک اور ذرہ برابر کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہے، زمانہ کے سب سے اعلیٰ وافضل ذہن ودماغ اس کی تنقیح وتحقیق میں مدتوں مصروف عمل رہے اور ہردوربشمول موجودہ دور کے انصاف پسند طبیعتوں کے مالک مسلم وغیرمسلم اہلِ علم ودانش نے تمام قوانین پر اس کی فضیلت وبرتری کے کھلے دل سے اقرار واعتراف کیا؛ لیکن مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد معاشرہ میں ایسے افراد جنم لینے لگے جنھوں نے محض تعصب وعناد یاجہالت ونادانی کی بناء پر فقہ اسلامی پر لغو وبے جااعتراضات کئے اور اس کو اپنی بے دلیل وبے سہارا تنقیدوں کا نشانہ بنایا، ان کی کاوشوں کا محور اور علمی کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے اس عظیم الشان علمی، فقہی اور قانونی ذخیرہ کوبے سند وبے اعتبار اور موجودہ ترقی یافتہ زمانہ میں اسے ناقابلِ عمل قرار دے کر مسلمانوں کواس سے عملی زندگی میں دور کردیا جائے یاکم ازکم کتاب وسنت کے برخلاف چند علماءو فقہاء کی ذاتی رایوں کا مجموعہ قرار دیکر اُس پر سے مسلمانوں کے تیرہ سوسالہ اجتماعی اعتبار واعتماد کو ختم کردیا جائے۔

معترضین نے فقہ اسلامی پر جتنے اعتراضات کئے ہیں وہ تمام کے تمام ٹھوس علمی دلائل سے خالی اور واقعات کی غلط تصویر کشی سے لبریز اور معترضین کی متعصبانہ ذہنیت، علمی بے بضاعتی اور دقت نظری سے محرومی کے آئینہ دار ہیں، ان میں سے بعض اعتراضات کومختلف اسلوبوں اور پیرایوں میں اتنی کثرت سے دھرایا گیا کہ وہ حقیقت کا روپ اختیار کرنے لگے ، اس پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں فقہ اسلامی پر کچھ شبہات ہونے لگے، ان میں  سےبعض شبہات کا جائزہ سطورِ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:

(۱)فقہ اسلامی کے اندر موجودہ دور کی ضروریات اور نت نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے؛ نیزاس میں زمانے کے مسائل اور نئے حالات کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا ہے۔

 لیکن اگرحقیقت پسندی کے ساتھ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے اور موجودہ دور کے عالمی منظر نامہ کا ملکی پیمانہ پر جائزہ لیا جائے اورجن عرب ممالک میں کسی حد تک اسلامی حدود نافذ ہیں ان ممالک کے سال بھر کے اور مغربی ممالک کے روزانہ کے جرائم کے اعداد وشمار جمع کئے جائیں تویہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام نے اپنی ابتداء میں جس طرح ایک جاہل وغیر مہذب قوم کوتہذیب وتمدن کا امیرقافلہ بنایا اور نیم وحشی معاشرہ کوانسانیت کے لیے قابلِ فخراور مثالی سوسائٹی میں تبدیل کردیا تھا اسی طرح آج بھی فتنہ وفساد، قتل وغارت، بدامنی وبے اطمینانی کی آگ میں جل رہے انسانی کاروان کونجات دے سکتا ہے اور بھنور میں پھنسی ہوئی انسانیت کی کشتی کوپار لگاسکتا ہے، طالبان کی حالیہ حکومت سے کون ناواقف وبےخبر ہوگا، اس حکومت کے زوال کے بعد اس ملک میں بدامنی ولاقانونیت کی جوکیفیت پیدا ہوئی اور اخبارات ورسائل میں جواطلاعات شائع ہورہی ہیں وہ بزبانِ حال اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ آج بھی اسلامی اصول وقوانین کے اندر وہی زندگی وتابندگی ہے جوروزِ اوّل سے اس کے اندر ودیعت کردی گئی تھی اور ایسا کیوں نہ ہو، جب کہ فقہ اسلامی پیدائش سے لیکر موت تک کی پوری زندگی پر محیط ایسی کامل واکمل اورجامع اسکیم ہے جوابنِ آدم کی زندگی کے ہرموڑ پرصحیح اور مکمل رہنمائی کرتی ہے، اجتماعی حیات ہویاانفرادی زندگی، مذہبی عبادات ہوں یادنیوی کاروبار، خاندانی حقوق ہوں یامعاشرتی ذمہ داریاں، معاشی معاملات ہوں یاملکی انتظامات، جنگ کا میدان ہویاقاضی کی عدالت، نکاح کی مجلس ہو یا میت کا گھر، خوشی کا موقع ہویاموت کا وقت، فتح نصیب ہویاشکست کا سامنا، امن کا زمانہ ہویافساد کے ایام، صلح کا پیغام ہویاحملہ کی دھمکی، دوست واحباب کے ساتھ نشست وبرخاست ہویاغیرقوموں کے ساتھ تعلقات، غرض ہرشعبۂ زندگی سے متعلق فقہ اسلامی کے اتنے ہمہ گیر جامع اور زرین احکامات ہیں کہ کسی زمانہ اور کسی ملک ومعاشرہ میں اور معاملاتِ زندگی کے کسی گوشہ میں بھی کسی مسلمان کو اپنی ذاتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اور حکومتوں کو اجتماعی تقاضوں کوپورا کرنے اور نئے حالات کا سامنا کرنے کے لیے شرعی حدود وقیود سے باہرجھانکنے کی بالکل ضرورت پیش نہیں آسکتی، فقہ اسلامی کی اس جامعیت وکاملیت کا اصل سرچشمہ شریعت کی وہ جوہری خصوصیات ہیں جواس کودوسرے قوانین موضوعہ سے ممتاز کرتی ہیں، جہاں تک موجودہ زمانے کے نئے مسائل کا تعلق ہے تویہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ اس بحرذخار سے موتی اور ہیرے چن کرانسانوں کے سامنے پیش کریں؛ تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنی زندگی کاسفر طے کریں اور بحمدللہ وہ اس کام کوبحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور رہتی دنیا تک وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے رہیں گے؛ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا حل علماء نے پیش نہ کیا ہو۔

(۲)مستشرقین کا فقہ اسلامی پر ایک اور اعتراض یہ ہے کہ وہ رومن لاء سے ماخوذ ہے؛ کیونکہ فقہ اسلامی اور رومی قوانین میں یکسانیت ومماثلت پائی جاتی ہے، فقہی کتابوں کی ترتیب اور رومی قوانین کی ترتیب ایک جیسی ہے، ہوسکتا ہے کہ رومی قوانین کا عربی یافارسی ترجمہ فقہاء کے پیشِ نظر رہا ہو؛ نیزفقہ میں "البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر" کاقانون من وعن رومی قانون سے نقل شدہ ہے، فتح اسلامی کے وقت قیصریہ اور بیروت میں ایسی عدالتیں موجود تھیں جن میں رومی قوانین کے مطابق فیصلے ہوتے تھے اور یہ عدالتیں فتح اسلامی کے بعد بھی وہاں موجود رہیں؛ چونکہ مسلمان اس وقت تک شہر کی متمدن زندگی اور اس کے اصولوں سے زیادہ واقف نہیں تھے اور دوسری طرف قدیم متمدن ممالک کی فتوحات کے نتیجے میں نئے نئے مسائل بڑی سرعت کے ساتھ پیدا ہورہے تھے اور قرآن وحدیث سے حاصل شدہ مواد ان ضروریات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں تھا، اس لیے قدمائے اسلام مفتوحہ ممالک کے سابقہ قوانین کے مطابق فیصل کرتے تھے، اس طرح بہت سے رومی قوانین اسلامی قانون کی شکل اختیار کرگئے۔

 اگربنظرِ غائر ان دلائل کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ مستشرقین نے حقائق کو مسخ کرنے ،خیالی مفروضات کوحقیقت کا جامہ پہنانے اور رائی کا پہاڑ بنانے میں جس جرأت وبیباکی کا مظاہرہ کیا ہے؛ شاید اس کی مثال دوسری جگہ نہ مل سکے، تاریخ اسلام وتاریخ فقہ کا ادنی طالب علم بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب تک پیغمبرِ اسلام اس دنیا میں جلوہ افروز رہے اس وقت تک ہرمسئلہ کا فیصلہ وحی الہٰی کی روشنی میں دربارِ رسالت سے ہوتا تھا، جب آپ  کی ذات بابرکت سے دنیا محروم ہوگئی اور یکے بعد دیگرے مسلسل فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کو بیشمار نئے مسائل کا سامنا ہوا توخلفاءراشدینؓ نے ان مسائل کے حل کے لیے مدینۃ المنورہ میں جہاں رومن لاء کے اثرات کی پرچھائیاں بھی نہیں تھیں؛ اہلِ فقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت تشکیل دی، جب بھی کوئی نیا مسئلہ کسی ملک میں پیش آتا اور قرآن وحدیث میں اس کا صریح حکم نہ ملتا تووہ دربارِ خلافت مدینہ منورہ لکھ کر بھیج دیا جاتا خلفاء راشدین کے انفرادی اجتہاد یافقہاء کی اجتماعی رائے سے اس مسئلہ کا فیصلہ کیا جاتا؛

اس طرح فقہ اسلامی کے چار ماخذ وسرچشمے قرار پائے۔

(۱)کتاب اللہ

(۲)سنت رسول اللہ

(۳)اجماع

(۴)قیاس واجتہاد۔

جن میں سے تین کی طرف نبی کریم  نے اپنی حیاتِ طیبہ ہی میں صراحت کے ساتھ رہنمائی فرمادی تھی؛ جیسا کہ حضرت معاذرضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے، خلفاء راشدینؓ نے اپنے عہد زرین میں قانون سازی کے معاملہ میں انہی چاروں اصول کی پیروی کی اور فقہ اسلامی کا ایک بڑا حصہ اسی عہد کے فیصلوں پر مشتمل ہے، عہدِ صحابہؓ کے اختتام پر مدینہ منورہ ہی میں تابعین میں سے فقہاء سبعہ کی ایک جماعت موجود تھی جوقرآن وحدیث اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں اپنے اجتہاد سے پیش آمدہ مسائل کوحل کرتی تھی اور ان کے فیصلوں کا فقہ اسلامی میں اعتبار کیا جاتا تھا، ان فقہاء سبعہ میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے رومی قانون کی تعلیم حاصل کی یاکسی رومی کتاب کا مطالعہ کیا تھا، جب دوسری صدی میں مذاہب اربعہ کا ظہور ہوا توکتاب وسنت کے بعد ان کا سب سے بڑا ماخذ یہی فیصلے تھے۔

اسی کے ساتھ ایک نگاہ چاروں مکاتب فقہ پر بھی ڈال لیجئے، عقیدہ اہلِ سنت کے مطابق جن میں حق منحصر ہے:

(۱)فقہ حنفی:

یہ اکثرمسلمانوں کا فقہ ہے جوامام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے، آپ کی پوری زندگی کوفہ، مکہ، بغداد کے ان علاقوں میں گذری جہاں رومی قوانین کوکوئی جانتا بھی نہ تھا اور نہ اس دور میں کسی رومی کتاب کا عربی یافارسی میں ترجمہ ہوا تھا، تدوین فقہ یااسلامی قانون سازی کے بارے میں آپؒ نے کن ماخذ ومصادر سے استفادہ کیا اور اس میں آپ کا طریقۂ کار کیا تھا آپؒ خود بیان فرماتے ہیں:

"میں کتاب اللہ کو لیتا ہوں؛ اگراس میں حکم نہیں پاتا توسنتِ رسولؐ کو لیتا ہوں اورجب معاملہ ابراہیم ، شعبی، ابنِ سیرینؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے توجیسے انہوں نے اجہتاد کیا میں بھی اجتہاد کرتا ہوں"۔

(المیزان الکبری:۱/۲)

فقہ حنفی تنہا آپ کی محنتوں کا نتیجہ نہیں؛ بلکہ چالیس ائمہ اسلام کے علم وفہم کا عطر مجموعہ ہے، ان میں بڑے بڑے ائمہ حدیث اورماہرین لغت عربی تھے، ایسے بھی تھے جوتفسیر وفقہ میں امام مانے جاتے تھے؛ لیکن ایسا ایک شخص بھی وہاں نظر نہیں آتا جس نے رومی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی ہو یارومی قوانین سے متاثر ہو۔

(۲)فقہ مالکی:

یہ امام دارالھجرت مالک بن انسؒ کی طرف منسوب ہے، آپ کی پوری عمر مدینۃ النبی  ہی میں گذری، اس ڈر سے کہ مبادا مدینہ منورہ سے باہر موت نہ آجائے، آپؒ نے کبھی دوردراز کا سفر نہیں کیا، آپؒ کے نزدیک کتاب وسنت کے بعد اہلِ مدینہ کا عمل بھی حجت ہے، بے ضرورت قیاس کوآپؒ سخت ناپسند فرماتے تھے، اس لیے آپ کے مذہب میں قیاس بہت کم پایا جاتا ہے، تقریباً یہی حال امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے فقہ کا ہے، ان میں سے کسی نے کبھی کسی رومی علاقہ کا سفر کیا نہ کسی رومی کتاب کا مطالعہ کیا؛ بلکہ خالص کتاب وسنت، اجماع وقیاس ابتداء سے انتہا تک ان کا مرجع وماخذ ہے؛ لہٰذا یہ کہنا کہ فقہ اسلامی اور خصوصاً فقہ حنفی رومن لاء سے ماخوذہے ،آفتاب کے نور کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔

رہامستشرقین کا یہ مفروضہ کہ عربی اسلامی فتوحات کے بعد بھی ایک صدی تک رومی علاقوں میں قدیم رومی نظام ہی جاری رہا اور اس کے مطابق رعایا کے فیصلے ہوتے رہے، کیا عجب ہے کہ فاتحینِ اسلام نے قانون سازی کے معاملہ میں اس سے استفادہ کیا ہوگا یاکم ازکم اسکندریہ وبیروت کے قانون کی تعلیم کے مشہور مدارس ہی کی روایات جاری رہی ہوں گی تویہ ان کا خیال ہی خیال ہے، جس میں سچائی اور حقیقت کی کچھ بھی آمیزش نہیں ہے؛ بفرض محال اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیں کہ عربی فتوحات کے بعد بھی وہاں ایک صدی تک سابقہ قوانین نافذ رہے، تب بھی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ مسلمانوں نے اس سے علمی استفادہ کیا ہوگا، مسلمان خود ایسے زرین اصول وقوانین اور جامع شریعت مدینۃ المنورہ سے ساتھ لیکر ہرجگہ بانٹتے ہوئے روم کی سرحدوں تک آئے تھے جس کی فضیلت وبرتری کا کھلا اعتراف ایک مستشرق کے قلم نے ان الفاظ میں کیا ہے:

"اسلامی قانون کا نظام اپنی داخلی خصوصیات کے لحاظ سے ہی ہے، ماہرین کی نظروں میں وہ تعریف وتحسین کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے، اپنے ہم عصر ابتدائی جاگیری قوانین کے بے ڈھنگ رسوم اور وحشیانہ رواجوں پر وہ بے حد فضیلت رکھتا ہے"۔     

  (چراغِ راہ:۱/۱۹۰)

نیزمستشرقین کا فقہی کتابوں کے مسائل اور رومی قوانین کے کچھ مسائل میں یکسانیت ثابت کرنا اسی طرح مسائل کی ترتیب میں مماثلت قرار دینا اور اس کی وجہ سے فقہ اسلامی کورومی قانون سے ماخوذ قرار دینا علمی اعتبار سے نہایت غلط ہے؛ کیونکہ دومختلف قوانین کے اندر اگرتھوڑی سی مشابہت پائی جائے توکیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک قانون دوسرے قانون کی محرف اور بگڑی ہوئی شکل ہے، قوانین عالم میں چند اصول ایسے لازماً ہوتے ہیں جوہرقانون کا جزوہوتے ہیں، ان لازمی اجزاء پر یہ دعویٰ کرنا کہ اس قانون کوسامنے رکھ کر بنایا گیا ہے، نری جہالت اور عناد محض ہے اور مستشرقین کا فقہ اسلامی اور رومی قوانین کی ترتیب میں مشابہت کا دعویٰ تو یہ ان کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے، جس کے حقائق پرزور تردید کررہے ہیں، اس دعویٰ کی حقیقت کوواشگاف کرتے ہوئے مشہور محقق عالم دین ڈاکٹر حمیداللہ حیدرآبادی تحریر فرماتے ہیں:

"میں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کم ازکم ابتدائی فقہی کتابوں کی ترتیب ہی قانون روما کے مماثل ہو، قانون روما زمانہ قبل مسیح ہی سے عبادات کومعاملات سے الگ کرچکا تھا اور دنیوی معاملات کا قانون، اشخاص، اشیاء اور ضابطہ کے تین حصوں میں تقسیم ہوتا تھا، جب کہ فقہ حنفی کی ترتیب عبادات، معاملات اور جنایات کے تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی، جس میں قواعدِ عمومی یعنی دستور اور احکامِ مملکت بھی شامل تھے اور ان کی یہ ترتیب رومی قانون کی ترتیب سے بنیادی اختلاف رکھتی ہے، فقہ حنفی کا زمانہ بنوامیہ کے آخری اوربنوعباس کے ابتدائی دور پر مشتمل تھا اور ابھی یونانی علوم وفنون کا زیادہ ترجمہ اور رواج نہیں ہوا تھا؛ پھرجوکچھ بھی اس وقت ترجمہ ہوا تھا اس سے چند فنی اصطلاحیں منطق، فلسفہ، طب ونجوم، کلام وجغرافیہ وغیرہ میں اگرچہ مدد لی گئی تھی؛ لیکن اصولِ فقہ میں کوئی معرب اصطلاح نہیں ملتی، اس کے جتنے بھی الفاظ ہیں وہ قدیم عربی ہی کے مروج الفاظ ہیں اوراکثرقرآنی الفاظ ہیں، امام مالکؒ نے مؤطا کے ابواب کی جوترتیب رکھی ہے وہ امام ابوحنیفہؒ کی ترتیب سے مختلف ہے اور عبادات ومعاملات سب خلط ملط ہیں، ان دوہمعصر فقہاء کی تالیفوں میں ابواب کی ترتیب میں بے انتہاء اختلاف بتاتا ہے کہ ترتیب میں بھی ان کے سامنے کوئی بیرونی نمونہ نہ تھا اور ہرکوئی اپنی ذہنی جولانی سے اپنے لیے کوئی خاکہ پسند کررہا تھا، امام شافعیؒ اور امام حنبلؒ کا زمانہ نسبتاً بعد کا ہے (لیکن ان کی کتابیں بھی بیرونی نمونہ سے بالکل آزاد ہیں) اس کے علاوہ فقہ اسلام اور قانونِ روما میں مسائل کے لحاظ سے بھی غیرمعمولی فرق ہے، عبادات، تعزیرات، مالیات، قرض وسود، وراثت، نکاح وطلاق، نسب، خلع، غلاموں کی آزادی، عدل گستری، قانون بین الممالک وغیرہ میں دونوں کے درمیان کوئی مماثلت ہی نہیں ہے"۔

(خلاصہ چراغِ راہ:۱/۲۲۸،۲۲۹)

اس قدر بے حدوبے شمار نمایاں اختلافات کی موجودگی میں فقہ اسلامی   کے رومی قانون سے ماخوذ ہونے کا دعوی کرنا کسی محروم العقل محقق ہی کا کام ہوسکتا ہے۔

۳۔بعض مستشرقین کا یہ کہنا ہے کہ فقہ اسلامی براہِ راست قرآنِ حکیم سے اخذ نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ اس کا خمیر بنوامیہ کے انتظامی عمل سے اٹھایا گیا ہے اور بعض اوقات بنو امیہ کا عمل قرآن کریم کے الفاظ پر بھاری ہوتا تھا۔

 لیکن ان کی یہ بات  بھی بالکل واہیانہ ہے اور ہم اس کو صریح علمی خیانت قرار دینے پر مجبور ہیں؛ اگران کے اس لغومفروضہ کوتسلیم کرلیا جائے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنوامیہ سے پہلے خلافتِ راشدہ اور خلافتِ فاروقی کے عہدِ زرین میں قانونی ضروریات کی تکمیل کس طرح کی جاتی تھی؟ یہ دعویٰ کہ دورِ جاہلیت کے رسم ورواج اور مختلف ملکوں کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا ہوگا، ایک بے بنیاد دعویٰ ہے، جس کی تاریخ کھل کر تکذیب کررہی ہے؛ کیونکہ عہدِ نبوی اور دورِ خلافت میں ایسے بیشمار واقعات رونما ہوئے جس کی نظیر نہ دورِ جاہلیت میں تھی نہ دوسری قوانین میں اور یہ تصور کہ اس انقلاب آفریں دور میں اسلامی معاشرہ کسی قانون کا پابند نہ تھا ایسا نظریہ ہے جواپنی تردید خود کررہا ہے اور جسے کسی درجہ میں تسلیم کرنا ممکن نہیں۔

اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ قرآن جس طرح ایک اصلاحی پند نامہ ہے اسی طرح ایک جامع اور اٹل قانونی دستور بھی ہے، قرآن جہاں اصلاح باطن اور فکر آخرت پر زور دیتا ہے وہیں اعلیٰ معاشرتی قوانین بھی عطا کرتا ہے، اس کا ہراصول اپنے دامن میں زبردست وسعت اور بے شمار جزئیات کوسمیٹا ہوا ہے، وہ عملی معاشرتی اور عائلی قوانین جوقرآن میں صراحتاً بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد چارسو سے متجاوز ہے، اس کے علاوہ احادیث میں بیان کردہ اصول وقوانین کو بھی ملالیا جائے توا سکی تعداد بے شمار ہوجاتی ہے اور یہی چیزیں فقہ کی اساس اور بنیاد ہیں، اس پسِ منظر میں مستشرقین کے مذکورہ غلط دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لیے انکارِ حقائق میں مہارت اور حالات وواقعات سے نظریں چرانے کی جرأت کی ضرورت ہے؛ نیزان کا یہ دعویٰ کہ بعض اوقات بنی امیہ کا عمل قرآن حکیم کے الفاظ پر بھاری ہوتا تھا، انتہائی دروغ گوئی ہے اور فقہاء ومحدثین پر افتراء ہے۔

یہ تو مستشرقین کے وہ اعتراضات تھے جوانہوں نے فقہ کوجزءاسلام مانتے ہوئے اس پر کئے تھے، اس کے برعکس بدقسمتی سے امتِ مسلمہ میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جوفقہ اسلامی کوکتاب وسنت کا مخالف قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف برسرِپیکار ہے، ان کا گمان یہ ہے کہ:

(۴)فقہ اسلامی چند علماء کی رایوں کا مجموعہ ہے، کتاب وسنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان حضرات کا یہ اعتراض درحقیقت فقہ کی حقیقت سے ناواقفیت پر مبنی ہے،الموسوعۃ الفقہیۃ میں فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے، تفصیلی دلائل سے عملی فروعی اور شرعی احکام کوجاننے کا نام فقہ ہے"۔         

   (الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۲)

مذکورہ عبارت میں تفصیلی دلائل سے مراد قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس ہیں؛ چنانچہ فقہ کا ایک حصہ وہ ہے جوکتاب وسنت پر مبنی ہے، ایک حصہ وہ ہے جواجماع سے مستنبط ہے اور ایک حصہ وہ ہے جوقیاس سے ماخوذ ہے، فقہ کا جوحصہ قیاس پر مبنی ہے، اس کے بارے میں بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ علماء کی آراء کا مجموعہ ہے؛ لیکن یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ فقہ میں علماء وفقہاء کی وہی رائے قابلِ قبول ہے، جس کا دارومدار قرآن وحدیث کی کسی نص پر ہو؛ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہرزمانہ میں فقہاء کرامؒ ایسے رایوں کو رد کردیتے ہیں جوشریعت کے مخالف ہوں، جب قیاس کی بنیاد بھی قرآن وحدیث ہی پر ہے توپھرفقہ کوخلافِ شریعت کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے؟ نیزاہلِ اجتہاد کے قرآن وحدیث پر مبنی آراء وقیاسات قابلِ اعتماد اور حجت ہیں، اس دعویٰ کی بنیاد دراصل رسول اللہ  کی وہ نصیحت ہے جوآپ نے حضرت معاذؓ کویمن روانہ کرتے وقت فرمائی تھی، اس وجہ سے اگر بالفرض فقہ کوعلماء کی آراء کامجموعہ مان بھی لیا جاے تب بھی وہ اس قابلِ نہیں کہ اُسے کتاب وسنت کا مخالف قرار دے کر اس کونذر آتش کردیا جائے۔

(۵)ان حضرات کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ فقہ میں ایسے ناشائستہ مسائل پائے جاتے ہیں، جن کوایک شریف الطبع آدمی زبان پرلاتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے؛ مگران حضرات کا یہ اعتراض بجائے خود قابل اعتراض ہے؛ کیونکہ اسلام ایسی شرم کا قائل نہیں ہے جوشرعی احکام کے سیکھنے سکھانے میں حائل ہو، اسلام ایک جامع اور آخری دین ہے، اس میں پیدائش سے لیکر موت تک طہارت سے لیکر عبادات ومعاملات تک ہرقسم کے چھوٹے بڑے مسائل واحکام بالتفصیل بیان کیے گئے ہیں، خصوصاً پاکی وناپاکی (جس پر بہت سی اہم عبادات کی قبولیت وصحت کا دارومدار رہے) سے متعلق بہت سے چھوٹے بڑے امور خودپیکر شرم وحیا ءرسالت مآب  نے اس اہتمام اور توجہ سے صحابہ کرامؓ کوسکھائے تھے کہ مشرکین کواعتراض وتمسخر کا ذریعہ ہاتھ آگیا اور بطورِ استہزاء انہوں نے حضرت سلمانؓ سے کہا تھا کہ تمہارے نبی  تولوگوں کو بول وبرازسے فراغت اور صفائی تک کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں؟۔

یعنی جس طرح آج کے معترضین حضرات فقہی کتابوں میں مذکور بعض مسائل کوخلافِ شرم وحیاء سمجھ کر فقہ پر اعتراض کررہے ہیں، کفار ومشرکین بھی پاکی واستنجا کے احکام کوبے حیائی خیال کرکے اسلام اور ذاتِ گرامی پر اعتراض کرتے تھے؛ لیکن جس طرح مشرکین کا اعتراض بالکل بے جا اور لایعنی تھا، اسی طرح ان معترضین کا اعتراض بھی بالکل لغو اور فضول ہے، جس طرح جسمانی امراض کے علاج کے سلسلہ میں مردوزن، شرم وحیا، ستروحجاب کا مکمل لحاظ نہیں رکھا جاتا ویسے ہی تحقیق مسائل میں بھی زائد شرم وحیا کی گنجائش نہیں ہے، قرآن وحدیث میں پاکی ناپاکی بول وبراز، حیض ونفاس، ازدواجی تعلقات وغیرہ کے بہت سے احکام بیان کیے گئے ہیں؛ اگرشرم وحیا کا لحاظ کرکے انہیں بیان نہ کیا جاتا توحضرات معترضین ان مسائل میں کس کے مطابق اور کس طرح عمل کرتے ؟ جب قرآن وحدیث میں اس طرح کے مسائل واحکام بیان کئے گئے ہیں توفقہ انہی دونوں کی شرح ہے، جس میں کتاب وسنت کے اصولوں سے بے شمار جزئیات کی تشریح اور احکام کی علتوں کے ذریعہ لاتعداد نظائر کی تخریج کرکے ان کے شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں؛ لہٰذا فقہ پر اعتراض قرآن وحدیث پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے۔

لہٰذا جوشخص فقہ اسلامی کے رومی قانون سے ماخوذ ہونے کا دعویدار ہے یااس کو بنو امیہ کے انتظامی امور کا مجموعہ مانتا ہے یاپھر اس کوکتاب وسنت کے مخالف ایک تیسری چیز اور بدعت قرار دینے کی کوشش کرتا ہے تووہ نہ صرف یہ کہ ایک سچی اور ثابت شدہ حقیقت کا منکر اور کذب محض کا قائل ہے؛ بلکہ اس کا یہ افسانوی دعویٰ تحقیق وتجزیہ کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔

بہرِحال ان ساری تفصیلات سے ایک کھلے ذہن اور غیرجانبدار قاری پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ فقہ اسلامی کی یہ عظیم عمارت قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کے ایسے چار مضبوط ستونوں پر قائم ہے جونافع تغیرات کو انگیز کرنے، ہرزمانے کے صالح تقاضوں کو پورا کرنے اور اوہام پرست اخلاق باختہ سوسائٹی کی جگہ ایک معتدل ومثالی معاشرہ فراہم کرنے کی بھرپور صلاحیتوں سے معمور ہیں۔

No comments:

Post a Comment