سیرت کی کتابوں اور علما ٴکے تذکروں میں بے شمار حوالے اس قسم کے مل سکتے ہیں، دور نہ جائیے صاحبِ مشکوٰة کی الاکمال فی اسماء الرجال دیکھ لیجئے، انہوں نے اکابر کا تذکرہ کن الفاظ میں کیا ہے، لیکن بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ اس دور کے ناہنجار انشاپرداز اکابرِ امت کے اسما ٴگرامی نہایت گھٹیا انداز میں لیتے ہیں اور بڑے ہی سفلہ انداز میں ان پر تنقید کر گزرتے ہیں، ایک صاحب رقم طراز ہیں: شاہ ولی اللہ ایک ذی علم آدمی ہیں، غزالی ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں۔
ایک اور صاحب نے تو حد کردی ہے کہ شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز، جہادِ آزادیٴ ہند ۱۸۵۷ء میں حصہ لینے والے علما ٴمولانا محمود الحسن شیخ الہند، سب کو غلط کار اور کوتاہ فہم قرار دیا ہے، ان کے مقابلہ میں گاندھی کے اجتہاد کو درست قرار دیا ہے، صد حیف ہے اس انشاپردازی پر، یوں لگتا ہے قیامت کی جواب دہی کا ذرا بھی احساس نہیں ہے ان لوگوں کو۔
اندھے کی لٹھ چلانے کے بعد یہ مصنف لکھتا ہے: چنانچہ علما ٴ کی مقلدانہ رائے پر گاندھی کی مجتہدانہ رائے برتر ثابت ہوئی۔
شاید قارئین کے لئے یہ باور کرنا مشکل ہوگا کہ ایک مسلمان مصنف یہاں تک اپنی کوردانشی کا ثبوت دے سکتا ہے کہ وہ علمائے ملت کو بے بصیرت اور ان کے مقابلہ میں ایک مشرک کو صحیح الفکر مجتہد قرار دے، یہ سن کر انہیں مزید تعجب ہوگا کہ اس کے نام کے ساتھ مولانا کا سابقہ بھی موجود ہے، اور وہ جگہ جگہ اپنے مضامین میں قرآنی آیات، احادیث اور بزرگانِ امت کے اقوال Quote کرتا ہے، اس کے باوجود وہ لکھتا ہے:
۱:…"اورنگ زیب عالمگیر نے برصغیر ہند میں اسلام کا پولیٹکل ایمپائر بنانا چاہا ․․․․․․ اس کے بعد سے آج تک تقریباً تین سو سال سے تمام رہنماوٴں کا یہی سب سے زیادہ پسندیدہ خواب رہا ہے ․․․․․ تاہم یہ تین سو سالہ کوششیں بے حساب جانی اور مالی قربانیوں کے باوجود سراسر بے نتیجہ رہیں۔" (ص:۲۶، ۲۷)
۲:…"علما ٴکی مقلدانہ رائے پر گاندھی کی مجتہدانہ رائے برتر ثابت ہوئی ․․․․․․ ہمارے تمام علما ٴسو سال سے بھی زیادہ عرصہ تک جہاد کے نام پر ایک ایسے خونیں عمل میں مشغول رہے، جس کا کوئی نتیجہ تباہی کے سوا اور نکلنے والا نہ تھا، اسی خونیں جہاد کے دوران انہوں نے برصغیر ہند کے مسلمانوں کو ناقابل بیان تباہی سے دوچار کیا، یہ صرف مہاتما گاندھی تھے، جنہوں نے ان کو اس تباہ کن غار سے باہر نکالا۔" (ص:۴۲)
۳:…"پچھلے چھ سو سال سے مسلم دنیا کوئی بھی ایسی کتاب پیش نہ کرسکی، جس کو تخلیق عمل (Creative Work)کہا جاسکے۔" (ص:۷۰)
۴:…"شاہ ولی اللہ کا یہ کارنامہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے گرتی ہوئی مغل سلطنت کو سنبھالنے کی کوشش کی، انہوں نے نواب نجیب الدولہ کے ذریعہ کابل کے احمد شاہ ابدالی کو بلوایا، اس نے ۱۷۶۱ء میں پانی پت کے مقام پر مرہٹوں کو شکست دے کر، مغل سلطنت کے دشمن کو کچل دیا، مگر نتیجہ کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ واقعہ شاہ ولی اللہ کے کارنامہ کے خانہ میں درج کرنے کے بجائے اس قابل نظر آئے گا کہ اس کو ان کی بے بصیرتی کے خانہ میں لکھا جائے۔" (ص:۱۷۶)
۵:…"بیسویں صدی کے نصف آخر میں تقریباً پوری مسلم دنیا میں اسلامی انقلاب کی تحریکیں چلائی گئیں، ان تحریکوں کے قائد علما ٴاور اسلام پسند مفکرین تھے۔ ایران، پاکستان، مصر، سوڈان، شام، الجیریا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور دوسرے بہت سے مسلم علاقوں میں اس کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں،مگر یہ لوگ صرف اسلام کو بدنام کرنے کا سبب بنے۔" (ص:۱۸۶)
قارئین محترم آپ سوچتے ہوں گے کہ یہ کلمات کسی مسلمان کے قلم سے نکلے ہیں یا غیرمسلم کے، جناب! یہ ہیں ہندوستان کے معروف مصنف مولانا وحید الدین خاں اور جس کتاب سے یہ اقتباسات دئے گئے ہیں، اس کا نام ہے "فکر اسلامی"۔ کسی نے سچ کہا ہے: برعکس نہتد نام زنگی کافور! ہمارے خیال میں اس کی تردید کی چنداں ضرورت نہیں ہے، تاہم تین آیاتِ قرآنی اور ایک حدیث شریف سن لیجئے:
۱:…"اَفَمَنْ کَانَ مُوٴْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَّا یَسْتَونَ۔" (الم سجدہ:۱۸)
ترجمہ:…"تو جو شخص موٴمن ہو، کیا وہ اس شخص جیسا ہوجاوے گا جو بے حکم ہے، وہ آپس میں برابر نہیں ہوسکتے۔"
۲:…"اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ۔" (ص:۲۸)
ترجمہ:…"یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے۔"
۳:…"اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اَنْ نَّجْعَلَھُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَآءً مَّحْیَاھُمْ وَمَمَاتُھُمْ، سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ۔" (الجاثیہ:۲۱)
ترجمہ:…"یہ لوگ جو برے برے کام کرتے ہیں کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر رکھیں گے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح اختیار کیا کہ ان سب کا جینا اور مرنا یکساں ہوجاوے، یہ برا حکم لگاتے ہیں۔"
حدیث شریف: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِذَا سَمِعْتَ الرَّجُلَ یَقُوْلُ: ھَلَکَ النَّاسُ! فَھُوَ اَھْلَکُھُمْ۔" (موٴطا امام مالک ص:۳۸۶، مسلم شریف ج:۲ ص:۳۲۹،سنن ابی داوٴد ج:۲ ص:۳۲۴، مسند احمد وغیرہ)
ترجمہ:…"جب آپ کسی کو یہ کہتے سنیں کہ لوگ ہلاک ہوگئے، تو سمجھو وہ سب سے زیادہ ہلاکت پر ہے۔"
میرا خیال یہ ہے کہ خان صاحب ذہنی طور پر معذور
ہیں، یا پھر ہندووٴں کے نمک خوار، والله تعالیٰ اعلم!
No comments:
Post a Comment