visitors

free counters

Thursday, 30 June 2011

قانون توہین رسالت میں کمزوریاں؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین خالد مسعود کی خدمت میں


قانون توہین رسالت میں کمزوریاں
قانون توہین رسالت میں کمزوریاں؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی خدمت میں! (۳)

الحمد للہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
پاکستان میں نافذ قانون توہین رسالت سے اپنی ناراضی، ناپسندیدگی اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے جناب خالد مسعود صاحب فرماتے ہیں:
ہ:… ”قانون توہین رسالت میں کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں کو دور کیا جانا چاہئے، اسلامی قانون کے مطابق اگر کسی کے منہ سے توہین پر مبنی الفاظ نکل گئے ہیں تو اسے توبہ کا موقع ملنا چاہئے، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔“
(نوائے وقت کراچی ۷/ نومبر ۲۰۰۷ء) اس کے علاوہ سنڈے میگزین جنگ کراچی میں اس کی مزید تفصیلات بھی ہیں، ملاحظہ ہو:
”…قانون میں کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں کو دور بھی کرنا چاہئے، سب سے بڑی کمزوری تویہ ہے کہ مثلاً: ایک بندے کو پکڑلیا ہے، اسے عدالت لے کر جارہے ہیں تو اس پر تھانے کا بھی دباؤ ہے، عدالت کا بھی، قانونی معاملے کی قانونی تفتیش ہونی چاہئے، دوسرا یہ کہ خود اسلام اور فقہ میں ہے کہ اگر کسی سے اس طرح کے کفر میں یہ الفاظ منہ سے نکل گئے ہیں اور وہ بعد میں توبہ کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے اسے موقع دینا چاہئے، اس قانون میں اس طرح کا کوئی موقع نہیں ہے، اس قانون میں جو خرابی ہے وہ یہ کہ اس میں (Intention)بھی درج نہیں ہے، اگر آپ کے ہاتھ میں کوئی ایسی کتاب ہے، جو توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہے اور آپ کا کوئی مقصد نہیں ہے کہ میں اس کتاب کو اس لئے رکھ رہا ہوں، تب بھی آپ کو سزا ہوجائے گی۔“
(سنڈے میگزین ۲۸/اکتوبر ۲۰۰۷ء) روزنامہ جنگ کراچی اور نوائے وقت دونوں کے مندرجات میں کوئی تعارض نہیں، ہاں البتہ اختصار و تفصیل کا فرق ضرور ہے۔ تاہم نوائے وقت کے بیان سے منحرف ہونے کی گنجائش تھی، چنانچہ چیئرمین صاحب یہ فرماسکتے تھے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، لیکن سنڈے میگزین کے مندرجات سے کسی قسم کے انکار کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ وہ حرف بحرف انہیں کا ہے، اور زبان و بیان بھی انہیں کا ہے۔ ان ہر دو بیانات کا حاصل اور لب لباب یہ ہے کہ قانون توہین رسالت میں نقائص و سقم ہیں اور جس قانون میں نقص یا سقم ہو، وہ ناقابلِ نفاذ اور ناقابلِ عمل ہوتا ہے، اور جو قانون نفاذ اور عمل کے قابل نہ ہو، اس کو ختم ہونا چاہئے، نتیجہ یہ کہ قانون توہین رسالت کو ختم ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بدگمانی سے بچائے اور ہمیں کسی پر بدگمانی کا حق بھی نہیں، لیکن بہرحال یہ لب و لہجہ اور قانونِ توہین رسالت کے خلاف یہ انداز و بیان کسی لکھے پڑھے مسلمان یا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا نہیں لگتا، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عیسائیوں اور قادیانیوں کے کسی وکیل صفائی کا بیان ہے۔ اس لئے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ: ”زبان میری ہے بات اُن کی۔“ ”اسلامی نظریاتی کونسل“ کے نام کو دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلامی عقائد و نظریات کی تدوین، ترتیب، ترویج اور ان کی حفاظت و تحفظ کا محافظ ادارہ ہوگا ، اور اس کے ارکان علمی و تحقیقی لوگ ہوں گے اور اس کا سربراہ نہ جانے کتنا بڑا عالم، فاضل اور محقق ہوگا؟ یا کم از کم قرآن و سنت اور دین و شریعت کا ماہر اور اپنے دور کا بڑا عالم اور روشن دماغ محقق ضرور ہوگا۔ مگر اے کاش ! کہ چیئرمین کی حد تک صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو شایدمبالغہ نہ ہوگا: ”برعکس نہند نامِ زنگی کافور“ اس لئے کہ موصوف نے قانون توہین رسالت کی جن نام نہاد کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے، شاید وہ کسی کٹر اسلام دشمن اور پیغمبر اسلام کے بدترین مخالف و معاند عیسائی اور یہودی کو بھی نہ سوجھی ہوں گی اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اس میں یہ یہ کمزوریاں بھی ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ جناب خالد مسعود صاحب کے مجرم ذہن اور بے حمیت ضمیر کی اختراع ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ بلا ارادہ اور بھولے سے کہے اور لکھے گئے الفاظ اور قصداً کی گئی گستاخی میں کتنا فرق ہے؟ اس لئے کہ جس سے غلطی، لاعلمی یا بھول چوک کی بنا پر ایسے الفاظ سرزد ہوں یا قصداً اور جان بوجھ کروہ اس گستاخی کا ارتکاب کرے ،ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے، اور ہر ایک کی ظاہری، حالت، ہیئت، کیفیت اور انداز بتلاتا ہے کہ یہ مجرم ہے یا بے قصور؟ بلاشبہ غلط فہمی، نسیان اور بھول چوک کے مرتکب کے انداز و اطوار، بلکہ اس کے انگ انگ سے احساسِ ندامت ٹپکتا ہے، اسے پکڑ کر پولیس کے حوالہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ خود اپنے ضمیر کا مجرم ہوتا ہے، وہ اس سلسلہ کی سزا بھگتنے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ اگر بالفرض اسے اپنی اس غلطی کا احساس و ادراک نہ ہو اور کوئی بندئہ خدا اس کو اس کی غلطی ،کوتاہی اور گستاخی کی نشاندہی کرے تو وہ فوراً ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہو جاتاہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اور قصداً اس جرم و گستاخی کا ارتکاب کرتا ہوا پایا جائے اور اس کو گرفتار کرکے حوالہ قانون کیا جائے اور وہ جناب خالد مسعود کی طرح کہے کہ: میں نے قصداً ایسا نہیں کیا، بلکہ سہواً اور غلطی سے ایسا ہوگیا ہے، تو کیا کہا جائے کہ اس کا یہ قول و قرار معتبر ہوگا؟ خالد مسعود صاحب کے بقول اگر کسی شخص کے ارتکابِ جرم کے بعد محض اس کے انکار سے مجرم کو سزا سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو بتلایا جائے کہ دنیا میں کسی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے گا؟ اس کے علاوہ کیا جناب خالد مسعود صاحب اپنی طرح اسلامی قانون کے ماہرین اور عدالت عالیہ کے ججوں کو بھی جاہل و اجہل سمجھتے ہیں ؟کہ وہ اسلامی و شرعی قانون ”البینة علی المدعی والیمین علی من انکر“… مدعی پر گواہ پیش کرنا لازم ہے، اور… اگر وہ گواہ نہ لاسکے تو… مدعی علیہ پر قسم ہے… کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے؟؟ کیا اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر پیش کی جاسکتی ہے کہ ملزم کو شرعی تقاضے پورے کئے بغیر سزا دی گئی ہو؟؟ چلئے اگر بالفرض ا کسی نے ایسا کیا بھی ہو توبتلایا جائے کہ یہ اس شخص کا قصور ہوگا، یا اسلامی قانون کا؟ اسلام نے ممکنہ حد تک حدود اور سزاؤں کے اجراء میں احتیاط برتنے کی تلقین کی ہے، چنانچہ فرمایا گیا ہے: ”ادرؤا الحدود ماستطعتم“… جہاں تک ہوسکے حدود اور سزاؤں کو ساقط کرو۔ چنانچہ اگر کسی ملزم کا جرم شرعی اصولوں اور ضابطوں سے ثابت نہ ہوسکے تو ملزم کو اس جرم کی طے شدہ سزا نہیں دی جائے گی، تاہم اگر قاضی اور جج سمجھتا ہے کہ ملزم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے اور آثار و قرائن بھی اس کی تصدیق کرتے ہوں تومجرم کو تنبیہاًکچھ نہ کچھ سزا بطور تعزیر ضرور دی جائے گی، اور وہ تعزیر اس جرم کی طے شدہ سزا یعنی” حد“ سے زیادہ نہ ہوگی، جس کی حکمت یہ ہے کہ آئندہ کے لئے ایسے جرائم کا سدباب کیاجاسکے اور کوئی طالع آزما محض اس امکان پر کہ میرا جرم ثابت نہیں ہوسکے گا، آئندہ کسی کی جان، مال اور عزت و ناموس سے کھیلنے کی جرأت نہ کرسکے۔ چلئے اگر بالفرض خالد مسعود صاحب کے فلسفہ پر عمل کرلیا جائے تو کیا اس سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی نہ ہوگی؟؟ کیا ہم خالد مسعود صاحب سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو قانون کے شنکجے میں جکڑنے کے قائل نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو وضاحت فرمادیں کہ ان کو عدالت کے کٹہرے اور قانون کے دائرے میں لانے کی کیا صورت ہوگی؟ کیا وہ اپنی ذات، قائد اعظم محمد علی جناح، صدر پاکستان یا کسی سرکاری اعلیٰ عہدہ دار کی توہین و تخفیف کے مجرم کے بارہ میں بھی یہی جذبات و احساسات رکھتے ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو وہ قانون توہین رسالت، یعنی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص کرنے والے موذی پر اس قدر کیوں مہربان ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ چونکہ ان کے آقاؤں کا فرمان ہے کہ: قانون توہین رسالت ہمارے مہروں کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ہمارے مشن توہین ِ رسالت پر قدغن لگاتا ہے، لہٰذا اس کو ختم ہونا چاہئے، اس لئے موصوف بھی اس قانون کے خلاف سرگرم ہیں، پھر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس قانون کی تدوین، ترتیب، اجراء اور نفاذ کو پورے ۱۶ سال ہوچکے ہیں، اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد جناب خالد مسعود صاحب اور ان کے ہم نواؤں کو اب یہ خیال کیوں ستانے لگا کہ ”اس میں نقائص و کمزوریاں ہیں جنہیں دور کیا جانا چاہئے؟“ کیا کہا جائے کہ اس قانون کو وضع کرنے والے، اس کی منظوری دینے والے، اس کے اجراء کے احکامات جاری کرنے والے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فاضل ارکان سب کے سب جاہل، لاعلم، قرآن و سنت اور دین و شریعت سے ناآشنا تھے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو خالد مسعود صاحب کی ان حضرات کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے؟ اور ان کے اس ارشاد کی کیا قدروقیمت ہے؟ اگر اس طرح کی متفقہ قانون سازی کے بعد کسی قانون میں کیڑے نکالے جانے لگیں، تو بتلایا جائے کہ دنیا کا کوئی قانون خالد مسعود جیسے ”روشن دماغ“ لوگوں کی دست برد سے محفوظ رہے گا؟ پھر اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ اس قماش کے لوگوں کو آئندہ قرآن و سنت کے منصوص احکام و مسائل اور اصول و قوانین میں نقائص و کمزوریاں نہ نظر آئیں گی؟ بلاشبہ فکر مغرب اور چشم الحاد سے سوچنے اور دیکھنے والوں کو پورا اسلام اور اسلامی قوانین ظالمانہ نظر آتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا پورے قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسے تمام احکام و قوانین کی کمزوریاں تلاش کرکے دور کی جائیں گی؟کیا نعوذباللہ! ان کی بھی تطہیر کی جائے گی؟ یا چشم بددور !ان کی جگہ بھی نیا قابلِ عمل اور استاذِ مغرب کی فکرو نظر کا آئینہ دار نظام متعارف کرایا جائے گا؟ اے کاش! کہ خالد مسعود جیسے لوگوں کا قرآن و سنت پر ایمان ہوتا یا ان کو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور خصوصاً سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرہ بھر محبت و عقیدت ہوتی تو وہ ایسا لکھنا، کہنا اور سوچنا بھی گوارا نہ کرتے۔ بلاشبہ قرآن کریم اور احادیث رسول اللہ! میں ایسے موذیوں کے لئے کسی نرم گوشہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر افسوس! کہ خالد مسعود صاحب ہیں ،جو ان کے خارا شگاف جرائم پر بھی شفقت و نرمی کی تلقین فرماتے ہیں اور قانون توہین رسالت میں ترمیم و تخفیف کا مشورہ دیتے ہیں، ایسے موذی لوگوں کے بارہ میں قرآنِ کریم کیا کہتا ہے؟ ملاحظہ ہو:
الف:... ”ان الذین یؤذون اللّٰہ ورسولہ لعنہم اللّٰہ فی الدنیا والآخرة واعدلہم عذاباً مہینا۔“ (الاحزاب: ۵۷)
ترجمہ: …”بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کررکھا ہے۔“
ب:... ”ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا تقتیلاً ،سنة اللّٰہ فی الذین خلوا من قبل، ولن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلاً۔“ (الاحزاب:۶۱/۶۲)
ترجمہ:… ”وہ بھی ....ہر طرف سے....پھٹکارے ہوئے، جہاں ملیں گے پکڑ دھکڑ اور مار دھاڑ کی جائے گی، اللہ تعالیٰ نے ان ...مفسد...لوگوں میں بھی اپنا یہی دستور رکھا ہے، جو پہلے گزرے ہیں اور اب خدا کے دستور میں سے کسی شخص کی طرف سے ردوبدل نہ پاویں گے۔“
ج:… ”قل ابا للّٰہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستہزؤن، لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم۔“ (التوبہ:۶۵،۶۶)
ترجمہ:… ”آپ ان سے کہہ دیجئے! کہ کیا اللہ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ تم ہنسی...استہزا... کرتے ہو؟ تم اب...یہ بے ہودہ...عذر مت کرو، تم اپنے کو مومن کہہ کر کفر کرنے لگے۔ “ اللہ تعالیٰ تو ایسے موذیوں پر کسی قسم کی نرمی کی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی یہ فرماتے ہیں کہ اہانت رسول کے مجرم سے اس کی نیت پوچھی جائے، مگر خالد مسعود صاحب مشورہ دیتے ہیں کہ مجرم سے اس کی نیت پوچھی جائے کہ اس نے قصداً ایسا کیا ہے یا سہواً؟ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس کے علاوہ تمام فقہائے امت بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی اور توہین و تنقیص کا ارتکاب کریں، اگر وہ پہلے مسلمان تھے تو اب مرتد ہوگئے اور ان کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں ہے:
”وایما رجل مسلم سب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم او کذبہ او عابہ اوتنقصہ فقد کفر باللّٰہ وبانت منہ زوجتہ فان تاب والا قتل۔“ (کتاب الخراج،ص:۱۹۷،۱۹۸)
ترجمہ:… ”جس مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی یا آپ کی کسی بات کو جھٹلایا، یا آپ میں کوئی عیب نکالا یا آپ کی تنقیص کی، وہ کافر و مرتد ہوگیا اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا، پھر اگر وہ اپنے اس کفر سے توبہ ...کرکے اسلام و نکاح کی تجدید...کرے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“ اس کے علاوہ علامہ شامی نے ”تنبیہ الولاة والحکام“ میں علامہ تقی الدین سبکی کی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ سے اس پر پوری امت، تمام اہلِ علم اور فقہائے امت کا اجماع نقل کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
”قال الامام خاتمة المجتہدین تقی الدین ابو الحسن علی بن عبدالکافی السبکی رحمہ اللہ تعالیٰ فی کتابہ ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ قال القاضی عیاض اجمعت الامة علی قتل منتقصة من المسلمین وسابہ، قال ابوبکر ابن المنذر اجمع عوام اہل العلم علی ان من سب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیہ القتل وممن قال ذلک مالک بن انس واللیث واحمد واسحٰق وہو مذہب الشافعی، قال عیاض وبمثلہ قال ابو حنیفة واصحابہ والثوری واہل الکوفة والاوزاعی فی المسلم، وقال محمد بن سحنون اجمع العلماء علیٰ ان شاتم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم والمنتقص لہ کافر والوعید جار علیہ بعذاب اللّٰہ تعالیٰ، ومن شک فی کفرہ وعذابہ کفر وقال ابو سلیمان الخطابی لا اعلم احدا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ اذا کان مسلما۔“ (رسائل ابن عابدین، ج:۱۰، ص:۳۱۶)
ترجمہ:… ”امام خاتمہ المجتہدین تقی الدین ابی الحسن علی بن عبدالکافی السبکی اپنی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ میں لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ امت کا اجماع ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تنقیص کرے اور سب و شتم کرے وہ واجب القتل ہے، ابوبکر ابن المنذر فرماتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرے اس کا قتل واجب ہے، امام مالک بن انس، امام لیث، امام احمد اور امام اسحق  اسی کے قائل ہیں اور یہی مذہب ہے امام شافعی کا، قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس طرح کا قول امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب سے اور امام ثوری سے اور امام اوزاعی سے شاتم رسول کے بارے میں منقول ہے۔ امام محمد بن سحنون فرماتے ہیں کہ علماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے کفر پر اجماع کیا ہے،۱ ور ایسے شخص پر عذاب الٰہی کی وعید ہے اور جو شخص ایسے موذی کے کفرو عذاب میں شک و شبہ کرے وہ بھی کافر ہے، امام ابو سلیمان الخطابی فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا مسلمان معلوم نہیں ،جس نے ایسے شخص کے واجب القتل ہونے میں اختلاف کیا ہو۔“ علامہ ابن عابدین شامی اپنی مشہور زمانہ کتاب ”رسائل ابن عابدین“ میں اس سے بڑھ کر لکھتے ہیں:
”فنفس المومن لاتشتفی من ہذا الساب اللعین، الطاعن فی سید الاولین والآخرین الا بقتلہ وصلبہ بعد تعذیبہ وضربہ فان ذالک ہو الائق بحالہ الزاجر لامثالہ عن سیئی افعالہ۔“ (رسائل ابن عابدین، ج:۱، ص۳۴۷)
ترجمہ:… ”جو ملعون اور موذی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں گستاخی کرے اور سب و شتم کرے، اس کے بارے میں مسلمانوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک کہ اس خبیث کو سخت سزا کے بعد قتل نہ کیا جائے یا سولی پر نہ لٹکایا جائے، کیونکہ وہ اسی سزا کا مستحق ہے، اور یہ سزا دوسروں کے لئے عبرت ہے۔“ قرآن، حدیث، فقہ و فتاویٰ اور چودہ صدیوں کے اکابر کی تصریحات و تحقیقات سے ہٹ کر دیکھئے تو وہ اسمبلی جو قوم کی نمائندہ کہلاتی ہے، اس نے بھی یہی فیصلہ دیا ہے، چنانچہ خود تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵-سی مجریہ ایکٹ ۱۹۸۴ء میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے سزائے موت تجویز کی گئی ہے، ملاحظہ ہو: ”جو شخص الفاظ کے ذریعے خواہ زبان سے ادا کئے جائیں یا تحریر میں لائے گئے ہوں یا دکھلائی دینے والی تمثیل کے ذریعہ یا بلاواسطہ یا بوالواسطہ تہمت یا طعن یا چوٹ کے ذریعہ نبی کریم (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کی بے حرمتی کرتا ہے اس کو موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔“ چونکہ توہین رسالت جیسے بدترین جرم کی سزا میں عمر قید کے الفاظ، اس جرم کی شدت میں تخفیف اور اس موذی کے ساتھ نرمی کی نشاندہی کرتے تھے اور کسی عاشق رسول کے لئے یہ ناقابل برداشت تھا کہ کوئی بدبخت، آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص کے جرم کا ارتکاب کرے اور وہ چند سال کی سزا بھگت کر جیل سے باہر آجائے، اس لئے ہمارے قانون ساز اداروں کے ذمہ داروں کو بعداز وقت سہی ،بہرحال یہ خیال آگیا کہ اس قانون کی اصلاح ہونی چاہئے اور اس دفعہ سے ”عمر قید“ کے الفاظ حذف ہونے چاہئیں۔ چنانچہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ۲/جون ۱۹۹۲ء کو ایک متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ توہین رسالت کے مرتکب کو سزائے موت ہی دی جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی خبر کا متن ملاحظہ ہو: ”اسلام آباد (نمائندہ جنگ) قومی اسمبلی نے منگل کے دن متفقہ قرار داد منظور کی کہ توہین رسالت کے مرتکب کو پھانسی کی سزا دی جائے اور اس ضمن میں مجریہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵-ج میں ترمیم کی جائے اور عمر قید کے لفظ حذف کرکے صرف پھانسی کا لفظ رہنے دیا جائے۔ یہ قرارداد آزاد رکن سردار محمد یوسف نے پیش کی اور کہا کہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب شخص کو سزائے موت دی جائے جب کہ قانون میں عمر قید اور پھانسی کی سزا متعین کی گئی ہے۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر مولانا عبدالستار خان نیازی نے بتایا کہ وزیر اعظم کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں تمام مکتبہ فکر کے علماء نے شرکت کی تھی اس اجلاس میں طے پایا تھا کہ توہین رسالت کے مرتکب کو کم تر سزا نہیں دینی چاہئے اس کی سزا موت ہونی چاہئے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور چوہدری امیر حسن نے کہا کہ حکومت اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرتی حکومت اس ضمن میں پہلے بھی قانون سازی کی تیاری کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں ایک ترمیمی بل سینیٹ میں پیش ہوچکا ہے۔“ (روزنامہ جنگ کراچی ۳/جون ۱۹۹۲ء ) کیا ہم جناب خالد مسعود صاحب سے پوچھ سکتے ہیں کہ قرآن، حدیث، فقہ اور قانون توہین ِ رسالت کی مندرجہ بالا دفعات میں کہیں اس کا تذکرہ ہے کہ اگر کسی سے سہواً اس کا ارتکاب ہوجائے یا کسی نے توہین ِ رسالت پر مشتمل کسی کی کوئی کتاب یا کوئی مضمون اپنے ہاتھ میں اٹھا رکھا ہو تو اس کو بھی پکڑ کر توہین ِ رسالت کی سزا دی جائے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو پھر اس منطقی اور فطری قانون کے خلاف آواز اٹھانا یا اس میں کیڑے نکالنا ان کی بیمار ذہنیت کی علامت نہیں؟ جناب خالد مسعود صاحب آپ ان موذیوں کی ہمنوائی کرکے سوچئے آپ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالنا چاہتے ہیں؟اگر آپ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت پر ایمان ہے تو آپ کو آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں اور آپ کی توہین و تنقیص کرنے والوں کا نہیں، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے وکیل صفائی کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ و:… جناب خالد مسعود صاحب حدود آرڈی نینس سے متعلق اپنی ”ماہرانہ “رائے دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”حدود اللہ کا کوئی تصور قرآن مجید میں نہیں، یہ تصور فقہا حضرات کا ہے کہ: مخصوص سات جرائم کو حدود اللہ کہا جائے۔“
اس کے علاوہ سنڈے میگزین روزنامہ جنگ کراچی ۲۸/ اکتوبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”قرآن مجید میں حدود اللہ کا لفظ آیا ہے، لیکن ان سزاؤں کے لئے نہیں آیا، وہ طلاق، عدت،رمضان کے سات یا آٹھ قوانین (کے بارہ میں) جب کہ ان سزاؤں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جتنی بھی آیتیں عام طور پر پڑھی جاتی ہیں، وہ سب ان سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ یہ اللہ کے قانون ہیں، ان سے آپ ہٹیں نہیں۔ یہ جو زنا، قذف، چوری ہیں، ان کے لئے قرآن مجید میں حدود یا حد کا لفظ نہیں ہے ، اول تو حدود اللہ کا تصور قرآن مجید کا نہیں ہے، بلکہ فقہاء حضرات کا ہے کہ یہ جو سات جرائم ہیں ان کو حدود اللہ کہا جائے قرآن و سنت میں یہ الفاظ بھی نہیں آئے، حدود کے معانی قرآن میں قانون کے ہیں۔ فقہ میں سزا کا ہے، وہ سزا جو مقرر ہے، اور دوسرا یہ کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کون سے قانون حدود اللہ میں آتے ہیں اور کون سی سزائیں اور کون سے جرائم؟ یہ بھی فقہاء کی تشریحات ہیں اور اس میں اختلاف رہا ہے…‘ ‘ (سنڈے میگزین ۲۸/اکتوبر ۲۰۰۷ء) اس سلسلہ میں عرض ہے کہجناب خالد مسعود صاحب کا یہ کہنا کہ حدود اللہ کا کوئی تصور قرآن مجید میں نہیں، سراسرغلط اور جہالت ودنائت پر مبنی ہے، اس لئے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں حدود اللہ کا ذکر آیا ہے، اور جہاں بھی آیا ہے اسی معنی میں آیا ہے کہ ہم نے جوجو احکام ،اصول،قوانین اور مسائل بیان کئے ہیں ان کی پابندی وپاسداری کی جائے اور جو لوگ ان سے تجاوزکریں گے،وہ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود سے تجاوزکرنے والے شمارہوں گے،اوروہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا کے مستوجب ہوں گے، چنانچہ ملاحظہ ہو: ۱:… رمضان کی راتوں میں بیویوں سے ہم بستر ہونے،سحر وافطار اور اعتکاف کی حد بندی کرتے ہوئے فرمایا:
”تلک حدود اللہ فلا تقربوہا۔“ (البقرہ: ۱۸۷)
ترجمہ:… ”یہ حدیں بندھی ہوئی ہیں اللہ کی، سو ان کے نزدیک نہ جاؤ “ ۲:… طلاق ،رجعت،عدت اور خلع کی حدود وقواعداور ان کی پابندی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
”ولا یحل لکم ان تأخذوا مما آتیتموہن شیئاً الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ۔“ (البقرہ: ۲۲۹)
ترجمہ:… ”اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ کچھ بھی لو اس میں سے جو تم نے ان کو دیا تھا، مگر جب کہ خاوند عورت دونوں ڈریں اس بات سے کہ قائم نہ رکھ سکیں گے حکم اللہ کا۔“ ۳:… مذکورہ بالا احکام کی پابندی اور ان میں کسی قسم کی کوتاہی یا تغیر وتبدل سے احتراز اور بچنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
”فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوہا، ومن یتعد حدود اللہ فاولئک ہم الظالمون۔“ (البقرہ: ۲۲۹)
ترجمہ:… ”پھر اگر تم لوگ ڈرو اس بات سے کہ وہ دونوں قائم نہ رکھ سکیں گے اللہ کی حدیں تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر اس میں کہ عورت بدلہ دے کرچھوٹ جاوے، یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو کوئی بڑھ چلے اللہ کی باندھی ہوئی حدود سے سو وہی لوگ ہیں ظالم۔“ ۴:… تیسری طلاق کے بعد جب تک تحلیل شرعی نہ ہوجائے دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا جو اس کے خلاف کرے گا حدود الٰہی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا ،چنانچہ ان حدود کی پابندی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
”فان طلقہا فلا جناح علیہما ان یترا جعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ، وتلک حدود اللہ یبینہا لقوم یعلمون۔“ (البقرہ: ۲۳۰)
ترجمہ:… ”پھر اگر طلاق دیدے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جائیں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کی حدیں اور یہ حدیں باندھیں ہوئی ہیں اللہ کی بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے۔ “ ۵:… میراث، ورثا اور ان کے حصص،قرض، وصیت اور ان کے احکام کی حکمت واہمیت اور ان کی پابندی پر بشارت سناتے ہوئیفرمایا:
”تلک حدود اللّٰہ ومن یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنت تجری من تحتہا الانہر…“ (النساء:۱۳)
ترجمہ:… ”یہ حدیں باندھی ہوئی اللہ کی ہیں اور جو کوئی حکم پر چلے اللہ کے اور رسول کے اس کو داخل کرے گا جنتوں میں۔“ ۶:… جواللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ حدود کی خلاف ورزی کرے،ان کی سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
”ومن یعص اللّٰہ ورسولہ ویتعد حدود ہ یدخلہ ناراً خالداً فیہا ولہ عذاب مہین۔“ (النساء: ۱۴)
ترجمہ:… ”اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا، اس میں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ “ ۷:… دیہات کے کفار اور منافقین کی شدت اور ان کی حدوداللہ سے نا آشنائی کے بارہ میں فرمایا:
”الاعراب اشد کفراً ونفاقا واجدر الا یعلموا حدود ما انزل اللّٰہ علی رسولہ۔ “ (التوبہ:۹۷)
ترجمہ:… ”گنوار بہت سخت ہیں کفر میں اور نفاق میں اور اسی لائق ہیں کہ نہ سیکھیں وہ جو نازل کیں اللہ نے اپنے رسول پر۔“ ۸:… کفارومنافقین کے مقابلہ میں مومنین کی صفات اور ان کی حدوداللہ کی پاسداری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
”والناہون عن المنکر والحافظون لحدود اللّٰہ، وبشرالمؤمنین۔“ ( التوبہ: ۱۱۲)
ترجمہ:… ”اور منع کرنے والے بُری بات سے اور حفاظت کرنے والے ان حدود کی جو باندھی اللہ نے اور خوشخبری سنادے ایمان والوں کو۔“ ۹:… ظہار اورکفارئہ ظہار کے احکام اور ان کی بجاآوری کی تلقین کے بعد فرمایا:
”ذلک لتومنوا باللّٰہ ورسولہ وتلک حدود اللہ۔“ (المجادلہ:۴)
ترجمہ: … ”یہ حکم اس واسطے کہ تابعدار ہوجاؤ اللہ کے اور اس کے رسول کے اور یہ حدود ہیں اللہ کی۔“ ۱۰:… طلاق ،عدت اور دوران ِعدت سکنیٰ کے احکام اور ان کی خلاف ورزی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
”لا تخرجوہن من بیوتہن ولا یخرجن الا ان یأتین بفاحشة مبینة وتلک حدود اللّٰہ ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ۔“ (الطلاق:۱)
ترجمہ: ”مت نکالو ان کو ان کے گھروں سے اور وہ بھی نہ نکلیں مگر جو کریں صریح بے حیائی اور یہ حدود ہیں اللہ کی اور جو کوئی بڑھے اللہ کی حدود سے تو اس نے بُرا کیا اپنا۔“ لہٰذا چیئرمین صاحب کا یہ کہناسراسرغلط ٹھہرا کہ:” قرآن مجید میں حدود اللہ کا لفظ ان سزاؤں کے لئے نہیں آیا جن کو عام فقہا حدود تصور کرتے ہیں“کیونکہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ قرآن کریم میں حدوداللہ کا لفظ ایک نہیں ،دس بار آیاہے، اور ہر جگہ قانون الٰہی کی پابندی وپاسداری کے لئے آیاہے،اسی لئے فقہأ کرام نے ان تمام جرائم کی سزاوٴں کو حدود سے تعبیر کیا ہے جن کی سزا اللہ تعالی ٰیا اس کے رسول انے مقرر فرمائی ہے۔بتلائیے اس پر فقہأ کرام لائقِ تحسین ہیں؟ یاباعث ِملامت؟ پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حضراتِ فقہأکرام نے اس اصطلاح کے اپنانے میں اپنی رائے اور اجتہاد کا سہارا نہیں لیا، بلکہ آنحضرت اکے ارشاداتِ عالیہ کی اتباع کی ہے،چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں ایسے کئی ایک جرائم کی سزا وٴں پر ”حد“ کا اطلاق فرمایا ہے، ان میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں:
الف: ”عن ابی بردہ بن نیار قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایجلد فوق عشر جلدات الافی حد من حدود اللّٰہ۔“
(ترمذی، ج:۲، ص:۱۷۷، بخاری، ج:۲،ص:۱۲) ترجمہ:… ”حضرت ابو بردہ بن نیار سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے علاوہ کسی جرم کی سزا دس کوڑوں سے زیادہ نہ دی جائے۔ “ جناب خالد مسعود صاحب ہی فرمائیں کہ آنحضرت اجن سزاوٴں کو حدوداللہ فرمارہے ہیں،وہ کونسی ہیں؟اور یہ کہ ان کا تذکرہ قرآن میں ہے یانہیں؟اگرجواب نفی میں ہے تو آنحضرت انے ان کوحدوداللہ کیوں فرمایا؟
ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔
ب:… ”عن وائل بن حجر عن ابیہ قال استکرہت امرأة علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فدرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنہا الحد وأقامہ علی الذی اصابہا۔“ (ترمذی، ج:۲، ص:۱۷۵)
ترجمہ:… ”حضرت وائل بن حجر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک خاتون کی زبردستی عصمت دری کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے حد ساقط کردی تھی اور اس آدمی پر حد ․․․․․․ جاری فرمائی تھی جس نے زبردستی اس کی عصمت دری کی تھی۔“
ج:… ”عن عائشة ان قریشا أہمتھم المرأة المخزومیة التی سرقت قالوا من یکلم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن یجتریٴ علیہ الا اسامة بن زید حب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فکلم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال أتشفع فی حد من حدود اللّٰہ؟ ثم قام فخطب فقال: یایہا الناس انما ضلوا من قبلکم انہم کانوا اذا سرق الشریف ترکوہ وإذا سرق الضعیف فیہم اقاموا علیہ الحدود، ایم اللّٰہ لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد یدہا۔“ (بخاری، ج:۲،ص:۱۰۰۳)
ترجمہ:… ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مخزومی خاتون، جس نے چوری کی تھی...اور اس کے خلاف چوری کی حد کا فیصلہ ہوگیا، قریش کو اس سے بہت زیادہ پریشانی ہوئی ...انہوں نے سوچا کہ کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حد ساقط کرنے کی سفارش کرے...کہنے لگے اس سلسلہ میں اسامہ ابن زید کے علاوہ کوئی بات نہیں کرسکے گا، کیونکہ وہ آپ کے محبوب ہیں۔ پس انہوں نے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں بات کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ حدود اللہ میں سے ایک حد کے بارہ میں سفارش کرتے ہیں؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے، خطبہ دیا اور فرمایا: لوگو! تم سے پہلے لوگ اس لئے گمراہ ہوئے کہ ان میں سے کوئی عزت دار آدمی چوری کرتا، تو اس کو چھوڑ دیتے اور اگر کوئی چھوٹا اور کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹتا۔ “
د:… ”عن ابن عباس ان ہلال بن امیہ قذف امرأتہ عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشریک بن سحماء ،فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” البینة اوحد فی ظہرک “فقال یارسول اللّٰہ ! اذا رای احدنا علی امرأتہ رجلاً ینطلق یلتمس البینة؟ فجعل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: البینة، والاحد فی ظہرک۔ فقال ہلال: والذی بعثک بالحق انی لصادق فلینزلن اللّٰہ مایبریٴ ظہری من الحد… الخ۔“ (صحیح بخاری، ج:۲، ص:۲۹۵)
ترجمہ:… ”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہلال بن اُمیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سہما کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ یا پھر تیری پیٹھ پر حد لگے گی، اس نے عرض کیا :یارسول اللہ! کیا جب کوئی شخص اپنی بیوی پر کسی غیر مرد کو دیکھے گا تو وہ جاکر گواہ تلاش کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ یا پھر تیری پیٹھ پر حد لگے گی، اس پر حضرت ہلال نے عرض کیا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: بے شک میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور کوئی ایسی وحی نازل فرمادیں گے جو میری پیٹھ کو حد سے بچائے گی۔“ اب موصوف ہی بتلائیں کہ ان کے ارشاد : ”یہ جو سات جرائم ہیں ان کو حدود اللہ کہا جائے، قرآن و سنت میں یہ الفاظ نہیں آئے۔“کی کیا قدرو قیمت ہے؟کیا ان کا یہ ”فرمان“قرآن وسنت کے اوردین و شریعت کے خلاف کھلی بغاوت نہیں؟ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ موصوف نے جیسا کہ اپنے انٹرویو میں خود فرمایا ہے کہ: ”حدود کے معانی قرآن میں قانون کے ہیں۔“ اب اگر فقہاء کرام اور محدثین حضرات نے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں زنا، چوری، تہمت، شراب نوشی اور نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت اور ان پر سزاؤں کے اجراء کو بھی قانونِ الٰہی شمار کرتے ہوئے ان کو حدود قرار دے دیا تو اس پر انہیں کیونکر اشکال ہے؟ کیا ہم جناب خالد مسعود صاحب سے یہ پوچھنے کی جرأت کرسکتے ہیں کہ: طلاق، عدت، رجعت، میراث،ظہار، کفارہ ظہار اور روزہ وغیرہ ایسے خالص شخصی اور ذاتی مسائل کی خلاف ورزی اگر حدود اللہ کی خلاف ورزی کہلاسکتی ہے تو زنا، چوری، تہمت اور شراب نوشی وغیرہ ایسے گھناؤنے جرائم، جس سے پورا معاشرہ تہہ و بالا ہوجاتا ہے، ان کی خلاف ورزی حدود اللہ کی خلاف ورزی کیوں نہیں کہلائے گی؟ اگر ان شخصی اور ذاتی مسائل میں مقررہ حدود سے تجاوز کرنے پر حدود اللہ سے تجاوز شمار ہوسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ معاشرہ کو تہہ و بالا کرنے والے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب یا ان کی حد بندی کی خلاف ورزی پر قرآن و حدیث کی طے کردہ سزاؤں کو حدود اللہ کیوں نہیں کہا جاسکتا؟ یا اس پر حدود اللہ کا اطلاق کیونکر نہیں ہوسکتا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کی دلی خواہش اور تمناہے کہ معاشرہ میں زناکاری،چوری، ڈکیتی،شراب نوشی،تہمت تراشی اور قتل وغارت گری پر کوئی قدغن و پابندی نہیں ہونی چاہئے اور لوگ کھلے عام اان گھناوٴنے جرائم کا ارتکاب کیا کریں،مگر افسوس کہ ان سنگین جرائم کی مقرر ہ اسلامی سزاوٴں․․․․حدود وقصاص․․․․سے جرائم پیشہ افراد خائف ہیں،اس لئے موصوف ان کے دلوں سے ڈر اور خوف دور کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ” ان جرائم کی سزاوٴں کو حدوداللہ نہیں کہنا چاہئے، کیونکہ قرآن وسنت میں ان کو حدود اللہ نہیں کہا گیا، فقہأ کی ایجاد اور ان کی اصطلاح ہے،لہٰذا ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ان کی مخالفت میں زبان کھولنے میں کوئی قباحت، ورنہ اس کا کیا معنی ہے کہ قرآن وسنت میں مذکور ان سزاوٴں اور ان پر حدوداللہ کے اطلاق کے باوجود یہ کہنا کہ ”زنا“قذف․․،چوری․․․ کی سزاوٴں․․․․کے لئے قرآن کریم میں حدودیاحد کا لفط نہیں ہے“یا قرآن وسنت میں یہ الفاظ نہیں آئے۔“ نامناسب نہ ہوگا کہ اس موقع پر ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کے اس بیان پر روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار عبداللہ طارق سہیل کا تبصرہ بھی شامل کردیا جائے، چنانچہ وہ اپنے کالم ”وغیرہ وغیرہ“ میں ”ادا سے قضا تک“ کے زیر عنوان لکھتے ہیں: ”سرکاری درباری (نظر آتی) کونسل کے چیئرمین علامہ کھڑتوس (خالد مسعود) نے انکشاف فرمایا ہے کہ قرآن میں حدود اللہ کا کوئی تصور موجود نہیں۔ وہ جو آیت ہے ”تلک حدود اللہ…“ اس کے بارے میں علامہ کھڑتوس نے کچھ نہیں بتایا۔ ممکن ہے علماء ان کے اس انکشاف پر ناراضگی ظاہر کریں، حالانکہ انہیں شکر کرنا چاہئے کہ علامہ صاحب کی مشق ستم صرف حدود اللہ پر ہوئی ہے، اگر وہ یہ کہہ دیں کہ قرآن میں تو اللہ کا بھی کوئی تصور نہیں ہے تو ہم آپ ان کا کیا بگاڑ لیں گے، ابھی ان کے اگلے لیکچر کا انتظار فرمایئے، وہ ثابت کریں گے کہ پی سی او کا تصور ان کی سرکار نے قرآن سے ہی تو لیا ہے۔ علامہ کھڑتوس دراصل علامہ ولایوڑ خوشامدی کے شاگرد ”رسید“ ہیں۔ علامہ خوشامدی کے نزدیک کوئی چیز گناہ ہے ہی نہیں، ہر شے ثواب ہی ثواب ہے اور ”حق “ امریکا کا دوسرا نام ہے۔ علامہ خوشامدی دراصل دہلی والے مولانا وہی ددن خان (وحید الدین) کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ نہ کوئی روز جزا ہے نہ جنت دوزخ (سب افسانے ہیں) اس کے ساتھ ساتھ وہ ”پنجابی نبی“ کی تقلید میں بین السطور اپنے امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں (دیکھئے ”الرسالہ“ کے گزشتہ شمارے) چنانچہ علماء سے درخواست ہے کہ وہ ان لوگوں کو نظر انداز کردیں، ان کا مسئلہ علمی نہیں، نفسیاتی ہے۔“ (روزنامہ ایکسپریس کراچی ۱۲/نومبر ۲۰۰۷ء)
واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ حضرت سید نفیس شاہ
الی رحمت اللہ
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر‘ اقرأ روضة الاطفال کے صدر ‘ تحریک سید احمد شہید کے ہدی خوان، خانقاہ رائے پورکے گل ِ سرسبد‘ شاہ عبد القادر ائے پوری کے خلیفہٴ اجل ‘ ان کے جانشین وعاشق زار‘ سندِ سلوک واحسان کے صدر نشین، ہفت قلم خطاط ،سلطان القلم اور قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا سید انور حسین نفیس رقم ۵/فروری ۲۰۰۸ء، مطابق ۲۶/محرم الحرام ۱۴۲۹ھ صبح چھ بجے طویل علالت کے بعد راہی عالم آخرت ہوگئے ‘
انا للہ وانا الیہ راجعون‘ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
حضرت نفیس شاہ صاحب قدس سرہ اس دور میں آیت من آیات اللہ تھے‘ بلاشبہ ان کا شمار ان قدوسی صفات اکابرین میں سے تھا جن کو دیکھ کر خدایاد آتا تھا ،اور ان کی صحبت ومجلس میں بیٹھ کر سکینہ جنت کا احساس ہوتا تھا‘ وہ جب بولتے تو موتی رولتے تھے، وہ جب خاموش ہوتے تو ہیبت ووقار کاسماں بندھ جاتا۔ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ دین وشریعت کی عملی تعبیر اور ان کا قول واقرار اکابر کی سیرت وکردارکا آئینہ دار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضر ت شاہ صاحب کو جس طرح حسن ظاہری سے نوازا تھا، اسی طرح آپ کو جمال جہاں آرا سے بھی سرفراز فرمایا تھا، ان کی اصلاح وتربیت کا انداز اور تعلیم وتربیت قلبی توجہ سے عبارت تھی، ان کی خدمت میں حاضر ہونے والے جانتے ہیں کہ آپ کی زبانِ حق ترجمان سے نکلا ہوا ہر ہر لفظ دل ودماغ پر اثر انداز ہوتا ۔ چنانچہ سینکڑوں نہیں، ہزاروں بندگانِ خدا آپ کی برکت سے خدا رسیدہ ہوگئے‘ کتنے ایسے لوگ تھے جو دین وشریعت سے دور تھے مگر حضرت کی صحبت فیضِ رساں کی برکت سے حق آشنا ہوگئے۔ اس قحط الرجال میں آپ کا وجود مسعود بلاشبہ ایک نعمت باردہ سے کم نہ تھا، آپ کی برکت سے لاہور مرجع خلائق تھا اور لاہور جانے کی کشش اور تمنا رہتی ،حضرت کا گھر اور خانقاہ مرجع خلائق تھے، آپ کا دیدار ہی پریشان دلوں اور مجروح قلوب کے لئے مرہم شفا کا درجہ رکھتا تھا۔ اے کاش کہ اب و ہ پری وش ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے اور ہم ان کی برکات سے محروم ہوگئے۔ حضرت شاہ صاحب قدس سرہ نے اگرچہ اپنے تئیں چھپانے کی بہت کوشش کی اور خمول وگوشہ نشینی کو اپنائے رکھا، مگرآخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہرت ومحبوبیت کی بام عروج تک پہنچادیا تھا ،اور آپ سے کثیر تعداد میں خلق خدانے استفادہ کیا، چنانچہ آخر میں باقاعدہ خانقاہی نظام مرتب ہوگیا اور آپ بقید صحت روزانہ صبح خانقاہ سید احمد شہید سگیاں پل تشریف لے جاتے اور شام تک وہاں رہتے اورواردین وصاد رین کے قلوب کی پیاس بجھاتے اور ان کے زخمی قلوب پر محبت وشفقت کی مرہم رکھتے۔ حضر ت شاہ صاحب قدس سرہ یوں توایک عرصہ سے شوگر کے مریض چلے آرہے تھے ،مگر گزشتہ چند ماہ سے شوگر کی وجہ سے ان کے کان میں پیپ بھر گئی اور یہ اتنا بڑھی کہ اس کے اثرات دماغ تک پہنچ گئے‘ آپ کے خدام اور ڈاکٹروں نے اپنے تئیں آپ کے علاج معالجہ کی پوری کوشش کی، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق مرض میں اضافہ ہوتا گیا اور آخر میں کچھ دنوں سے آپ پر استغراق کی کیفیت تھی اور یوں ۲۶/ محرم الحرام صبح چھ بجے کے قریب ستترسال کا یہ تھکا ماندہ مسافر اپنے خدام کو اکیلا چھوڑ کر عالم عقبی کی طرف روانہ ہوگیا۔ اسی دن شام ۳/ بجے لاہور کی بادشاہی مسجد سے متصل عتیق پارک میں آپ کی نماز جنازہ ہوئی، جس میں بلاشبہ لاکھوں افراد نے شرکت کر کے آپ کو آخری خراج عقیدت پیش کیا اور آپ کی خانقاہ سید احمد شہید کے قریب ذاتی خرید کردہ قبرستان کی زمین میں تدفین عمل میں آئی۔ ادارہ بینات اس سانحہ کو اپنا ذاتی سانحہ سمجھتا ہے اور حضرت کے پسماندگان اور متوسلین کے غم میں برابر کا شریک ہے ۔ قارئین سے درخواست ہے کہ حضرت شاہ صاحب کو اپنی دعاؤں اور ایصال ثواب میں فراموش نہ کریں۔اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ وادخلہ الجنة۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 2

No comments:

Post a Comment