visitors

free counters

Friday 15 July 2011

متبادل توانائی کا استعمال

متبادل توانائی کا استعمال کیسے کیا جائے

 پاکستان توانائی کے مسائل میں شدیدطرح الجھا ہوا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہمارے پاس تقریباً تمام قدرتی وسائل موجود ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم پریشانیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ خدا نے انسان کو عقل دی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ نہایت پیچیدہ مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم توانائی کے متبادل کا انتخاب نہیں کررہے؟ ہمارے ملک میں متبادل توانائی پالیسی ترتیب کیوں نہیں دی جا رہی؟
ہاں یہ درست ہے کہ پاکستان پانی، گیس اور تیل کی کمی کا شکار ہے اور ان تمام ذرائع سے بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا مگر ہم سورج کی کرنوں، ہوا اور دیگر ذرائع سے توانائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ہمارا ملک دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جہاں سورج کی کرنیں اوسطً نو سے دس گھنٹے پڑتی ہیں۔ ہم ان سورج کی کرنوں سے توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔ سورج کے ذریعے حاصل کی جانے والی توانائی کو شمسی توانائی کہا جاتا ہے۔ شمسی توانائی خدا کا ایک انمول تحفہ ہے، اگرچہ شمسی توانائی پانی کی نسبت زیادہ طاقت ور نہیں مگر پھر بھی اس سے توانائی کا بڑا حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسپین کے علاقے نیورا جہاں توانائی کے روایتی ذرائع نہ ہونے کے باوجود بجلی کی ساٹھ سے ستر فی صد ضرورت کو شمسی توانائی سے پورا کیا جاتا ہے شمسی توانائی کے بہترین استعمال کی بہترین مثال ہے۔
وزارت بجلی وپانی کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی سے انتیس لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، شمسی توانائی کے استعمال پر زور کیوں نہیں دیا جا رہا۔ شمسی توانائی دیگر تمام ذرائع کی نسبت آلودگی سے پاک ہے۔ کوئلے ، گیس اور تھرمل سے حاصل ہونے والی توانائی سے گرین ہاﺅس گیسز کا اخراج ہوتا ہے جبکہ شمسی توانائی ایسی کوئی گیسز کا اخراج نہیں کرتی جو کہ ماحول کی خرابی کا باعث ہوں۔
لوڈشیڈنگ کے باعث زیادہ استعمال ہونے والے یو پی ایس سے دو سے چار گنا اضافی بجلی استعمال ہوتی ہے جس کی ادائیگی ہمیں بجلی کے اضافی بل کی صورت میں کرنی پڑتی ہے۔یوپی ایس کی نسبت شمسی پینل کو لگوانے سے اضافی بل کی ادائیگی سے بچا جا سکتا ہے ۔ شمسی پینل ایک دفعہ کا خرچا ہے اور اس کی مدت کم سے کم بیس سال ہے اس دوران دو سے چار سال بعد صرف انونٹر کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے توانائی کی ضروریات کے پیش نظر شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دیا ہے۔ دہلی کے نزدیک گوالی پہاڑی میں سورج سے بجلی کی توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک بجلی گھر بنایا گیا ہے جہاں پیداوار اور تحقیقی کام کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے دیگر حصوں میںفوٹو وولٹالک سنٹرز قائم کیے جا چکے ہیں جو ایک کلوواٹ سے ڈھائی کلوواٹ تک بجلی پیدا کرتے ہیں۔ گھروں، کارخانوں، ہوٹلوں اور اسپتالوں میں پانی گرم کرنے کے لیے ایسے آلات لگے ہیں جوایک سو لیٹر سے لے کر سوا لاکھ لیٹر تک پانی گرم کر سکتے ہیں۔ بھارت شمسی توانائی سے ایک فیصد سے بھی کم بجلی پیدا کرتا ہے۔
توانائی کا ایک اور متبادل ہوا بھی ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک ہوا سے توانائی حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں امریکہ، جرمنی، فرانس، چائنہ، اٹلی، اسپین، پرتگال اور انڈیا شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہوا سے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی با آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کا موسم ہواسے توانائی پیدا کرنے کے لئے بہترین ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے امکانات روشن ہیں۔
ہو اسے توانائی یعنی ونڈ انرجی سے توانائی کا حصول حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔ ہوا کی کم از کم دو سے تین کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو ونڈ انرجی کے لئے موزوں سمجھا جاتا ہے جو خوش قسمتی سے کراچی، ٹھٹھہ، کوئٹہ ، جیوانی، حیدرآباد، بلوچستان کی ساحلی پٹی، صوبہ سرحد کی چند شمالی وادیوں اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں ہوا کے ذریعے تقریباً تین ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
اس وقت جرمنی ہواسے اٹھارہ ہزار میگا واٹ، اسپین آٹھ ہزار میگاواٹ ، امریکہ سات ہزار میگاواٹ جبکہ بھارت تیرہ ہزار سے زائد بجلی پیدا کررہا ہے۔ شمسی توانائی کی طرح ہوا یعنی ونڈ انرجی بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے اور اس سے ماحول آلودہ نہیں ہوتا۔
میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہوا سے چلنے والے ٹربائنوں کا دنیا کا سب سے بڑا پراجیکٹ برطانیہ میں مکمل ہوا ہے۔ رودبار انگلستان کے ساحلی علاقے کینٹ میں قائم کیے جانے والے تھانٹ ونڈ فارم میں ایک سو انتہائی طاقت ور ٹربائن لگائے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں سے حاصل ہونے والی بجلی دولاکھ سے زیادہ گھروں کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ اکثر ساحلی علاقوں میں زیادہ تر تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں جن کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن باآسانی چلائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی ساحلی پٹی میں اس طرح کے منصوبوں کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے جس سے لاکھوں گھروں کو توانائی فراہم کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں توانائی کے اس متبادل ذریعے سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
یو ایس ایڈ کے تعاون سے پاکستان میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں ہوا سے تین لاکھ چھیالیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس وقت پاکستان توانائی کے سخت بحران کا شکار ہے اور صنعتیں بند ہونے سے سینکڑوں مزدور روزگار سے محروم ہیں جبکہ ملک بھر میں پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کو استعمال میں لاکر ہی توانائی کے بحران سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔

تحریر: سید محمد عابد

 
 

No comments:

Post a Comment