visitors

free counters

Saturday 11 June 2011

تقسیم ہند اور نہرو


تقسیم ہند اور نہرو
صحیح تناظر میں

از آصف جیلانی (لندن)
جسارت



ہندوستان کی انتہا پسند ہندو قوم پرست جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب – جناح - انڈیا - پارٹیشن -انڈیپنڈینس- میں قاید اعظم محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا حامی سیکولر قوم پرست قرار دینے اور تقسیم ہند کا اصل ذمہ دار نہرو کو ٹہرانے پر بھارتیا جنتا پارٹی کی قیادت نے جسونت سنگھ کو اپنے موقف کی وضاحت کا موقع دئے بغیر پارٹی سے نکال دینے کا جو جنونی فیصلہ کیا ہے اس کے پس پشت اصل مقصد حالیہ عام انتخاب میں پارٹی کی خفت آمیز شکست کے بعد اندرونی خلفشار اور قیادت کے خلاف شورش پر بند باندھنے کی کوشش ہے

لیکن یہ فیصلہ اس لحاظ سے بہت سے لوگوں کے نزدیک قابل فہم ہے کیونکہ پچھلی چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ جس کی کوکھ سے جن سنگھ نے جنم لیا اور جو اب بھارتیا جنتا پارٹی کے نام سے سرگرم ہے محمد علی جناح کف بھارت ماتا کا سر قلم کرنے اور کس کے دونوں ہاتھ کاٹنے کا مجرم ٹہراتی آئی ہے اور انہیں ایک بڑا راکشش قرار دیتی آئی ہے- بھارتیا جنتا پارلای کی قیادت یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ انہی میں سے ایک ممتاز رکن جسونت سنگھ جو بھارتیا جنتا پارٹی کی سرکار میں وزیر خارجہ کے علاوہ وزیر خزانہ اور وزیر دفاع کے اہم عہدوں پر فایز رہے محمد علی جناح کی اس قدر تعریف و توصیف کریں گے اور جواہر لعل نہرو کے ساتھ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیں گے- یہ ستم ظریفی ہے کہ سردار پٹیل جنہوں نے گاندھی کے قتل کے بعد راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کو ممنوع قرار دیا تھا اب سنگھ پریوار اپنا مہان گرو مانتی ہے-

حکمران کانگریس پارٹی بھی جسونت سنگھ سے سخت برہم ہے اور ان پر لعن طعن کر رہی ہے کہ انہوں نے تقسیم ہند کا تمام تر ذمہ دار جواہر لعل نہرو کو قرار دیا ہے – ہندوستان میں بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ کہن 75; ہے کہ جسونت سنگھ نے کسی نئی بات کا انکشاف نہیں کیا ہے بلکہ تاریخ کے ان حقایق کو اجاگر کیا ہے جن پر ابھی تک جذبات سے بالاتر رہ کر بحث نہیں ہو سکی ہے- یوں انہوں نے اپنی توجیع کے نشرتر سے ان پرانے زخموں کو کریدا ہے جو ابھی مندمل نہیں ہوئے ہیں- جسونت سنگھ کی کتاب نے اس لحاظ سے بر صغیر کی تاریخ کے نے ہایت اہم دور کے واقعات اور ان کی ذمہ دار شخصیتوں کا صحیح تناظر میں جایزہ لینے کا موقع فراہم کیا ہے-

تاریخ کے آئینہ میں تقسیم ہند کا سب سے بڑا ذمہ دار چہرہ جواہر لعل نہرو کا نظر آتا ہے- برصغیر بلا شبہ تقسیم اور اس دوران دس لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت غارت گری اور بڑے پیمانہ پر انتقال آبادی کے عذاب سے نہ گذرتا اگر پنڈت نہرو 1946 میں کیبنٹ مشن کے اس پلان کی بیخ کنی نہ کرتے جس کے مطابق خود مختار علاقوں کی صورت میں بر صغیر ایک مرکز کے تحت متحد رہتا- برطانوی کابینہ کے وزیروں کے ایک وفد نے ہندوستان کی آزادی اور انتقال اقتدار کے لئے مسلم لیگ اور کانگریس کے رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد 16 مئی 1946 کو وہ منصوبہ پیش کیا تھا جو کیبنٹ مشن پلان کہلاتا ہے- اس کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ ہندوستان کو ایک متحدہ ڈومینین کی حیثیت سے آزادی دی جائے گی جس میں مسلم کاثریت والے صوبوں- بلوچستان سندھ پنجاب اور سرحد کا ایک گروپ ہوگا اور دوسرا مسلم اکثریت والے گروپ میں بنگال اور آسام شامل ہوں گے-

وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندو اکثریت والے صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ گروپ ہوگا- یہ تینوں گروپ خود مختار ہوں گے اور مرکز میں حکومت کو صرف امور خارجہ دفاع اور مواصلات کے اختیارات حاصل ہوں گے-

کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے یہ پلان منظور کر لیا تھا اور مسلم لیگ نے بھی اس پلان کی منظوری دے دی تھی کیونکہ اس پلان کے تحت مسلم اکثریت والے صوبوں کو مکمل خود مختاری حاصل ہوتی اور پنجاب اور بنگال تقسیم نہ ہوتے بلکہ ان دونوں مسلم اکثریت والے صوبوں کے گروپ متحد رہتے اور انہیں اس کا اختیار ہوتا کہ اگر وہ دس سال بعد مرکز سے علیحدہ ہونا چاہتے تو انہیں اس کی اجازت ہوتی-

10 جولائی 1946 کو بمبئی کی ایک پریس کانفرنس میں جواہر لعل نہرو نے اچانک قلابازی کھائی اور یہ اعلان کیا کہ کانگریس نے صرف دستور ساز اسمبلی میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے اور اس دستور سارز اسمبلی کو کیبنٹ مش پلان میں ردو �6;دل یا اسے مسترد کرنے کا اختیار ہوگا- دوسرے معنوں میں دستور ساز اسمبلی میں کانریس اپنی اکثریت کی بل پر اس پلان میں ردو بدل کرنے یا اسے مسترد کرنے کا حق رکھنا قاہتی تھی- نہرو کے اس اعلان کے بعد مسلم لیگ نے اس پلان کی منظوری واپس لے لی کیونکہ اسے کانگریس کی طرف سے پلان کی منظوری کے بعد یہ شرط منظور نہیں تھی- یوں نہرو نے ایک مرکز کے تحت خود مختار صوبوں کی صورت میں ہندوستان کے اتحاد کا امکان مسترد کردیا-

مارچ 1947 میں لارڈ ماونٹ بیٹن برطانوی حکومت کا یہ عزم لے کر وائسرائے کی حیثیت سے ہندوستان آئے تھے کہ جون 1948 تک برطانیہ ہندوستان کا اقتدار منتقل کر دے گا- انہوں نے سب سے پہلے کیبنٹ مشن پلان کی تجدید کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے کیونکہ مسلم لیگ اور کانگریس میں اعتماد کی چادر تار تار ہو چکی تھی خاص طور پر اس امر کے پیش نظر کہ کانگریس نے کیبنٹ مشن پلان منظور کرنے کے بعد شرائیط عائد کر کے اس سے نجات کی راہ تلاش کرنی شروع کردی تھی-

دی ٹرانسفر آف پاور 1942-1947 کی جلد نمبر دس کی دستاویز کے مطابق ہندوستان کو متحد رکھنے اور تقسیم کی راہ راہ سے بچنے کا ایک اور امکان اس وقت پیدا ہوا تھا جب اپریل 1947 میں برصغیر کے رہنماؤں سے انتقال اقتدار کے بارے میں لارڈ ماونٹ بیٹن کے جدا جدا مذاکرات کے دوران ایک ملاقات میں گاندھی جی نے یہ تجویز پیش کی کہ بر صغیر کو متحد رکھنے کے لئے قاید اعظم محمد علی جناح کو مرکز میں فی الفور عبوری حکومت تشکیل کرنے کی دعوت دی جائے اور اقتدار اسی حکومت کو منتقل کیا جائے- گاندھی جی نے اس بات پر زور دیا کہ جناح صاحب کو اپنی حکومت کی تشکیل میں مکمل اختیار دیا جائے- چاہے تو وہ خالص مسلم لیگ کی حکومت تشکیل دیں یا جواہر لعل نہرو اور کانگریس کے وزیروں کو شامل کر کے مخلوط حکومت بنائیں-

گاندھی جی نے یہ یقین دلایا تھا کہ وہ یہ ضمانت دیتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں کانگریس کی اکثریت اس حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کرے گی- تجویز میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر جناح صاحب حکومت بنانے سے انکار کریں تو پھر کانگریس کو عبوری حکومت بنانے کی دعوت دی جائے – مولانا آزاد نے وائسرائے سے ملاقات کے دوران اس تجویز کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ اس طرح ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری روکی جا سکے گی-

3 اپریل 1947 کو گاندھی جی نے لارڈ ماونٹ بیٹن سے اپنی تیسری ملاقات میں بتایا کہ انہوں نے اس تجویز کے بارے میں کانگریس کے جن رہنماؤں سے صلاح مشورہ کیا ہے ان سب نے اس کی حمایت کی ہے جن میں خان عبدالغفار بھی شامل ہیں- اس پر لارڈ ماونٹ بیٹن نے گاندھی جی سے کہا کہ وہ اس تجویز کے بارے میں نہرو اور سردار پٹیل سے بات کریں اور یہ معلوم کریں کہ آیا وہ اس تجویز پر راضی ہوں گے؟ 9 اپریل 1947 کو قاید اعظم سے ملاقات کے دوران لارڈ ماونٹ بیٹن نے اشارہ دیا کہ ہندوستان کے اتحاد کی خاطر عبوری حکومت کی قیادت جناح صاحب کو تفویض کی جا سک 578;ی ہے-

لارڈ ماونٹ بیٹن کی رویداد کے مطابق اس ملاقات میں قایداعظم نے اس تجویز کو مسترد نہیں کیا لیکن 11 اپریل 1947 کو گاندھی جی نے لارڈ ماونٹبیٹن کو ایک خط میں مطلع کیا کہ انہوں نے محمد علی جناح کو عبوری حکومت میں وزیر اعظم کا عہدہ دینے کے بارے میں اپنی تجویز پر نہرو اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کے چند اراکین سے بات کی لیکن افسوس کہ وہ نہرو کو اس تجویز پر راضی کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں-

کیبنٹ مشن پلان کے بعد یہ دوسرے موقع تھا کہ بر صغیر گاندھی جی کی اس تجویز کی بنیاد پر تقسیم سے بچ جاتا- لیکن اس کوشش میں ناکامی کی تمام تر ذمہ داری بھی نہرو پر عاید ہوتی ہے جو عبوری حکومت میں وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے اور اس عہدہ کی چاہت میں انہوں نے پورے بر صغیر کے اتحاد کو داؤ پر لگا دیا- اس آخری کوشش میں ناکامی کے بعد ملک کے تقسیم کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا- اس دور کے تاریخی شواہد کے آئنہ میں قاید اعظم محمد علی جناح اور مسلم لیگ کا رویہ نہایت لچک دار نظر آتار ہے اور اس کے بر عکس نہرو اور کانگریس کا طرز عمل نہایت جامد دکھائی دیتا ہے-

کیبنٹ مشن پلان کی بنیاد پر برصغیر میں انتقال اقتدار میں ناکامی کی صورت میں برطانوی حکومت اور لارڈ ماونٹ بیٹن نے اس متبادل پلان پر مذاکرات شروع کر دئے جس کی بنیاد پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر تھی جسے قاید اعظم نے ٹنکیٹڈ –کٹا پھٹا – پاکستان قراد دیا تھا- ٹرانسفر آف پاور کے دستاویزات کے مطابق 17 اپریل کو لارڈ ماونٹ بیٹن سے ملاقات میں مولانا ابوالکلام آزاد نے خبر دار کیا تھا کہ کیبنٹ مشن پلان کے تحت مکلم پاکستان ہی قابل عمل ہوگا-

انہوں نے صاف صاف کہا تھا کہ کٹا پھٹا پاکستان بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا اور اگر جناح صاحب نے یہ کٹا پھٹا پاکستان قبول کر لیا تو یہ اقدام خود کشی کے مترادف ہوگا- مولانا آزاد نے لارڈ ماونٹ بیٹن پر زور دیا کہ کیبنٹ مشن پلان کی بنیاد پر انتقال اقتدار کی کوشش کی جائے جس کے تحت دس سال بعد جناح صاحب کو ہندوستان سے علیحدگی کا اختیار ہوگا- لیکن اس وقت تک نہرو کے انکار کے بعد پانی سر سے گذر چکا تھا اور کیبنٹ مشن پلان کی تجدید کا کوئی امکان باقی نہیں رہا تھا۔

بحوالہ خبر
رابطہ لنک 
http://pak.net/تاریخ-پاکستان/تقسیم-ہند-اور-نہرو-39155/

No comments:

Post a Comment