''قیامت کاالارم''ایک جائزہ کتاب وسنت کی روشنی میں
مولاناوحیدالدین کانام اب محتاج تعارف نہیں رہا۔راقم الحروف کی ذاتی رائے ہمیشہ سے ان کے بارے میں یہ رہی ہے کہ معاشرتی اورملکی امور میں ان کی گہری نگاہ ہے اورملت اسلامیہ کو اس باب میں ان سے استفادہ کرناچاہئے۔اسی طرح انہوں نے فلسفہ اورسائنس کاگہرامطالعہ کیاہے جس پران کی کتابیں شاہد عدل ہیں۔لیکن جب بات دینی امور کی آتی ہے تومتعدد امور پر ان کی رائے ایسی رہی ہے جسے فکری شذوذہی کہاجاسکتاہے اپنی اس رائے میں وہ کبھی اس حدتک پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ اعتقادی امور کی جن پر امت کا اجماع رہاہے اس کی تاویل اورایسی تاویل جوکہ جمہور علماء امت کے خلاف ہوکرنے سے پرہیز نہیں کرتے۔اس لئے میری مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ ملکی ،معاشرتی اورفلسفہ وسائنس کے بارے میں ان کے علم سے استفادہ کریں لیکن دینی امورمیں ان کی رائے پر عمل مناسب نہیں ہے۔
مئی 2010کا الرسالہ کاعنوان ہے ''قیامت کاالارم'' جس میں انہوں نے تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ قیامت کس قدرقریب آگئی اورقیامت سے پہلے واقع ہونے والی جن علامتوں اورنشانیوں کی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی تھی اس کی تاویل وتوجیہ کی ہے۔اس میں انہوں نے قیامت سے پہلے واقع ہونے والی نشانیوں کی جوتاویل کی ہے وہ ایسی ہے جو ارشادات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مطابقت نہیں رکھتی۔اس لئے مناسب محسوس ہواکہ اس بارے میں کچھ تحریر کیاجائے اورجہاں جہاں میرے خیال کے مطابق انہوں نے ارشادات رسول کی تاویل وتوجیہ میں لغزش کی ہے اس کی نشاندہی کی جائے۔اللہ حامی وناصرہو۔
مولانا وحیدالدین خان کے خیال میں قیامت کی پانچ بڑی نشانیاں ہیں چنانچہ ان نشانیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں
''قرآن وحدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ انسانی تاریخ کے خاتمہ سے پہلے کچھ واضح نشانیاں ظاہر ہوں گی ،جوگویاانسانی تاریخ کے خاتمہ سے پہلے کچھ واضح نشانیاں ظاہرہوں گی ،جوگویاانسان کیلئے آخری وارننگ کے ہم معنی ہوں گی۔ان نشانیوں کے ظہور کے بعد خدافرشتہ اسرافیل کو حکم دے گا وہ ایک صورپھونکیں گے اورپھراچانک انسانی تاریخ اپنے عارضی دور سے گزر کر اپنے ابدی دور میں داخل ہوجائے گی۔یعنی عمل کے دورکاخاتمہ اورانجام کے دورکاآغاز،قیامت سے پہلے ظہار ہونے والی یہ نشانیاں خاص طورپرپانچ ہوں گی۔ قرآن وحدیث کے بیان کے مطابق یہ نشانیاں حسب ذیل ہیں۔1یاجوج اورماجوج کا خروج۔2دجال کا ظاہر ہونا۔3مہدی کا ظہور۔4مسیح کا نزول۔5موسمیاتی تبدیلی''۔(قیامت کا آلارم صفحہ2)
مولانا وحیدالدین خان کے خیال کے برعکس احادیث سیے معلوم ہوتاہے کہ ان کے ذکر کئے گئے پانچ نشانیوں کے علاوہ دیگر نشانیاں بھی ظہور پذیر ہوں گی جن کا صحیح حدیث میں وضاحت سے ذکر ہے ۔مثلا سورج کا مشرق کے بجائے مغرب سے نکلنااوردابتہ الارض کا ظہور،قران کااٹھالیاجاناوغیرہ وغیرہ۔یہ احادیث ایسی نہیں کہ جس کو ضعیف اورموضوع کہہ کر رد کردیاجائے بلکہ یہ احادیث بالکل صحیح ہیں۔اورویسے بھی علامات قیامت پر جوکتابیں لکھی گئی ہیں اس میں اس کے علاوہ بھی دیگر علامتوں کا ذکر ہے۔
حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورہم اس وقت کسی چیز کا آپس میں مذاکرہ کررہے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کس چیز کے بارے میں بات کررہے ہو،صحابہ نے عرض کیا ہم قیامت کے بارے میں بات کررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
قیامت سے پہلے لامحالہ دس نشانیوں کا ظہور ہوگا۔ پھرآپ نے فرمایا۔(وہ دس نشانیاں یہ ہیں)دھواں،دجال،دابہ،سورج کا مغرب سے طلوع ہونا،عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا،یاجوج ماجوج،زمین میں دھنسادیئے جانے کے تین واقعات،ایک مشرق میں ،ایک مغرب میںاورایک جزیرہ عرب میں ،اورآخر میں ایک آگ یمن سے نکلے گی جو لوگوں کو محشر کی جانب ہنکاکرلے جائے گی۔(صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة)اس کے علاوہ اوربھی دیگر احادیث ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا،اوردابہ کا ظہور بھی شامل ہے۔
مولانا وحیدالدین خان کا خیال ہے کہ پہلے یاجوج ماجوج کا خروج اوراس کے بعد دجال کا ظہور ہوگا ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
'قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی یہ نشانیاں خاص طورپر پانچ ہوں گی۔قران اورحدیث کے مطابق یہ نشانیاں حسب ذیل ہیں
1یاجوج اورماجوج کا خروج۔2دجال کا ظاہر ہونا۔3مہدی کا ظہور۔4مسیح کا نزول۔5موسمیاتی تبدیلی''۔(حوالہ سابقہ)
مولاناوحیدالدین خان نے اسی ترتیب کے ساتھ تمام علامتوں کو بیان کیاہے اوراسی کو وہ درست سمجھتے ہیں چنانچہ وہ صفحہ پر لکھتے ہیں
''روایات کے مطابق یاجوج اورماجوج کے زمانہ میں دواوربڑے واقعات پیش آئے ہیں۔ایک یہ کہ اس زمانہ میں دجال یادجاجلہ (صحیح مسلم ،کتاب الفتن)کاظہورہوگا۔'')
مختلف حدیثیں ایسی ہیں جس میں علامات قیامت کو بیان کیاگیاہے لیکن اس میں کسی ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھاگیاہے باوجود اس کے مجھے کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس میں خروج دجال کو یاجوج ماجو ج کے بعد بتایاگیاہوبلکہ تقریباتمام حدیثوں میں بعض دیگر علامتوں مثلادخان،سورج کا مشرق سے طلوع ہونا وغیرہ اس میں آپس میں ترتیب میں کچھ الٹ پھیر ہے لیکن ہرجگہ اولاخروج دجال ہے اوراس کے بعد یاجوج ماجو ج کے خروج کابیان ہے۔
امام مسلم حضرت حذیفہ بن سید الغفاری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف لائے اورہم لوگ آپس میں کسی شئے کاتذکرہ کررہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیاچیز موضوع گفتگو ہے۔صحابہ نے عرض کیاہم قیامت کے بارے میںگفتگو کررہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''قیامت سے پہلے دس نشانیاں ظاہرہوں گی۔ پھرفرمایادخان،دجال،دابة طلوع الشمس من مغربھا نزول عیسی بن مریم ،یاجوج ماجوج،زمین میں تین مرتبہ دھنسے کا حادثہ،اورآخر میں ایک آگ جویمن سے نکلے گی اوران کو گھسیٹ کر محشر کی جانب لے جائے گی۔(صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة)
حضرت حذیفہ سے ہی مسلم میں دوسری روایت موجود ہے جس میں اسی مذکورہ ترتیب میں الٹ پھیر کا واقعہ ہے۔اسی کے ساتھ حضرت ابوہریرہ سے بھی امام مسلم نے علامات قیامت کی ایک حدیث روایت کی ہے جس میں چھ علامات کا ذکر ہے اورانہی سے مروی دوسری روایت میں ان چھ علامتوں کی ترتیب پہلے سے مختلف ہے۔اسی کے ساتھ ایک روایت ہے جس میں حضرت ابن عمر نے تاکید کے ساتھ بیان کیاکہ علامات قیامت میں سے سب سے پہلی علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہوناہے۔(حضرت ابن عمرکی یہ روایت بھی مسلم شریف میں کتاب الفتن واشراط الساعة میں موجو دہے)
علامات قیامت کے متعلق ترتیب میں اختلافات کے تعلق سے بہترین حل وہ ہے جو حافظ ابن حجر نے پیش کیاہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں۔
''الذی یترجح میں مجموع الاخبار ان خروج الدجال اول الآیات العظام الموذنة بتغیرالاحوال العامة فی معظم الارض،وینتھی ذلک بموت عیسی علیہ السلام،،وان طلوع الشام من المغرب ھواول الآیات العظام الموذنة بتغیراحوال العالم العلوی ،وینتھی ذلک بقیام الساعة ولعل خروج الدابة الذی تطلع فیہ الشمس من المغرب''۔حدیثوں کے مطالعہ کے بعد جوبات راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ دجال کا نکلنازمین میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی نشانی میں سے پہلی نشانی ہوگی اوراس کی انتہاحضرت عیسیٰ علیہ السما کے وفات پرہوگی اورسورج کامشرق سے طلوع ہونا وہ عالم علوی کی بڑی تبدیلیوں میں سے پہلی تبدیلی ہوگی اوراس کی انتہاقیامت پر ہوگی ،اورشاید دابة کا خروج سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے فوری بعد ہوگا تاکہ توبہ کا دروازہ جو بند ہوچکاہے اس کے بعد مومن اورمنافق کے درمیان قطعی تمیز کردی جائے ،اورقیامت کی پہلی نشانی وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو محشر کی جانب ہنکاکرلے جائے گی۔(فتح الباری 11/353)