visitors

free counters

Friday 10 June 2011

امام احمد رضا خاں پر تنقید


احمد رضا خان اپنے فتوجات کی روشنی میں

یایها الذ ین امنوا ان جآ کم فاسق بنا فتبینوا

اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبرلائے تو تحقیق کر لیا کرو (الحجرات)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت معاد بن جبل رضی اﷲ عنہ التوفی18ھ کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ہم زبان کی باتوں کی وجہ سے بھی پکڑے جائیں گے؟ یہ ارشاد فرمایا کہ لوگ دوزخ میں چہروں یا نتھنوں کے بل زبان کی باتوں ہی کیوجہ سے تو اوندھے ڈالے جائیں گے۔

( اوکما قال، مستدرک ج 4ص287، قال )الحاکم والذہبی صحیح ونحوہ فی المشکوة ج1ص14

اور ايک شخص کو قبر میں عذاب ہو رہا تھا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگوں کو زبان سے اذیت پہنچاتا تھا اور ان کی چغلی کیا کرتا تھا۔

(او کماقال موار الظمان ص46۔199)

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

احمد ر ضا خان صاحب کا دیو بندیوں کے بارے

میں ناجائز غلو اور ان کی بیجا تکفیر

مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کا مزاج نہایت جذباتی اور طبیعت بے حد غلو پسند اور متعصبانہ تھی ان کی عبارات میں اس امر کا واضح تر ثبوت موجود ہے اپنے مخالفین اور خصوصا علما دیوبند کی تکفیر میں جو طریق انہوں نے اختیار کیا ہے عالم تو درکنار دنیا کاشریف انسان بھی اس کو اختیار نہیں کر سکتا کہ ان کی مراد اور نیت کے خلاف ان کی عبارات کا مطلب ازخود تراشے اور بزورکشید کر کے ان پر کفر کا فتوی لگائے۔ اور پھر ان کی تکفیر نہ کرنے والوں بلکہ شک کرنے والوں کو بھی کافر قرار دے۔ حالانکہ اکابر علماء دیوبند چلا چلا کر کہتے اور لکھتے رہے ہیں کہ جو مطلب تم نے بیان کیا ہے جو جو مراد تم لے رہے ہو ہماری ہرگز نہیں اور نہ ہم اس کو صحیح سمجھتے ہیں بلکہ ہم اس کو کفر سمجھتے ہیں۔

انصاف اور دیانت کا تقاضا تو يہ تھا کہ احمد رضا خان صاحب اس کے بعد ان کی تکفیر سے باز آجاتے اور علماء دیوبند سے معافی مانگ ليتے کہ ميں نے غلط سمجھا تھا اور میں اپنے سابق غلط فتوی سے رجوع کرتا ہوں۔ لیکن خانصاحب نے مرتے دم تک اپنی ضد نہیں چھوڑی اور اکابر علماء دیوبند کی ناروا تکفیر سے باز نہیں آئے۔ ان کی چند عبارات ملاحظہ کریں۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔

1۔ ”غلام احمد قادیانی اور رشید احمد اور جو اس کے پیروہوں جیسے خلیل احمد ببیٹھی اور اشرف علی وغیرہ ان کے کفر میں کوئی شک و شبہ نہیں نہ شک کی مجال بلکہ جو ان کے کفر میں شک کرے بلکہ کسی طرح کسی حال میں انہیں کافر کہنے میں توقف کرے اس کے کفر میں بھی شبہ نہیں“

حسام الحرمین ص131،فتاوی افریقہ109

اس کامطلب يہ ہوا کہ بجز چند بریلوی حضرات کے جن خانصاحب کی اس تکفیر میں ان کے پیرو ہیں باقی جملہ بریلوی بھی ان کے فتوی کی رو سے کافر ہیں کیوں کہ بیشتر بریلوی حضرات علماءدیوبند کی تکفیر نہیں کرتے اور انہیں کافر کہنے میں توقف کرنےوالے تو بے شمار ہیں۔

2۔ دوسرے مقام پردہ لکھتے ہیں کہ :

نذیر حسین دہلوی وامیر احمد سہسوانی و امیر حسن سہسوانی وقاسم نانوتوی ومرزا غلام احمد قادیانی ورشید احمد گنگوہی و اشر ف علی تھانوی اور ان سب کے مقلدین ومتبعین وپیروان ومدح خوان باتفاق علماء اعلام کافر ہوئے اور جن ان کو کافر نہ جانے ان کے کف میں شک کرے وہ بھی بلاشبہ کافر ہے۔

(عرفان شریعت حصہ دوم ج29، وراجع ملفوظات حصہ اول ص115)

اور يہ ايک کھلی حقیقت ہے کہ اکابر علماء دیوبند کی علمی روحانی، ملی اور سیاسیی خدمات کی تعریف اور توصیف دنیائے اسلام کے ہر خطہ میں ہوتگی ہريہ ہے اب بھی ہوتی ہے اورانشاء اﷲ ہوتی رہے گی۔ ہندوستان، افغانستان، ترکی،مصر، پاکستان، ایران، بلکہ عرب وعجم میں شاذونادر ہی مسلمانوں کو کائی ملک ایسا ہوگا جہاں ان اکابر کی علمی خدمات کو سراہا نہ گیا ہو۔مگر خان صاحب کے اس ظالمانہ فتوےکی رو سے سبھی کافرہیں بلکہ ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی بلاشبہ کافر ہے۔ معاذ اﷲ تعالی

3۔ اور فتاوی افریقہ میں اس عنوان سے سرخی قائم کی گی ہے۔

”دیوبندیوں کے بارے میں مسلمانوں سے آخری اپیل“ جو انہیں کافر نہ کہے جو ان کاپاس لحاظ رکھے جو ان کے استادی یا رشتے یا دوستی کا خیال رکھے وہ بھی انہیں میں سے ہے انہیں کی طرح کافر ہے قیامت میں ان کے ساتھ ايک رسی میں باندھا جائے گا“۔ ص115

اس وقت پاکستان وہندوستان وغیرہ میں جہاں بریلوی ذہن کے لوگ موجود ہیں کوئی خاندان اور قوم ایسی نہیں بتائی جا سکتی جن کے دیوبندی مسلک رکھنے والے حضرات سے رشتے ناطے اور دوستی نہ ہو اور بعض جگہوں میں تو استادی اور شاگردی کا تعلق بھی ہوتا ہے مگر اس فراخدلانہ فتوے کے اعتبار سے وہ سبھی لوگ کافر قرار پائے ہیں۔ غور فرمائیں کہ کفر کہ اس ایٹم بم بلکہ ہائیڈروجن بم اور زہریلے گیس سے کسی کو بھی رستگاری ہو سکتی ہے۔؟ اور کوئی بھی مسلمان عام اس سے کہ وہ کسی طبقہ سے متعلق ہو اس شاہانہ و خروانہ فتوی کی زد سے بچ سکتا ہے؟ اس سے بڑھ کر خان صاحب کے تعصب اور ہٹ دھرمی کا اور کیاثبوت درکار ہے؟ ہر مصنف مزاج اور خدا خوف آدمی ایسے ناجائز فتوے پر نفرین کيے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خانصاحب بریلوی اسی ظالمانہ فتوے پر ہی اکتفا ءکرتے تب بھی ايک حد ہوتی مگر وہ تو اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر یوں گوہر افشانی کرتے ہیں۔

4۔ ”ایسے وہابی،قادیانی،دیوبندی،نیچری،چکڑالوی جملہ مرتدین ہیں کہ ان کہ مرد یا عورت کا تمام جہاں میں جس سے نکاح ہو گا مسلم ہو یا کافر اصلی، یا مرتد انسان ہو یا حیوان محض باطل اور زنا خالص ہوگا اوراولاد ولد الزنا“

ملفوظات حصہ دوم ص 105طبع لکھنو ص100 آفسٹ لیتھوپرپش کراچی

فتوے تو خان صاحب نے دیا ہی تھا لیکن ساتھ شرافت تہذیب اور اخلاق کاجنازہ بھی نکال دیا اگر فتوے ہی صادر کرنامقصود تھا تو ایسے لوگ کافرو مرتد ہیں اور ان کا نکاح باطل ہے۔ لیکن اتنے الفاظ سے بھلا احمد رضا خان صاحب کے دل ماؤف کی بھڑاس نکل سکتی تھی ؟ اور زنا اور ولدالزنا کی تصریح کئے بغیر وہ کب چین پا سکتے تھے؟ اور غضب کی بات تو يہ ہے کہ انسانیت کے دائرہ سے نکل کر اور تجاوز کر کے انسانوں کا نکاح حیوانوں سے بھی جوڑ دیا جن میں کتے گدھے اور خنزیر تک سبھی حیوان شامل ہیں اب وہ بریلوی حضرات خود سوچ لیں جن کا نکاح کسی وہابی یا دیوبندی عورت سے ہوا ہے یا ان کی بہن بیٹی، پوتی، اور نواسی، خالہ پھوپھی وغیرہا کسی عزیزہ کا نکاح کسی دیوبندی اور وہابی سے ہوا ہے خان صاحب کہ اس ظالمانہ فتوے کے رو سے تو وہ خالص زنا ہے اور اولاد ولدالزنا اور حرامی ہے۔
اگر سچ مچ بریلوی حضرات کو خان صاحب سے عقیدت ومحبت ہے اور ان کو حق پرست عالم دین تصور کرتے ہیں تو ان کو خود اپنے اور اپنی اولاد اور اعزہ اقارب کے بارے میں يہ دو ٹوک فیصلہ کرنا ہوگا کہ یا تو وہ سچ مچ اپنے آپ کو کافر مرتد اور زانی سمجھیں اور اپنی اور اپنے تمام ایسے اعزہ و اقارب کی اولاد کو حرامی اور ولدالزنا خیال کریں۔ یا يہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مسلمان پاکدامن اور حلالی ہیں اور اسی طرح ہماری اولاد اور اعزہ واقارب حلالی ہیں توپھر خانصاب کے اس ناروا اور خالص ظالمانہ فتوے کو جوتی کی نوک سے ٹھکرانا ہوگا۔ اب يہ بریلوی حضرات کی مرضی ہے کہ وہ کون سی شق اور صورت اختیار کرتے ہیں کیوں کہ

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

يہ یاد رہے کہ جس دن سے اتفاء کا قلمدان خان صاحب کے بے باک ہاتھوں میں گیاہے اس روز سے تو کفر اتنا ستا ہوگیا ہے کہ اﷲ تبارک تعالی کی پناہ۔ ندوة العلماء والے کافر جو انہیں کافر نہ کہنے وہ کافر۔ علماء دیوبند کافر، جو انہیں کافر نہ کہے وہ کافر، غیر مقلدین اہلحدیث کافر، مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی اور تو اور تحریک خلافت میں (انگریز کے خلاف) شرکت کے جرم میں اپنے برادران طریقت مولوی عبدالماجد صاحب بدایونی کافر۔مولوی عبدالقدیر صاحب بدایونی کافر ۔کفر کی وہ بے پناہ مشین گن چلی کہ الٰہی توبہ! بریلی کے ڈھائی نفر انسانوں کے سوا کوئی بھی مسلمان نہ رہا۔

فیصلہ کن مناظرہ ص75 طبع لائلپور۔ از مولانا محمد منظور نعمانی

اکابرعلما دیوبند کثر اﷲ تعالی جماعتہم کا اور کوئی جرم نہیں بجز اس کے کہ وہ توحید وسنت کے شیدائی اور شرک بدعت سے سخت متنفر ہیں۔ اے بادصبا ہماری طرف سے آقائے ندار سردار دوجہاں حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کو يہ درد بھری کہانی پہنچا اور سنا دے کہ

خونے نہ کر وہ احم وکسے را نہ کشتہ ایم !

جرم است ایں کہ عاشق روئے توکشتہ ایم

5۔ نیز خان صاحب بریلوی ہی لکھتے ہیں کہ

”مرتدوں میں سب سے بدتر مرتد منافق ہے۔یہی ہے وہ کہ اس کی صحبت ہزار کافر کی صحبت سے زیادہ مضر ہے کہ مسلمان بن کر کفر سکھاتاہے خصوصاً وہابیہ،دیوبندیاں کہ اپنے آپ کو خاص اہل سنت وجماعت کہتے ،حنفی بنتے، چشتی،نقشبندی بنتے،نماز روزہ ہمارا ساکرتے،ہماری کتابیں پڑھتے پڑھاتے اور اﷲ و رسول کو گالیاں ديتے ہیں۔يہ سب سب بدتر زہر قاتل ہیں ہوشیار خبردارمسلمانو! اپنا دین وایمان بچاتے ہوئے فاﷲ خیرحافظا وھو ارحم الراحمین۔ (پڑھیئے صفدر) واﷲ تعالی اعلم۔ کتبہ عبدہ المذنب احمد رضا الخ

احمد رضا خان صاحب نے اس مکروہ عبارت میں اپنے دل ماوف کی جو بھڑاس نکالی ہے اور دیوبندیوں پر جو يہ خالص افترا اور بہتان باندھا ہے کہ وہ معاذ اﷲ تعالی ورسول اﷲ کو گالیاں ديتے ہیں وہ خان صاحب ہی کا حصہ ہو سکتا ہے اور اس کا خمیازہ وہ اب بھگت رہے ہوں گے۔ بحمد ﷲ تعالیٰ علمائے دیوبند نے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی ادنی ترین توہین وتنقیص نہیں کی اور وہ آپ کی معمولی توہین کو بھی کفر کہتے اور سمجھتے ہیں۔مگر خان صاحب کا ظلم ملاحظہ کیجئے کہ وہ بے دھڑک ان پر بہتان باندھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ محفوظ فرمائے۔

6۔ نیز خانصاحب لکھتے ہیں کہ :

اور مرتدوں میں سب سے بڑے خبیث تر مرتد منافق،رافضی،وہابی،قادیانی،نیچری چکڑالوی کہ کلمہ پڑھتے اپنے آپ و مسلمان کہتے نمازوغیرہ افعال اسلام بظاہر بجا لاتے بلکہ وہابی وغیرہ قرآن وحدیث کا درس ديتے ليتے اور دیوبندی کتب فقہ کے ماننے میں بھی شریک ہوتے بلکہ چشتی،نقشبندی وغیرہ بن کر پیری مریدی کرتے اور علما مشائخ کی نقل اتارتے اور باایں ہمہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہن کرتے یا ضروریات دین سے کسی کا انکار رکھتے ہیں ان کی اس کلمہ گوئی واد ع اسلام اور افعال واقوال میں مسلمانوں کی نقل اتارنے ہی نے ان کواخبث واضر اور ہر کافر اصلی یہودی نصرانی،بت پرست، مجوسی، سب سے بدتر کر دیا ہے کہ یہ آکر پلٹے ديکھ کر الٹے ۔الخ

احکام شریعت ج1ص69

اﷲ تعالی کے فضل وکرم سے دیوبندیوں نے نہ تو ضروریات دین میں سے کسی شے کا انکار کیا ہے اور نہ تاویل کی ہے اور نہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بزرگ ترین ہستی کی شان اقدس میں ذرہ بھر توہین کی ہے۔ يہ خانصاحب کا بلا وجہ بعض وعداوت ہے کہ ان کو دیوبندی ہر کافر اصلی یہودی،نصرانی، بت پرست اور مجوسی سے بھی بدتر نظر آتے ہیں۔

سچ ہے کہ بھینگے کو کب صحیح حالت میں کوئی شے نظر آسکتی ہے ؟

خانصاحب کے نزديک دیوبندیوں کا ذبیحہ،محض نجس،مردار اور قطعی حرام ہے ذبح کے مسئلہ میں ايک سوال کا جواب ديتے ہوئے خانصاحب لکھتے ہیں:

الجواب: عورت کا ذبیحہ جائز ہے جب کہ ذبح صحیح طور پر کر سکے۔ یہودی کا ذبیحہ حلال ہے جب کہ نام الٰہی عزجلالہ لے کر ذبح کرے،یوں ہی اگر کوئی واقعی نصرانی ہو نہ نیچری دہریہ جیسے آج کل عام نصارے ہیں کہ نیچری کلمہ گو مدعی اسلام کا ذبیحہ تو مردار ہے نہ کہ مدعی نصرانیت کا رافضی، تبرائی،وہابی دیوبندی،وہابی غیر مقلد،قادیانی چکڑالوی،نیچری، ان سب کے ذیبحے محض نجس ومردار حرام قطعی ہیں اگرچہ لاکھ بار نام الٰہی لیس اور کیس ہی متقی پرہیزگار بنتے ہوں کہ یہ سب مرتدین ہیں۔ ولا ذبیحہ لمرتد

(احکام شریعت حصہ اول ص68)

بریلوی حضرات کہیں نہ کہیں تو ضرور دیوبندی قصابوں کا ذبیحہ کھاتے ہوں گے اور نہ سہی تو (ولیمہ) عقیقہ اور قربانی کا گوشت برادری کے طور پر ليتے ہوں گے ۔ جن جانوروں کو دیوبندی ذبح کرتے ہیں اب يہ فیصلہ ان کے ہاتھ ہے کہ آیا وہ دیوبندیوں کو مسلمان سمجھیں اور حلال خوری پر راضی ہو جائیں۔یاخانصاحب کے فتوی پر صدر کرتے ہوئے مردار محض نجس اور قطعی حرام کھانے پر کمر بستہ رہیں۔ کیو ں کہ بقول خانصاحب یہودی کا ايک دفعہ ذبیحہ پر نام الٰہی لینا اسی کی حلت کے لئے کافی ہے لیکن دیوبندی وغیرہ لاکھ مرتبہ بھی نام الٰہی لے کر ذبح کریں تو جانور بہر کیف مردار ہوگا۔
احمد رضا خانصاحب ايک فطری مریض

خانصاحب بریلوی ہیں يہ لاعلاج ولازوال مرض بھی تھا کہ وہ دوسروں اور خصوصا اپنے مخالفوں کی عبارات کے اپنے طرف سے گھڑ گھڑ لر جوتراش کر مطالب اور معانی لیتے تھے اصحاب عبارات کہاں سے اور کیسے بلا وجہ کشید کرتے ہیں؟ اور محض جبراور سینہ زوری سے اپنے تراشیدہ مطالب دوسروں کے گلے مڑھ کر اور دھینگا مشتی ان پرتھوپ کران کی تکفیر کرتے ہیں؟ اور پھر اس مصر رہتے ہیں خان نصاحب کا يہ نامصفانہ معاملہ اس حکایت کے عین مطابق ہے جو یوں بیان کی جاتی ہے کہ

کسی شخص نے (جن کی طیبعت غالباً خان صاحب سے ملتی ہو گی) دوسرے سے سوال کیا کہ بھیا تمہاری نام کیا ہے؟ اس نے کہا حاجی.... تو سائل نے یوں تشریح شروع کر دی کہ حاجی بروزن چاجی اور چاجی کے معنی ہوتے میں کمان کے۔ اورکمان بروزن گمان اور گمان کے معنی ہوتے میں شک کے۔ اور شک بروزن سگ ہے اور ست کے معنی ہوتے میں کتا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ تم کتے ہو۔ لاحول ولاقوة الا باﷲ۔

بعینہ یہی طریقہ ہے احمد رضا خان کی تشریحات کا جو خاندان ولی اللہی اور اکابر علماء دیوبند کی عبارات کی تشریح میں انہوں نے اختیار ہے اور دوسروں پر بلا سبب خدا تعالی اور حضر ت محمد رسول ا ﷲعلیہ وسلم کی۔(معاذ اﷲ تعالی) توہین کا الزام لگا کر اور تھوپ کر خود اﷲ تعالی اور اس کے رسول برحق صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں ایسے ایسے توہین آمیز کلمات بولتے ہیں کہ ایمان تو کیا شرم وحیا بھی سر پیٹ کر رہ جائے اور حیرت اس بات پر ہے کہ وہ کہتے سب کچھ اپنے پیٹ سے نکال نکال کر ہیں اور دنیا کو وہائی يہ ديتے ہیں کہ ديکھو وہابی کیا کہہ گئے؟ حالانکہ ان بے چاروں کے وہم وگمان میں بھی يہ کفریات نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں ۔

مسئلہ تکفیر اور حضرات فقہائے کرام

حضرات فقہائے کرام رحمہ اﷲ تعالی کا وہ محتاط طبقہ ہے جس کو ا ﷲ پاک نے گہری بصیرت سے نوازا ہے اور ہر مسئلہ کہ حدود اور شرائط کو بحمد ﷲ تعالی وہ بخوبی جانتا ہے اور کسی کا کافر قرار دينے میں وہ انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیتا ہے اس مستند طبقہ کے بارے میں جو ضابطہ لکھا ہے وہ ہر ايک مسلمان کے پیش نظر رہناضروری ہے۔

چنانچہ ابو حنیفہ ثانی حضرت امام زین العابدین ابن نجیم المصری الحنفی المتوفی970ھ لکھتے ہیں کہ :

خلاصتہ الفتاوی وغیرہ کتابوں میں لکھا ہے کہ جب کسی مسئلہ میں کئی وجوہ کفر کی اور صرف ايک ہی وجہ اسلام کی ہو تو مفتی کو اس وجہ کی طرف مائل ہونا چاہے جو تکفیر کی منع کرتی ہے کیوں کہ مسلمان کے بارے میں حسن ظن سے کام لینا چاہے بزازیہ میں يہ بات زائد لکھی ہے کہ اگر وہ شخص خود ہی کفر کی وجہ کو متعین کر دے تو پھر اس کو تاویل کفرسے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔

الجر الرائق ج5ص125ق طبع مصر

اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص ایساکلام اورجملہ بولتا ہے جس کے بہت سے پہلو کفر کے اور صرف ايک ہی پہلو اسلام کا نکلتاہوتو ایسے شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی مراد ہی وہ پہلو ہو جو اسلام کا پہلو ہے۔ہاں اگر وہ خور ہی اپنی مراد متعین کر دے اور وہ ایسا پہلو مراد لے جو کفر ہے تو پھر اس کو کسی توويل سے مسلمان کہنا درست نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اس کی اپنی صریح کے مقابلہ میں کسی کی حسن ظنی اور تاویل کا کوئی معنی نہیں۔

اور حضرت ملا علی قاری الحنفی رحمہ اﷲ تعالی المتوفی1014ھ لکھتے ہیں کہ :

اور صاحب المضمرات نے ذخیرہ سے نقل کیا ہے کہ اگر ايک مسئلہ میں کئی پہلو کفر کے اور صرف ايک ہی پہلو عدم کفر کا ہو تو مفتی کو وہ پہلو لینا چاہيے جو تکفیر کو منع کرتا ہے کیوں کہ اسی میں مسلمان کے حق میں حسن ظن رہ سکتی ہے۔پھر فرمایا کہ اگرقائل کی نیت وہ پہلو ہے جو اسلام کا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اگر اس کی مراد وہ پہلو ہے جو کفر ہے تو اس کو مفتی کا فتوی فائدہ نہیں دے گا ایسے شخص کو توبہ اور اسلام کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا اور اس کا اس کی بیوی سے از سر نو پھر نکاح کیا جائے گا۔

شرح فقہ اکبر ص237۔ طبع کانپور

اور لطف کی بات يہ ہے کہ خان صاحب بریلوی کو بھی حضرات فقہائے کرام کے اس ضابطہ اور فتوے سے کلی اتفاق ہے۔چنانچہ خان صاحب لکھتے ہیں۔شرح فقہ اکبر میں ہے۔

وقد ذکروا ان المسئله المتعلقه بالکفر اذا کان لها تسع وتسعون احتمالا للکفر واحتمال واحد فی نفیه فلا ولی للمفتی والقاضی ان یعمل بالاحتمال النافی۔

فتاوی خلاصہ،جامع الفصولین، ومحیط وفتاوی عالمگیریہ وغیرہا میں ہے

اذا کانت فی المسئله وجوه توجب التکفیر روجه واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی والقایضی ان یمیل الی ذالک الوجه ولایفتی بکفره تحینا للظن بالمسلم ثم انن کانت نیت القائل القائل الوجه الذی یمنع التکفیر فهو مسلم وان لم یکن لا یفعه حمل المفتی کلامه علی وجه لایوجب التکفیر۔

اسی طرح فتاوی بزازیہ وبحرالرائق ومجمع الانہر وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے تاتارخانیہ وبحر وسل الحسام وتنبیہ الولاة وغیرہا میں ہے۔

لا یکفر بالمحتمل لان الکفر مسلم امکن حمل کلامه علی محل حسن بلفظه

(حسام الحرمین ص35-36اشرفی کتب خانہ لاہور)

اس عبارت میں خانصاحب نے بحوالہ فقہ اکبر يہ لکھا ہے کہ اگر ايک مسيلہ میں نونانوے احتمال اور پہلو کفر کے ہوں اور صرف ايک ہی پہلو اسلام کا ہوتو پھر بھی قائل کی تکفیر نہ کی جائے گی اور آخر میں باحوالہ کتب تصریح کی ہے کہ چوں کہ کسی کو کافر کہنا سنگین قسم کی سزا ہے اس لئے اﷲ کے لئے انتہائی جرم درکارہے اور احتمال کے ہوتے ہوئے،انتہائی جرم کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟ اور پھر بالکل آکر میں حضرات فقہائے کرام کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ ان کے نزديک جو طے شدہ بات ہے وہ يہ ہے کہ کسی مسلمان کی تکفیر نہ کی جائے گی جب کہ اس کے کلام کےلئے کوئی اچھا محمل موجود ہو۔ او رخان صاحب اپنی کتاب برکات الامداد صفحہ 28میں لکھتے ہیں کہ :

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ کلمہ گو کے کلام میں اگر 99 معنی کفر کے نکلیں اور ايک تاویل اسلام کی پیدا ہو تو واجب ہے کہ اسی تاویل کو اختیار کریں اور اسے مسلمان ہی ٹھہراہیں۔

مگر حیف بر حیف اور تاسف بالائے تاسف يہ ہے کہ جب علمائے دیوبند کی عبارات کی باری آتی ہے تو خان صاحب ان فقہائے کرام کے اس زرین قاعدہ کو یکسر فراموش اور نظر انداز کردیتے ہیں بلکہ علمائے دیوبند کی خود اپنی تصریحات کے خلاف خانصاحب اپنے تراشیدہ معانی لے کر اور بزور ان کے ذمہ لگارکر ان کی تکفیر کرتے ہیں میں فوا اسفا۔

محمد راشد حنفی
http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/1587-ahmed-raza-khan-apne-fatawajat-ki-roshni-main رابطہ لنک 

 

No comments:

Post a Comment