visitors

free counters

Tuesday 14 June 2011

ملّاکو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت .....ثروت جمال اصمعی

جمعیت علمائے ہند کے رہنما مولانامحمود احمدمدنی نے اپنے بزرگوں کے موقف کو دہراتے ہوئے نظریہ پاکستان کو غلط اور تقسیم ہند کو قائد اعظم رحمة الله علیہ کی ضد کا نتیجہ قرار دے کر حقائق سے اپنے بے خبری ثابت کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔ برصغیر کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ انہیں اسلام کے اجتماعی نظام کے تحت بحیثیت جداگانہ قوم زندگی بسر کرنے کے مواقع حاصل ہونے چاہئیں، ان کے ایمان کا نتیجہ تھا۔ اقبال علیہ الرحمة نے ان کے اس جذبے کو یہ کہہ کر زبان عطا کی کہ :
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
انہوں نے بتایا کہ قرآن وسنت کی اجتماعی تعلیمات اور احکام کے نفاذ کے لیے مسلمانوں کا سیاسی طور پر آزاد اور خودمختار ہونا ضروری ہے ، محض چند ذاتی عبادات کی اجازت آزادی نہیں ہوتی:
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
خطبہ الٰہ آباد (1930 ء)میں انہوں نے اسلام کے اس تقاضے کی تکمیل کے لیے پورا خاکہ پیش کیا جبکہ اس کے لیے عملی جدوجہد قائد اعظم کی قیادت میں کل ہند مسلم لیگ نے کی۔ تاہم قائد اعظم سمیت اسلام کے اجتماعی نظام کے تحت مسلمانوں کو جینے کا حق دلوانے کی کوشش کرنے والے تمام مسلم رہنما اس کے لیے تیار تھے کہ متحدہ ہندوستان ہی میں مسلمانوں کو مکمل صوبائی خود مختاری کی ضمانت دے دی جائے جس کے تحت وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کرسکیں تو وہ علیحدہ ملک کے قیام کا مطالبہ ترک کردیں گے ۔ تحریک پاکستان کے عین دور شباب یعنی تقسیم سے محض چند ماہ پہلے بھی قائد اعظم اس کے لیے تیار تھے۔ اس حقیقت کی ایسی کھلی گواہیاں موجود ہیں جنہیں جھٹلانا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
ہندو ذہنیت کی تنگ نظری کے بجائے قائد اعظم کی ضد یا مسلم لیگ اور انگریزوں کی ملی بھگت کو تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کشت و خون کا سبب قرار دینے والوں کو، متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے علمبردار مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیف ”انڈیا وِنس فریڈم“ضرور پڑھنی چاہیے۔ مولانا آزاد نے دوٹوک الفاظ میں اس تاریخی حقیقت کی توثیق کی ہے کہ قیام پاکستان سے صرف ایک سال پہلے جولائی 1946 میں قائد اعظم ،کیبنٹ مشن پلان میں دی گئی صوبائی خود مختاری قبول کرکے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر تیار ہوگئے تھے لیکن جواہر لال نہرو نے دستور ساز اسمبلی میں عددی اکثریت کے بل پر من مانی کرنے کے عزائم کے اظہار پر مبنی اپنے ایک بیان سے برصغیر کو تقسیم کے نتیجے میں رونما ہونے والے المیوں سے بچانے کی اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ کتاب کے گیارھویں باب ” برٹش کیبنٹ مشن“ میں مولانا آزاد لکھتے ہیں : ”کیبنٹ مشن نے اپنی اسکیم 16مئی(1946ء) کو شائع کی ․․․ کیبنٹ مشن پلان کے تحت صرف تین امور لازمی طور پر مرکزی حکومت کے حوالے کیے جانے تھے یعنی دفاع، بیرونی معاملات اور رسل و رسائل․․․ اس طرح مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو تقریباً مکمل خودمختار ی حاصل ہورہی تھی ․․․ پہلے پہل مسٹر جناح اس اسکیم کے بالکل خلاف تھے۔مسلم لیگ ایک علیحدہ آزاد ریاست کے مطالبے میں اتنا آگے بڑھ چکی تھی کہ اس کے لیے واپس لوٹنا محال تھا۔ جبکہ مشن نے صاف لفظوں میں بتادیا تھا کہ وہ ملک کی تقسیم اور ایک الگ آزاد ریاست کی تشکیل کی کبھی سفارش نہیں کرسکتا ․․․ (پلان کے بارے میں) مسلم لیگ کونسل کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے تین روز تک اجلاس کرتی رہی۔ آخری دن مسٹر جناح نے اعتراف کیا کہ اقلیتی مسئلے کا جو حل کیبنٹ مشن پلان نے پیش کیا ہے اس سے بہتر کوئی حل نہیں ہوسکتا․․․ انہوں نے مسلم لیگ کونسل سے کہا جو کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، کیبنٹ مشن اس کی انتہائی شکل ہے۔چنانچہ انہوں نے مسلم لیگ کو اسے منظور کرنے کا مشورہ دیا اور کونسل نے اتفاق رائے سے اسے منظور کرلیا۔“ مولاناآزاد کے الفاظ میں”ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی طرف سے کیبنٹ مشن پلان کا قبول کرلیا جانا ایک شاندار واقعہ تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان کی آزادی کا مشکل مسئلہ ، تشدد اور تصادم کے بجائے مذاکرات اور مصالحت کے ذریعے طے کرلیا گیا ہے ․․․ہم نے خوشیاں منائیں مگر مایوسی کی کڑواہٹ ہماری راہ دیکھ رہی تھی۔“ اس کے بعد کتاب کے بارھویں باب ”تقسیم ہند کا پیش خیمہ“ میں مولانا آزاد بتاتے ہیں کہ تاریخ کے اس انتہائی اہم موڑ پر ان سے کانگریس کی صدارت سے الگ ہوجانے کی ”ہمالیائی غلطی “ سرزد ہوگئی اور دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اپنے جانشین کے طور پر انہوں نے جواہر لال نہرو کا نام تجویز کردیا۔ مولانا آزاد خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو کیبنٹ مشن پلان کامیابی سے روبعمل آجاتا اور نہرو کی غلطی سے جو نقصان ہوا برصغیر اس سے بچ جاتا۔مولانا کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کونسل نے تو کیبنٹ مشن پلان تسلیم کرلیا تھا مگر کانگریس کی ورکنگ کمیٹی میں اس کی منظوری کے باوجود اس کا اے آئی سی سی سے منظور کرانا بھی ضروری تھا۔
سات جولائی کو ہونے والی اس میٹنگ کے تذکرے میں مولانا لکھتے ہیں: ”اے آئی سی سی کی میٹنگ شروع ہوئی تو میں نے جواہر لال کو دعوت دی کتاب کے تیرھویں باب کا عنوان ”انٹرم حکومت“ ہے۔ اس میں بھی تنگ نظر ہندو ذہنیت کی کئی مثالیں ملتی ہیں جن کی بناء پر قائد اعظم کیبنٹ مشن پلان کے حوالے سے ہندو قیادت کے اصل عزائم کو بخوبی سمجھ گئے اور کانگریس کی بعد کی وضاحتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔ اس پر قائد اعظم سے اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے علمبردار نے تقسیم ہند کے دس سال بعد جو الفاظ لکھے ہیں انہیں، قائد اعظم کی ضد کو تقسیم ہند کا سبب قرار دینے والے ہر شخص کو اپنے دماغ کے دروازے کھول کر پڑھنا چاہیے۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں :’دس برس بعد پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے اب میں محسوس کرتا ہوں کہ مسٹر جناح نے جو کچھ کہا اس میں وزن تھا۔ کانگریس نے نہ تو دانش مندی کا ثبوت دیا ، نہ وہ حق بجانب تھی۔اگر وہ ہندوستان کے اتحاد کی حامی تھی تو اسے یہ پلان دورخی باتیں کیے بغیر منظور کرلینا چاہیے تھا۔کانگریس کے رویے ہی نے مسٹر جناح کو ہندوستان کی تقسیم کی راہ پر جانے کا موقع فراہم کیا۔“
مولانا آزاد کی اس گواہی کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم ہندو قیادت کی تنگ دلی کا نہیں بلکہ قائد اعظم کی ضد اور ہٹ دھرمی یا مسلم لیگ اور انگریز کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے تو اس کی دماغی صحت پرشبہ جائز ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ نہرو کے اس غیرضروری اور غیر محتاط بیان کی شکل میں الله تعالیٰ نے پاکستان کے بدترین مخالفوں ہی سے اس کے قیام کی راہ ہموار کرنے کا کام لے لیا اور عددی اکثریت کے بل پر وہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو ہندو اکثریت کا مستقل محکوم بنانے کے جو خواب دیکھ رہے تھے، وہ ادھورے رہ گئے۔ اور آج وقتی مسائل اور خامیوں کے باوجود الله کے فضل سے پاکستان کی شکل میں ایک ایسی مسلم ریاست موجود ہے جو ہر قسم کے وسائل اور صلاحیتوں سے مالا مال ہے ، جس کا آئین قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کی مکمل ضمانت دیتا ہے، جس کی عدلیہ پوری قوم کی تاریخ ساز جدوجہد کے نتیجے میں آزاد اور خودمختار ہے ، جس کا میڈیا قومی مفادات کی نگہبانی کا فرض نہایت جرأت مندی سے ادا کررہا ہے، جس کے عوام آج پہلے سے کہیں زیادہ باشعور ہیں اور اس امر کے آثار روشن ہیں کہ انشاء الله وہ ایسی دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو آگے لانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو ایک طرف تحریک پاکستان کے نظریاتی تقاضوں کی تکمیل کرے گی اور دوسری طرف اس ملک کو معاشی طور پر مستحکم اور خوش حال بنائے گی۔ ایسا پاکستان یقینا بھارت کے مسلمانوں کے لیے بھی بڑی تقویت کا باعث ہوگا۔ جہاں تک مولانا محمود مدنی کی اس خوش گمانی کا تعلق ہے کہ ”مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں بھارت سے بہتر کوئی جگہ نہیں“ تو اس خوش گمانی کو دور کرنے کے لیے موجودہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر اعداد وشمار کے ساتھ مرتب کی گئی2006ء میں منظر عام پر آنے والی سچر کمیٹی رپورٹ پر ایک سرسری نگاہ ڈال لینا کافی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 15 فی صد کے تناسب کے ساتھ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود مسلمان تعلیم، سرکاری ملازمتوں، کاروبار اور زندگی کے دوسرے تمام شعبوں میں ان اقلیتوں سے بھی کہیں پیچھے ہیں جن کا تناسب ڈیڑھ دو فی صد سے زیادہ نہیں اور اس کی وجہ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک ہے۔ جہاں تک اسلام کے نفاذ کے لیے الگ خطہ زمین کے انتخاب کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کا اس مقصد کی خاطر مکے سے مدینے جانا اس کی سب سے بڑی مثال ہے اور پاکستان اسی روشن مثال کی تقلید میں بنا ہے، ہندوستان کے اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان کا اسی لیے ساتھ دیا اور ان کی ایک تعداد نے بالعموم اسی بناء پر پاکستان ہجرت کی تھی، اس لیے مولانا کو سوچنا چاہیے کہ اس ہجرت کو غلط ٹھہرانا کیونکر درست ہوسکتا ہے۔
http://www.jang.net/URDU/details.asp?nid=453487رابطہ لنک



No comments:

Post a Comment