visitors

free counters

Thursday 2 June 2011

توہین رسالت کی سزا

توہین رسالت کی سزا




''محاربہ اور فساد فی الارض'' کے زیر عنوان ہم نے واضح کیا ہے کہ محاربہ کو ریاست کے خلاف جرم کی کسی مخصوص صورت میں منحصر کر دینا درست نہیں اور اقتدار اعلیٰ کے خلاف بغاوت، سرکشی اور اس کے اختیار کو چیلنج کرنے کی ہر صورت اس کے دائرہ اطلاق میں شامل ہے۔ ہم نے وہاں یہ بھی واضح کیا ہے کہ :

''ہماری راے میں اسلام یا پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کا جرم اور اس پر سزا کا معاملہ بھی اپنی قانونی اساس کے لحاظ سے آیت 'محاربہ' ہی پر مبنی ہے، اس لیے کہ ایک اسلامی معاشرے میں، جو ایمان واعتقاد اور قانونی وسیاسی سطح پر اطاعت وسرافگندگی کے آخری مرجع خدا اور اس کے رسول کو مانتا اور اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کو رسول اللہ ہی کی لائی ہوئی ہدایت کا مرہون منت سمجھتا ہے، خدا کے رسول کی توہین وتحقیر بھی 'محاربہ' اور 'فساد فی الارض' کی ایک صورت ہے اور اگر کوئی شخص دانستہ ایسا کرتا اور اس پر مصر رہتا ہے تو وہ نہ صرف اس کے باشندوں کے مذہبی جذبات واحساسات کو مجروح کرتا ہے، بلکہ ریاست کے مذہبی تشخص کو بھی چیلنج کرتا اور اسے پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ یہ جرم انھی سزاؤں کا مستوجب قرار پانا چاہیے جو آیت محاربہ میں بیان ہوئی ہیں۔ ''

یہاں ہم اپنے اس نقطہ نظر کی تفصیل کرنے کے علاوہ اس مسئلے کے بعض دیگر اہم پہلووں کی بھی وضاحت کریں گے۔

١۔ جمہور فقہا نے توہین رسالت پرسزاے موت کو 'عقد ذمہ' کی خلاف ورزی سے متعلق قرار دیا ہے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ اہل ذمہ کے ساتھ جزیہ کی ادائیگی کی شرط کے ساتھ اسلامی ریاست میں رہنے کا معاہدہ اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ذلیل اور پست ہو کر رہیں گے اور اس میں یہ بات ازخود شامل ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہب اور مذہبی شخصیات اور شعائر کا احترام ملحوظ رکھیں گے۔ چنانچہ اگر کوئی ذمی شتم رسول کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس معاہدے کو جس کی وجہ سے اس کی جان کو تحفظ حاصل تھا، توڑ دیتا ہے اور نتیجتاً مباح الدم قرار پاتا ہے، اس وجہ سے اسے قتل کر دیا جائے گا۔ ١ ہماری راے میں فقہا کا شتم رسول کو نقض عہد کے ہم معنی قرار دینا درست ہے، ٢ تاہم اس پر سزا کے معاملے کو اصلاً عقد ذمہ کی خلاف ورزی کا نتیجہ قرار دینا اس وجہ سے محل نظر ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شتم رسول کے جن مجرموں کو موت کی سزا دی گئی، وہ سب کے سب یا تو 'معاہد' تھے یا مسلمانوں کے کھلم کھلا دشمن اور ان میں سے کوئی بھی فقہی اصطلاح کے مطابق 'ذمی' نہیں تھا۔ ٣

عہد رسالت میں اس نوعیت کے جن مجرموں کو سزا دی گئی، ان کے واقعات کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:

فتح مکہ کے موقع پر جن افراد کو کسی قسم کی کوئی رعایت دیے بغیر قتل کرنے کا حکم دیا گیا، ان میں ابن خطل بھی شامل تھا۔ اس شخص نے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اسے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے عامل بنا کر بھیجا، لیکن اس نے اپنے ساتھ جانے والے غلام کو راستے میں قتل کر دیا اور پھر مرتد ہو کر مشرکین کے ساتھ جا ملا۔ اس کے بعد اس کی دو لونڈیاں معمول کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو پر مشتمل اشعار گایا کرتی تھیں۔ ٤ اس طرح ابن خطل خود تو قتل اور بدعہدی کا مرتکب ہوا، جبکہ اس کی لونڈیوں نے اس کے حکم پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ایک عادت اورمعمول کے طور پر ہجویہ شاعری کا موضوع بنا لیا جو کئی گنا زیادہ سنگین نوعیت کا جرم تھا۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ابن خطل جان بچانے کے لیے کعبے کے غلاف کے ساتھ چمٹا ہوا ہے، لیکن آپ نے اسے امان نہیں دی اور فرمایا کہ اسے قتل کر دو۔ ٥ آپ نے اس کی دونوں لونڈیوں کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا، تاہم ان میں سے ایک کو تو قتل کر دیا گیا، جبکہ دوسری فرار ہو گئی اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امان دے دی۔ ٦ ہماری راے میں ابن خطل کی مغنیہ لونڈی کا قتل کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ابن خطل کے دامن پر قتل اور بدعہدی کا داغ نہ ہوتا اور وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور توہین ہی کا مرتکب ہوتا تو بھی اس کی سزا یہی ہوتی۔

عصماء بنت مروان ،بنو خطمہ کی ایک عورت تھی اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں نہایت توہین آمیز اشعار کہے تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب پر اسی کی قوم سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی عمیر بن عدی نے اسے قتل کر دیا۔ ٧
ابو عفک بنو عمرو بن عوف کا ایک یہودی بوڑھا تھا اور اپنے اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی کرتا اور آپ کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتا تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پرسالم بن عمیر نے اسے قتل کر دیا۔ ٨
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کی لونڈی، جو اس کے بچوں کی ماں بھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی اور آپ کی توہین کیا کرتی تھی اور اپنے مالک کے منع کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اس سے باز نہیں آتی تھی۔ ایک دن اسی بات پر اس نے اشتعال میں آ کر اسے قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے اس کو بلا کر پوچھ گچھ کی اور پھر اس کی وضاحت سننے کے بعد فرمایا کہ 'الا اشهدوا ان دمها هدر'٩ ،یعنی گواہ رہو کہ اس عورت کا خون رائگاں ہے۔
عمیر بن امیہ کی ہمشیرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں زبان درازی کیا کرتی تھی جس سے تنگ آکر انھوں نے ایک دن اسے قتل کر دیا اور جب مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہوا تو آپ نے اس کے خون کو ہدر قرار دے دیا۔ ١٠

ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تو آپ نے فرمایا کہ میرے دشمن سے کون نمٹے گا؟ اس پر زبیر آگے بڑھے، اسے للکارا اور پھر اسے قتل کر دیا۔ اسی طرح ایک عورت کے بارے میں آپ نے یہی بات فرمائی تو خالد بن ولید نے اس کو قتل کر دیا۔ ١١

حسن بصری کی ایک روایت کے مطابق ایک شخص کو رقم دی گئی تاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے۔ آپ کو وحی کے ذریعے سے اس کی اطلاع دی گئی تو آپ کے حکم پر اسے سولی چڑھا دیا گیا۔ ١٢

بعض افراد اسلام دشمنی میں اس پستی پر اتر آئے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میںسے خواتین تک کو بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔ چنانچہ ایسے افراد کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ مثال کے طور پر ہبار بن الاسود نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو، جب وہ مکہ سے مدینہ روانہ ہو رہی تھیں، اس طرح ڈرایا دھمکایا کہ خوف سے ان کا حمل ضائع ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جرم میں اس کے قتل کو مباح قرار دے دیا اور فرمایا کہ وہ جہاں ملے، اسے آگ میں جلا دیا جائے، لیکن پھر فرمایا کہ آگ کا عذاب اللہ ہی کے شایان شان ہے، اس لیے اگر وہ ملے تو ایک ایک کر کے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں، ١٣ تاہم بعد میں اس نے اسلام قبول کر لیا۔

اسی طرح حضرت عباس بن عبد المطلب سیدہ فاطمہ اور سیدہ ام کلثوم کو مکہ سے مدینہ لے جا رہے تھے تو حویرث بن نقیذ نے چوٹ لگا کر دونوں خواتین کو زمین پر گرا دیا۔ جب مکہ فتح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حویرث کو مباح الدم قرار دیا جس پر سیدنا علی نے اس کی گردن اڑا دی۔ ١٤

مذکورہ تمام مجرموں کو دی جانے والی سزا دراصل اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاربہ کی سزا تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات اس جرم کا ارتکاب کرنے والے بدیہی طور پر اس سزا کے زیادہ مستحق تھے۔ آپ اللہ کے پیغمبر تھے اور رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کے خاص قانون کے مطابق جزیرہ عرب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اعلان کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے کہ آپ اور آپ کے پیروکاروں کو، بہرحال غلبہ حاصل ہوگا ،جبکہ آپ کے مخالفین شکست اور رسوائی سے دوچار ہوں گے۔ چنانچہ آپ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جزیرہ عرب کے مشرکین اور اہل کتاب آپ پر ایمان لانے اور آپ کے اقتدار اعلیٰ کے سامنے سر اطاعت خم کرنے کے پابند تھے۔ اس تناظر میں جزیرہ عرب کے تمام گروہ اصولی طور پر آپ کے قانونی دائرہ اختیار کے اندر آتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ہر اس شخص یا گروہ کے خلاف اقدام کا حق حاصل تھا جو اسلام کے بارے میں محاربہ اورمعاندت کا رویہ اختیار کرے اور جسے سزا دینا آپ موقع ومحل اور حکمت کی رو سے مناسب سمجھیں۔ اسی اختیار کے تحت آپ نے ان افراد کے لیے موت کی سزا تجویزفرمائی جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کھلم کھلا دشمنی اور عناد پر مبنی طرز عمل اختیار کیا او ر اپنے قول وفعل سے آپ کی حیثیت رسالت کو چیلنج کرنے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ ١٥

چونکہ 'محاربہ' سے متعلق قرآن مجید میں بیان ہونے والا ضابطہ تعزیرات اسلامی شریعت کا ایک ابدی قانون ہے، اس لیے دنیا کی ہر اسلامی ریاست اسی قانون کے تحت اپنے دائرہ اختیار میں توہین رسالت کے مجرموں کو سزا دینے کا حق رکھتی، بلکہ اس کی پابند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسولوں کے ساتھ اعتقادی وجذباتی وابستگی اور ان کی حرمت وناموس کی حفاظت محض ایک مسلمان کے انفرادی ایمان واعتقاد کا مسئلہ نہیں، بلکہ نظم اجتماعی کی سطح پر مسلمانوں کے معاشرے کی بھی ذمہ داری ہے اور جو چیزیں اسلامی ریاست کو ایک مخصوص نظریاتی تشخص اور امتیاز عطا کرتی ہیں، ان میں اسلامی حدود وشعائر کا تحفظ اور ان کی بے حرمتی کا سدباب بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ نے بھی اپنے دور میں اس سزا کو برقرار رکھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بعض خواتین نے خوشی کے اظہار کے لیے دف بجاے تو سیدنا ابوبکر نے ان کے ہاتھ کٹوا دیے۔ ١٦ سیدنا عمر کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی نبی کو برا بھلا کہنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ جو معاہد عناد سے کام لیتے ہوئے علانیہ اللہ یا اس کے رسول کے بارے میں گستاخانہ کلمات کہے، وہ نقض عہد کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے اسے قتل کر دیا جائے۔ ١٧ کعب بن علقمہ روایت کرتے ہیں کہ عرفہ بن حارث کندی رضی اللہ عنہ کے پاس سے ایک نصرانی گزرا۔ انھوں نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر دی۔ عرفہ نے زور سے مکا مار کر اس کی ناک توڑ دی۔ معاملہ حضرت عمرو بن العاص کے سامنے پیش کیا گیا تو عمرو نے کہا کہ ہم نے تو ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے۔ عرفہ نے کہا: اس بات سے اللہ کی پناہ کہ ہم نے ان کے ساتھ کھلم کھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اجازت دینے پر معاہدہ کیا ہو۔ ١٨

معاصر علمی اور سیاسی بحثوں میں اس مسئلے نے ایک خاص تناظر میں خصوصی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ کلاسیکی فقہی ذخیرے میں یہ مسئلہ اصلاً اس صورت کے حوالے سے زیر بحث آیا ہے جب اسلامی ریاست میں مقیم کسی غیر مسلم نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کیا ہو ۔ اگر مسلم ریاست کے دائرہ اختیار سے باہر کسی فرد نے ایسا کیا ہو تو کلاسیکی اسلامی قانون اس صورت سے تصریحاً کوئی تعرض نہیں کرتا اور چونکہ فقہی دور میں رائج قانون بین الاقوام کے تصور کے تحت کسی محارب قوم کے قانونی دائرہ اختیار میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات سے زیادہ سروکار نہیں رکھا جاتا تھا، اس لیے اس سے کوئی عملی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا تھا، تاہم دنیا کے سیاسی وتہذیبی ارتقا اور قانون بین الاقوام میں پیدا ہونے والے تغیرات کے نتیجے میں اس صورت حال میں ایک جوہری تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب دنیا کی کم وبیش تمام اقوام ایک بین الاقوامی معاہدے کی فریق اور اس کی پاس داری کی پابند ہیں اور اس کے نتیجے میں اقوام عالم ایک دوسرے سے جذبات واحساسات کے باہمی احترام کی توقع بھی رکھتی ہیں اور اگر ان کو پامال کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے اثرات براہ راست قانون بین الاقوام اور عالمی سیاست کے پورے ڈھانچے پرمرتب ہوتے ہیں۔

اس صورت حال میں توہین رسالت کی سزا کی بحث نے، جو اس سے پہلے اسلامی قانون کی ایک داخلی بحث تھی، عالم اسلام اور مغرب کے مابین ایک نہایت حساس اور نازک نزاعی مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ مغرب میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے حوالے سے غلط فہمی یا دانستہ کردار کشی پر مبنی پروپیگنڈا مہم کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، البتہ اس میں یہ فرق رونما ہوا ہے کہ ماضی میں اس مہم کی قیادت ارباب کلیسا کرتے رہے ہیں، جبکہ اب اس محاذ پر وہاں کے سیکولر اور مذہب سے بیزار حلقے صف آرا ہیں۔ معاصر تناظر میں دو باتوں نے خاص طور پر معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے: ایک یہ کہ مغربی معاشرہ چونکہ ایک خاص فکری ارتقا کے نتیجے میں مذہبی معاملات کے حوالے سے حساسیت کھو چکا ہے، نیز وہاں ریاستی نظم اور معاشرے کے مابین حقوق اور اختیارات کی بھی ایک مخصوص تقسیم وجود میں آ چکی ہے، اس وجہ سے مغربی حکومتیں قانونی سطح پر ایسے واقعات کی روک تھام کی کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ مغرب انسانی حقوق اور آزادیِ راے کے اپنے مخصوص تصور کو بین الاقوامی سیاسی اور معاشی دباؤ کے تحت عالم اسلام پربھی مسلط کرنا چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین پر پابندی یا اس کو جرم قرار دیتے ہوئے اس پرتعزیری سزاؤں کو مسلم ممالک کے ضابطہ قوانین سے خارج کیا جائے۔

ممکن ہے اہل مغرب اپنے سیکولر زاویہ نگاہ کے تحت یہ مطالبہ کرنے میں اپنے آپ کو فی الواقع حق بجانب سمجھتے ہوں کہ کوئی ریاست قانونی دائرے میں مذہبی شعائر اور شخصیات کے ساتھ کسی وابستگی کا اظہار نہ کرے، لیکن ایک اسلامی ریاست کے لیے ایسے کسی مطالبے کو تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں جو نہ صرف ریاست کے مذہبی تشخص کو مجروح کرتا ہو، بلکہ جمہوری اصولوں اور عام انسانی اخلاقیات کی رو سے بھی غیر معقول اور ناقابل دفاع ہو۔ دنیا کا ہر قانونی نظام اپنے باشندوں کو نہ صرف جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، بلکہ ان کی عزت اور آبرو کا تحفظ بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے اور ہتک عزت اور ازالہ حیثیت عرفی وغیرہ سے متعلق تادیبی سزائیں اسی اصول پر مبنی ہوتی ہیں۔ اگر اس قانونی انتظام کی بنیاد کسی بھی فرد یا جماعت کی عزت نفس کا تحفظ اور ان کو توہین وتذلیل کے احساس سے بچانا ہے تو بدیہی طور پر اس کے دائرے میں صرف زندہ افراد کو نہیں، بلکہ ماضی کی ان شخصیات کو بھی شامل ہونا چاہیے جن کے حوالے سے کوئی بھی فرد یا گروہ اپنے دل میں عزت واحترام اور بالخصوص مذہبی تقدیس وتعظیم کے جذبات رکھتا ہے۔ جدید جمہوری اصولوں کی رو سے کسی بھی مملکت کے حدود میں بسنے والے ہر مذہبی گروہ کو اپنے عقیدہ و مذہب کے تحفظ کا حق اور اس کی ضمانت حاصل ہے۔ اس ضمن میں تعصب یا بعض قانونی مجبوریوں پر مبنی مغرب کے عملی رویے سے قطع نظر کر لیا جائے تو انسانی جان و مال اور آبرو کے ساتھ ساتھ مختلف مذہبی گروہوں کے مذہبی جذبات بھی لازمی طور پر ایک قابل احترام اور قابل تحفظ چیز قرار پاتے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ راسخ العقیدہ اہل مذہب اپنے مذہبی شعائر ، شخصیات اور جذبات کو جان ومال اور آبرو سے زیادہ محترم سمجھتے ہیں اور ان میں سے کسی بھی چیز کی توہین لازماً مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور نتیجتاً اشتعال انگیزی کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ انسانی ومذہبی حقوق کی اس خلاف ورزی کو 'جرم' قرار دے کر اس کے سدباب کے لیے سزا مقرر کرنا ہر لحاظ سے جمہوری اصولوں اور تصورات کے مطابق ہے، البتہ ہمارے نزدیک اس ضمن میں حسب ذیل امور ملحوظ رہنے چاہییں:

ایک یہ کہ اس جرم کو ہر حال میں سزاے موت کا مستوجب قرار دینے کے بجاے جرم کی نوعیت اور اس کی مختلف صورتوں کے لحاظ سے متبادل سزاؤں کا امکان بھی تسلیم کیا جانا چاہیے اور مختلف فقہی مکاتب فکر نے اس امکان کو تسلیم کیا ہے۔ امام موسیٰ کاظم روایت کرتے ہیں کہ مدینہ کے عامل زیاد بن عبید اللہ کے دور میں اس نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا اور اس نے مدینہ کے فقہا سے راے طلب کی تو ربیعۃ الراے اور بیش تر اہل علم کی راے یہ تھی کہ مجرم کی زبان کاٹ دی جائے یا کوئی اور تعزیری سزا دے دی جائے، تاہم امام جعفر صادق نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مابین فرق ہونا چاہیے۔ چنانچہ ان کی راے کے مطابق مجرم کو قتل کر دیا گیا۔ ١٩ فقہاے حنابلہ کے ہاں ایک قول یہ ہے کہ ایسے مجرم کی حیثیت قیدی کی ہے اور حاکم کو اس کو قتل کرنے، غلام بنا لینے، کسی مسلمان قیدی کے ساتھ اس کا تبادلہ کرنے یا کسی معاوضے کے بغیر رہا کر دینے کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو کسی بھی غیر مسلم قیدی کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ٢٠ اسی طرح فقہاے احناف کے نزدیک اس جرم کے مرتکب کو قتل کرنا لازم نہیں اور عام حالات میں کسی کم تر تعزیری سزا پر ہی اکتفا کی جائے گی، البتہ اگر کوئی غیر مسلم اس عمل کو ایک عادت اور معمول کے طور پر اختیار کر لے تو اسے موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ ٢١

ہمارے خیال میں فقہاے احناف کی یہ راے کہ توہین رسالت کے مجرم کو اسی صورت میں سزاے موت دی جائے گی جب وہ عادتاً اور معمولاً اس طرز عمل کو اختیار کر لے، اس پہلو سے خاصا وزن رکھتی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس جر م کو حق شرع قرار دے کر اس پر سزاے موت کو باقاعدہ اور لازمی طور پر مشروع نہیں کیا گیا۔ سورہ نساء (٤)کی آیت ٤٦ میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے یہود کی اس گستاخانہ روش کا ذکر کیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے وقت 'راعنا' (ہماری رعایت فرمایے) کے لفظ کو اس طرح بگاڑ کر ادا کرتے کہ وہ سب وشتم کا ایک کلمہ بن جاتا۔ اسی طرح وہ آپ کو مخاطب کرکے 'اِسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ' (سنو، تمھیں سنائی نہ دے) کے بددعائیہ کلمات بھی کہتے۔ قرآن مجید نے یہاں ان کی اس روش پر کوئی قانونی سزا تجویز نہیں کی اور عہد رسالت، عہد صحابہ اور اسلامی تاریخ میں بھی اس نوعیت کے واقعات پر صرف نظر اور تحمل و برداشت کا حکیمانہ رویہ اختیار کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ کسی وقتی جذباتی کیفیت کے تحت اتفاقی طور پر ارتکاب جرم کرنے والا کوئی شخص اگر اس پر اصرار کے بجاے معذرت کا رویہ اختیار کرے تو اس سے درگذر کرنا یا ہلکی سزا دینے پر اکتفا کرنا مناسب ہوگا، البتہ اگر توہین رسالت کا عمل سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے دیدہ ودانستہ کیا جائے یا وہ ایک معمول کی صورت اختیار کر لے تو جرم اپنی اس نوعیت اور صورت میں بدیہی طور پر 'فساد فی الارض' کے دائرے میں آ جاتا ہے اور ہماری راے میں اگر جرم کی نوعیت، سنگینی اور اثرات کا پھیلاؤ تقاضا کرے تو سادہ قتل سے بڑھ کر تصلیب اور تقتیل، یعنی سولی دینے یا عبرت ناک طریقے سے قتل کی سزا دینے کا اختیار بھی عدالت کو حاصل ہونا چاہیے۔

دوسرے یہ کہ توہین رسالت کی سزا کے نفاذ پر بھی وہ تمام قیود وشرائط لاگو ہوتے ہیں جن کا اطلاق دوسری شرعی سزاؤں پر ہوتا ہے اور جنھیں اسلام کے ضابطہ حدود وتعزیرات کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ کوئی شخص یا گروہ اپنی انفرادی حیثیت میں توہین رسالت کے مجرم کے لیے سزا کا اعلان کرنے یا اسے سزا دینے کا مجاز نہیں اور دوسرے تمام جرائم کی طرح یہاں بھی جرم کے اثبات اور مجرم کو سزا دینے کے لیے باقاعدہ عدالتی کارروائی ضروری ہوگی۔ اسی طرح کوئی مسلمان عدالت اسلامی ریاست کے قانونی دائرہ اختیار (Jurisdiction) سے باہر کسی مجرم کو سزا دینے کی مجاز نہیں۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اس سزا کے نفاذکے لیے دشمن کے علاقے میں کارروائی کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ ''قانون رسالت'' پر مبنی تھا جس کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرہ عرب میں آباد ہر اس گروہ کے خلاف کارروائی کا اختیار حاصل تھا جو آپ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھی کفر وانکار پر قائم رہا اور آپ کے مقابلے میں سرکشی اور عناد کی روش اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ نے اپنے دور میں اسلامی ریاست کے حدود سے باہر اس طرح کی کوئی کارروائی کرنے کی کوشش نہیں کی اور کلاسیکی فقہی ذخیرے میں بھی اس سزا کے نفاذ کو بین الاقوامی قانون (International Law) کے بجاے اسلامی ریاست کے داخلی قانون کی ایک شق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی مسلم ملک ایسے کسی مجرم پر سزا کا نفاذ چاہتا ہے تو ضروری ہوگا کہ متعلقہ غیر مسلم ملک سے مطالبہ کر کے مجرم کو اپنی تحویل میںلیا جائے اور پھر عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چلا کر اسے سزا دی جائے۔ ان حدود وقیود کو نظر انداز کرتے ہوئے اختیار کیا جانے والا کوئی بھی طرزعمل نہ صرف حکمت کے خلاف ہوگا، بلکہ اس سے متنوع قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں بھی جنم لیں گی۔

تیسرے یہ کہ جب مذہبی جذبات اور شخصیات وشعائر کی توہین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے تو اس جرم کے مرتکب کو مستوجب سزا قرار دینے کے حق کو صرف اہل اسلام کے لیے مخصوص قرار دینا مبنی بر انصاف نہیں ہوگا، بلکہ مذہبی جذبات کے احترام اور تحفظ کے اس حق سے ریاست کے دوسرے مذہبی گروہوں کو بھی بہرہ مند کرنا ضروری ہوگا اور بالخصوص اگر اہل اسلام کی طرف سے کسی دوسرے مذہب یا اس کی محترم شخصیات کی توہین وتحقیر کا رویہ سامنے آئے تو اس کا قانونی سدباب ہر لحاظ سے مذہبی اخلاقیات اور عدل وانصاف کا تقاضا ہوگا۔

یہاں خالص قانونی پہلو سے ہٹ کر اس معاملے کے دو دیگر اہم پہلووں کی طرف توجہ دلا نا بھی مناسب دکھائی دیتا ہے:

ایک یہ کہ دنیا کو اخلاقیات کا درس دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھر کا جائزہ لے کر بھی یہ دیکھیں کہ دوسرے مذہبی گروہوں کے جذبات کے احترام کے حوالے سے خود ہماری اخلاقی صورت حال کیا ہے۔ افسوس ہے کہ اس ضمن میں کوئی اچھی مثال دینے کے لیے بالعموم ہمیں اپنے ماضی ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ہماری تاریخ کے دور اول میں مذہبی اخلاقیات کی پاس داری کا یہ منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ فتح اسکندریہ کے موقع پر جب کسی مسلمان سپاہی کے پھینکے ہوئے تیر سے سیدنا مسیح علیہ السلام کے مجسمے کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تو اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت عمرو بن العاص نے 'قصاص' کے لیے اپنی آنکھ پیش کر دی، ٢٢ لیکن اب دور زوال میں ایک برادر اسلامی ملک کی حکومت نے خالص سیاسی محرکات کے تحت دنیا کے ایک بڑے مذہب کے بانی گوتم بدھ کے مجسمے تباہ کیے تو اسے بت شکنی کی روایت کا احیا قرار دے کر اس پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ خود ہمارے ہاں ایک مذہبی گروہ کے ''پیغمبر'' کے بارے میں تضحیک، تمسخر اور توہین پر مبنی جو لٹریچر شائع ہوتا اور مذہبی جلسوں میں جو زبان معمول کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، وہ ہماری اخلاقی سطح کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

دوسرے یہ کہ کسی مذہب کی توہین وتضحیک اور اس پر تنقید کے مابین فرق ہرحال میں ملحوظ رہنا چاہیے اور اسلام یا پیغمبر اسلام پر کی جانے والی کوئی تنقید اگر علمی یا استدلالی پہلو لیے ہوئے ہے تو اسے اسی زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی غیر مسلم قرآن کے چیلنج کے جواب میں اس کے مانند کوئی کلام پیش کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ قرآن کی توہین نہیں، بلکہ اس پر تنقید ہے اور اس پر احتجاج کرنا یا اسے توہین مذہب کے ہم معنی قرار دینا ایک بے معنی بات ہے۔ اپنے جیسا کلام پیش کرنے کا چیلنج خود قرآن نے جن وانس کو دے رکھا ہے اور اگر کوئی شخص اس چیلنج کے جواب میں کوئی کاوش کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اس نوعیت کی تنقیدات اور اعتراضات کا راستہ روکنا دوسرے لفظوںمیں یہ بات کہنے کے مترادف ہوگا کہ اسلام نہ علم و عقل اور استدلال پر مبنی ہے اور نہ مباحثہ ومجادلہ کے میدان میں تنقید اور اعتراض کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــ


١- ابن القیم، احکام اہل الذمہ ٣/١٣٧٨۔ ابن حزم، المحلیٰ ١٣/٢٤٠۔

مالکی اور شافعی فقہا کا ایک گروہ مسلمانوں کے مذہب اورمذہبی شخصیات وشعائر کے احترام کی اس اجمالی شرط کو کافی نہیں سمجھتا اور یہ تجویز کرتا ہے کہ عقد ذمہ میں یہ بات باقاعدہ ایک واضح شرط کے طور پر شامل ہونی چاہیے کہ کوئی ذمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ سب وشتم نہیں کرے گا، اور پھر اگر وہ ایسا کرے تو معاہدہ توڑنے کی پاداش میں اسے قتل کر دیا جائے۔ (ابن عبد البر، الکافی ١/٥٨٥) فقہاے شوافع کے ایک بڑے گروہ کے نزدیک اگر معاہدے میں یہ شرط شامل نہ کی گئی ہو تو پھر شتم رسول کے مرتکب ذمی کو قتل کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ (ابو اسحاق الشیرازی، المہذب ٣/٥٠٣) حنابلہ کے ہاں بھی شتم رسول کی صورت میں نقض عہد کے متحقق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں دو قول پائے جاتے ہیں۔ (ابو یعلیٰ، الاحکام السلطانیہ ١٥٨، ١٥٩)
٢- فقہا کے مابین اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے عقد ذمہ پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کفر ہی کی ایک شکل ہے جس پر قائم رہنے کی اجازت عقد ذمہ کی صورت میں غیر مسلموں کو پہلے ہی دی جا چکی ہے، اس وجہ سے شتم رسول کے ارتکاب کو فی نفسہ نقض عہد کے ہم معنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (کاسانی، بدائع الصنائع ٧/١١٣) تاہم اس استدلال میں ایک لطیف خلط مبحث پایا جاتا ہے، اس لیے کہ کفر وشرک ایک اعتقادی مسئلہ ہے، جبکہ کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کرنا ایک اخلاقی جرم ہے اور غیرمسلموں کو پہلی بات کی تو آزادی حاصل ہے، لیکن دوسری کی نہیں، دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ چنانچہ خود فقہاے احناف غیر مسلموں کے کفر وشرک پر تو انھیں کوئی سزا دینے کے قائل نہیں، لیکن توہین رسالت کو ایک قابل تعزیر جرم قرار دیتے ہیں۔
٣- جمہور فقہا کا موقف دنیا کے سیاسی وقانونی نظام میں رونما ہونے والے تغیرات کے تناظر میں اپنے انطباق کے حوالے سے بھی تعبیر نو کا محتاج ہے، اس لیے کہ وہ شتم رسول کو نقض عہد کی علامت قرار دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مجرم کے حوالے سے اباحت دم کی وہ اصل قانونی حیثیت لوٹ آتی ہے جو عقد ذمہ سے پہلے موجود تھی، جبکہ جدید جمہوری تصورات کے تحت قائم ہونے والی اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کے اصلاً مباح الدم ہونے کا اصول تسلیم نہیں کیا گیا۔ چنانچہ شتم رسول کو اسلامی ریاست کے ساتھ غیر مسلموں کے معاہدے کو توڑنے کے ہم معنی قرار دیا جائے تو بھی قانونی طور پر ان کا مباح الدم ہونا لازم نہیں آتا۔
٤- ابن حجر، فتح الباری ٤/٦١۔
٥- بخاری، رقم ١٧١٥۔
٦- ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ٥/٧٠- ٧١۔
٧- ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ٦/٤٩- ٥٠۔
٨- ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ٦/٤٨۔ علی بن برہان الدین الحلبی، السیرۃ الحلبیہ ٣/١٤٦۔
٩- ابو داؤد، رقم ٤٣٦١۔
١٠- ابن ابی عاصم، الدیات ١/٧٣۔
١١- مصنف عبد الرزاق، رقم٩٧٠٤- ٩٧٠٥۔
١٢- مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ٣٥٧٦٦۔
١٣- ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ٣/٢٠٥۔ مصنف عبد الرزاق، رقم٩٤١٧۔
١٤- ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ٥/٧١- ٧٢۔
١٥- اس نکتے کو نہ سمجھنے کے باعث شبلی جیسے فاضل مصنف کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو گوئی اور توہین کے مجرموں کو سزاے موت دیے جانے کے واقعات کو درست تسلیم کرنے میں تردد لاحق ہوا ہے اور انھوں نے اسے ''ذاتی انتقام'' تصور کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کریمانہ کے منافی قرار دیا ہے۔ (سیرت النبی ١/٣١٣) ہم نے اس سزا کی جو اساس متعین کی ہے، اس سے واضح ہے کہ اس کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عام انسانی حیثیت سے نہیں،بلکہ آپ کے منصب رسالت سے ہے اور یہ سب لوگ درحقیقت آپ سے کوئی شخصی عداوت نہیں رکھتے تھے، بلکہ آپ کے لائے ہوئے دین کے دشمن تھے۔ چنانچہ اسے کسی طرح ذاتی انتقام قرار نہیں دیا جا سکتا۔
١٦- سرخسی، المبسوط ١٠/١١٠۔
١٧- ابن القیم، زاد المعاد ٥/٦٠۔
١٨- بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ١٨٤٩٠۔ طبرانی، المعجم الکبیر ١٨/٢٦١، رقم ٦٥٤۔
١٩- الطوسی، تہذیب الاحکام ٨٤- ٨٥۔
٢٠- ابن قدامہ، المغنی ١٠/٦٠٨- ٦٠٩۔
٢١- ابن عابدین، رسائل ابن عابدین ١/٣٥٤۔
٢٢- سید صباح الدین عبدالرحمن، اسلام میں مذہبی رواداری ١٠١-١٠٢۔
واقدی کی روایت کے مطابق اسی نوعیت کا ایک واقعہ شام میں پیش آیا جس میں ایک مسلمان کے ہاتھوں ہرقل شاہ روم کے مجسمے کی آنکھ نادانستہ ضائع ہو گئی جس پر مسلمانوں کے امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے بدلے کے طور پر اپنی آنکھ پھوڑنے کی پیش کش کر دی۔ (فتوح الشام ١/١١٦)
___________________________________________

No comments:

Post a Comment