visitors

free counters

Monday, 20 June 2011

مسلمانوں کے دو فکری حکمران جاوید احمد غامدی اور وحید الدین خاں

May 2011(By ریحان احمد یوسفی)
مسلمانوں کے دو فکری حکمران
 مسلمانوں کی تاریخ کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ میں ابتدا سے لے کر آج تک بے شمار جلیل القدر اہل علم گزرے ہیں۔ تفسیر، حدیث، فقہہ، علم الکلام اور تصوف وغیرہ کے حوالے سے اس امت میں بڑے نام اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ فہرست بنائی جائے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کسے لیا جائے اور کسے چھوڑا جائے۔ تاہم فکری اعتبار سے جن لوگوں کا امت پر غیر معمولی اثر ہوا اور مجموعی طور پر امت جن لوگوں کی پیروی کرتی ہے حیرت انگیز طور پر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بلکہ اگر بالکل متعین کرکے بیان کیا جائے تو درحقیقت ہزار برس سے صرف دو لوگ ہیں جن کے افکار و خیالات اور نظریات کی اس امت میں فکری طور پر پیروی کی جارہی ہے۔ یہ پیروی عوام بھی کرتے ہیں اور خواص بھی۔ ان کے نام لیوا بھی کرتے ہیں اور ان کے بدترین ناقدین بھی۔ ان کے زمانے میں بھی کی گئی اور ان کے بعد بھی۔ یہ دو حضرات امام غزالی اور امام ابن تیمیہ ہیں۔

 کسی کو پیروی کا لفظ اگر مبالغہ محسوس ہوتا ہے تو چلیے اسے اثر و رسوخ سے تعبیر کرلیجے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں حضرات کی خدمات اور اثرات غیر معمولی ہیں۔ یہ دونوں اپنے علم، کام اور اثرات کے اعتبار سے سمندر کی طرح ہیں جس کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ سردست یہ میرا موضوع بھی نہیں ہے۔ صرف اختصار سے یہ عرض کرتا چلوں کہ امام غزالی کا اثر دین کے اس پہلو کے حوالے سے ہے جس کا تعلق فرد سے ہے یعنی دین کا ایک روحانی نصب العین، عبد و معبود کا تعلق اور فرد کی اخلاقیات۔ اسے عام طور پر ہم دین کی متصوفانہ تعبیر کے نام سے جانتے ہیں۔ جبکہ امام ابن تیمیہ نے دین کے اجتماعی پہلو کے حوالے سے امت کو متأثر کیا۔ اسے آج ہم دین کی سیاسی تعبیر کہہ سکتے ہیں۔ تاہم اس کا دائرہ بڑا وسیع تھا جس میں سیاست کے علاوہ، غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات، جہاد، رد بدعات، علمی و عملی اصلاح وغیرہ جیسی چیزیں نمایاں ہیں۔

 سرسری غور و فکر سے بھی یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امام ابن تیمیہ کے کام کی نوعیت ایسی ہے جس کا لازمی نتیجہ لوگوں کی مخالفت ہے۔ یہی امام صاحب کے ساتھ ہوا۔ ان کا کام جتنا زبردست اور ہمہ گیر ہے، ان کی مخالفت ان کے دور سے لے کر آج تک اتنے ہی شدید انداز میں کی جاتی ہے۔ قارئین صرف دو مثالوں سے ان کی مخالفت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے مجددانہ کام کی بنا پر امام صاحب کو کئی دفعہ عوام و خواص کی شدید مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے گرفتارِ قید و بند ہونا پڑا۔ حتیٰ کہ قید ہی میں آپ کا انتقال ہوا۔ دوسری مثال اس فتویٰ کی ہے جو آپ کے بارے میں مشہور ہوا کہ جو ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہے وہ کافر ہے۔ امام شوکانی نے اپنی کتاب ’’البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع‘‘ میں نویں صدی ہجری کے ایک معروف عالم محمد العلاء البخاری الحنفی کے حوالے سے یہ فتویٰ نقل کیا ہے، 254/2۔ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ جہاں امام صاحب کے نام لیوا اور ان کا اعتراف کرنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں وہیں ان کے کفر و گمراہی کے قائلین کی بھی کمی نہیں۔

 تاہم اس سب کے باوجود یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امام صاحب کا فکری اثر و رسوخ بے پناہ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہمارے ہاں توہین رسالت کا معاملہ اٹھتا ہے تو ان کے حامی تو درکنار ان کے بدترین مخالفین بھی انھی کی کتاب ’الصارم المسلول‘ میں بیان کردہ استدلال کو پیش کرتے ہیں۔

مولانا ابو الحسن علی ندوی اور ابن تیمیہ
 مجھے اس تفصیل کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ہمارے دور میں یہ سانحہ پیش آیا ہے کہ پے در پے تین افراد ایسے پیدا ہوئے جن کا کام اور علم غیر معمولی ہے، مگر ان تینوں کے ساتھ کم و بیش وہی معاملہ ہوا جو ابن تیمیہ کے ساتھ ہوا۔ الزام، دشنام، بہتان، فتوے ، بدنام کرنے کی مہمیں وغیرہ کا ان سب کو بھی اسی طرح نشانہ بنایا گیا جس طرح ابن تیمیہ کے ساتھ ہوا تھا۔ اس سے قبل کہ میں ان بزرگوں کے حوالے سے کچھ عرض کروں بہتر یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھی کے ہم عصر اور عظیم بزرگ مولانا ابوالحسن علی ندوی کا ایک اقتباس یہاں نقل کردوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قارئین کسی قسم کے تعصب میں مبتلا ہوئے بغیر اس اقتباس کو صرف ابن تیمیہ کے حوالے سے پڑھیں اور دیکھیں کہ مولانا نے کس خوبی سے اُس مخالفت کی وجوہات کا تجزیہ کیا ہے جس کا سامنا ابن تیمیہ کو کرنا پڑا۔

 میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی ان بزرگوں میں سے ہیں جنھیں عالم عرب و عجم میں بہت عزت اور احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ ان کی علمی حیثیت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں جو پانچ سات بزرگ عالم اسلام میں چوٹی کے علما شمار کیے جاتے تھے مولانا ان میں سے ایک تھے۔ مولانا سے ذاتی طور پر مجھے بڑی عقیدت اور محبت ہے اور میں نے ان سے علمی طور پر بہت استفادہ کیا ہے۔ اب ذرا مولانا کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے جو ذرا طویل ہے، مگر زبان و بیان کے اعتبار سے کمال کی چیز ہے۔

 مولانا اپنی کتاب ’تاریخ دعوت و عزیمت ‘میں ابن تیمیہ کے فضائل و کمالات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

مولانا ابو الحسن علی ندوی کا اقتباس
 ’’ان غیر معمولی علمی و ذہنی کمالات اور مسلّم اخلاص و تدیّن کے ساتھ ایک سلیم الطبع انسان کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے معاصرین اور بعض متأخرین نے کیوں اس شدت سے ان کی مخالفت کی، اور ان کی ذات ان کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کیوں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے؟ ایسے جامع کمالات انسان کی عظمت و قبولیت پر تو سب کا اتفاق ہونا چاہیے! یہ سوال حق بجانب ہے، اور اس کا مستحق ہے کہ ان کی سیرت اور ان کی معاصر تاریخ کی روشنی میں سنجیدگی سے اس کا جواب دیا جائے۔

 ۱۔ اولاً تو یہی ان کی عظمت کی دلیل ہے کہ ان کی ذات کے بارے میں شروع سے دو فریق بنے ہوئے ہیں، اور ان میں حریفانہ کشمکش جاری ہے، تاریخ میں جو شخصیتیں بہت ممتاز، غیر معمولی اور خارق عادت کمالات کی حامل ہیں، ان کے بارے میں ہمیشہ سے یہی طرزِ عمل رہا ہے کہ ایک گروہ ان کے معتقدین کا بن گیا ہے، جو ان کی تعریف میں غلو اور مبالغہ سے کام لیتا ہے، دوسرا گروہ ناقدین و مخالفین کا ہے، جو ان کی تنقید بلکہ تنقیص میں انتہا پسند اور غالی نظر آتا ہے، عظیم الشان اور غیر معمولی شخصیتوں کے بارے میں تاریخ کا یہ ایک ایسا مسلسل اور متواتر تجربہ ہے کہ بعض فلاسفہ تاریخ اور نفسیات ’’عظمت و عبقریت‘‘ کے مبصرین نے اس کو قاعدہ کلیہ اور شرط عظمت و عبقریت قرار دیا ہے۔

 ۲۔ ابن تیمیہ کی ذات میں ان کے معاصرین کے لیے سب سے بڑا ابتلاء اور امتحان یہ تھا کہ وہ اس زمانہ اور اس نسل کی عام ذہنی و علمی سطح سے بلند تھے، اپنے زمانہ کی سطح سے بلند ہونا ایک نعمتِ خداداد اور ایک قابلِ رشک کمال ہے، مگر اس کمال کی صاحبِ کمال کو بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، وہ صاحبِ کمال اپنے معاصرین کی طرف سے ایک مسلسل ابتلاء اور آزمائش میں رہتا ہے، اور وہ معاصرین اس صاحبِ کمال سے زندگی بھر ایک مصیبت اور زحمت میں مبتلا رہتے ہیں، وہ اس کی تازگیٔ فکر، بلندیٔ نظر، قوتِ اجتہاد کا ساتھ نہیں دے سکتے، اور اس کے آفاقِ علم و فکر تک ان کی رسائی نہیں ہوتی، اور وہ ان کے معین و محدود اصطلاحات اور مدرسی حدود میں مقید نہیں رہ سکتا، وہ علم و نظر کی آزاد فضاؤں اور قرآن و حدیث کے بلند اور وسیع آفاق میں آزادانہ پرواز کرتا ہے، ان کا مبلغ علم متقدمین اور اہلِ درس کی کتابوں کا سمجھ لینا ہوتا ہے، وہ واضح علوم اور بہت سے فنون کا مجتہد و مجدد ہوتا ہے، غرض مدارک اور استعدادوں کا یہ تفاوت اس کے اور اس کے مخلص معاصرین کے درمیان ایسی کشمکش پیدا کردیتا ہے کہ یہ گتھی کبھی سلجھتی نہیں، اور وہ کبھی اپنے معاصرین کو مطمئن نہیں کرسکتا، ہر زمانہ کے صاحبِ کمال اور مجتہد الفن علما نے اس کی شکایت کی ہے کہ ان کی تحقیقات اور علوم و مضامین ان کے زمانہ کی علمی و نصابی سطح سے بلند اور ان اہلِ علم کی دسترس سے باہر ہیں، جن کی پروازِ فکر متداول کتابوں سے آگے نہیں، اور یہی بہت سے اہلِ علم کی مخالفت کا سبب اور محرک ہے۔

 ۳۔ مخالفین کا ایک گروہ اس بنا پر مخالف تھا کہ وہ اپنی غیر معمولی ذہانت و علم، اپنی شخصیت کی دلآویزی اور بلندی کی وجہ سے عوام و خواص میں مقبول اور حکومت کے اشخاص پر حاوی ہوتے جارہے ہیں، اور ان کے علم و تقریر کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا، وہ جہاں رہتے ہیں، سب پر چھاجاتے ہیں، درس دیتے ہیں تو درس کی دوسری محفلیں بے رونق ہوجاتی ہیں، تقریر کرتے ہیں تو علم کا دریا امنڈتا نظر آتا ہے، ذہبی نے اس معنی خیز فقرہ میں دلوں کی چھپی ہوئی بات کو آشکارا کردیا ہے:
’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو سمندر سے پانی لیتے ہیں، اور دوسرے اکابر علما چھوٹی چھوٹی نہروں اور نالیوں سے پانی لیتے ہیں۔‘

 ہر زمانہ کے علما بہرحال بشر تھے، اور انسانوں ہی کا دل و دماغ اور انسانی احساسات رکھتے تھے، اس لیے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کی مخالفت کا موجب یہی احساس کہتری اور انسانی طبیعت کی قدیم کمزوری تھی، جس سے بچنا بڑا مشکل کام ہے، امام ابوحنیفہؒ سے شدید اختلاف و عناد رکھنے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے مؤرخین نے یہ شعر لکھا ہے جو ہر زمانہ پر صادق ہے:
حسدو الفتی اذ لم ینالو لواسعیہ فالناس اعداء لہ و خصوم

 ۴۔ بہت سے معاصرین کی مخالفت کا ایک قدرتی سبب شیخ الاسلام کی ایک مزاجی خصوصیت بھی تھی، جو بہت سے ان اہلِ کمال میں ہوتی ہے جو غیر معمولی طور پر ذہین، وسیع النظر اور کثیر المعلومات ہوتے ہیں، یعنی طبیعت کی تیزی اور ذکاوتِ حس، جو بعض اوقات ان کو اپنے بعض حریفوں کی سخت تنقید اور ان کے جہل اور غباوت اور قلتِ علم کے اظہار پر آمادہ کردیتی ہے، اور شدتِ تأثر میں ان کی زبان سے بعض ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جس سے ان کے اہلِ علم معاصرین اور ان کے معتقدین و تلامذہ کی دل شکنی اور تحقیر ہوتی ہے، اور ان کے دل میں مستقل نفرت و عناد کے بیج پڑجاتے ہیں، جو علمی و فقہی اصطلاحات، کفر و ضلال کے فتوے اور مسلسل مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔

 ۵۔ مخالفت کا ایک سبب ان کی بعض وہ تحقیقات اور ترجیحات ہیں، جن میں وہ متفرد اور مذاہب مشہورہ اور ائمہ اربعہ سے بھی بعض اوقات الگ نظر آتے ہیں، جن لوگوں کی فقہ و خلاف کی تاریخ اور ائمہ و مجتہدین کے اقوال و مسائل پر وسیع نظر ہے ان کے لیے تو یہ ’’تفردات‘‘ کوئی وحشت کی چیز اور ابن تیمیہ کے فضل و کمال کے انکار کا موجب نہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر ائمہ مشہورین اور اولیاے مقبولین کے تفردات اور مسائلِ غریبہ جمع کردیے جائیں تو یہ تفردات بہت ہلکے اور معمولی نظر آنے لگیں، اور ان لوگوں کا حسنِ اعتقاد جو ’’تفرد‘‘ کو مقبولیت اور حقانیت کے منافی سمجھتے ہیں، اور ان کے لیے عظمت و ولایت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی قول اور کوئی تحقیق مشہور تحقیقات کے خلاف نہ ہو، تزلزل میں پڑجائے گا۔

 ۶۔ا نکی مخالفت کا ایک قوی سبب یہ تھاکہ انھوں نے اس طرز کلام اور صفات و متشبہات کی تاویل کے اس طریقہ کی مخالفت کی جو ’عقیدہ اشعریہ ‘‘بلکہ عقیدۂ اہل سنت کے نام سے موسوم تھا ۔ ۔ ۔ اس وقت تمام عالمِ اسلام پر اشعری العقیدہ علما و متکلمین کا اثر تھا، امام ابن تیمیہؒ کا یہ اختلاف جو خالص علمی بنیادوں پر تھا، ایک بدعت اور ’’یتبع غیر سبیل المؤمنین‘‘ کا مترادف سمجھا گیا۔۔ ۔ ۔

 ۷۔ مخالفت کا ایک سبب شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی مخالفت ہے، بہت سے لوگوں کے نزدیک خصوصاً جو تصوف کا مذاق رکھتے ہیں، ابن تیمیہ کا یہ جرم ناقابلِ معافی ہے، اور ان کے تمام محاسن و کمالات پر پانی پھیر دیتا ہے کہ انھوں نے شیخِ اکبر کے مشہور آراء و تحقیقات اور ان کے مسلک وحدۃ الوجود کی پرزور تردید کی ہے، اور وہ ان کے مخالفین میں سے ہیں۔۔ ۔ ۔

 ۸۔ ایک گروہ کو ان کی طرف سے شدید غلط فہمیاں اور مغالطے تھے۔ بعض غیر محتاط و متعصب مصنفین نے ان کی طرف ایسے اقوال کی نسبت کی تھی، جو عام عقیدۂ اہلِ سنت اور جمہور کے مسلک کے مطابق موجبِ کفر ہیں، اور بعض ایسے اقوال ان کی طرف منسوب کیے گئے جن سے مقامِ رسالت میں سوئِ ادب اور تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔ (اعاذنا اللہ و جمیع المسلمین منہ) یہ معاملہ تنہا ابن تیمیہ کے ساتھ نہیں کیا گیا، دوسرے اکابر امت بھی معاندین کی اس سازش کا شکار ہوئے ہیں، ان کی طرف نہ صرف ان اقوال و عقائد کی نسبت کی گئی، جن سے وہ بالکل بری تھے، بلکہ ان کی کتابوں میں ایسے مضامین شامل کیے گئے جو موجبِ کفر و ضلال تھے، ایک قدم اس سے بڑھ کر مستقل کتابیں (جو کفریہ اقوال پر مشتمل تھیں) تصنیف کرکے ان کی طرف منسوب کردی گئیں، اور ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی گئی۔ (تاریخِ دعوت و عزیمت، جلد دوم147-158(

تین معاصرین
 اب آخر میں ان بزرگوں کا مختصر ذکر جن کا اوپر حوالہ دیا گیا تھا۔ ان کے خلاف ہونے والی مخالفت کو ذہن میں رکھنے کے ساتھ مولانا ندوی کے تجزیے کو بھی پیش نظر رکھیے گا۔ جس شخص نے بھی ان تین بزرگوں کے علمی کام کو اچھی طرح سمجھا ہے، اسے اس نتیجے تک پہنچنے میں دیر نہ لگے گی کہ یہ آج کے ابن تیمیہ ہیں۔ ان میں سے پہلے بزرگ مولانا مودودی ہیں۔ ابن تیمیہ کی طرح مولانا کی عظمت کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی زندگی ہی میں ان کے بدترین ناقدین اور مخالفین بھی فکری سطح پر انہی کی بولی بولنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد ان پر ہونے والے حملوں میں کافی کچھ کمی آگئی اور انھیں گمراہ قرار دینے والے حلقوں کے لوگ بھی اب ان کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ گو آج بھی انھیں گمراہ اور کافر سمجھنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ باقی دو لوگوں کی ’’بدقسمتی‘‘ یہ ہے کہ مخالفین کی تمام تر کوششوں اور فتووں کے باوجود وہ ابھی تک زندہ ہیں۔ اسی لیے ان کی عظمت کے اعتراف میں زمانے کو کچھ تأمل ہے۔ تاہم اب لوگ ان کی زبان بولنا شروع ہوگئے ہیں اور زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ ان کا اعتراف بھی اسی طرح شروع ہوجائے گا۔ مگر شاید اس کے لیے ہمیں ان کی وفات کا انتظار کرنا پڑے۔ میرا اشارہ مولانا وحید الدین خان اور جاوید احمد صاحب غامدی کی طرف ہے۔ گرچہ آج بھی بہت سے سلیم الفطرت لوگ ان کے کام کو سمجھ کر ان کا اعتراف کرتے ہیں، مگر بالعموم ان کی مخالفت ہی عمومی مذہبی رویہ ہے۔ اسی بنا پر میں یہ عرض کررہا ہوں کہ یہ آج کے ابن تیمیہ ہیں۔

اصل مسئلہ اخلاقی رویہ ہے
 میرا موضوع ان تینوں بزرگوں کے کام کا جائزہ لینا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا علمی کام اصل یا فرع میں بعض غلطیاں لیے ہوئے ہو۔ مگر توجہ دلانے والی بات یہ ہے کہ کسی بڑے آدمی کے معاصرین کی اندھی مخالفت اس کا مقام طے نہیں کرتی۔ اس کا فیصلہ ہمیشہ مستقبل کرتا ہے۔ مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ مخالفت میں اخلاقی حدود پامال کرتے، الزم و دشنام کی زبان اختیار کرتے، نیت پر حملے کرتے اور کفر و گمراہی کے فتوے دیتے ہیں، وہ اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جو اللہ کے ہاں انسان کی زبردست پکڑ کا سبب بن جائے گا۔ اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اخلاقی معاملات میں کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ انسان جو بات اپنے لیے پسند نہیں کرتا جب اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرنا شروع کردے تو وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اللہ کے حضور ایک مسلمان کے طور پر پیش ہوسکے۔ الزام و بہتان کوئی اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔ لیکن جب دوسرے کے لیے اسے اختیار کرتا ہے تو اللہ کے غضب کو بھڑکادیتا ہے۔

 جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعثِآزار نہیں، باعثِرحمت بن کر رہیے۔ اگلی ملاقات تک، اللہ نگہبان۔

No comments:

Post a Comment