visitors

free counters

Saturday 11 June 2011

تقسیم ہند کا ذمہ ِ دار کون؟


تقسیم ہند کا ذمہ ِ دار کون؟
ڈاکٹر شمس جیلانی کینیڈا
ہندو ستان کی تقسیم کے عوامل سمجھے بغیر اس کا فیصلہ کر نا نا ممکن ہے کہ یہ کس نے کی یاکرائی؟ کیو نکہ مسلم قو م کی یہ بد قسمتی ہے کہ جس کو علم حاصل کرنے کا حکم تھا علم میںو ہی پیچھے رہ گئی نتیجہ یہ ہوا کہ میڈ یا غیروں کے ہاتھ میں رہا اور جو انہوں نے پڑھا دیا وہ ہی ہم نے سچ جانا۔ سب سے پہلے میڈیا کی اہمیت کا احساس جب ہوا ،جب کے بنگا ل انیس سو پانچ میں تقسیم ہوا اور ہندو اکثریت نے ایک طو فان سر پر اٹھا لیا کہ جیسے کو ئی آ سمان سرپر گر پڑا ہو ۔با ت صرف اتنی سی تھی کہ انگریزوں نے اپنی انتظامی مشکلات محسو س کرتے ہو ئے یہ ایک انتظا می فیصلہ کیا تھا ۔ بنگا ل انگریزی انتدا ب سے پہلے اپنی کو ئی قدرتی حد بندی نہیں رکھتا تھا، انگریز علاقے تسخیر کرتے گئے اور اور بنگال عظیم تر بنتا گیا۔ حتیٰ کہ بہار آ سام اوراڑیسہ سب اس میں شامل ہوتے تھے۔ پھر انہوں نے انتظا می ضرو رت کے تحت علیحدہ کر دیئے مگر اس پر کبھی اعتراض نہیں سنا۔لہذا اس کا جواب دینے کے لئے نواب آف ڈھاکہ نے مسلم ایجو کیشنل کانفرنس ١٩٠٦ء میں ڈھاکہ میں بلا ئی جو کہ مسلم لیگ کے قیام کا باعث ہو ئی۔اور پہلا مسلم بنگا لی اخبار اسی کا صدقہ تھا ۔اسکے بعد کچھ مسلم اخبار جا ری ہوئے اور ضبط ہوئے۔ان مسلم صحافیوں میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خا ن اور مو لانا حسرت مو ہا نی اور تحر یک پا کستان کے قریبی دور میں با بائے صحا فت میر خلیل الر حمان اور چو دھری خلیق الزماں اور ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین قابلِ ذکر ہیں۔ گو کہ ان تمام کو ششوں کے با وجود بنگال کی تقسیم تو قا ئم نہ رہ سکی کیو نکہ ١٩١١ء میں وہ تقسیم اکثر یت کے مسلسل احتجا ج کی بنا پر منسو خ کردی گئی۔ لیکن مسلم اقلیت میں یہ ا حسا س جگا گئی کہ ہمیں اپنے حقوق کی حفا ظت کے لئے کچھ کر نا چا ہئے۔اور اس کا آخری نتیجہ پا کستان کی شکل میں بر آمد ہوا۔یہاں تک پہنچنے کے لئے کس کٹھن راستے گزر نا پڑا اس کا احا طہ ان چند صفحات توممکن نہیں مگر ایک ہلکا سا عکس پیش کرنے کی کو شش کرو نگا۔

پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قا ئدِآ عظم محمد علی جنا ح کو مسلم ہندو اتحاد کے ایک بہت بڑے محرک کے طور پر پہچا نا جا تا تھا اور مسز سرو جنی نا یئڈو نے ان پر ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں انہیں ،، سفیرِ اتحاد،، کا خطاب دیاتھا۔یہ وہ دور تھا کہ ابھی گاند ھی جی ہند وستان نہیں پہنچے تھے اور ما سٹر جو ً جنہیں ہم جوا ہر لال نہرو کہتے ہیں عہد طفو لیت سے بھی نہیں نکلے تھے اور نہ ہی اکسفو رڈ میں پہنچ کر لٹل ماسٹر جو ً بنے تھے۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ انہیں کیا ہوا کہ وہ اتحاد سے مایوس ہو کر الٹی سمت چل پڑے؟ اور وہ ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان بڑے جو ش و خرو ش سے اتحاد کے لیے آگے بڑھے اور پھر بد د ل ہوکر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے ،یا تھک کر بیٹھ گئے ان میں ڈاکٹر انصاری اور مو لانا حسرت مو ہانی اور علی برادران قابلِ ذکر ہیں۔بلکہ مولانا محمد علی جوہر تو یہا ں تک چلے گئے کہ گاند ھی جی کو مسجد لے جاتے تھے اور خود مندر میں جاتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے خلافت تحریک کو اچانک روکد یا تو مو لانا کو شا ید اصل چہرہ نظر آگیا اور انہو ں نے لکھنؤکے ایک جلسے عام میں یہ تک کہد یا کہ میرے نزدیک ایک چور اور بد چلن مسلمان گاند ھی سے بہتر ہے۔ وجہ کیا تھی کہ یہ سب اتحا د کی کوششو ں میں کیوں فیل ہو ئے؟ وہ وجہ یہ تھی کہ جمہو ریت نے اقدار بد ل دی تھیںاور اگر خوفِ خدا نکل جائے تو انسان اپنی تمام ترخو بیا ں بھو ل کر خود غرض ہو جاتا ہے اور سیکو لر ازم کا پہلا اصول یہ ہے کہ مذ ہب انسان کا ذاتی فعل ہے؟ اس میںاکثریت ہمیشہ قابل ِ تر جیح ہے تو جن کو اکثر یت حاصل ہے تو وہ اقلیت کی بات کیو ں سنیں اور دوسری طرف اقلیت کو ہر وقت اپنی بقا کی فکر رہتی ہے ۔ تو بات بنتی تو کیسے بنتی ،جبکہ وہاں صرف سکولر ازم نہیں بلکہ لینن کے چیلے کر شنا مینن اور جواہر لال نہرو اور انکے بہت سے دو سرے ساتھی بھی تھے ۔

یاد رہے کہ کانگریس میں شامل ہو نے سے پہلے نہرو جی لیبر یوتھ یو نین کے پورے ہندو ستان کی سطح پر صدر ہی نہیں بلکہ فاؤنڈر تھے ۔ اور اس مرض میں وہ آکسفورڈ کے زمانے ہی میں مبتلا ہو گئے تھے ہوگئے تھے۔ اور اپنے والد مو تی لال نہرو کے لئے سو ہانِ رو ح بنے ہوئے تھے ، پھر دو سرے شوق اور اصراف کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ مقروض رہتے تھے ۔ آخر ان کے والد نے تنگ آکر انہیںواپس بلانے کا فیصلہ کیا ۔انہو ں نے ایک سال کی مہلت مانگی جو دیدی گئی ۔مگر آخر میںآ نا پڑا اب یہا ں شادی کا مسئلہ تھا انکے والد اور والدہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ انکی بہو کوئی غیر ذات کی ہو جبکہ یہ کہیں اور چاہتے تھے وہا ں عام پنڈتن کی بھی گنجائش نہیں تھی صرف کشمیری پنڈت خاندان میں ہی شادی ہو سکتی تھی۔شادی تو ہو گئی مگر وہ بیوی کو کبھی پسند کا در جہ نہیں دے سکے ؟آ خر وہ بری طرح تپِدق کا شکار ہو کر سورگ باشی ہو گئیں و ہ کس کرب سے گزریں آ پ اس سے اندا زہ لگا لیں کہ تپِدق کھا تے پیتے گھرانوں کا کبھی مرض نہیں رہا۔میں نے تفصیل اس لئے بتائی کہ اگر آپ کسی کی نفسیات اور عقا ئد نہ جانتے ہو ں تو بات کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ موتی لال نہرو کو ایک مرتبہ انہوںنے اور مایو س کیا جب انہو ں نے چا ہا کہ یہ ان کی پریکٹس سنبھا ل لیں مگر وہ ابھی تازہ بہ تازہ کمیو نسٹ کانفرنس میں شر کت کر کے یورپ سے واپس آئے تھے، لہذا یو نین سازی کو تر جیح دی جبکہ موتی لال نہرو پینسٹھ سال کے ہو گئے تھے اور گھلتے گھلتے اپنی صحت بری طرح کھو تے جارہے تھے۔وہ مد د کے لئے بیٹے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسرادہچکہ جب لگا کہ انہو ںنے اور گاند ھی جی نے انہیں کانگریس کا صدر بنانا چا ہا تو انہو ںنے یہ کہہ کرانکارکردیا کہ یہ میرے مشن کے ساتھ غداری ہو گی اور یہ قدامت پسند لو گ اپنے بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔بہت دباؤ کے بعد بہت بعد میں وہ راضی ہو گئے ،جہاں سے تا ریخ کا رخ مڑنا شروع ہوا ،پہلی دفع جب وہ نظر توآئے تو اس کمیٹی میں نظر آئے جو کہ زیرِ صدارت ڈاکٹر انصاری کانگریس نے بنائی تھی جس کے وہ اور لالہ لجپت رائے۔اور مدن مو ہن مالو یہ وغیرہ رکن تھے ۔ اس کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوا البتہ تلخی اتنی بڑھی کہ لالہ لجپترائے جو کہ کبھی کانگریس کے صدر تھے ا انہوں نے کمیو نل ہندونیشلٹ پارٹی کے نام سے پارٹی بنالی اوروہ ١٩٢٨ ء میں ہی یہا ں تک چلے گئے کہ انہوں نے کہدیا کہ اب اسکے سوا دستور ی مسائل کاکو ئی حل نہیں ہے کہمسلمانوں کے اکثر یتی علا قوں کو علیحدہ کرکے ان سے جان چھٹائی جائے اور اس طرح پہلی دفعہ خود اکثریت کہ ایک رہنما نے یہ بات نکالی۔ خیر وہ تو سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے لاٹھی چار ج میں کام آگئے۔ مگر تاریخ میں نام چھوڑ گئے اور مسلمانو ںنے جو بات اپنے منہ سے نہیں کہی تھی وہ ان سے نکل گئی ا ور پریس کو ایک مو ضو ع مل گیا اور انہوں نے اسے پاکستان کا طنزیہ طور پر نام دیدیا یعنی پاک لوگوں کی سر زمین ۔مسلمانوں نے اس نام کو بہت بعد میں استمال کیا آپ دیکھیں گے کہ ١٩٤٠ ء قرار داد پاکستاں جو مینار پاکستان پر درج ہے اس میں مملکت نام مو جود نہیں ہے ۔بلکہ مسلم صو بوں کی یو نینز ہیں ۔ سر کاری طور پر پاکستان کا نام قراداد ِپاکستان ١٩٤٦ء میں ہے۔ جو کہ تمام ہندوستان کے مسلم لیگی منتخب نمائندوں پاس کی تھی چونکہ اس کے محرک حسین شہید سہروردی مر حوم تھے اس لیئے ہماری تاریخ میںاس کو کوئی خا ص اہمیت حا صل نہیں دی گئی۔

موتی لال نہرو کے دباؤ میں آکر انہو ں نے مشہور زما نہ نہرو رپورٹ تو تیار کی لیکن جب یہ ہی رپور ٹ کانگریس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئی تو انہوں نے اس کے خلاف تقریر کی اور صاف ،صاف کہدیا کہ میں کسی مذہبی تقسیم کو نہ ہی تسلیم کر تا ہوں، نہ اس کے حق میں ہو ں کہ مذہب کی بنیاد پر الیکشن یونٹ بنائے جائیں ۔میں سو شلٹ نظا م کے حق میںہوں ،آپ لوگ کیا چا ہتے کہ ہم ایک فرد جناح یا اقلیت کے سامنے جھک جا ئیں؟ وہ قراراد تو گاندھی جی اور موتی لال نہروکی کو ششوں سے کانگریس سے پاس ہوگئی۔ مگر اس کے مصنف چو نکہ بظاہر نہرو تھے اور انکے شوق خود نمائی نے پہلے ہی میڈیا کے ذریعے کافی غلط فہمیاں پیدا کردی تھیں۔ لہذا مسلم لیگ نے جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کاکنوینر ر ا جہ صاحب آف پیر پور، را جہ مہدی علی خان مرحوم کو مقرر کیا اور انہو ں نے عبدالحئی عباسی مرحوم کی معیت میں ترائی کی ایک اسٹیٹ ڈھکیامیں بیٹھ کراسکا جائزہ لیا اور اس کی روشنی میں لکھنؤ کے اجلاس میں مسلم لیگ نے نہرو رپورٹ رد کردی۔ چونکہ دستور ساز ی کی ساری اساس ڈو مینین پر تھی۔ نہرو سو شلسٹ وحدانیت کے حامی تھے اور جبکہ مسلم اقلیت بطور سیف گارڈ ایک تہائی سیٹیں مانگ رہی تھی ،بات بنتی تو بنتی بنتی کیسے؟

اسی دوران ١٩٣٥ء کے انتخابات جدا گانہ اصول ِ رائے دہندگی کے تحت منعقد ہو ئے۔ اس میں مسلم لیگ کافی سیٹیں ملیں، مگر اتنی نہیں جیسی امید تھی۔ کیونکہ کانگریس نے اپنے مسلم امیدوار بھی مقابلہ پر کھڑے کیئے تھے۔ پھر بھی یو پی میں مسلم لیگ کوتئیس نشستیں مل گئیں ۔مگر یہاں بھی پھر نہرو جی ہی آڑے آئے ؟ گو کہ کانگریس پارلیما نی پارٹی اس کے حق میں تھی کہ دو سیٹیں صو بائی وزارت میں مسلم لیگ کو دے کر کو لیشن بنا لی جائے ،اور وعدہ بھی کر لیا گیا۔ مگر بعدمیںنہرو جی نے ،پر شو تم داس ٹنڈن کے کہنے پرجو کے کانگریس کا ہمیشہ سے رائٹ ونگ سمجھے جاتے تھے اس معاہدہ کی مخالفت کی کہ مسلم لیگ کے جتنے ممبر ہیں اس حساب سے صرف ایک سیٹ مل سکتی ہے۔یہا ں صو رت حال یہ تھی کہ نواب اسمعٰیل خان اور چو دھری خلیق الزماں دونو ں کو اگر لیا جاتا تو مسلم لیگ یو پی کی حکو مت میں شامل ہونے کو تیار تھی ورنہ نہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ چو دھری خلیق الزماں کا وہ مشہور جملہ سنا ئی دیا کہ میرا سائیس نہرو سے زیادہ سیا ست جانتا ہے ؟اور وہ مخالفت میںاتنے سرگرم ہوئے کہ یو پی کو پوری طرح محرک دیا جو کہ مسلم لیگ کی مضبو طی کا باعث ہوا اور آخر میں مسلم لیگ کی نشا تِ ثانیہ کا باعث اور تحر یک پاکستا ن کا ہر اوّل دستہ بن گیا۔ اسکے بعد تاریخ آگے بڑھتی گئی اب وہ دور آ گیا کہ ہندو ستان میں وزارتی مشن (کیبنٹ مشن) وارد ہوا از سر نو ساری باتیں چلیں اور اسوقت بد قسمتی سے ابو الکلام آزاد سات سال کے بعد اپنے ضمیر کی آواز پر اتنے پریشان تھے کے انہو ںنے ہر حالت میںصدارت چھوڑنے کا فیصلہ کا فیصلہ کر لیا ۔ گا ندھی جی یہ چاہتے تھے ان کے گجراتی لیفٹیننٹ ولبھ بھائی پٹیل کو صدرِ کانگریس لایا جائے چونکہ مولانا خو د بھی سو شیلسٹ خیا ل کے آ دمی تھے اس لیے نہرو سے گاڑھی چھنتی تھی لہذا انہو ںنے اپنی جا نشینی کے لئے نہرو کو پسندکیا (جس پر بقول انکے انہیں زندگئی بھر افسوس رہا ۔ اس کے لیئے انکے وہ انڈیا ونز فریڈم کے آخری تیس صفحات ملا حظہ فر مالیں )۔یہ وہ وقت تھا کہ جب اتحاد کی کو ششیں بار آور ہو چکی تھیں۔ قا ئدِ آعظم کیبنٹ پلان تسلیم کرچکے تھے اور قوم کو یہ کہہ کر مطمئن کرچکے تھے میں اس سے زیا دہ قوم کے لیئے اور کچھ حا صل نہیں کر سکتا تھا؟طے یہ ہوا تھا کہ صو بو ں کی یو نینزہو نگی ایک مسلم اقلیت کا گروپ مغرب میں اور ایک مشرق میں اور صوبے داخلی امور میں خود مختار ہونگے بھارت ایک ڈومینین ہو گا مرکز کے پاس صرف تین محکمے ہونگے اور دفا ع، خارجہ اور مالیات ۔ لیکن نہرو جی نے بطور صدر اپنی پہلی ہی پریس کانفرنس میں اس پر یہ کہہ کر پا نی پھیر دیا ہم کسی بات کے بھی پابند نہیں ہو نگے۔ دستور ساز اسمبلی ایک خودمختا ادارہ ہوگی اور وہ جس میں چاہے اور جو چاہے تر میم کر سکے گی۔ اس بیا ن کا آنا تھا کہ اصل نیت کانگریس کی واضح ہوگئی۔ بعد میں کانگریس نے قرارداد پاس کی کہ یہ نہرو جی کے ذاتی خیالات ہیں ہم معا ہد کے پا بند ہیں ۔مگر قا ئدِ آعظم پہلے ہی نہرو کی بدلتی ہو ئی باتوںکی بنا پرا نہیں پسند کرتے تھے ۔ لہذا یہ بیان اتحاد کے تابوت میں آخر ی کیل ثا بت ہوا۔ لاردڈ مائو نٹ بیٹن وائسر ائے بن کر آگئے

ایک دفعہ پھر بات چیت کا دور شروع ہوامسلم لیگ آ خر میں انٹرم حکو مت میں شامل ہو گئی جبکہ پہلی انکاری تھی ۔ چونکہ کانگریس نے پہلے ہی اس پیش کش کو تسلیم کرلیا تھا،سب محکمے کا نگریس کے پاس تھے ۔لہذا مسلم لیگ نے محکمہ داخلہ مانگا مگر پٹیل نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ لہذا محکمہ خزانہ مسلم لیگ کو دیاگیا کہ یہ ان کے خیال میں مسلمانوں کے بس کی بات نہ تھی۔ پہلے تو مسلم لیگ گھبرا ئی لیکن محمد علی چو دھری مرحوم کے ہمت بند ھانے سے مسلم لیگ نے تسلیم کرلیا اور اسطرح صیاد خود اپنے دام میں آگیا ۔اب تمام کا نگریسی وزیر اتنے بے بس تھے کہ بغیر وزارت خزانہ کی منظوری کے ایک چپراسی بھی بھرتی نہیں کرسکتے تھے ؟ اس پر جو اس نے بجٹ پیش کیا وہ کانگریس گوکہ کے دستور کے عین مطا بق تھا۔ مگر سرما یہ داروں کے لیئے تبا ہ کن۔ اور وہی کانگریس کے ان داتا بھی تھے لہذا اکثر یت نے فیصلہ کرلیا کہ اب پاکستان بنا ناہی ہے اس سے صرف دو آدمی متفق نہیں تھے ایک گاندھی جی اور دوسرے مو لانا آزاد۔ باقی سب ا سی پر ہی متفق ہو گئے کہ مسلما نوں سے اب جان چھڑانے میں ہی عا فیت ہے ۔تقسیم تو انہو ں نے اصولی طور پرمان لی تھی۔ مگر کو شش یہ رہی کہ پاکستان کو بننے سے پہلے ہی جتنا بھی کمزور کیا جاسکتا کیا جائے تاکہ آّزاد ہونے کے بعد انکا زیر دست دست بن کر رہے؟ اور ہماری قیادت یوں مجبور تھی کہ جو مانگ تھی وہ اسے مل رہا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نہ قا ئد ِآعظم کو پسند کرتا تھا نہ قائدِاعظم ا سکو پسند کرتے تھے لہذا ا اس بد اعتما دی کی فضا میں انکا خود گور نر جنرل بننااور جوکچھ ان حالات میں انہوں نے کیا وہ انکا درست فیصلہ تھا کہ انگریز کا دباؤ تھا کہ ہم معینہ تاریخ پر ہندوستان چھوڑ کر چلے جا ئیں گے۔کیونکہ ما ؤنٹ بیٹن نہرو کا دوست تھا مسلم دو ست نہیں تھا اور مسلم قیادت کا حالات پر قابو اس لیئے بھی نہ تھا کہ مسلم فو جیں ابھی تک مشرق بعیداور مشرق ِ وسطیٰ میں کسی منصوبے کے تحت انگریزوں نے جان کر رکھی ہو ئی تھیں یہ کمزوری بعد میں مشرقی پنجاب میں مسلم خسارے کا باعث بنی۔میں سمجھتا ہو ں کہ قا رئیں کے سمجھ میں اب یہ آگیا ہو گا کہ تقسیم کا ذمہ دار کون تھا؟

اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا جو لوگ دوبارہ اتحاد کی بات کرتے ہیں ۔ کیا ان کے خیال میںوہ تما م عوامل دور ہو گئے ہیں ،جس کی بنا پر پاکستان بنا یا گیا تھا ؟ مثلاً کیا مسلمانو ں نے اسلام اور اپنی ثقا فت سے تو بہ کرلی ۔ کیا بقول اندرا کے دو قومی نظریہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مر گیا،کیا اکثریت کو اب ہم سے ڈر نہیں ہے اور ہم کو اکثریت سے کو ئی خطرہ نہیں رہا۔اگر جواب اثبات میں ہے تو بسم ا للہ۔

لیکن ان میں سے آپ سب جانتے ہیں کو ئی بات نہیں بدلی سوائے اس کے کہ کمیو نزم اپنی موت ا پ مرگیا ۔ لہذا وہ کبھی بھی آپ کو واپس نہیں لینگے اگر انہیں ایسا کرنا ہو تا تو بنگلا دیش سے کیو ں واپس جاتے۔ اگر وہ اکھنڈ بھارت میں ہمیں اور بنگلا دیش کو شامل کر لیں، تو ہمارا آبادی کا تناسب چالیس فیصد ہو جائیگا اب جبکہ ابھی تیر ا فیصدہے، تو یہ عالم ہے کہ پچھلے دس پندرہ سال سے مسلمانوں یہ طے کرلیا ہے کہ وہ کا نگریس اور بی جے پی کو ووٹ نہیں دینگے ۔تو ان کے یہا ں عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے۔ اگر یہ تعداد چالیس فی صد ہو توحکو مت کس کی ہو گی؟جبکہ ہمارا تناسب ِ آبادی جو کہ آزادی کے وقت پچیس فیصدتھا اب چالیس فیصد ہو گیا ہے تو آئندہ ساٹھ سال میں کیا ہوگا ۔ جواب آپ پر چھو ڑتا ہوں؟

ان حالات میں پھر اتحاد کی کیا صورت رہ جاتی ہے۔ وہ صرف ،اور صرف ایک ہے کہ جس طر ح کینڈا ہمسایہ ہے یو نا ئیٹیڈ اسٹیٹ کا۔ ساتھ اگر آپ اس طرح رہنے کو تیار ہیں تو ہوسکتا ہے اس صورت میں اسے آپ کو بڑا بھا ئی ماننا پڑیگااور بس ۔کیونکہ کینیڈا میں اورہم میں بڑی مما ثلت ہے یہ بھی سوائے کیو بک کے۔ امریکہ بھی انگریزی انتداب میں تھا۔امریکہ نے ان سے لڑکے آزادی حاصل کر لی۔ کینیڈا شاہ پرست رہا، لہذا ابھی بھی کینیڈین ملکہ کی قسم کھاتے ہیں ۔ امریکن نے آ زا دی کے لیئے دکھ جھیلے تھے۔ امید تھی کے وہ دوسروں کا بھی دکھ محسوس کر ینگے؟ کچھ عر صے کیا بھی، اب وہ بھی اپنی غلامی کا دور بھول گئیے ہیں، طا قت کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے۔ ۔اس کے علاوہ کوئی راستہ ہے تو کو ئی بقراطِ وقت ہی بتا سکتا ہے۔ رہے بڑے مسئلہ کشمیروغیرہ ان کو بھو ل جا ئیے؟ اس کے لیئے ہندوستان کے سابق وزیر خا رجہ کی بات چیت ہندوستانی مشہور صحا فی سے کی گئی موجود ہے وہ مشہور گفتگو ریکارڈ پر ہے ۔جس میں جب اس نے سوال کیا کہ بھٹو صا حب اب مسئلہ کشمیر پر بات کیوں نہیں کرتے تو ان کا جواب تھا کہ وہ ذہیں آدمی ہے اور جان گیا ہے کہ ہم یہ مسئلہ حل نہیں کر نا چا ہتے ؟
http://www.alqamar.info/alqamarnews/print.php?a=23480رابطہ لنک 

No comments:

Post a Comment