حرمت ناموس رسالت محمد صلی الله علیہ وسلم
مولانا عبید اللہ خالد
اس وقت پاکستان میں ناموسِ رسالت کا موضوع سب سے اہم ترین موضوع بنا ہوا ہے، پاکستانی مسلمانوں ہی کے لیے کیا، دنیا بھرکے مسلمانوں کے لیے اگر کوئی شئے سب سے اہم ہو سکتی ہے تو الله تعالیٰ پر ایمان کے بعد خاتم الانبیا صلی الله علیہ وسلم کی ناموس وحرمت ہی ہے، بلکہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم کی ناموس وحرمت ایمان ہی کا حصہ ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی فرد ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کا بھی مسلمان نہیں ہو سکتا۔
ناموس رسالت کے قانون کا نفاذ اسی ّکے عشرے میں صدر ضیاء الحق کے دور میں ہوا تھا لیکن اس کے خلاف چہ مے گوئیاں ہمیشہ ہی سے جاری رہی ہیں ۔ البتہ اس حکومت میں جس برملا انداز میں اس قانون کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی ، حد تویہ ہے کہ اس قانون میں ترمیم کے لیے باقاعدہ ایک قرارداد بھی جمع کر ادی گئی تاہم گورنر پنجاب کے اسلام آباد میں قتل نے اس موضوع کو ایک نیا رخ دیا اوراب وہ تمام زبانیں بند ہیں جنہوں نے اسلام اور ناموس رسالت کو کم از کم اپنے الفاظ کے ذریعے دو الگ الگ معاملات ثابت کرنے کی کوشش کی۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حرمت اور ناموس ہمارے مذہب کی اصل ہے اس کے بغیر ہم کسی بھی درجے میں مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں ، بعض لوگ جو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو دین سے الگ کرکے صرف الله کو مان کر مسلمان ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں ، وہ شدید ترین گمراہی میں مبتلا ہیں اگر چہ شیطان نے دنیوی آرام وآسائش کو ان کے سامنے اس انداز سے سجا دیا ہے کہ وہ اِسے اپنے حق پر ہونے کا ثبوت گردانتے ہیں۔ میری مراد قادیانی جماعت سے ہے۔
ناموس رسالت کا قضیہ نیا نہیں ،اس وقت سے یہ ایشو جاری ہے، جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا دعوی فرمایا اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اسی دور میں حق کو کھلی آنکھوں دیکھ کر قبول نہ کرنے والے یہودی عیسائی گروپوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کر دیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کی زندگی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات والاصفات کے خلاف کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہو گئے۔ آج ناموس رسالت کے خلاف بات کرنے والے انہی کے پیرو اور نام لیوا ہیں۔ چناں چہ وہ کبھی ڈنمارک میں سر اٹھاتے ہیں تو کبھی فرانس میں کبھی جرمنی میں تو کبھی پاکستان میں … اور اس بار انہوں نے پاکستان میں یہ کوشش کی ہے ۔ الحمدلله پاکستان کے غیور مسلمانوں نے اپنی بھرپور جرات ایمانی اورعشق محمدی کا ثبوت دیا اور اپنے جلسوں، احتجاجوں اور ہڑتال کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور یہاں اسلام کے پیمبر خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے چاہنے والے بستے ہیں جو آں حضور صلی الله علیہ وسلم کی عزت وناموس کے مقابلے میں اپنی ہر شئے حتی کہ جان کو بھی ہیچ سمجھتے ہیں۔
شائع ہواالفاروق, ربیع الاول ۱۴۳۲ھ, Volume 27, No. 3
قانون توہین رسالت ﷺ کیا یہ صدر ضیاء الحق کا بنایا ہوا قانون ہے؟
محترم محمد متین خالد
قانون توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کا قانون صدر ضیاء الحق کا بنایاہوا قانون ہے ، لہٰذا اسے ختم ہونا چاہیے۔ صدر ضیاء الحق کی دشمنی کی آڑ میں قانون توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت عجیب بات ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس قانون کے بننے کی وجہ معلوم کرنی چاہیے۔17 مئی1986ء کی شام اسلام آباد کے ہوٹل میں ایک سیمینار کے دوران انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن( موجودہ سپریم کورٹ بار کی صدر) عاصمہ جہانگیر ایڈوکیٹ نے شریعت بل کے خلاف تقریر کرتے ہوئے حضور خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں نہایت توہین آمیز اور گستاخانہ الفاظ استعمال کیے۔ میرا قلم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں وہ ناپاک الفاظ یہاں رقم کروں۔ عاصمہ جہانگیر کی شانِ رسالت صلی الله علیہ وسلم میں گستاخی کے ارتکاب پر راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے معزز اراکین جناب عبادالرحمن لودھی ایڈوکیٹ او رجناب ظہیر احمد قادری ایڈوکیٹ نے سخت احتجاج کیا او رمطالبہ کیا کہ وہ اِن توہین آمیز الفاظ کو واپس لے کر اس گستاخی پر معافی مانگے۔ عاصمہ جہانگیر کے انکار او راپنے الفاظ پر مسلسل اصرار پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اگلے دن جب اس واقعہ کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو پورے ملک میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پرتوہین رسالت کی سزا نافذ کی جائے او راس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ دریں اثنا انہی دنوں عاصمہ جہانگیر نے برملا اعلان کیا کہ ” میرے شوہر طاہر جہانگیر قادیانی ہیں۔ میں اس سلسلے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی۔ وہ ہم سے بہت بہتر ہیں۔ “ (روزنامہ جنگ لاہور26 جون1986ء)
عاصمہ جہانگیر کی اس قابل اعتراض تقریر کانوٹس سب سے پہلے قومی اسمبلی میں، اسلامی جذبہ سے سرشار خاتون ایم۔ این۔ اے محترمہ نثار فاطمہ نے لیا اور انہوں نے وہاں پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائی کہ عاصمہ جہانگیر کے ان توہین آمیز الفاظ کے خلاف حکومت فوری ایکشن لے۔ لیکن چوں کہ اس وقت تعزیرات پاکستان میں توہین رسالت کے جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی ، اس لیے اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ ہو سکی ۔ بعد ازاں محترمہ آپا نثار فاطمہ نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس میں توہین رسالت کی اسلامی سزا، سزائے موت تجویز کی گئی۔ اراکین قومی اسمبلی کی بھاری اکثریت نے اس بل کو منظور کیا، اس طرح تعزیرات پاکستان میں دفعہ295/C کا ضافہ کیا گیا، جس کی رُو سے ”اگر کوئی شخص زبانی یا تحریری الفاظ کے ذریعہ یا واضح انداز میں یا بذریعہ بہتان طرازی یا بذریعہ طعن آمیز اشارہ، کنایہ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر حضور نبی کریم، حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے اسم مبارک کی بے حرمتی کرتا ہے، سزائے موت کا مستوجب ہو گا یا اسے تاحیات سزا دی جائے گی او راسے جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔“
اس قانون میں دو سزائیں تجویز کی گئیں ، سزائے موت یاعمر قید سزا۔ حالاں کہ محترمہ آپا نثار فاطمہ کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے بل میں توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کی سزا صرف سزائے موت تجویز کی گئی تھی، مگر وزارت قانون کی طرف سے اس بل میں یہ ترمیم کی گئی کہ شاتم رسول کی سزا ، سزائے موت یا عمر قید ہو گی ۔ اس طرح تعزیرات پاکستان میں295/C کا اضافہ کر دیا گیا۔ چوں کہ توہین رسالت کے مرتکب کی سزا” عمر قید“ اسلامی قانون کے خلاف تھی ۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ، مجاہد تحفظ ناموس رسالت جناب محمد اسماعیل قریشی نے اس قانون کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا کہ توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کی سزا بطور حد سزائے موت ہے اور حد کی سزا میں حکومت ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کو بھی سوئی کی نوک کے برابر کمی یا اضافہ کرنے کا اختیار نہیں اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت نومبر1989ء کو شروع ہوئی۔ وفاقی شرعی عدالت کا یہ فل بنچ جناب جسٹس گل محمد خان چیف جسٹس ، جناب جسٹس عبدالکریم خان کندی، جناب جسٹس عبادت یار خاں، جناب جسٹس عبدالرزاق اے تھیم او رجناب جسٹس فدا محمد خاں پر مشتمل تھا۔ عدالت نے خاصے عرصے تک اس درخواست کی سماعت کی اور متعدد اسکالروں، تمام مسالک کے جید علمائے کرام او راس موضوع پر دست رس رکھنے والے سینئر قانون دانوں کو بھی طلب کیا، تاکہ وہ اس موضوع پر اپنی آرا پیش کرکے عدالت کی قانونی معاونت کریں۔
30 اکتوبر1990ء کو عدالت نے اس درخواست کا متفقہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے قرار دیا کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی توہین یا ان کے اسم مبارک کی بے حرمتی کے جرم میں متبادل سزا، تاحیات قید، اسلام کی واضح نصوص(احکام کے منافی ہے)۔ عدالت نے مزید کہا کہ دفعہ 295 سی میں ”تاعمر قید“ کا لفظ توہین رسالت کے حوالہ سے شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے ، اس لیے صدر پاکستان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 30 اپریل1991ء تک اس قانون کی اصلاح کریں اور ” یا عمرقید“ کے الفاظ ختم کریں اور یہ کہ اگر تاریخ مقررہ تک ایسا نہ کیا گیا تو پھر اس کے بعد یہ الفاظ خود بخود کالعدم متصور کیے جائیں گے اور صرف سزائے موت، ملک کا قانون بن جائے گا، چناں چہ مقررہ تاریخ تک یہ کام نہ ہو سکا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ الفاظ خود بخود کالعدم ہو گئے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ میں توہین رسالت کی سزا، سزائے موت کو قرآن اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے اخذ کر دہ اور درست قرار دیا ۔ (PLD-1991 FSC-10) یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کی دفعہ203-D کے تحت وفاقی شرعی عدالت ہی اس امر کی مجاز ہے کہ وہ کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرے۔ آئین کی شق 203-D کے مطالعہ کے بعد اس سلسلہ میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ اس آئینی شق میں کہا گیا ہے:
”عدالت ازخود نوٹس پر یا پاکستان کے کسی شہری کی پٹیشن پر یا وفاقی یا کسی صوبائی حکومت کی پٹیشن پر یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ قرآن اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم کے اصولوں کی روشنی میں کسی بھی قانون یا اس کی شق کے اسلام کے مطابق یا اسلام سے متصادم ہونے کا فیصلہ کرسکے۔“
یہ بات ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ قوانین وضع کرنے ، ان پر نظر ثانی کرنے ، ان میں ترمیم کرنے ، ان کی تنسیخ کرنے کے وسیع تر اختیارات رکھتی ہے ۔ پارلیمانی طریقہ کار اور قانون سازی کی روایات کے مطابق پارلیمنٹ کی طرف سے وضع کردہ قانون توہین رسالت کئی دہائیوں سے نافذ العمل ہے او رآئینی عدالت کے کڑے معیار پر پورا اتر چکا ہے ۔ یہ کہنا کہ قرآن وسنت میں توہین رسالت کی سزا موت نہیں ہے ، وفاقی شرعی عدالت اس اعتراض کا آئینی شق203-D کی ذیلی شق2 کے تحت پہلے ہی باریک بینی سے جائزہ لے چکی ہے او راس کے فیصلہ کی رو سے موجودہ قانون قرآن وسنت کے عین مطابق ہے اور قرار دیا گیا ہے کہ گستاخِ رسول کے لیے موت کی سزا کے علاوہ کسی بھی قسم کی متبادل سزا اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو گی۔ آئین کی شق 203-D کی ذیلی شق2 کی شق(b) کے تحت یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ ہو چکا ہے۔
حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ، اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کا مقصد فیصلہ کے بعض پہلوؤں کی وضاحت حاصل کرنا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ اپیل واپس لے لی۔ بعض سیکولر اور قادیانی حضرات نے حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس سنگین جرم کے لیے صرف موت کی سزا قائم رکھنے پر اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا۔ لیکن ان لوگوں کے یہ ذہنی تحفظات عوامی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہ کرسکے۔ نہ صرف رائے عامہ کے راہ نماؤں نے ، بلکہ منتخب اداروں اور قانون ساز اسمبلیوں نے بھی عوامی جذبات کو زبان دی۔
2 جون1992ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی، جس میں حکومت سے کہا گیا کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی توہین پر صرف اور صرف سزائے موت ہی دی جانی چاہیے۔ سینٹ نے بھی یہی راہ عمل اختیار کی۔8 جولائی1992ء کو سینٹ میں ترمیمی قانون متفقہ طور پر منظور کیا گیا، جس میں اس جرم کے لیے صرف موت کی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اگر عوام کی مرضی پر عمل کرنے کے اصول کا کچھ مقصد ہے ، اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا متفقہ فیصلہ پاکستان کے عوام کے اجتماعی ضمیرکا اظہار ہے تو یہ قانون ہماری قومی تاریخ میں ایک سب سے زیادہ عوامی قانون تسلیم کیا جانا چاہیے۔ افسوس ہے کہ اس قانون کے مخالفین ( قادیانی اور سیکولر حضرات) پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں، بلکہ وہ اس سلسلہ میں وفاقی شرعی عدالت کے تاریخی فیصلہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ وہ مسلمانوں کی اکثریت کے مذہبی جذبات کو رائی برابر بھی وقعت نہیں دیتے، بلکہ اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے بعض دفعہ ایسی دل آزار اور اشتعال انگیز گفت گو کرتے ہیں جس سے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔ حالاں کہ قادیانیوں کو 7ستمبر1974ء (وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی موجودگی میں) ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔ اس طرح قانون توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم صدر ضیاء الحق نے نہیں، بلکہ ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بنایا۔ سیکولر او ربے دین عناصر اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک آمر ضیاء الحق کے دور میں بنا، ان سے پوچھنا چاہیے کہ عائلی قوانین بھی تو ایک آمر صدر ایوب خاں کے دور میں بنائے گئے تھے، آپ اس کی مخالفت تو نہیں کرتے۔ مزید ان بزرجمہروں سے یہ بھی دریافت کرنا چاہیے کہ کیا صدر ضیاء الحق کے دور میں بنائے گئے دیگر تمام قوانین ختم ہو گئے ہیں یا اُن پر اب بھی من وعن عمل ہور ہا ہے؟ آپ انہیں ختم کرانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ آخر یہ تضاد بیانی او رمنفاقت کیوں او رکب تک…؟
شائع ہواالفاروق, جمادی الثانیہ ۱۴۳۲ھ, Volume 27, No. 6
تحفظ ناموسِ رسالت محاذ پر شاندار کامیابی
قاری محمدحنیف جالندھری
تحریک تحفظ ناموس رسالت کی شان دار کامیابی اور وطن عزیز کے غیور مسلمانوں کو جو فتح مبین نصیب ہوئی اس پر الله رب العزت کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔ اس تحریک کی کامیابی پر پاکستان کی پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے، بالخصوص عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت او رتحریک ناموس رسالت کے قائدین وکارکنان اور اس تحریک میں شامل تمام جماعتیں، ان جماعتوں کے قائدین وکارکنان، اس تحریک میں انفرادی، اجتماعی اور جماعتی حیثیت سے حصہ لینے والے تمام عاشقان مصطفی لائق صد تحسین ہیں، جن کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں وطن عزیز ایک بڑے بحران سے بچ گیا اور حکومت کو ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم نہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ اگر اس موقع پر حکومت، بالخصوص وزیراعظیم سید یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یقیناً ناانصافی ہو گی، جنہوں نے عوامی اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جس سے وطن عزیز کے مستقبل پر یقینا مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
حالیہ تحریک ناموس رسالت کا آغاز ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ کی ایک خاتون آسیہ مسیح کی طرف سے شان اقدس میں گستاخی کے بعد ہوا۔ آسیہ مسیح نے شان اقدس میں جو ہرزہ سرائی کی اسے نوک قلم پر نہیں لایا جاسکتا۔ اس نے گاؤں کی پنچایت او رپھر سیشن جج کی عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا، جس کے نتیجے میں اسے سزا سنادی گئی تھی۔ اس کے ورثاء کو اگر اس فیصلے پر اطمینان نہیں تھا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاتا،اگر ہائی کورٹ بھی یہ فیصلہ برقرار رکھتی تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی اور اگر سپریم کورٹ سے بھی موت کی سزا سنا دی جاتی ، تب صدر مملکت سے معافی کی درخواست کی جاتی، لیکن سابق گورنر پنجاب نے اس عدالتی پراسس کو ہائی جیک کرتے ہوئے درمیان سے ہی اس معاملے کو اچک لیا اور وہ جیل جا پہنچے ، جہاں آسیہ مسیح کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا اور اس کی سزا معاف کروانے کے عزم کا اظہار کیا۔بعد میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے انسداد توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیا، جس کی وجہ سے عوامی اشتعال میں مزید اضافہ ہوا۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض نام نہاد این جی اوز نے ناموس رسالت کے قانون کے خلاف مہم جوئی شروع کر دی ، بعض لبرل فاشسٹ اور لبرل انتہا پسند میدان میں کود پڑے او رانہوں نے ٹی وی مباحثوں اور اخباری کالموں اور دیگر مقامات پر اس قانون کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔ انسداد توہین رسالت کے قانون کے خلاف پانچ ستارہ ہوٹلوں میں سیمینار منعقد ہونے لگے ، آسیہ مسیح کی رہائی کے لیے این جی اوز کی خواتین کے چھوٹے موٹے مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا اور اس گروہ کی پشت پناہی کرنے والے بعض میڈیا گروپوں نے ان مظاہروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ ایک حکومتی خاتون رکن اسمبلی نے اس بل میں ترمیم کے لیے ایک بل تیار کر لیا ہے او روہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لیے پر تول رہی ہے ، اسی اثنا میں وفاقی وزیراقلیتی امور کی سربراہی میں انسداد توہین رسالت کے قانون پر نظرثانی کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کا شوشہ چھوڑا گیا۔
یہ صورت حال ہمارے لیے خاصی تشویش ناک تھی، کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں انسداد توہین رسالت قانون کی موجودگی از حد ضروری ہے ، اس لیے کہ اس قانون نے بہت سے فساد اور قتل وغارت کا دروازہ بند کر رکھا ہے ، چناں چہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کی سطح پر اس قانون کی ہر قسم کی قطع وبرید سے حفاظت کرنا ضروری ہے ، بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک ایسے قانون کی بڑی ضرورت ہے جس سے تمام قابل احترام مذہبی شخصیات، بالخصوص حضرات انبیائے کرام کی عزت وناموس کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں فساد وانتشار پھیلانے کی خواہاں قوتوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے کہ وہ انسداد توہین رسالت قانون کو ختم یا اسے غیر موثر کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ایسی قوتوں کے لیے آسیہ مسیح سونے کی چڑیاثابت ہوئی اور سابق گورنر پنجاب کی طرف سے پھینکے گئے پہلے پتھر کے بعد ایسی قوتیں حرکت میں آگئیں او رہمیں خوبی اندازہ ہو گیا کہ یہ مخصوص لابی اپنے دیرینہ ایجنڈے کی تکمیل اور اس قانون کے خاتمے کے لیے اس وقت کس حدت تک جاسکتی ہے، کیوں کہ اس لابی کے خیال میں اس قانون پر آخری او رکاری ضرب لگانے کے لیے یہ ایک آئیڈیل موقع تھا اور وہ اس طرح کہ ایک طرف پنجاب میں سب سے اہم آئینی عہدہ سلمان تاثیر کے پاس تھا، جواس لابی کے پرانے مہربان، بلکہ راہ نما سمجھے جاتے تھے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی اور اس پارٹی سے ہمیشہ سیکولر انتہا پسند بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ اُدھر عالمی سطح پر بھی اس معاملے میں پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ تھا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دل آزار، شرانگیز او رتوہین آمیز خاکے بنانے والے گروہ نے عالمی طاقتوں اور رائے عامہ کو بری طرح یرغمال بنا رکھا ہے، ان کی طرف سے بھی مسلسل ناموسِ رسالت کے خلاف غوغا آرائی جاری تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری کو اس قانون سے ڈرا کر باقاعدہ فریق بنا لیا گیا اور اس معاملے کو مسلم مسیحی محاذ آرائی کا رنگ دینے کی کوشش کی جانے لگی اور پھر آزادی اظہار رائے اور حقوق نسواں کے خوش نما نعروں کی آڑ میں اس قانون کے خلاف معرکہ آرائی بھی جاری تھی ، اس لیے ہم نے بھی اس معاملے کو بگاڑ کی طرف جانے سے بچانے کے لیے مجبوراً میدان عمل میں نکلنے کا ارادہ کیا اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہ نماؤں سے گزارش کی کہ ناموس رسالت کے معاملے میں آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے۔ وہ ذرا گومگوں کی کیفیت میں تھے اور انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ آل پارٹیز کانفرنس کی کامیابی کیسے یقینی بنائی جائے گی؟ لیکن جب انہیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی اور کانفرنس کی کامیابی کی ذمے داری لی تو یہ طے پایا کہ 15 دسمبر کو اسلام آباد میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس منعقد کی جائے گی۔
15 دسمبر کو منعقد ہونے والی کانفرنس ایک یاد گار کانفرنس تھی، جس میں ملک بھرکی تمام اہم مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھر پور انداز سے شرکت کی ۔ اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 24 دسمبر کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ کانفرنس کے فیصلے کے مطابق 24 دسمبر کو ملک بھرمیں مظاہرے ہوئے۔31 دسمبر کو کو تاریخ ساز شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی ، پھر 7 جنوری کو کراچی میں عظیم الشان ریلی کا نعقاد کیا گیا۔30 جنور ی کو لاہور میں عظیم الشان ریلی نکالی گئی ۔ اس تحریک کے دوران مسلمانان پاکستان او رتحریک تحفظ ناموس رسالت کے قائدین وکارکنان کے تین بڑے مطالبات تھے۔ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت انسداد توہین رسالت قانون میں ہر قسم کی ترمیم وتحریف سے باز رہے۔ وزیراعظم اسمبلی فورم پر پالیسی بیان دیں او رباضابطہ طور پر یہ اعلان کیا جائے کہ اس قانون میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جارہی ۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ حکومتی خاتون رکن اسمبلی کی طرف سے تیار کیا گیا ترمیمی بل غیر مشروط طور پر واپس لیا جائے ۔او رتیسرا مطالبہ یہ تھا کہ وفاقی وزیراقلیتی امور شہباز بھٹی کی سربراہی میں بننے والی اس مبینہ کمیٹی کو تحلیل کیا جائے ، جس کو قانون ناموس رسالت پر ”نظرثانی“ کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
ان تینوں مطالبات کو منوانے کے لیے عوامی سطح پر احتجاجی تحریک جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ہم نے مختلف محاذوں پر کام جاری رکھا۔ اس تحریک کے دوران جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی وہ یہ کہ مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں کے مابین اتحاد واتفاق کی فضا برقراررہے او رناموس رسالت قانون کے خاتمے کے لیے سر گرمِ عمل اندرون وبیرون ملک موجود قوتوں کو یہ بتایا جائے کہ ناموس رسالت کے معاملے میں تمام لوگ متحد ومتفق ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے ایثار سے بھی کام لیا او راحتیاط سے بھی ۔ جہاں کہیں دو مکاتب فکر یا دو جماعتوں کے درمیان کسی قسم کی دوریوں یا غلط فہمی کی اطلاع ملی اس کے تدارک کی کوشش بھی کی اور صلح صفائی کا اہتمام بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا مہم میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والی اہم شخصیات سے انفرادی او راجتماعی ملاقاتیں کرکے انہیں اس معاملے کی حساسیت ونزاکت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی ذہن سازی کا اہتمام بھی کیا۔ وفاق المدارس کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کے اساتذہ وطلبا ، وفاق المدارس کے فضلا اورائمہ وخطبا نے ملک بھر میں منعقد ہونے والی ریلیوں ، کانفرنسوں، جلسوں اور مظاہروں کی بھرپور کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم محاذ، جسے ہمارے اکابر کبھی بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے، اس پر بھی ٹوٹی پھوٹی محنت کی کوشش کی اور وہ تھا اہم حکومتی شخصیات، پالیسی سازوں اور ارکان پارلیمنٹ وسینٹ کے ساتھ رابطہ کاری کا محاذ۔ وزیراعظم پاکستان سمیت ملک کے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کے ساتھ اس تحریک کے دوران مسلسل رابطہ رہا او رانہیں اس اہم ترین معاملے میں قرآن وسنت ، دلائل ومنطق اور ملکی مفادات وترجیحات کی روشنی میں درست فیصلے اورصحیح نتیجے تک پہنچانے کے لیے اپنی بساط کے مطابق کوششیں جاری رکھیں۔ یوں تو ہر اہم شخصیت او رجماعت نے اس مبارک تحریک میں بھرپور انداز سے حصہ لیا، مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہاں خصوصیت کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی کاوشوں کا ذکر نہ کرنا یقینا نا انصافی ہو گی ۔ انہوں نے اس تحریک میں بہت ہی فعال ، مؤثر اور نتیجہ خیز کر دارا ادا کیا۔ اپنے کئی بیرونی اسفار ملتوی کیے۔ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی ، جدائی اور ڈیڈ لاک کے باوجود وہ ناموس رسالت کے معاملے میں اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے او رانہیں قائل کرنے اور صحیح فیصلہ کرنے پر آمادہ کرنے میں بلاشبہ مولانا نے کلیدی کردار ادا کیا۔
تین ماہ کی انتھک جدوجہد کے بعد بالآخر حکومت کی طرف سے پوری قوم بالخصوص تحریک ناموس رسالت کے قائدین کے مطالبات کی روشنی میں مبنی برحقیقت موقف کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ اس کی سبیل کچھ یوں بنی کہ قانون ناموس رسالت کے حوالے سے شروع ہونے والے جملہ امور کے سلسلے میں حکومت نے وفاقی وزارتِ قانون سے مشاورت طلب کی۔ وفاقی وزارت قانون کی طرف سے ناموس رسالت کے معاملے میں قرآن وسنت ، تاریخی حوالوں، عالمی قوانین وغیرہ کی روشنی میں ایک جامع، پرمغز دلائل سے مزین اورمبنی برحق سفارشات پر مشتمل دستاویز وزیراعظم اور دیگر ارباب حل وعقد کی خدمت میں پیش کی گئی۔
اس کی روشنی میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جو تحریری آرڈر جاری کیا۔ اس کے بارے میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ فون کرکے راقم الحروف کو آگاہ کیا، بلکہ فوری طور پر اس آرڈر کی کاپی فیکس بھی کروائی ،جس میں لکھا گیا تھا کہ ” وزیراعظم پاکستان نے وزیر قانون وانصاف وپارلیمانی امور کی تجاویز کی بخوشی منظوری دے دی ہے۔ تمام متعلقہ وزارتوں کو ضروری اقدامات کی ہدایت کی جاتی ہے… منظور شدہ تجاویز کی کاپی الگ سے ارسال ہے۔“
اس کے بعد وزیراعظم نے نہ صرف یہ کہ اسمبلی فلور پر پالیسی بیان میں اعلان کیا کہ حکومت ناموس رسالت قانون میں کسی قسم کی ترمیم وتحریف کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، بلکہ انہوں نے اپنی پارٹی کی خاتون رکن کو بھی اس قانون کے حوالے سے ترمیمی بل واپس لینے کا حکم دے دیا ،جس پر مذکورہ خاتون نے اپنابل واپس لے لیا اور وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کے بارے میں بتایا کہ ایسی کسی کمیٹی کا اول تو کوئی نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا اور اگر بالفرض ایسی کوئی کمیٹی موجود بھی ہے تو وہ تحلیل کی جاتی ہے۔
یوں الله رب العزت کے فضل وکرم سے وطن عزیز ایک بہت بڑے بحران سے محفوظ ہو گیا اور اسلامیان پاکستان او رتحریک ختم نبوت کے قائدین اور کارکنان کو الله رب العزت نے فتح مبین عطا فرما دی اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعجاز ملاحظہ کیجیے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی راہ نما، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو الله تعالیٰ نے مسئلہ ختم نبوت کو حل کرنے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قادیانیوں کو کافر قرار دلانے کا اعزاز عطا فرمایا اور انہیں کی پارٹی کے دور اقتدار میں ناموس رسالت کے معاملے پر مہر تصدیق وتائید ثبت کروائی۔ فللہ الحمد علی ذالک․
شائع ہواالفاروق, جمادی الثانیہ ۱۴۳۲ھ, Volume 27, No. 6
غازی عبدالقیوم، غازی علم الدین کو چیلنج کیوں؟
پروفیسر ابو طلحہ عثمان
یا رسول الله! میں ہوں اسے مارنے والا، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی، گستاخیاں کرتی تھی، میں اسے روکتا وہ رکتی نہ تھی، میں اسے دھمکاتا وہ باز نہ آتی تھی، وہ مجھ پر تو مہربان تھی، میرے اس سے دو بچے ہیں، جو موتیوں کی طرح ہیں مگر اس نے آج رات آپ کو گالیاں دینی اور بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر اُس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اُسے مار ڈالا… نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی عالی خدمت میں صبح کے وقت ایک باندی کے قتل کا ذکر کیا گیا، آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور الله کی قسم دے کر فرمایا کہ میرا تم پر حق ہے، میں قسم دے کر کہتا ہوں کہ جس نے اسے قتل کیا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ ایک نابینا صحابی آگے بڑھا، اُس پر خوف طاری تھا۔ عرض کیا یا رسول الله! یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور تفصیل بتائی۔ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”لوگو! گو اہ رہو، اس ( مقتولہ) کا خُون بے سزا ہے۔“ (مفہوم حدیث ابوداؤد، نسائی، کنزل العمال ودیگر)
ایک یہودی عورت نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کو سب وشتم کیا کرتی تھی۔ ایک صحابی نے اُس کا گلا دبا کر قتل کر دیا۔ اس کے خون کو بھی ناقابل باز پرس قرار دیا گیا۔ ( بحوالہ ابوداؤد)
ایک اور عورت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی ارشاد گرامی ہوا:”من یکفینی عدوی؟“ کون اس کی خبر لے گا؟ اس پر سیدنا خالد بن ولید رضی الله عنہ نے اُسے قتل کر دیا ۔ (بحوالہ الصارم المسلول)
خطمہ قبیلے کی ایک عورت عصماء نامی نے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی ہجوکی ارشاد ہوا ” اس سے کون نمٹے گا؟“ عمیر بن عدی اُسی کے رشتے دار تھے۔ بینائی بیحد کمزور کہ جہاد میں نہ جاسکتے تھے۔ نبی اور اصحاب نبی غزوہٴ بدر گئے ہوئے تھے۔ عمیر بن عدی نے منت مانی۔ یا الله! اگر تونے اپنے رسول علیہ السلام کو غزوہٴ بدر سے بخیروعافیت لوٹا دیا تو اس (خبیثہ) کو میں قتل کردو ں گا۔ نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ پہنچے۔ عمیر بن عدی آدھی رات کو اُس عورت کے گھر میں داخل ہوئے، اُس کے بچے اس کے اردگرد سوئے ہوئے تھے۔ عمیر رضی الله عنہ نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا تو پتا چلا کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ حضرت عمیر نے بچے کو اس کے سینے سے الگ کر دیا۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ اس کی پشت سے پار ہو گئی… نماز سے فارغ ہو کر نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا ” تم نے بنتِ مروان کو قتل کیا ہے ؟“ عمیر کہتے ہیں مجھے ڈر لگا کہ کہیں میں نے خلافِ مرضی رسول تو یہ قتل نہیں کیا… عرض کیا ” جی ہاں، اے الله کے رسول! کیا اس معاملے میں مجھ پر کچھ (سزا) واجب ہے ؟“ … ارشاد گرامی ہوا ” اس معاملے میں تو دو بکریاں بھی سینگ نہ ٹکرائیں“ پھر لوگوں سے فرمایا“ تم لوگ اگر اُس شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے الله اور رسول کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔ “ … جب حضرت عمر فاروق اعظم نے کہا کہ ” یہ نابینا ہم سے بازی لے گیا“ تو ارشاد نبوی ہوا ”یہ نابینا نہیں بینا ہے۔“
ابن خطل نبی مکرم کی ہجو میں اشعار کہتا۔ اُس کی باندیاں ارنب اور قرتنا اُن اشعار کو گاکر پڑھتیں۔ قرتنا کی طلب معافی اور زاری پر اسے داخلہٴ اسلام کی اجازت مل گئی مگر ارنب فتح مکہ کے موقعہ پر قتل کی گئی … عبدالعزی ابن خطل مذکور کعبہ کے پردوں پر چھپ گیا، مگر اُسے وہاں بھی پناہ نہ دی گئی، اصحاب رسول کو حکم ہوا اُسے وہیں قتل کر دو، چناں چہ قتل کر دیا گیا۔ فتح مکہ ہی کے موقعہ پر ایک او رگستاخ رسول حویرث کو سیدنا علی نے قتل کیا… فتح مکہ کے موقعہ پر جب ” لا تثریب علیکم الیوم“ عام معافی کا اعلان ہوا، ابن خطل سمیت5 گستاخان رسول کو رحمتِ عامہ اور عفوعامہ سے محرومی ہی ملی اور نارجحیم ان کا مقدر ہوا… ابو عفک یہودی 120 سال کا بوڑھا تھا، مگر بیحد گستاخِ رسول۔ سالم بن عمیر ایک عاشق رسول نے سوتے میں اسے بستر پر ہی حوالہ تیغ کر دیا… انس بن زینم دیلمی کو بنی خزاعہ کے ایک بچے نے زخمی کر دیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کو واقعہ کا علم ہوا توکوئی باز پرس نہ فرمائی … دشمن رسول، یہودی سردار ابو رافع کو سیدنا عبدالله بن عتیک رضی الله عنہ اور ان کے رضا کار ساتھیوں کے ذمہ کرکے اہل حجاز کے اس بڑے تاجر کو قتل کر وا دیا گیا۔ ایک اور بڑے گستاخِ رسول یہودی سردار کے بارے میں ارشاد رسول ہوا”کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ الله اور اس کے رسول کو بہت ستارہا ہے!“ محمد بن مسلمہ انصاری نے اجازت رسول سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسے جہنم رسید کر دیا… یہ واقعات موجودگی رسول کے وقت کے ہیں، عورت ہو یا مرد، بوڑھا ہو یا جوان، عام آدمی ہو یا سردار، ایک ہی سلوک کا مستحق ہے۔ پہلی شریعتوں میں بھی یہی حکم تھا۔ کسی بھی نبی کی توہین پر اب بھی یہی حکم ہے، حتی کہ نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط بدر کے جنگی قیدی تھے۔ انہیں بھی تہہ تیغ کیا گیا۔ ارشاد رسول ہوا”اس الله کی تعریف ہے جس نے تجھے قتل کرکے میری آنکھیں ٹھنڈی کیں۔“
آئین پاکستان میں شریعت کورٹ کے فیصلے کو قومی اسمبلی نے 1984ء میں قانونی شکل دے کر آئین کا حصہ بنایا، پھر 2 جون 1992ء کو متفقہ طور پر توہین رسالت پر سزائے موت کا قانون بنایا گیا۔ گستاخ نتھورام کو جہنم رسید کرنے والے غازی عبدالقیوم نے انگریز جج کے سوال پر دیوار پر لگی جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا تھا” اگر کوئی اسے گالی دے، تمہارا خون جوش نہیں مارے گا؟ “ اور اب آج کے پاکستان میں آئینی قانونی کارروائی کو کسی کے دباؤ پر معطل کرکے محمدی دیوانوں غازیوں غازی عبدالقیوم، غازی علم الدین اور ان کے ساتھیوں کو کیوں چیلنج کیا جا رہا ہے؟!
شائع ہواالفاروق, ربیع الاول ۱۴۳۲ھ, Volume 27, No. 3
No comments:
Post a Comment