visitors

free counters

Thursday, 30 June 2011

قانون توہین رسالت میں کمزوریاں؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین خالد مسعود کی خدمت میں


قانون توہین رسالت میں کمزوریاں
قانون توہین رسالت میں کمزوریاں؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی خدمت میں! (۳)

الحمد للہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
پاکستان میں نافذ قانون توہین رسالت سے اپنی ناراضی، ناپسندیدگی اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے جناب خالد مسعود صاحب فرماتے ہیں:
ہ:… ”قانون توہین رسالت میں کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں کو دور کیا جانا چاہئے، اسلامی قانون کے مطابق اگر کسی کے منہ سے توہین پر مبنی الفاظ نکل گئے ہیں تو اسے توبہ کا موقع ملنا چاہئے، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔“
(نوائے وقت کراچی ۷/ نومبر ۲۰۰۷ء) اس کے علاوہ سنڈے میگزین جنگ کراچی میں اس کی مزید تفصیلات بھی ہیں، ملاحظہ ہو:
”…قانون میں کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں کو دور بھی کرنا چاہئے، سب سے بڑی کمزوری تویہ ہے کہ مثلاً: ایک بندے کو پکڑلیا ہے، اسے عدالت لے کر جارہے ہیں تو اس پر تھانے کا بھی دباؤ ہے، عدالت کا بھی، قانونی معاملے کی قانونی تفتیش ہونی چاہئے، دوسرا یہ کہ خود اسلام اور فقہ میں ہے کہ اگر کسی سے اس طرح کے کفر میں یہ الفاظ منہ سے نکل گئے ہیں اور وہ بعد میں توبہ کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے اسے موقع دینا چاہئے، اس قانون میں اس طرح کا کوئی موقع نہیں ہے، اس قانون میں جو خرابی ہے وہ یہ کہ اس میں (Intention)بھی درج نہیں ہے، اگر آپ کے ہاتھ میں کوئی ایسی کتاب ہے، جو توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہے اور آپ کا کوئی مقصد نہیں ہے کہ میں اس کتاب کو اس لئے رکھ رہا ہوں، تب بھی آپ کو سزا ہوجائے گی۔“
(سنڈے میگزین ۲۸/اکتوبر ۲۰۰۷ء) روزنامہ جنگ کراچی اور نوائے وقت دونوں کے مندرجات میں کوئی تعارض نہیں، ہاں البتہ اختصار و تفصیل کا فرق ضرور ہے۔ تاہم نوائے وقت کے بیان سے منحرف ہونے کی گنجائش تھی، چنانچہ چیئرمین صاحب یہ فرماسکتے تھے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، لیکن سنڈے میگزین کے مندرجات سے کسی قسم کے انکار کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ وہ حرف بحرف انہیں کا ہے، اور زبان و بیان بھی انہیں کا ہے۔ ان ہر دو بیانات کا حاصل اور لب لباب یہ ہے کہ قانون توہین رسالت میں نقائص و سقم ہیں اور جس قانون میں نقص یا سقم ہو، وہ ناقابلِ نفاذ اور ناقابلِ عمل ہوتا ہے، اور جو قانون نفاذ اور عمل کے قابل نہ ہو، اس کو ختم ہونا چاہئے، نتیجہ یہ کہ قانون توہین رسالت کو ختم ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بدگمانی سے بچائے اور ہمیں کسی پر بدگمانی کا حق بھی نہیں، لیکن بہرحال یہ لب و لہجہ اور قانونِ توہین رسالت کے خلاف یہ انداز و بیان کسی لکھے پڑھے مسلمان یا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا نہیں لگتا، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عیسائیوں اور قادیانیوں کے کسی وکیل صفائی کا بیان ہے۔ اس لئے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ: ”زبان میری ہے بات اُن کی۔“ ”اسلامی نظریاتی کونسل“ کے نام کو دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلامی عقائد و نظریات کی تدوین، ترتیب، ترویج اور ان کی حفاظت و تحفظ کا محافظ ادارہ ہوگا ، اور اس کے ارکان علمی و تحقیقی لوگ ہوں گے اور اس کا سربراہ نہ جانے کتنا بڑا عالم، فاضل اور محقق ہوگا؟ یا کم از کم قرآن و سنت اور دین و شریعت کا ماہر اور اپنے دور کا بڑا عالم اور روشن دماغ محقق ضرور ہوگا۔ مگر اے کاش ! کہ چیئرمین کی حد تک صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو شایدمبالغہ نہ ہوگا: ”برعکس نہند نامِ زنگی کافور“ اس لئے کہ موصوف نے قانون توہین رسالت کی جن نام نہاد کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے، شاید وہ کسی کٹر اسلام دشمن اور پیغمبر اسلام کے بدترین مخالف و معاند عیسائی اور یہودی کو بھی نہ سوجھی ہوں گی اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اس میں یہ یہ کمزوریاں بھی ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ جناب خالد مسعود صاحب کے مجرم ذہن اور بے حمیت ضمیر کی اختراع ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ بلا ارادہ اور بھولے سے کہے اور لکھے گئے الفاظ اور قصداً کی گئی گستاخی میں کتنا فرق ہے؟ اس لئے کہ جس سے غلطی، لاعلمی یا بھول چوک کی بنا پر ایسے الفاظ سرزد ہوں یا قصداً اور جان بوجھ کروہ اس گستاخی کا ارتکاب کرے ،ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے، اور ہر ایک کی ظاہری، حالت، ہیئت، کیفیت اور انداز بتلاتا ہے کہ یہ مجرم ہے یا بے قصور؟ بلاشبہ غلط فہمی، نسیان اور بھول چوک کے مرتکب کے انداز و اطوار، بلکہ اس کے انگ انگ سے احساسِ ندامت ٹپکتا ہے، اسے پکڑ کر پولیس کے حوالہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ خود اپنے ضمیر کا مجرم ہوتا ہے، وہ اس سلسلہ کی سزا بھگتنے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ اگر بالفرض اسے اپنی اس غلطی کا احساس و ادراک نہ ہو اور کوئی بندئہ خدا اس کو اس کی غلطی ،کوتاہی اور گستاخی کی نشاندہی کرے تو وہ فوراً ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہو جاتاہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اور قصداً اس جرم و گستاخی کا ارتکاب کرتا ہوا پایا جائے اور اس کو گرفتار کرکے حوالہ قانون کیا جائے اور وہ جناب خالد مسعود کی طرح کہے کہ: میں نے قصداً ایسا نہیں کیا، بلکہ سہواً اور غلطی سے ایسا ہوگیا ہے، تو کیا کہا جائے کہ اس کا یہ قول و قرار معتبر ہوگا؟ خالد مسعود صاحب کے بقول اگر کسی شخص کے ارتکابِ جرم کے بعد محض اس کے انکار سے مجرم کو سزا سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو بتلایا جائے کہ دنیا میں کسی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے گا؟ اس کے علاوہ کیا جناب خالد مسعود صاحب اپنی طرح اسلامی قانون کے ماہرین اور عدالت عالیہ کے ججوں کو بھی جاہل و اجہل سمجھتے ہیں ؟کہ وہ اسلامی و شرعی قانون ”البینة علی المدعی والیمین علی من انکر“… مدعی پر گواہ پیش کرنا لازم ہے، اور… اگر وہ گواہ نہ لاسکے تو… مدعی علیہ پر قسم ہے… کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے؟؟ کیا اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر پیش کی جاسکتی ہے کہ ملزم کو شرعی تقاضے پورے کئے بغیر سزا دی گئی ہو؟؟ چلئے اگر بالفرض ا کسی نے ایسا کیا بھی ہو توبتلایا جائے کہ یہ اس شخص کا قصور ہوگا، یا اسلامی قانون کا؟ اسلام نے ممکنہ حد تک حدود اور سزاؤں کے اجراء میں احتیاط برتنے کی تلقین کی ہے، چنانچہ فرمایا گیا ہے: ”ادرؤا الحدود ماستطعتم“… جہاں تک ہوسکے حدود اور سزاؤں کو ساقط کرو۔ چنانچہ اگر کسی ملزم کا جرم شرعی اصولوں اور ضابطوں سے ثابت نہ ہوسکے تو ملزم کو اس جرم کی طے شدہ سزا نہیں دی جائے گی، تاہم اگر قاضی اور جج سمجھتا ہے کہ ملزم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے اور آثار و قرائن بھی اس کی تصدیق کرتے ہوں تومجرم کو تنبیہاًکچھ نہ کچھ سزا بطور تعزیر ضرور دی جائے گی، اور وہ تعزیر اس جرم کی طے شدہ سزا یعنی” حد“ سے زیادہ نہ ہوگی، جس کی حکمت یہ ہے کہ آئندہ کے لئے ایسے جرائم کا سدباب کیاجاسکے اور کوئی طالع آزما محض اس امکان پر کہ میرا جرم ثابت نہیں ہوسکے گا، آئندہ کسی کی جان، مال اور عزت و ناموس سے کھیلنے کی جرأت نہ کرسکے۔ چلئے اگر بالفرض خالد مسعود صاحب کے فلسفہ پر عمل کرلیا جائے تو کیا اس سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی نہ ہوگی؟؟ کیا ہم خالد مسعود صاحب سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو قانون کے شنکجے میں جکڑنے کے قائل نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو وضاحت فرمادیں کہ ان کو عدالت کے کٹہرے اور قانون کے دائرے میں لانے کی کیا صورت ہوگی؟ کیا وہ اپنی ذات، قائد اعظم محمد علی جناح، صدر پاکستان یا کسی سرکاری اعلیٰ عہدہ دار کی توہین و تخفیف کے مجرم کے بارہ میں بھی یہی جذبات و احساسات رکھتے ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو وہ قانون توہین رسالت، یعنی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص کرنے والے موذی پر اس قدر کیوں مہربان ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ چونکہ ان کے آقاؤں کا فرمان ہے کہ: قانون توہین رسالت ہمارے مہروں کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ہمارے مشن توہین ِ رسالت پر قدغن لگاتا ہے، لہٰذا اس کو ختم ہونا چاہئے، اس لئے موصوف بھی اس قانون کے خلاف سرگرم ہیں، پھر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس قانون کی تدوین، ترتیب، اجراء اور نفاذ کو پورے ۱۶ سال ہوچکے ہیں، اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد جناب خالد مسعود صاحب اور ان کے ہم نواؤں کو اب یہ خیال کیوں ستانے لگا کہ ”اس میں نقائص و کمزوریاں ہیں جنہیں دور کیا جانا چاہئے؟“ کیا کہا جائے کہ اس قانون کو وضع کرنے والے، اس کی منظوری دینے والے، اس کے اجراء کے احکامات جاری کرنے والے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فاضل ارکان سب کے سب جاہل، لاعلم، قرآن و سنت اور دین و شریعت سے ناآشنا تھے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو خالد مسعود صاحب کی ان حضرات کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے؟ اور ان کے اس ارشاد کی کیا قدروقیمت ہے؟ اگر اس طرح کی متفقہ قانون سازی کے بعد کسی قانون میں کیڑے نکالے جانے لگیں، تو بتلایا جائے کہ دنیا کا کوئی قانون خالد مسعود جیسے ”روشن دماغ“ لوگوں کی دست برد سے محفوظ رہے گا؟ پھر اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ اس قماش کے لوگوں کو آئندہ قرآن و سنت کے منصوص احکام و مسائل اور اصول و قوانین میں نقائص و کمزوریاں نہ نظر آئیں گی؟ بلاشبہ فکر مغرب اور چشم الحاد سے سوچنے اور دیکھنے والوں کو پورا اسلام اور اسلامی قوانین ظالمانہ نظر آتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا پورے قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسے تمام احکام و قوانین کی کمزوریاں تلاش کرکے دور کی جائیں گی؟کیا نعوذباللہ! ان کی بھی تطہیر کی جائے گی؟ یا چشم بددور !ان کی جگہ بھی نیا قابلِ عمل اور استاذِ مغرب کی فکرو نظر کا آئینہ دار نظام متعارف کرایا جائے گا؟ اے کاش! کہ خالد مسعود جیسے لوگوں کا قرآن و سنت پر ایمان ہوتا یا ان کو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور خصوصاً سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرہ بھر محبت و عقیدت ہوتی تو وہ ایسا لکھنا، کہنا اور سوچنا بھی گوارا نہ کرتے۔ بلاشبہ قرآن کریم اور احادیث رسول اللہ! میں ایسے موذیوں کے لئے کسی نرم گوشہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر افسوس! کہ خالد مسعود صاحب ہیں ،جو ان کے خارا شگاف جرائم پر بھی شفقت و نرمی کی تلقین فرماتے ہیں اور قانون توہین رسالت میں ترمیم و تخفیف کا مشورہ دیتے ہیں، ایسے موذی لوگوں کے بارہ میں قرآنِ کریم کیا کہتا ہے؟ ملاحظہ ہو:
الف:... ”ان الذین یؤذون اللّٰہ ورسولہ لعنہم اللّٰہ فی الدنیا والآخرة واعدلہم عذاباً مہینا۔“ (الاحزاب: ۵۷)
ترجمہ: …”بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کررکھا ہے۔“
ب:... ”ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا تقتیلاً ،سنة اللّٰہ فی الذین خلوا من قبل، ولن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلاً۔“ (الاحزاب:۶۱/۶۲)
ترجمہ:… ”وہ بھی ....ہر طرف سے....پھٹکارے ہوئے، جہاں ملیں گے پکڑ دھکڑ اور مار دھاڑ کی جائے گی، اللہ تعالیٰ نے ان ...مفسد...لوگوں میں بھی اپنا یہی دستور رکھا ہے، جو پہلے گزرے ہیں اور اب خدا کے دستور میں سے کسی شخص کی طرف سے ردوبدل نہ پاویں گے۔“
ج:… ”قل ابا للّٰہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستہزؤن، لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم۔“ (التوبہ:۶۵،۶۶)
ترجمہ:… ”آپ ان سے کہہ دیجئے! کہ کیا اللہ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ تم ہنسی...استہزا... کرتے ہو؟ تم اب...یہ بے ہودہ...عذر مت کرو، تم اپنے کو مومن کہہ کر کفر کرنے لگے۔ “ اللہ تعالیٰ تو ایسے موذیوں پر کسی قسم کی نرمی کی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی یہ فرماتے ہیں کہ اہانت رسول کے مجرم سے اس کی نیت پوچھی جائے، مگر خالد مسعود صاحب مشورہ دیتے ہیں کہ مجرم سے اس کی نیت پوچھی جائے کہ اس نے قصداً ایسا کیا ہے یا سہواً؟ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس کے علاوہ تمام فقہائے امت بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی اور توہین و تنقیص کا ارتکاب کریں، اگر وہ پہلے مسلمان تھے تو اب مرتد ہوگئے اور ان کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں ہے:
”وایما رجل مسلم سب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم او کذبہ او عابہ اوتنقصہ فقد کفر باللّٰہ وبانت منہ زوجتہ فان تاب والا قتل۔“ (کتاب الخراج،ص:۱۹۷،۱۹۸)
ترجمہ:… ”جس مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی یا آپ کی کسی بات کو جھٹلایا، یا آپ میں کوئی عیب نکالا یا آپ کی تنقیص کی، وہ کافر و مرتد ہوگیا اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا، پھر اگر وہ اپنے اس کفر سے توبہ ...کرکے اسلام و نکاح کی تجدید...کرے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“ اس کے علاوہ علامہ شامی نے ”تنبیہ الولاة والحکام“ میں علامہ تقی الدین سبکی کی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ سے اس پر پوری امت، تمام اہلِ علم اور فقہائے امت کا اجماع نقل کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
”قال الامام خاتمة المجتہدین تقی الدین ابو الحسن علی بن عبدالکافی السبکی رحمہ اللہ تعالیٰ فی کتابہ ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ قال القاضی عیاض اجمعت الامة علی قتل منتقصة من المسلمین وسابہ، قال ابوبکر ابن المنذر اجمع عوام اہل العلم علی ان من سب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیہ القتل وممن قال ذلک مالک بن انس واللیث واحمد واسحٰق وہو مذہب الشافعی، قال عیاض وبمثلہ قال ابو حنیفة واصحابہ والثوری واہل الکوفة والاوزاعی فی المسلم، وقال محمد بن سحنون اجمع العلماء علیٰ ان شاتم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم والمنتقص لہ کافر والوعید جار علیہ بعذاب اللّٰہ تعالیٰ، ومن شک فی کفرہ وعذابہ کفر وقال ابو سلیمان الخطابی لا اعلم احدا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ اذا کان مسلما۔“ (رسائل ابن عابدین، ج:۱۰، ص:۳۱۶)
ترجمہ:… ”امام خاتمہ المجتہدین تقی الدین ابی الحسن علی بن عبدالکافی السبکی اپنی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ میں لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ امت کا اجماع ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تنقیص کرے اور سب و شتم کرے وہ واجب القتل ہے، ابوبکر ابن المنذر فرماتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرے اس کا قتل واجب ہے، امام مالک بن انس، امام لیث، امام احمد اور امام اسحق  اسی کے قائل ہیں اور یہی مذہب ہے امام شافعی کا، قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس طرح کا قول امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب سے اور امام ثوری سے اور امام اوزاعی سے شاتم رسول کے بارے میں منقول ہے۔ امام محمد بن سحنون فرماتے ہیں کہ علماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے کفر پر اجماع کیا ہے،۱ ور ایسے شخص پر عذاب الٰہی کی وعید ہے اور جو شخص ایسے موذی کے کفرو عذاب میں شک و شبہ کرے وہ بھی کافر ہے، امام ابو سلیمان الخطابی فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا مسلمان معلوم نہیں ،جس نے ایسے شخص کے واجب القتل ہونے میں اختلاف کیا ہو۔“ علامہ ابن عابدین شامی اپنی مشہور زمانہ کتاب ”رسائل ابن عابدین“ میں اس سے بڑھ کر لکھتے ہیں:
”فنفس المومن لاتشتفی من ہذا الساب اللعین، الطاعن فی سید الاولین والآخرین الا بقتلہ وصلبہ بعد تعذیبہ وضربہ فان ذالک ہو الائق بحالہ الزاجر لامثالہ عن سیئی افعالہ۔“ (رسائل ابن عابدین، ج:۱، ص۳۴۷)
ترجمہ:… ”جو ملعون اور موذی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں گستاخی کرے اور سب و شتم کرے، اس کے بارے میں مسلمانوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک کہ اس خبیث کو سخت سزا کے بعد قتل نہ کیا جائے یا سولی پر نہ لٹکایا جائے، کیونکہ وہ اسی سزا کا مستحق ہے، اور یہ سزا دوسروں کے لئے عبرت ہے۔“ قرآن، حدیث، فقہ و فتاویٰ اور چودہ صدیوں کے اکابر کی تصریحات و تحقیقات سے ہٹ کر دیکھئے تو وہ اسمبلی جو قوم کی نمائندہ کہلاتی ہے، اس نے بھی یہی فیصلہ دیا ہے، چنانچہ خود تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵-سی مجریہ ایکٹ ۱۹۸۴ء میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے سزائے موت تجویز کی گئی ہے، ملاحظہ ہو: ”جو شخص الفاظ کے ذریعے خواہ زبان سے ادا کئے جائیں یا تحریر میں لائے گئے ہوں یا دکھلائی دینے والی تمثیل کے ذریعہ یا بلاواسطہ یا بوالواسطہ تہمت یا طعن یا چوٹ کے ذریعہ نبی کریم (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کی بے حرمتی کرتا ہے اس کو موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔“ چونکہ توہین رسالت جیسے بدترین جرم کی سزا میں عمر قید کے الفاظ، اس جرم کی شدت میں تخفیف اور اس موذی کے ساتھ نرمی کی نشاندہی کرتے تھے اور کسی عاشق رسول کے لئے یہ ناقابل برداشت تھا کہ کوئی بدبخت، آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص کے جرم کا ارتکاب کرے اور وہ چند سال کی سزا بھگت کر جیل سے باہر آجائے، اس لئے ہمارے قانون ساز اداروں کے ذمہ داروں کو بعداز وقت سہی ،بہرحال یہ خیال آگیا کہ اس قانون کی اصلاح ہونی چاہئے اور اس دفعہ سے ”عمر قید“ کے الفاظ حذف ہونے چاہئیں۔ چنانچہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ۲/جون ۱۹۹۲ء کو ایک متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ توہین رسالت کے مرتکب کو سزائے موت ہی دی جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی خبر کا متن ملاحظہ ہو: ”اسلام آباد (نمائندہ جنگ) قومی اسمبلی نے منگل کے دن متفقہ قرار داد منظور کی کہ توہین رسالت کے مرتکب کو پھانسی کی سزا دی جائے اور اس ضمن میں مجریہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵-ج میں ترمیم کی جائے اور عمر قید کے لفظ حذف کرکے صرف پھانسی کا لفظ رہنے دیا جائے۔ یہ قرارداد آزاد رکن سردار محمد یوسف نے پیش کی اور کہا کہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب شخص کو سزائے موت دی جائے جب کہ قانون میں عمر قید اور پھانسی کی سزا متعین کی گئی ہے۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر مولانا عبدالستار خان نیازی نے بتایا کہ وزیر اعظم کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں تمام مکتبہ فکر کے علماء نے شرکت کی تھی اس اجلاس میں طے پایا تھا کہ توہین رسالت کے مرتکب کو کم تر سزا نہیں دینی چاہئے اس کی سزا موت ہونی چاہئے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور چوہدری امیر حسن نے کہا کہ حکومت اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرتی حکومت اس ضمن میں پہلے بھی قانون سازی کی تیاری کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں ایک ترمیمی بل سینیٹ میں پیش ہوچکا ہے۔“ (روزنامہ جنگ کراچی ۳/جون ۱۹۹۲ء ) کیا ہم جناب خالد مسعود صاحب سے پوچھ سکتے ہیں کہ قرآن، حدیث، فقہ اور قانون توہین ِ رسالت کی مندرجہ بالا دفعات میں کہیں اس کا تذکرہ ہے کہ اگر کسی سے سہواً اس کا ارتکاب ہوجائے یا کسی نے توہین ِ رسالت پر مشتمل کسی کی کوئی کتاب یا کوئی مضمون اپنے ہاتھ میں اٹھا رکھا ہو تو اس کو بھی پکڑ کر توہین ِ رسالت کی سزا دی جائے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو پھر اس منطقی اور فطری قانون کے خلاف آواز اٹھانا یا اس میں کیڑے نکالنا ان کی بیمار ذہنیت کی علامت نہیں؟ جناب خالد مسعود صاحب آپ ان موذیوں کی ہمنوائی کرکے سوچئے آپ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالنا چاہتے ہیں؟اگر آپ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت پر ایمان ہے تو آپ کو آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں اور آپ کی توہین و تنقیص کرنے والوں کا نہیں، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے وکیل صفائی کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ و:… جناب خالد مسعود صاحب حدود آرڈی نینس سے متعلق اپنی ”ماہرانہ “رائے دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”حدود اللہ کا کوئی تصور قرآن مجید میں نہیں، یہ تصور فقہا حضرات کا ہے کہ: مخصوص سات جرائم کو حدود اللہ کہا جائے۔“
اس کے علاوہ سنڈے میگزین روزنامہ جنگ کراچی ۲۸/ اکتوبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”قرآن مجید میں حدود اللہ کا لفظ آیا ہے، لیکن ان سزاؤں کے لئے نہیں آیا، وہ طلاق، عدت،رمضان کے سات یا آٹھ قوانین (کے بارہ میں) جب کہ ان سزاؤں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جتنی بھی آیتیں عام طور پر پڑھی جاتی ہیں، وہ سب ان سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ یہ اللہ کے قانون ہیں، ان سے آپ ہٹیں نہیں۔ یہ جو زنا، قذف، چوری ہیں، ان کے لئے قرآن مجید میں حدود یا حد کا لفظ نہیں ہے ، اول تو حدود اللہ کا تصور قرآن مجید کا نہیں ہے، بلکہ فقہاء حضرات کا ہے کہ یہ جو سات جرائم ہیں ان کو حدود اللہ کہا جائے قرآن و سنت میں یہ الفاظ بھی نہیں آئے، حدود کے معانی قرآن میں قانون کے ہیں۔ فقہ میں سزا کا ہے، وہ سزا جو مقرر ہے، اور دوسرا یہ کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کون سے قانون حدود اللہ میں آتے ہیں اور کون سی سزائیں اور کون سے جرائم؟ یہ بھی فقہاء کی تشریحات ہیں اور اس میں اختلاف رہا ہے…‘ ‘ (سنڈے میگزین ۲۸/اکتوبر ۲۰۰۷ء) اس سلسلہ میں عرض ہے کہجناب خالد مسعود صاحب کا یہ کہنا کہ حدود اللہ کا کوئی تصور قرآن مجید میں نہیں، سراسرغلط اور جہالت ودنائت پر مبنی ہے، اس لئے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں حدود اللہ کا ذکر آیا ہے، اور جہاں بھی آیا ہے اسی معنی میں آیا ہے کہ ہم نے جوجو احکام ،اصول،قوانین اور مسائل بیان کئے ہیں ان کی پابندی وپاسداری کی جائے اور جو لوگ ان سے تجاوزکریں گے،وہ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود سے تجاوزکرنے والے شمارہوں گے،اوروہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا کے مستوجب ہوں گے، چنانچہ ملاحظہ ہو: ۱:… رمضان کی راتوں میں بیویوں سے ہم بستر ہونے،سحر وافطار اور اعتکاف کی حد بندی کرتے ہوئے فرمایا:
”تلک حدود اللہ فلا تقربوہا۔“ (البقرہ: ۱۸۷)
ترجمہ:… ”یہ حدیں بندھی ہوئی ہیں اللہ کی، سو ان کے نزدیک نہ جاؤ “ ۲:… طلاق ،رجعت،عدت اور خلع کی حدود وقواعداور ان کی پابندی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
”ولا یحل لکم ان تأخذوا مما آتیتموہن شیئاً الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ۔“ (البقرہ: ۲۲۹)
ترجمہ:… ”اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ کچھ بھی لو اس میں سے جو تم نے ان کو دیا تھا، مگر جب کہ خاوند عورت دونوں ڈریں اس بات سے کہ قائم نہ رکھ سکیں گے حکم اللہ کا۔“ ۳:… مذکورہ بالا احکام کی پابندی اور ان میں کسی قسم کی کوتاہی یا تغیر وتبدل سے احتراز اور بچنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
”فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوہا، ومن یتعد حدود اللہ فاولئک ہم الظالمون۔“ (البقرہ: ۲۲۹)
ترجمہ:… ”پھر اگر تم لوگ ڈرو اس بات سے کہ وہ دونوں قائم نہ رکھ سکیں گے اللہ کی حدیں تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر اس میں کہ عورت بدلہ دے کرچھوٹ جاوے، یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو کوئی بڑھ چلے اللہ کی باندھی ہوئی حدود سے سو وہی لوگ ہیں ظالم۔“ ۴:… تیسری طلاق کے بعد جب تک تحلیل شرعی نہ ہوجائے دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا جو اس کے خلاف کرے گا حدود الٰہی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا ،چنانچہ ان حدود کی پابندی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
”فان طلقہا فلا جناح علیہما ان یترا جعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ، وتلک حدود اللہ یبینہا لقوم یعلمون۔“ (البقرہ: ۲۳۰)
ترجمہ:… ”پھر اگر طلاق دیدے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جائیں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کی حدیں اور یہ حدیں باندھیں ہوئی ہیں اللہ کی بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے۔ “ ۵:… میراث، ورثا اور ان کے حصص،قرض، وصیت اور ان کے احکام کی حکمت واہمیت اور ان کی پابندی پر بشارت سناتے ہوئیفرمایا:
”تلک حدود اللّٰہ ومن یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنت تجری من تحتہا الانہر…“ (النساء:۱۳)
ترجمہ:… ”یہ حدیں باندھی ہوئی اللہ کی ہیں اور جو کوئی حکم پر چلے اللہ کے اور رسول کے اس کو داخل کرے گا جنتوں میں۔“ ۶:… جواللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ حدود کی خلاف ورزی کرے،ان کی سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
”ومن یعص اللّٰہ ورسولہ ویتعد حدود ہ یدخلہ ناراً خالداً فیہا ولہ عذاب مہین۔“ (النساء: ۱۴)
ترجمہ:… ”اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا، اس میں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ “ ۷:… دیہات کے کفار اور منافقین کی شدت اور ان کی حدوداللہ سے نا آشنائی کے بارہ میں فرمایا:
”الاعراب اشد کفراً ونفاقا واجدر الا یعلموا حدود ما انزل اللّٰہ علی رسولہ۔ “ (التوبہ:۹۷)
ترجمہ:… ”گنوار بہت سخت ہیں کفر میں اور نفاق میں اور اسی لائق ہیں کہ نہ سیکھیں وہ جو نازل کیں اللہ نے اپنے رسول پر۔“ ۸:… کفارومنافقین کے مقابلہ میں مومنین کی صفات اور ان کی حدوداللہ کی پاسداری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
”والناہون عن المنکر والحافظون لحدود اللّٰہ، وبشرالمؤمنین۔“ ( التوبہ: ۱۱۲)
ترجمہ:… ”اور منع کرنے والے بُری بات سے اور حفاظت کرنے والے ان حدود کی جو باندھی اللہ نے اور خوشخبری سنادے ایمان والوں کو۔“ ۹:… ظہار اورکفارئہ ظہار کے احکام اور ان کی بجاآوری کی تلقین کے بعد فرمایا:
”ذلک لتومنوا باللّٰہ ورسولہ وتلک حدود اللہ۔“ (المجادلہ:۴)
ترجمہ: … ”یہ حکم اس واسطے کہ تابعدار ہوجاؤ اللہ کے اور اس کے رسول کے اور یہ حدود ہیں اللہ کی۔“ ۱۰:… طلاق ،عدت اور دوران ِعدت سکنیٰ کے احکام اور ان کی خلاف ورزی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
”لا تخرجوہن من بیوتہن ولا یخرجن الا ان یأتین بفاحشة مبینة وتلک حدود اللّٰہ ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ۔“ (الطلاق:۱)
ترجمہ: ”مت نکالو ان کو ان کے گھروں سے اور وہ بھی نہ نکلیں مگر جو کریں صریح بے حیائی اور یہ حدود ہیں اللہ کی اور جو کوئی بڑھے اللہ کی حدود سے تو اس نے بُرا کیا اپنا۔“ لہٰذا چیئرمین صاحب کا یہ کہناسراسرغلط ٹھہرا کہ:” قرآن مجید میں حدود اللہ کا لفظ ان سزاؤں کے لئے نہیں آیا جن کو عام فقہا حدود تصور کرتے ہیں“کیونکہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ قرآن کریم میں حدوداللہ کا لفظ ایک نہیں ،دس بار آیاہے، اور ہر جگہ قانون الٰہی کی پابندی وپاسداری کے لئے آیاہے،اسی لئے فقہأ کرام نے ان تمام جرائم کی سزاوٴں کو حدود سے تعبیر کیا ہے جن کی سزا اللہ تعالی ٰیا اس کے رسول انے مقرر فرمائی ہے۔بتلائیے اس پر فقہأ کرام لائقِ تحسین ہیں؟ یاباعث ِملامت؟ پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حضراتِ فقہأکرام نے اس اصطلاح کے اپنانے میں اپنی رائے اور اجتہاد کا سہارا نہیں لیا، بلکہ آنحضرت اکے ارشاداتِ عالیہ کی اتباع کی ہے،چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں ایسے کئی ایک جرائم کی سزا وٴں پر ”حد“ کا اطلاق فرمایا ہے، ان میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں:
الف: ”عن ابی بردہ بن نیار قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایجلد فوق عشر جلدات الافی حد من حدود اللّٰہ۔“
(ترمذی، ج:۲، ص:۱۷۷، بخاری، ج:۲،ص:۱۲) ترجمہ:… ”حضرت ابو بردہ بن نیار سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے علاوہ کسی جرم کی سزا دس کوڑوں سے زیادہ نہ دی جائے۔ “ جناب خالد مسعود صاحب ہی فرمائیں کہ آنحضرت اجن سزاوٴں کو حدوداللہ فرمارہے ہیں،وہ کونسی ہیں؟اور یہ کہ ان کا تذکرہ قرآن میں ہے یانہیں؟اگرجواب نفی میں ہے تو آنحضرت انے ان کوحدوداللہ کیوں فرمایا؟
ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔
ب:… ”عن وائل بن حجر عن ابیہ قال استکرہت امرأة علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فدرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنہا الحد وأقامہ علی الذی اصابہا۔“ (ترمذی، ج:۲، ص:۱۷۵)
ترجمہ:… ”حضرت وائل بن حجر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک خاتون کی زبردستی عصمت دری کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے حد ساقط کردی تھی اور اس آدمی پر حد ․․․․․․ جاری فرمائی تھی جس نے زبردستی اس کی عصمت دری کی تھی۔“
ج:… ”عن عائشة ان قریشا أہمتھم المرأة المخزومیة التی سرقت قالوا من یکلم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن یجتریٴ علیہ الا اسامة بن زید حب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فکلم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال أتشفع فی حد من حدود اللّٰہ؟ ثم قام فخطب فقال: یایہا الناس انما ضلوا من قبلکم انہم کانوا اذا سرق الشریف ترکوہ وإذا سرق الضعیف فیہم اقاموا علیہ الحدود، ایم اللّٰہ لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد یدہا۔“ (بخاری، ج:۲،ص:۱۰۰۳)
ترجمہ:… ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مخزومی خاتون، جس نے چوری کی تھی...اور اس کے خلاف چوری کی حد کا فیصلہ ہوگیا، قریش کو اس سے بہت زیادہ پریشانی ہوئی ...انہوں نے سوچا کہ کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حد ساقط کرنے کی سفارش کرے...کہنے لگے اس سلسلہ میں اسامہ ابن زید کے علاوہ کوئی بات نہیں کرسکے گا، کیونکہ وہ آپ کے محبوب ہیں۔ پس انہوں نے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں بات کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ حدود اللہ میں سے ایک حد کے بارہ میں سفارش کرتے ہیں؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے، خطبہ دیا اور فرمایا: لوگو! تم سے پہلے لوگ اس لئے گمراہ ہوئے کہ ان میں سے کوئی عزت دار آدمی چوری کرتا، تو اس کو چھوڑ دیتے اور اگر کوئی چھوٹا اور کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹتا۔ “
د:… ”عن ابن عباس ان ہلال بن امیہ قذف امرأتہ عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشریک بن سحماء ،فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” البینة اوحد فی ظہرک “فقال یارسول اللّٰہ ! اذا رای احدنا علی امرأتہ رجلاً ینطلق یلتمس البینة؟ فجعل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: البینة، والاحد فی ظہرک۔ فقال ہلال: والذی بعثک بالحق انی لصادق فلینزلن اللّٰہ مایبریٴ ظہری من الحد… الخ۔“ (صحیح بخاری، ج:۲، ص:۲۹۵)
ترجمہ:… ”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہلال بن اُمیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سہما کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ یا پھر تیری پیٹھ پر حد لگے گی، اس نے عرض کیا :یارسول اللہ! کیا جب کوئی شخص اپنی بیوی پر کسی غیر مرد کو دیکھے گا تو وہ جاکر گواہ تلاش کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ یا پھر تیری پیٹھ پر حد لگے گی، اس پر حضرت ہلال نے عرض کیا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: بے شک میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور کوئی ایسی وحی نازل فرمادیں گے جو میری پیٹھ کو حد سے بچائے گی۔“ اب موصوف ہی بتلائیں کہ ان کے ارشاد : ”یہ جو سات جرائم ہیں ان کو حدود اللہ کہا جائے، قرآن و سنت میں یہ الفاظ نہیں آئے۔“کی کیا قدرو قیمت ہے؟کیا ان کا یہ ”فرمان“قرآن وسنت کے اوردین و شریعت کے خلاف کھلی بغاوت نہیں؟ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ موصوف نے جیسا کہ اپنے انٹرویو میں خود فرمایا ہے کہ: ”حدود کے معانی قرآن میں قانون کے ہیں۔“ اب اگر فقہاء کرام اور محدثین حضرات نے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں زنا، چوری، تہمت، شراب نوشی اور نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت اور ان پر سزاؤں کے اجراء کو بھی قانونِ الٰہی شمار کرتے ہوئے ان کو حدود قرار دے دیا تو اس پر انہیں کیونکر اشکال ہے؟ کیا ہم جناب خالد مسعود صاحب سے یہ پوچھنے کی جرأت کرسکتے ہیں کہ: طلاق، عدت، رجعت، میراث،ظہار، کفارہ ظہار اور روزہ وغیرہ ایسے خالص شخصی اور ذاتی مسائل کی خلاف ورزی اگر حدود اللہ کی خلاف ورزی کہلاسکتی ہے تو زنا، چوری، تہمت اور شراب نوشی وغیرہ ایسے گھناؤنے جرائم، جس سے پورا معاشرہ تہہ و بالا ہوجاتا ہے، ان کی خلاف ورزی حدود اللہ کی خلاف ورزی کیوں نہیں کہلائے گی؟ اگر ان شخصی اور ذاتی مسائل میں مقررہ حدود سے تجاوز کرنے پر حدود اللہ سے تجاوز شمار ہوسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ معاشرہ کو تہہ و بالا کرنے والے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب یا ان کی حد بندی کی خلاف ورزی پر قرآن و حدیث کی طے کردہ سزاؤں کو حدود اللہ کیوں نہیں کہا جاسکتا؟ یا اس پر حدود اللہ کا اطلاق کیونکر نہیں ہوسکتا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کی دلی خواہش اور تمناہے کہ معاشرہ میں زناکاری،چوری، ڈکیتی،شراب نوشی،تہمت تراشی اور قتل وغارت گری پر کوئی قدغن و پابندی نہیں ہونی چاہئے اور لوگ کھلے عام اان گھناوٴنے جرائم کا ارتکاب کیا کریں،مگر افسوس کہ ان سنگین جرائم کی مقرر ہ اسلامی سزاوٴں․․․․حدود وقصاص․․․․سے جرائم پیشہ افراد خائف ہیں،اس لئے موصوف ان کے دلوں سے ڈر اور خوف دور کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ” ان جرائم کی سزاوٴں کو حدوداللہ نہیں کہنا چاہئے، کیونکہ قرآن وسنت میں ان کو حدود اللہ نہیں کہا گیا، فقہأ کی ایجاد اور ان کی اصطلاح ہے،لہٰذا ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ان کی مخالفت میں زبان کھولنے میں کوئی قباحت، ورنہ اس کا کیا معنی ہے کہ قرآن وسنت میں مذکور ان سزاوٴں اور ان پر حدوداللہ کے اطلاق کے باوجود یہ کہنا کہ ”زنا“قذف․․،چوری․․․ کی سزاوٴں․․․․کے لئے قرآن کریم میں حدودیاحد کا لفط نہیں ہے“یا قرآن وسنت میں یہ الفاظ نہیں آئے۔“ نامناسب نہ ہوگا کہ اس موقع پر ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کے اس بیان پر روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار عبداللہ طارق سہیل کا تبصرہ بھی شامل کردیا جائے، چنانچہ وہ اپنے کالم ”وغیرہ وغیرہ“ میں ”ادا سے قضا تک“ کے زیر عنوان لکھتے ہیں: ”سرکاری درباری (نظر آتی) کونسل کے چیئرمین علامہ کھڑتوس (خالد مسعود) نے انکشاف فرمایا ہے کہ قرآن میں حدود اللہ کا کوئی تصور موجود نہیں۔ وہ جو آیت ہے ”تلک حدود اللہ…“ اس کے بارے میں علامہ کھڑتوس نے کچھ نہیں بتایا۔ ممکن ہے علماء ان کے اس انکشاف پر ناراضگی ظاہر کریں، حالانکہ انہیں شکر کرنا چاہئے کہ علامہ صاحب کی مشق ستم صرف حدود اللہ پر ہوئی ہے، اگر وہ یہ کہہ دیں کہ قرآن میں تو اللہ کا بھی کوئی تصور نہیں ہے تو ہم آپ ان کا کیا بگاڑ لیں گے، ابھی ان کے اگلے لیکچر کا انتظار فرمایئے، وہ ثابت کریں گے کہ پی سی او کا تصور ان کی سرکار نے قرآن سے ہی تو لیا ہے۔ علامہ کھڑتوس دراصل علامہ ولایوڑ خوشامدی کے شاگرد ”رسید“ ہیں۔ علامہ خوشامدی کے نزدیک کوئی چیز گناہ ہے ہی نہیں، ہر شے ثواب ہی ثواب ہے اور ”حق “ امریکا کا دوسرا نام ہے۔ علامہ خوشامدی دراصل دہلی والے مولانا وہی ددن خان (وحید الدین) کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ نہ کوئی روز جزا ہے نہ جنت دوزخ (سب افسانے ہیں) اس کے ساتھ ساتھ وہ ”پنجابی نبی“ کی تقلید میں بین السطور اپنے امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں (دیکھئے ”الرسالہ“ کے گزشتہ شمارے) چنانچہ علماء سے درخواست ہے کہ وہ ان لوگوں کو نظر انداز کردیں، ان کا مسئلہ علمی نہیں، نفسیاتی ہے۔“ (روزنامہ ایکسپریس کراچی ۱۲/نومبر ۲۰۰۷ء)
واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ حضرت سید نفیس شاہ
الی رحمت اللہ
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر‘ اقرأ روضة الاطفال کے صدر ‘ تحریک سید احمد شہید کے ہدی خوان، خانقاہ رائے پورکے گل ِ سرسبد‘ شاہ عبد القادر ائے پوری کے خلیفہٴ اجل ‘ ان کے جانشین وعاشق زار‘ سندِ سلوک واحسان کے صدر نشین، ہفت قلم خطاط ،سلطان القلم اور قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا سید انور حسین نفیس رقم ۵/فروری ۲۰۰۸ء، مطابق ۲۶/محرم الحرام ۱۴۲۹ھ صبح چھ بجے طویل علالت کے بعد راہی عالم آخرت ہوگئے ‘
انا للہ وانا الیہ راجعون‘ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
حضرت نفیس شاہ صاحب قدس سرہ اس دور میں آیت من آیات اللہ تھے‘ بلاشبہ ان کا شمار ان قدوسی صفات اکابرین میں سے تھا جن کو دیکھ کر خدایاد آتا تھا ،اور ان کی صحبت ومجلس میں بیٹھ کر سکینہ جنت کا احساس ہوتا تھا‘ وہ جب بولتے تو موتی رولتے تھے، وہ جب خاموش ہوتے تو ہیبت ووقار کاسماں بندھ جاتا۔ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ دین وشریعت کی عملی تعبیر اور ان کا قول واقرار اکابر کی سیرت وکردارکا آئینہ دار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضر ت شاہ صاحب کو جس طرح حسن ظاہری سے نوازا تھا، اسی طرح آپ کو جمال جہاں آرا سے بھی سرفراز فرمایا تھا، ان کی اصلاح وتربیت کا انداز اور تعلیم وتربیت قلبی توجہ سے عبارت تھی، ان کی خدمت میں حاضر ہونے والے جانتے ہیں کہ آپ کی زبانِ حق ترجمان سے نکلا ہوا ہر ہر لفظ دل ودماغ پر اثر انداز ہوتا ۔ چنانچہ سینکڑوں نہیں، ہزاروں بندگانِ خدا آپ کی برکت سے خدا رسیدہ ہوگئے‘ کتنے ایسے لوگ تھے جو دین وشریعت سے دور تھے مگر حضرت کی صحبت فیضِ رساں کی برکت سے حق آشنا ہوگئے۔ اس قحط الرجال میں آپ کا وجود مسعود بلاشبہ ایک نعمت باردہ سے کم نہ تھا، آپ کی برکت سے لاہور مرجع خلائق تھا اور لاہور جانے کی کشش اور تمنا رہتی ،حضرت کا گھر اور خانقاہ مرجع خلائق تھے، آپ کا دیدار ہی پریشان دلوں اور مجروح قلوب کے لئے مرہم شفا کا درجہ رکھتا تھا۔ اے کاش کہ اب و ہ پری وش ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے اور ہم ان کی برکات سے محروم ہوگئے۔ حضرت شاہ صاحب قدس سرہ نے اگرچہ اپنے تئیں چھپانے کی بہت کوشش کی اور خمول وگوشہ نشینی کو اپنائے رکھا، مگرآخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہرت ومحبوبیت کی بام عروج تک پہنچادیا تھا ،اور آپ سے کثیر تعداد میں خلق خدانے استفادہ کیا، چنانچہ آخر میں باقاعدہ خانقاہی نظام مرتب ہوگیا اور آپ بقید صحت روزانہ صبح خانقاہ سید احمد شہید سگیاں پل تشریف لے جاتے اور شام تک وہاں رہتے اورواردین وصاد رین کے قلوب کی پیاس بجھاتے اور ان کے زخمی قلوب پر محبت وشفقت کی مرہم رکھتے۔ حضر ت شاہ صاحب قدس سرہ یوں توایک عرصہ سے شوگر کے مریض چلے آرہے تھے ،مگر گزشتہ چند ماہ سے شوگر کی وجہ سے ان کے کان میں پیپ بھر گئی اور یہ اتنا بڑھی کہ اس کے اثرات دماغ تک پہنچ گئے‘ آپ کے خدام اور ڈاکٹروں نے اپنے تئیں آپ کے علاج معالجہ کی پوری کوشش کی، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق مرض میں اضافہ ہوتا گیا اور آخر میں کچھ دنوں سے آپ پر استغراق کی کیفیت تھی اور یوں ۲۶/ محرم الحرام صبح چھ بجے کے قریب ستترسال کا یہ تھکا ماندہ مسافر اپنے خدام کو اکیلا چھوڑ کر عالم عقبی کی طرف روانہ ہوگیا۔ اسی دن شام ۳/ بجے لاہور کی بادشاہی مسجد سے متصل عتیق پارک میں آپ کی نماز جنازہ ہوئی، جس میں بلاشبہ لاکھوں افراد نے شرکت کر کے آپ کو آخری خراج عقیدت پیش کیا اور آپ کی خانقاہ سید احمد شہید کے قریب ذاتی خرید کردہ قبرستان کی زمین میں تدفین عمل میں آئی۔ ادارہ بینات اس سانحہ کو اپنا ذاتی سانحہ سمجھتا ہے اور حضرت کے پسماندگان اور متوسلین کے غم میں برابر کا شریک ہے ۔ قارئین سے درخواست ہے کہ حضرت شاہ صاحب کو اپنی دعاؤں اور ایصال ثواب میں فراموش نہ کریں۔اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ وادخلہ الجنة۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 2

نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ اسلامی اصول کی روشنی میں


نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ اسلامی اصول کی روشنی میں
نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ
اسلامی اصول کی روشنی میں

حامداً ومصلیاً۔ امام حجة الاسلام غزالی ”مقاصد الفلاسفہ“ وغیرہ میں فرماتے ہیں:
”یونانیوں کے علوم میں حساب ‘ ہندسہ اور اقلیدس‘ یقینی علوم تھے ان کو یقینی اور صحیح پاکر ان کے بقیہ علوم الہیات‘ طبعیات‘ نجوم وغیرہ کو بھی بعض لوگ ان کی تقلید میں صحیح خیال کرنے لگے“۔
حقیقت میں یہ ایک عام چیز ہے نہ اس عہد کی تخصیص ہے اورنہ یونانیوں کے علوم کی خصوصیت۔ اکثر جب لوگ کسی کی شخصیت سے مرعوب ہوجاتے ہیں تو ان کے بعض خود ساختہ غلط نظریات وافکار کو ہی یا تو صحیح مان لیتے ہیں یا اس میں تاویل کے درپے ہوجاتے ہیں اور ان کی شخصیت کو بچاتے رہتے ہیں۔ آج کل یہی وبا پھیل رہی ہے‘ بعض مشاہیر جن کے بعض کمالات وخصائص عوام میں مسلم ہوگئے ہیں‘ اکثر لوگ ان کی شخصیت اور بعض خصوصیات سے مرعوب ہوکر ان کے بقیہ خیالات وافکار کو بھی صحیح تصور کرنے لگتے ہیں اور بسا اوقات اس میں غلو کرکے ان ہی تحقیقات کو صحیح نظریات سمجھنے لگتے ہیں‘ اس عقلی ترقی کے دور میں یہ چیز خود دنیا کے دوسرے عجائبات کی طرح حیرت انگیز ہے۔ ایک طرف کبارِ امت اور اساطین اسلام‘ عمائدین اشعری‘ ماتریدی‘ باقلانی ،غزالی‘ رازی ‘ آمدی وغیرہ جیسے محققین اسلام کی تحقیر کی جاتی ہے‘ کبار فقہاء امت اور اکابر محدثین کے فیصلوں کو بنظر اشتباہ دیکھا جاتا ہے اور دوسری طرف قرن حاضر کے بعض اربابِ قلم کی قلمی جولانیوں سے متأثر یا ان کی شخصیت سے مرعوب ہوکر ان کے ہرفکر اور ہرخیال کو قطعی خیال کرنے لگتے ہیں۔کچھ دنوں سے ہندوستان کے مؤقر جریدہ ”صدق“ میں نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ زیر بحث ہے جو مدتوں پہلے سے فیصلہ شدہ اور جو ”فتنہ ٴقادیانیت“ کی وجہ سے پھر تقریباً چالیس سال زیر بحث رہا اور جس پر متعدد کتابیں تصنیف ہوئیں‘ مولوی ابو الکلام صاحب‘ مولوی جار اللہ صاحب‘ مولانا عبید اللہ صاحب سندھی وغیرہ کی تحریرات میں یہ چیز آئی اور مولانا آزاد نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ:” اگر یہ عقیدہ نجات کے لئے ضروری ہوتا تو قرآن میں کم سے کم ”واقیموا الصلوٰة“ جیسی تصریح ضروری تھی اور ہمارا اعتقاد ہے کہ کوئی مسیح اب آنے والا نہیں الخ“ اس وقت بھی میں نے اس خیال کی تردید میں ایک مفصل مضمون لکھا تھا جو بعض اربابِ جرائد کی مداہنت سے شائع نہ ہوسکا اور نہ اس کا مسودہ میرے پاس ہے۔ غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کو اصل داعیہ اس قسم کے خیالات میں عقلی استبداد ہے اور بدقسمتی سے اپنے عقلی معیار کو ان حضرات نے اتنا بلند سمجھا ہے کہ نبوت کا منصب گویا ان عقولِ قاصرہ کو دے دیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے بعض نیک دل ارباب ِ قلم ان ہی حضرات کی شخصیتوں سے مرعوب ہوکر غیر شعوری تقلید میں کچھ درمیانی صورت اختیار کرنے لگے ہوں۔
اہل ِ حق کے مسلک کی تائید میں جناب محترم مولاناظفر احمد صاحب تھانوی نے ایک مقالہ ”صدق“ میں شائع فرمایا‘ اس کے جواب میں جے پور کے ایک محترم نے بہت طویل مقالہ ”صدق“ میں شائع فرمایا‘ جس کی تنقیح حسب ذیل امور میں ہوسکتی ہے:
۱- نزولِ مسیح کا عقیدہ صحیح ہے لیکن ظنی ہے‘ یقینی نہیں۔
۲- نزول ِ مسیح کے بارے میں احادیث اصطلاحی تواتر کو نہیں پہنچیں۔
۳- نزولِ مسیح کے بارے میں اجماع کا نقل مشتبہ ہے‘ غیب کے آئندہ امور میں اجماع محل نظر ہے‘ ممکن ہے کچھ اور اجزاء بھی تنقیح طلب ہوں‘ لیکن اصلی مداران تین چیزوں پر ہے اور یہی زیادہ اہم بھی ہیں‘ اس وقت اس مختصر فرصت میں اس مسئلہ کی نوعیت میں بعض خطرناک اصولی غلطیاں جو پیش آرہی ہیں ان کا تصفیہ مقصود ہے۔ جے پوری صاحب نہ تو میرے مخاطبِ خاص ہیں نہ ان کے مضمون کی سطر سطر کی تردید یا گرفت منظور ہے‘ نہ طالب علمانہ بحثوں میں الجھنا مقصود ہے‘ نہ ان کی نیت پر حملہ ہے‘ صرف طالب ِ حق کے لئے چند اصولی اساسی امور بیان کرنے ہیں‘ باقی جحود وعناد کا تو کوئی علاج نہیں‘ والسلام علی من اتبع الہدیٰ․
۱- دینِ اسلام کے مہمات عقائد واعمال یا اصول وفروع کا ایک ذخیرہ جیسے قرآن کریم اور نبی کریم اکے توسط سے ہم تک پہنچا ہے‘ اسی طرح اعتقادی وعملی ضروریات ِ دین ہم تک بذریعہ توارث یا تعامل طبقہ بہ طبقہ بھی پہنچتے رہے ہیں‘ بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ دینِ اسلام اور اس کی کل ضروریات ہم کو اسی توارث کے ذریعہ پہنچی ہیں‘ لاکھوں کروڑوں مسلمان ،جن کو نہ تو قرآنی تعلیمات کی پوری خبر ہے نہ احادیث ِنبویہ کا علم ہے لیکن باوجود اس کے وہ دین کی مہمات وضروریات سے واقف رہتے ہیں‘ یہ دوسری بات ہے کہ عوام کا ایمان اجمالی ہوتا ہے‘ تفصیلات کے وہ اس وقت مکلف ہوتے ہیں جب ان کے علم میں آجائے۔ یہ حق تعالیٰ کا ایک مستقل احسان ہے کہ باوجود اس دینی توارث کے قرآن کریم وحدیث نبی ا کی شکل میں ایک ایسا دستور اساسی بھی دے دیا کہ اگر کسی وقت مدتوں کے بعد اس دینی عملی توارث میں فتور یا قصور آجائے یا لوگ منحرف ہوجائیں تو تجدید واحیاء کے لئے ایک مکمل ”اساسی قانون“اور علمی ذخیرہ بھی محفوظ رہے‘ تاکہ اممِ سابقہ کی طرح ضلالت کی نوبت نہ آئے اور حق تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے۔ اور ظاہر ہے جب کتاب ِ الٰہی خاتم الکتب الالٰہیہ ہو اور نبی کریم خاتم الانبیاء ہوں اور دین خاتم الادیان اور امت خیر الامم ہو تو اس کے لئے یہ تحفظات ضروری تھے اور اسی لئے اس علمی قانون پر عمل کرنے کے لئے عملی نمونوں کی ایک جماعت بھی ہمیشہ موجود رہے گی‘ تاکہ علمی وعملی دونوں طرح حق وباطل کا امتیاز قائم رہ سکے اور پوری طرح تحفظ کیا جائے اور مزید اطمینان یا اتمامِ حجت کے لئے دونوں باتوں کا صاف صاف نہایت موکد طریقہ پر اعلان بھی کردیا‘ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
۱- ”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“ ۔ (سورہ ٴ حجر:۹)
ترجمہ:․․․․”ہم ہی نے قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔
۲- اور نبی کریم ا فرماتے ہیں:
”لاتزال طائفة من امتی قائمین علی الحق لایضرہم من خالفہم ولامن خذلہم حتی یأتی امر الله وہم علی ذلک“۔ (بخاری)
ترجمہ:۔”ایک گروہ قیامت تک ہمیشہ کے لئے دینِ حق پر قائم رہے گا‘ کسی کے امداد نہ کرنے سے یا مخالفت کرنے سے ان کا کچھ نہ بگڑے گا۔“
اور میرے خیال ناقص میں تو ”فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون“ اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھتے رہو۔ میں بھی ایک لطیف اشارہ ہے کہ ہر دور میں کچھ اہل حق ضرور ہوں گے۔
بہرحال اتنی بات واضح ہوئی کہ ”محافظین ِ حق“ اور ”قائمین علی الحق“ کا ایک گروہ قیامت تک ہوگا‘ جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مہمات ِ دین کے لئے صرف علمی اور ذہنی دستور اساسی ہی نہیں‘ بلکہ ایک ”عملی نمونہ“ بھی موجود رہے گا‘ اور اسی طرح توارث اور تعامل کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ اگر بالفرض وہ علمی ودفتری قانون دنیا سے مفقود بھی ہوجائے تو حصولِ مقصود کے لئے اس گروہ کا وجود بھی کافی ہوگا۔
دین اسلام کی بہت سی ضروریات اور قطعیات ،مثلاً: نماز‘ روزہ‘ زکوٰة‘ حج‘ نکاح‘ طلاق خرید وفروخت کی اجازت‘ شراب خوری‘ زناکاری‘ قتل وقتال کی حرمت وغیرہ بیسیوں باتیں اسی توارث کے ذریعہ سے ہم تک پہنچتی رہی ہیں‘ بلکہ نماز کی بعض کیفیات اور زکوٰة کی بعض تفصیلات نہ تو صریح قرآن سے ثابت ہیں نہ اس بارے میں احادیث ”اصطلاحی متواتر“ ہیں‘ لیکن باوجود اس کے دنیا جانتی ہے کہ وہ سب چیزیں ضروری اور قطعی ہیں اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں۔
۲- ”ادلہ سمعیہ“ یعنی عقائد واحکام کے ثبوت کے لئے قرآن وحدیث کی نصوص چار قسم کی ہوتی ہیں:
الف: ثبوت ودلالت دونوں قطعی ہوں۔ب: ثبوت قطعی ہو‘ دلالت ظنی ہو۔
ج: دلالت قطعی ہو‘ ثبوت ظنی ہو۔ د: ثبوت ودلالت دونوں ظنی ہوں۔
ثبوت کے معنی یہ ہیں کہ: اللہ ورسول کا کلام ہے۔ دلالت کے معنی یہ کہ: اس کے کلام کی مراد یہ ہے۔
قرآن واحادیث ِ متواترہ ثبوت کے اعتبار سے دونوں قطعی ہیں‘ البتہ دلالت کے اعتبار سے کبھی قطعیت ہوگی‘ کبھی ظنیت۔
اخبار آحاد میں تیسری چوتھی قسم پائی جاتی ہے‘ مزید تفصیل کے لئے عبد العزیز بخاری کی کتاب ”کشف الاسرار“ شرح اصول فخر الاسلام اور شرح تحریر الاصول ابن امیر حاج وغیرہ ملاحظہ ہوں۔ پہلی قسم سے انکار کفر ہے‘ دوسری‘ تیسری قسم کے انکار سے کفر تک نوبت نہیں پہنچتی۔
۳- تصدیق رسالت جو بنیادی عقیدہ ہے‘ اس میں تصدیق کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ا کی ہربات کو دل قبول کرے اور تسلیم کرے‘ قرآن کریم میں ”وصدق بہ“ اور ”ویسلموا تسلیماً“ سے یہی مراد ہے۔ صرف کسی شے کا علم میں آجانا جو منطقی ومعقول تصدیق ہے قطعاً کافی نہیں ہے‘ ورنہ صرف معرفت تو بہت سے یہودیوں کو اور ہرقل کو بھی حاصل تھی‘ لیکن مسلمان ہونے کے لئے اور نجات کے لئے اتنی بات کافی نہ ہوئی۔
۴- احادیث ِ متواترہ کا افادہٴ قطعیت اہلِ حق بلکہ امت کا اجماعی مسئلہ ہے۔
۵- اصطلاحی تواتر میں ایک شرط یہ ہے کہ ہر دور میں نقل کرنے والے اتنے ہوں کہ غلطی اور شبہ کی گنجائش نہ رہے‘ نقل کرنے والوں کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں‘ بسا اوقات کسی خاص موقع پر پانچ خاص آدمیوں کی روایت سے یقین حاصل ہوتا ہے جو پچاس دوسروں سے کسی دوسرے موقع پر حاصل نہیں ہوسکتا ہے‘ اس لئے علماء اصول نے تصریح کردی ہے کہ بیان کرنے والوں یا سننے والوں کے مرتبہ سے فرق پڑجاتا ہے اور کبھی مضمون اور بات کی نوعیت سے بھی تفاوت ہوسکتا ہے۔ دیکھئے: فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت (۲-۱۱۰) مطبوعہ مصر۔
۶- بعض اصولیین کے نزدیک تواتر حدیث کا مدار راویوں کی کثرت اور طرق ومخارج کی تعداد پر نہیں‘ بلکہ دار ومدار” تلقی بالقبول“ پر ہے‘ جن احادیث کو قرن اول یعنی صحابہ کرام کے عہد ہی میں امت نے قبول کرلیا ہے وہی متواتر ہیں‘ اس تعریف کے پیش نظر متواتر احادیث کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے‘ بعض محققین نے اسی تعریف کو زیادہ پسند کیا ہے‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عملی اعتبار سے قبولیت ِ عامہ نفس کثرت رواة سے کہیں زیادہ مؤثر اور قوی ہے‘ اسی کو ہم نے توارث وتعامل سے تعبیر کیا ہے‘ عنقریب اس بات کی تائید دوسری طرح سے بھی ہوجائے گی۔
۷- قرن اول میں ناقلین شرط تواتر پر ہوں اور قرن ثانی وثالث میں کمی آجائے‘ یہ محض عقلی احتمال ہے‘ ذخیرہ حدیث میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ بلکہ احادیث کی روایت میں واقعہ یہ ہے کہ یہ راوی بڑھتے گئے اور قرن ثانی وثالث میں ”اخبار آحاد“ کے راوی بھی اس کثرت کو پہنچ گئے ہیں جو قرن اول میں احادیث ِ متواترہ کے بھی نہیں تھے۔جے پوری صاحب کو یہاں بھی بظاہر اشتباہ ہے‘ اگرچہ آخری جزو کو خود بھی ایک مقام پر تسلیم کرگئے ہیں۔
۸- احادیثِ متواترہ کا ذخیرہ ٴ حدیث میں نہ ہونا یا نہایت کم ہونا دونوں دعوے تحقیق اور واقعیت کے خلاف ہیں‘ حافظ ابن حجر وغیرہ محققین اس خیال کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس قسم کے خیالات کا منشاء احوالِ رواة وکثرت طرق پر قلت اطلاع کے سوا اور کچھ نہیں‘ بلکہ فرماتے ہیں کہ صحاح ستہ میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں‘ حافظ جلال الدین سیوطی نے تو دو مستقل رسالے تصنیف کئے ہیں ،جن میں احادیثِ متواترہ کو جمع کیا ہے:
۱- ”الازہارالمتناثرة فی الاخبار المتواترة “ یہ رسالہ چھپ چکا ہے۔
۲- تدریب الراوی ص:۱۹۱، فتح المغیث للعراقی ،۱-۲۷۔ فتح المغیث للسخاوی ،ص:۹۵
۹- محدثین میں کبارِ محدثین کی رائے یہ ہے کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی وہ احادیث صحیحہ جو درجہٴ تواتر کو نہیں بھی پہنچیں وہ بھی قطعی ہیں اور ان سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے‘ استاذ ابو منصور بغدادی‘ امام ابو اسحاق اسفرائینی‘ امام الحرمین‘ امام ابوحامد اسفرائینی ‘ قاضی ابو طیب طبری‘ امام ابو اسحاق شیرازی‘ شمس الائمہ سرخسی حنفی‘ قاضی عبد الوہاب مالکی‘ ابو یعلی حنبلی‘ ابو خطاب جنبلی‘ ابن فورک‘ ابن طاہر مقدسی‘ ابو نصر عبد الرحیم شافعی ،ابن صلاح وغیرہ محققین مذاہب اربعہ کا یہی مذہب ہے‘ بلکہ اکثر اشاعرہ اور عام محدثین کا بھی یہی مسلک ہے اور یہی رائے ہے۔ متاخرین میں سے ابن تیمیہ‘ ابن قیم‘ ابن کثیر‘ ابن حجر اورسیوطی کا بھی یہی دعویٰ ہے‘ نووی وغیرہ نے جو خلاف کیا ہے‘ حافظ ابن حجر نے اس کو بھی نزاع لفظی بتایا ہے۔ ”الافصاح فی المحاکمة بین النووی وابن الصلاح“ ابو علی غافی کی جو اس موضوع پر مستقل کتاب ہے وہ بھی نزاع لفظی ٹھہراتے ہیں‘ فرماتے ہیں کہ: ”علم قطعی نظری“ کا افادہ سب کے یہاں مسلم ہے‘ امام ابن طاہر مقدسی تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو صحیحین کی روایتیں نہیں ہیں لیکن صحیحین کی شرط پر ہوں وہ بھی مفید قطع ہیں ۔ مکہ کے کبار تابعین میں سے عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں:
”ان ما اجمعت علیہ الامة اقوی من الاسناد“۔
ترجمہ:․․․” جس حدیث پر امت کا اتفاق ہو کہ یہ صحیح ہے‘ نفس اسناد کے تواتر سے یہ زیادہ قوی چیز ہے“۔
امام ابو اسحاق اسفرائینی فرماتے ہیں:
”اہل الصنعة مجمعون علی ان الاخبار التی اشتمل علیہا الصحیحان مقطوع بصحة اصولہا ومتونہا‘ فمن خالف حکمہ خبراً منہا ولیس لہ تاویل سائغ للخبر نقصتا حکمہ لان ہذہ الاخبار تلقتہا الامة بالقبول ۔“(فتح المغیث للسخاوی)
ترجمہ:․․․․”محدثین سب اس پر متفق ہیں کہ بخاری ومسلم کی احادیث سب قطعی ہیں‘ اگر بغیر صحیح تاویل کوئی ایک حدیث کی بھی مخالفت کرے گا تو اس کے حکم کو ہم توڑیں گے، کیونکہ امت محمدیہ نے ان احادیث کو قبول کرلیا ہے“۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
”الاجماع علی القول بصحة الخبر اقوی افادة العلم من مجرد کثرة الطرق“۔
ترجمہ:․․․․”کسی حدیث کی صحت پر علماء کا متفق ہونا افادہٴ علم (قطعیت )میں کثرت طرق سے زیادہ قوی ہے“۔
۱۰-متواتر لفظی کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ بعینہ ایک ہی لفظ سے وہ احادیث مروی ہوں‘ بلکہ جس لفظ سے بھی ہوں مضمون ایک ہونا چاہئے اور ایک یا دو محدثین نے جو نفی تواتر حدیث کا دعویٰ کیا تھا یا صرف ایک ہی مثال بتلائی تھی بعض محققین کے نزدیک ان کی مراد بھی یہی ہے کہ ایک لفظ سے متواتر کی ہی مثال نہیں ملتی‘ غریب الوجود ہے‘ گویا ان کے نزدیک بھی احادیث متواترہ بہت ہیں لیکن ایک لفظ سے نہیں ہیں‘ صرف حدیث ”من کذب علیّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار“ کو ایسا بتلایا گیا ہے۔ اس بناء پر نزاع بھی لفظی ہوجاتا ہے۔
متواتر معنوی کے یہ معنی نہیں کہ لفظ مختلف ہوں اور مضمون سب میں ایک ہو بلکہ یہ معنی ہیں کہ ہرایک حدیث میں مضمون الگ الگ ہو اور ایک بات قدر مشترک نکل آئے ‘جیسے احادیث معجزات کہ ہرایک اگرچہ اخبار آحاد میں سے ہے لیکن نفس ثبوت معجزہ سب میں قدر مشترک ہے‘ اسی کو اصطلاح میں تواتر معنوی یا تواتر قدر مشترک کہتے ہیں‘ ملاحظہ ہو ”مسلم الثبوت“ اور اس کی شرح ”فواتح الرحموت“۔
۱۱- ادلہ ٴ شرعیہ میں ایک دلیل ”اجماع امت“ ہے‘ اگر اس اجماع کا ثبوت قطعی ہو تو اجماع قطعی ہوگا اور اس کا منکر بھی کافر ہوگا‘ جیسے دوسری قطعیات شرعیہ کا منکر۔ بعض عقائد اگرچہ اخبار آحاد سے ثابت ہوں لیکن ان پر امت کا اجماع ہوجائے وہ بھی قطعی ہوجاتے ہیں‘ کما فی التلویح وشرح التحریر (۳-۱۱۶) آئندہ ”غیبی امور“ کے متعلق ”علامات قیامت“ کے بارے میں اگر اجماع ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس بارے میں خبر صادق سے جو نقل ہے وہ صحیح ہے‘ ملاحظہ ہو تفصیل کے لئے فواتح الرحموت شرح مسلم (۲-۲۹۶) شرح تحریر الاصول لابن امیر الحاج (۳-۱۱۶) حدوث عالم پر اجماع کے معنی بھی یہی ہیں جیسے فتح الباری (۱۲-۱۷۷) میں تقی الدین ابن دقیق العید سے منقول ہے۔ جے پوری صاحب نے اس بارے میں کسی قدر تلبیس سے کام لیا ہے۔ فلیتنبہ
۱۲- جو چیز قرآن کریم یا احادیث متواترہ سے ثابت ہو یا اجماع امت سے اور دلالت بھی قطعی ہو تو وہ سب ضروریات دین میں داخل ہیں ”ضروریات دین“ کے معنی یہ ہیں کہ ان کا دین اسلام سے ہونا بالکل بدیہی ہو‘ خواص سے گذر کر عوام تک اس کا علم پہنچ گیا ہو‘ یہ نہیں کہ ہر عامی کو اس کا علم ہو‘ کیونکہ بسا اوقات تعلیم دین نہ ہونے سے بعض ”ضروریات دین“ کا علم عوام کو نہیں ہوتا‘ لیکن تعلیم کے بعد اور جان لینے کے بعد اس پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے‘ علمأ نے تصریح فرمادی ہے کہ ”بعض متواترت شرعیہ“ کے جہل سے تو کفر نہیں لازم آتا‘ لیکن معلوم ہونے کے بعد حجود وانکار سے آدمی کافر ہوجاتا ہے‘ ملاحظہ ہو ”جواہر التوحید“ کی شرح ،ص:۵۱،وحاشیہ ”الموافقات“ للشاطبی (۳-۱۵۶) واکفار الملحدین ص:۲)۔
۱۳- ”ضروریات دین“ کا انکار کرنا یا اس میں خلافِ مقصود تاویل کرنا دونوں کو علماء کرام نے موجب کفر بتلایا ہے‘ حجة الاسلام غزالی نے اس موضوع میں ”التفرقة بین الاسلام والزندقہ“ مستقل کتاب لکھی ہے اور فیصلہ کن بحث فرمائی ہے‘ مدت ہوئی مصر سے چھپ کر آگئی ہے اور غالباً ہندوستان میں بھی طبع ہوئی ہے اور امام العصر محدث وقت حضرت استاذ مولانا محمد انور شاہ کی کتاب ”اکفار الملحدین فی ضروریات الدین“ اس موضوع پر نہایت ہی جامع اور بے مثل کتا ب ہے۔
۱۴- جو چیز متواتر ہوجائے وہ دین میں ”ضروری“ ہوجاتی ہے‘ کیونکہ متواتر کا افادہٴ علم ضروری قطعی مسلمات سے ہے‘ پس اگر کسی کو اس کا علم ہوجائے کہ یہ حدیث احادیث متواترہ میں سے ہے یا یہ بات حدیث متواتر سے ثابت ہے تو اس پر ایمان لانا ضروری ہوجاتا ہے‘ خواہ اس کا تعلق کائنات ماضیہ سے ہو یا مغیبات مستقبلہ سے ہو ‘ خواہ عقائد کے متعلق ہو خواہ احکام کے بارے میں ہو‘ تصدیق رسالت کے لئے اس سے چارہ نہیں‘ ورنہ تکذیب رسول کا کفر ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ بہرحال تصدیق رسول کا ایمان کے لئے ضروری ہونا او رتکذیب سے کفر کا لازم آنا یہ خود دین کی ضروریات میں داخل ہے‘ کتب کلامیہ اور کتب اصول فقہ میں یہ قواعد کلیہ مفصل مل جاتے ہیں‘ بطور نمونہ ہم ا س سمندر سے چند قطرے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
۱- ”ومن اعترف بکون شیئ من الشرع ثم جحدہ کان منکراً للشرع وانکار جزء من الشرع کانکار کلہ“ (شرح التحریر: ۳-۱۳)
ترجمہ:۔”جو شخص یہ مانے کہ یہ چیز شریعت میں ہے‘ باوجود اس کے اس کا انکار کرے تویہ کل شریعت کا انکار ہے۔
۲- ”وصح الاجماع علی ان کل من جحد شیئاً صح عندنا بالاجماع ان رسول اللہ ا اتی بہ فقد کفر او جحد شیئاً صح عندہ بان النبی ا قالہ فہو کافر“۔ (الملل لابن حزم ۱-۲۵و۲۵۶)
ترجمہ:۔”اس پر اجماع ہے کہ جس چیز کے متعلق یہ اتفاق ہو کہ نبی کریم ا فرما چکے ہیں ،اس کا انکار کفر ہے یا یہ مانتا ہو کہ آپ فرما چکے ہیں‘ باوجود اس کے نہ مانے، یہ کفر ہے“۔
۳- ”من انکر الاخبار المتواتر ة فی الشریعة مثل حرمة لبس الحریر علی الرجال کفر“ (شرح فقہ اکبر نقلاً عن المحیط)
ترجمہ:۔”کسی شرعی حکم کی حدیث متواتر ہو اور اس سے انکار کیا جاوے تو کافر ہوگا جیسے ریشمی لباس مردوں کے لئے“۔
۴- ”فصار منکر المتواتر ومخالفہ کافراً “ (اصول فخر الاسلام بحث السنہ)
ترجمہ:۔”متواتر کا انکار یا مخالفت دونوں کفر ہیں“۔
۵- ”والصحیح ان کل قطعی من الشرع فہو ضروری“۔
(المحصول للرازی بحوالہ اکفار الملحدین ص:۶۷)
ترجمہ:۔”دین میں جوچیز قطعیات کو پہنچ چکی ہو وہ ضروریات دین میں داخل ہے“۔
۶- ”شروط القطع فی النقلیات التواتر الضروری فی النقل والتجلی الضروری فی المعنی“۔ (ایضاً ص:۶۹)
ترجمہ:۔”شرعی امور جب تواتر سے ثابت ہوں اور معنی بھی واضح ہو‘ یہی قطعیت ہے“۔
۷- ”وکل مالم یحتمل التاویل فی نفسہ وتواتر نقلہ ولم یتصور ان یقوم برہان علی خلافہ فمخالفتہ تکذیب محض“۔ التفرقة للغزالی ص:۱۴)
ترجمہ:۔”جس چیز کی نقل متواتر ہو اور تاویل کی گنجائش نہ ہو اور کوئی دلیل خلاف پر قائم نہ ہو تو ایسی چیز کی مخالفت رسول اللہ ا کی تکذیب ہے“۔
۸- ”بل انکار المتواتر عدم قبول اطاعة الشارع․․․ ورد علی الشریعة وان لم یکذب وہو کفر بواح نفسہ“۔(شرح الاشباہ للحموی رد المختار ‘ طحطاوی بحوالہ اکفار الملحدین)
ترجمہ۔”بلکہ حقیقت میں تو متواتر کا انکار شارع علیہ الصلاة والسلام کی عدم اطاعت ہے اور شریعت اسلام کا رد ہے جو خود کھلا ہوا کفر ہے‘ اگرچہ تکذیب نہ کرے“۔
۹- ”ومن انکر شیئاً من شرائع الاسلام فقد ابطل قول لا الہ الا اللہ“۔
(السیر الکبیر للامام محمد بحوالہ اکفار الملحدین)
ترجمہ:۔”شریعت اسلامیہ کی کسی چیز سے انکار کرنا کلمہ اسلام سے انکار کرنا ہے“۔
۱۰- ”فلاخلاف بین المسلمین ان الرجل لو اظہر انکار الواجبات الظاہرة المتواترة ونحو ذلک فانہ یستتاب فان تاب والا قتل کافراً مرتداً اھ“۔ (شرح عقیدہ طحاویہ مطبوعہ حجاز ص:۲۴۶)
ترجمہ:۔”امت مسلمہ میں کوئی خلاف اس بارے میں نہیں کہ جو کوئی متواترات سے انکار کرے‘ چاہے اس کا کرنا فرض ہو یا ترک حرام ہو ،اس سے توبہ نہ کرے تو کافر ہے اور واجب القتل ہے“۔
۱۱- ”لایکفر اہل القبلة الا فیما فیہ انکار ما علم مجیئہ بالضرورة او اجمع علیہ کاستحلال المحرمات (المواقف) ومثلہ فی العضدیہ“۔
ترجمہ۔”اہل قبلہ کی اس وقت تک تکفیر نہیں کی جاتی جب تک ضروریات دین کا یا کسی ایسی چیز کا جس پر اجماع منعقد ہو‘ انکار نہ کرے‘ مثلاً حرام کو حلال سمجھنا“۔
۱۲- وکذلک یقطع بتکفیر من کذب او انکر قاعدة من قواعد الشریعة وما عرف یقیناً بالنقل المتواتر من فعل رسول ا۔“
ترجمہ۔”جو شخص تکذیب کرے یا کلیات شریعت میں سے کسی قاعدہ سے انکار کرے یا جو چیز نبی کریم سے متواتر ثابت ہے ،اس سے انکار کرے‘ اس کی تکفیر قطعی ویقینی ہے“۔
۱۳- ”وخرق الاجماع القطعی الذی صار من ضروریات الدین کفر“
(کلیات ابی البقاء بحوالہ اکفار الملحدین)
ترجمہ:۔”قطعی اجماع جو ضروریات دین میں داخل ہے ا س کاخلاف کرنا کفر ہے“۔
۴- ضروریات دین کی مثال میں علماء امت اپنی اپنی کتابوں میں دو چار مثالیں ذکر کردیتے ہیں‘ ناظرین کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ ضروریات دین بس یہی ہیں‘ آگے سلسلہ ختم ہوگیا‘ یہ چیز جے پوری صاحب کو بھی پیش آرہی ہے‘ حالانکہ ان اکابر کا مقصود محض مثال پیش کرنا ہے‘ نہ استقصاء نہ حصر‘ نہ تخصیص۔ اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے ذیل میں ہم ان مثالوں کو ایک جگہ جمع کردیتے ہیں جو سرسری محنت سے مل سکیں، تاکہ اس مختصر فہرست سے خود بخود یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ مقصود تمثیل تھی‘ نہ پوری فہرست ‘کتب فقہ‘ اصول فقہ‘ کتب کلام ،اصول حدیث میں ذیل کی مثالیں ملتی ہیں:
اثبات علم الٰہی‘ قدرت محیط‘ ارادہ کاملہ‘ صفت کلام‘ قرآن کریم‘ قِدَم قرآن‘ قِدَم صفات باری‘ حدوث عالم‘ حشر اجساد‘ عذاب قبر‘ جزاء وسزا‘ رویت باری قیامت میں‘ شفاعت کبریٰ‘ حوض کوثر‘ وجود ملائکہ‘ وجود کراماً کاتبین‘ ختم نبوت‘ نبوت کا وہبی ہونا‘ مہاجرین وانصار کی اہانت کا عدم جواز‘ اہل بیت کی محبت‘ خلافت شیخین‘ پانچ نمازیں‘ فرض رکعات کی تعداد ‘ تعداد سجدات‘ رمضان کے روزے‘ زکوٰة‘ مقادیر زکوٰة‘ حج‘ وقوف عرفات‘ تعداد طواف‘ جہاد‘ نماز میں استقبال کعبہ‘ جمعہ‘ جماعت‘ اذان‘ عیدین‘ جواز مسح خفین‘ عدم جواز سب رسول‘ عدم جواز سب شیخین‘ انکار جسم‘ انکار حلول اللہ‘ عدم استحلال محرمات‘ رجم زانی‘ حرمت لبس حریر (ریشم پہننا) جواز بیع‘ غسل جنابت‘ تحریم نکاح امہات‘ تحریم نکاح بنات‘ تحریم نکاح ذوی المحارم‘ حرمت خمر‘ حرمت قمار‘ اس وقت یہ اکیاون مثالیں پیش کی گئی ہیں‘ اب تو خیال مبارک میں آگیا ہوگا کہ بعض وہ امور جس کی طرف التفات بھی نہ ہوگا وہ بھی ضروریات دین میں داخل ہیں۔
اب ہم اس بحث کے آخر میں محقق ہند حضرت عبد العزیز صاحب کی عبارت کا اقتباس پیش کرتے ہیں‘ پوری عبارت اکفار المحدین میں منقول ہے‘ اس سے انشاء اللہ یہ بات بالکل بدیہی ہوجائے گی کہ ضروریات دین کے لئے ضابطہ کلیہ کیا ہے ؟اور جو چیزیں بطور تمثیل پیش کی جاتی ہیں ان کا دائرہ صرف تمثیل ہی کی حد تک محدود ہے‘ فرماتے ہیں:
”ضروریات الدین منحصرة عندہم فی ثلاثة : مدلول الکتاب بشرط ان یکون نصاً صریحاً لایمکن تاویلہ کتحریم البنات والامہات‘ ومدلول السنة المتواترة لفظاً او معنی ‘ سواء کان من الاعتقادیات او من العملیات وسواء کان فرضاً او نفلاً․․․․ والمجمع علیہ اجماعاً قطعیاً کخلافة الصدیق والفاروق ونحو ذلک ولاشبہة ان من انکرامثال ہذہ الامور لم یصح ایمانہ بالکتاب والنبیین“۔
ترجمہ:۔”ضروریات دین تین قسم کے ہیں: پہلی قسم یہ کہ تصریح نص قرآنی سے ثابت ہوں‘ جیسے ماں بیٹی سے نکاح کا حرام ہونا۔ دوسری قسم یہ کہ سنت متواترہ سے ثابت ہوں‘ تواتر خواہ لفظی ہو خواہ معنوی‘ عقائد میں ہو یا اعمال میں ہو‘ فرض ہو نفل ہو۔تیسری قسم یہ ہے کہ اجماع قطعی سے ثابت ہوں جیسے حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم کی خلافت وغیرہ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قسم کے امور سے اگر انکار کیا جائے تو اس شخص کا ایمان قرآن اور انبیاء پر صحیح نہیں ہے“۔ امام العصر محدث حضرت استاذ مولانا محمد انور شاہ  مزید توضیح کے ساتھ فرماتے ہیں کہ :
” ضروری کے معنی یہ ہیں کہ حضرت رسالتمآب اسے ا س کا ثبوت ضروری ہو‘ دین سے ہونا یقینی ہو اور جو بھی اس کا شرعی مرتبہ ہو‘ اسی درجہ کا عقیدہ اس کا ضروری ہوگا‘ مثلاً نماز فرض ہے اور فرضیت کا عقیدہ بھی فرض ہے اور اس کا سیکھنا بھی فرض ہے اور انکار کفر ہے۔ اسی طرح مسواک کرنا سنت ہے اور سنت ہونے کا عقیدہ فرض ہے اور سیکھنا سنت اور انکار کرنا کفر ہے اور عملاً ترک کردینا باعث عتاب یا عقاب ہے“
اب امید ہے کہ اس تشریح سے ضروریات دین کی حقیقت واضح ہوگئی ہوگی‘ بات تو بہت لمبی ہوگئی لیکن توقع ہے کہ طالب حق کے لئے نہایت کار آمد ثابت ہوگی اور آج کل جو عام طور سے ایمان وکفر کے قواعد یا مسائل میں عوام کو یا عالم نما جاہلوں کو شبہات وشکوک یا وساوس پیش آرہے ہیں ان کا بھی اس سے تصفیہ ہوجائے گا۔
اس طولانی تمہید کے بعد ان ہی اصول مذکورہ کی روشنی میں ہم نزول مسیح علیہ السلام کے عقیدہ کو پرکھتے ہیں‘ اگرچہ ہمارا اصلی مقصد تو پورا ہوگیا‘ اب طالب حق خود ہی ان اصول اسلامیہ اور قواعد مسلمہ کی روشنی میں تفتیش کرکے مزید ضروریات دین کا سراغ بھی لگا سکے گا ،لیکن تبرعاً چند مختصر گذارشات بھی ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں: ”نزول مسیح علیہ السلام کے تین پہلو ہیں‘ قرآنی حیثیت اس کی کیا ہے؟ حدیثی مرتبہ کیا ہے؟ اور اجماع امت کا فیصلہ اس بارے میں کیا ہے؟ تینوں امور واضح ہونے کے بعد خود بخود یہ چیز اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ عقیدہ ٴ نزول ضروریات دین میں سے ہے یا نہیں۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , صفرالمظفر ۱۴۳۰ھ - فروری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 2

مروَّجہ اسلامی بینکاری اورجمہور علماء کے مؤقف کا خلاصہ


مروَّجہ اسلامی بینکاری اورجمہور علماء کے مؤقف کا خلاصہ
مروَّجہ اسلامی بینکاری اور
جمہور علماء کے مؤقف کا خلاصہ

اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکاری نظام کو ملک کے جمہور اہل فتویٰ،خلاف شریعت قرار دیتے ہیں، اس رائے کے متفقہ اظہار کے لئے ۲۵ شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ بمطابق ۲۸اگست۲۰۰۸ء کو ملک کے چاروں صوبوں کے مشہور و معروف اربابِ فقہ و فتاویٰ کاایک اجتماع منعقد ہوا ، یہ اجتماع شیخ المشائخ استاذ العلماء والمفتیین حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کے زیر صدارت ،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں منعقد ہوا، اجتماع کے شرکاء ،تمام اہل فتویٰ حضرات نے قرآن و سنت ،فقہ و فتاویٰ اور احوال واقعی کی روشنی میں بغور جائزہ لینے کے بعدمروجہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے اپنے جس موٴقف کا اظہار کیا، اس موٴقف کا مختصر خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
دار الافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی ۲۹/شعبان ۱۴۲۹ھ

اسلام کی طرف منسوب ”بینکاری نظام“ کو ہم خالص غیر اسلامی نظام سمجھتے ہیں، بلکہ بعض حیثیتوں سے اس نظام کو روایتی بینکاری نظام سے زیادہ خطرناک اور ناجائز سمجھتے ہیں ،اس نظام کو غیر اسلامی کہنے کی دو بنیادی وجہیں ہیں:
۱…مروجہ اسلامی بینک مجوزہ اسلامی طریقہ ٴ کار پر کار بند نہیں۔
۲…جو مجوزہ طریقہٴ کار برائے تمویل طے پایا تھا ،وہ طریقہ بھی شرعی اعتبار سے کئی نقائص کا حامل ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو:
پہلی وجہ
مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوِّزین نے جو فقہی بنیادیں، مروجہ اسلامی بینکاری کے لئے مسلم بینکاروں کو فراہم کی تھیں اور جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں‘ عملی طور پر مروجہ بینکاری نظام فراہم کردہ بنیادوں پر نہیں چل رہا، بلکہ ان اسلامی بنیادوں کو ان کے مطلوبہ معیارات پر بھی استعمال نہیں کیا جارہا، جس کے نتیجہ میں مروجہ اسلامی بینکاری، روایتی بینکاری سے اپنا جداگانہ اسلامی تشخص قائم کرنے میں شروع سے ناکام چلی آرہی ہے اور ایسے نازک طریقوں پر پیش قدمی کررہی ہے کہ جن طریقوں پر چلتے ہوئے اسلامی بینکاری روایتی بینکاری سے قطعاً ممتاز نہیں ہوسکتی ،جس کی وجہ سے آخری نتیجہ مادی طور پر سودی معاملات سے مختلف نہیں ہو رہا‘ اس پر تین ناقابل تردید شہادتیں ملاحظہ ہوں:
پہلی شہادت
مروجہ اسلامی بینکوں کے مجوزین علماء کرام اورمروجہ اسلامی بینکاری سے وابستہ حضرات یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کی حقیقی اور اصلی بنیادیں ”شرکت اورمضاربت “ہیں اورمروجہ ”مرابحہ واجارہ“ محض حیلے ہیں، جنہیں محدود وقت اور عبوری دور کے لئے مشروط طور پر جائز اور قابل عمل قرار دیا گیا تھا، مروجہ ”مرابحہ واجارہ“ بالاتفاق اسلامی بینکاری کی مستقل مثالی بنیادیں ہرگز نہیں ہیں، بلکہ انہیں مستقل بنیادبنانا بھی سودی حیلہ ہونے کی بناء پر ناجائز اور خلاف شرع ہے، مگر اس کے باوجود ہمارے بینکار حضرات ”شرکت ومضاربت“ کی بجائے مروجہ ”اجارہ ومرابحہ“ پر جم کر بیٹھ چکے ہیں اور ان کے خطرناک ہونے اور سودی حیلہ ہونے اور روایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال ہونے‘ نیز مادی طور پر سودی معاملہ ہونے کے باوجود ان حیلوں کو ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں، کیونکہ مروجہ” اجارہ ومرابحہ“ کوروایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال کرنے سے بعینہ روایتی بینکاری کی شکل وصورت اور خاصیت وافادیت کا نتیجہ برآمد ہوتاہے‘ جو ہر بینکار کے لئے قابل قبول ہے‘ اس کے مقابلہ میں ”شرکت ومضاربت“ کا عنصر اسلامی بینکوں میں قلیل کالمعدوم کے درجہ میں ہے اور نفع و نقصان میں شرکت کے اسلامی اصولوں کی وجہ سے شرکت ومضاربت مروجہ بینکوں کے لئے کسی قسم کی دلچسپی کا ذریعہ نہیں ہیں‘ اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری اپنی فراہم کردہ اصل بنیادوں سے ایسی ہٹی ہوئی ہے کہ اس کا اصل بنیادوں کی طرف بڑھنا” محال“ کے درجہ میں صاف نظر آرہاہے۔کیونکہ اسلامی بینک کی حقیقی بنیادیں ایک طرف جب کہ مروجہ اسلامی بینکاری کا رُخ مخالف سمت میں ہے۔
دوسری شہادت:
یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے پشتیباں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم جن کے فتویٰ اورشخصیت پر اس سلسلہ میں اعتماد کیا جاتا ہے وہ اس بینکاری نظام سے سخت نالاں اور مایوس ہیں جس کا اظہار انہوں نے مختلف تحریروں اور بیانات میں فرمایا ہے، انہی مایوسیوں کے نتیجہ میں وہ اس نظام سے رفتہ رفتہ دورہونے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں اور برملا یہ ارشاد بھی فرماچکے ہیں کہ” مروجہ اسلامی بینکاری کاپہیہ اب الٹا چلنے لگا ہے“۔
(مولانا مد ظلہم کے اس بیان کی کیسٹ اور سی-ڈی ہمارے پاس محفوظ ہے۔)
جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں بیان کیا جاسکتا کہ مروجہ اسلامی بینکاری کو شروع سے غیر اسلامی کہنے والے حضرات کے خدشات اور اندیشے تو بالکل درست ہی ہیں‘ اس پر مستزاد یہ کہ جو حضرات ان بینکوں کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگ ہونے کی توقع کررہے تھے اوراسلامی بینکاری سے نیک خواہشات وابستہ کئے ہوئے تھے، وہ بھی اس کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگی کا تصور اب محض ایک ادھورا خواب سمجھنے پر مجبور ہورہے ہیں، اگر مروجہ اسلامی بینک اپنے مجوزہ مطلوبہ شرعی معیار پر کام کر رہے ہوتے تو ہمارے ان بزرگوں کو مایوسیوں کا سامنا ہوتا ،نہ ہمارے بینکار حضرات کو ان کے شکوے سننے پڑتے۔
تیسری شہادت :
ان لا تعداد عوام الناس اور دانشوروں کی ہے جنہوں نے روایتی اور مروجہ اسلامی دونوں بینکوں سے اپنے معاملات رکھے ،مگر وہ کسی بھی طور پر دونوں کے درمیان کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ فرق بھی تلاش بسیار کے باوجود محسوس نہیں کرپائے‘ حالانکہ اس طبقہ میں ایک عام اکاؤنٹ ہولڈر سے لے کر بڑے سے بڑے اقتصادی ماہرین اور نامور بینکار حضرات تک بھی شامل ہیں ‘ جن کے بارے میں بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بینکاری نظام، اس کی باریکیوں اور اکائیوں سے اتنی گہرائی اور گیرائی کا تعلق رکھتے ہیں کہ اس میدان میں ان کی معلومات کا پہلا زینہ ہمارے جدید اسلامی بینکاروں کی آخری منزل کے بعد شروع ہوتاہے، ان ماہرین نے بینکاری نظام، صرف رسائل وجرائد یا اسباق ودروس کے ذریعہ نہیں سیکھا، بلکہ ان کی زندگی کا کارآمد عرصہ ان بینکوں میں گذرا ہے‘ اس کے باوجود انہیں روایتی اور اسلامی بینکوں کے درمیان چند اسلامی اصطلاحوں کے علاوہ کوئی فرق محسوس نہیں ہوسکا، جو اس بات پر شہادت ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کا عملی طریقہ کار‘ فراہم کردہ اسلامی بنیادوں کی بجائے روایتی بینکوں کے سرمایہ کاری کے طریقوں پر چل رہا ہے‘ اس لئے روایتی اور اسلامی بینکوں میں صرف چند اصطلاحوں کا لفظی فرق ہے ،عملی طریقہ کار اور اہداف واغراض میں دونوں یکساں ہیں۔
دوسری وجہ:
مروجہ اسلامی بینکاری کو خلاف اسلام کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کے لئے فراہم کردہ بنیادیں بھی بایں طور سقم سے خالی نہیں کہ ان بنیادوں کی تطبیق، تشریح ، تعبیر، استدلال اور طرز استدلال میں مروجہ بینکاری کے مجوزین حضرات نے شرعی اعتبار سے خطرناک قسم کی ٹھوکر یں کھائی ہیں۔مثلاً:
۱…ان حضرات کے استدلال اور طرز استدلال میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ بینکاری کے لئے مفید تجارتی شکلوں کو اسلامائز کرنے کے لئے کئی فقہی اصطلاحوں میں قطع وبرید کی گئی ہے، خلاف ضابطہ ضعیف اور مرجوح اقوال پر اعتمادد وانحصار کیا گیا ہے، ایک ہی معاملہ میں شرعی تقاضے پورے کئے بغیر مذہب غیر کی طرف جانے کی روش کو مباح سمجھا گیا ،جوکہ تمام مذاہب کے ہاں تلفیق محرّم(مختلف اقوال کو ملانے کی حرمت) ہوکر بالاجماع باطل ہے، اسی طرح حسبِ منشاء کسی تجارتی شکل کواسلامی شکل ثابت کرنے کے لئے اور اسلامی لبادہ پہنانے کیلئے صحیح ،صریح اور واضح شرعی احکام سے عمداً صرف نظر کرتے ہوئے ،دور ازکار تاویل در تاویل کا طریقہ کار اختیار فرمایا گیا ۔جسے علماء شریعت نے،شریعت کی توہین،تعطیل اور شرعی احکام کا مذاق قرار دیاہے‘ کیونکہ یہ طرز عمل تاویل فاسد کے زمرے میں آتا ہے۔
۲…بینکوں میں رائج کردہ ”مرابحہ و اجارہ“ محض حیلے ہیں، یہ اسلامی تمویلی طریقے بالاتفاق نہیں‘ اس کے باوجود ان حیلوں کو مستقل نظام بنانا‘ ناجائز ہے۔ ایسے حیلوں کے ذریعے انجام پانے والا معاملہ بھی ناجائز ہی کہلاتا ہے۔جیسے امام محمد  کے ہاں ”بیع عینہ“ کا حیلہ ناجائز ہے‘ اسی طرح مروجہ ”مرابحہ و اجارہ“ کے حیلے اور ان کو ذریعہ تمویل بنانا بھی ناجائز ہے۔اسلامی بینکاری کے مجوزین نے اس طرح کے واضح احکام کو تأویل در تأویل کے ذریعے نظر انداز فرمایا‘ جبکہ دوسری طرف اسلامی بینکوں کے مالی جرمانہ کے جواز کے لئے ابن دینار مالکی رحمہ اللہ کے مرجوح متروک کالمعدوم قول پر اعتمادکیا گیا‘ حالانکہ اس قول پر عمل کرنا شرعا ًو اصولاًجائز بھی نہیں تھا،مگر اسلامی بینکاری کے مجوزین نے ان شرعی اصولی نزاکتوں سے قصداً چشم پوشی فرمائی ہے‘ ورنہ یہ واضح احکام ان سے ہر گز پوشیدہ نہیں تھے۔
۳…مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج ”مرابحہ“ او ر”مرابحہ فقہیہ“ میں کوئی مماثلت نہیں،مرابحہ فقہیہ میں ابتدا سے قیمت و ثمن کا متعین ہو کر ذمے میں آنا اور لاگت کا یقینی علم اوروجود ضروری ہے‘ جبکہ بنکوں میں رائج مرابحہ میں بینک ثمن کی ادائیگی پہلے نہیں کرتا یا لاگت کا وجودہی نہیں ہو تا۔ اس لئے مرابحہ بنوکیہ، اصطلاحی مرابحہ تو درکنار، عام کسی بیع کے تحت بھی نہیںآ تا ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے معاملہ کو ”مرابحہ“ کا نام دینا شرعاً خیانت کہلاتا ہے اور ناجائز شمار ہو تا ہے ،مگر مروجہ اسلامی بینکاری میں اسی خیانت کو مرابحہ کے نام سے رواج دیا گیا ہے۔
۴…مروجہ اسلامی بینکوں میں رائجمرابحہ میں بینک کا کاغذی معاہد ہ جس پر پیشگی دستخط ہو چکے ہیں وہی اصل ہے اس کے بعد وکالت کے مختلف مراحل شرعی اعتبار سے وکالت ہرگز نہیں بن سکتے بلکہ لین دین کی ذمہ داری ایک شخص کے گرد گھومنے کی وجہ سے صراحتًا وکالت فاسدہ ہے۔ اس لئے وکالت کا یہ طریقہ کار شرعا محض کاغذوں کی لکیریں اور لفظی ہیراپھیری ہے۔ حقیقت میں ایک ہی فرد بائع اور مشتری بن رہا ہے جو کہ صراحتاً خلاف شرع ہے۔ اس مرابحہ کا شرعی اصطلاحی مرابحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس مرابحہ بنوکیہ خالصتاً سودی حیلہ ہے۔اور ان بینکوں کا نفع ”ربح“ نہیں ”ربوٰ“ ہے۔
۵…مروجہ” اجارہ“ میں عاقدین کا بنیادی مقصد” اجارہ“ کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ خریداری کا معاملہ کرنا مقصود ہو تا ہے۔قاعدہ و قانون کی رو سے حکم، اصل مقصد (بیع) پر ہی لگے گا نہ کہ الفاظ(اجارہ)پر‘اس سے اس معاملہ کو اگر بیع کہا جائے تو یہ بیع مشروط بالاجارہ ہے جوکہ خلاف شریعت ہے۔
۶…مروجہ اجارہ میں اجرت کی شرح کی تعیین اور تناسب کے لئے روایتی سود کی شرح کو معیار بنانا ہی بنیادی طور پر غلط ہے ۔ کیونکہ یہ سودی معاملات کے ساتھ اولاً مشابہت ،ثانیاً اشتباہ بھی ہے۔ دوسرے یہ کہ روایتی سود کی شرح مختلف اوقات میں بدلتی رہتی ہے یا افراط زر کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ایسا اجارہ جس میں اُجرت کی شرح و تناسب یقینی طور پر پیشگی معلوم نہ ہو‘ وہ ناجائز ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اسلامی بینکار حسب عادت یہاں بھی اصل احکام کو چھوڑ کر خلاف شریعت طریقوں کو شرعی جواز فراہم کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔
۷…اسی طرح مروجہ اجارہ یا کسی بھی عقد میں قسطوں کی ادائیگی یا تاخیر کی صورت میں گاہک سے اجباری صدقہ کر وانااور لینا دونوں شرعاً ،عرفاً ،قانوناً اور عقلاً صدقہ نہیں بلکہ جرمانہ ہے جوکہ بلاشبہ ناجائز ہے اورخالص سودی ہے، بلکہ جس فقہی عبارت سے بعض اہل علم نے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے خو د اسی عبارت سے اس جرمانے کا صریح سود ہو نا ثابت ہو تا ہے۔کیونکہ یہ صدقہ بینک کے مقاصد کے لئے بینک کی شرائط اور ترجیحات کی لازمی رعایت کے ساتھ اس کے مجبور کرنے پر گاہک کوبینک کے لئے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے میں بھی مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین کو سہواً یا عمداً بہت بڑا مغالطہ لگا ہے کہ انہوں نے بینک کی ایک غیر شرعی ضرورت کو شرعی ثابت فرمانے کے لئے بہت دور کی بات بہت دور سے ثابت فرمانے کی کوشش فرمائی ہے جس کی بالکل گنجائش نہیں تھی ،حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں جبر ہو‘ وہ صدقہ نہیں۔ جہاں اصطلاحی صدقہ ہو‘ وہاں جبر نہیں ہو سکتا ۔
۸…اسی طرح اجارہ اورمروجہ بینکوں کے دیگر عقود میں ”سیکورٹی ڈپازٹ“کی قانونِ شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔اصطلاحی شرکة و مضاربة ،اجارہ ، مرابحہ وغیرہ یہ سب امانات کے قبیل سے ہیں نہ کہ ضمانات کے قبیل سے،جبکہ سیکورٹی (رہن ) صرف ضمانات پہ لی جاسکتی ہے‘ وہ بھی سیکورٹی (رہن)کے احکام کے مطابق۔ جبکہ ہمارے اسلامی بینکوں میں رائج سیکورٹی نہ رہن ہے نہ قرض ہے نہ امانت ہے ۔بلکہ دوسرے کے مال سے فائدہ اُٹھانے کے لئے خلاف شرع حیلہ اور بہانہ اور تلفیق بھی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ۔
۹…مروجہ اسلامی بینک” شرکت و مضاربت“ کو اصلی حقیقی بنیادیں تسلیم کرلینے کے باوجود وہ بھی ان اصلی بنیادوں پر سرمایہ کاری بھی نہیں کررہے ۔یہی وجہ ہے کہ شرکت و مضاربت کا تناسب، اجارہ و مرابحہ کے مقابلے میں ایک سروے اور محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ صرف پندرہ سے بیس فیصد ہے ،بالفرض اگر پچاس فیصد بھی مان لیا جائے تو ”مااجتمع حلال و حرام الا غلب الحرام الحلال“ (حلال و حرام جب بھی جمع ہوئے حرام حلال پر غالب رہا)کے پیش نظر‘نیز احوال واقعی کے مطابق سرمایہ کاری کے حلال طریقے قلیل کالمعدوم ہوں ،اور غیر شرعی طریقوں کا عنصر زیادہ ہو تو ایسا ملغوبہ طریقہٴ تمویل غیر شرعی ہی کہلا تا ہے۔ اس لئے مروجہ اسلامی بینکوں کے طریقہٴ تمویل کو شرعاً جائز کہنے کی کوئی اصولی گنجائش موجود نہیں‘ اس کے باوجود اسے جائز کہا جاتا ہے اور اس کا جواز جتلایا بھی جاتا ہے۔
۱۰…مروجہ مشارکہ و مضاربہ میں خلاف شرع معاہدات طے ہوتے ہیں ،مثلاً ایک اسلامی بینک میں اکاونٹ کھلوانے والے کو جو فارم پُر کرنا پڑتا ہے اس میں بینک کی شرائط ،پالیسی اور بینک سے متعلق وہ سارے قوانین و اعلانات بلا تفصیل ماننے ہوں گے جو بینک کرے گا۔ نیز جو قواعد اور اعلانات ”بینک دو لت آف پاکستان“ جاری کرے‘ اس کی پابندی کا عہد بھی لیا جاتاہے۔حالانکہ اسلامی بینک کے اعلانات اور پالیسیاں بدلتے رہتے ہیں ،یکساں نہیں ہوتے۔ ایسے مجہول اور غیرمعلوم اعلانات کا گاہک کو پیشگی معاہدے کے ذریعہ پابندبنانا شرعاً جائز نہیں اور مجہول و غیر معلوم شرائط اور ذمہ داریوں والا معاملہ شرعاً فاسد کہلاتا ہے نہ کہ صحیح اور جائز۔
۱۱…اسی طرح مسلما ن گاہک کو ”بینک دولت آف پاکستان“ کے اعلانات اور پالیسیوں کا پابند بنانا بھی بالکل ناجائز ہے‘ کیونکہ اسٹیٹ بینک کا غیراسلامی مزاج اور شرعی احکام کی خلاف ورزی کا معاملہ سورج کی طرح واضح ہے۔
ف
ائدہ:
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ” بینک دولت آف پاکستان“ نے اسلامی بینکوں کو اپنی پالیسیاں، اسلام کے مطابق بنانے اور سرمایہ کاری کرنے کے لئے تحریری اور قانونی طور پر کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کے غیراسلامی مزاج سے قطع نظر ہم ان حضرات کی اس بات کو تسلیم کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے مروجہ اسلامی بینک اپنی اصلی اور حقیقی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے عملاً و قانوناً آزاد ہونے کے باوجوداسلامی بینکاری کی اصلی بنیادوں یعنی ”مشارکہ و مضاربہ“ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کو قصداً و عمداً وُسعت نہیں دے رہے۔ اگر ”بینک دو لت آف پاکستان“ کی طرف سے رکاوٹ بننے کا عذر ہو تا تو بھی کسی حد تک اسلامی بینکاروں کو مجبورتسلیم کرنے کی گنجائش ہو سکتی تھی، جیسا کہ اب تک بعض علمائے امت اس مجبوری کے پیش نظرخاموش انتظار کرتے رہے ہیں۔
۱۲…مضاربہ میں کھاتہ دار ”رب المال“ اور بینک ”مضارِب“ ہوتا ہے ،مال مضاربت میں بینک کا حصہ شرعاً صرف اور صرف حاصل شدہ نفع کی طے شدہ شرح ہے، اس کے علاوہ بینک کے لئے شرعاًاپنے ذاتی انتظامی اخراجات کی مد میں رقم لینا ، اسی طرح مختلف فیسیں لینایاکسی قسم کا معاوضہ اور الاوٴنس، مال مضاربت سے منہا کرنا ناجائز ہے۔ مگر اسلامی بینک مضاربہ فیس وغیرہ وصول کرتے ہیں۔اس کے باوجود مروجہ بینکوں کو اسلامی کہا جاتا ہے جو کہ خلافِ اسلام کو اسلام کہنے کے مترادف ہے۔
۱۳…شرکت و مضاربت میں منافع کی تقسیم کا مجوزہ طریقہٴ کا ربھی ، اسلامی تقاضے پورے نہیں کرتا ‘بلکہ منافع کی حقیقی شرح کے بجائے روزانہ پیداوار کی بنیاد پر یا” وزن “ دینے کے نام سے فرضی اور تخمینی شرح طے اور ادا کی جاتی ہے جو کہ شرکت و مضاربت کے اساسی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔
۱۴…شرکت متناقصہ شرعی اعتبار سے ممنوع مکاسب اور ناجائز بیوع کے زمرے میں داخل ہے۔اس عقد میں صفقة فی صفقہ (معاملہ در معاملہ)”بیع و شرط“اور ” بیع ثنیا“ جیسی متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں‘اس لئے ناجائز ہے۔مگر اس کے باوجو د ان نصوص شرعیہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرکتِ متناقصہ کا جواز بیان فرمایا گیا اور اسلامی بینکوں نے اسے ذریعہٴ تمویل کا اہم ستون بنایا ہواہے۔ شرکت متناقصہ کو اسلامی استقرائی طریقہٴ تمویل کہنے کی بجائے خلاف اسلام کہنا علماء کا فرض منصبی تھا ،مگر بعض لوگوں نے اپنے اس فرض سے قصداً غفلت برتی ہے۔
واضح رہے کہشریعت اسلامیہ اور فقہ اسلامی کے ماہرین کی امانت دیانت اور تدین و تقویٰ اس بات پر ”گواہ“ ہے کہ فقہ اسلامی کے ذکر کردہ واضح احکام ایسے ہیں کہ ان کو رد کرنے کے لئے کو شش کرنا یا کسی قسم کی تاویل کرنا ، تاویل فاسد کے زمرے میں آتا ہے ،بلکہ یہ نصوص شرعیہ کے ساتھ کھیل اور مذاق ہے۔
۱۵…مروجہ اسلامی بینکوں میں شخص قانونی(Juristic Person)اور اس کی محدود ذمہ داری کا ظالمانہ، غیرمنصفانہ، اور استحصالی تصوربھی کار فرما ہے ،بلکہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جبکہ شخص قانونی اوراس کی محدود ذمہ داری کا تصور، بینک (شخص قانونی)اور اس کے اعضاء و جوارح کو غیر محدود نفع پہنچانے اور نقصان کی بھاری ذمہ داریوں سے بچانے کے لئے ناروا اور خلاف شرع تصور ہے،اس تصور میں شخص قانونی کے اعضاء و جوارح کے لئے بہترین فائدہ اور دائنین کا بدترین استحصال پایا جاتا ہے۔کیونکہ جب تک منافع کی ریل پیل ہو،بے جان” شخص قانونی“ حقیقی انسان سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور جب نقصان اُٹھانے کی نوبت آجائے تو شخص قانونی محدود ذمہ دار ی کا کفن پہن کر موت کے کنویں میں اُترجاتاہے۔ اس تصور کے خلافِ اسلام ہونے کے علاوہ اس میں انسانیت کی تو ہین بھی ہے۔ کیونکہ یہاں حقیقی انسان کو فرضی انسان کا نوکر چاکر بنانالازم آتا ہے۔اس کے باوجود اس غیر اسلامی تصور کو اسلامی ثابت فرمانے کے لئے بے پناہ” علمی بچتیں“ صرف فرمائی گئی ہیں اور اس رائے پر ایسے استدلالات کیے گئے ہیں جن کی اصولاً گنجائش ہر گز نہیں تھی۔
۱۶…مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین اور وابستہ گان خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات خالص غیر سودی حلال اور جائز نہیں ہیں‘ بلکہ بعض معاملات جائز اوربعض ناجائز بھی ہیں۔ ایسے معاملات کم از کم مشتبہ تو ضرور ہوتے ہیں۔ایسے معاملات پر اصول شریعت کے مطابق بالاتفاق جواز اور حلت کے بجائے ،عدم جواز اور عدم حلت کا حکم لگایا جاتا ہے ،یعنی اگر بالفرض مروجہ اسلامی بینکوں کے بعض معاملات کو جائز تسلیم کر لیا جائے تو بھی مطلق جواز بیان کرنے کی گنجائش نہیں نکل سکتی ،چنانچہ ایسے معاملات کے بارے میں مخدوم العلماء حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا ایک فتویٰ بطور نمونہ ملاحظہ ہو جو انہوں نے” غیر سودی کاونٹروں“کے حکم کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے۔ ”اس تجزیے سے یہ بات واضح ہوئی کہ فی الحال ان ”غیر سُودی کاونٹروں“کا کاروبار جائز اور ناجائز معاملات سے مخلوط ہے ،اور اس کا کچھ حصہ مشتبہ ہے۔ لہٰذا جب تک ان خامیوں کی اصلاح نہ ہو، اس سے حاصل ہونے والے منافع کو کلی طور پر حلال نہیں کہا جاسکتا ،اور مسلمانوں کو ایسے کا روبار میں حصہ لینا درست نہیں۔“
(فقہی مقالات :۲/۲۶۴ ط: میمن پبلیشرز)
اس فتویٰ کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ ایسے معاملات کو جواز کے محدود عنصر پر مشتمل ہونے کے باوجود جائز کہنے یا جائز بتانے اور معمول بنانے کی گنجائش شرعاً نہیں ہوا کرتی ،اور مسلمانوں کے لئے ایسے معاملات میں حصہ لینا جائز نہیں ہوتا‘ مگر مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات کو اس کے باوجود جائز کہا اور جتلایا جاتا ہے۔
حاصل یہ کہ مروجہ اسلامی بینکاری کے جو تخیلاتی خاکے”اسلامی بینکینگ “ کے مجوزین علماء کرام نے وضع کئے ہیں وہ خاکے بھی خلاف شرع ہیں ان خاکوں میں اسلامی رنگ کی بجائے روایتی بینکاری کا رنگ ہی نمایاں ہے ،اوران خاکوں میں کئی شرعی نقائص بھی پائے جاتے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے ان بینکوں کا عملی طریقہٴ کار ان فرضی تخیلاتی خاکوں کے مطابق بھی نہیں ہے ،اس لئے ان مروجہ اسلامی بینکوں کو اسلامی بینک کہنا بھی جائز نہیں، کیونکہ زیادہ سے زیادہ مروجہ اجارہ و مرابحہ کے حیلوں کی وجہ سے ”حیلہ بینک“ کہہ سکتے ہیں،اور حیلہ الگ چیز ہے اور حقیقت اسلام الگ چیز ہے۔
چنانچہ انہی وجوہات کی بناء پر مروجہ اسلامی بینکاری کی بابت ملک کے جمہور علمائے کرام اور مفتیان کرام کا متفقہ فتویٰ یہ ہے :
”گذشتہ چند سالوں سے بعض اسلامی شرعی اصطلاحات کے نام سے رائج ہونے والی بینکاری کے معاملات کا قرآن و سنت کی روشنی میں ایک عرصے سے جائزہ لیا جارہا تھا اور ان بینکوں کے کاغذات ،فارم اور اصولوں پر غور و خوص کے ساتھ ساتھ اکابر فقہاء کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا ۔بالاخر اس سلسلے میں حتمی فیصلے کے لئے چاروں صوبوں کے علمائے کرام کا ایک اجلاس موٴرخہ ۲۸اگست ۲۰۰۸ء بمطابق ۲۵ شعبان المعظم ۱۴۲۹ ھ بروز جمعرات حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کے زیر صدارت جامعہ فاروقیہ کراچی میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں شریک مفتیانِ عظام نے متفقہ طورپر فتویٰ دیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے ،لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا شرعی سمجھ کر جو معاملات کئے جاتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں ۔ ․․․․اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہے ۔“
بایں معنیٰ اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو چکی کہ مروجہ اسلامی بینکاری درحقیقت غیر اسلامی بینکاری ہے اور لوگ اسے اسلامی بینکاری سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاملات کررہے ہیں ،اس لئے علماء امت مروجہ اسلامی بینکاری کو روایتی بینکاری کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ناجائز اور خلاف شرع معاملے کو ناجائز سمجھتے ہوئے کرنا کم درجہ کا جرم ہے اور اسے جائز سمجھتے ہوئے کرنا بڑے درجے کا جرم ہے ،روایتی بینکار، سودی معاملات کرتے ہیں مگر سودی معاملات سمجھتے ہوئے، جبکہ مروجہ سلامی بینکار انہی جیسے سودی معاملات اور خلاف شرع معاملات کو غیر سودی اور شرعی سمجھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں،اور یہ پہلے کی بنسبت ایمان اور آخرت کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے ،کیونکہ روایتی بینکار مسلمان خود کو شرعی مجرم اور گنہگار سمجھتے ہوئے اپنے ناجائز اور سودی معاملات کی معافی کے لئے تو بہ کے دروازے تک پہنچ سکتا ہے، اسے تو بہ کی توفیق مل سکتی ہے‘ جبکہ مروجہ اسلامی بینکاری میں اپنے خلاف شرع معاملات پر نہ تو بہ کا داعیہ پیدا ہو گا ،اور نہ ہی توبہ کی توفیق میسر آسکتی ہے ،کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ،اللہ تعالیٰ تو بہ اور مغفرت سے اسی کو نوازتے ہیں جو محتاج بن کر اللہ کی طرف متوجہ ہو ،
اس لئے مسلمانوں پر واجب اور لازم ہے کہ دیگر حرام اور خلاف شرع امور کی طرح اسلام کی طرف منسوب مروجہ اسلامی بینکاری سے بچنے کا بھی بھر پور اہتمام کریں ۔اور اپنے سابقہ معاملات پر توبہ و استغفار کریں۔بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے
۔واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب وإلیہ المرجع والمآب۔
وصلّی اللّٰہ وسلّم علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ اٰ لہ وصحبہ وأتباعہ أجمعین ۔

Monday, 27 June 2011

المہد العالم الاسلامی حیدر آباد انڈیا میں لکھے گئے سندی مقالات


قرآن مجید میں عبادات کے احکام
قرآن و حدیث اسلام کے دو بنیادی مصادر ہیں، اسلامی احکام کے استنباط و استخراج میں ان دونوں مصادر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ، تاہم اسلام کے بہت سے احکام ایسے بھی ہیں جو صریح نصوص کے بجائے دلالۃ النص، اشارۃ النص یا اقتضاء النص کے ذریعہ ثابت کئے جاتے ہیں ؛ چنانچہ زیرنظر مقالہ میں قرآن مجید میں بیان کئے گئے عبادات یعنی طہارت، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے ان احکام کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، جن کا ثبوت صریح آیات سے ہو، واقعی یہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے، یہ مقالہ معہد کے ایک فاضل محمد الیاس امیر بغدادی نے اپنے سندی سال کے لئے مرتب کیا ہے، مقالہ تقریباً ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، مقالہ کی تیاری میں آیات احکام کے تفسیری مراجع کے علاوہ حدیث و فقہ کے اہم مراجع سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، موصوف نے ۱۴۲۳ ھ معہد کے تخصص فی التفسیر کے سال دوم سے فراغت حاصل کی اوراسی سال یہ مقالہ مرتب کیا ہے۔
اقسام القرآن
قرآن مجید میں بہت سی چیزوں کی قسمیں کھائی گئیں ہیں، ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ، ان چیزوں کو مؤکد کرنا اور ان کی اہمیت بیان کرنا مقصود ہے ؛ چنانچہ ان چیزوں کی اہمیت کے پیش نظر ضرورت تھی کہ اس طرح کی آیتوں کو جمع کردیا جائے اوراس طرح کے تاکیدی احکام کی قدرے وضاحت بھی کی جائے ، عربی زبان میں تو اس موضوع پر کام ہوچکا ہے ؛ لیکن اردو زبان میں اس سلسلہ میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا تھا ، اسی پس منظر میں معہد کے شعبہ تفسیر کے ایک فاضل محمد صلاح الدین اشاعتی کو ۱۴۲۳ ھ میں یہ کام سپرد کیا گیا اور انھوں نے کام کو کیا، اس مقالہ میں قسم کی اہمیت، قرآن و حدیث میں قسم سے متعلق ہدایات، جن اشیاء کی قسم کھائی گئی ہے ان کی اہمیت، جن چیزوں پر قسم کھائی گئی ہے دین و شریعت میں ان کی عظمت و اہمیت وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ، یہ مقالہ تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے، جس کی طباعت نہیں ہوسکی ہے ۔
امثال القرآن
کسی بات کو اگر مثال کے ذریعہ واضح کیا جائے تو اسے سمجھنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے، اسی لئے درس و تدریس کے میدان میں علمی دقائق کو سمجھانے کے لئے اس سے کافی کام لیا جاتا ہے ، قرآن پاک جس کا نزول اسی لئے ہوا کہ بندے اس کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں، اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس انسانی مزاج کی رعایت کی ہے اور بڑے بڑے حقائق کو چھوٹی چھوٹی مثالوں کے ذریعہ واضح فرمایا اور اس کا مقصد خود اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے تمہارے غور وفکر کے لئے ایسا کیا گیا ہے : ''وتلک الأمثال نضربھا للناس لعلھم یتفکرون''۔ (الممتحنہ:۲۱)
قرآن پاک کی اس طرح کی آیتوں کو منتخب کرکے اس کے ادبی اور تذکیری پہلو کو واضح کرنا یقیناًایک اہم کام تھا ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل محمد عمر فاروق فلاحی نے ''أمثال القرآن'' کو ہی اپنے مقالہ کا موضوع بنایا اور تقریباً ۲۳ بڑی آیتوں کو منتخب کرکے تفسیر کے ۱۹ اہم مراجع سے استفادہ کرتے ہوئے اچھا مواد جمع کردیا ہے، یہ مقالہ ۱۲۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۴ ھ کی ہے۔
امام ابوبکر جصاص رازی کی ''احکام القرآن'' کی فقہی ابواب پر ترتیب
قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ہدایت نامہ ہے، دنیا و آخرت کی کامیابی اسی کے اصولوں کے مطابق چل کر حاصل کی جاسکتی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ لوگوں کے سامنے تلاوت قرآن و تشریح آیات کی جائے : '' یتلو علیھم آیاتہ'' (آل عمران :۱۶۴) ''لتبین للناس مانزل إلیھم'' (النحل : ۴۴) آپ ا کی اُمت کے علماء نے بھی شروع ہی سے اس جانب خصوصی توجہ دی اورالحمدللہ تفسیر قرآن پر ایک پورا کتب خانہ تیار ہوچکا ہے، تفسیر قرآن میں علماء نے اپنے اپنے علمی ذوق کے مطابق آیات کی تفسیر پر خصوصی توجہ دی ہے، مثلاً لغت و بلاغت کے پہلو سے ''کشاف'' کلامی مباحث کے تعلق سے تفسیر رازی وغیرہ اسی طرح بہت سی تفسیریں ایسی ہیں جن میں یا تو فقہی احکام پر خصوصی توجہ دی گئی ہے یا صرف انھیں آیات کی تفسیر و تشریح کی گئی ہے جن کا تعلق فقہی احکام سے ہے ؛ چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور عالم دین امام ابوبکر جصاص رازی (متوفی ۳۷۰ھ) کی کتاب ''أحکام القرآن'' فقہی احکام سے متعلق آیات کی تفسیر وتشریح میں بہت اہم مانی گئی ہے ؛ بلکہ بعض مدارس میں اس کے کچھ مباحث نصاب درس میں بھی شامل ہیں، ذیل میں ان فضلاء کے نام اور کام کی نوعیت ذکر کی جاتی ہے ۔
۱۔
اقبال احمد ندوی
قسم العبادات
فراغت : ۱۴۲۶ھ
۲۔
محمدناصر سجاد قاسمی
؍؍
فراغت : ۱۴۲۷ ھ
۳۔
محمد میران مظاہری
احوال شخصیہ
فراغت : ۱۴۲۳ھ
۴۔
عبدالعزیز کوثر قاسمی
معاملات
فراغت : ۱۴۲۸ھ
۵۔
ہارون رشید ندوی
؍؍
فراغت : ۱۴۲۶ھ
انسانی بنیادی حقوق اور قرآنی تعلیمات
اسلام کی آمد سے پہلے انسانی حقوق مفقود تھے، غلاموں یتیموں اور عورتوں کو حقوق نہیں ملتے تھے ؛ لیکن اسلام سارے عالم کے لئے پیام رحمت بن کر آیا، جس نے زندگی کے تمام شعبہ جات کی اصلاح کی اور تمام لوگوں کو عادلانہ حقوق دینے کے ساتھ ظلم و نا انصافی سے گریز کرنے کی تلقین کی ؛ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس طرح کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، اسی پس منظر میں مولوی محمد عمر اشاعتی نے ''انسانی بنیادی حقوق اورقرآنی تعلیمات'' کے عنوان سے ایک مقالہ ترتیب دیا ہے ، جس میں انسانی حقوق سے متعلق قرآنی تعلیمات کی تشریح کی گئی ہے ، موصوف کا مقالہ ۱۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۸ ھ میں ہے ۔
۲۴
آیتوں کا ہندی ترجمہ
اسلام دشمن طاقتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ؛ تاکہ لوگ اسلام کے قریب نہ ہوجائیں ، اِدھر کچھ سالوں سے اعداء اسلام نے اپنے تمام تر وسائل کو اسلام دشمنی میں جھونک دیا ہے۔
ہندوستان میں بھی چند انتہاپسند تنظیمیں ہیں جنھوں نے ایسا لگتا ہے کہ اسلام کو بدنام کرنے کی قسم کھا رکھی ہو ؛ چنانچہ ہندؤں کی ایک بدنام زمانہ دہشت پسند تنظیم نے ایک موقع پر قرآن کی ۲۴ آیتوں کی غلط تشریحات پر مشتمل ایک رسالہ تیار کیا اور اسلامی تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ، اسی پس منظر میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے اس موقع سے ان آیتوں کی صحیح تشریح عوام کے سامنے پیش کرنا مناسب سمجھا ؛ تاکہ اسلامی تعلیمات سے متعلق لوگوں کا ذہن صاف رہے ،آپ کی یہ تشریحات روزنامہ ' منصف ' (حیدرآباد ) میں قسط وار چھپی، اور بعد میں مجموعی شکل میں بھی ،اسی کا ہندی ترجمہ معہد کے ایک طالب علم عبدالحسیب فلاحی نے کیا ہے ، یہ ترجمہ تقریباً ۱۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۵ ھ میں معہد سے فارغ ہوئے۔
التحقیق والتعلیق علی التفسیرات الاحمدیہ
ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک مختلف علماء نے مختلف انداز سے قرآن مجید کی تفسیریں لکھی ہیں، ان ہی میں سے ملاجیون کی مشہور تصنیف ''التفسیرات الاحمدیہ'' بھی ہے ، یہ تفسیر قرآن مجید کی مکمل تفسیر نہیں ہے ؛ بلکہ اس میں صرف آیات احکام کی توضیح کی گئی ہے ، یعنی ان آیات کو خاص توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے ، جن سے فقہی مسائل واضح ہوتے ہیں، اس تفسیر میں قرآن مجید کی ۶۱ سورتوں سے ۲۷۷ احکام پر بحث کی گئی ہے ، مصنفؒ نے اس تفسیر میں قرآن وحدیث اور کتب فقہ سے بھی استفادہ کیا ہے ؛ مگر چوں کہ اس میں دلائل کے حوالے نہیں ذکر کئے گئے ہی؛ اس لئے مآخذ سے مراجعت میں کافی دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اسی پس منظر میں اس کتاب پر تحقیق و تعلیق کی ضرورت محسوس کی گئی ؛ چنانچہ معہد کے فقہ سال دوم ۱۴۲۶ ھ کے پانچ اسکالرس نے یہ کام انجام دیا، ربع اول کی تحقیق مولانا فہیم احمد قاسمی ، ربع دوم کی تحقیق شیخ فرقان احمد فلاحی اور ربع سوم کی تحقیق مولانا احمد علی قاسمی نے کی ہے، ربع چہارم کی تحقیق مولوی انعام اللہ قاسمی اور ظفر احمد فلاحی نے کی ہے، ان پانچوں اسکالرس کے کاموں کے صفحات کی تعداد پندرہ سو کے قریب ہے ، اس تحقیق و تعلیق میں جن اُمور پر خاص توجہ دی گئی ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں اور مصنفؒ نے ان میں سے کسی ایک کو ہی ذکر کرنے پر اکتفا کیا یا راحج قول کو ذکر نہیں کیا تو وہاں دیگر اقوال بھی ذکر کردیئے گئے ہیں اور راحج قول کے ذکر کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، مثلاً مصنفؒ نے '' فتحاً قریباً''کی تفسیر میں فتح سے مراد فتح خیبر کو ذکر کیا ہے ، پھر کسی اور قول کو ذکر نہیں کیا ؛ حالاں کہ اس میں تین اقوال ہیں (۱) فتح مکہ (۲) فتح خیبر (۳) صلح حدیبیہ ، راحج قول یہ ہے کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ، اسی طرح جن الفاظ کے حل کرنے کی طرف صاحب تفسیر کی توجہ نہ ہوسکی تھی ، ان اسکالرس نے ان الفاظ کالغوی حل بھی پیش کیا ہے ۔
تحقیق و تعلیق علی أحکام القران للجصاصؒ
قرآن پاک اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے ہدایت نامہ ہے، دنیا و آخرت کی کامیابی اس کے اصولوں کے مطابق چل کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے، حضور پاک ا کی نبوی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ لوگوں کے سامنے تلاوت قرآن و تشریح آیات کی جائے : ''یتلو علیھم آیاتہ''(آل عمران : ۱۶۴) '' لتبین للناس مانزل إلیھم''(النحل : ۴۴)آپ ا کی اُمت کے علماء نے بھی شروع سے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا اور الحمدللہ تفسیر قرآن پر ایک پورا کتب خانہ تیار ہوچکا ہے ، تفسیر قرآن میں علماء نے اپنے اپنے علمی ذوق کے مطابق آیات کی تفسیر میں خصوصی توجہ دی ؛ چنانچہ بہت سی تفسیریں ایسی ہیں جن میں فقہی احکام پر خصوصی توجہ دی گئی اور انھیں آیات کی تفسیر و تشریح کی گئی ہے جن کا تعلق فقہی احکام سے ہے، چوتھی صدی ہجری کے مشہور عالم دین امام ابوبکر جصاص رازی (متوفی ۳۷۰ھ) کی کتاب ''احکام القرآن'' اس حوالہ سے بہت اہم مانی گئی ہے ، یوں تو یہ کتاب عبدالسلام محمد علی شاہین کی تحقیق کے ساتھ چھپ چکی ہے ؛ لیکن موصوف نے صرف آیات کی تخریج اور ضبط نصوص کا کام انجام دیا ہے ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل حافظ محمد ضیاء القمر فلاحی نے اس کتاب پر تفصیلی انداز سے کام کا آغاز کیا تھا ، موصوف کے کام کا انداز یہ تھا کہ انھوں نے جگہ جگہ ذیلی عنوانات قائم کئے، آیات و احادیث کی تخریج کی، فقہی مسائل کی دوسرے اہم مراجع سے توثیق کی اور مشکل الفاظ کی تشریح کی ؛ لیکن یہ کام اپنے پھیلاؤ کی وجہ سے پورا نہیں ہوسکا ، کام مکمل ہونے کے بعد کئی جلدوں میں اس کی طباعت متوقع ہے ، مؤلف نے معہد سے ۱۴۲۲ھ میں فراغت حاصل کی ہے ۔
جمع قرآن اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا مفصل جائزہ
قرآن حکیم کی حفاظت کی ذمہ داری خود ذات باری تعالیٰ نے لی ہے ؛ چنانچہ قرآن پاک اپنے نزول کے زمانے سے اب تک من و عن اسی طرح محفوظ چلا آرہا ہے جیسا کہ اللہ نے اس کو نازل فرمایا تھا، خود حضور ا کے زمانے میں زبانی یاد کرنے والوں کے علاوہ باقاعدہ جو حضرات کتابت وحی کے لئے متعین تھے ان کی تعداد کم و بیش ۴۱ بتائی جاتی ہے، انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی چیز کا محفوظ ہونا اتنا بے غبار ہو جیسا کہ قرآن پاک ہے ؛ لیکن اس کے باوجود بعض مستشرقین نے اس تعلق سے شبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ؛ چنانچہ اسلامی علوم کے ماہرین نے اس کا بھرپور جواب دیا ہے اور مستقل اس عنوان کے تحت یا علوم قرآن کے مباحث کے ضمن میں جمع قرآن کے تعلق سے بحث کی ہے، عربی میں اس عنوان کے تحت کافی لٹریچر موجود ہے، اردو میں ''تدوین قرآن از مناظر احسن گیلانی'' اسی طرح علوم القرآن از مولانا تقی عثمانی مدظلہٗ میں بھی اس سلسلہ میں مواد موجود ہے ؛ لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ اس سلسلہ میں تفصیلی انداز میں تحقیق کی جائے ، اسی پس منظر میں معہد کے ایک فاضل مولانا یحییٰ قمر فلاحی کو ''جمع قرآن ۔۔ اور اس پر ہونے والے اعتراضات'' کے عنوان سے ایک مقالہ کا کام سپرد کیا گیا اور انھوں نے بڑی حد تک اسے انجام دے دیا ؛ البتہ یہ مقالہ ابھی طبع نہیں ہوا ہے ، معہد سے موصوف کی فراغت ۱۴۲۶ ھ کی ہے۔
قرآنی اصطلاحات
قرآن مجید میں بعض الفاظ بطور اصطلاحات کے استعمال ہوتے ہیں، ان الفاظ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ؛ چنانچہ انیسویں صدی میں عالم عرب اور برصغیر کے بعض اہل علم کے درمیان کچھ اصطلاحات کی بابت علمی اختلافات بھی ہوئے ہیں، اسی پس منظر میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہٗ ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد نے شعبہ قرآن کے ایک فاضل مولانا مبین احمد فلاحی کو ۱۴۲۳ ھ میں قرآن مجید کی ۲۵ منتخب اصطلاحات پر کام کرنے کو کہا گیا ؛ چنانچہ انھوں نے قرآن و حدیث ، لغت اور مفسرین وشراح حدیث کی آراء سے استفادہ کرتے ہوئے ان اصطلاحات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ، اس مقالہ کی ضخامت ( ۲۰۰ ) صفحات ہے ، جس کی طباعت ابھی نہیں ہوسکی ۔
مامورات قرآن مجید
دین دراصل اوامر و نواہی کا نام ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان کو ''اوامر'' یا ''مامورات'' کہا جاتا ہے اور جن چیزوں سے منع فرمایا ہے ، انھیں ''نواہی'' کہا جاتا ہے ،ڈ اللہ تعالیٰ نے کہیں پر خطاب ایمان والوں سے کیا ہے اور کہیں پر عام خطاب ساری انسانیت کے لئے ہے تو قرآن مجید میں جتنے مامورات ہیں ان کو محمد شرف الدین عمران شرفی نے جمع کردیا ہے ، آیات کو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان آیات کا ترجمہ اور تشریح بھی کی ہے ، موصوف کی یہ کاوش ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے، موصوف نے ۱۴۲۲ھ میں المعہد کے شعبۂ تخصص فی القرآن دوم سے فراغت حاصل کی ہے۔
معاشرتی زندگی سے متعلق قرآنی تعلیمات
معاشرتی زندگی سے متعلق اسلام کی تعلیمات پر اگر عمل پیرا ہوجائے تو ایسا صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں ہر طرف امن و سکون کی فضاء قائم رہتی ہے، عفت و پاکدامنی کا چلن ہوتا ہے، حقوق و فرائض کی ادائیگی کا شعور بیدار رہتا ہے۔
یورپ آج اپنی تمام تر صنعتی ترقیوں کے باوجود معاشرتی نظام میں جس بحران کا شکار ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے، وہاں خاندانی نظام مکمل طور سے بکھراؤ کا شکار ہے، بے حیائی و بدچلنی عام ہے، جنسی استحصال کی شرح روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے ، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ معاشرتی زندگی کے لئے یورپ کے پاس کوئی آئیڈیل اور نمونہ نہیں ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرتی زندگی سے متعلق اسلامی تعلیمات عصری اُسلوب میں پیش کیا جائے تاکہ یہ چیز غیروں کے لئے اسلام سے تعارف کا ذریعہ بنے ، معاشرتی زندگی سے متعلق بہت سی اہم کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جس میں '' معاشرتی زندگی دین فطرت کی روشنی میں'' از مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی دامت برکاتہم نہایت اہم ہے۔
معہد کے ایک فاضل محمد ذبیح اللہ قاسمی نے بھی ''معاشرتی زندگی سے متعلق قرآنی تعلیمات'' کے عنوان سے ایک مقالہ مرتب کیا ہے، مقالہ ۲۴۳ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف نے مقالہ میں تفسیر، حدیث اور فقہ اسلامی کے اہم مراجع سے استفادہ کیا ہے، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۸ ھ کی ہے۔
منہیات قرآن
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن مجید کو نازل فرمایا اور بندوں کی ہدایت کے لئے بہت سے احکام نازل فرمائے ہیں، ان احکام میں کچھ تو وہ ہیں جن میں کسی کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، ان کو اوامر کہا جاتا ہے اور کچھ وہ ہیں جن میں کسی کام سے ممانعت آئی ہے ، ان کو منہیات کہا جاتا ہے ؛چنانچہ قرآن پاک کی منہیات سے متعلق جو آیات ہیں ان کو مولانا فہیم الدین رشادی نے جمع کیا ہے۔
مولانا کا یہ سندی مقالہ ہے ، جسے انھوں نے ۱۴۲۲ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی التفسیر کے لئے لکھا تھا ، اس مقالہ میں سب سے پہلے آیات منہیات اور ان کے تراجم پیش کئے گئے ہیں ، پھر مختصر تشریح کی گئی ہے ، پھر ان آیات سے متعلق مفسرین اور فقہاء کی آراء کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ، اس مقالہ کی ضخامت ( ۲۵۰ ) صفحات ہے ۔
ابن شہاب زہریؒ اور مستشرقین
روایت حدیث میں جو اہمیت عہد صحابہ میں حضرت ابوہریرہ ص کو حاصل ہے ، وہی درجہ عہد تابعین میں ابن شہاب زہریؒ کا ہے ، مستشرقین نے احادیث کو ضعیف و نامعتبر ثابت کرنے کے لئے ان دونوں اہم شخصیتوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا ہے اور ان کی پاکیزہ زندگی پر غبار ڈالنے کی کوشش کی ہے ، اسی پس منظر میں حضرت ابوہریرہ صکی حیات پر حضرت الاستاذ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ نے ممتاز فاضل مولانا سید حسنین احمد ندوی سے تفصیلی کام کرایا ، جو معہد کے زیراہتمام کتب خانہ نعیمیہ دیوبند سے شائع ہوچکاہے اور ابن شہاب زہریؒ کے سلسلہ میں آپ نے شعبۂ حدیث میں زیرتعلیم ایک دوسرے مولانا فاضل شاہ عالم فلاحی کو کام کرنے کا حکم دیا ؛ چنانچہ انھوں نے بڑی محنت سے اس کام کو انجام دیا ہے ؛ لیکن ابھی یہ مقالہ مکمل نہیں ہوسکا ہے ، اس مقالہ میں ابن شہاب زہریؒ کی حیات، ان کی خدمات ، ان کے بارے میں ان کے معاصرین کی آراء اور ان پر کی جانے والی بے جا اور نامعقول جرح کے رد وغیرہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
احادیث نبوی پر عقلی شبہات
اسلام میں جس طرح جان و مالاور عزت و آبرو کی اہمیت ہے ، اسی طرح عقل کی بھی بڑی اہمیت ہے ، اسی اہمیت کا نتیجہ ہے کہ قرآن وسنت میں عقل و فہم، سوجھ بوجھ اور دور اندیشی کو مختلف انداز میں سراہا گیا ہے ، قرآن پاک میں جگہ جگہ ''أفلا یعقلون'' ، ''أفلا یتدبرون'' ، ''فھم لایعقلون'' جیسے الفاظ سے عقل و شعور کو بیدار کیا گیا ہے؛ لیکن اس کی ایک حد ہے اوروہ حد وحی الٰہی ہے؛ جہاں پر عقل کی پرواز ختم ہوجاتی ہے ؛ لہٰذا جس جگہ پر وحی الٰہی آتی ہے وہاں عقل کا استعمال کرنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کی روشنی میں چراغ جلانا اسلام کا نظام ، زندگی کے ہر شعبہ پر مشتمل ہے اور اس کا ہر حکم مستحکم اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ؛ اس لئے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، اس کے باوجود اس میں شبہ کرنا یقیناًبے عقلی و گمراہی کی دلیل ہے ۔
اسی پس منظر میں مولانا محمد نسیم اختر ندوی نے احادیث نبوی پر عقلی شبہات کے عنوان سے ایک مقالہ تیار کیا ہے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ان اقوال پر روشنی ڈالی ہے ، جو بظاہر عقل کے خلاف معلوم ہوتے ہیں ، اس مقالہ کو تیار کرنے میں موصوف نے تفسیر و احادیث کے علاوہ عقائد کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے ، موصوف کا یہ مقالہ تقریباً سو۱۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۵ ھ میں معہد کے شعبہ حدیث میں داخل تھے۔
أقوال سید البشر فی إثبات عذاب القبر
اہل سنت والجماعت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ عذاب قبر برحق ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے اور اُمت سے آپ ا کا ارشاد ہے کہ عذابِ قبر سے پناہ مانگو ، عذاب قبر سے متعلق ایسی صاف اور صریح روایات ہونے کے باوجود بعض لوگوں نے عذاب قبر سے انکار کیا ہے ، اسی پس منظر میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ عذاب قبر سے متعلق جتنی احادیث ہیں ان سب کو ایک جگہ جمع کردیا جائے ؛تاکہ ان احادیث کو پڑھ کر عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کریں اور ان چیزوں سے بچیں جن کی وجہ سے خاص طور پر عذاب قبر کی وعید آئی ہے ، اس اہم موضوع پر مولوی محمد عرفان نے قلم اٹھایا اور عذاب قبر سے متعلق تمام احادیث کو جمع کردیا ہے ، موصوف نے احادیث کو جمع کرنے میں صحابہ کے نام کا اعتبار کرتے ہوئے ابجدی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے ، نیز جو احادیث ائمۂ فن کے نزدیک کسی اعتبار سے ضعیف ہیں ، ان کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے ، موصوف کی یہ کاوش تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۷ ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الحدیث سال دوم میں داخل تھے ۔
احادیث احکام کے چند رُواۃ اور ان کے درجات
اس میں کوئی شک نہیں کہ روایت بیان کرنے والوں کے احوال کی تحقیق پر ہی اس کی صحت و ضعف کا دار و مدار ہوتا ہے ؛ چنانچہ اسی کے پیش نظر مولانا محمد منیرالحق قاسمی نے بعض راویوں کے درجات کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے ، راویوں کے نام الف بائی ترتیب سے ذکر کئے ہیں اور پھر ان پر جرح و تعدیل کے سلسلہ میں تفصیلی بحث کی ہے ، موصوف نے اس مقالہ کو تیار کرنے میں اسماء رجال کی متعدد کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف کا مقالہ تقریباً ۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۴ ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الحدیث کے سال دوم میں داخل تھے ۔
چند فضیلت والے دنوں اور راتوں سے متعلق احادیث
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور پھر اس میں طرح طرح کی مخلوقات کو پیدا کیا، چاند، سورج اور ستارے پیدا کئے ، اللہ تعالیٰ نے دن اور رات میں سے بعض دنوں کو دوسرے دنوں پر فضیلت دی اور راتوں میں سے بعض راتوں کو دوسری راتوں پر، جیسے کہ شب قدر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : '' لیلۃ القدر خیرمن الف شھر'' ۔۔۔ کہ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔۔۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں کو دوسرے دنوں پر ایک فوقیت حاصل ہے ، اسی پس منظر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے خاص دنوں اور راتوں کے جو فضائل بیان کئے ہیں ان سب کو مولانا فرقان احمد فلاحی نے جمع کیا ہے اور ان تمام احادیث کی تخریج بھی کی ہے ، موصوف کا یہ مقالہ تقریباً ۸۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۷ھ میں شعبہ حدیث میں داخل تھے ۔
تخریج أحادیث مراقی الفلاح
''نورالإیضاح'' فقہ حنفی کی مشہور ترین کتابوں میں سے ہے، برصغیر کے اکثر مدارس میں یہ کتاب ابتدائی درجوں میں پڑھائی جاتی ہے ، اس کی ایک شرح مراقی الفلاح (شیخ حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی الحنفی متوفی ۱۰۶۹ کی ) ہے ، مراقی الفلاح میں واقع احادیث کی تخریج ایک اہم علمی کام تھا ؛ چنانچہ معہد کے تین فضلاء محمد عرفان ندوی ، عمران عبداللہ اور پرویز عالم ندوی نے مل کر اس اہم کام کو انجام دیا، احادیث کی تخریج کتب ستہ کے علاوہ مستدرک حاکم، مسند احمد، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شبیہ وغیرہ کتابوں سے کی ہے ، تینوں فضلاء کے کام کے مجموعی صفحات ۲۰۰ کے قریب ہیں ، معہد سے ان حضرات کی فراغت ۱۴۲۶ ھ کی ہے۔
تخریج أحادیث ''العرف الوردی فی أخبار المہدی '' للعلامہ السیوطی
احادیث کے ذخیرہ سے معلوم ہوتا ہے اور ہم لوگوں کا ایمان ہے کہ قیامت کے قریب حضرت مہدی ں تشریف لائیں گے اورحضرت عیسیٰ ں کے ساتھ مل کر برائیوں کا خاتمہ کریں گے اور دنیا میں اسلامی حکومت قائم کریں گے ؛ چنانچہ نویں صدی ہجری کے کثیرالتصانیف عالم دین امام سیوطی کی ایک کتاب ''العرف الوردی فی أخبار المھدی''اسی موضوع پر ہے ، جس میں انھوں نے حضرت مہدی ں کے تعلق سے جو حدیثیں آئی ہیں ان سب کو جمع فرمادیا ہے ، معہد کے ایک فاضل مولانا حسن الزماں المظاہری نے انھیں احادیث کی تخریج کو اپنے سندی مقالہ کا موضوع بنایا ، موصوف نے اس موضوع سے متعلق تقریباً ۱۹۶ صفحات پر مشتمل اپنا مقالہ تیار کیا ہے ، موصوف نے صحاحِ ستہ ، مسند احمد ، مصنف ابن ابی شیبہ ، مستدرک حاکم ، کنزالعمال وغیرہ حدیث کی معتبر کتابوں سے تخریج کا کام کیا ہے ، موصوف کی فراغت ۱۴۲۷ ھ کی ہے۔
تخریج أحادیث ''مختصر الحزب الاعظم''
اللہ تعالیٰ کو کبھی تو عملی احکام کے ذریعہ یاد کیا جاتا ہے اور کبھی زبانی تسبیح و تہلیل کے ذریعہ ؛ چنانچہ اللہ نے قرآن کی شکل میں جو صحیفہ انسانوں کو عطا کیا، اس میں اللہ نے اپنے بندوں کو وہ کلمات بھی سکھائے ہیں ، جن کے ذریعہ وہ اللہ کی تعریف کرسکیں ، اسی طرح احادیث رسول کا بھی ایک بڑا حصہ دُعاء پر مشتمل ہے ، جس میں انسانوں کو اپنے رب کی تعریف وتوصیف کرنا اور اس کے سامنے اپنی ضرورت پیش کرنے کا ڈھنگ سکھایا گیا ہے ، ہمارے علمائے کرام نے آیات و احادیث کے اس حصے کو بھی الگ سے جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے ؛ چنانچہ اس موضوع کی ایک اہم کتاب '' مختصر الحزب الاعظم '' ہے ، اس کتاب میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کی تخریج کا کام معہد کے ایک فاضل مولانا محمد امیرالدین قاسمی نے انجام دیا ہے ، موصوف نے صرف انھیں احادیث کی تخریج کی ہے ، جن کے الفاظ کسی مصدر حدیث میں مذکور ہیں ، موصوف کا مقالہ کل ۶۸ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی معہد سے فراغت ۱۴۲۴ ھ کی ہے۔
تخریج أحادیث ''حجۃ اﷲ البالغۃ''
اللہ کی شریعت کلی طور سے حکمت و مصلحت سے پُر ہے، کوئی حکم ایسانہیں ہے جس میں بندہ کا کوئی دینی و دنیوی فائدہ نہ ہو ، اس لئے شریعت اسلامی کے بہت سے مامورات ایسے ہیں ، جن کے مطلوب ہونے اور بہت سی منہیات ایسی ہیں ، جن کے ممنوع ہونے کے سبب کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے ، اس کا مقصد دراصل یہی ہے کہ بندہ پورے اطمینان کے ساتھ شریعت اسلامی پر یہ سمجھتے ہوئے عمل کرے کہ ان احکام کی بجاآوری میں خود اِسی کا فائدہ ہے، ہمارے علمائے کرام نے بھی شروع سے احکام کے مقاصد کے تعلق سے بحث کی ہے ؛ لیکن سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اس فن پر قلم اٹھانے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ہیں ، انھوں نے مصلحت شریعت کا مطالعہ بحیثیت ایک فن کے کیا اور شرعی مصالح کی عقدہ کشائی بڑے اچھوتے انداز سے کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کتاب کو علماء نے ہمیشہ اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور بعض مدارس میں اسے شامل نصاب بھی کیا گیا۔
اس کتاب میں کثرت سے احادیث رسول ذکر کی گئی ہیں ؛ لیکن ان کے حوالے ذکر نہیں کئے گئے تھے ؛ چنانچہ معہد کے چار فاضل مولانا محمد اظہر حسین ندوی، مولانا محمد عمر ناصحی ندوی (فراغت : ۱۴۲۵ھ) مولانا زبیر احمد اور مولانا عمران عاکف (فراغت : ۱۴۲۷ھ) نے کتاب میں آنے والی احادیث کی تخریج کو اپنے مقالہ کا موضوع بنایا اور بڑے اچھے انداز سے اس کام کو انجام دیا ، احادیث کی تخریج صحاح ستہ، مسند أحمد اور مستدرک حاکم وغیرہ کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے ، مقالہ کی ضخامت ہزار صفحات کے قریب ہے ۔
تذکرۂ محدثین احناف
فنِ حدیث کی خدمت میں یوں تو تمام مسالک کے علماء کا حصہ ہے ؛ لیکن علماء احناف پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ فن حدیث میں ان کی زیادہ خدمات نہیں ہیں ؛ لہٰذا ضرورت تھی کہ محدثین احناف کی ان خدمات کا جائزہ بھی لیا جائے ، جو حدیث سے متعلق ہیں ، نیز فن حدیث میں فقہاء احناف کے مقام و مرتبہ کو بھی واضح کیا جائے ؛ معہد کے ایک فاضل مولانا محمد مختار عالم قاسمی نے ''تذکرۂ محدثین احناف'' کے عنوان سے ۵۷ محدثین احناف کاسوانحی خاکہ اور ان کی خدمات حدیث پر ایک مقالہ تیار کیا ہے ، مقالہ ۲۲۶ صفحات پر مشتمل ہے ، مقالہ کی تیاری میں موصوف نے اسماء الرجال کی اہم کتابوں مثلاً تہذیب التہذیب، تذکرۃ الحفاظ ، البدایۃ والنہایہ وغیرہ سے استفادہ کیا ہے ، معہد سے موصوف کی فراغت ۱۴۲۴ ھ کی ہے۔
کتبِ احادیث ۔۔ تعارف اور اہمیت
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل کیا اور اس میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے احکامات بیان کئے ہیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے احادیث کے ذریعہ ان احکام کی وضاحت فرمائی ہے ، اسی لئے کتاب اللہ کے بعد احادیث کا ہی درجہ ہے ؛ چنانچہ محدثین عظام نے احادیث کی مختلف انداز سے خدمت کی ہے اور اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں ؛ تاکہ اُمتِ محمدیہ اس سے فائدہ اٹھائے اور اپنی زندگی اسلامی طریقہ پر لائے ، اسی پس منظر میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے ضرورت محسوس کی کہ کتبِ احادیث کا تعارف کیاجائے ؛ چنانچہ اس کام کومولانا محمد ذوالفقار ندوی کے سپرد کیا گیا جو ۱۴۲۴ ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الحدیث کے سال دوم میں داخل تھے ، موصوف نے تعارف کتب احادیث کے عنوان سے یہ مقالہ تیار کیا ، جس میں احادیث کی کتابوں کو حروف تہجی کے طریقے پر ترتیب دیا ہے ، موصوف نے کل ۴۵ کتابوں کا تعارف کرایا ہے ، کتابوں کے تعارف میں مصنف کتاب کا نام ، کتاب کا مقام و مرتبہ ، کتاب کی خصوصیت اوراستفادہ کے طریقہ وغیرہ کا ذکر کیا ہے ، موصوف کا مقالہ ۶۵ صفحات پر مشتمل ہے ۔
جزء کتابت حدیث ( کتابت حدیث سے متعلق روایات)
پچھلے کچھ زمانہ سے مستشرقین اور منکرین حدیث کی جانب سے ایک اعتراض اُٹھایا جارہا ہے کہ عر ب کے لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیثیں لکھنے سے منع بھی فرمادیا تھا ؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے کم و بیش دو سو سال تک حدیثوں کے لکھنے کا سلسلہ نہیں رہا اور تیسری صدی میں کہیں جاکر یہ حدیثیں تحریر میں لائی گئیں ؛ لہٰذا حدیثیں اپنی اصلی حالت میں اور اعتماد واستدلال کے قابل نہ رہیں ،اسی اعتراض کے پس منظر میں مولوی محمد ساجد مفتاحی نے ایک مقالہ تیار کیا ، جس میں صرف ان احادیث مبارکہ کو جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ ہی میں لکھ لینے کا ثبوت ملتا ہے ، یہ مقالہ ایک اعتبار سے مستشرقین اور منکرین حدیث کا جواب ہے تو دوسرے اعتبار سے یہ حدیث کی گرانقدر خدمت بھی ہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۲۲۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۳۰ ھ میں معہد کے شعبہ حدیث کے سال دوم میں داخل تھے۔
جمع الأحادیث والآثار فی نزول المسیح
حضرت عیسیٰ ں کی بہت سی فضیلتیں ہیں ، جن میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ کی وفات نہیں ہوئی ، آپ زندہ آسمان پر اُٹھالئے گئے اور قیامت کے قریب اس دنیا میں تشریف لائیں گے ، عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ں کو سولی دی گئی ہے اور وفات پاچکے ہیں ؛ جب کہ قرآن اس کی سختی کے ساتھ نفی کرتا ہے : '' وما قتلوہ وما صلبوہ'' اوراحادیث میں مختلف مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عیسیٰ ں کے نزول کی خبر بھی دی ہے۔
اسی پس منظر میں مولوی بلال احمد آکولوی نے نزول مسیح ں سے متعلق احادیث اورآثار کو جمع کردیا ہے ، اس میں حضرت عیسیٰ ں کی صفات سے متعلق احادیث اور نزول اوربعد النزول سے متعلق جو احادیث و آثار ہیں ان سب کو جمع کیا گیا ہے ، موصوف کی یہ کاوش سو صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۷ ھ میں شعبہ حدیث میں داخل تھے۔
جمع أحادیث أشراط الساعۃ
المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے قیام کا اصل مقصد علمی موضوعات پر تحقیق ہے ،اس ادارہ کے بانی فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کا ایک انداز یہ ہے کہ آپ کسی ایک موضوع سے متعلق تمام احادیث کو جمع کراتے ہیں ؛ تاکہ بوقت ضرورت اس سے استفادہ آسان ہو ، علامات قیامت سے متعلق احادیث کا جمع کرانا اور اس پر تحقیق و تعلیق کا کام بھی ایک اہم کام تھا ، آپ نے اس کام کو معہد کے دو فضلاء مولانا سراج احمد ندوی اور مولانا منصور احمد اشاعتی کے سپرد فرمایا ، ان دونوں حضرات نے بڑی محنت سے علامات قیامت سے متعلق تمام احادیث کو جمع کردیا ہے ، اس مقالہ میں وہ احادیث بھی لائی گئی ہیں ، جن میں قیامت کی چھوٹی چھوٹی نشانیوں کو بیان کیا گیا ہے ، اسی طرح وہ احادیث بھی ذکر کی گئی ہیں ، جن میں قیامت کی بڑی بڑی نشانیوں کا ذکر ہے ، یہ مقالہ ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، دونوں مقالہ نگار ۱۴۲۷ ھ میں معہد کے شعبہ حدیث میں داخل تھے۔
حجیتِ حدیث پر بے جا اعتراضات
قرآن کریم کے بعد اسلامی شریعت کا ماخذ احادیثِ رسول ہے ، احادیث کا یہ مقام صدیوں سے مسلم اور غیر متنازعہ رہا ہے ، اسلامی قوانین کی تدوین ، مسائل کے استنباط اوردلائل اخذ کرنے میں احادیث سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے ، یوں توفقہی آراء کے بارے میں مسلمانوں کا مختلف نقطہ نظر رہا ہے ؛مگر کسی بھی ماہر قانون نے سنت نبوی ا کی حجیت کا کبھی انکار نہیں کیا ؛ لیکن پچھلی صدی سے کچھ لوگوں نے یہ کوشش کی ہے کہ حدیث کی حجیت یا اس کی استنادی حیثیت کے بارے میں ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں ، جیسا کہ شروع زمانہ میں اس کام کو خوارج و معتزلہ نے کیا ، حالانکہ حدیث کا حجت شرعی ہونا خود قرآن کریم، احادیث رسول ، اجماع اور عقل و قیاس کے ذریعہ ثابت ہے ؛ چنانچہ ضرورت تھی کہ حجیت حدیث پر جو اعتراضات ہیں ان کو ذکر کرکے ان کے جوابات دلائل کے ساتھ دیئے جائیں ، اس اہم کام کو معہد کے ایک فاضل مولانا ثاقب شمیم مظاہری نے انجام دیا اور اس عنوان پر ایک جامع مقالہ تیار کیا ، موصوف نے اپنے مقالہ میں حجیت حدیث اور ان پر اعتراضات کے جوابات کو بیان کیا ہے ، بعض صحابہ اور محدثین پر جو اعتراضات ہیں ، اسی طرح خصوصی طور پر امام ابو حنیفہ پر کئے جانے والے اعتراضات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے ، یہ مقالہ چار ابواب ۲۷۵ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۶ ھ میں معہد سے فارغ ہوئے۔
حدیثیں ۔۔ جن پر اعتراض کیا جاتا ہے !
شریعت اسلامی کے احکامات ہر طرح کے تعارض و تناقض سے پاک ہیں ؛ کیوں کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ، بسا اوقات قرآنی آیات کے مفہوم یا احادیث کے معنی میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے ، اس کی بنیاد ، عام طور پر قلت تدبر ہوتا ہے ، اگر تھوڑا غور کرلیا جائے تو وہ اشکال خود بخود رفع ہوجاتا ہے ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا محمد نہال اختر قاسمی نے ''حدیثیں ۔۔ جن پر اعتراض کیا جاتا ہے'' کے عنوان سے یہ مقالہ مرتب کیا ہے ،جس میں موصوف نے ان احادیث کو جمع کر دیا ہے ، جن کے معنی کسی قرآنی آیت یا حدیث سے ٹکراتے ہوں ، یا جن پر عقلی نقطۂ نظر سے کوئی اعتراض ہوتا ہے ، یہ مقالہ تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، مقالہ کی تیاری میں موصوف نے شروح حدیث کے علاوہ خصوصی طور پر ابن قتیبہ کی ''تأویل مختلف الحدیث'' سے استفادہ کیا ہے ، معہد سے موصوف کی فراغت ۱۴۲۳ ھ کی ہے۔
خواتین اور احادیثِ نبوی ا
مغرب کے غیر منطقی نعروں میں سے ایک نعرہ مساوات مرد و زن کا بھی ہے، یہ نعرہ بظاہر تو بڑا حسین معلوم ہوتا ہے ؛ لیکن حقیقی معنوں میں یہ صنف نازک کا استحصال ہے ؛ لہٰذا ضرورت تھی کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیئے ہیں اور اس کی فطری تقاضوں کو سامنے رکھ کر بعض احکام میں جو فرق کیا گیا ہے ، ان کی وضاحت عقلی و نقلی دلائل اور مغربی معاشرہ کی روشنی میں پیش کیا جائے ؛ تاکہ مسلم خواتین پورے اطمینان سے شرعی احکام پر عمل پیرا ہوں ؛چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا نور عالم ندوی نے ''خواتین اور احادیثِ نبوی ا '' کے عنوان سے یہ مقالہ تیار کیا ہے ، جس میں خواتین کی عظمت ، خواتین کے حقوق ، خواتین سے متعلق حدیثیں مثلاً ناقصات العقل ، عورت کاٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا جانا وغیرہ کی صحیح وضاحت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ان کے خصوصی احکام پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ، موصوف نے مقالہ کی تیاری میں تفسیر ، احادیث اور فقہ کی متعدد کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف نے ۱۴۲۵ ھ میں معہد کے شعبۂ حدیث سے فراغت حاصل کی ہے ۔
فن حدیث میں علماءِ دیوبند کی خدمات
ہندوستان سے اسلامی حکومت کے خاتمہ کے بعد ملت اسلامیہ ہندیہ پر گویا ایک امتحانی گھڑی آگئی تھی ؛لیکن اللہ جزاء خیر دے ہمارے بزرگوں کو جنھوں نے بڑی دور اندیشی سے کام لیا اور حکومت اسلامی کے زوال سے اُمت کو جو نقصان پہنچا تھا ، اس کے تدارک کے لئے سرزمین دیوبند میں ایک اسلامی قلعہ کی بنیاد ڈالی ، جس کا مقصد یہ تھا کہ اس میں ایسے افراد پیدا کئے جائیں جو اسلام پر ہونے والے فکری، تہذیبی اور عسکری حملہ کاجواب دے سکیں ؛ چنانچہ اس ادارہ کے فارغین نے جو نمایاں دینی خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا ایک زریں باب ہے ، جسے ملتِ اسلامیہ ہندیہ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔
اگر موضوع کے حساب سے دیکھا جائے تو دیوبند کے علماء کرام کا اصل موضوع فقہ وفتاویٰ رہا ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے علوم میں وہاں کے فضلاء کا حصہ نہیں ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فقہ کے علاوہ حدیث ، تفسیر ، تاریخ، سیرت اور ادب کے موضوع کو بھی وہاں کے فضلاء نے اپنایا ؛ بلکہ حدیث و تفسیر کے میدانوں میں بھی وہاں سے بہت سی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جن کا دنیا نے لوہا مانا ، بانی دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندیؒ ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، مولانا یوسف بنوریؒ ، یہ وہ نمایاں نام ہیں ، جنھیں دنیا اساتذہ فن کی حیثیت سے جانتی ہے اور آج بھی دنیا میں پھیلے ہوئے نہ جانے کتنے خادمین حدیث کا سلسلہ انھیں بزرگوں تک پہنچتا ہے ؛ چنانچہ علماء دیوبند کے حدیثی خدمات کا جائزہ یقیناًایک اہم علمی کام تھا ،جس کو معہد کے ایک فاضل مولانا محمد شمس عالم قاسمی نے بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ، یہ مقالہ تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں متن حدیث ، شرح حدیث، حواشی حدیث، رجال حدیث وغیرہ الگ عناوین پر علماء دیوبند کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۹ ھ مطابق ۲۰۰۸ء کی ہے۔
محدثین بہار اور ان کی حدیثی خدمات
صوبہ بہار شروع ہی سے اپنی مردم خیزی میں بڑا مشہور رہا ہے ،ہر دور میں وہاں ایسے علماء و فضلاء پیدا ہوئے جنھوں نے علم و فن کو سیکھا ہی نہیں ؛ بلکہ استاذ فن رہے ؛ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ کے مرتبین میں چار لوگوں کا تعلق سرزمین بہار سے تھا ، مولانا ظہیر احمد شوق نیموی ؒ ، علامہ محب اﷲ بہاری ؒ ، علامہ سید سلیمان ندویؒ ، مولانا منت اللہ رحمانیؒ ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اوران کے علاوہ دیگر بہت سے علماء کرام اسی صوبہ سے تعلق رکھتے تھے ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا عبید اختر رحمانی نے اپنے سندی مقالہ کے لئے '' محدثین بہار اور ان کی حدیثی خدمات'' کا عنوان منتخب کیا ، موصوف نے سرزمین بہار میں ہونے والی حدیثی خدمات اوروہاں کے محدثین کے تذکرہ پر مشتمل تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل یہ مقالہ تیار کیا ہے ، جس میں صوبۂ بہار کے تقریباً ۳۰ محدثین کا تذکرہ آگیا ، بعض تذکرہ مختصر اور بعض طویل ہے ، موصوف نے نزہۃ الخواطر ، تذکرہ علماء بہار اور ان کے علاوہ دیگر اہم کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف کی فراغت معہد شعبہ حدیث سے ۱۴۲۴ ھ کی ہے۔
مختصر شرح معانی الآثار للطحاوی (ابن رشد مالکی)
فن حدیث میں امام ابو جعفر طحاوی کی شرح معانی الآثار نہایت اہم ، مفید اور اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے ، علامہ ابن رشد مالکی نے اس کی تلخیص مختصر شرح معانی الآثار للطحاوی کے نام سے کی ہے ؛ چنانچہ استاذ محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے شعبہ تخصص فی الحدیث (۱۴۳۰ھ) کے طلبہ کو مختصر شرح معانی الآثار للطحاوی کے مخطوطہ پر کام کی ذمہ داری سونپی ؛ چنانچہ مولانا محمد صادق مہاراشٹری، مولانا محمد صلاح الدین ندوی، مولانا جاوید حسین رشادی، مولانا محمد ملت عالم، مولانامحمد نجاب بن احمد، مولانا محمد سعیدپالن پوری نے اس مخطوطہ پر تحقیق کا کام کیا اور کتاب الطہارۃ کو مکمل کرلیا ہے ، جو تقریباً ۳۳۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
مختصر شرح معانی الآثار مع تخریج احادیثہ و تحقیق رجالہ
فن حدیث میں امام ابو جعفر طحاویؒ کی شرح معانی ا لآثار نہایت اہم، مفید اور اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے ، اس کتاب کی تلخیص، احادیث کی تخریج اور راویوں کی تحقیق کا کام '' مختصر شرح معانی الاثار مع تخریج احادیثہ و تحقیق رجالہ '' کے عنوان سے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ۱۴۲۳ ھ میں شروع کروایا تھا ، الحمدللہ یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے ، جسے مولانا ضیاء الدین ندوی اور مولانا محمد سفیان قاسمی نے کتاب الطہارۃ کے ختم تک کیاہے ، یہ دونوں حضرات ۱۴۲۳ ھ میں معہد کے شعبہ حدیث میں داخل تھے ، جب کہ کتاب الصلاۃ پر مولانا منظور احمد قاسمی ، مولانا خلیل الرحمن ، مولانا محمد رضوان ، مولانا ضیاء الدین خان، مولانا شمس عالم قاسمی، مولانا تحسین الاسلام قاسمی اور مولانا ثاقب شمیم مظاہری نے کام کیاہے اور بقیہ کتاب کا کام مولانا ساجد مفتاحی ، مولانا راشد سہارنپوری ، مولانا ہاشم انور، مولانا ضیاء اللہ نیپالی، مولانا جنید احمد، مولانا غلام مصطفےٰ، مولانا عامر نعمانی، مولانا ضیاء اللہ سہرساوی نے انجام دیا ہے ، ان فضلاء میں سے اکثر کی فراغت ۱۴۲۹ میں ہوئی ہے ، یہ تحقیق تقریباً (۱۰۰۰) صفحات پر مشتمل ہے ۔
مرویات علی ص فی التفسیر
چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علی ص حضور اکرم ا کے چچازاد بھائی ہیں ، آپ اکے داماد اور شروع میں اسلام قبول کرنے والوں میں ہیں ،آپؓ ایک طویل عرصہ تک حضور ا کی صحبت میں رہے ؛ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم بہت سی روایات حضرت علی صسے منقول ہیں ، اسی مناسبت سے معہد کے ایک فاضل ملوانا محمد شرف الدین عمران شرفی جو تخصص فی علوم القرآن دوم (۱۴۲۲ھ) کے طالب تھے، انھوں نے تفسیر سے متعلق حضرت علی صکی روایات پر مرویات علی صکے عنوان سے ایک مقالہ ترتیب دیا ،جس میں حضرت علی صکی مرویات کو جمع بھی کیا اورپھران مرویات کی تخریج بھی کردی ہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۱۳۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
موضوع روایات ۔۔ علامات و احکام اور مثالیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث شریعت اسلامی کا ماخذ ہیں ؛ لہٰذا ضروری تھا کہ وہ احادیث موضوع اور من گھڑت روایات سے پاک ہوں ، محدثین نے جو اُصول مقرر کئے ہیں، ان کا مقصدبھی یہی ہے کہ احادیث حشو و زوائد سے پاک ہوں ، خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے احادیث گڑھنے والوں کے لئے سخت وعید بیان فرمائی ہے ، آپ کا ارشاد ہے : '' من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار'' ۔
اسی پس منظر میں مولانا ساجدالرب مظاہری نے اس موضوع پر ایک مقالہ تیار کیا ، جس میں موصوف نے حدیث کی اہمیت و ضرورت ، وحی کی تعریف اور اس کی قسمیں ، تدوین حدیث ، حدیث موضوع اور اس کے محرکات ، احادیث موضوعہ کی شناخت کا طریقہ ، موضوع احادیث کا حکم اور اس سلسلے میں محدثین کے ارشادات ، نیز اس کا نقصان اور احادیث ضعیفہ و موضوع میں فرق جیسے عنوانات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ، آخر میں موصوف نے ان موضوع احادیث کو بھی ذکر کیا ہے جو زبان زد عوام و خواص ہیں ، غرض اس موضوع پر یہ تفصیلی مقالہ ہے ، جس کی ضخامت ۶۰۰ صفحات سے زائد ہے ، موصوف نے یہ مقالہ ۱۴۲۹ ھ میں شعبہ نصوص دوم میں مرتب کیا ہے۔
نواسخ الحدیث علی منہج الفقہاء الحنفیۃ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں کو جو احکام دیئے ہیں وہ سارے کے سارے بندوں کی مصلحتوں پر مبنی ہیں ، چاہے وہ مصلحتیں ہماری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ کبھی ایک حکم ختم کرکے دوسرا حکم دیتے ہیں تو یہ بھی بندوں کی مصلحت اور فائدے کے لئے ہی ہوتا ہے کہ پہلے اُس حکم میں مصلحت تھی تووہ حکم تھا اور اب اِس حکم میں مصلحت ہے تو یہ حکم ہے ، ایک حکم کو ختم کرکے دوسرا حکم دینا یہ نسخ ہے اور نسخ بندوں کامفاد ہی ہے ، امام شافعی ؒ کا قول ہے کہ نسخ اللہ کی رحمت ہے بندوں کے لئے اور اللہ کی طرف سے تخفیف ہے ، نسخ کی مختلف قسمیں ہیں: قرآن کا نسخ قرآن کے ذریعہ ، قرآن کا نسخ حدیث کے ذریعہ ، حدیث کا نسخ قرآن کے ذریعہ اور کبھی حدیث کا نسخ حدیث کے ذریعہ ، جیسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قبور کی زیارت سے منع فرمایا تھا ، پھر بعد میں آپ ا نے اجازت دے دی ؛ چنانچہ اسی پس منظر میں نسخ کے جو اصول و احکام اور شرائط ہیں ان کو مولانا محمدحفیظ اللہ قاسمی نے جمع کیا ہے اور ایک جامع مقالہ اس موضوع پر تیار کیا ہے ، جس میں فقہاء احناف کے منہج کے مطابق احادیث کے نسخ کو بیان کیا گیاہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۱۲۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۳ ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الحدیث سال دوم سے فارغ ہوئے۔
اجتہاد اور تقلید
اجتہاد کی اجازت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؛ کیوں کہ اگر اجتہاد کی اجازت نہ ہوتی تو قرآن و حدیث میں کلیات مذکور نہ ہوتیں ؛ بلکہ جزئیات ہیمذکور ہوتیں ؛ لہٰذا کلیات کا مذکور ہونا اور جزئیات کا زیادہ مذکور نہ ہونا اجازت اجتہاد کی دلیل ہے ؛ لیکن اس کی حد کیا ہے اورکیا آج بھی اس کی ضرورت باقی ہے؟ اسی پس منظر میں مولانا عبدالرحمن قاسمی نے ''اجتہاد و تقلید'' کے نام سے ایک مقالہ ترتیب دیا ہے، جس میں اجتہاد وتقلید کی حقیقت، شرائط ، شرعی حیثیت ، موجودہ دور میں اجتہاد کی شکل اور تقلید کی ضرورت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، موصوف نے اس مقالہ کو ترتیب دینے میں قرآن و حدیث کے علاوہ اجتہاد و تقلید سے متعلق مستند کتابوں سے استفادہ کیا ہے، موصوف کا یہ مقالہ ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۴ ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ میں داخل تھے۔
عمرہ کے احکام
قرآن مجید میں جہاں حج کی فرضیت کا ذکر ہے وہیں پر عمرہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے ، جس سے عمرہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، قرآن میں ہے : '' وأتمو الحج والعمرۃ ﷲ'' ۔۔۔ آیت مذکورہ میں حج و عمرہ دونوں کے اہتمام کا حکم دیا گیا ہے ، نیز احادیث میں بھی عمرہ کی فضیلت مذکور ہے ؛ چنانچہ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ضرورت اس بات کی تھی کہ عمرہ کے احکام و مسائل ایک جگہ جمع کردیئے جائیں ؛ تاکہ اس سے استفادہ آسان ہو ، اسی پس منظر میں معہد کے ایک فاضل مولانا غلام یزدانی اشاعتی نے احکام العمرہ کے عنوان سے یہ مقالہ ترتیب دیا ہے ، اس مقالہ میں موصوف نے عمرہ کی فضیلت، عمرہ کا حکم اور عمرہ سے متعلق تمام مسائل کو جمع کردیا ہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۲ میں معہد سے فارغ ہوئے۔
قضایا فقھیۃ في المعاملات المالیۃ المعاصرۃ
( مالی معاملات سے متعلق جدید مسائل کے شرعی احکام)
علماء نے احکامات کی درجہ بندی کی ہے اور معاملات کی نوعیت کے اعتبار سے اس کی مختلف قسمیں کی ہیں، انھیں میں سے ایک قسم وہ ہے جس کو '' معاملات '' سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس میں دراصل دو اشخاص کے درمیان مالی معاہدہ پر مبنی تعلقات کو زیربحث لایا جاتا ہے۔
عصر حاضر میں جب کہ معاملات کی نئی نئی شکلیں وجود میں آرہی ہیں اور لوگ اسلام کے مالی نظام کو سمجھنا ؛ بلکہ برتنا چاہ رہے ہیں، اس موضوع کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے اور علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس موضوع کواور زیادہ منفح اور قابل عمل انداز میں پیش کریں ؛ تاکہ آج دنیا جس طرح سود میں ملوث ہے ، اس سے اس کو نکالا جاسکے ، گو اس عنوان پر ایک معتدبہ لٹریچر موجود ہے ؛ لیکن اب بھی اس میدان میں جدید انداز سے مزید تحقیق کی ضرورت تھی ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا ولی الدین رشادی نے مالی معاملات سے متعلق جدید مسائل کے شرعی احکام پر عربی میں کام کیا ہے اور بیع کی تمام قسموں کو کافی تفصیل سے لکھا ہے ، درمیان میں نئے معاملات پر ان کی تطبیقی شکلوں کو بھی واضح کیا ہے ، اس طرح کرنسی نوٹ ، چیک کی شرعی حیثیت وغیرہ جیسے عنوانات کو بھی انھوں نے اپنی بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے ، مقالہ کل ۲۲۵ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۳ھ کی ہے۔
احکام زکوٰۃ فقہ شافعی کی روشنی میں !
اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن زکوۃ ہے، زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن میں جہاں جہاں نماز قائم کرنے کاحکم دیا گیا ہے تقریباً ہر جگہ زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے ، قرآن پاک اور احادیث میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ؛ لیکن عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اس سلسلہ میں اب بھی بہت زیادہ کوتاہیوں کی شکار ہے ، اس لئے ضرورت اس بات کی تھی کہ کتابت و خطابت کے ذریعہ اس کی اہمیت لوگوں میں پیدا کی جائے؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا محمد عادل علی حسینی نے ''احکام زکوٰۃ'' کو اپنے سندی مقالہ کا موضوع بنایا اور فقہ شافعی کی روشنی میں احکام زکوۃ کو جمع کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے، موصوف نے مقالہ کی تیاری میں فقہ شافعی کی اہم ترین کتابیں مثلاً روضۃ الطالبین، اعانۃ الطالبین، المجموع، المھذب وغیرہ کے علاوہ دیگر مصادرفقہیہ سے بھی استفادہ کیا ہے ، مقالہ تقریباً ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۴ھ کی ہے۔
اعتکاف کے احکام
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ، اور عبادت کے مختلف طریقے بتائے ہیں ، جن کے ذریعہ انسان اپنی بندگی کا اظہار اور اللہ سے اپنے تعلق کو استوار کرتا ہے ؛ لیکن چوں کہ انسان کے ساتھ اور دیگر ضروریات بھی لگی ہوئی ہیں اس لئے بسااوقات یکسوئی کی وہ کیفیت باقی نہیں رہتی جو مطلوب ہے ؛ اس لئے اللہ نے عبادت کی ایک ایسی شکل بھی عطا کی ہے ، جس میں انسان تمام تعلقات سے کٹ کر اللہ کے دربار میں پڑجاتا ہے ، جس کو اعتکاف سے تعبیر کرتے ہیں ، اعتکاف چوں کہ ایک اہم عبادت ہے ؛ لہٰذا اس کے تعلق سے بھی ایک تفصیلی کتاب کی ضرورت تھی ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا عبیداللہ قاسمی نے ''احکام الاعتکاف'' کے عنوان سے اس موضوع پر تفصیلی مقالہ لکھاہے ، موصوف نے اعتکاف سے متعلق تمام مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ، مقالہ تقریباً ۱۳۸ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی معہد سے فراغت ۱۴۲۲ ھ کی ہے۔
احکام الاعضاء فی الفقہ الاسلامی
اسلامی احکام کا ایک حصہ وہ ہے جس میں اس بات سے بحث کی گئی کہ انسان کی ظاہری ہیئت کس انداز کی ہو، فقہاء عام طور پر ان بحثوں کو ''کتاب الحظر والاباحۃ'' یا ''کتاب الکراہیۃ '' وغیرہ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا مظفرالدین قاسمی نے بھی احکام الاعضاء کے عنوان سے سر کے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک تمام انسانی اعضاء سے متعلق فقہی احکام کو اپنے مقالہ کا موضوع بنایا ، موصوف کا مقالہ تقریباً ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۲ ھ کی ہے۔
احکام رمضان المبارک ۔۔ فقہ شافعی کی روشنی میں !
روزہ خدا سے اظہار محبت کی ایک پیاری شکل ہے ، روزہ کا مقصد روح و نفس کا تزکیہ ، اور رضائے خداوندی کے لئے صبر و شکیب کی کیفیت کا حاصل کرنا اور اپنی زندگی کو تقویٰ کی خوشبو سے معطر کرنا ہے، روزہ سے متعلق جو احکام قرآن و حدیث میں وارد ہیں اور جنھیں فقہاء نے ایک مرتب نظام کی شکل دی ہے، اس کا منشاء یہ ہے کہ ہر انسان کے لئے اس پر عمل آسان ہو ؛ تاہم ضرورت تھی کہ ان مسائل کو اُردو کا قالب دیا جائے اور لوگوں کے لئے عام فہم بنایا جائے ؛ چنانچہ مولانا محمد اشفاق قاضی حسین نے اپنا سندی مقالہ انھیں احکام پر مرتب کیا ہے، موصوف نے اس مقالہ کو فقہ شافعی کے موافق ترتیب دیا ہے ، جس میں رویت ہلال ، روزہ کے واجبات، روزہ نہ رکھنے کے اعذار، روزہ سے متعلق نئے مسائل، نماز تراویح، اعتکاف، صدقۃ الفطر، عیدالفطر وغیرہ سے متعلق مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے ، موصوف کا یہ مقالہ تقریباً ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ہے، موصوف ۱۴۲۳ ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ میں داخل تھے۔
احکامِ میت
اسلام ایک ایسا دستور ہے جو پیدائش سے لے کر موت تک بلکہ موت کے بعد تک انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے ؛ چنانچہ کتبِ فقہ میں بہت سے ایسے مسائل اور احکام ہیں جو میت سے متعلق ہیں ، جیسے تجہیز، تکفین اور تدفین وغیرہ ،گو فقہی کتابوں میں یہ احکام درج ہیں ؛ لیکن ضرورت تھی کہ احکام میت سے متعلق کوئی مقالہ مستقل تیار ہو ؛ چنانچہ مولانا رئیس احمد شافعی نے ''احکام میت'' کے عنوان سے یہ مقالہ تیار کیا ، جس میں تجہیز ، تکفین و تدفین اور ان کے علاوہ وراثت و وصیت سے متعلق مسائل و احکام پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، موصوف کا یہ مقالہ تقریباً ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۲ ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ میں داخل تھے۔
اسلام کا قانون تعزیر
اسلام جہاں یہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا شرک و بت پرستی سے پاک ہوجائے اور ساری انسانیت خدائے وحدہ لاشریک کی متبع و پیروکار ہوجائے، وہیں یہ بھی چاہتا ہے کہ ساری دنیا میں انسانی معاشرہ صالح ، معیاری اور مثالی اور جرائم و فواحش اور دیگر منکرات سے پاک وصاف ہوجائے ، اسلام نے جن جرائم پر سزا جاری کرنے کا حکم دیا ہے دراصل ان سزاؤں کا مقصد حقوق انسانی کاتحفظ ہے ، اسی مناسبت سے مولانا مناظر احسن قاسمی نے ''اسلام کا قانون تعزیر'' کے عنوان سے یہ مقالہ ترتیب دیا ہے ، موصوف ۱۴۲۵ ھ میں المعہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ دوم میں داخل تھے ، اس مقالہ میں تعزیر ، حدود اور قصاص کی تعریف ، ان کا ثبوت، حکمت ومصلحت، ان کے فوائد و اقسام اور ان سے متعلق اسلامی احکام پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ، نیز اسلامی تعزیرات اور دیگر مذاہب میں جرائم پر مقرر کردہ سزاؤں کا تقابل کرتے ہوئے مخالفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے ، مؤلف کا یہ مقالہ پانچ ابواب اور ۲۰۵ صفحات پر مشتمل ہے۔
اسلام میں تشبہ کے احکام
اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے، جس نے مسلمانوں کی ہر سمت میں رہنمائی کی ہے اورمسلمانوں کو کسی دوسرے نظام کی اتباع کا محتاج نہیں رکھا ؛ اس لئے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی غیر قوم مذہبی شعار میں ان کی مشابہت اختیار کریں ، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : '' من تشبہ بقوم فھو تنھم'' اسی پس منظر میں مولوی نورالاسلام اشاعتی نے ایک مقالہ ''اسلام میں تشبہ کے احکام'' کے عنوان سے تیار کیاہے ، جس میں تشبہ سے متعلق احکامات کو جمع کردیا ہے، موصوف کی یہ کاوش تقریباً ۱۸۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۴ ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ میں داخل تھے۔
استحالہ ۔۔ احکام فقہیہ میں تبدیلئ حقیقت کے اثرات
اسلام میں طہارت و نظافت کو نصف ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے اور ہر طرح کی نجاست سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ، اسی لئے فقہاء کتب فقہ کا آغاز اسی طرح اصحاب سنن اپنی کتابوں کا آغاز عام طور سے ابواب الطہارۃ سے ہی کرتے ہیں ،یوں تو ہر طرح کی نجس اور حرام چیزوں سے اجتناب ہر مومن کی ذمہ داری ہے ؛لیکن موجودہ زمانے میں ایک اہم مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ بعض روز مرہ کے استعمال کی چیزوں میں بھی نجس اور حرام چیزوں کا استعمال مختلف تبدیلیوں سے گزارنے کے بعد کیا جانے لگا ہے۔ اب فقہاء کے قدیم سرمایہ کو سامنے رکھ کر اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ان چیزوں سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے ، یا پھر ان چیزوں کے استعمال کی گنجائش اس وجہ سے نکل سکتی ہے کہ ان میں حرام چیزوں کا استعمال بعینہٖ نہیں کیا جاتا ؛ بلکہ کئی تبدیلیوں سے گزارنے کے بعد کیا جاتا ہے ؛ معہد کے ایک فاضل مولانا محمد قاسم برطانوی نے ''استحالہ'' کے عنوان سے اسی موضوع پر اپنا مقالہ مرتب کیا ہے ، موصوف نے استحالہ فقہاء کی نظر میں ، چربی آمیز صابن کا استعمال ، الکحل کی حقیقت وغیرہ جیسے عنوانات کو سامنے رکھ کر ۱۰۶ صفحات کا مقالہ تیار کیا ہے ، موصوف کی معہد سے فراغت ۱۴۲۶ھ کی ہے۔
أصول السرخسی تحقیقاًو تعلیقاً
اُصولِ فقہ کی کتابوں کو لکھنے کے جو تین اُسلوب ہیں ان میں سے ایک اُسلوب وہ ہے جس کو ''طریقۃ الفقھاء'' یا ''طریقۃ الحنفیۃ'' کہا جاتا ہے ، جس میں جزئیات کو بنیاد بناکر اُصول مرتب کئے جاتے ہیں ، اس اُسلوب پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے ایک اہم کتاب اصول السرخسی( از ابوبکر محمد سرخی م : ۴۹۰ھ) ہے ، یہ کتاب پہلی بار مولانا ابوالوفاء افغانی کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے ، کتاب کی اہمیت کے پیش نظر معہد کے ایک فاضل مولانا ابو قمر صدیقی ندوی نے اس کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور احادیث و آیات کی تخریج ، رجال کی تحقیق، مشکل الفاظ کی تشریح اور اصطلاحی کلمات کی توضیح کاکام کیا ہے ،کتاب کے آخر میں آیات و احادیث ، اماکن اور اصطلاحات حدیث و فقہ کی فہرست بھی دی ہے ، یہ مقالہ ۲۱۹ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۵ ھ کی ہے۔
التحقیق والتعلیق علی الفتاوی الغیاثیۃ
فتاویٰ غیاثیۃ کا شمار فقہ حنفی کی مختصر ؛ لیکن جامع کتابوں میں ہوتا ہے ، جس میں مصنف علیہ الرحمہ نے ایک ہی جلد میں تمام ابواب فقہ کے اہم مسائل کو جمع کردیا ہے ؛ اس لئے ضرورت اس بات کی تھی کہ اس کتاب پر جدید انداز میں تحقیق و تعلیق کا کام کیا جائے ؛ تاکہ اس کی افادیت دو چند ہوجائے ؛ چنانچہ معہد کے دو فاضل مولانا الیاس احمد اور مولانا طفیل احمد قاسمی نے مل کر اس اہم کام کو انجام دیا ، ان دونوں حضرات نے کتاب میں واقع آیات و احادیث کی تخریج، فقہی مسائل کی توثیق، رجال کا ترجمہاور مشکل الفاظ کی تشریح بڑے اچھے انداز سے کی ہے ، تحقیق و تعلیق کے لئے تفسیر، احادیث، فقہ، اسماء الرجال اور لغت کی اہم کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ، دونوں حضرات کے کام کی مجموعی مقدار ۱۰۰۰ صفحات کے قریب ہے ، معہد سے مولانا الیاس احمد کی فراغت ۱۴۲۷ ھ کی اور مولانا طفیل احمد قاسمی کی فراغت ۱۴۲۸ ھ کی ہے۔
التحقیق علی الأدلۃ الشریفۃ علی مذھب الإمام أبی حنیفۃ
مسلک حنفی پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہاں قیاس سے زیادہ کام لیاجاتا ہے اوراحادیث پر قیاس کو مقدم کیا جاتا ہے ؛ حالاں کہ احناف کا اُصول یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں مرسل روایت بھی مل رہی ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اس وقت قیاس سے کام نہیں لیا جائے گا اور مسلک کی تدوین میں اسی اُصول کو اپنا کر مسائل کا استنباط ہوا ہے ؛ چنانچہ نویں صدی ہجری کے ایک عالم دین محمد بن عبداللہ الوری الحنفی نے ''الأدلۃ الشریفۃ علی مذھب الإمام أبی حنیفۃ'' کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف فرمائی ، جس میں اُنھوں نے حدیث کی معتبر کتابوں سے اختلافی مسائل میں احناف کے مستدلات کو جمع کرکے احناف پر ہونے والے اس اعتراض کا علمی جواب پیش کیا ہے۔ یہ کتاب اب تک مخطوطہ کی شکل میں ہے ، اس کتاب کی پہلی جلد (جو عبادات اور احوالِ شخصیۃ پر ہے) کا مخطوطہ مدینہ منورہ کے ایک کتب خانہ سے حاصل ہوا ، جو تقریباً ۵۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، اس کتاب پر تحقیق و تعلیق کے لئے حضرت الاستاذ مولانا خالدسیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے معہد کے آٹھ فضلاء کو مقرر کیا ، ان حضرات نے احادیث کی مختلف مستند کتابوں سے احادیث کی تخریج ،رجال کا ترجمہ، مشکل الفاظ کا حل ،اہم فقہی مراجع سے مسائل کی توثیق کا کام بڑے اچھے ڈھنگ سے انجام دیا ہے ، ان تمام فضلاء کی فراغت معہد سے ۱۴۲۸ ھ کی ہے ، ذیل میں فضلاء کے نام، کام کی مقدار اور مخطوطہ کے کتنے صفحات پر کن کن فضلاء نے کام کیا ہے ، اس کو ذکر کیا جاتا ہے :
فرقان احمد فلاحی
۴۸
( مخطوطہ : ۱تا۱۵)
عبداللہ دکتور شفیق احمد
۲۱۰
( مخطوطہ : ۲۴تا ۴۸)
محفوظ الرحمن حافظ سراج احمد
۲۰۹
( مخطوطہ : ۴۸تا ۷۷ ، ۲۶۹تا ۳۲۷ )
بلال احمد آکولہ
۳۰۰
( مخطوطہ : ۷۷ تا ۱۴۱)
منصور احمد بشیر
۳۴۶
( مخطوطہ : ۲۰۴تا ۲۶۹ )
عرفان عبدالشکور
۱۶۹
( مخطوطہ : ۳۲۸ تا ۳۸۹ )
جابر خان اشاعتی
۳۰۰
( مخطوطہ : ۴۴۹ ۔۵۲۷ )
محمد محبوب الرحمن
۳۲۱
( من باب تکبیر التشریق الی الجنائز ومن نوافض الوضوء )
التحقیق والتعلیق علی الفوائد الظھیریۃ
مسالک اربعہ میں فقہ حنفی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ایک زمانے تک اسے سرکاری مسلک کے طور پر اختیار کیا گیا اور اس کی روشنی میں تمدنی ترقی کی بنیاد پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اُٹھنے والے نئے مسائل کا جواب تلاش کیا گیا ، فقہ حنفی کی جزئیات کا احاطہ بہت سی کتابوں میں کیا گیا ہے ، جن میں فتاوی ہندیہ ، ردالمحتار، البحر الرائق، الفتاوی التاتارخانیۃ اس سلسلہ کی اہم کتابیں مانی جاتی ہیں ، ساتویں صدی ہجری کے عالم دین علامہ محمد بن احمد بن عمر ظہیرالدین بخاری (متوفی : ۶۱۹ھ) کی کتاب ''فوائد ظہیریۃ'' میں بھی فقہ حنفیکی جزئیات کی کثرت ہے ؛ لیکن افسوس کہ یہ اب تک مخطوطہ کی شکل میں تھی ، حضرت الاستاذ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے اس اہم کتاب پر تحقیق و تعلیقکے لئے معہد کے چند فضلاء مولانا محمد احمد قاسمی، مولانامحمد نہال اختر مظاہری، مولانامحمد سلمان قاسمی، مولانامحمد منصور باندوی، مولانامحمد طارق الواجدی، مولانامحمد عامر مظہری، مولانامحمد شمیم نظامی قاسمی، مولاناعبدالجبار ندوی، مولاناصابر آزاد قاسمی، مولانامحمد افروز قاسمی کو مقرر کیا ، ان حضرات نے آیات و احادیث کی تخریج، مسائل کی توثیق، رجال کا ترجمہ اور تحقیق کا کام بحسن و خوبی انجام دیا ، کتاب کی تحقیق میں حدیث و فقہ اور اسماء الرجال کی اہم کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ان حضرات کی فراغت معہد سے ۱۴۳۱ ھ کی ہے۔
تحقیق حسامی
اُصولِ فقہ کی مشہور کتابوں میں ایک نام حسامی کا بھی ہے ، شروع سے ہی علماء نے اس سے اعتناء کیا ہے اور آج بھی اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ؛ چنانچہ اکثر مدارس اسلامیہ میں یہ کتاب داخل نصاب ہے ، علماء و محققین نے اس پر مفید حواشی لکھے ہیں ؛ لیکن پھر بھی جدید انداز میں تحقیق کا کام باقی تھا ، معہد کے ایک فاضل مولانا عبیداللہ کٹکی نے اس کتاب پر بڑی محنت سے کا کام کیا ہے ، کتاب میں واقع آیات و احادیث کی تخریج ، مشکل الفاظ کی تشریح، رجال کی تحقیق اور حالات کا مختصر تذکرہ کیا ہے ، کتاب کی تحقیق میں موصوف نے اہم مراجع سے استفادہ کیا ہے ، موصوف کا کام تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، معہد سے موصوف کی فراغت ۱۴۲۲ھ میں ہوئی۔
تحقیق مختصر القدوری
فقہ حنفی میں جن چار متون کو سب سے زیادہ مستند قرار دیا گیا ہے ، ان میں سے ایک مختصر القدوری بھی ہے ، یہ کتاب علامہ ابوالحسین احمد بن محمد قدوری بغدادیؒ (متوفی : ۴۲۸ھ) کی ہے ، جو برصغیر میں واقع اکثر مدارس میں شامل نصاب ہے ، علماء نے اس کتاب کے مختلف حواشی بھی لکھے ہیں ؛ لیکن پھر بھی جدید انداز سے تحقیق کا کام باقی تھا ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا محمد الیاس فلاحی نے اس کتاب پر تحقیق کا کام کیا ہے ، کتاب میں واقع آیات و احادیث کی تخریج، مشکل الفاظ کی تشریح ، رجال کی تحقیق اور مختصر حالات کا تذکرہ، دوسرے اہم مراجع سے مسائل کی توثیق میں موصوف نے بڑی دقت نظر سے کام لیا ، کتاب کی تحقیق میں موصوف نے اہم مراجع کو سامنے رکھا ہے ، خصوصی طور پر مسائل کی تحقیق میں موصوف نے بدائع ، البحرالرائق ، فتح القدیر وغیرہ اہم مراجع سے استفادہ کیا ہے ، یہ تحقیق کا کام تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، معہد سے موصوف کی فراغت ۱۴۲۱ھ کی ہے۔
تصویر ۔۔ صورتیں اور احکام
اللہ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن تصویر بنانے والے کو سخت عذاب ہوگا ، (بخاری باب التصاویر : ۵۹۵) اس کے علاوہ اور بھی حدیثیں ہیں ، جن میں تصویر بنانے والوں کے لئے وعیدیں وارد ہوئی ہیں ؛ لیکن کیا یہ حکم مطلق ہے یا مقید ؟ اسی طرح موجودہ زمانے میں جو ڈیجیٹل تصاویر چلتی ہیں ، کیا وہ بھی اس میں شامل ہیں؟ اگر ضرورت شدیدہ کی بنیاد پر تصویر کھینچوانی ضرورت پڑے تو اس کا کیا حکم ہے؟ یہ وہ مباحث ہیں جن کے تعلق سے منتشر مواد تو مل جاتا ہے ؛ لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ ان سب مباحث کو اکٹھا کردیا جائے ، خصوصی طور پر اردو میں اس موضوع پر کسی تفصیلی کتاب کی ضرورت تھی ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا امتیاز احمد سبیلی نے ''تصویر ۔۔ صورتیں اور احکام'' کے عنوان سے اپنا سندی مقالہ مرتب کیا ، موصوف نے مسائل کو ائمہ اربعہ کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا ہے اور تمثال، رسم، وثن، اقسام تصویر، سایہ دار تصویر، غیر سایہ دار تصویر، تصاویر کی خرید و فروخت، ٹی وی کی تصویر وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت تصویر سے متعلق زیادہ سے زیادہ مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ، مقالہ کل ۵۶۵ صفحات پر مشتمل ہے ، مقالہ کی تیاری میں موصوف نے تفسیر ، حدیث اور فقہ کے اہم مراجع کے علاوہ فتاوی کی کتابوں سے خصوصی طور پر استفادہ کیا ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۹ھ کی ہے۔
جدول المذاہب الاربعۃ
حضرت الاستاذ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کو اللہ تعالیٰ نے جدید علمی تصنیف و تالیف کا جو ملکہ عطا فرمایا ہے اس کا اعتراف تمام اہل علم حضرات کرتے ہیں ، اسی طرح آپ کی نگرانی میں ہونے والے تصنیفی و تالیفی کام بھی منفرد نوعیت کے ہوتے ہیں، فقہی جزئیات میں مسالک اربعہ کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں ان سے ہر صاحب علم واقف ہے کہ بسا اوقات ان کا یاد رکھنا اور بوقت ضرورت ان کے اصل مصادر سے استخراج بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے ، اسی وجہ سے بعض ایسی فقہی تالیفات وجود میں آتی ہیں جن میں مسالک اربعہ کے مسائل و دلائل کو ذکر کیا گیا ہے ؛ تاکہ بوقت ضرورت ان سے استفادہ آسان ہو۔
معہد کے چند فضلاء مولانا عبداللہ مظاہری ، مولانا منور سلطان ندوی ، مولانا نثار احمد ندوی قاسمی، مولانا نعمت اللہ قاسمی اور مولانا ابرار احمد قاسمی ( فراغت : ۱۴۲۳ ھ ) پر مشتمل ایک ٹیم نے بھی اسی طرح کے ایک اہم کام کا آغاز کیا اور ''جدول المذاہب الأربعۃ'' کے عنوان سے مواد جمع کرنا شروع کیا ، ۱۵۰ صفحات میں مواد جمع کیا گیا ؛ لیکن یہ کام چوں کہ کافی وسیع تھا ، اس لئے مدتِ تعلیم کے درمیان یہ کام مکمل نہ ہوسکا ، اگر یہ کام مکمل ہوجائے تو افتاء کا کام کرنے والوں کے لئے یہ عظیم سرمایہ ہوگا۔
حیوانات کے فقہی احکام
زندگی کے ہر ہر شعبہ اور کائنات کی ہر ہر مخلوق کے متعلق جتنی واضح اور آسان تعلیمات اسلام میں ملتی ہیں وہ کہیں اور نہیں ملتیں ، اسلام نے جہاں انسانوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کی ہے وہیں حیوانات سے متعلق بھی اس کی تعلیمات بالکل صاف اور بے غبار ہیں ، جیسے جانوروں کی زکوٰۃ، جانوروں کی خرید و فروخت ، جانوروں کی پاکی و ناپاکی اور جانوروں کے علاج و معالجہ کے احکام وغیرہ ، اسی لئے جہاں اسلام نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دوسری مخلوقات کو اس کا خادم بنایا ہے ، وہیں انسان کو اس بات کا بھی مکلف بنایا ہے کہ جب وہ کسی جانور کو پالے ، یا اس سے خدمت لے تو اس کی تمام ضروریات کا پورا پورا خیال رکھے ، اسی پس منظر میں ''حیوانات کے فقہی احکام'' کے عنوان سے مولانا ابرار احمد قاسمی نے ایک مقالہ تیار کیا ہے ، جس میں حیوانات کو ایذا رسانی کی ممانعت ، حلال و حرام پرندے اور جانوروں کی تفصیل، ذبح کے مختلف طریقے اور ان سے متعلق احکام ، جانوروں کے اجزاء بدن سے متعلق احکام ، جانوروں کی زکوٰۃ اور جانوروں کی خرید و فروخت سے متعلق احکام تفصیل سے بیان کئے ہیں ، یہ مقالہ ۱۱۵ صفحات پر مشتمل ہے ، مقالہ نگار ۱۴۲۳ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ دوم میں شامل تھے۔
خواتین کے احکام
اسلام دین فطرت ہے، اس میں انسانوں کی فطری صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر احکام مشروع کئے گئے ، خواتین پر فطری طور پر کچھ ایسے حالات پیش آتے ہیں جو اسی صنف کے ساتھ خاص ہیں ؛ لہٰذا اسلام نے ان حالات کے لئے الگ سے ان کی رہنمائی کی ہے ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا ابو قمر قاسمی نے اپنے سندی مقالہ کے لئے ''خواتین کے احکام'' کا عنوان منتخب کیا اور طہارت ، عبادات، نکاح، طلاق، عدت اور میراث وغیرہ سے متعلق اہم مسائل کو جمع کیا ہے ، مقالہ تقریباً ۳۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، مقالہ کی تیاری میں موصوف نے تفسیر ، حدیث اور فقہ کے تقریباً ۱۵۰ اہم مراجع سے استفادہ کیا ہے، موصوف کی معہد سے فراغت ۱۴۲۳ ھ کی ہے۔
دکن کی فقہی خدمات
ہندوستان کے جن علاقوں میں اب بھی عہد اسلامی کے نقوش اور عظمت رفتہ کی علامتیں پائی جاتی ہیں ان میں ایک نمایاں نام دکن کا ہے ، دکن کا علاقہ شروع ہی سے اپنی علم دوستی اور تہذیب و شائستگی کی وجہ سے مشہور رہا ہے، اس علاقے میں بھی بے شمار علماء و فضلاء پیدا ہوئے جن کے علم کا دنیا نے لوہا مانا ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا محمد آصف ندوی نے اپنے سندی مقالہ کے لئے جو مقالہ لکھا ، اس کا عنوان ہے ''دکن کی فقہی خدمات'' موصوف نے علوم اسلامی میں سے ایک فن کو منتخب کرکے اسی کو اپنی بحث و تحقیق کا موضوع بنایا اور اہل دکن کے قلم سے نکلی ہوئی تقریباً ۷۲ فقہی کتابوں کا تعارف پیش کیا ہے ، مقالہ کی تیاری میں مقالہ نگار نے حیدرآباد میں واقع اہم کتب خانوں سے استفادہ کیا ، مقالہ تقریباً ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف معہد سے ۱۴۲۴ ھ میں فارغ ہوئے ۔
تخریج احادیث رسالہ 'فضائل نماز'
فضائل اعمال حضرت مولانا شیخ زکریا صاحبؒ کی گرانقدر اور مقبول عام تصنیف ہے ، حضرت ؒ نے اس کتاب میں مختلف ابواب سے متعلق فضائل پر بحث کی ہے اور احادیث سے ان فضائل کو ثابت کیا ہے اور چوں کہ فضائل اعمال کی اکثر احادیث جو شیخ نے فائدہ کے ذیل میں ذکر کی ہیں ، ان کی تخریج نہیں ہوئی تھی ، جس کی وجہ سے بعض لوگوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ فضائل اعمال کی احادیث موضوع ہیں ؛ اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ ان احادیث کی تخریج کردی جائے ؛ تاکہ حضرت شیخ کا جو فیض فضائل اعمال کے ذریعہ جاری ہے وہ دائم رہے ، اسی کے پیش نظر مولانا وسیم الدین رشادی نے جو ۱۴۲۲ ھ میں معہد کے شعبہ حدیث دوم میں داخل تھے ،' رسالہ فضائل نماز ' کے نام سے فضائل اعمال کے ایک حصہ فضائل نماز کی احادیث کی تخریج کردی ہے ، موصوف کا یہ رسالہ ۷۷ صفحات پر مشتمل ہے۔
سوداور سودی مروج معاملات
قرآن مجید میں صراحت و تاکید کے ساتھ سود کی ممانعت کا حکم آیا ہے اور حدیثیں بھی بکثرت اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں ، ان سب کے باوجود آج دنیا سودی معاملات میں اتنا آگے بڑھ چکی ہے کہ دنیاوی زندگی کے کسی بھی موقع و مرحلہ میں بظاہر اس سے بچنا مشکل معلوم ہوتا ہے، حتیٰ کہ آج بہت سے مسلمان اور بعض اہل علم بھی طرح طرح کی تاویلوں کے ذریعہ ان معاملات کو جائز قرار دینے کے درپے ہیں ، اسی پس منظر میں مولانا محمد شفیق قاسمی نے ''سود اور سودی مروج معاملات'' کے عنوان سے یہ مقالہ تیار کیا ہے ، جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں سود کی مذمت ، سود کی معاشرتی خرابی اور سود کی مروجہ صورتوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ، مقالہ کی ضخامت ۲۰۰ صفحات کے قریب ہے ، موصوف ۱۴۲۳ھ میں شعبۂ تخصص فی الفقہ میں داخل تھے ۔
شب و روز ۔۔ فضائل و احکام
اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ ا کو اُمت وسط بنایا ہے، لیکن عصر حاضر میں اسلام سے دوری کی وجہ سے بعض افراد افراط و تفریط کا شکار ہیں ، ایسے ہی بعض لوگ مقدس دنوں اورمتبرک راتوں کے بارے میں یا تو حد سے زیادہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں یا سرے سے ان دنوں اور راتوں کی اہمیت ہی کے منکر ہیں ؛ چنانچہ اہل علم حضرات نے اس افراط و تفریط سے لوگوں کو بچانے کے لئے تحریر و تقریر کے ذریعہ لوگوں کی رہنمائی کی ہے ، اسی سلسلہ میں مولانا احمد حسین رشادی کا یہ مقالہ بھی ہے ، جس میں دنوں اور راتوں کے فضائل کو قرآن و حدیث اورفقہ اسلامی سے ثابت کیا ہے اور اس سلسلہ میں صحابہ کرام ث اور اسلاف کے معمول ، نیز فقہاء کرام کے نظریہ کو پیش کیا ہے ، اس کے بعد عصر حاضر میں ہونے والی بدعات و خرافات کا ذکر کرکے شریعت کی روشنی میں اس کی تردید کی ہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۲۳۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ موصوف ۱۴۳۰ ھ میں معہد سے فارغ ہوئے۔
طہارت اور نماز کے احکام ۔۔ فقہ شافعی کی روشنی میں !
اسلام کے بنیادی ارکان میں توحید و رسالت کے بعد سب سے اہم رکن نماز ہے، نماز کی فضیلت و اہمیت جتنی زیادہ ہے، اس سے متعلق احکام و مسائل کا باب بھی اسی قدر وسیع ہے، کوئی بھی حدیث یافقہ کی کتاب اٹھالی جائے، اس میں سب سے زیادہ جگہ احکام نماز ہی کے لئے وقف نظر آئے گی، کیوں کہ یہ عبادت بندہ کو اپنے مالک سے جوڑتی ہے اور اسے بار بار اپنی بندگی کا سبق یاد کراتی ہے، تاکہ خود فراموش بندے اپنے خدا کو فراموش نہ کردیں اور نماز جیسی اہم عبادات کو ادا کرنے کے لئے طہارت و پاکی ضروری ہے ؛ چنانچہ اسی پس منظر میں مولانا عبدالعزیز لحجیقاسمی نے طہارت و نماز کے احکام کو فقہ شافعی کی روشنی میں جمع کیا ہے، موصوف شافعی مسلک پر عامل ہیں، وہ المعہد کے پہلے بیچ کے فارغین میں سے ہیں ، موصوف نے ان مسائل کو جمع کرنے میں فقہ شافعی کی مستند کتابوں بالخصوص شرح مہذب سے استفادہ کیا ہے ، نیز اس سلسلے میں جو جدید مسائل ہیں ان پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس کے لئے ''الفقہ المنہجی''اور ''الفقہ الإسلامی و أدلتہ''وغیرہ سے استفادہ کیا ہے ، موصوف کی یہ کاوش تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
عربی زبان میں علماء احناف کی تصانیفِ احادیث
شریعت اسلامی کے بنیادی مصادر کتاب و سنت ہیں اور اسی پر دین کی اساس و بنیاد ہے ، احادیث پاک دراصل کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کے ساتھ ساتھ مستقل شرعی مصدر ہے، اس لئے اس کی تدوین و ترتیب اور اس کی چھان پھٹک میں علماء نے جس دقت نظر سے کام لیا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے ،اور امکانی حد تک کسی بھی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا ، بعض اسباب کی بناء پر احناف پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کے یہاں احادیث سے زیادہ اعتناء نہیں پایا جاتا، حالاں کہ اگر احناف کے اُصول استخراج پر غور کیا جائے تو یہ اشکال خود بخود رفع ہوجاتا ہے ؛ کیوں کہ یہاں مرسل روایت کی موجودگی میں قیاس کی گنجائش نہیں ، جب کہ دوسرے مکاتب فقہ میں اس کی اجازت ہے ؛ چنانچہ علماء احناف نے فن حدیث کی جو خدمت انجام دی ہے ، ضرورت تھی کہ اس کو مستقل عنوان بناکر پیش کیا جائے ؛ تاکہ یہ اس بے جا الزام کا علمی جواب ہوسکے ، اسی پس منظر میں معہد کے ایک فاضل مولانا محمد ضیاء اللہ نے '' عربی زبان میں علماء احناف کی تصانیفِ احادیث'' کو اپنے مقالہ کا موضوع بنایا اور معہد کے کتب خانہ میں دستیاب کتابوں کی روشنی میں ایک اچھا تعارف نامہ پیش کیا، اس میں متون حدیث، شروح حدیث، اُصولِ حدیث ، اسماء الرجال وغیرہ کی تقریباً ۴۳۴ کتابوں کا تعارف آگیا ہے ، مقالہ کل ۳۴۴ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف نے ۱۴۳۰ھ میں معہد سے فراغت حاصل کی ہے ۔
علاج و معالجہ ۔۔ احکام و مسائل
اللہ نے انسان کوجہاں بہت سی نعمتیں دی ہیں ان ہی میں سے ایک نعمت دوائیں بھی ہیں کہ اگر کوئی بیمار پڑجائے تو دواؤں کا استعمال کرے اور اپنا علاج کروائے اور پھر اللہ پر بھروسہ کرے اور بعض مرتبہ علاج و معالجہ نہ صرف یہ کہ مستحسن ہوتا ہے ؛ بلکہ شرعاً بھی ضروری ہوجاتا ہے ؛ کیوں کہ انسان کا وجود اور اس کی حیات امانت خداوندی ہے اور امانت کی حفاظت لازمی ہے۔
اسی پس منظر میں مولانا سید عتیق الرحمن اشاعتی نے علاج و معالجہ سے متعلق احکام ومسائل کو جمع کیا ہے، اس مقالہ میں علاج کے مختلف طریقے اور ان کے احکام پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس مقالہ کو ترتیب دیتے وقت قرآن و حدیث اور فقہ کی کتابوں کے علاوہ طب کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ، یہ مقالہ ۲۳۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۴ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ سال دوم کے طالب علم تھے۔
علماء دیوبند اور افتاء بمذہب الغیر
شریعت اسلامی کی بنیاد یسر پر ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''یریداﷲ بکم الیسر ولایرید بکم العسر'' اگر اسلامی احکام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ نے ہر مشقت کے موقع پر بندوں کے لئے رخصتیں بھی رکھی ہیں ؛ تاکہ شریعت پر عمل بھی ہوجائے اور انسان تنگی میں بھی نہ پڑے ۔
مسالک اربعہ کے فقہاء کرام نے جو فقہی جزئیات مستنبط کئے ہیں ، ظاہر ہے وہ سب قرآن و حدیث اور اسلامی اُصولوں کی روشنی میں کئے ہیں ؛ لیکن بسا اوقات حالات زمانہ کے تغیر یا پھر فقہی جزئیہ میں سختی کی وجہ سے ان پر عمل دشوار ہوتا ہے ؛ لہٰذا ایسے موقع پر دوسرے مسلک کی طرف عدول اور اس سے اخذ و استفادہ کی علماء نے گنجائش رکھی ہے ،قدیم فقہاء نے بھی اس کو اپنایا اور موجودہ زمانے میں نئے مسائل خصوصی طور پر معاشی مسائل کے حل میں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا جمیل اختر ندوی نے ''علماء دیوبند اورافتاء بمذہب الغیر'' کے عنوان سے دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء کے ان مسائل کو جمع کیا ہے ، جس میں انھوں نے مسلک احناف سے ہٹ کر دوسرے مسلک پر فتوی دیا ہے ، موصوف نے ''کتاب الطہارۃ ، کتاب العبادات، کتاب المعاملات، کتاب المعاشرۃ، کتاب الاوقات'' جیسے عنوانات کے تحت تقریباً ۸۰ مسائل جمع کئے ہیں ، مقالہ ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۷ھ کی ہے۔
علماء بہار کی فقہی خدمات
اسلامی علوم و فنون میں سے جس فن کو لے لیجئے، اللہ نے ہر فنکے لئے ایسی نابغۂ روزگار شخصیات پیدا کیں ، جو عام انسانی دنیا کے لئے بھی قابل رشک تھیں ، فقہ اس کا تعلق براہ راست عملی احکام سے ہوتا ہے اور نصوص کو سمجھنا، اس سے علت کا استخراج اور غیر منصوص مسائل میں اس کی تطبیق ، اسی طرح اُصول و کلیات کو سمجھنا پھر فروعیات و جزئیات میں اس کو منطبق کرنا واقعی بڑی دیدہ ریزی چاہتا ہے ؛ اسی لئے اللہ نے اس کے لئے جن علماء کو منتخب کیا وہ اپنے زمانے کے ذہین ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور اس فن کی خدمت کرنے والے علماء آج بھی اپنے پیش رو کی بہترین جانشینی ادا کررہے ہیں ۔
بہار کی سرزمین جو قدیم زمانے سے بڑی مردم خیز واقع ہوئی ، وہاں سے بھی اس فن کی خدمت کرنے والی بے شمار شخصیات پیدا ہوئیں ؛ بلکہ تاریخی کتابوں میں اس بات کی صراحت ہے کہ فتاویٰ عالمگیری کے مرتبین میں سے چار کا تعلق اسی صوبہ سے تھا ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا محمد اظہرالدین مظاہری نے ''علماء بہار کی فقہی خدمات'' کے عنوان سے یہ علمی تاریخ پر مشتمل مقالہ تیار کیا ہے ، موصوف نے اصل موضوع کے ذکر سے پہلے بہار کی سیاسی وعلمی تاریخ کا بھی ایک جائزہ پیش کیا، اس کے بعد ''ہندوستان میں فقہاء کا ورود'' کے عنوان سے ۱۵۰ فقہاء کا مختصر سوانحی خاکہ اور فقہی خدمات کا تذکرہ کیا ہے ، اس کے بعد علماء بہار کی فقہی تالیفات کا تعارف ہے ، پھر موجودہ عہد کے فقہاء اور فقہی ادارے کا اجمالی تعارف ہے ، مقالہ کل ۲۱۲ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی معہد سے فراغت ۱۴۲۸ھ کی ہے۔
عہد مغلیہ کا نظام قضاء اور قضاۃ
مغلوں کی حکومت سے قبل ہندوستان پر سلاطین دہلی کا قبضہ تھا اور پورے ہندوستان پر ان کی بالادستی قائم تھی ؛ چوں کہ اس حکومت کی بنیاد اسلامی تھی ؛ اس لئے ان سلاطین نے قوانین اسلامی کو برقرار ہی نہیں رکھا ؛ بلکہ اس کو نافذ بھی کیا اور حکومت کے ہر شعبہ میں اسلامی احکام کو داخل کرنے کی پوری کوشش کی ، اس کے بعد سلطنت مغلیہ نے بھی اسلامی نظام قضاء کو باقی رکھا اور عدالتی فیصلے شریعت اسلامی کی روشنی میں فیصل ہوتے رہے ، اسی پس منظر میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ مغلیہ سلطنت نے نظام عدالت کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا تھا اور اُمور عدلیہ میں کن چیزوں کا التزام کیا تھا ؛ چنانچہ اس اہم موضوع پر مولوی ہمایوں اقبال نے ایک اہم مقالہ تیار کیا ، جس میں مغلوں کے عہد کی علمی و تمدنی ترقی، عہد مغلیہ کا نظام عدالت ، عہد مغلیہ کے سلاطین اور قضاۃ کے حالات کو تفصیلی انداز سے بیان کیا گیا ہے ، اس مقالہ سے جہاں عہد مغلیہ میں نظام قضاء کے بارے میں پتہ چلتا ہے ، وہیں مغلیہ سلطنت کی تاریخ بھی معلوم ہوتی ہے ، یہ مقالہ ۱۴۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۷ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ سے فارغ ہوئے۔
غیر مسلم ممالک میں آباد مسلم اقلیتوں کے کچھ اہم فقہی مسائل
یہ تو ایک معروف و مسلم بات ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں احکام اسلام کے پابند ہیں، چاہے اس شہر یا ملک میں مسلمان اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں ؛ البتہ بعض ممالک کی اکثریت چوں کہ غیر مسلموں کی ہے اور ان کو سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی اعتبار سے پر غلبہ حاصل ہے ؛ لہٰذا وہاں کے مسلمان اس موقف میں نہیں کہ نظام مملکت کو شریعت مطہرہ کے سانچے میں ڈھال سکیں؛ چنانچہ ان مسلم اقلیتوں اور عام مسلمانوں کے دیگر مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر دور کے فقہاء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں کچھ قواعد مقرر فرمائے ہیں۔
اسی بناء پر '' فقہ الاقلیات '' کے عنوان سے مولانا الیاس بن ہاشم نے بھی ''غیر مسلم ممالک۔۔۔'' کے عنوان سے یہ مقالہ تیار کیا ، اس مقالہ میں غیر مسلموں کے ساتھ سودی معاملات ، غیر مسلموں کے الیکشن میں حصہ لینا ، غیر مسلم قاضی کے فیصلہ سے زوجین کے درمیان تفریق کا حکم ؟ عیسائی کورٹ میں BIBLE پر حلف اٹھانے کا شرعی حکم اور غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت وغیرہ جیسے مسائل کو تفصیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے ، موصوف کا مقالہ ۹۸ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۶ھ میں معہد سے فارغ ہوئے۔
غیر مسلموں سے متعلق فقہی احکام
قرآن و حدیث میں جن احکام کی کلیات کو بیان کیا گیا ہے ، فقہا اُمت نے اپنے اجتہاد کے ذریعہ ان کی جزئیات کو بیان کیا ہے، جس کو '' فقہ '' کہا جاتا ہے، فقہ چوں کہ تمام عملی احکام کا احاطہ کرتا ہے ؛ لہٰذا اس کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات کا حکم بھی بیان کیا گیا ہے ، اس پس منظر میں ضرورت محسوس ہوئی کہ ایسے مسائل کو ایک جگہ پر جمع کردیا جائے ؛ تاکہ استفادہ آسان ہو ؛ چنانچہ مولانا خالد سیف اللہ قاسمی نے '' غیرمسلموں سے متعلق فقہی احکام '' کے عنوان سے یہ مقالہ ترتیب دیا ، جس میں ایسے تمام مسائل کو جمع کردیا ہے جن کا تعلق غیر مسلموں سے ہے ، موصوف نے اس مقالہ کو ترتیب دینے میں قرآن و حدیث کے علاوہ فقہ کی مستند کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۴ھ میں شعبہ تخصص فی الفقہ میں داخل تھے۔
التحقیق والتعلیق علی الفتاوی السراجیۃ
چھٹی صدی ہجری کے ایک معروف عالم دین سراج الدین اوشی کی ایک کتاب ' فتاوی سراجیہ 'ہے ، یہ کتاب مختصر مگر جامع ہے ، جس میں اعتقادات ، عبادات اور معاملات کو مختصر انداز میں بیان کیا گیا ہے ، یہ کتاب ایسی ہے جس میں ہر مسئلہ بہ آسانی مل سکتا ہے ، اس کتاب کی اتنی اہمیت کے باوجود اس پر تحقیق و تعلیق کا کام نہیں ہوپا یا ، یا اگر ہوا تو وہ ناقص تھا ؛ چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس پر تحقیق و تعلیق کا کام کیا جائے ؛ چنانچہ معہد کے تخصص فی الفقہ (۱۴۲۵ھ) کے چند فضلاء مولانا رحمت اللہ اشاعتی ، مولاناعبدالحفیظ اشاعتی، مولانا عبدالمعید رشادی، مولانا زاہد خان ندوی ، مولانا ریاض الرحمن رشادی اور مولانا شاہ نواز نے اس کام کو انجام دیا ، کتاب میں واقع آیات و احادیث کی تخریج ، مشکل الفاظ کی تشریح ، نیز دوسرے اہم فقہی مراجع سے مسائل کی توثیق اور ان کے حوالہ جات میں مذکورہ اسکالرس نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے ، مسائل کی توثیق کے لئے جن اہم مراجع کو ذکر کیا ہے ، وہ مندرجہ ذیل ہیں : خانیہ ، ہندیہ ، البحرالرائق ، بدائع الصنائع ، ردالمحتار ،ہدایہ ، تاتارخانیہ ، مصنف کی کتاب جو ۱۶۰ صفحات پر مشتمل تھی اور مذکورہ اسکالرس کی تحقیق و تعلیق کے بعد اس کے مجموعی صفحات ۹۰۰ تک پہنچ گئے ہیں۔
'' فتاویٰ عالمگیری پر ایک تحقیقی نظر'' کا تحقیقی جائزہ
اسلامی علوم کی خدمت میں ہندوستانی علماء نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ یقیناًتاریخ کا ایک زرین باب ہے، شروع ہی سے ہندوستان میں بعض ایسے علماء پیدا ہوئے جن کے علم کی خوشبو پورے عالم میں پھیلی اور بعض ایسی نمایاں خدمات انجام دیں جسے اسلامی کتب خانہ میں نادر تصور کیا گیا، ہندوستان کی ان ہی نوادر تصنیفات میں سے ایک تصنیف ''فتاویٰ عالمگیری'' بھی ہے جو جزئیات کے احاطہ میں بے مثال کتاب تسلیم کی گئی، یہ کتاب اورنگ زیب عالمگیرؒ کے دور حکومت میں ہندوستان کے جید علماء کی نگرانی میں تیار کی گئی اور اس وقت سے اب تک ارباب قضاء و افتاء کا مرجع ثابت ہوئی۔
بسا اوقات ناقدانہ و مخالفانہ ذہنیت کی وجہ سے لوگ فریق مخالف کے بارے میں بغیر تحقیق و جستجو کے غلط رائے قائم کرلیتے ہیں ؛ حالاں کہ یہ بات علمی اُصول کے خلاف ہے ، فتاویٰ عالمگیری کے سلسلہ میں ایک غیر مقلد عالم نے اپنے اعتراضات کا دفتر ''فتاویٰ عالمگیری پر ایک تحقیقی نظر'' کے عنوان سے شائع کیا ؛ لہٰذا ضرورت تھی کہ ان اعتراضات کا علمی جائزہ لیا جائے تاکہ بات پوری وضاحت سے سامنے آئے ؛ چنانچہ معہد کے ایک فاضل مولانا محمد ارشد فلاحی نے ان اعتراضات کے جوابات بڑے اچھے انداز سے مرتب کیا ہے ، موصوف نے نمبر وار تقریباً ۱۲۵ اعتراضات کا علمی جواب ۲۲۷ صفحات میں تیار کیا ہے ، مراجع کے طور پر تفسیر وحدیث اور فقہ کی مشہور کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ، موصوف معہد سے ۱۴۲۵ ھ میں فارغ ہوئے ہیں۔
التحقیق والتعلیق علیفتاویٰ النوازل
چوتھی صدی ہجری کے عالم دین امام ابواللیث نصر بن محمد بن ابراہیم السمرقندی الحنفی (متوفی ۳۷۵ ھ) کی مشہور تصنیف ''فتاویٰ النوازل'' مختصر لیکن انتہائی جامع کتاب ہے، اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک زمانے میں علماء کہتے تھے کہ کسی شخص کے لئے منصب قضاء پر بیٹھنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ وہ اس کتاب کو پڑھ کر سمجھ نہ لے۔
یوں تو اس پر تحقیق کا کام السید یوسف احمد نامی ایک محقق نے کیا ہے اور وہ کتاب دارالکتب العلمیۃ (بیروت) سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوچکی ہے ؛ لیکن اس میں موصوف نے انتہائی اختصارسے کام لیا ہے ؛ لہٰذا ضرورت تھی کہ اس کتاب پر تفصیلی تحقیق کا کام کیا جائے ۔
معہد کے تین فضلاء مولانا عبداللہ خالد، مولانا محمد مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا فضل الرحمن قاسمی نے احادیث کی تخریج ، رجال پر کلام اور خصوصی طور پر دوسری اہم فقہی کتابوں سے مسائل کی توثیق کا کام کیا ہے ، مختلف جگہوں میں اُصولی بحثیں بھی آگئی ہیں ، تحقیق میں احادیث و فقہ کے اہم مراجع سے استفادہ کیا گیا ہے ، تینوں حضرات کے کام کی مجموعی مقدار ۱۰۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔
کھیل کود کے جدید شرعی مسائل
اسلام نے زندگی کا جو تصور دیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی بڑی قیمتی چیز ہے، اس کا ایک ایک لمحہ گراں قدر ہے، یہ ایسی دولت ہے جو ایک ہی بار ملتی ہے، اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اس محدود زندگی میں اپنی آخرت کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنی دنیاوی زندگی کو بھی بامقصد، باوقار اور حتی الوسع آرام دہ بنائے اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے گلشن ہستی کے حسن اور بہار کو مزید نکھار دے۔
جو دین زندگی کو اتنی اہمیت دے اس سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو عیش و عشرت کی کھلی چھوٹ دے گا اور انھیں لہو و لعب میں مبتلا دیکھے گا اور انھیں بے مقصد زندگی گزارنے کی اجازت دے گا ؛ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام نے کھیل کود اور تفریح وغیرہ سے بالکل منع کردیا ہے ؛ بلکہ اسلام نے ایسے تمام کھیل کی اجازت دی ہے جن سے احکام الٰہی کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو ؛ چوں کہ آج کے دور میں کھیل کی نئی نئی شکلیں پیدا ہوگئی ہیں اس لئے ضرورت تھی کہ ان کھیلوں کی تاریخ اور ان کے احکام پر کچھ لکھا جائے تاکہ اُمتِ مسلمہ حلال و حرام میں تمیز کرسکے ، اس اہم کام کو مولانا سید ارشد علی نے کیا ہے اور کھیل کود کے جدید شرعی مسائل کے عنوان سے ایک مقالہ تیار کیا، اس مقالہ میں کھیلوں کی تاریخ کو بھی بیان کیا ہے اور ان کی اچھائیاں اور بُرائیاں بھی ذکر کی ہیں، جدید کھیلوں پر کافی اچھی بحث کی ہے ، اولمپک کے بارے میں بھی لکھا ہے، غرض یہ کہ اس موضوع پر جامع مقالہ ہے جن کے صفحات کی مجموعی تعداد ۳۳۰ ہے ، موصوف نے تفسیر حدیث، فقہ کی کتابوں کے علاوہ رسائل و اخبار، ہندی ، انگریزی اورمراٹھی زبان کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف ۱۴۲۴ھ میں معہد کے شعبہ تخصص فی الفقہ سال دوم سے فارغ ہوئے۔
مساجد ۔۔ احکام و مسائل
اسلام کے تصور عبادت میں مسجد کو بلاشبہ ایک مقام حاصل ہے ، یہ مسجدیں رشد و ہدایت کا مرکز اور برکتوں کا سرچشمہ ہیں، مسلم معاشرہ میں اس کی حیثیت دھڑکتے ہوئے دل کی ہے ؛ چنانچہ ابتداء سے ہی اس کی حیثیت مسلم رہی ہے ، ساتھ ساتھ یہ سماج سے بُرائی مٹانے کا اہم مرکز ثابت ہوئی ؛ چنانچہ مساجد میں جہاں عبادات کے ساتھ احکام اسلام کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے وہیں اسے اسلام کی دعوت کا مرکز بھی تصور کیا گیا ہے ؛ جیسا کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام باہر سے آنے والے وفود کو مساجد میں ٹھہراتے اور اسلام کی تعلیم سے بہرہ ور فرماتے۔
مساجد کی اہمیت و تقدس کے عنوان سے اُردو اور عربی میں بہت سی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، ضرورت تھی کہ مساجد کے احکام و مسائل کو مسالک اربعہ کے مطابق جمع کیا جائے ، اس اہم کام کو مولانا عبداللہ پٹیل گجراتی ( فاضل دارالعلوم لوناواڑہ) نے ''مساجد ۔۔ احکام ومسائل'' کے عنوان سے جمع کیا ہے ، موصوف نے اپنے مقالہ میں مساجد کی تعمیر، مساجد کے اشیاء کا استعمال اور مساجد کے اعمال وغیرہ پر تفصیلی بحث کی ہے ، ان کا یہ مقالہ پانچ ابواب اور ۲۲۵ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف نے کل ۷۲ مصادر و مراجع سے استفادہ کیا ہے ، جن میں سے ۱۴ کتابیں تفسیر سے متعلق ہیں ۲۱۰ کتابیں احادیث سے متعلق ہیں اور بقیہ فقہ اربعہ سے متعلق کتابیں ہیں۔
موصوف ۱۴۳۰ میں المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے شعبہ تخصص فی الفقہ سال دوم میں زیرتعلیم تھے۔
المسائل المتفقہ بین المذاہب الاربعۃ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو آخری نبی بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا اور آخری کتاب کی حیثیت سے قرآن کریم نازل فرمائی ، جس کی تشریح آپ نے اپنے اقوال اور افعال کے ذریعہ فرمائی جس کو سنت یا حدیث کہا جاتا ہے ، اس اعتبار سے کتاب و سنت کے اندر انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے ؛ لہٰذا ان احکام کو اس طرح مرتب کرنا کہ اس میں زندگی کے تمام مسائل جمع ہوجائیں یہ ایک ضروری اوراہم کام تھا جس کو فقہاء اربعہ اور ان کے شاگردوں نے بحسن و خوبی انجام دیا ، فقہاء کے درمیان جہاں کچھ مسائل میں اختلاف ہے وہیں بہت سارے مسائل پر یہ ائمہ متفق بھی ہیں ، ہمارے چند مسلم بھائیوں کی طرف سے یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ چاروں ائمہ کسی مسئلہ پر متفق نہیں ہے، ہر مسئلہ اختلافی ہے ، اس لئے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ چاروں فقہ سے ان مسائل کی تخریج کی جائے جو چاروں ائمہ کے درمیان متفق علیہ ہیں ؛ چنانچہ ان مسائل کو معہد کے چار فضلاء نے فقہی ابواب کے اعتبار سے جمع کردیا ہے ، مولانا عبداللہ مدبر صدیقی نے کتاب الطہارۃ اور کتاب الصلاۃ ، مولانا محمد جنید گجراتی نے کتاب الحج اور احوالِ شخصیہ ، مولانا نورالدین قاسمی نے کتاب الصیام والزکوٰۃ اور مولانا محمد مظفرالدین قاسمی نے کتاب البیوع تاکتاب الفرائض کے تمام مسائل کو جمع کردیا ہے اس کو جمع کرنے میں چاروں دبستان فکر کی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ،مقالہ نگاروں میں سے آخرالذکر ۱۴۲۸ھ میں معہد سے فارغ ہوئے اور بقیہ حضرات ۱۴۲۶ھ میں فارغ ہوئے اور یہ اہم کام پندرہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔
(الف) المسائل التی انفردبہا أبو یوسف عن الطرفین
(ب) المسائل التی انفرد بہا الامام محمد عن الشیخین
(ج) المسائل التی انفردبہا الصاحبان عن أبی حنیفۃ
فقہ حنفی کی تدوین و ترتیب میں جن نمایاں شخصیات کا ذکر آتا ہے ان میں امام ابویوسفؒ و امام محمدؒ کی شخصیتیں نہایت اہم ہیں، ان دونوں حضرات کے تذکرہ میں علماء نے لکھا ہے کہ ان کے اندر مجتہد مطلق ہونے کی پوری صلاحیت موجود تھی ؛ لیکن انھوں نے الگ سے اپنا مکتبہ فقہ قائم نہیں کیا ؛ بلکہ ازراہ ادب اپنے استاذ ہی کے وضع کردہ اُصولوں کی روشنی میں استنباط واستخراج مسائل کا کام انجام دیا ؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں باہم کوئی اختلاف ہی نہیں پایا جاتا تھا ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دلائل کی روشنی میں ان میں بہت سے مسائل میں اختلاف پایا جاتا تھا ، امام ابو یوسفؒ جو اپنے زمانے میں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز تھے ، انھوں نے بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا اور امام محمد کے ساتھ رہے ، اسی طرح بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ و امام محمد دونوں سے اختلاف کیا ۔
امام محمدؒ جن کے بارے میں امام ابو عبیدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمدؒ سے بڑھ کر کسی کو کتاب اللہ کا عالم نہیں دیکھا، انھوں نے بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا اورامام ابو یوسف کے ساتھ رہے، اسی طرح ان مسائل کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جس میں امام محمدؒ نے امام ابو یوسف و امام ابو حنیفہؒ دونوں سے اختلاف کیا۔
ان حضرات کے اسی طرح کے مسائل کو الگ سے جمع کرنا واقعی ایک اہم علمی کام تھا ؛ کیوں کہ اس سے ایک طرف تو نئے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے ؛ کیوں کہ بسا اوقات معمول بہ قول کے مطابق اگر نئے مسائل کو حل کیا جائے تو کافی دشواری پیش آتی ہے ؛ لہٰذا اصحاب مذہب میں سے کسی کے قول پر فتویٰ دیا جاتا ہے ؛ بلکہ ضرورت پڑنے پر دوسرے مذاہب فقہ سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے ، دوسری طرف ہر شخصیت کا الگ الگ علمیت و فقاہت کا عکس اُمت کے سامنے جلوہ گر ہوگا۔
یہ اہم علمی کام معہد کے تین فضلاء نے انجام دیا ہے ، مولانا محمد شاکر ندوی نے ''المسائل التی انفرد بھا الامام محمد عن الشیخین'' کے تحت امام محمدؒ کے تفردات کو جمع کیاہے ، ان کا مقالہ تقریباً ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، مولانا معین الدین نے ''المسائل التی انفرد بھا الامام ابو یوسف عن الطرفین''کے تحت امام ابو یوسفؒ کے تفردات کو جمع کیا ہے ، ان کا مقالہ تقریباً ۵۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، مولانا اسرار احمد ندوی نے ''المسائل التی انفرد بھا الصاحبان عن أبی حنیفہ'' کے تحت صاحبین کے امام ابو حنیفہ سے اختلافات کو ذکر کیا ہے ، ان کا مقالہ تقریباً ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، ان مسائل کو زیادہ تر بدائع الصنائع سے اور کچھ کو ہدایہ ،شامی ، البحر الرائق ، الفتاویٰ التاتار خانیہ وغیرہ جیسے اہم مراجع سے جمع کیا گیا ہے ، یہ مسائل تقریباً تمام ابواب فقہ پر مشتمل ہیں ، معہد سے ان حضرات کی فراغت ۱۴۲۷ھ کی ہے۔
احکام سے متعلق شرعی حکمتیں
شریعت اسلامی تمام تر حکمت و مصلحت سے پُر ہے، اس کا کوئی بھی حکم فائدہ سے خالی نہیں، شریعت کے اکثر مصالح تو ظاہر و باہر ہیں ؛ البتہ کچھ ایسے ہیں جن کو سمجھنے کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے، علماء نے شروع سے اس کو اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ''حجۃ اﷲ البالغۃ''لکھ کر گویا اس فن کو اوج کمال پر پہنچادیا ، موجودہ زمانہ میں اس فن پر بہت مفید کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
معہد کے ایک فاضل مولانا محمد شاہد حسین قاسمی نے بھی '' احکام سے متعلق شرعی حکمتیں'' کے عنوان سے ایک مقالہ مرتب کیا ، مقالہ تقریباً ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف نے مقالہ کی تیاری میں فقہ اور مصالح شریعت کے موضوع کی اہم کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف کی معہد سے فراغت ۱۴۲۴ھ کی ہے۔
منشیات کے شرعی احکام
مقاصد شریعت پر لکھنے والے علماء کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ شریعت میں جن پانچ چیزوں کی حفاظت کے پیش نظر احکام مشروع کئے گئے ہیں ، ان میں ایک عقل بھی ہے ، عقل اللہ کی دی ہوئی ایک بیش بہا نعمت ہے، تسخیر کائنات کا کارنامہ انسان نے اسی عقل سے انجام دیا ، اسی عقل کے بدولت انسان ہواؤں کے دوش پر سوار ہوا، ستاروں پر کمندیں ڈالنا اسی عقل کے ذریعہ آسان ہوا ، مختصر یہ کہ انسانی زندگی کے ارتقاء و ترقی میں عقل و شعور کا بڑا کردار ہے ، یہی وجہ ہے کہ شریعت میں وہ تمام چیزیں حرام و ممنوع قرار دی گئیں جو کسی بھی طرح سے عقل کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔
مغربی تہذیب و تمدن کے پھیلاؤ سے انسانی معاشرہ جہاں بہت سی برائیوں کاشکار ہوا ان میں سے ایک نشہ آور چیزوں کا استعمال بھی ہے ، دھیرے دھیرے لوگوں کی بڑی تعداد نشہ آور چیزوں کی عادی ہوتی چلی جارہی ہے ؛ حالاں کہ شریعت اسلامی میں کسی بھی طرح کے نشہ کو حرام قرار دیا گیا ہے ، ضرورت اس بات کی تھی کہ نشہ آور چیزوں کے استعمال کے تعلق سے شریعت کے کیا احکام ہیں اسی طرح اس کے اخلاقی و معاشرتی کیا نقصانات ہیں اس کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے، موضوع کی اسی اہمیت کے پیش نظر معہد کے ایک فاضل مولانا محمد خلیل کوثرقاسمی نے ''منشیات کے شرعی احکام'' کو اپنے مقالہ کا موضوع بنایا اور بہت مرتب انداز میں ۱۶۵ صفحات پر مشتمل ایک مقالہ تیار کیا ، موصوف نے صرف شرعی احکام کے بیان پر اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ نشہ آور چیزوں کے استعمال سے جو جسمانی ، اخلاقی اور اقتصادی نقصانات پہنچتے ہیں اسی کی بھی وضاحت کی ہے ، موصوف معہد سے ۱۴۲۵ھ میں فارغ ہوئے ہیں ۔
موافقات الإمام أبی حنیفۃ ؒ والامام مالکؒ
وموافقات الإمام أبی حنیفۃ والشافعیؒ
اسلام کے قانون کو فقہاء نے قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا ہے جس کو فقہ کہا جاتا ہے ، فقہاء نے اپنے اجتہاد کے ذریعہ قرآن و سنت سے مسائل کا استنباط کیا ہے ؛ لیکن ان میں اختلاف رائے بھی پیدا ہوئی ؛ البتہ جہاں اختلاف پیدا ہوا وہیں فقہاء بہت سے مسائل پر متفق بھی ہیں اور بعض مسائل ایسے ہیں جس میں بعض تو متفق ہیں ؛ لیکن بعض کا اختلاف ہے ؛ چنانچہ جن مسائل میں امام ابو حنیفہ اور امام مالکؒ متفق ہیں اور دوسرے ائمہ کا ان میں اختلاف ہے ان مسائل کو مولانا صاحب احسن ندوی نے فقہی ابواب کی ترتیب پر جمع کردیا ہے اور جن مسائل میں امام ابو حنیفہ اور امام شافعیؒ متفق ہیں اور دوسرے ائمہ کا اختلاف ہے، ان مسائل کو مولانا سہیل رومی نے جمع کیا ہے ،لیکن کام طویل ہونے کی وجہ سے یہ کام کتاب الطہارۃ تا کتاب الزکوٰۃ تک ہی ہوا ،دونوں حضرات کا یہ کام تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، دونوں حضرات ۱۴۲۸ھ میں معہد سے فارغ ہوئے۔
مہر ۔۔ احکام و مسائل
اسلام ایک آفاقی مذہب ہونے کے ساتھ ابدی پیغام حیات بھی ہے ، اس نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا حکم دیا ؛ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ یہ تعاون علی البر( نیکیوں پر تعاون) ہو تعاون علی الاثم (برائی پر تعاون) نہ ہو۔
اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت اور عزت نفس کا خیال رکھتا ہے ، اسلامی قانون کی روشنی میں بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورت جیسی جنس لطیف کو اسلام نے جتنے حقوق دیئے ، ان کو جتنا انسانی فضائل و محاسن کا حق دار ٹھہرایا اور باعزت وآبرومند بناکر جتنے حقوق مالکانہ ان کو دیئے ہیں ، اس کی نظیر دنیا کے کسی جدید و قدیم مذہب میں نہیں ملتی ؛ بلکہ تقریباً سارے مذہبوں نے عورتوں کے ساتھ ظلم روا رکھا ہے، بہرحال اسلام نے جہاں عورتوں کو بہت سارے حقوق عطاء کئے وہیں حق نفس کا بھی خیال رکھا ہے اور عورتوں کے لئے مہر کو لازم قرار دیا ؛ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وآتوالنساء صدقتھن نحلۃ کہ عورتوں کا مہر خوشدلی سے ادا کرو، زمانہ جاہلیت میں لڑکی کو مہر نہیں دیا جاتا تھا، آج ہمارا معاشرہ زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ چکا ہے لوگ زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرتے ہیں اور ادا کرنے کا نام نہیں لیتے ، اسی پس منظر میں مولانا عزیز مظاہری نے اس موضوع پر ایک اہم مقالہ تیار کیا جس میں مہر کی شرعی اہمیت، مہر ادا کرنے کے سلسلہ میں قرآن کا حکم، ادا نہ کرنے کے بارے میں وعید وغیرہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اس مقالہ میں مہر کی موجودہ اوزان میں جو مقدار ہے اس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، ازواج مطہرات کے مہر کا بھی تذکرہ ہے، کونسی چیزیں مہر بن سکتی ہیں اس کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے ، اُمید ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے سے لوگوں کے دلوں میں مہر کی اہمیت جاگزیں ہوگی ، موصوف کا یہ مقالہ ۱۴۵ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۸ھ میں معہد سے فارغ ہوئے ۔
نوافل کے شرعی احکام
شب و روز میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور وہ گویا اسلام کا رکن رکین اور لازمۂ ایمان ہیں اور ان کے علاوہ ان ہی کے آگے پیچھے اور دوسرے اوقات میں بھی کچھ رکعتیں پڑھنے کی ترغیب و تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے ، اللہ تعالیٰ نے نفل نمازوں کی طرح دیگر نفلی عبادتوں کو مشروع فرماکر اُمت محمدیہ پر احسان عظیم کیا ہے؛ لہٰذا اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ نوافل کے احکام و مسائل ایک جگہ جمع کردیئے جائیں ؛ تاکہ اس سے متعلق احکام و مسائل کے جاننے میں سہولت پیدا ہو ؛ چنانچہ اس اہم علمی کام کو مولانا سعید احمدمظاہری نے ''نوافل کے شرعی احکام ''کے عنوان سے انجام دیا ہے ، موصوف ۱۴۲۵ھ میں معہد کے شعبۂ تخصص فی الفقہ میں داخل تھے ، موصوف کا یہ مقالہ چار ابواب اور ۳۱۵ صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں سنن موکدہ اور اس میں نماز تراویح اور سنن غیر موکدہ اور اس میں اشراق، چاشت،تہجد وغیرہ پر تفصیلی بحث کی ہے، اس کے علاوہ نماز حاجت، نماز استخارہ، نماز کسوف وخسوف، نماز استسقاء اور نماز توبہ کے احکام و مسائل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
نو مسلموں کے مسائل ۔۔ فقہ اسلامی کی روشنی میں
ایمان اس دنیا میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت اللہ تعالیٰ انھیں بندوں کو عطا کرتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے: ''وماکان لنفس أن تؤمن إلا باذن اﷲ'' یہ ایمان کی دولت اللہ کبھی تو پیدائشی طور پرعطا کرتا ہے اور کبھی ایک عرصہ دوسرے مذہب میں گزار کر انسان کو دین حق اپنانے کی توفیق ہوتی ہے ، جو حضرات بھی اس طرح دین میں داخل ہوتے ہیں ان کا دل کی گہرائیوں سے استقبال اوربوقت ضرورت مدد و اعانت مسلمانوں کی اہم ذمہ داری ہے، نو مسلموں سے متعلق شرعی احکام کیا ہیں؟ کیا شرعی احکام کی بجاآوری میں ان کے لئے کچھ رخصت رکھی گئی؟ اس بات کی تحقیق وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔
معہد کے ایک فاضل مولانا محمد عاشق صدیقی ندوی نے انھیں احکام سے متعلق اپنا سندی مقالہ ''نو مسلموں کے مسائل ۔۔ فقہ اسلامی کی روشنی میں'' کے عنوان سے مرتب کیا ہے اور ''نو مسلمین کے چند بنیادی احکام'' ، ''ولادت سے وفات تک کے مسائل'' ، ''نو مسلمین کے ختنہ کے احکام'' اس کے علاوہ نکاح ، طلاق ، نفقہ ، وصیت ، میراث وغیرہ کے تعلق سے بہترین مواد جمع کردیا ہے ، ان شاء اللہ یہ کتاب نو مسلموں کے لئے بڑی مفید ہوگی ، مقالہ کل ۲۶۵ صفحات پر مشتمل ہے ، مقالہ کی تیاری میں موصوف نے تفسیر و حدیث کے بنیادی مراجع سے استفادہ کیا ہے، موصوف کی سن فراغت ۱۴۲۴ھ ہے۔
اسلامی اوقاف کی تاریخ ۔۔ فقہ شافعی کی روشنی میں
اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کے سامنے ''فلاح دارین'' یعنی دونوں جہانوں کی کامیابی و کامرانی کا نظریہ بھرپور اور جامع طریقہ سے پیش کیا ہے ، اسی لئے اسلام میں جہاں عاقبت سنوارنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقے سکھائے گئے ہیں وہاں موجودہ زندگی میں بھی کامیابی و ترقی حاصل کرنے کے زرین اُصول بیان کئے گئے ہیں۔
اوقاف کا نظام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے ذریعہ معاشرے کی کمزوریوں کی اصلاح کرکے اسے توانائی بہم پہنچائی گئی ہے اور یوں ایک سبق دیا گیا ہے کہ ''چلو تو زمانے کو ساتھ لے کے چلو'' نظام اوقاف سے جس طرح انسانوں کی دینی اور مذہبی ضروریات پوری ہوتی ہیں (مثلاً مساجد، مدارس اور خانقاہیں وغیرہ تعمیر ہوتی ہیں) اسی طرح اوقاف سے انسانوں کی طبعی و معاشی ضروریات کی بھی کفالت ہوتی ہے۔
اس پس منظر میں مولانا فیض احمد آدم ملا نے فقہ شافعی کی روشنی میں وقف کے موضوع پر ایک مقالہ تیار کیا ہے ، جس میں وقف سے متعلق سارے احکام اور اوقاف مسلمین کی تاریخ کو بیان کیا ہے ، اس میں عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ کے اوقاف اور ان کے علاوہ موجودہ زمانے تک کے اوقاف پر روشنی ڈالی ہے۔
موصوف کایہ مقالہ ۲۷۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف نے قرآن و حدیث کے علاوہ فقہ شافعی اور تاریخ کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف ۱۴۲۴ھ میں شعبہ فقہ دوم میں داخل تھے۔
خطبوں سے متعلق احکام و مسائل
انسانی زندگی کی اصلاح و تربیت میں جہاں بہت سے عوامل کام کرتے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بسا اوقات کسی کی مؤثر بات انسانی زندگی کی کایہ پلٹ دیتی ہے، یہ مؤثر بات کبھی تو تحریر کے ذریعہ وجود میں آتی ہے تو کبھی تقریر کے ذریعہ، اسی تقریر کو اصطلاحی زبان میں ہم خطاب سے تعبیر کرتے ہیں، یہ ایسا وسیلہ ہے جس سے اصلاح و تربیت کے میدان میں کافی کام لیا جاتا ہے ، تمام انبیاء علیہ السلام نے اس وسیلہ کو استعمال کیا، اللہ کے رسول نے اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ''إن من البیان لسحرًا'' اسلام میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض عبادتوں کے لئے اسے شرط قرار دیا گیا ہے اور بعض دیگر عبادات کے لئے مسنون مانا گیا ہے، مثلاً جمعہ کے لئے خطبہ واجب ہے ، جب کہ عیدین، حج، نکاح اور استسقاء وغیرہ کے لئے یہ سنت ہے، یہ بات ہمارے لئے صد افتخار ہے کہ کوئی بھی ایسا عنوان نہیں ہے جس کو ہمارے اسلاف نے تشنہ چھوڑا ہو، اسلامی کتب خانہ میں بھی خطبات سے متعلق کافی مواد دیا جاتا ہے ؛البتہ اس کام کی ضرورت تھی کہ ایک ہی جگہ مختلف مواقع کے خطبات اور اس سے متعلق ضروری احکامات کو جمع کردیا جائے ؛ تاکہ اس سے متعلق احکام ایک جگہ مل جائیں ، اس اہم علمی کام کو معہد کے ایک طالب علم مولانا حسین احمد نعمانی قاسمی نے انجام دیا ، مقالہ کل چھ ابواب پر منقسم ہے ، صفحات کی تعداد ۳۴۷ ہے ، موصوف نے مقالہ میں بعض اہم عنوان مثلاً خطبہ کا عربی زبان میں ہونا ، خطبہ کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ، دوران خطبہ مقتدی کیا کرے اور ممنوع اوقات کب سے کب تک ہیں ، دوران خطبہ اگر سجدہ کی آیت پڑھ دی جائے تو کیا حکم ہوگا ، ٹیپ سے نشر ہونے والے خطبے کے حکم کو بھی چھیڑا ہے اور اس سے متعلق اچھا خاصہ مواد جمع کردیا ہے ، موصوف نے اس کتاب کی تیاری میں کل ۱۲۶ مراجع سے استفادہ کیا ہے ، جن میں تفسیر کے ۱۳ ، احادیث کی ۲۰ مختلف دبستان فقہ کے تقریباً ۸۰ کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، مقالہ علمی ہونے کے ساتھ ساتھ زبان عام فہم ہے ، اختلافی مسائل میں ائمہ اربعہ کے مسائل کو ذکر کیا ہے اور کہیں کہیں راحج قول کو بھی ذکر کردیا ہے ،موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۳۰ ھ ۲۰۰۹ء کی ہے۔
محمد ضیاء الرحمان الأعظمی کی کتاب ''أدیان الہند'' کا اُردو ترجمہ
مسلمان بحیثیت مجموعی دعوت اسلامی کے ذمہ دار ہیں ، ان کو یہ ذمہ داری سپرد کی گئی ہے کہ وہ چاہے دنیا کے کسی کونے میں رہیں اپنے ارد گرد بسی ہوئی آبادی کو دین اسلام سے روشناس کرائیں ؛ لیکن داعی کے لئے ہمیشہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ مدعو کی ذہنیت اس کے معتقدات، زندگی گزارنے کے اس کے فکر و فلسفہ کو سمجھ کر دعوت دے تاکہ اس کی دعوت زیادہ سے زیادہ مؤثر ہوسکے اور اس میں بنیادی طور پر یہ ضروری ہوتا ہے کہ مدعو جس مذہب پر عمل پیرا ہے اس کے بنیادی معتقدات و مسلمات سے واقفیت حاصل کی جائے ؛ چوں کہ دعوتی نقطۂ نظر سے ان ادیان سے واقفیت ضروری ہے اس لئے ان ادیان کے تعارف پر بے شمار کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ، ان ہی میں سے ایک اہم کتاب : ''فصول فی أدیان الھند''ڈاکٹر ضیاء الرحمان اعظمی کی بھی ہے ، جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ جامع بھی ہے ؛ لیکن یہ کتاب چوں کہ عربی میں ہے اس لئے اُردو داں طبقہ اس کے استفادہ سے محروم ہے ، ضرورت تھی کہ اس کتاب کو اُردو میں منتقل کیاجائے ، اس اہم کام کو معہد کے ایک فاضل مولانا محمد عالمگیر قاسمی نے انجام دیا ، یہ ترجمہ ۲۷۶ صفحات پر مشتمل ہے ، تقریباً پوری کتاب کا ترجمہ اس میں آگیا ہے ؛ البتہ خاتمۃ البحث کا ترجمہ باقی ہے ، موصوف معہد سے ۱۴۲۲ھ میں فارغ ہوئے ہیں۔
اسلام اور جدید ذرائع ابلاغ
عربوں کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس میں یہ بات ملتی ہے کہ بسا اوقات ایک ایک شعر پورے قبیلہ میں ایک جوش پیدا کردیتا اوردشمنوں کے مقابل اسے آمادۂ جنگ کردیتا تھا ، ایک شاعر ایسی شاعری کے ذریعہ کسی قبیلہ کو انتہائی عزت دار ثابت کردیتا تو کسی قبیلہ کو انتہائی پست و ذلیل قرار دیتا ، تقریباً یہی کردار آج کل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے ، شروع میں اس کا استعمال صرف خبروں کی ترسیل کے لئے ہوتا تھا ؛ لیکن اب جب کہ میڈیا پر پوری طرح اسلام دشمن ہی نہیں ؛ بلکہ انسانیت دشمن لوگ قابض ہیں ، جو میڈیا کا استعمال اپنے استعماری منصوبوں کے لئے کرتے ہیں ،ذرائع ابلاغ کی حیثیت دراصل دو دھاری تلوار کی ہے ، اگر اس سے اچھا کام لیا جائے تو واقعی اچھائی کے پھیلانے کا انتہائی کامیاب ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے اور اگر برائی کو پھیلایا جائے تو وہ بھی بڑی سرعت کے ساتھ پھیلتی ہے ، افسوس کہ آج اس کا زیادہ تر استعمال برائی کی تبلیغ میں ہورہا ہے۔
معہد کے ایک فاضل مولانا محمد مجتبیٰ حسین قاسمی نے '' اسلام اور جدید ذرائع ابلاغ'' کے عنوان سے ایک مقالہ مرتب کیا ہے ، جس میں موصوف نے ذرائع ابلاغ کے متعلق شرعی حکم اسی طرح اس کو کس طرح اسلامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کی وضاحت کی ہے ، موصوف کا مقالہ تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف نے مقالہ کی تیاری میں قدیم وجدید مراجع سے استفادہ کیا ہے، معہد سے موصوف کی فراغت ۱۴۲۲ ھ کی ہے۔
خطبات بنگلور کا بنگلہ ترجمہ
اللہ کے رسول ا کی سیرت تمام انسانوں کے لئے اُسوہ اور نمونہ ہے ، آپ اکے بتائے ہوئے اُصولوں کی روشنی میں انسان دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے، یوں تو احادیث کے مجموعہ میں آپ اکے ارشادات و ہدایات اور اقوال و افعال کو محفوظ کرلیا گیا ؛ لیکن شروع ہی سے علماء اسلام نے آپ اکی زندگی کے واقعات کو الگ سے قلم بند کیا ہے ، جس میں آپ اکی خانگی زندگی ، معاشرتی زندگی، سیاسی زندگی اورآپ اکے اخلاق وعادات کا تفصیلی تذکرہ ملتا ہے ،سیرت کی بے شمار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، جس میں آپ اکی زندگی کے مختلف گوشوں کو واضح کیا گیا ہے ، سیرت کی اہم کتابوں میں سے ایک کتاب حضرت الاستاذ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی خطبات بنگلور (پیغمبر انسانیت ا) ہے ، یہ کتاب دراصل ان خطبات کا مجموعہ ہے جو ۱۹۹۷ء میں سنٹر فار آبجکٹیو اسٹڈیز (بنگلور) کے زیراہتمام اہل علم ودانشور طبقہ خواص کے سامنے حضرت الاستاذ نے دیئے ، بعد میں افادہ عام کی غرض سے اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ۔
خطبات ''پیغمبر اسلام ا۔۔پوری انسانیت کے لئے اُسوۃ'' پیغمبراسلام ا اوربنیادی انسانی حقوق، پیغمبر اسلام ا اور غیر مسلم، پیغمبر اسلام ا اور خواتین، پیغمبر اسلام ا اور کمزور طبقات و حیوانات جیسے اہم عنوانات کو سامنے رکھ کر دیئے گئے تھے ، کتاب کی پذیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کے اُردو میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ، تلگو ، انگریزی و فرانسیسی میں بھی اس کا ترجمہ کیا گیا،کتاب سے استفادہ کو اور زیادہ عام کرنے کے لئے بنگلہ زبان میں اس کا ترجمہ معہد کے ایک فاضل مولانا ہلال الدین قاسمی نے کیا ہے اوراسی کو انھوں نے اپنے سندی مقالہ کا موضوع بنایا ہے ، کتاب کا ترجمہ ۲۲۵ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف کی فراغت معہد سے ۱۴۲۲ ھ کی ہے۔
دعوت و تبلیغ کے اُصول و احکام
قرآن کریم خدا کی مقدس ترین کتاب ہے ، رشد و ہدایت کا چشمہ اسی سے پھوٹتا اوراُبلتا ہے، کفر و شرک کے زہریلے اثرات سے آلودہ دلوں کو ایمان و ہدایت کے آبِ حیات سے غسل دے کر انھیں صیقل کرتا ہے، اس کا وجود پوری انسانیت کے لئے سراپا ہدایت ہے، اس کی ہر آیت ہدایت کے نور سے منور اور اس کا ہر لفظ حق و سچائی کا پیکر ہے، اس کو ابتداء سے انتہا تک پڑھتے جائیں اور دعوت و تبلیغ کی فضیلت اور رشد و ہدایت کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کرتے جائیں ، کہیں تو صریح طور پر اس کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا گیا تو کہیں اُمم سابقہ کے حالات اور انبیاء کرام کی دعوتی جدوجہد کو ذکر کرتے ہوئے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے، غرض کہ قرآن کا یہ ایک اہم اور وسیع موضوع ہے، اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مشن بھی آفاقی تھا، پس اُمت مسلمہ کا کردار اور اس کی جدوجہد بھی آفاقی ہونی چاہئے ، اس اہم کام کے لئے یہ اُمتِ مسلمہ پیدا کی گئی ہے، دعوت و تبلیغ ایک ہمہ گیر اور اہم فریضہ ہے ، اس کے لئے سعی بلیغ کی ترغیب دی گئی ہے ، نیز اس کی انجام دہی پر خدا کی طرف سے انعامات کی بارش ، اجر و ثواب کے وعدے اور اس سے پہلوتہی اختیار کرنے پر سخت وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں ، اس لئے ضرورت تھی کہ دعوت و تبلیغ کے اُصول و احکام پر مفصل انداز میں کلام کیا جائے تاکہ داعیان حق اس سے استفادہ کرسکیں ، اس کے پیش نظر مولانا ادریس فلاحی نے ''دعوت وتبلیغ کے اُصول و احکام'' کے عنوان سے ایک مقالہ ترتیب دیا ہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۲۳۰ صفحات پر مشتمل ہے ، آپ نے قرآن و حدیث اور فقہ کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف ۱۴۲۵ھ میں معہد سے فارغ ہوئے۔
دعوت سے متعلق فقہی احکام
اس اُمت کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری دعوت الی اللہ ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کو خصوصی طور پر بیان کیا ہے : ( کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر) (آل عمران : ۱۱۰) لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ علماء نے جس طرح عبادات و معاملات کے متعلق بہت کچھ لکھا، اس طرح دعوت کے متعلق نہیں لکھا، اس پس منظر میں ضرورت محسوس ہوئی کہ دعوت کے اُصول اور منہج کے متعلق کچھ لکھا جائے ؛ چنانچہ مولانا ادریس ندوی نے اس موضوع پر ایک مقالہ مرتب کیا ، جس میں دعوت کے اُصول اور آداب کو بیان کیا ہے ، اس مقالہ کو مرتب کرنے میں موصوف نے قرآن وحدیث کے علاوہ مستند کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، موصوف کا یہ مقالہ تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۴ ھ میں معہد کے طالب علم تھے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں استاذ محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس موضوع سے متعلق عربی زبان میں ایک کتاب ''فقہ الدعوۃ'' کے عنوان سے تصنیف کی ہے ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ مسیحیت اور ان کی قرآن دانی
آپ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں ، آپ ا کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں، آپ ا کے بعد جو بھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ شخص کذاب ہے، یہ ہے وہ قرآنی عقیدہ جس سے ذرہ برابر اِدھر اُدھر ہونے کی گنجائش نہیں، مسلمانوں کو اس اہم عقیدے سے پھیرنے کی جو کوششیں کی گئیں اس کی تاریخ بڑی پرانی ہے، خود حضور ا کی حیات ہی میں کتنے لوگ دعوائے نبوت لے کر نمودار ہوئے، قریبی دور میں بھی اسی طرح کا ایک لعین شخص صوبہ پنجاب کے ایک علاقہ ''قادیان'' سے نمودار ہوا جس نے کبھی اپنے آپ کو حضرت مہدی کہا تو کبھی حضرت مسیح ، یہاں تک کہ اس نے اللہ کی طرف ایسی نازیبا باتیں بھی منسوب کیں جس سے اللہ مکمل طور پر پاک ہے، دشمنوں کی طرف سے پشت پناہی کی وجہ سے یہ باطل تحریک دھیرے دھیرے کمزور عقیدہ مسلمانوں میں جڑ پکڑنے لگی اور رفتہ رفتہ اس نے ایک فتنہ کی شکل اختیار کرلی،اللہ جزائے خیر دے ہمارے علماء کرام کو جنھوں نے اس چیلنج کا منھ توڑ جواب دیا اورتقریر و تحریر کے ذریعہ عوامی بیداری پیدا کی، قادیانی فرقہ اور اس کے باطل عقیدے کے تعارف میں مختلف انداز سے کتابیں لکھی گئیں، بعض اہل علم کے قول کے مطابق اس موضوع پر سب سے جامع کتاب ''قادیانیت از ابوالحسن علی ندویؒ '' ہے ، معہد کے ایک فاضل مولانا بشیرالدین قاسمی نے بھی اس کو اپنے مقالہ کا موضوع بنایا اور غلام احمد قادیانی کے حالات کا مقابلہ حضرت عیسیٰ ں سے کرکے کھرے کھوٹے کو الگ کر دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے، اسی ضمن میں موصوف نے غلام احمد قادیانی کے قرآن فہمی کا بھی جائزہ پیش کیا ہے ، مقالہ تقریباً ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف نے مقالہ کی تیاری میں مختلف مراجع سے استفادہ کیا ہے ، موصوف کی سن فراغت ۱۴۲۳ ھ ہے۔
مستشرقین اور علمی خیانت
میدانی جنگ میں شکست فاش کے بعد اسلام دشمن طاقتوں نے جو محاذ اسلام کے خلاف کھولا اسے فکری جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس فکری جنگ میں سب سے زیادہ منظم شکل میں اسلام کو نقصان پہنچانے کی جو کوشش کی گئی اس میں تحریک استشراق کا بڑا حصہ ہے ، اس تحریک سے وابستہ لوگوں نے اسلامی موضوعات کو اپنی بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ؛ لیکن ان کا یہ عمل مخلصانہ یا خدمت علم کی غرض سے نہ تھا ؛ بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ اس علمی راستہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیاجائے ، اسلامی عقائد و مسلمات کے متعلق ذہنوں اور دلوں میں شک وشبہ پیدا کیا جائے اوردین اسلام کے بنیادی مآخذ کو کمزور کیا جائے۔
اس تحریک کے خطرناک اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کے لئے بے شمار کتابیں استشراق اور مستشرقین کے تعارف پر منظر عام پر آچکی ہیں ، دارالمصنفین اعظم گڑھ سے مضامین کا مجموعہ کئی جلدوں میں شائع ہوچکا ہے ۔
معہد کے ایک فاضل مولانا تنویر عالم قاسمی نے بھی ''مستشرقین اور علمی خیانت'' کو اپنے سندی مقالہ کا موضوع بنایا اور کل ۳۳ صفحات میں مواد جمع کیا ، موصوف نے اس میں اسلامی تعلیمات پر مستشرقین کی طرف سے کئے جانے والے عقلی اعتراضات کا جواب پیش کیا ہے ، معہد سے موصوف کی فراغت ۱۴۲۳ ھ کی ہے۔
مسلم سلاطین کی مذہبی رواداری
رواداری کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہر اعتبار سے آزادی حاصل ہو ، مثلاً ذہنی، فکری، مذہبی ، معاشرتی وغیرہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں کتنی رواداری تھی آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مدینہ میں جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو وہاں کے مشرکوں اوریہودیوں کو آپ نے وہاں سے نکالا نہیں ؛ بلکہ ان کو مکمل مذہبی آزادی اور شہری حقوق عطا کئے، آپ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، مسلم خلفاء وسلاطین نے بھی اسی طرز عمل کو اختیار کیا ؛ لیکن عجیب بات ہے کہ اس سلسلہ میں بعض تعصب پسند مؤرخین نے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اسی پس منظر میں مولانا نقیب عالم قاسمی نے مسلم سلاطین کی مذہبی رواداری کے عنوان سے ایک تفصیلی مقالہ تیار کیا ہے ، موصوف نے اپنے مقالہ کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے ، اس مقالہ میں دور نبوت اور دور خلافت راشدہ اور دور بنو اُمیہ ، دور عباسی اور دور عثمانی کے سلاطین کی مذہبی رواداری کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، دور نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مشرکوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے ساتھ جو رواداری کے واقعات ہیں ان کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۲۱۱ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۳ ھ میں تخصص فی الدعوہ میں داخل تھے۔
مشرک اقوام اور ان میں انبیاء کی دعوت ۔۔ اُسلوب و نتائج
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور پھر انسانیت کی ہدایت کے لئے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ؛ چنانچہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو نبی بناکر بھیجا اور پھر جب لوگوں میں بگاڑ آجاتا تو اللہ تبارک و تعالیٰ انبیاء کو بھیجتے ، یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاتم النبیین بناکر بھیجا ، جتنے انبیاء کرام آئے سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ ان کی قوم اللہ کو ماننے والی ہوجائے اور بتوں کی پوجا چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں لگ جائے ۔
اسی پس منظر میں مولانا سید مزمل اشاعتی نے انبیاء کرام کی دعوت کے متعلق ایک مقالہ لکھا ہے ، جس میں انبیاء کے دعوت کے اُسلوب و طریقوں کو بیان کیا ہے اور پھر ان کے کیا نتائج سامنے آئے ان کا بھی تذکرہ کیا ہے ، موصوف کا یہ مقالہ ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ہے ، موصوف ۱۴۲۳ ھ میں شعبہ تخصص فی القرآن میں داخل تھے۔