visitors

free counters

Saturday, 11 June 2011

تقسیم ہند غلط فیصلہ


تقسیم ہند




مولانا وحید الدین خان نے اپنی متعدد تحریروں میں تقسیم ہند کو ایک غلط سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک، تقسیم ہند کی تحریک نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے بیچ مطلوب دعوتی تعلق کو نقصان پہنچایا ہے۔ دونوں قومیں اسی تحریک کے باعث ایک دوسرے سے نفرت کرتی ہیں۔ چنانچہ اس تحریک نے اسلامی دعوت کے ہندوؤں کے دل میں اترنے کا راستہ مسدود کر دیا ہے۔

ہم بات کو آگے بڑھانے کے لیے یہ بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ اگر تحریک پاکستان برپا نہ کی گئی ہوتی تو آج بہت سے ہندو بے تعصبی سے اسلام کا مطالعہ کر رہے ہوتے اور ان کی ایک بڑی تعداد امت مسلمہ کا حصہ بن چکی ہوتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے پچاس سال بعد اس بحث کا فائدہ کیا ہے ؟ کیا تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمایا جا سکتا ہے ؟ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ اس وقت کی ہندو قیادت نے مسلمانوں کو تقسیم ہند کے راستے پر آگے بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؟ کیا یہ تاریخی عمل ایک سادہ واقعہ تھا کہ محمد علی جناح نے مطالبہ کیا اور ہندوستان تقسیم ہو گیا؟

مولانا وحید الدین خان ایک وسیع المطالعہ آدمی ہیں۔ ان سے بڑھ کر اس حقیقت سے کون واقف ہو گا کہ تاریخ کا بہاؤ کس طرح اپنا راستہ متعین کرتا ہے۔ کیا صلیبی جنگوں نے اسلام کی دعوت کو نقصان نہیں پہنچایا ؟ یقینا پہنچایا ہے،اس کی بازگشت ہم آج بھی سن رہے ہیں۔ لیکن اس وقت کے لیڈروں میں سے کس کے لیے ممکن تھا کہ وہ اس جنگ کا خاتمہ کر دے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفیر کے قتل پر کارروائی کی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ کا یہ عمل اسلامی ریاست کی فتوحات کے ایک طویل سلسلے کا نقطہ آغاز بن گیا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر جیسا عظیم منتظم بھی اس خواہش کے باوجود کہ اسلامی سلطنت کے استحکام کے لیے ان فتوحات کو عارضی طور پر رک جانا چاہیے، انھیں روک نہیں سکا۔

آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ مسلمان لیڈر تقسیم ہند کے موقع پر بے بس ہو کر رہ گئے جو متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند ایک ناگزیر واقعہ تھا اور اب تاریخ کا حصہ ہے۔ آج کے لکھنے اور بولنے والوں کو اس کے اسباب و نتائج کا معروضی مطالعہ کرنے کا حق تو ضرور ہے، لیکن اس کو غلط یا صحیح قرار دینے کی بات محض لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔

کیا مولانا اس حقیقت سے انکار کریں گے کہ ہندوؤں ہی کی طرح انگریز بھی ہمارے مدعو تھے۔ آخر ان کو ملک سے نکال باہر کرنے کی تحریک کس دعوتی جذبے کے تحت درست قرار دی جا سکتی ہے۔ غالباً مولانا اس پر اس لیے تنقید نہیں کرتے کہ یہ ایک ناگزیر تاریخی عمل تھا۔ میرے نزدیک، یہی اصول تحریک پاکستان کے معاملے میں بھی کارفرما ہے۔ بیسویں صدی کے نصف اول کا ہندوستان وہ ہندوستان نہیں ہے جس پر ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر حکمران تھے۔ نیشنلزم کی جس تحریک کا بیج انگریزی تعلیم نے بویا تھا، آزادی ہند کی تحریک اسی کا ایک پھل ہے اور دو قومی نظریہ اس تحریک کا ناگزیر نتیجہ۔ نیشنلزم کے حامیوں کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے ہندوستانیوں کو دو قومیں بنا دیا ورنہ ہندوستان بنگالیوں، تاملوں، دراوڑوں، پنجابیوں اور نہ جانے کن کن ناموں سے تقسیم ہوتا۔

مولانا کو چاہیے کہ وہ معاملے کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھیں۔ میں پاکستانی ہوں۔ پاکستان میرا گھر ہے۔ مجھے اس سے محبت ہے۔ میرے اس گھر کے بارے میں یہ گفتگو مجھے تکلیف دیتی ہے کہ اسے وجود میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کیا مولانا مجھے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مجھے اس گھر سے محبت نہیں ہونی چاہیے۔ کیا مولانا پاکستانیوں کو یہ تعلیم دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بنے ہوئے گھر کو مسمار کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ مولانا کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس سے ان کی دعوتی مساعی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ خالص سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی مولانا کی یہ بات محض ایک تخریب ہے۔ تاریخ کی گاڑی کو الٹا چلانے کی یہ کوشش کسی بھی لحاظ سے کوئی مثبت عمل نہیں ہے۔

آج نصف صدی گزرنے کے بعد ہمارا کام یہ ہے کہ ہم آگے بڑھنے کی بات کریں۔ دین کی دعوت بھی ہمارا مسئلہ ہے اور اسلامی ملکوں کا استحکام بھی ہماری ضرورت۔ آج کے تناظر میں برصغیر میں صحیح معنوں میں اسلامی اور مستحکم پاکستان ہی اسلامی دعوت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
http://www.al-mawrid.org/pages/articles_urdu_detail.php?rid=785&cid=520رابطہ لنک

No comments:

Post a Comment