غامدی کاانکارِ نزو لِ عیسٰی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن مجید میں حضرت عیسٰی کے اوپر اْٹھائے جانے کا ذکر سورہ الِ عمران کی درج ذیل آیت میں ہوا ہے۔
''اور انھوں نے خفیہ چالیں چلیں تواللہ نے بھی اْن کا خفیہ توڑ کیا اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے (٥٤) جبکہ اللہ نے کہا کہ اے عیسٰی میں تمہں وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں اورجن لوگوں نے کفر کیا ان سے تمہں پاک کرنے والا ہوں ۔اور جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی ان کو قیامت تک کے لئے اُن لوگوں پر غالب کرنے والا ہوں جنہوں نے تمہارا انکار کیا پھر میری طرف تم سب کا پلٹنا ہو گا اور میں تمھارے درمیان اْن چیزوں کے بارے میں فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو''(٥٥)
اس آیت میں حضرت عیسٰی کے اوپر اٹھائے جانے کا ذکر نہایت واضح الفاظ میں ہوا ہے لیکن ان کے دوبارہ واپس آنے کا ادنٰی اشارہ بھی قرآن مجید میں کسی جگہ موجود نہیں ہے مسلمانوں میں یہ تصور احادیث کے ذریعے سے منتقل ہوا ہے جس کی صداقت پرمسلمان علماء میں اختلاف ہے۔
نظریہ غامدی پر اصلاحی جائزہ
محترم ساتھیو! السلام علیکم یہ عبارت جو ہم نے اوپر نقل کی ہے اس عبارت کو ادارہ المورد کی ویب سائیٹ پرایک سوال کے جواب میں بیان کیا ہے۔
www.urdu.understanding-islam.org))جس کے سرپرست اعلٰی جاوید احمد غامدی ہیں اس عبارت میں عیسٰی کی دوبارہ آمد کی نفی کی جا رہی ہے اوراس بارے میں قرآن مجید کے حوالے سے یہ بیان کیا جارہا ہے کہ قرآ ن مجید میں کوئی ادنٰی اشا رہ بھی اس بارے میں نہیں ہےاور یہ بیان کیا جارہا ہے کہ یہ تصوراحادیث کےذریعے سے مسلمانوں میں منتقل ہوا ہےاورمسلمان علماء میں اس بارے میں اختلاف ہے۔ سب سے پہلے تو ہم (المورد،غامدی)کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کا دوبارہ باغور مطالعہ کریں بلکہ سب سے بڑے معلم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم لیں(یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن مجید کی تشریح اور تفہیم احادیث میں فرمائی ہے اور صحابہ کرام کو جس کی تعلیم فرمائی اْس کا مطالعہ کریں)تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ قرآن مجید نے کسی ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ عیسٰی کی دوبارہ آمدکے اشارات دیئے ہیں آیےاب ہم اُن آیات کا مطالعہ کریں:
آیتِ ترجمہ'' اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسٰی بن مریم کو قتل کردیا حالانکہ نہ توانھوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پرچڑھایا بلکہ ان کے لئے وہی صورت بنادی گئی تھی یقین جانو کہ عیسٰی کے بارے اختلاف کرنے والے انکے بارے میں شک میں ہیں انھیں اس کا کوئی یقین نہیں سوائے تخمینی باتوں پرعمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالٰی نےانہیں اپنی طرف اْٹھا لیا ، اوراللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والاہے۔اہلِ کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچےگاجو حضرت عیسٰی کی موت سے پہلے ا ن پر ایمان نہ لاچکےاورقیامت کےدن آپ ان پرگواہ ہوں گے۔''(سورہ النساء آیت١٥٦۔١٥٩)
اگر ہم سورۃ النساء کا باغورجائزہ لیں تواس میں عیسٰی کی وفات کی نفی کی جارہی ہے جیسا کہ بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی طرف اٹھالیا توعیسٰی کی وفات کب ہوگی اوراگر نہیں ہو گی تو پھرقرآن مجید کی اس آیت کاکیا مطلب ہواکہ جس میں بیان ہوا ہےکہ: ''ہرجان کو موت کا مزا چکھنا ہے''(سورہ ال عمران آیت١٨٥) اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیسٰی کی دوبارہ آمد ہوگی اورانکی وفات ہو گی(جیساکہ احادیث میں بیان ہوا ہے جس کو ہم آگے بیان کریں گے) اور آگے بیان ہوا ہے کہ تمام اہل کتاب عیسٰی کی وفات سے پہلے ان پرایمان لائیں گے۔ (بعض مترجمین نے اسکا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ اہلِ کتاب اپنی موت سے پہلےعیسٰی پرایمان لے آئے گا)مگر پہلے ترجمہ ہی رائج اور صحیح ہے کیونکہ اس کی تشریح حضرت ابن عباس اورابو ہریر ہ سے منقول ہے۔(بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسٰی، تفسیرطبری،ابن کثیر)
اگر عیسٰی واپس نہیں آئیں گےتو یہ آیت کب پوری ہوگی جس کےمطابق تمام اہل کتاب اُن پر ایمان لائیں گےاس سے واضح ہوتا ہے کہ عیسٰی قیامت کے قریب واپس آئیں گےاورپوری دنیا میں صرف دینِ اسلام ہوگا(نوٹ: جیسا روایات میں بیان ہوا ہے)یہ آیات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ عیسٰی دوبارہ واپس آئیں گےاب اس کے بعد سورہ الِ عمران آیت کامطالعہ کرتے ہیں:
آیتِ ترجمہ''وہ (عیسٰی )لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا ا ور ادھیڑعمر میں بھی ا ور وہ نیک لوگوں میں ہو گا''(سورہ الِ عمرا ن آیت٤٥)
(عیسٰی کا گود میں کلام کرنے کاواقعہ سورہ مریم آیت٢٩تا٣٣میں بیان ہوا ہے) اس آیت میں عیسٰی کے پختگی کی عمر میں کلام کاتذکرہ کیا جارہا ہے اور قرآن مجید نے پختگی کی عمر چالیس سال بیان کی ہے:
آیتِ ترجمہ'' یہاں تک کہ وہ اپنی کمالِ عمرکو پہنچاعمر چالیس برس کی''(سورۃ الاحقاف آیت١٧)
اب اگر ہم احادیث کا مطالعہ کریں تو اس بات کی طرف اشارہ ملتاہے کہ عیسٰی کو ٣٣ برس کی عمر میں اللہ نے اپنی طرف اٹھالیا تھااور بائیبل میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے اور احادیث کے مطابق عیسٰی سات سال زمین میں رہیں گے اور چالیس برس کی عمر میں وہ لوگوں سے کلام کریں گے پھران کی وفات ہو جائے گی تب قرآن مجید کی یہ آیت پوری ہوگی کہ عیسٰی پختگی کی عمر میں بھی لوگوں سے کلام کریں گے یہ آیت بھی عیسٰی کی دوبارہ آمد کی طرف اشارہ کرتی ہے ا ب اسکے بعداب ہم اُس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں جس سے بات بلکل واضح ہو جائی گی۔
آیت:'' وَ اِنَّہ' لَعِلْمُ لِّلسَّاعَةِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاوَاتَّبِعُوْنِ،ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ" اور یقیناَ وہ (عیسٰی) قیامت کی علامت ہے پس تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔''(سورہ الزخرف:٤٣ ، آیت٦١)
اس آیت میں عیسٰی کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ قیامت کی علامت ہیں اس آیت کے بارے میں حضرت ابن عباس سے قول منقول ہے (لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ)یعنی علامتِ قیامت سے مُراد نزولِ عیسٰی ہیں ،دیکھئے (تفسیرطبری،تفسیرقرطبی،تفس�
�ر ابن کثیر)
اور ایک حدیث سے بھی ابن عباس کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
مفہوم حدیث:''حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم برآمد ہوئے ہم پر اور ہم باتیں کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے کہا ہم قیامت کا ذکر کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے'' ان نشانیوں میں سے ایک نزول عیسٰی بھی ہے''
(صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جاناجلد٢)
نزول عیسٰی قیامت کی علامت ہے جیسارسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اورابن عباس کےاس قول سے جو اس آیت کے بارے میں بیان ہواہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں(لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ) سے مرادعیسٰی کی دوبارہ آمد ہے، یہا ں نزول عیسٰی کے حوالے سے یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ (المورد،غامدی کا) یہ کہنا ہے کہ یہ تصور احادیث سے منتقل ہوا ہے تو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی اشارہ کسی حدیث میں بیان ہوا ہو یا کسی ایک حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہوجس سے یہ تصور کیا گیا ہو بلکہ نزول عیسٰی کے بارے میں کثرت کے ساتھ روایات موجود ہیں اور صحابہ کرام کی کثیر جماعت نے اسے روایت کیا ہے اس کےبعد تابعین محدثین مفسرینِ قرآن سب کا اس بات(نزول عیسٰی)پراجماع ہے یہاں تک کہ ابن کثیرنے سورہ النساء آیت١٥٦،١٥٩۔کی تفسیرمیں بیان کیا ہےکہ اِن تمام روایات کو ایک جگہ جمع کرنا بہت مشکل ہےاوریہ روایات تواتر کے ساتھ موجود ہیں اب نہ جانے کون سےعلماء ہیں جن کا اس بارے میں اختلاف ہے ہمارے خیال سے یہ ادارہ المورد کےعلماء ہو گے جن کے آپس میں اختلاف ہوں گے کیونکہ ان کے سرپرست جاوید احمد غامدی کے اپنےموقف میں اختلاف ہوتا ہے کبھی وہ سنتوں کو چالیس قراردیتے ہیں کبھی یہ٣٧ ہوجاتی ہیں اورکبھی ٢٧اور ہرباریہ سب قطعی ہوتی ہیں ابھی تک سنتوں کے بارے میں ان کا موقف واضح نہیں ہےتو( نزول عیسٰی ) کے بارے میں رائے قائم کرنا دور کی بات ہے۔ اب ان احادیث کا مطا لعہ کرتے ہیں ۔
مفہومِ حدیث:ابوہریرہ نےبیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے عیسٰی تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سےنزول کریں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے ،سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گےاس وقت مال ودولت کی اتنی کثرت ہو جائی گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اورایک سجدہ دنیا اور ما فیھا سے بڑھ کر ہوگا پھرابوہریرہ نے فرمایا کہ تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو اور کوئی اہلِ کتاب ایسا نہیں ہو گا جو حضرت عیسٰی کی موت سے پہلے ایمان نہ لاچکےاور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے۔''(صحیح بخاری کتاب الانبیاء)
مفہومِ حدیث:ابوہریرہ سےروایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور عیسٰی کے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا اور بیشک عیسٰی اتریں گے جب تم ان کودیکھو توپہچان لووہ ایک شخص ہیں متوسط قدوقامت کے رنگ ان کا سرخی اورسفیدی کے درمیان میں ہے وہ زرد کپڑے ہلکے رنگ کے پہنے ہوں گےان کےبالوں سے پانی ٹپکتا معلوم ہوگا اگرچہ وہ تربھی نہ ہوں گے وہ لوگوں سے جہاد کریں گے اسلام قبول کرنےکے لئےاور توڑڈالیں گےصلیب کواورقتل کریں گے سورکو اورموقوف کردیں جزیے کواورتباہ کر دے گااللہ تعالٰی ان کےزمانے میں سب مذہبوں کو سوا اسلام کے اور ہلاک کریں گے وہ دجال مردودکو پھر دنیا میں رہیں گے چالیس برس تک بعد اس کےان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان پرجنازے کی نمازپڑھیں گے''(سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣)
مفہومِ حدیث:ابوہریرہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے اُتریں گے تم لوگوں میں پھر امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے''(ابن ابی ذئب نے کہا جو( راوی حدیث ہیں)امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے مراد ہے کہ عیسٰی امامت کریں گے اللہ کی کتاب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے (یعنی تابع ہوں گے شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور پیروی کریں گے قرآن و حدیث کی)(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول بمع شرح امام نووی)
مفہومِ حدیث:جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میں نے سنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا لڑتا رہے گا حق پر قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا ۔پھر عیسٰی اتریں گے اور اس گروہ کا امام کہے گا نماز پڑھایئے وہ کہیں گے تم میں سے ایک دوسرے پر حاکم رہیں ۔یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعا لٰی عنایت فرماوے گا اس امت کو''( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول)اس کے علاوہ یہ روایات(بخاری کتاب الانبیاء جلد دوئم،مسلم کتاب الایما ن اور کتاب الفتن باب فتح قسطنطنیہ جلد اول،سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣ ،صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں اورخروج دجال جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جانا اور نزول عیسٰی اور قتل دجا ل جلددوئم ،مسند احمد،تفسیرابن کثیر)میں بیان ہوئی ہیں۔
تمہید:قرآن مجید میں نزول عیسٰی کے واضح اشارات ملتے ہیں اور روایات میں صراحت سے اس کا تذکرہ موجود ہے اور تمام صحابہ کرام محدثین اور مفسرین قرآن کا اس پر اجماع ہے اور اس سے انحراف کرنے والے جان لیں کہ امام مسلم نزول عیسٰی کو کتا ب الایمان میں لائیں ہیں اس سے امام مسلم یہ بات واضح کرنا چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ عیسٰی کی دوبارہ آمد ہوگی اللہ تعالی ہمیں ایمان دے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے (آمین)
بشكريہ دفاع حديث فاؤنڈيشن
http://www.difaehadees.com
No comments:
Post a Comment