visitors

free counters

Saturday 11 June 2011

تقسیم ہند اور محمد علی جناح

تقسیم اور کشمیر کا مسئلہ � ڈاکٹر عبدالقدیرخان


تقسیم اور کشمیر کا مسئلہ,,,,سحر ہونے تک � ڈاکٹر عبدالقدیرخان



اپنے پچھلے ایک کالم میں زیرِبحث موضوع کو جاری رکھتے ہوئے میں اس کالم میں ایک ایسے واقعے کا تذکرہ کروں گا جو پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہوااور ہم آج بھی اُس فیصلے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
میں ہندوستان کے آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن اور قائداعظم کی آخری ملاقات اور اس کے نہایت سنگین اوردُوررَس نتائج کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ تقسیم ہند کا اصول طے ہو چکا تھا اور صرف طریقہ کار طے ہو رہا تھا۔ ہندوستانی لیڈورں نے وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کو مطلع کر دیا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وقتی عبوری دور میں وہی گورنر جنرل کے عہدہ کے فرائض انجام دیں ۔ ہندوستانی لیڈروں کی یہ نہایت عقلمندانہ اور دور رس پالیسی تھی۔ جب قائد اعظم اور وائسرائے کی ملاقات ہوئی اور ماؤنٹ بیٹن نے رسماً دریافت کیا کہ کیا قائداعظم نے پاکستان کے گورنر جنرل کے بارے میں کچھ سوچا ہے تو قائد اعظم نے جواب دیا کہ ہاں انہوں نے خود گورنر جنرل بننے کا فیصلہ کیا ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ وائسرائے کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس کو یہ بات ناگوار گزری مگر وہ خاموش رہا۔ ملاقات کے بعد باہر فیلڈ مارشل لارڈ اِسمے چیف آف اسٹاف برائے وائسرائے نے قائداعظم سے ملاقات کی ۔ وہ قائد اعظم کی بے حد عزت کرتا تھااور ان کے اخلاق، راست گوئی اور عقل و فہم سے بے حد متاثر تھااس نے قائد اعظم سے کہا�مسٹر جناح آپ کو احساس نہیں کہ آج آپ نے اپنے اس عمل سے اپنے پاکستان کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے�۔ لارڈ ریڈکلف جو باؤنڈری کمیشن کا سربراہ تھا اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا ذمہ دار تھا اس نے یہ کام مکمل کر کے نقشوں کی کاپیاں وائسرائے ماؤنٹ بیٹن ، گورنر پنجاب سر ایوان جینکنس اور گورنر بنگال کو روانہ کر دی تھیں۔ اس رپورٹ کے حساب سے مشرقی پنجاب میں گرداسپوراور ملحقہ علاقہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی پاکستان کو دیا گیا تھا، قائداعظم سے ملاقات کے بعد وائسرائے نے ریڈکلف کو بلا بھیجا اور حکم دیا کہ وہ گرداسپوراور ملحقہ علاقہ ہندوستان میں شامل کر دے اس کے دور رس نتائج نکلنا تھے اور وہ اس سے پوری طرح آگاہ تھا کہ صرف گرداسپور اور ملحقہ علاقہ کے راستہ سے ہی کشمیر کا رابطہ تھا۔ نتیجہ میں لاکھوں مسلمان سکھوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ، ہزاروں مسلمان لڑکیاں سکھوں نے اغواء کر کے اپنی بیویاں بنا لیں ، تمام جنگی ہتھیار اور مالی اثاثے ہندوستان نے اپنے قبضے میں کر لئے اور وائسرائے نے ہندوستان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا ، سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مہاراجہ کشمیر جو کہ بہت پریشان تھا اور شش وپنج میں تھا اس کو سنہری موقع مل گیا اور اس نے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ جب قبائلی لوگوں نے کشمیر میں فوج کشی کی تو ہندوستانی فوج کشمیر میں اتر گئی اور ان کو پسپا کر دیا۔ وائسرائے کے غدّارانہ عمل اور ریڈ کلف کی کمزوری اور بزدلی اور غیر اخلاقانہ عمل سے کشمیر ہندوستان کو مل گیا ۔ پاکستانی قوم آج بھی اس عمل سے سخت نالاں اور برہم ہے۔ بعض تنقید نگاروں کا یہ خیال ہے کہ شاید ان مسائل سے اس طرح نجات حاصل کی جا سکتی تھی کہ ہندوستان یعنی (گاندھی اور نہرو) کی طرح پاکستان بھی ماؤنٹ بیٹن کو عارضی طور پر اس عبوری دور میں پاکستان کاگورنر جنرل قبول کر لیتا یعنی وہ چند ماہ کے لئے مشترکہ گورنر جنرل رہتا اور قائد اعظم بھی گاندھی کی طرح ایک بزرگ سیاستدان کی طرح تمام انتظامات کی نگرانی کرتے اور رہنمائی فرماتے تو شاید ہم بعد میں پیش آنے والی مشکلات یعنی تنازع کشمیر ، وہاں ہزاروں بیگناہ لوگوں کی قتل و غارت گری ، مشرقی پنجاب میں لاکھوں مسلمانوں کا سکھوں کے ہاتھوں قتل ہونا ، تین نقصان دہ جنگیں ، تقسیم کے نتیجہ میں ملنے والے قیمتی اثاثوں سے محرومی کا شکار نہ ہوتے ۔ لیکن دیکھئے انسان واقعات کے ہو جانے کے بعد سمجھداری کی باتیں کرنے لگتا ہے یعنی۔
مشتے کے بعد از جنگ یاد آید
بَر کلّہء خود یایَد زَد
۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے اور اس کے فرما دیا ہے کہ� وَ یمکرون وَ یمکُرُ اللہ ، واللہ خیر الماکرین� (سورة الانفال آیت ۳۰)�یعنی وہ بھی تدبیریں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیریں کرتا ہے اور سب سے بہتر تدبیریں کرنے والا صرف اللہ ہی ہے � یعنی ہمارے سوچنے اور تدبیریں بنانے سے کچھ حاصل نہ ہوتا ۔ ہمیں ایک اور بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ قائد اعظم تپ دق کے مہلک مرض میں مبتلا تھے اور ان کے معالج نے انہیں خبردار کر دیا تھا کہ ان کی زندگی کا بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر ہی وہ فیصلہ کیا ہو گا اگر ماؤنٹ بیٹن مشترکہ گورنر جنرل ہوتا اور اس دوران قائد اعظم وفات پا جاتے تو خد ا جانے حالات کیا رخ اختیار کرتے اور پاکستان کے مستقبل کا کیا ہوتا؟ ہمیں نہایت شرمندگی سے یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ برصغیر کی سرزمین مسلمان غدار پیدا کرنے کے لئے انتہائی زرخیز ہے ، ہماری پوری تاریخ ایسے غداروں کے کرتوتوں سے بھری پڑی ہے اس کو خام خیالی سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ماؤنٹ بیٹن کی گورنر شپ کے دوران قائد اعظم رحلت فرما جاتے تو کیا کیا سازشیں جنم نہ لیتیں اور پاکستان کا قیام خطرے میں نہ پڑ جاتا ۔ اگر چند مسلمان لیڈروں کو ہندوستانی حکومت لالچ دے کر مشتر کہ ہندوستان کی وزارت عظمیٰ اور دوسرے اہم عہدے دے کر پاکستان کے مطالبہ سے دستبردار کرا لیتی؟ مولانا ابوالکلام آزاد اور کئی دوسرے کانگریسی مسلمان لیڈراور مُلّا پاکستان کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ غیر منقسم ہندوستان میں نہ صرف پورا پنجاب ، سرحد، سندھ، اور بنگال میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی بلکہ آسام میں بھی سر سعد اللہ خان حکمران تھے اس کے علاوہ حیدرآباد، بھوپال، رام پور، ٹونک، جونا گڑھ، بہاولپور، مانا ودر، محمود آباد جیسی کئی ریاستیں مسلمان حکمرانوں کے زیر تحت تھیں۔ اس طرح مسلمان خاصی قوت کے حامل تھے مگر آپ ہندو لیڈروں اور ان کے ساتھی مسلمان کانگریسیوں کی عیاری ، ریشہ دوانیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ گویا
ہر چند داغ ایک ہی عیار ہے مگر
دشمن بھی تو چھٹے ہوئے سارے جہاں کے ہیں
اس تمام مسئلے میں ہم ایک نہایت اہم معاملے کو نظر انداز نہیں کر سکتے ، آپ کو علم ہے کہ نہرو ایک نہایت عیار، کیمبرج کا پڑھا لکھا پنڈت تھااس کو لوگوں کی خوشامد کرنے اور ان کا دل موہ لینے میں مہارت حاصل تھی ، ماؤنٹ بیٹن کے دہلی پہنچتے ہی اس نے بیگم ماؤنٹ بیٹن سے قریبی تعلقات قائم کر لئے ، اس کو سیر کرانے کے لئے خوبصورت جگہوں پر لے جاتا ، خو د ماؤنٹ بیٹن کی بیٹی نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے، ایک تو ان تعلقات کا فائدہ اٹھا کر اور دوسرے ایک کشمیری پنڈت کی نسل سے تعلق کی بنا پر نہرو کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ بد قسمتی سے ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف نے گندہ رول ادا کیا اور ہم آج تک اس بد معاشی اور بد نیتی کا شکار ہیں۔
میں نے کئی بزرگ سیاستدانوں سے سنا ہے کہ سرداروُلبّھ بھائی پٹیل جو کہ نائب وزیر اعظم و وزیر داخلہ تھا اس نے کشمیر و حیدر آباد کے تنازع کو حل کرنے کے لئے پاکستان کو پیش کش کی تھی کہ پاکستان حیدرآباد سے دستبردار ہو جائے اور ہندوستان کشمیر سے دستبردار ہو جائے گا۔ اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے سنا ہے کہ یہ تجویز رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر تو ہمارا ہی ہے ، ہم حیدرآباد سے کیوں دستبردار ہوں۔ واللہ عالم باِلصوّاب۔ بہر حال یہ اُن چند واقعات میں سے ایک ایسا واقعہ ہے ۔
آپ کو چینی غیور قوم کا ایک تاریخی واقعہ بتلاتا ہوں ، جب منگولوں نے چین پرحملہ کیا اور دارالحکومت سیان (Xian) پر چڑھائی کی تو وہاں بہت سخت جنگ ہوئی ایک غیر مسلم جنرل نے غداری کی اور منگولوں کا ساتھ دیا جبکہ ایک مسلم جنرل نے نہایت ہی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرکے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے جان قربان کر دی۔ سیان کے ایک پارک میں آپ جب داخل ہوں تو پتھر کے دو بڑے مجسمے نصب ہیں ایک اس غدار کا اور دوسرا اس محب وطن کا۔ جب عوام اس پارک میں داخل ہوتے ہیں تو غدار کے مجسمے پر تھوکتے ہیں اور محب وطن کے مجسمے پر پھول پھینکتے ہیں۔ یہ سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔ یہ ہے زندہ اور غیور قوم کے کردار کی نشانی ۔ ہمارے ملک میں غدار پھلتے پھولتے ہیں اور سینہ تانے دندناتے پھرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ذلت و بربادی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم تو ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف کو بھی بھول گئے ہیں اور کہیں ان کے مجسمے نہیں لگائے ہیں کہ ہم بھی چینی بھائیوں کی طرح دل کی بھڑاس نکال لیتے۔
آپ کو اس مشہور اور خوبصورت شہر سیان کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔ یہ ماضی میں چین کا دارالحکومت تھا اور یہیں سے شاہراہ ریشم شروع ہوتی تھی۔ اس کی سڑکوں کے دونوں جانب نہایت بڑے اور گھنے چنار کے درخت لگے ہوئے ہیں ، لاتعداد باغات ہیں۔ یہاں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران مٹی کے پورے قد و قامت کے ہزاروں سپاہیوں کے مجسمے ملے ہیں جو ایسا لگتا ہے کہ جنگ کی تیاری کے لئے کھڑے ہیں ان کوٹیرا کوٹا کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں تقریباً ہزار سال پرانی عالیشان نہایت بڑی مسجد ہے جب ہم لوگ وہاں گئے تو امام حاجی محمد یونس نے ہمارا استقبال کیا اور ہماری بہت خاطر مدارت کی، اس وقت مسجد میں مرمت و بحالی کا کام ہو رہا تھا۔ میں نے امام یونس سے دریافت کیا کہ مسجد میں قالین وغیرہ کا بندوبست ہو گیا ہے یا نہیں ۔ انہوں نے بتلایا کہ ابھی تو نہیں ہوا ہم مقامی حکومت سے درخواست کریں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ قالین(کارپٹ) ہم آپ کو پاکستان کی طرف سے تحفے میں دیں گے۔ ہم نے وہاں نماز ادا کی اور واپس آگئے ۔ پاکستان آ کر میں نے ضیاء الحق کو اس بارے میں بتلایا اور کہا کہ وہاں ملاقاتیوں کی کتاب میں ، میں نے اُن کے ،غلا م اسحاق خان صاحب کے، آغا شاہی صاحب کے اور صاحبزادہ یعقوب خان کے تاثرات پڑھے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے فوراً خوش ہوکر ہلکے سبز رنگ (Moss Green) والی مکمل جانمازیں بذریعہ C-130روانہ کردیں ۔ یہ کام فوراً کر دیا گیا اور جب ہم چند ماہ بعد دوبارہ سیان گئے تو مسجد قابل دید تھی۔ قالین بے حد خوبصورت لگ رہے تھے، ہم نے وہاں نماز ادا کی ۔ امام محمد یونس نے پاکستان کا اور ہمارا بہت بہت شکریہ ادا کیا ۔ سیان میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے اور یہاں کے کھانے بے حد لذیذ ہوتے ہیں۔
http://www.millat.com/news.php?id=8957رابطہ لنک

No comments:

Post a Comment