visitors

free counters

Thursday, 30 June 2011

نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ اسلامی اصول کی روشنی میں


نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ اسلامی اصول کی روشنی میں
نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ
اسلامی اصول کی روشنی میں

حامداً ومصلیاً۔ امام حجة الاسلام غزالی ”مقاصد الفلاسفہ“ وغیرہ میں فرماتے ہیں:
”یونانیوں کے علوم میں حساب ‘ ہندسہ اور اقلیدس‘ یقینی علوم تھے ان کو یقینی اور صحیح پاکر ان کے بقیہ علوم الہیات‘ طبعیات‘ نجوم وغیرہ کو بھی بعض لوگ ان کی تقلید میں صحیح خیال کرنے لگے“۔
حقیقت میں یہ ایک عام چیز ہے نہ اس عہد کی تخصیص ہے اورنہ یونانیوں کے علوم کی خصوصیت۔ اکثر جب لوگ کسی کی شخصیت سے مرعوب ہوجاتے ہیں تو ان کے بعض خود ساختہ غلط نظریات وافکار کو ہی یا تو صحیح مان لیتے ہیں یا اس میں تاویل کے درپے ہوجاتے ہیں اور ان کی شخصیت کو بچاتے رہتے ہیں۔ آج کل یہی وبا پھیل رہی ہے‘ بعض مشاہیر جن کے بعض کمالات وخصائص عوام میں مسلم ہوگئے ہیں‘ اکثر لوگ ان کی شخصیت اور بعض خصوصیات سے مرعوب ہوکر ان کے بقیہ خیالات وافکار کو بھی صحیح تصور کرنے لگتے ہیں اور بسا اوقات اس میں غلو کرکے ان ہی تحقیقات کو صحیح نظریات سمجھنے لگتے ہیں‘ اس عقلی ترقی کے دور میں یہ چیز خود دنیا کے دوسرے عجائبات کی طرح حیرت انگیز ہے۔ ایک طرف کبارِ امت اور اساطین اسلام‘ عمائدین اشعری‘ ماتریدی‘ باقلانی ،غزالی‘ رازی ‘ آمدی وغیرہ جیسے محققین اسلام کی تحقیر کی جاتی ہے‘ کبار فقہاء امت اور اکابر محدثین کے فیصلوں کو بنظر اشتباہ دیکھا جاتا ہے اور دوسری طرف قرن حاضر کے بعض اربابِ قلم کی قلمی جولانیوں سے متأثر یا ان کی شخصیت سے مرعوب ہوکر ان کے ہرفکر اور ہرخیال کو قطعی خیال کرنے لگتے ہیں۔کچھ دنوں سے ہندوستان کے مؤقر جریدہ ”صدق“ میں نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ زیر بحث ہے جو مدتوں پہلے سے فیصلہ شدہ اور جو ”فتنہ ٴقادیانیت“ کی وجہ سے پھر تقریباً چالیس سال زیر بحث رہا اور جس پر متعدد کتابیں تصنیف ہوئیں‘ مولوی ابو الکلام صاحب‘ مولوی جار اللہ صاحب‘ مولانا عبید اللہ صاحب سندھی وغیرہ کی تحریرات میں یہ چیز آئی اور مولانا آزاد نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ:” اگر یہ عقیدہ نجات کے لئے ضروری ہوتا تو قرآن میں کم سے کم ”واقیموا الصلوٰة“ جیسی تصریح ضروری تھی اور ہمارا اعتقاد ہے کہ کوئی مسیح اب آنے والا نہیں الخ“ اس وقت بھی میں نے اس خیال کی تردید میں ایک مفصل مضمون لکھا تھا جو بعض اربابِ جرائد کی مداہنت سے شائع نہ ہوسکا اور نہ اس کا مسودہ میرے پاس ہے۔ غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کو اصل داعیہ اس قسم کے خیالات میں عقلی استبداد ہے اور بدقسمتی سے اپنے عقلی معیار کو ان حضرات نے اتنا بلند سمجھا ہے کہ نبوت کا منصب گویا ان عقولِ قاصرہ کو دے دیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے بعض نیک دل ارباب ِ قلم ان ہی حضرات کی شخصیتوں سے مرعوب ہوکر غیر شعوری تقلید میں کچھ درمیانی صورت اختیار کرنے لگے ہوں۔
اہل ِ حق کے مسلک کی تائید میں جناب محترم مولاناظفر احمد صاحب تھانوی نے ایک مقالہ ”صدق“ میں شائع فرمایا‘ اس کے جواب میں جے پور کے ایک محترم نے بہت طویل مقالہ ”صدق“ میں شائع فرمایا‘ جس کی تنقیح حسب ذیل امور میں ہوسکتی ہے:
۱- نزولِ مسیح کا عقیدہ صحیح ہے لیکن ظنی ہے‘ یقینی نہیں۔
۲- نزول ِ مسیح کے بارے میں احادیث اصطلاحی تواتر کو نہیں پہنچیں۔
۳- نزولِ مسیح کے بارے میں اجماع کا نقل مشتبہ ہے‘ غیب کے آئندہ امور میں اجماع محل نظر ہے‘ ممکن ہے کچھ اور اجزاء بھی تنقیح طلب ہوں‘ لیکن اصلی مداران تین چیزوں پر ہے اور یہی زیادہ اہم بھی ہیں‘ اس وقت اس مختصر فرصت میں اس مسئلہ کی نوعیت میں بعض خطرناک اصولی غلطیاں جو پیش آرہی ہیں ان کا تصفیہ مقصود ہے۔ جے پوری صاحب نہ تو میرے مخاطبِ خاص ہیں نہ ان کے مضمون کی سطر سطر کی تردید یا گرفت منظور ہے‘ نہ طالب علمانہ بحثوں میں الجھنا مقصود ہے‘ نہ ان کی نیت پر حملہ ہے‘ صرف طالب ِ حق کے لئے چند اصولی اساسی امور بیان کرنے ہیں‘ باقی جحود وعناد کا تو کوئی علاج نہیں‘ والسلام علی من اتبع الہدیٰ․
۱- دینِ اسلام کے مہمات عقائد واعمال یا اصول وفروع کا ایک ذخیرہ جیسے قرآن کریم اور نبی کریم اکے توسط سے ہم تک پہنچا ہے‘ اسی طرح اعتقادی وعملی ضروریات ِ دین ہم تک بذریعہ توارث یا تعامل طبقہ بہ طبقہ بھی پہنچتے رہے ہیں‘ بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ دینِ اسلام اور اس کی کل ضروریات ہم کو اسی توارث کے ذریعہ پہنچی ہیں‘ لاکھوں کروڑوں مسلمان ،جن کو نہ تو قرآنی تعلیمات کی پوری خبر ہے نہ احادیث ِنبویہ کا علم ہے لیکن باوجود اس کے وہ دین کی مہمات وضروریات سے واقف رہتے ہیں‘ یہ دوسری بات ہے کہ عوام کا ایمان اجمالی ہوتا ہے‘ تفصیلات کے وہ اس وقت مکلف ہوتے ہیں جب ان کے علم میں آجائے۔ یہ حق تعالیٰ کا ایک مستقل احسان ہے کہ باوجود اس دینی توارث کے قرآن کریم وحدیث نبی ا کی شکل میں ایک ایسا دستور اساسی بھی دے دیا کہ اگر کسی وقت مدتوں کے بعد اس دینی عملی توارث میں فتور یا قصور آجائے یا لوگ منحرف ہوجائیں تو تجدید واحیاء کے لئے ایک مکمل ”اساسی قانون“اور علمی ذخیرہ بھی محفوظ رہے‘ تاکہ اممِ سابقہ کی طرح ضلالت کی نوبت نہ آئے اور حق تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے۔ اور ظاہر ہے جب کتاب ِ الٰہی خاتم الکتب الالٰہیہ ہو اور نبی کریم خاتم الانبیاء ہوں اور دین خاتم الادیان اور امت خیر الامم ہو تو اس کے لئے یہ تحفظات ضروری تھے اور اسی لئے اس علمی قانون پر عمل کرنے کے لئے عملی نمونوں کی ایک جماعت بھی ہمیشہ موجود رہے گی‘ تاکہ علمی وعملی دونوں طرح حق وباطل کا امتیاز قائم رہ سکے اور پوری طرح تحفظ کیا جائے اور مزید اطمینان یا اتمامِ حجت کے لئے دونوں باتوں کا صاف صاف نہایت موکد طریقہ پر اعلان بھی کردیا‘ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
۱- ”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“ ۔ (سورہ ٴ حجر:۹)
ترجمہ:․․․․”ہم ہی نے قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔
۲- اور نبی کریم ا فرماتے ہیں:
”لاتزال طائفة من امتی قائمین علی الحق لایضرہم من خالفہم ولامن خذلہم حتی یأتی امر الله وہم علی ذلک“۔ (بخاری)
ترجمہ:۔”ایک گروہ قیامت تک ہمیشہ کے لئے دینِ حق پر قائم رہے گا‘ کسی کے امداد نہ کرنے سے یا مخالفت کرنے سے ان کا کچھ نہ بگڑے گا۔“
اور میرے خیال ناقص میں تو ”فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون“ اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھتے رہو۔ میں بھی ایک لطیف اشارہ ہے کہ ہر دور میں کچھ اہل حق ضرور ہوں گے۔
بہرحال اتنی بات واضح ہوئی کہ ”محافظین ِ حق“ اور ”قائمین علی الحق“ کا ایک گروہ قیامت تک ہوگا‘ جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مہمات ِ دین کے لئے صرف علمی اور ذہنی دستور اساسی ہی نہیں‘ بلکہ ایک ”عملی نمونہ“ بھی موجود رہے گا‘ اور اسی طرح توارث اور تعامل کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ اگر بالفرض وہ علمی ودفتری قانون دنیا سے مفقود بھی ہوجائے تو حصولِ مقصود کے لئے اس گروہ کا وجود بھی کافی ہوگا۔
دین اسلام کی بہت سی ضروریات اور قطعیات ،مثلاً: نماز‘ روزہ‘ زکوٰة‘ حج‘ نکاح‘ طلاق خرید وفروخت کی اجازت‘ شراب خوری‘ زناکاری‘ قتل وقتال کی حرمت وغیرہ بیسیوں باتیں اسی توارث کے ذریعہ سے ہم تک پہنچتی رہی ہیں‘ بلکہ نماز کی بعض کیفیات اور زکوٰة کی بعض تفصیلات نہ تو صریح قرآن سے ثابت ہیں نہ اس بارے میں احادیث ”اصطلاحی متواتر“ ہیں‘ لیکن باوجود اس کے دنیا جانتی ہے کہ وہ سب چیزیں ضروری اور قطعی ہیں اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں۔
۲- ”ادلہ سمعیہ“ یعنی عقائد واحکام کے ثبوت کے لئے قرآن وحدیث کی نصوص چار قسم کی ہوتی ہیں:
الف: ثبوت ودلالت دونوں قطعی ہوں۔ب: ثبوت قطعی ہو‘ دلالت ظنی ہو۔
ج: دلالت قطعی ہو‘ ثبوت ظنی ہو۔ د: ثبوت ودلالت دونوں ظنی ہوں۔
ثبوت کے معنی یہ ہیں کہ: اللہ ورسول کا کلام ہے۔ دلالت کے معنی یہ کہ: اس کے کلام کی مراد یہ ہے۔
قرآن واحادیث ِ متواترہ ثبوت کے اعتبار سے دونوں قطعی ہیں‘ البتہ دلالت کے اعتبار سے کبھی قطعیت ہوگی‘ کبھی ظنیت۔
اخبار آحاد میں تیسری چوتھی قسم پائی جاتی ہے‘ مزید تفصیل کے لئے عبد العزیز بخاری کی کتاب ”کشف الاسرار“ شرح اصول فخر الاسلام اور شرح تحریر الاصول ابن امیر حاج وغیرہ ملاحظہ ہوں۔ پہلی قسم سے انکار کفر ہے‘ دوسری‘ تیسری قسم کے انکار سے کفر تک نوبت نہیں پہنچتی۔
۳- تصدیق رسالت جو بنیادی عقیدہ ہے‘ اس میں تصدیق کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ا کی ہربات کو دل قبول کرے اور تسلیم کرے‘ قرآن کریم میں ”وصدق بہ“ اور ”ویسلموا تسلیماً“ سے یہی مراد ہے۔ صرف کسی شے کا علم میں آجانا جو منطقی ومعقول تصدیق ہے قطعاً کافی نہیں ہے‘ ورنہ صرف معرفت تو بہت سے یہودیوں کو اور ہرقل کو بھی حاصل تھی‘ لیکن مسلمان ہونے کے لئے اور نجات کے لئے اتنی بات کافی نہ ہوئی۔
۴- احادیث ِ متواترہ کا افادہٴ قطعیت اہلِ حق بلکہ امت کا اجماعی مسئلہ ہے۔
۵- اصطلاحی تواتر میں ایک شرط یہ ہے کہ ہر دور میں نقل کرنے والے اتنے ہوں کہ غلطی اور شبہ کی گنجائش نہ رہے‘ نقل کرنے والوں کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں‘ بسا اوقات کسی خاص موقع پر پانچ خاص آدمیوں کی روایت سے یقین حاصل ہوتا ہے جو پچاس دوسروں سے کسی دوسرے موقع پر حاصل نہیں ہوسکتا ہے‘ اس لئے علماء اصول نے تصریح کردی ہے کہ بیان کرنے والوں یا سننے والوں کے مرتبہ سے فرق پڑجاتا ہے اور کبھی مضمون اور بات کی نوعیت سے بھی تفاوت ہوسکتا ہے۔ دیکھئے: فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت (۲-۱۱۰) مطبوعہ مصر۔
۶- بعض اصولیین کے نزدیک تواتر حدیث کا مدار راویوں کی کثرت اور طرق ومخارج کی تعداد پر نہیں‘ بلکہ دار ومدار” تلقی بالقبول“ پر ہے‘ جن احادیث کو قرن اول یعنی صحابہ کرام کے عہد ہی میں امت نے قبول کرلیا ہے وہی متواتر ہیں‘ اس تعریف کے پیش نظر متواتر احادیث کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے‘ بعض محققین نے اسی تعریف کو زیادہ پسند کیا ہے‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عملی اعتبار سے قبولیت ِ عامہ نفس کثرت رواة سے کہیں زیادہ مؤثر اور قوی ہے‘ اسی کو ہم نے توارث وتعامل سے تعبیر کیا ہے‘ عنقریب اس بات کی تائید دوسری طرح سے بھی ہوجائے گی۔
۷- قرن اول میں ناقلین شرط تواتر پر ہوں اور قرن ثانی وثالث میں کمی آجائے‘ یہ محض عقلی احتمال ہے‘ ذخیرہ حدیث میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ بلکہ احادیث کی روایت میں واقعہ یہ ہے کہ یہ راوی بڑھتے گئے اور قرن ثانی وثالث میں ”اخبار آحاد“ کے راوی بھی اس کثرت کو پہنچ گئے ہیں جو قرن اول میں احادیث ِ متواترہ کے بھی نہیں تھے۔جے پوری صاحب کو یہاں بھی بظاہر اشتباہ ہے‘ اگرچہ آخری جزو کو خود بھی ایک مقام پر تسلیم کرگئے ہیں۔
۸- احادیثِ متواترہ کا ذخیرہ ٴ حدیث میں نہ ہونا یا نہایت کم ہونا دونوں دعوے تحقیق اور واقعیت کے خلاف ہیں‘ حافظ ابن حجر وغیرہ محققین اس خیال کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس قسم کے خیالات کا منشاء احوالِ رواة وکثرت طرق پر قلت اطلاع کے سوا اور کچھ نہیں‘ بلکہ فرماتے ہیں کہ صحاح ستہ میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں‘ حافظ جلال الدین سیوطی نے تو دو مستقل رسالے تصنیف کئے ہیں ،جن میں احادیثِ متواترہ کو جمع کیا ہے:
۱- ”الازہارالمتناثرة فی الاخبار المتواترة “ یہ رسالہ چھپ چکا ہے۔
۲- تدریب الراوی ص:۱۹۱، فتح المغیث للعراقی ،۱-۲۷۔ فتح المغیث للسخاوی ،ص:۹۵
۹- محدثین میں کبارِ محدثین کی رائے یہ ہے کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی وہ احادیث صحیحہ جو درجہٴ تواتر کو نہیں بھی پہنچیں وہ بھی قطعی ہیں اور ان سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے‘ استاذ ابو منصور بغدادی‘ امام ابو اسحاق اسفرائینی‘ امام الحرمین‘ امام ابوحامد اسفرائینی ‘ قاضی ابو طیب طبری‘ امام ابو اسحاق شیرازی‘ شمس الائمہ سرخسی حنفی‘ قاضی عبد الوہاب مالکی‘ ابو یعلی حنبلی‘ ابو خطاب جنبلی‘ ابن فورک‘ ابن طاہر مقدسی‘ ابو نصر عبد الرحیم شافعی ،ابن صلاح وغیرہ محققین مذاہب اربعہ کا یہی مذہب ہے‘ بلکہ اکثر اشاعرہ اور عام محدثین کا بھی یہی مسلک ہے اور یہی رائے ہے۔ متاخرین میں سے ابن تیمیہ‘ ابن قیم‘ ابن کثیر‘ ابن حجر اورسیوطی کا بھی یہی دعویٰ ہے‘ نووی وغیرہ نے جو خلاف کیا ہے‘ حافظ ابن حجر نے اس کو بھی نزاع لفظی بتایا ہے۔ ”الافصاح فی المحاکمة بین النووی وابن الصلاح“ ابو علی غافی کی جو اس موضوع پر مستقل کتاب ہے وہ بھی نزاع لفظی ٹھہراتے ہیں‘ فرماتے ہیں کہ: ”علم قطعی نظری“ کا افادہ سب کے یہاں مسلم ہے‘ امام ابن طاہر مقدسی تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو صحیحین کی روایتیں نہیں ہیں لیکن صحیحین کی شرط پر ہوں وہ بھی مفید قطع ہیں ۔ مکہ کے کبار تابعین میں سے عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں:
”ان ما اجمعت علیہ الامة اقوی من الاسناد“۔
ترجمہ:․․․” جس حدیث پر امت کا اتفاق ہو کہ یہ صحیح ہے‘ نفس اسناد کے تواتر سے یہ زیادہ قوی چیز ہے“۔
امام ابو اسحاق اسفرائینی فرماتے ہیں:
”اہل الصنعة مجمعون علی ان الاخبار التی اشتمل علیہا الصحیحان مقطوع بصحة اصولہا ومتونہا‘ فمن خالف حکمہ خبراً منہا ولیس لہ تاویل سائغ للخبر نقصتا حکمہ لان ہذہ الاخبار تلقتہا الامة بالقبول ۔“(فتح المغیث للسخاوی)
ترجمہ:․․․․”محدثین سب اس پر متفق ہیں کہ بخاری ومسلم کی احادیث سب قطعی ہیں‘ اگر بغیر صحیح تاویل کوئی ایک حدیث کی بھی مخالفت کرے گا تو اس کے حکم کو ہم توڑیں گے، کیونکہ امت محمدیہ نے ان احادیث کو قبول کرلیا ہے“۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
”الاجماع علی القول بصحة الخبر اقوی افادة العلم من مجرد کثرة الطرق“۔
ترجمہ:․․․․”کسی حدیث کی صحت پر علماء کا متفق ہونا افادہٴ علم (قطعیت )میں کثرت طرق سے زیادہ قوی ہے“۔
۱۰-متواتر لفظی کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ بعینہ ایک ہی لفظ سے وہ احادیث مروی ہوں‘ بلکہ جس لفظ سے بھی ہوں مضمون ایک ہونا چاہئے اور ایک یا دو محدثین نے جو نفی تواتر حدیث کا دعویٰ کیا تھا یا صرف ایک ہی مثال بتلائی تھی بعض محققین کے نزدیک ان کی مراد بھی یہی ہے کہ ایک لفظ سے متواتر کی ہی مثال نہیں ملتی‘ غریب الوجود ہے‘ گویا ان کے نزدیک بھی احادیث متواترہ بہت ہیں لیکن ایک لفظ سے نہیں ہیں‘ صرف حدیث ”من کذب علیّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار“ کو ایسا بتلایا گیا ہے۔ اس بناء پر نزاع بھی لفظی ہوجاتا ہے۔
متواتر معنوی کے یہ معنی نہیں کہ لفظ مختلف ہوں اور مضمون سب میں ایک ہو بلکہ یہ معنی ہیں کہ ہرایک حدیث میں مضمون الگ الگ ہو اور ایک بات قدر مشترک نکل آئے ‘جیسے احادیث معجزات کہ ہرایک اگرچہ اخبار آحاد میں سے ہے لیکن نفس ثبوت معجزہ سب میں قدر مشترک ہے‘ اسی کو اصطلاح میں تواتر معنوی یا تواتر قدر مشترک کہتے ہیں‘ ملاحظہ ہو ”مسلم الثبوت“ اور اس کی شرح ”فواتح الرحموت“۔
۱۱- ادلہ ٴ شرعیہ میں ایک دلیل ”اجماع امت“ ہے‘ اگر اس اجماع کا ثبوت قطعی ہو تو اجماع قطعی ہوگا اور اس کا منکر بھی کافر ہوگا‘ جیسے دوسری قطعیات شرعیہ کا منکر۔ بعض عقائد اگرچہ اخبار آحاد سے ثابت ہوں لیکن ان پر امت کا اجماع ہوجائے وہ بھی قطعی ہوجاتے ہیں‘ کما فی التلویح وشرح التحریر (۳-۱۱۶) آئندہ ”غیبی امور“ کے متعلق ”علامات قیامت“ کے بارے میں اگر اجماع ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس بارے میں خبر صادق سے جو نقل ہے وہ صحیح ہے‘ ملاحظہ ہو تفصیل کے لئے فواتح الرحموت شرح مسلم (۲-۲۹۶) شرح تحریر الاصول لابن امیر الحاج (۳-۱۱۶) حدوث عالم پر اجماع کے معنی بھی یہی ہیں جیسے فتح الباری (۱۲-۱۷۷) میں تقی الدین ابن دقیق العید سے منقول ہے۔ جے پوری صاحب نے اس بارے میں کسی قدر تلبیس سے کام لیا ہے۔ فلیتنبہ
۱۲- جو چیز قرآن کریم یا احادیث متواترہ سے ثابت ہو یا اجماع امت سے اور دلالت بھی قطعی ہو تو وہ سب ضروریات دین میں داخل ہیں ”ضروریات دین“ کے معنی یہ ہیں کہ ان کا دین اسلام سے ہونا بالکل بدیہی ہو‘ خواص سے گذر کر عوام تک اس کا علم پہنچ گیا ہو‘ یہ نہیں کہ ہر عامی کو اس کا علم ہو‘ کیونکہ بسا اوقات تعلیم دین نہ ہونے سے بعض ”ضروریات دین“ کا علم عوام کو نہیں ہوتا‘ لیکن تعلیم کے بعد اور جان لینے کے بعد اس پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے‘ علمأ نے تصریح فرمادی ہے کہ ”بعض متواترت شرعیہ“ کے جہل سے تو کفر نہیں لازم آتا‘ لیکن معلوم ہونے کے بعد حجود وانکار سے آدمی کافر ہوجاتا ہے‘ ملاحظہ ہو ”جواہر التوحید“ کی شرح ،ص:۵۱،وحاشیہ ”الموافقات“ للشاطبی (۳-۱۵۶) واکفار الملحدین ص:۲)۔
۱۳- ”ضروریات دین“ کا انکار کرنا یا اس میں خلافِ مقصود تاویل کرنا دونوں کو علماء کرام نے موجب کفر بتلایا ہے‘ حجة الاسلام غزالی نے اس موضوع میں ”التفرقة بین الاسلام والزندقہ“ مستقل کتاب لکھی ہے اور فیصلہ کن بحث فرمائی ہے‘ مدت ہوئی مصر سے چھپ کر آگئی ہے اور غالباً ہندوستان میں بھی طبع ہوئی ہے اور امام العصر محدث وقت حضرت استاذ مولانا محمد انور شاہ کی کتاب ”اکفار الملحدین فی ضروریات الدین“ اس موضوع پر نہایت ہی جامع اور بے مثل کتا ب ہے۔
۱۴- جو چیز متواتر ہوجائے وہ دین میں ”ضروری“ ہوجاتی ہے‘ کیونکہ متواتر کا افادہٴ علم ضروری قطعی مسلمات سے ہے‘ پس اگر کسی کو اس کا علم ہوجائے کہ یہ حدیث احادیث متواترہ میں سے ہے یا یہ بات حدیث متواتر سے ثابت ہے تو اس پر ایمان لانا ضروری ہوجاتا ہے‘ خواہ اس کا تعلق کائنات ماضیہ سے ہو یا مغیبات مستقبلہ سے ہو ‘ خواہ عقائد کے متعلق ہو خواہ احکام کے بارے میں ہو‘ تصدیق رسالت کے لئے اس سے چارہ نہیں‘ ورنہ تکذیب رسول کا کفر ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ بہرحال تصدیق رسول کا ایمان کے لئے ضروری ہونا او رتکذیب سے کفر کا لازم آنا یہ خود دین کی ضروریات میں داخل ہے‘ کتب کلامیہ اور کتب اصول فقہ میں یہ قواعد کلیہ مفصل مل جاتے ہیں‘ بطور نمونہ ہم ا س سمندر سے چند قطرے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
۱- ”ومن اعترف بکون شیئ من الشرع ثم جحدہ کان منکراً للشرع وانکار جزء من الشرع کانکار کلہ“ (شرح التحریر: ۳-۱۳)
ترجمہ:۔”جو شخص یہ مانے کہ یہ چیز شریعت میں ہے‘ باوجود اس کے اس کا انکار کرے تویہ کل شریعت کا انکار ہے۔
۲- ”وصح الاجماع علی ان کل من جحد شیئاً صح عندنا بالاجماع ان رسول اللہ ا اتی بہ فقد کفر او جحد شیئاً صح عندہ بان النبی ا قالہ فہو کافر“۔ (الملل لابن حزم ۱-۲۵و۲۵۶)
ترجمہ:۔”اس پر اجماع ہے کہ جس چیز کے متعلق یہ اتفاق ہو کہ نبی کریم ا فرما چکے ہیں ،اس کا انکار کفر ہے یا یہ مانتا ہو کہ آپ فرما چکے ہیں‘ باوجود اس کے نہ مانے، یہ کفر ہے“۔
۳- ”من انکر الاخبار المتواتر ة فی الشریعة مثل حرمة لبس الحریر علی الرجال کفر“ (شرح فقہ اکبر نقلاً عن المحیط)
ترجمہ:۔”کسی شرعی حکم کی حدیث متواتر ہو اور اس سے انکار کیا جاوے تو کافر ہوگا جیسے ریشمی لباس مردوں کے لئے“۔
۴- ”فصار منکر المتواتر ومخالفہ کافراً “ (اصول فخر الاسلام بحث السنہ)
ترجمہ:۔”متواتر کا انکار یا مخالفت دونوں کفر ہیں“۔
۵- ”والصحیح ان کل قطعی من الشرع فہو ضروری“۔
(المحصول للرازی بحوالہ اکفار الملحدین ص:۶۷)
ترجمہ:۔”دین میں جوچیز قطعیات کو پہنچ چکی ہو وہ ضروریات دین میں داخل ہے“۔
۶- ”شروط القطع فی النقلیات التواتر الضروری فی النقل والتجلی الضروری فی المعنی“۔ (ایضاً ص:۶۹)
ترجمہ:۔”شرعی امور جب تواتر سے ثابت ہوں اور معنی بھی واضح ہو‘ یہی قطعیت ہے“۔
۷- ”وکل مالم یحتمل التاویل فی نفسہ وتواتر نقلہ ولم یتصور ان یقوم برہان علی خلافہ فمخالفتہ تکذیب محض“۔ التفرقة للغزالی ص:۱۴)
ترجمہ:۔”جس چیز کی نقل متواتر ہو اور تاویل کی گنجائش نہ ہو اور کوئی دلیل خلاف پر قائم نہ ہو تو ایسی چیز کی مخالفت رسول اللہ ا کی تکذیب ہے“۔
۸- ”بل انکار المتواتر عدم قبول اطاعة الشارع․․․ ورد علی الشریعة وان لم یکذب وہو کفر بواح نفسہ“۔(شرح الاشباہ للحموی رد المختار ‘ طحطاوی بحوالہ اکفار الملحدین)
ترجمہ۔”بلکہ حقیقت میں تو متواتر کا انکار شارع علیہ الصلاة والسلام کی عدم اطاعت ہے اور شریعت اسلام کا رد ہے جو خود کھلا ہوا کفر ہے‘ اگرچہ تکذیب نہ کرے“۔
۹- ”ومن انکر شیئاً من شرائع الاسلام فقد ابطل قول لا الہ الا اللہ“۔
(السیر الکبیر للامام محمد بحوالہ اکفار الملحدین)
ترجمہ:۔”شریعت اسلامیہ کی کسی چیز سے انکار کرنا کلمہ اسلام سے انکار کرنا ہے“۔
۱۰- ”فلاخلاف بین المسلمین ان الرجل لو اظہر انکار الواجبات الظاہرة المتواترة ونحو ذلک فانہ یستتاب فان تاب والا قتل کافراً مرتداً اھ“۔ (شرح عقیدہ طحاویہ مطبوعہ حجاز ص:۲۴۶)
ترجمہ:۔”امت مسلمہ میں کوئی خلاف اس بارے میں نہیں کہ جو کوئی متواترات سے انکار کرے‘ چاہے اس کا کرنا فرض ہو یا ترک حرام ہو ،اس سے توبہ نہ کرے تو کافر ہے اور واجب القتل ہے“۔
۱۱- ”لایکفر اہل القبلة الا فیما فیہ انکار ما علم مجیئہ بالضرورة او اجمع علیہ کاستحلال المحرمات (المواقف) ومثلہ فی العضدیہ“۔
ترجمہ۔”اہل قبلہ کی اس وقت تک تکفیر نہیں کی جاتی جب تک ضروریات دین کا یا کسی ایسی چیز کا جس پر اجماع منعقد ہو‘ انکار نہ کرے‘ مثلاً حرام کو حلال سمجھنا“۔
۱۲- وکذلک یقطع بتکفیر من کذب او انکر قاعدة من قواعد الشریعة وما عرف یقیناً بالنقل المتواتر من فعل رسول ا۔“
ترجمہ۔”جو شخص تکذیب کرے یا کلیات شریعت میں سے کسی قاعدہ سے انکار کرے یا جو چیز نبی کریم سے متواتر ثابت ہے ،اس سے انکار کرے‘ اس کی تکفیر قطعی ویقینی ہے“۔
۱۳- ”وخرق الاجماع القطعی الذی صار من ضروریات الدین کفر“
(کلیات ابی البقاء بحوالہ اکفار الملحدین)
ترجمہ:۔”قطعی اجماع جو ضروریات دین میں داخل ہے ا س کاخلاف کرنا کفر ہے“۔
۴- ضروریات دین کی مثال میں علماء امت اپنی اپنی کتابوں میں دو چار مثالیں ذکر کردیتے ہیں‘ ناظرین کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ ضروریات دین بس یہی ہیں‘ آگے سلسلہ ختم ہوگیا‘ یہ چیز جے پوری صاحب کو بھی پیش آرہی ہے‘ حالانکہ ان اکابر کا مقصود محض مثال پیش کرنا ہے‘ نہ استقصاء نہ حصر‘ نہ تخصیص۔ اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے ذیل میں ہم ان مثالوں کو ایک جگہ جمع کردیتے ہیں جو سرسری محنت سے مل سکیں، تاکہ اس مختصر فہرست سے خود بخود یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ مقصود تمثیل تھی‘ نہ پوری فہرست ‘کتب فقہ‘ اصول فقہ‘ کتب کلام ،اصول حدیث میں ذیل کی مثالیں ملتی ہیں:
اثبات علم الٰہی‘ قدرت محیط‘ ارادہ کاملہ‘ صفت کلام‘ قرآن کریم‘ قِدَم قرآن‘ قِدَم صفات باری‘ حدوث عالم‘ حشر اجساد‘ عذاب قبر‘ جزاء وسزا‘ رویت باری قیامت میں‘ شفاعت کبریٰ‘ حوض کوثر‘ وجود ملائکہ‘ وجود کراماً کاتبین‘ ختم نبوت‘ نبوت کا وہبی ہونا‘ مہاجرین وانصار کی اہانت کا عدم جواز‘ اہل بیت کی محبت‘ خلافت شیخین‘ پانچ نمازیں‘ فرض رکعات کی تعداد ‘ تعداد سجدات‘ رمضان کے روزے‘ زکوٰة‘ مقادیر زکوٰة‘ حج‘ وقوف عرفات‘ تعداد طواف‘ جہاد‘ نماز میں استقبال کعبہ‘ جمعہ‘ جماعت‘ اذان‘ عیدین‘ جواز مسح خفین‘ عدم جواز سب رسول‘ عدم جواز سب شیخین‘ انکار جسم‘ انکار حلول اللہ‘ عدم استحلال محرمات‘ رجم زانی‘ حرمت لبس حریر (ریشم پہننا) جواز بیع‘ غسل جنابت‘ تحریم نکاح امہات‘ تحریم نکاح بنات‘ تحریم نکاح ذوی المحارم‘ حرمت خمر‘ حرمت قمار‘ اس وقت یہ اکیاون مثالیں پیش کی گئی ہیں‘ اب تو خیال مبارک میں آگیا ہوگا کہ بعض وہ امور جس کی طرف التفات بھی نہ ہوگا وہ بھی ضروریات دین میں داخل ہیں۔
اب ہم اس بحث کے آخر میں محقق ہند حضرت عبد العزیز صاحب کی عبارت کا اقتباس پیش کرتے ہیں‘ پوری عبارت اکفار المحدین میں منقول ہے‘ اس سے انشاء اللہ یہ بات بالکل بدیہی ہوجائے گی کہ ضروریات دین کے لئے ضابطہ کلیہ کیا ہے ؟اور جو چیزیں بطور تمثیل پیش کی جاتی ہیں ان کا دائرہ صرف تمثیل ہی کی حد تک محدود ہے‘ فرماتے ہیں:
”ضروریات الدین منحصرة عندہم فی ثلاثة : مدلول الکتاب بشرط ان یکون نصاً صریحاً لایمکن تاویلہ کتحریم البنات والامہات‘ ومدلول السنة المتواترة لفظاً او معنی ‘ سواء کان من الاعتقادیات او من العملیات وسواء کان فرضاً او نفلاً․․․․ والمجمع علیہ اجماعاً قطعیاً کخلافة الصدیق والفاروق ونحو ذلک ولاشبہة ان من انکرامثال ہذہ الامور لم یصح ایمانہ بالکتاب والنبیین“۔
ترجمہ:۔”ضروریات دین تین قسم کے ہیں: پہلی قسم یہ کہ تصریح نص قرآنی سے ثابت ہوں‘ جیسے ماں بیٹی سے نکاح کا حرام ہونا۔ دوسری قسم یہ کہ سنت متواترہ سے ثابت ہوں‘ تواتر خواہ لفظی ہو خواہ معنوی‘ عقائد میں ہو یا اعمال میں ہو‘ فرض ہو نفل ہو۔تیسری قسم یہ ہے کہ اجماع قطعی سے ثابت ہوں جیسے حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم کی خلافت وغیرہ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قسم کے امور سے اگر انکار کیا جائے تو اس شخص کا ایمان قرآن اور انبیاء پر صحیح نہیں ہے“۔ امام العصر محدث حضرت استاذ مولانا محمد انور شاہ  مزید توضیح کے ساتھ فرماتے ہیں کہ :
” ضروری کے معنی یہ ہیں کہ حضرت رسالتمآب اسے ا س کا ثبوت ضروری ہو‘ دین سے ہونا یقینی ہو اور جو بھی اس کا شرعی مرتبہ ہو‘ اسی درجہ کا عقیدہ اس کا ضروری ہوگا‘ مثلاً نماز فرض ہے اور فرضیت کا عقیدہ بھی فرض ہے اور اس کا سیکھنا بھی فرض ہے اور انکار کفر ہے۔ اسی طرح مسواک کرنا سنت ہے اور سنت ہونے کا عقیدہ فرض ہے اور سیکھنا سنت اور انکار کرنا کفر ہے اور عملاً ترک کردینا باعث عتاب یا عقاب ہے“
اب امید ہے کہ اس تشریح سے ضروریات دین کی حقیقت واضح ہوگئی ہوگی‘ بات تو بہت لمبی ہوگئی لیکن توقع ہے کہ طالب حق کے لئے نہایت کار آمد ثابت ہوگی اور آج کل جو عام طور سے ایمان وکفر کے قواعد یا مسائل میں عوام کو یا عالم نما جاہلوں کو شبہات وشکوک یا وساوس پیش آرہے ہیں ان کا بھی اس سے تصفیہ ہوجائے گا۔
اس طولانی تمہید کے بعد ان ہی اصول مذکورہ کی روشنی میں ہم نزول مسیح علیہ السلام کے عقیدہ کو پرکھتے ہیں‘ اگرچہ ہمارا اصلی مقصد تو پورا ہوگیا‘ اب طالب حق خود ہی ان اصول اسلامیہ اور قواعد مسلمہ کی روشنی میں تفتیش کرکے مزید ضروریات دین کا سراغ بھی لگا سکے گا ،لیکن تبرعاً چند مختصر گذارشات بھی ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں: ”نزول مسیح علیہ السلام کے تین پہلو ہیں‘ قرآنی حیثیت اس کی کیا ہے؟ حدیثی مرتبہ کیا ہے؟ اور اجماع امت کا فیصلہ اس بارے میں کیا ہے؟ تینوں امور واضح ہونے کے بعد خود بخود یہ چیز اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ عقیدہ ٴ نزول ضروریات دین میں سے ہے یا نہیں۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

No comments:

Post a Comment