منصوبہ 3جون1947ءحقائق و مضمرات .... (۱)
ـ 5 گھنٹے 26 منٹ پہلے شائع کی گئی
پروفیسر ڈاکٹر پروین خان
جنگِ عظیم دوم اختتام کے قریب تھی اور کانگرسی قیادت بحالی ¿ اقتدار کےلئے بے چین تھی‘ خصوصاً 1942ءسے کانگریس برطانوی حکومت کو زیر دباﺅ لا کر اقتدار پر مکمل قابض ہونے کے درپے تھی مگر قائداعظم کی بصیرت افروز قیادت انکے عزائم کو کسی طور پر بھی پورا ہونے سے روک رہی تھی۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ہندوﺅں نے گاندھی کی زیر قیادت یہ حتمی فیصلہ کر لیا تھا کہ جیسے بھی ہو اقتدار برطانوی حکومت سے جلد از جلد حاصل کیا جائے چونکہ برطانیہ کو جنگ میں کئی نقصانات اٹھانے پڑے۔ کانگرس کی حصول اقتدار کےلئے جلد بازی قائداعظم کےلئے معاون ثابت ہوئی کیونکہ وہ ہندوﺅں کے عزائم سے پوری طرح آگاہ تھے۔ بقول ایس کے موجمدار”اعلان جنگ کے بعد کانگرس کا ہر ہر اقدام غلط اور سمجھ بوجھ سے عاری تھا کیونکہ اس نے حقائق اور خاص طور پر معروضی صورتحال کو کبھی پیشِ نظر نہ رکھا۔ جناح نے کانگرس کی غلطیوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور حکومت برطانیہ اور مسلم عوام دونوں کی نظر میں اپنی حیثیت کو مضبوط اور مستحکم کر لیا۔ جناح اور مسلم لیگ دونوں اب نظر انداز کئے جانے کے قابل نہ رہے“۔
25 جون 1945ءکو لارڈ ویول نے ملکی صورتحال کو موثر طور پر کنٹرول کرنے کےلئے شملہ میں کانفرنس طلب کی‘ جس کا درحقیقت مطلب یہ تھا کہ جنگ کے اختتام پر عبوری طور پر ایک مرکزی حکومت قائم کی جائے جو بعد میں نہ صرف ملکی دستور بنائے بلکہ ہندوستان کی وحدت کو بھی قائم رکھ سکے۔ کانفرنس میں قائداعظم نے مسلمانوں کے سیاسی و آئینی مسائل کے حل خصوصاً مسلم نمائندگی کے مسئلہ پر اپنے موقف کا بھرپور دفاع کیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ کانگرس کو مسلمانوں کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں اور نہ ہی وہ وائسرائے کی کونسل میں کسی مسلمان کو نامزد کرے۔ یہ اختیار صرف مسلم لیگ کو ہونا چاہئے۔ قائداعظم اپنے اصولی موقف پر قائم رہے۔ کانگرس مسلمانوں کو شیڈولڈ کاسٹ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو برابر کی نمائندگی کے حق میں تھی مگر قائداعظم نے اسے مسلمانوں کی بحیثیت قوم تضحیک قرار دیا‘ بالآخر کانفرنس ناکام ہو گئی۔ شملہ کانفرنس کی ناکامی قائداعظم کی اصولی سیاست کے سامنے دراصل ہندوﺅں اور انگریزوں کی ناکامی کے مترادف تھی کیونکہ قائداعظم نے مسلم نمائندگی کا بھرپور دعویٰ کرتے ہوئے لارڈ ویول کو انتخابات کی تجویز دی اور یہ چیلنج بھی کیا کہ اگر مسلم لیگ اپنا مسلم نمائندگی کا دعویٰ سچ ثابت نہ کر سکی تو وہ مطالبہ پاکستان سے بھی دستبردار ہو جائےگی۔
ہندوستان میں دسمبر1945ءاور جنوری1946ءمیں مرکزی اور صوبائی مجالس قانون ساز کےلئے انتخابات منعقد ہوئے۔ کانگرس نے متحدہ ہندوستان جبکہ مسلم لیگ نے الگ وطن کے حصول کیلئے بھرپور انداز سے الیکشن میں حصہ لیا۔ انتخابات کے نتائج نے نہ صرف برطانوی حکومتی تخمینوں بلکہ ہندوﺅں کے عزائم کو بھی خاک میں ملا دیا۔ مسلمانوں نے پورے ہندوستان میں جس بھرپور انداز میں قائداعظم کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا وہ تاریخ میں انقلاب آفریں ثابت ہوا‘ لہٰذا کانگرس یا برطانوی حکومت کےلئے قائداعظم اور مسلم لیگ کو نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا کیونکہ قائداعظم کی زبان سے ادا کیا ہوا ہر لفظ مسلمانوں کے دل کی آواز تھا۔ اپریل 1946ءمیں قائداعظم نے مرکزی و صوبائی مجالس قانون ساز کے نو منتخب نمائندوں کا کنونشن دہلی میں طلب کیا جس کا مقصد باہمی اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ قرارداد لاہور میں ایک تاریخی ترمیم کرنا مقصود تھا۔ ہندوستان کی سیاست کا نقشہ نیا بن کر ابھرا اور اسکے خدوخال اس بات کے غماض تھے کہ مسلمان پورے ہندوستان میں یک جان ہو چکے تھے۔
برطانوی حکومت نے مارچ1946ءمیں اپنی کابینہ کے تین اراکین پینتھک لارنس، اے وی الیگزینڈر، سٹیفورڈ کرپس کو ہندوستان بھیجا۔ مشن کی جانب سے کانگرس اور مسلم لیگ کے قائدین سے مذاکرات کے بعد ایک نئے منصوبہ کا اعلان کیا گیا‘ جس میں ہندوستان کو تین گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ برطانوی حکومت کو اس امر کا یقین تھا کہ کانگرس اس منصوبہ کو قبول جبکہ مسلم لیگ مسترد کر دیگی مگر قائداعظم کی فہم و فراست کی بدولت مسلم لیگ نے اسے تسلیم کر لیا جبکہ کانگرس نے مسترد کر دیا۔ کانگرسی قیادت کی منافقت کی انتہا تھی کہ مرکزی حصہ کو تو ماننے پر تیار تھی مگر صوبائی گروپ بندی کو نامنظور کر دیا جس سے مسلمانوں کو بے انتہا فائدہ تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کانگرس کابینہ مشن پلان تسلیم کر لیتی تو شاید ہندوستان کی تقسیم کی نوبت ہی نہ آتی۔ بقول ایس کے موجمدار بیرسٹر:” اگر چہ کابینہ مشن نے لیگ کی پوزیشن کی مضبوطی کا اندازہ کر لیا تھا لیکن وہ فوری طور پر آزاد پاکستان کی تخلیق کےلئے پوری اور حتمی طور پر تیار نہ تھا۔ مشن کے ارکان ایک ایسا راستہ نکالنا چاہتے تھے جس کے ذریعے پہلے ہندوستان کی بنیادی وحدت برقرار رکھی جاتی بعد ازاں مسلم اکثریت کے صوبوں کو مکمل خودمختاری بھی دی جا سکتی تھی“۔
قائداعظم برطانوی پارلیمنٹ کے رویے اور ہندوﺅں کی منافقانہ پالیسی سے مطمئن نہ تھے۔ لہذا انہوں نے 28 جولائی 1946ءکو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس بمبئی میں طلب کیا۔ اس تاریخی اجلاس میں انہوں نے کانگرس کےساتھ پر امن معاہدے کی اپنی خواہش کے تحت لیگ کو کابینہ مشن منصوبہ قبول کر لینے کی ہدایت کی تھی حالانکہ وہ ان کے مکمل پاکستان سے کہیں کم تر تھا۔ انہوں نے ایسا محسوس کیا کہ وہ پورے خلوص نیت سے سیاسی صورتحال کو پرامن رکھیں لیکن اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ کانگرس آئین ساز اسمبلی میں ڈھونگ کے ذریعے دھوکہ دینے کی کوشش کرےگی تاکہ مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کیا جا سکے جو کابینہ مشن منصوبے کے تحت مسلم اکثریت کے صوبوں کی گروپ بندی کے ذریعے دیئے گئے ہیں۔ قائداعظم کو اس صورتحال کو اسلئے واضح کرنا پڑا کہ کانگرس نے 6جولائی 1946ءکو پنڈت جواہر لال نہرو کو اپنا صدر چنا جس کے رویے میں رعونت اور مسلمانوں کو اہمیت نہ دینا شروع ہی سے موجود تھا اور نہرو کے رویہ کی بدولت ہی قائداعظم حصول پاکستان کےلئے مزید مستعد ہو گئے۔ بقول ہیکٹر بولیتھو، قائداعظم نے فرمایا:” ہم نے ایک تلخ سبق سیکھا ہے جو میرے خیال میں اب تک کا تلخ ترین سبق ہے۔ اب سمجھوتے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ آئیے آزاد و خود مختار پاکستان کے اپنے محبوب مقصد کی جانب مارچ کریں“۔
مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں جو قرردادیں منظور کی گئیں ان میں کابینہ منصوبے کو ترک کرنے اور مقصد پاکستان کو مضبوط بنانے کےلئے ”راست اقدام“ کی اجازت دینے کے فیصلے کئے گئے۔ جب یہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تو قائداعظم نے ایک تاریخی خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”آج جو ہم نے کیا ہے وہ ہماری تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ مسلم لیگ کی پوری تاریخ میں ہم نے آئینی ذرائع اختیار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ لیکن اب ہمیں اس پوزیشن کی طرف دھکیل دیا گیا اور مجبور کر دیا گیا ہے۔ آج ہم آئینی طریقوں کو خدا حافظ کہتے ہیں“۔ (انتقال اقتدار وی پی مینن)
جس روز یوم راست اقدام یعنی16 اگست 1946ءکو منایا گیا۔ پرامن مسلمانوں نے ملک گیر ہڑتال کر کے اپنی یک جہتی کا اظہار کیا مگر کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ چل نکلا۔ مسلمان جب اظہار یک جہتی کےلئے جلسہ گاہ گئے تو ہندوﺅں نے مسلح ہو کر انکے گھروں پر حملے شروع کر دیئے 3 دن تک مسلسل قتل عام کیا گیا۔ ظلم و بربریت کا یہ عالم تھا کہ الامان الحفیظ مشرقی کمان کے کمانڈنگ انچیف لیفٹیننٹ جنرل سرفرانسس ٹکر کے بیان کےمطابق یہ تو بے لگام خونخواری تھی۔ صرف ایک رات کے اندر 3 انگریز بٹالینوں نے گلی کوچوں سے ساڑھے چار سو نعشیں اٹھائیں۔ کلکتہ میں مسلمانوں کی آبادی 24% تھی‘ اس لئے انہیں ہندوﺅں کا نشانہ بننا پڑا۔ کچھ بستیوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت چالیس گھنٹے جاری رہی۔ سڑکیں مردہ جسموں سے اٹ گئیں۔ سڑی اور گلتی ہوئی لاشوں کی بدبو سے فضا بھر گئی جو کئی روز تک وہاں جوں کی توں پڑی رہیں۔ لاشوں کو مین ہولوں میں دھکیلا گیا‘ جس سے گٹر بند ہو گئے‘ گلیوں میں لاشوں کے انبار پڑے تھے۔ جنہوں نے آوارہ کتوں،گیدڑوں اور گدھوں کو ہولناک ضیافت فراہم کی۔ ایسی کہانیاں بھی سننے میں آئیں کہ بچوں کو اٹھا اٹھا کر گھروں کی چھتوں سے پھینکا یا زندہ جلا دیا گیا۔ عورتوں کی عصمت دری اور آبروریزی کی گئی اور انہیں قتل کیا گیا“۔ (پیارے لال”آخری دور“) وائسرائے لارڈ ویول خود کلکتہ گئے اور اتنی تباہی اور بھیانک مناظر دیکھ کر اس بات پر قائل ہو گئے کہ اگر مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا تو پورے ملک میں خانہ جنگی یقینی ہے۔ خواجہ ناظم الدین نے ان فسادات کی مکمل ذمہ داری برطانوی حکومت پر عائد کی۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر مسٹر ونسٹن چرچل نے کلکتہ کے خون آشام واقعات پر کڑی تنقید کی جس کے نتیجہ کے طور پر برطانوی حکومت نے وائسرائے ہند کو لکھا کہ کابینہ میں مسلم لیگ کو شامل کیا جائے اور کانگرس کی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے ۔ (جاری)
ایسے نامساعد حالات میں برطانوی حکومت کے ایما پر لارڈ ویول نے خواجہ ناظم الدین سے رابطہ قائم کیا تاکہ وہ قائداعظم کو مخلوط حکومت میں شمولیت پر راضی کر سکیں مگر خواجہ صاحب کی رائے میں یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ کانگرس ایک واضح اور دو ٹوک بیان جاری کرے کہ وہ کابینہ مشن منصوبے کو مکمل طور پر تسلیم کرتی ہے۔ کلکتہ سے واپسی پر لارڈ ویول نے گاندھی اور نہرو کو 27 اگست 1946ءکو مذاکرات کی دعوت دی اور ان کے سامنے خواجہ ناظم الدین کی تجویز رکھی۔ دونوں راہنماﺅں نے مثبت جواب نہ دیا اور ”میں نہ مانوں“ کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ 27 اگست ہی کو گاندھی نے وزیراعظم ایٹلی کو تار بھیجا جس میں انہوں نے کہا کہ کلکتہ کے قتل عام نے وائسرائے کے اعصاب شل کر دیئے ہیں اور انہیں معاونت کےلئے ایک قابل اور قانونی ذہن کی ضرورت ہے۔ دوسرے معنوں میں لارڈ ویول کی جانب سے مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے پر گاندھی نے تعاون کی بجائے درپردہ وزیراعظم کو یہ رائے دی کہ لارڈ ویول کی جگہ کوئی نیا وائسرائے مقرر کیا جائے۔
27 اگست کے بعد لارڈ ویول کو یہ یقین تھا کہ اس وقت تک کوئی عبوری حکومت قائم نہیں ہو سکتی جب تک کانگرس اور مسلم لیگ متفق نہ ہوں چنانچہ لارڈ ویول نے مرکز میں عبوری مخلوط حکومت کے قیام کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم نے تمام مسلمان ارکان کابینہ کی نامزدگی کا حق طلب کیا اور کانگرسی قیادت نے حسب سابق اسے ماننے سے انکار کیا۔ ان حالات میں وائسرائے نے ایک عبوری حکومت مسلم لیگ کی شمولیت کے بغیر قائم کر دی۔ بعد ازاں مسلم لیگ نے حکومت میں شمولیت کا عندیہ اپنی سابق شرائط کی روشنی میں دیا لہذا 25 اکتوبر 1946ءکو ایگزیکٹو کونسل کی ازسر نو تشکیل ہوئی۔ جس کے مطابق کانگرس کی جانب سے مسٹر نہرو امور خارجہ، سردار پٹیل داخلہ، راجندر پرشاد خوراک، راجہ گوپال اچاریہ تعلیم، آصف علی ٹرانسپورٹ، جگ جیون رام محنت کے ممبران کونسل مقرر کئے گئے۔
مسلم لیگ کی نمائندگی، لیاقت علی خان خزانہ، آئی آئی چندریگر تجارت، سردار عبدالرب نشتر مواصلات، راجہ غضنفر علی خان صحت اور جوگندرناتھ منڈل قانون اقلیتوں کی جانب سے جان متھائی، سی ایچ بھابھا اور بلدیو سنگھ کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔
عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لیاقت علی خان نے بحیثیت مقامی نمائندہ وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کیا۔ جسے”غریب آدمی کے بجٹ“ سے موسوم کیا گیا٭ وزیرخزانہ نے ان تمام افراد پر بھاری ٹیکس عائد کیا جن کی کاروباری آمدن ایک لاکھ روپے سے زیادہ تھی٭ ریزرو بنک کے حصص قومیائے گئے٭ حصص، اجناس اور سونے چاندی کی منڈیوں میں سٹہ بازی پر کنٹرول کرنے کی تجویز پیش کی٭ نمک پر محصول معاف کر دیا۔ انکم ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی2ہزار سے 2½ ہزار کر دی گئی٭ ایک لاکھ سے زیادہ کاروباری منافع پر 20% سپیشل انکم ٹیکس عائد کیا گیا٭ سرمایہ میں افزائش ہر55 ہزار روپے سے اوپر ایک تدریجی ٹیکس٭ کارپوریشن ٹیکس کی شرح ایک آنہ سے بڑھا کر 2 آنہ اور چائے پر برآمدی محصول بڑھا دیا علاوہ ازیں ایک انکم ٹیکس تفتیشی کمشن قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی تاکہ کاروباری افراد اور صنعت کاروں پر لگائے گئے ان الزامات کی تحقیقات کروائی جا سکے کہ انہوں نے جنگی ٹھیکوں کے ذریعے بھاری منافع کما کر اس پر ٹیکس چوری کیا ہے۔ لیاقت علی خان نے وضاحت کی کہ ان کا بجٹ اور دیگر تجاویز ان اصولوں پر مبنی ہیں جن کا اعلان کانگرس کے ذمہ داران ارکان خصوصاً کانگرس کے سربراہ پنڈت جواہ لال نہرو نے کیا۔ لیکن بقول ایس کے موجمدار:
”بدقسمتی سے یہ تمام ٹیکس چور کانگرس کے بنیادی سرپرست اور مالی معاونین تھے۔ کانگرس کے دائیں بازو نے ان بجٹ تجاویز کی شدومد سے مخالفت کی جس کی قیادت سردار پٹیل اور راج گوپال اچاریہ کر رہے تھے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ تجاویز فرقہ وارانہ مفادات کی اسا س پر پیش کی گئی ہیں اور ان کا مقصد ہندو سرمایہ داروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ انہوں نے لیاقت علی خاں کی یہ دلیل بالکل قبول نہ کی کہ یہ تجاویل کانگریس کے اعلامیہ اصولوں سے ہم آہنگ ہیں۔
کابینہ میںاختلافات، ہندوستان کے حالات میں بے چینی، باہمی عدم اعتماد کی فضا، لارڈ ویول کی تبدیلی اور ماﺅنٹ بیٹن کے ہندوستان پہنچنے سے قبل ہی سردار پٹیل نے تقسیم کے حق میں اپنا ذھن بدلنا شروع کیا۔ کابینہ میں مسلم لیگ کے ارکان کے ساتھ چند ماہ کام کرنے کے تلخ تجربہ نے انہیں قائل کر دیا کہ ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا ناممکن ہے۔ لہذا ضروری1947ءکے وسط میں ایک اخباری انٹرویو میں سردار پٹیل نے بیان دیا کہ
”اگر مسلم لیگ کے نمائندوں کو عبوری حکومت میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ تو کانگرس اس حکومت سے الگ ہو جائیگی۔ سردار پٹیل نے 4 مارچ 1947ءکو کانجی دوار کا داس کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اظہار خیال کیا:
”اگر لیگ پاکستان پر اصرار کرتی ہے تو اس کا واحد ذریعہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم ہے۔ انہیں پورا پنجاب اور بنگال نہیں مل سکتا۔ میرا خیال ہے کہ حکومت برطانیہ تقسیم سے اتفاق نہیں کرے گی، بالآخر وہ حکومت کی باگ ڈور طاقتور ترین پارٹی کو سونپنے کو ہی داشمندی تصور کرے گی۔ اگر وہ ایسا نہیں بھی کرتی تو بھی ایک طاقتور مرکز--- جس میں مشرقی بنگال، پنجاب کے کچھ حصے ، سندھ اور بلوچستان کے علاوہ جو مرکز کے تحت پوری صوبائی خود مختاری سے بہرہ ور ہیں پورا ہندوستان شامل ہو گا۔ اتنا مضبوط کہ باقی ماندہ حصے بھی آخرکار اس میں شامل ہو جائیں گے“۔
مولانا آزاد کی رائے کے مطابق ”پٹیل نے کھلے عام کہا کہ تقسیم کے علاوہ اور کوئی راستہ نں ہے۔ تجربے نے واضح کر دیا تھا کہ مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنا ناممکن ہے“۔ کانگرسی قیادت کے پیچھے ہندو ساہوکار اور سامنے مسلم لیگ کے اصولی مالیاتی فیصلے درحقیقت ”اگے اگ تے پچھے کند“ کے مترادف تھے۔ حالات کے دباﺅ کا مقابلہ کرنے کی بجائے جواہر لال نہرو بھی تقسیم کی حمایت پر مجبور ہو گئے۔ مولانا آزاد نے نہرو کے ذہن میں ہونے والے تغیر و تبدل پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی کتاب ” ہندوستان کا حصول آزادی“ میں لکھا ہے:
”جو اہر لعل نے سردار پٹیل کی طرح تقسیم کی حمایت نہیں کی۔ درحقیقت وہ تسلیم کرتے تھے کہ تقسیم اصلاً اور اساساً غلط ہے لیکن انتظامی کونسل میں لیگی ارکان کے رویے کے اپنے تجربے کے بعد وہ مشترکہ کارروائی کی ہر امید کھو چکے تھے۔ وہ کسی کام پر متفق نہیں ہوتے تھے ہر روز جھگڑا کرتے تھے۔ جواہر لال نے مایوسی کے عالم میں مجھ سے پوچھا کہ تقسیم کو قبول کر لینے کے علاوہ اور کیا چارہ ہے؟ جواہر لال نے غمزدہ ہو کر مجھ سے بات کی لیکن میرے ذہن میں کوئی شبہ باقی نہ رہا کہ ان کے ذہن میں کیا وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ اب اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا وہ تسلیم کرتے تھے کہ تقسیم ایک برائی ہے لیکن وہ کہتے تھے کہ حالات اسی سمت میں بڑھ رہے ہیں“۔
اس سلسلہ میں ایلن کیمپ بیل جانسن نے پٹیل اور نہرو کی ہذیانی کیفیت کو نہایت خوبصورتی سے آشکار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”عبوری حکومت میں شامل دو بڑے کانگرسی رہنماﺅں نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل نے اس خیال پر تقسیم کو قبول کیا تھا کہ جناح کو پاکستان دینے کے بعد وہ ان سے چھٹکارا پا لیں گے اور ان کی نفرت اور تعصب پھیلانے کی اہلیت ختم ہو جائے گی یا جیسا کہ نہرو نے نجی حلقوں میں کہا کہ سرکاٹنے سے ہم سردرد سے بھی نجات پا لیں گے“۔
(مشن ود ماﺅنٹ بیٹن)
برطانوی حکومت نے 24 مارچ1947ءکو ماﺅنٹ بیٹن کو وائسرائے ہند مقرر کیا۔ حکومت نے وائسرائے کی معاونت کےلئے لارڈ اسمے، سر ایرک میوائیلی اور ایلن کیمپ بیل جانسن کو مقرر کیا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی گاندھی نہرو اور قائداعظم کو ملاقات کی دعوت دی تاکہ ملک کے معروضی سیاسی حالات کے مطابق امور سلجھائے جا سکیں۔ وائسرائے کا ہندوستان کے تمام سرکردہ راہنماﺅں سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے یہ محسوس کیا کہ ہندوستان کے کانگرسی سرکردہ راہنما اور مسلم لیگی قیادت کسی صورت بھی آئندہ اشتراک عمل پر تیار نہ تھے۔ اور وائسرائے کے یہ خیالات کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اگرچہ جون 1948ءتک اقتدار کا جاری رکھنا بھی مشکل نظر آ رہا تھا۔ لہذا وائسرائے نے اس امر کا جائزہ لیا کہ کانگرس اور مسلم لیگ دونوں ومینین کی حیثیت قبول کرنے پر تیار ہو جائیں گی۔ وی پی مینن نے نئے منصوبے کو حتمی شکل دی جس کے تحت تقسیم ہند کے منصوبہ کی جزائیات طے کی گئیں۔ پنڈت نہرو اور قائداعظم نے بھی رضامندی کا اظہار کیا۔ ماﺅنٹ بیٹن 19 مئی1947ءکو لندن پہنچے اور نہایت سرعت سے معاملات کو طے کیا گیا۔ ماﺅنٹ بیٹن محض 12 دن کی قلیل مدت میں 31 مئی1947ءکو ہندوستان لوٹ آئے۔ 2 جون 1947 وائسرائے ہاﺅس میں منعقدہ کانفرنس میں رسمی طور پر ہندوستانی رہنماﺅں کے سامنے منصوبہ پیش کیا گیا۔ جسے کانگرس اور مسلم لیگ نے بغیر زیادہ بحث و مباحثہ کے قبول کر لیا۔ یہ منصوبہ تاریخ میں 3 جون 1947ءکے نام سے موسوم کیا گیا۔ منصوبے کے اہم نکات کچھ اس طرح تھے۔
-1انتقال اقتدار اسی سال ہو گا۔ (یعنی 1948ءکی بجائے 1947ءمیں )
-2پنجاب و بنگال کے ہندو اکثریت اور مسلم اکثریت کے اضلاع کے نمائندے علیحدہ علیحدہ اجلاسوں میں یہ فیصلہ کریں گے کہ کیا وہ صوبوں کی تقسیم چاہتے ہیں یا نہیں؟ لہذا دونوں قانون ساز اسمبلیاں تقسیم کر دی جائیں گی۔
-3آسام کے مسلم اکثریت کے اضلاع میں استصواب کرایا جائے گا کہ کیا وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں؟
-4سندھ کی دستور ساز اسمبلی فیصلہ کرے گی کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔
-5 بلوچستان کے شاہی جرگہ کے ارکان اور کوئٹہ میونسپلٹی کے ارکان فیصلہ کریں گے کہ وہ کس ملک میں شامل ہوناچاہتے ہیں۔
-6صوبہ سرحد میں بھی استصواب رائے کے ذریعے معلوم کیا جائے گا کہ وہاں کے عوام کس ملک میں شامل ہونے کے حق میں ہیں۔
-7اگر صوبوں کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو وائسرائے ایک کمشن مقرر کریں گے جو تقسیم کی تفصیلات طے کر گیا۔
اس اہم منصوبہ کی منظوری کے بعد کانگرس کی جانب سے جواہر لال نہرو، مسلم لیگ کی جانب سے قائداعظم سکھوں کی جانب سے سردار بلدیو سنگھ نے آل انڈیا ریڈیو پر تقاریر کیں۔ قائداعظم نے اپنی نشری تقریر میں منصوبہ کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ”پاکستان زندہ باد“ کا تاریخی نعرہ بلند کیا۔
تقسیم کے منصوبہ کے اعلان کے بعد مختلف راہنماﺅں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا آزاد نے کہا:
”مجھے یقین ہے کہ یہ تقسیم عارضی، بالکل عارضی ثابت ہو گی“
ہندو ماسبھا کی جانب سے تعصب کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا گیا۔”انڈیا واحد اور ناقابل تقسیم ہے۔ جب تک انڈیا سے الگ ہونے والے خطوں کو دوبارہ شامل نہیں کیاجائے گا اور انہیں انڈیا کا لازمی حصہ نہ بنا دیا جائے امن کا قیام نامکمل رہ جائے گا“۔
گاندھی نے ماﺅنٹ بیٹن کے منصوبہ تقسیم پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا :
”یہ تقسیم عارضی ہے یہ زیادہ تیر تک نہ چل سکے گی بلکہ مسلمان خود بخود ہندوستان سے آملیں گے“۔
سردار پٹیل نے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
”اگر جسم کا ایک حصہ زہر آلود ہے اسے جتنی جلدی الگ کر دیا جائے بہتر ہے تاکہ باقی جسم بچ جائے“۔
منصوبہ کے اعلان کے بعد مختلف اہم نوعیت کے درج ذیل فیصلے کئے گئے۔
-1سندھ اسمبلی نے26 جون 1947ءکو پاکستان میں شمولیت کا متفقہ فیصلہ کیا۔
-2بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری ارکان نے متفقہ طور پر پاکستان کے حق میں رائے دی۔
-3ضلع سلہٹ کے ووٹرز نے سلہٹ کو آسام سے الگ کر کے مشرقی بنگال کے ساتھ ملا دینے کا فیصلہ کیا۔” حق میں24 لاکھ اور مخالفت میں 8لاکھ ووٹ ڈالے گئے“۔
-4صوبہ سرحد میں عبدالغفار خان اور جمعیت العلماءہند کے پاکستان کے خلاف بھرپور مہم چلائی مگر ریفرنڈم میں عوام نے ان کی خواہشات اور امیدوں کو خاک میں ملا دیا پاکستان میں شمولیت کے حق میں پونے تین لاکھ اور مخالفت میں تقریباً تین ہزار ووٹ پڑے۔ خان عبدالغفار خان کی ہزیمت سے کانگریسی قیادت بھی بددل ہو گئی۔
بنگال اور پنجاب کی تقسیم کےلئے سرریڈکلف کی سرکردگی میں الگ الگ کمشن قائم کئے گئے تاکہ نئے ممالک کی سرحدات کا تعین کیا جا سکے۔ پنجاب کےلئے جسٹس دین محمد، جسٹس محمد منیر، مسٹر جسٹس مہر چند مہاجن، مسٹر تیجا سنگھ، سرحدات کے تعین کمشن کی تشکیل کےلئے قائداعظم کی خواہش تھی کہ دار الامراءکے لڈ لارڈ کو چیئرمین بنایا جائے مگر ماﺅنٹ بیٹن نے اپنے عزائم اور کانگرسی خواہشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریڈ کلف کو چیئرمین بنایا جو سراسر غلط فیصلہ تھا۔ کمشن کی جانب سے جو غلط فیصلے کئے گئے وہ مرحلہ وار کچھ اس طرح تھے۔
بنگال: بنگال کی سرحدات مقرر کرتے وقت کلکتہ، مرشد آباد اور نادیہ ضلع کا بیشتر حصہ بھارت کو دے دیئے گئے کیونکہ کانگرس نے ماﺅنٹ بیٹن سے اس امر کا اصرار کیا کہ کلکتہ کے بغیر بھارت نامکمل ہے۔ آسام کے بعض غیر مسلم علاقے پاکستان اور بعض مسلم علاقے بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔ 1948ءمیں بعض اختلافات پیدا ہوئے۔ تاہم ٹربیونل کے فیصلہ کے مطابق بھارت، بیروباری یونین کا علاقہ پاکستان کے حوالے کرنے سے پس و پیش کرتا رہا۔ جسٹس رحمن نے ریڈ کلف کے حتمی فیصلہ کو پڑھا تو صاف کہا:
”فیصلہ غیر منصفانہ اور از حد حیران کن ہے“۔
پنجاب:
پنجاب میں عجیب صوررتحال تھی۔ اولاً تو قائداعظم پنجاب کی تقسیم کے مخالف تھے مگر تقسیم کو جب پنجاب کی تقسیم سے مشروط کر دیا گیا تو مجبوراً تقسیم پنجاب کو ماننا پڑا مگر یہاں صورتحال عجیب تھی سکھوں نے پنجاب کے بیشتر اضلاع پر اپنا حق جتلاتے ہوئے ان کی مغربی پنجاب سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ شیخوپورہ میں ننکانہ صاحب کے تعلق جو سکھوں کے مذہبی پیشوا ہیں اپنا حق فائق سمجھا، علاوہ ازیں گورداسپور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، منٹگمری اور لائل پور میں زمینوں کے بڑے بڑے مالک سکھ تھے اور وہ ان کی آبادکاری کی بدولت بضد تھے کہ ان اضلاع کے بیشتر علاقوں کے وہ حقدار ہیں۔ انگریزوں کے سرحدات کے مقرر کرتے وقت مسلم اکثریتی کی بیشتر تحصیلیں بھارت کے حوالے کر دیں خصوصاً فیروز پور، زیرہ، نکودر، جالندھر، گورداسپور، پٹھانکوٹ، بٹالہ، ہوشیارپور، دسوہہ کو بھارت میں شامل کر دیا صرف شکر گڑھ کی مسلم اکثریتی تحصیل پاکستان کو دیدی گئی۔
٭گورداسپور کی وجہ سے بھارت کو جموں کشمیر کا زمینی راستہ میسر آیا جو آئندہ دونوں ممالک کے لئے وجہ تنازعہ بنا اور آج تک حل طلب ہے۔
٭مادھوپور ہیڈ بھارت کے حوالے کر دیا گیا اور آغاز سے ہی نہری پانی کا تنازعہ شروع ہو گیا حالانکہ وہاں سے نکلنے والی نہر ہر باری دوآب پاکستان کے بیشتر علاقوں کو سیراب کرتی تھی۔
٭کشمیر پر غاصبانہ قبضے کا خفیہ منصوبہ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریسی قیادت نے پہلے سے ہی بنا رکھا تھا۔ پٹھانکوٹ کی تحصیل سے بھارت کو زمینی راستہ میسر نہیں آ سکتا تھا اگر گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں بھارت کو نہ دی جائیں، یہ تمام تحصیلیں8 اگست کو پاکستان کے نقشہ میں ظاہر کی گئیں مگر ریڈ کلف نے ماﺅنٹ بیٹن کی ایما کے مطابق یہ تمام علاقے بھارت کو دیئے۔ ریڈ کلف کا بیان تھا کہ دریائے ستلج کے مغربی جانب اور بیاس و ستلج کے زاویہ میں مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کو نہیں دینا چاہتا تھا لیکن آخر کار یہ علاقے بھارت کو دیدیئے۔
قائداعظم نے ریڈ کلف ایوارڈ کو صریحاً ظالمانہ فیصلہ قرار دیا چونکہ وہ وعدہ کر چکے تھے اسلئے اسے مجبوراً قبول کرنا پڑا“۔
3 جون 1947ءکے منصوبہ کی بنیاد پر برطانوی وزیراعلیٰ ایٹلی نے 4جولائی 1947ءکو مسودہ قانون برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ 15 جولائی کو بحث و تمحیص کے بعد دارالامراٰ نے اسے منظور کیا 16 جولائی کو ملکہ کی منظوری سے قانون آزادی ہند منظر عام پر آیا۔ دوسرے تمام اہم فیصلوں کے ساتھ ایک یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ملک میں موجود ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکتی ہیں مگر انگریزوں نے اس قانونی ضابطہ کو حقیقی معنوں میں پورا کرنے کےلئے کئی متنازعہ فیصلے کئے۔ سرا سر فریب تھا۔ ہندوستان میں انگریزوں نے حصول مال اور حصول اقتدار کےلئے بے شمار معاہدوں کو توڑا، معاہدہ خواہو اسیران سند سے وہ یا رنجیت سنگھ سے، معاہدہ خواہ نظام آف حیدر آباد سے ہو یا ریاست اودھ سے ، ہر معاہدہ ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتا تھا۔ اسیران سندھ سے کئے گئے معاہدوں کی خلافوری یا الحاق کی بات اس موقع پر چارلس نیپئر نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے بھی شرم محسوس نہ کی۔ ”کہ ہم نے گناہ کیا ہے“۔ لیکن یہ ہمارے مفاد میں ہے۔ ریاستوںکے الحاق کے حوالہ سے جونا گڑھ، مناوادر، حیدر آباد دکن اور خصوصاً کشمیر کے حوالہ سے انگریزوں نے ہندوﺅں کے ساتھ مل کر سازش کر کے تمام اخلاقی آئینی اور قانونی ضابطوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے مسلم دشمنی کا واضح ثبوت دیتے ہوئے ایسے اقدامات کئے جو نئی مملکت یعنی پاکستان کےلئے بے شمار مشکلات کا باعث بنے۔ دونوں ممالک میں نفرت و عداوت کے ایسے بیج بوئے جو آج تن آور درخت بن چکے ہیں۔ تقسیم کے بعد انگریزوں نے جس بدنیتی خصوصاً انتظامی بدنظمی، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال سے چشم پوشی، امن و امان کی ذمہ داری سے مبرا ہونا ایسے حالات تھے جس سے تقسیم کے بعد سرحدات خصوصاً مشرقی پنجاب سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کی شہادت، درحقیقت انگریزوں کی سنگ دلی اور حالات کو دانستہ بگاڑنے کا ایسا جرم تھا جسے آج بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ مجموعی طور پر پنجاب کے فسادات میں چھ لاکھ افراد کی ہلاکت ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد کا بے گھر ہونا اور ایک لاکھ معصوم اور بے گناہ لڑکیاں اغوا اور عصمت دری کا نشانہ بیں۔ پنجاب کی تقسیم کی یہ قیمت ادا کی گئی۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/11-Jun-2011/20462رابطہ لنک
معلومات افزا مضمون ہے۔ پروفیسرڈاکٹر پروین خان نے پلان کی نسبت تاریخی حقائق کا تسلسل اور تفصیل سے احاطہ کیاہے۔ میان بشیر امد نے کارنامہ اسلام میں جنوری1947ء میں مسلم لیگ کی پنجاب میں اٹھنے والی ایک زبردست تحرک کا ذکر کیا ہے اسی تلاش میں گوگل نورد تھا کہ مقالہ سے مستفید ہوا۔محترم مقالہ نگارمذکورہ تحریک کی نسبت رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی
ReplyDelete