visitors

free counters

Sunday, 11 September 2011

ڈاکٹر محمود احمد غازی


ڈاکٹر صاحب بھی چل بسے،ساٹھ برس کی اپنی انگز پوری ہی کی تھی کہ بلاوا آگیا، اور مومن کامل وعاشق صادق کی طرح فوراً اٹھ کر چل دئیے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس دنیا میں ایک بار آجانے کے بعد جانے سے کسی کو مفر ہے؟مگر انسانی فکر چوں کہ محدود ہے،اس لئے ایسے نقصانات میں جو پورے عالم کا نقصان ہو ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ حادثہ بے وقت تھا۔اگر یوں کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب جیسی صاحبِ علم و بصیرت ،صاحبِ تفقہ،متوازن و متواضع اور جدید و قدیم کی جامع شخصیت عالمِ اسلام میں کم ہو گی تو یہ بیان نہ مبالغے پر مشتمل ہوگا نا محض عقیدت پر، بلکہ صرف حقیقت پر مبنی ہوگا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی ۱۸ ستمبر۱۹۵۰ء کو پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم کراچی ہی میں حاصل کی۔کراچی کے بڑے تعلیمی ادارے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں بھی کچھ عرصے زیر تعلیم رہے۔۶۰ کی دہائی کے آخرمیں آپ کے والد حافظ محمد احمد صاحب اسلام آباد منتقل ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب بھی وہیں چلے گئے ۔آپ کی مزید تعلیم اسلام آباد اور پنڈی میں ہی مکمل ہوئی،۱۹۷۲ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کیا،اور پھر اسی یونیورسٹی سے آپ نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر صاحب نے پاکستان اور بیرون پاکستان اہم ترین ذمے داریاں ادا کیں، اور ہر ذمے داری میں امتیازی صلاحیتوں کے ساتھ نمایاں رہے۔آپ وفاقی وزیر مذہبی امور۔صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد۔نائب صدر،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔جج شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان۔خطیب شاہ فیصل مسجد،اسلام آباد۔رکن اسلامی نظریاتی کونسل وغیرہ اہم ترین مناصب پر فائز رہے۔اس وقت بھی آپ اہم ترین ذمے داریوں پر فائز تھے۔آپ مارچ۲۰۱۰ء سے وفاقی شرعی عدالت ،اسلام آباد کے جج تھے،اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے چیرمین کا منصب بھی آپ کے پاس تھا۔
ڈاکٹر صاحب نہایت جفاکش ،محنتی،کمیٹڈ اور دل درد مند رکھنے والے محقق، عالم ،مفکر ،داعی اور فقیہہ تھے، اسلامی بینکنگ کے آپ پاکستان میں بانیوں میں شمار ہوتے ہیں،تکافل کا ابتدائی خاکہ آپ ہی کا تشکیل کردہ ہے جس پرپاکستان سے پہلے بعض عرب ممالک میں عمل ہوا۔
ڈاکٹر صاحب پاکستان میں آئینی اور قانونی معاملات میں اسلامی دفعات کے بھی ماہر سمجھے جاتے تھے، جنرل ضیا الحق مرحوم سے لے کرجنرل مشرف تک ہر دور میں حکمران آپ سے اس سلسلے میں مستفید ہوتے رہے،یہ الگ بات ہے کہ حکومتی مزاج ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو کس قدر ہضم کر پایا۔ڈاکٹر صاحب ہمیشہ نتائج سے بے پروا ہو کر درد مندی اور خیر خواہی کے جذبے سے ہر حاکمِ وقت کو صحیح مشوروں سے نوازتے رہے۔ ایک گفت گو میں حال ہی میں انہوں نے فرمایابھی تھا کہ مجھے اس نیک مقصد کے لئے کوئی آئندہ بھی بلائے گا تو میں جانے کو تیار ہوں۔
ڈاکٹر صاحب اردو ،عربی، فارسی،انگریزی،فرانسیسی سمیت ساتھ زبانوں کے ماہر تھے اور ان زبانوں میں تحریر اور گفت گو دونوں کا مکمل ملکہ رکھتے تھے،یہی سب ہے کہ آپ کی تصانیف خاص طور پر اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور عربی میں موجود ہیں۔عربی میں آپ کی آخری تالیف تاریخ حرکۃ المجددیہ ہے ، جس میں برعظیم کے عظیم عبقری شخصیت حضرت مجدد الف ثانی کے احوال وآثار اور خدمات و تصنیفات کا علمی جائزہ لیا گیا ہے اور چار سو سے زائد صفحات کی اس کتاب کی خاص بات پچاس سے زائد مکتوبات مجدد کا عربی ترجمہ ہے جو ڈاکٹر صاحب کی فارسی اور عربی دانی،علمی تبحر اور تصوف کے دقائق سے گہری واقفیت کا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی فرانسیسی زبان میں دو جلدوں میں سیرت کی مشہور کتاب کا ترجمہ ڈاکٹر صاحب نے براہ راست فرانسیسی سے انگریزی میں کیا تھا۔جو بہت مقبول ہوا۔افسوس اس کی دوسری جلد انگریزی میں منتقل نہ ہو سکی۔
اردو داں طبقے میں ڈاکٹر صاحب کا سلسلہ محاضرات بڑا مقبول ہوا۔ جس کی چھ جلدیں اہل علم کو متاثر کرچکی ہیں۔ ان میں سے ہر جلد ۱۲ خطبوں پر مشتمل ہے، جن کے موضوعات یہ ہیں: قرآن ،حدیث، سیرت، فقہ، شریعت، معیشت وتجارت، اس کے علاوہ اردو میں ان کی کتب یہ ہیں:
۱۔ قانون بین الممالک ۲۔ اسلام اور مغرب تعلقات ۳۔ مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم ۴۔ اسلامی بنکاری ایک تعارف ۵۔ ادب القاضی ۶۔ قرآن مجید ایک تعارف۔
ڈاکٹر صاحب انتہائی متدین اور حد درجہ متقی شخص تھے، بر س ہا برس کا مشاہدہ ہے کہ سرکاری ودفتری ذمے داریوں میں سرکاری مراعات سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ڈاکٹر صاحب کا وجود عالم اسلام کے لیے بسا غنیمت تھا، بین الاقوامی فورم پر اسلام اور پاکستان کی نمائندگی کا جو سلیقہ ڈاکٹر صاحب کو حاصل تھا، اس کی مثال کم ملے گی۔ پھر علم وفضل اور دینی حمیت وتصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم وحکمت کی دولت سے آراستہ تھے، جس سے وہ ایسے مواقع پر پھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔
ڈاکٹرصاحب حافظ قرآن تھے اورقرآن حکیم سے ڈاکٹر صاحب کا شغف نہایت غیر معمولی تھا، اور یہ شغف اوائل عمر ہوتے ہی عطا ہوا تھا، اور جب وقت ملتا تلاوت میں مشغول ہوجاتے،دوران سفر خاص کر یہی معمول رہتا، جس کیگواہی آپ کے ہم راہ سفر کرنے والے سب ہی دیتے ہیں۔ راقم کا اپنا مشاہدہ ہے کہ جب کبھی میں آپ کو لینے اےئر پورٹ گیا تو آپ اندر سے زیر لب تلاوت کرتے ہوئے نکلے۔آپ کو بچپن کے ساتھی اور ملک کے معروف قاری ،قاری احمد میاں تھانوی نے ڈاکٹر صاحب کے جنازے کے موقع پر بیان کیا کہ اسلام آبادمیں ابتدائی زمانے میں ہم اکھٹے پڑھتے اور اکھٹے ہی زیادہ وقت گزارتے،ہم شام میں اکھٹے چائے پیتے،جو اکثر ڈاکٹر صاحب پلاتے،پھر گھر کو جاتے ہوئے راستے میں ایک جگہ آتی جہاں خاموشی ہوتی،ہم ایک ٹوٹی ہوئی دیوار پر بیٹھ جاتے اور ڈاکٹر صاحب انہیں کہتے کہ میں نے چائے پلائی ہے ، اب تم قرآن سناؤ، میں تلاوت شروع کرتا، اور کچھ نصف نصف گھنٹے تک قرآن پڑھتا رہتا اور ڈاکٹر صاحب سنتے رہتے۔زمانۂ طالب علمی میں قرآن کریم سے تعلق کا یہ حال تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے،مگر ان کی نہایت نمایاں خدمت جس کا تعلق عصرحاضر سے ہے وہ ان کی تنقید مغرب ہے،ڈاکٹر صاحب نے نہایت مرتب انداز میں مغرب اور اس کے فلسفہ حیات کا مطالعہ کیا،ان کی نفسیات کو جانچا ،ان سے مکالمے کئے،ان کا قریب سے مشاہدہ کیا،پھر ان کے طرز فکر،فلسفہ حیات،نظام معاشرت،اسلوبِ تعلیم اور اندازِ زیست پر کھل کر تنقید کی۔ڈاکٹر صاحب قدیم و جدید کے ایسے جامع تھے جن کے ہاں دونوں پہلوؤں میں غیر معمولی توازن دکھائی دیتا ہے،یہی سبب ہے کہ ان کے ہاں نہ دینی حوالے سے مداہنت ملتی ہے نہ مغربی حوالے سے مرعوبیت،ان کے اظہار ماضی الضمیر کی راہ میں کوئی چیز کبھی حائل نہیں ہو سکی،یہ خوبی ان کی تحریروں اور فکر کو نہایت قیمتی بنا دیتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تنقید مغرب یوں توان کی بہت سی تحریروں میں نظر آتی ہے،بلکہ زیادہ تر تحریریں چوں کہ عصری تناظر رکھتی ہیں خواہ اس کا تعلق تعلیم سے ہو یا فقہ وقانون سے،یا شریعت اسلامی سے،مگر ان کے خاص وہ مضامین جو مغرب سے تعلق رکھتے ہیں’’اسلام اور مغرب تعلقات‘‘کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں یہ مجموعہ چھ موضوعات پر مشتمل ہے۔
(۱) اسلام اور مغرب۔موجودہ صورتِ حال،امکانات،تجاویز
(۲) مکالمہ بین المذاہب۔مقاصد،اہداف،اصول و ضوابط
(۳) نئے عالمی نظام کی تشکیل اور امتِ مسلمہ کی ذمے داریاں
(۴) مغرب کا فکری اور تہذیبی چیلنج اور علماکی ذمے داریاں
(۵) دفاعِ اسلام اور مسیحیت
(۶) علامہ اقبال کی تنقید مغرب
ان میں سے سب سے پہلا عنوان خاصے کی چیز ہے، اور اس موضوع پر تکمیلی شان کا حامل ہے۔یہ دراصل ڈاکٹر صاحب کا ایک خطبہ ہے،جو ہمارے ادارے دارالعلم والتحقیق ،کراچی کے زیر اہتمام پہلے مولانا سید زوار حسین شاہ ؒ یادگاری خطبے کے طور پر پیش کیا گیا تھا،یہ ادارے کا افتتاحی پروگرام بھی تھا،جو۱۵ اگست۲۰۰۷ء کو کراچی میں منعقد ہوا تھا،اس کو اہلِ علم کے ہاں بہت پزیرائی حاصل ہوئی،یہ ڈاکٹر صاحب کی نظر ثانی کے بعد پہلے علیحدہ کتابچے کی صورت میں شائع ہوا،پھر اسے موجودہ کتاب کا حصہ بنایا گیایہ مضمون مجموعی طور پرمغرب کی موجودہ صورتِ حال،ان کی ذہنی کشمکش،ان کے حوالے سے مسلمانوں کے نظریات میں تفاوت او راختلاف اور اس سلسلے میں ایک نہایت معتدل نقطہ نظر کا احاطہ کرتا ہے،جس کے پس منظر میں اسلام اور مغرب تعلقات کی تاریخی،موجودہ معروضی حالات،مغرب اور ہماری ضرورتیں اور ان کی اور ہماری کمزوریاں سب ہی شامل ہیں ،ڈاکٹر صاحب نے اپنے علم و فضل ،مشاہدے اور مکالمے سب کی روشنی میں ایک مفصل جائزہ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے ،جو ہمارے لئے راہِ عمل متعین کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی خوبی یہ ہے کہ ان کی تحریر میں کہیں پر بھی ذرا مداہنت کاتصور موجود نہیں ہے نہ مغرب سے مرعوبیت کی کوئی ادنیٰ جھلک ان کی تحریروں میں نظر آتی ہے،ڈاکٹر صاحب مغرب کے سیکولر ازم کے نعرے سے قطعاً متأثر نہیں ہوتے،وہ اسے مغرب کی ایک چال سمجھتے ہیں، آپ نہایت وضاحت سے لکھتے ہیں:
یہ کہنا کہ مغربی دنیا سیکولر ہے، اس لئے اسے مذہبی مفادات سے دل چسپی نہیں ہے، یہ پرلے درجے کی بے وقوفی اور افسوس ناک درجے کی سادہ لوہی ہے۔مغربی دنیا کو پوری دنیا میں عیسائی مفادات سے کم از کم گزشتہ چار سو سال سے دل چسپی چلی آرہی ہے۔آج بھی امریکہ اور یورپ کے ہر ملک کودنیا بھر میں مسیحی مفادات سے مکمل دل چسپی ہے۔عیسائی مفادات کو فروغ دینے میں ان کی ساری حکومتیں ایک آواز اور ایک دوسرے کے ساتھ متفق اللفظ ہیں۔دنیائے اسلام میں عیسائیت کوفروغ دینا مغربی ریاستوں کا طے شدہ ایجنڈہ ہے۔دنیائے اسلام میں عیسائیت کی آبادی میں اضافہ کرنا اور پھر ان عیسائی آبادیوں کے لئے دنیائے اسلام میں سے الگ عیسائی ریاستیں کاٹنا اور اس بنیاد پر مسلم مملکت کو تقسیم کرنا بھی ان کے پروگرام میں شامل ہے۔
کچھ عرصے سے مغرب نے ایک نیا نعرہ دنیا کو دیا ہے،عالم گیریت یا گلوبلائزیشن،یہ خوش نما نعرہ سادہ لوح مسلمانوں کو بھی بہت بھا تا ہے،مگر ڈاکٹر صاحب کے بے باک رائے اس باب میںیہ ہے:
ہمارے ہاں بہت سے لوگ سادہ لوحی میں یہ سمجھتے ہیں کہ گلوبلائزیشن ایک معاشی خوش حالی کا ایک پیغام ہے، میں نے اپنے ذمے دار لوگوں کو بات کرتے ہوئے سنا ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ گلوبلائزیشن ہو گا تو پتہ نہیں کیا کیا نعمتیں ابلنے لگیں گی۔دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔جب تک ہم ایک بات ذہن میں نہیں رکھیں گے کہ
ولن ترضی عنک الیھود ولا النصری حتی تتبع ملتھم(البقرۃ:۱۲)
یہود و نصاریٰ ہر گز ہرگز راضی نہیں ہوں گے،جب تک تم ان کی ملت کا اتباع نہیں کرو گے۔
قرآن پاک کا اعلان ہے ۔اور صیغۂ تاکید میں ہے،یہاں محض دین کا اتباع نہیں،ملت اس دین کو کہتے ہیں جس میں کلچر بھی شامل ہے، شعائر بھی شامل ہیں اور جس میں سویلائزیشن بھی شامل ہے۔ جب تک تم سو فیصد ان کے رنگ میں نہیں رنگ جاؤ گے وہ تم سے راضی نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر صاحب نے صرف مغرب کا فلسفہ پیش نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو ان کی ذمے داریوں کا احساس بھی دلایا ہے اور انہیں بیدار کرنے کی سعی کی ہے،اسی خطبے کے اختتام میں فرماتے ہیں:
اب گویا امریکہ واحد عالمی طاقت ہے۔مغربی فکر ہی اب حقیقی اور دیرپا فکر ہے،مغربی تہذیب ہی واحد تہذیب ہے۔ان کے صف اول کے اہل علم کی رائے میں اب تاریخ انسانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، ارتقا کا آخری مرحلہ طے ہو چکا ہے اور آخری مکمل انسان(بش اور اس کے مغربی اتباع کی صورت میں)وجود میں آچکا ہے۔ان حالات میں بھی اگر دنیائے اسلام کے اہل فکر نے اپنی ذمے داری محسوس نہ کی اور فوری طور پر دنیائے اسلام کی فکری اور تہذیبی آزادی کے لئے کام نہ کیاتو طوفان سر سے گزر جائے گااور جو تھوڑی بہت فرصت عمل آج باقی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔غرض یہ گھڑی محشر کی ہے اور دنیائے اسلام عرصہ محشر میں ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی فکر کے یہ گوشے نہایت وقیع ہیں ،ان کا کام اپنے ہر شعبے میں گراں قدر اور ہمارے لئے راہ نما ہے۔مغرب کی موجودہ یلغار کا مطالعہ محض خام جذباتیت ،کھوکھلی نعرے بازی اور گرم بیانات سے نہیں کیا جا سکتا،پہلے مرحلے میں مکمل دینی واقفیت،بلکہ علوم اسلامی میں مجتہدانہ دست رس،پھر مغربی فلسفۂ فکر و حیات سے مکمل واقفیت، طبیعت میں توازن،ارداے میں پختگی،مزاج میں تصلب اور عدم مرعوبیت درکار ہے،اور افسوس کہ یہ خوبیاں ڈاکٹر صاحب کے بعد کسی اور میں دیکھنے کو آنکھیں ترس رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، اور ان کی مساعی کو قبول فرمائے۔ ایسی شخصیات صدیوں میں بھی کم ہی پیدا ہوتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment