مریم جمیلہ کی کہانی خود ان کی زبانی
مریم جمیلہ کی کہانی خود ان کی زبانی نیاز سواتی سرسید احمد خان اور ابوالکلام آزاد کے ماڈرن ازم سے تعلق کے بارے میں مریم جمیلہ کی کتاب "اسلام اینڈ ماڈرن ازم" کے دو مضامین کے تراجم جسارت میگزین میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہ دونوں تراجم ایک انکشاف کے طور پر لیے گئے اور قارئین جسارت نے اپنی ای میلز کے ذریعے مطالبہ کیا کہ مریم جمیلہ کی زندگی، ان کے کام اور ان کے قبولِ اسلام کے متعلق معلومات فراہم کی جائیں۔ زیادہ بہتر سمجھا گیا کہ روایتی تعارف کے بجائے ان کے ایک ایسے دلچسپ اور ایمان افروز انٹرویو کا انتخاب کیا جائے جو تعارف کے ساتھ ان کی شخصیت کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہو۔ زیرنظر انٹرویو اسی خواہش کا مظہر ہے۔ ........٭٭٭........ سوال:۔ اسلام کے بارے میں آپ کو کیسے دلچسپی پیدا ہوئی؟ مریم جمیلہ:۔ میرا سابقہ نام مارگریٹ مارکیوس ہے۔ مجھے بچپن ہی سے موسیقی سے گہرا شغف تھا، خاص طور پر کلاسیکل اوپیرا اور سم فنی ((Somphony بہت پسند تھے جو کہ مغرب میں اعلیٰ نفاست کا معیار سمجھے جاتے ہیں۔ اسکول میں موسیقی میرا پسندیدہ مضمون تھا اور میں نے ہمیشہ اس میں اچھے نمبر لیے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ ایک مرتبہ میں نے ریڈیو پر عربی موسیقی سنی، یہ موسیقی مجھے بھاگئی۔ اس تجربے نے مجھے مزید عربی موسیقی سننے پر مجبور کردیا۔ میں نے اپنے والدین کو اُس وقت تک چین نہیں لینے دیا جب تک کہ میرے والد صاحب نے مجھے نیویارک سے عرب موسیقی کا ایک ذخیرہ نہ خرید کر دے دیا۔ میرے والدین، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے لیے عربی اور عرب موسیقی اس قدر تکلیف دہ ثابت ہوئی کہ جب بھی میں عرب موسیقی سنتی تو یہ سب مطالبہ کرتے کہ میں اپنے کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرلوں تاکہ وہ کم سے کم متاثر ہوں۔ 1961ءمیں اسلام قبول کرنے کے بعد نیویارک کی مسجد میںگھنٹوں بیٹھ کر مشہور مصری قاری عبدالباسط کی تلاوت کی ریکارڈنگ سنتی۔ ایک دن ہم مسجد میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ چھوٹے قد، دبلے جسم اور سادہ لباس میں ملبوس ایک سیاہ فام نوجوان نے اپنا تعارف زنجبار (افریقہ) کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کروایا اور سورة رحمن کی تلاوت کی۔ میں نے اس قدر خوش الحان تلاوت نہیں سنی تھی، حتیٰ کہ قاری عبدالباسط کی بھی نہیں۔ اس افریقی نوجوان کی تلاوت سن کر مجھے ایسا لگا کہ شاید حضرت بلال ؓ کی آواز بھی اسی طرح کی ہوگی۔ اسلام میں میری دلچسپی کا آغاز دس سال کی عمر سے ہوتا ہے جب میں یہودیوں کے سنڈے اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ مجھے یہودیوں اور عربو ں کے مابین تاریخی روابط سے بے انتہا دلچسپی پیدا ہوگئی۔ مجھے اپنی نصابی کتب کے ذریعے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم ؑ عربوں اور یہودیوں کے جدِّامجد ہیں، میں نے یہ بھی پڑھا کہ کس طرح قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی زندگی عذاب بنادی گئی، جب کہ مسلم اسپین میں یہودیوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ یہ اسلامی ثقافت کی برتر سخاوت تھی جس کی بدولت عبرانی زبان و ثقافت اپنے اعلیٰ ترین معیار تک جاپہنچی۔ صہیونیت کی اصل فطرت سے ناواقف ہونے کی بناءپر میرے ذہن میں یہ معصومانہ خیال آیا تھا کہ یہودی فلسطین واپس پلٹ کر اپنے سامی بھائیوں(عربوں) سے اپنے ان تعلقات کو مضبوط کریں گے جو حضرت ابراہیم ؑ کے توسط سے دونوں کے درمیان موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ یہودی اور عرب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ثقافت کے ایک نئے عہد کا آغاز کریں گے۔ یہودیت کی تاریخ سے اپنی انتہائی دل چسپی کے باوجود میں سنڈے اسکول میں خوش نہ تھی۔ اس تاریخی مطالعہ کے دوران میری تمام تر ہمدردیاں یورپی یہودیوں کے ساتھ رہیں جنہیں نازی دور میں شدید مصائب سے گزرنا پڑا، مگر یہ دیکھ کر مجھے شدید ذہنی دھچکا لگا کہ میرے ناصرف ہم جماعت بلکہ ان کے والدین بھی اپنے مذہب کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ یہودی عبادت گاہ میں بچے اپنی مذہبی کتابوں میں مزاحیہ کہانیاں رکھ کر پڑھتے رہتے اور اپنی مذہبی رسوم پر ہنستے رہتے۔ سنڈے اسکول میں تعلیم کے دوران بچے اس قدر شور مچاتے کہ اساتذہ کے لیے انہیں نظم وضبط میں لانا اور تدریس جاری رکھنا بے حد مشکل ثابت ہوتا۔ دینی تعلیمات پر عمل کے سلسلے میں ہمارے گھر کا ماحول بھی کوئی خوش گوار نہ تھا۔ میری بڑی بہن سنڈے اسکول سے شدید نفرت کرتی تھی، حتیٰ کہ اتوار کے دن میری والدہ کے سخت الفاظ اور آنسوﺅں کے بعد ہی اسے بستر سے نکال کر اسکول بھیجنا ممکن ہوپاتا تھا۔ بالآخر میرے والدین نے تھک ہار کر اسے سنڈے اسکول چھوڑنے کی اجازت دے دی۔ یہودیوں کے انتہائی مقدس دنوں میں معبد میں جاکر عبادت کرنے یا یوم کپور کا روزہ رکھنے کے بجائے میں اور میری بڑی بہن اپنے خاندان کے ساتھ تفریح اور بہترین ہوٹلوں میں تقریبات سے لطف اندوز ہوتے۔ جب ہم دونوں نے والدین کو قائل کرلیا کہ سنڈے اسکول کی تعلیمی حالت ناگفتہ بہ ہے تو انہوں نے ہم دونوں کو ایک الحادی اور انسان پرست تنظیم کے تعلیمی ادارے میں داخل کرادیا جو "ایتھیکل کلچر موومنٹ" کہلاتی تھی۔ یہ تنظیم انیسویں صدی میں فیلکس ایلڈر نے قائم کی۔ یہودیت کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ فیلکس اس بات کے قائل ہوتے گئے کہ اخلاقی تعلیمات اضافی اور انسان کی تخلیق کردہ ہیں۔ اس سلسلے میں روحانیت کے مکتبہ فکر اور مذاہب غیر ضروری ہیں۔ ان نتائج پر پہنچنے کے بعد فیلکس نے ایک ایسا مذہب تشکیل دیا جو جدید دنیا سے زبردست مطابقت رکھتا تھا۔ اس تحریک کے سنڈے اسکول میں، میں نے گیارہ سال کی عمر سے پندرہ سال کی عمر تک پڑھا۔ اس اسکول کے زیر سایہ میرے خیالات بھی اس نہج پر ڈھلتے چلے گئے اور میں تمام روایات اور مذاہب کو فضول سمجھنے لگی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں، میں نے صہیونی نوجوانوں کی مقامی تنظیم "میزراکی ہزائر" میں شمولیت اختیار کرلی، مگر جب مجھے احساس ہوا کہ صہیونیت کی فطرت ہی وہ چیز ہے جس نے یہودیوں اور عربوں کے درمیان حائل خلیج کو ناقابل عبور بنادیا ہے تو یہ تنظیم میں نے ازخود بے اطمینانی کے ساتھ چھوڑ دی۔ بیس سال کی عمر میں، میں نے نیویارک یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم "اسلام میں یہودیت" کو اختیاری مضمون کے طور پر لیا۔ میرے استاد پروفیسر ربی ابراہام کاش تھے جو شعبہ عبرانیات کے سربراہ بھی تھے۔ پروفیسر صاحب اپنے تمام یہودی طلبہ کو یہ بات ذہن نشین کروانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے تھے کہ اسلام یہودیت سے اخذ شدہ ہے۔ ہماری درسی کتاب جو مذکورہ پروفیسر صاحب کی تصنیف تھی، اس میں یکے بعد دیگرے قرآنی آیات کو انتہائی جاں فشانی سے یہودی کتب سے اخذ کردہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اس طرح پروفیسر صاحب کا حقیقی مقصد اسلام پر یہودیت کی برتری ثابت کرنا ہوتا تھا۔ مگر ہوا یوں کہ ان کی اس کوشش کے نتیجے میں، میں قرآن کی حقانیت کی قائل ہوتی چلی گئی۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ صہیونیت، یہودیت کا ایک نسلی اور قبائلی پہلو ہے۔ جدید سیکولر قوم پرستانہ صہیونیت میری نگاہوں میں اس وقت گر گئی جب مجھے علم ہوا کہ صہیونی قائدین میں شاید ہی کوئی ایک یہودیت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو، اور راسخ العقیدہ یہودی تو ان میں کوئی بھی نہیں۔ اس طرح روایتی یہودیت کو اسرائیل میں بھی شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ امریکہ کے تمام اہم یہودی رہنما صہیونیت کے نہ صرف حمایتی ہیں بلکہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں پر ہونے والی زیادتیوں پر ذرا سا دکھ بھی محسوس نہیں کرتے تو میں نے قلبی طور پر اپنے آپ کو یہودی سمجھنا چھوڑ دیا۔ نومبر 1954ءکی ایک صبح پروفیسر کاش نے اپنے خطاب میں منطقی دلائل سے پُر نظریہ پیش کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیش کردہ توحید اور ان پر نازل شدہ خدائی قوانین ہی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد ہیں۔ اگر اخلاقیات کو انسانی ساختہ مانا جائے جیسا کہ اس تحریک اور دیگر اس طرح کے ملحدانہ فلسفوں کا ماننا ہے تو اخلاقیات کو محض ارادہ ¿ انسانی، فوری ضرورت، سہولت اور حالات کے مطابق تبدیل ہوجانا چاہیے۔ مگر اس سب کا نتیجہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں ابتری اور تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ عقیدہ ¿ آخرت پر یقین (جیسا کہ ربی تلمود پڑھاتے ہوئے بتاتے ہیں) کے بارے میں پروفیسر کاش نے کہا کہ یہ محض خوش کن خیال نہیں بلکہ ایک اخلاقی ضرورت بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شخص روزِ آخرت جواب دہی کا حقیقی احساس رکھتا ہی، دراصل وہ اپنی تمام زندگی، اس کی عارضی خوشیوں کی قربانی کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایسا شخص مشکلات کو آسانی سے برداشت کرتا ہے اور ابدی جنت کے حصول کے لیے قربانیاں دیتا ہے۔ یہ پروفیسر کاش کی جماعت تھی جہاں میں ایک انتہائی غیر معمولی اور حد درجہ شوق رکھنے والی لڑکی زینیٹا سے ملی۔ پہلی مرتبہ جب میں پروفیسر کاش کے کمرہ ¿ جماعت میں داخل ہوئی تو میں نے دو عدد خالی کرسیاں پائیں، ان میں سے ایک کرسی پر یوسف علی کے ترجمہ و تفسیر کی تین عدد خوب صورت جلدیں رکھی ہوئی تھیں۔ میں بھی وہیںبیٹھ گئی۔ میرے دل میں اس تفسیر کے مالک کے بارے میں تجسس کا شعلہ بھڑک اٹھا۔ پروفیسر کاش کی آمد سے تھوڑی دیر قبل طویل قد، سفید رنگت اور سرخی مائل بھورے بالوں والی ایک لڑکی میرے برابر والی نشست پر بیٹھ گئی۔ میں نے سوچا یہ ترکی، شام وغیرہ سے آنے والی کوئی غیر ملکی لڑکی ہوگی۔ زیادہ تر طلبہ جو راسخ العقیدہ یہودی سیاہ ٹوپی پہنے ایسے لڑکے تھے جو یہودی ربی بننا چاہتے تھے۔کمرہ ¿ جماعت میں صرف ہم دو لڑکیاں تھیں۔ ایک دن جب ہم کافی دیر کے بعد دارالمطالعہ سے باہر نکل رہے تھے تو اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس کا تعلق ایک راسخ العقیدہ یہودی خاندان سے ہے۔ اس کے والدین 1917ءکے اشتراکی انقلاب سے چند سال قبل روس سے فرار ہوکر امریکہ پہنچے۔ میں نے محسوس کیا کہ میری نئی دوست غیر ملکیوں کی طرح انتہائی نپے تلے انداز میں انگریزی بولتی ہی، میرے اندازوں کی تصدیق اس نے یہ بتاکر کی کہ اس کے خاندان کے افراد اور دوست احباب آپس میں صرف ییڈش (جرمن یہودیوں کی زبان) میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اسکول جاکر ہی انگریزی سے واقف ہوئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کا نام زینیٹا لیبرمین تھا مگر حال ہی میں، زیادہ سے زیادہ امریکی بننے کے لیی، اس کے والدین نے اپنے خاندانی نام کو مختصر کرکے لیبرمین کے بجائے لین کردیا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس کے والد نے ہمیشہ اسے عبرانی کی تعلیم دی، زینیٹا نے اپنا زیادہ تر وقت عربی پڑھنے میں لگادیا۔ بہرحال، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے زینیٹا نے کلاس چھوڑ دی اور نصاب کے اختتام تک کبھی پلٹ کر واپس نہ آئی۔ کئی مہینے گزر گئے اور میں اسے بھول چکی تھی کہ اچانک مجھے اس کا پیغام ملا جس میں اس نے مجھ سے میٹرو پولیٹن میوزیم میں ملنے اور عربی خطاطی اور قرآن کے قدیم قلمی نسخوں کی نمائش میں شریک ہونے کی درخواست کی۔ اس نمائش کو دیکھتے ہوئے زینیٹا نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے دو فلسطینی دوستوں کے سامنے اسلام قبول کرچکی ہے۔ میں نے پوچھا "تم نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیسے کرلیا؟" اس نے بتایا کہ گردے میں انفیکشن کی وجہ سے اس نے پروفیسر کاش کی کلاس ترک کردی تھی۔ زینیٹا کی حالت اس قدر دگرگوں تھی کہ اس کے والدین اس کی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے۔ "ایک دن جب میں بخار سے جل رہی تھی کہ مجھے اپنے برابر والے بستر کے سرہانے قرآن مجید ملا، میں نے اسے پڑھنا شروع کردیا۔ قرآنی آیات نے میرے دل کو اتنا متاثر کیا کہ میں رونے لگی۔ اسی لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میں ٹھیک ہوجاﺅں گی۔ اس وقت میرے اندر اتنی ہمت پیدا ہوگئی کہ میں نے بستر سے اتر کر اپنے دو مسلم دوستوں کو بلایا اور کلمہ ¿ شہادت پڑھ لیا۔" زینیٹا اور میں شامی ریستورانوں میں کھانا کھانے لگے۔ جب بھی ہمارے پاس رقم ہوتی ہم اس ریستوران میں آکر بھنے ہوئے دنبے کے گوشت اور چاول یا دیگر عرب کھانوں سے لطف اندوز ہوتے۔ جب پروفیسر کاش ہمیں پڑھا رہے ہوتی، تو میں اپنے ذہن میں "عہدنامہ قدیم" اور "تلمود" کا قرآنی آیات اور احادیث سے تقابل کرتی تو یہودیت کو مسخ شدہ پاتی، نتیجتاً میں نے اسلام قبول کرلیا۔ سوال:۔ آپ کو کبھی یہ خدشہ محسوس ہوا کہ مسلمانوں میں آپ کو قبول نہیں کیا جائے گا؟ مریم جمیلہ:۔ اسلام اور اسلامی نظریات کے لیے میری بڑھتی ہوئی ہمدردی نے میرے اردگرد موجود یہودیوں کو مشتعل کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ میں انہیں گمراہ کررہی ہوں۔ وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ تمہاری یہ شہرت تمہارے آباو اجداد کے لیے شرم کا باعث اور تمہارے خاندان کے لیے نفرت کا سبب بنے گی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر تم نے اسلام قبول کرنے کی کوشش کی تو تمہیں مسلمانوں کے ہاں کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ خدشات میرے قبولِ اسلام کے بعد یکسر بے بنیاد ثابت ہوئے کیونکہ کسی مسلمان کی طرف سے مجھے میری یہودی وراثت سے کبھی وابستہ نہیں کیا گیا۔ قبولیت ِاسلام کے فوراً بعد مجھے اسلامی برادری نے انتہائی جوش و خروش سے خوش آمدید کہا۔ سوال:۔ آپ کے خاندان نے اسلام کے مطالعے پر اعتراض نہیں کیا؟ مریم جمیلہ:۔ میں 1954ءہی سے اسلام قبول کرنا چاہتی تھی مگر میرے خاندان نے مجھے اس سے باز رکھا۔ مجھے تنبیہ کی گئی کہ اسلام میری زندگی کو الجھاکر رکھ دے گا۔ کیوں کہ اسلام عیسائیت اور یہودیت کی طرح امریکی منظرنامے کا حصہ نہیں، مزید یہ کہ اسلام مجھے اپنے خاندان اور برادری سے الگ تھلگ کردے گا۔ اُس وقت میرا عقیدہ اس قدر پختہ نہ تھا کہ میں یہ دباﺅ برداشت کرسکتی۔ بہرحال کچھ دیگر وجوہات اور کچھ اندرونی کش مکش کے نتیجے میں، میں اس قدر بیمار ہوگئی کہ مجھے کالج کو خیرباد کہنا پڑا۔ اگلے دو سال تک میں اپنے گھر میں زیر علاج رہی اور میری حالت خراب ہوتی چلی گئی۔ 1957ءسے 1959ءتک، انتہائی مایوسی کے عالم میں میرے والدین مختلف نجی اور حکومتی ہسپتالوں میں میرا علاج کرواتے رہی، جہاں میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ اگر صحت یاب ہوگئی تو اسلام قبول کرلوں گی۔ جیسے ہی میں صحت یاب ہوکر گھر پہنچی، میں نے نیویارک کے مسلمانوں سے ملنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خوش قسمتی سے میری ملاقات چند بہترین مسلم خواتین و حضرات سے ہوئی اور میں نے مسلم جریدوں میں مضامین و مقالات تحریر کرنا شروع کردیے۔ سوال:۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے والدین اور دوستوں کا کیا رویہ رہا؟ مریم جمیلہ:۔ میں نے اسلام قبول کیا تو میرے والدین، رشتے داروں اور دوستوں نے اسے جنون سمجھا، کیوں کہ میں اسلام کے علاوہ کسی موضوع پر بات کرنے اور سوچنے کو تیار نہ تھی۔ لیکن تبدیلی ¿ مذہب ان کے خیال میں خالصتاً ذاتی معاملہ تھا۔ اسے وہ ایک ایسا معاملہ سمجھتے تھے جسے مشغلے کے طور پر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مگر جیسے جیسے میں نے قرآن کا مطالعہ کیا یہ بات عیاں ہوتی گئی کہ اسلام کوئی مشغلہ نہیں بلکہ خود ایک زندگی ہے۔ سوال:۔ قرآن آپ کی زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوا؟ مریم جمیلہ:۔ ایک شام میں جب عجیب سی اکتاہٹ اور بے خوابی محسوس کررہی تھی تو میری والدہ نے میرے کمرے میں داخل ہوکر پوچھا کہ وہ لائبریری جارہی ہیں اگر مجھے کوئی کتاب منگوانی ہو تو بتادوں۔ میں نے کہا کہ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ تلاش کریں، اگر مل جائے تو لے آئیں۔ ذرا سوچیں! مجھے کئی سال سے عربوں کے بارے میں جاننے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور میں نے کتب خانے میں موجود عربوں سے متعلق ہر کتاب پڑھ ڈالی تھی، مگر یہ سوچا تک نہ تھا کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے۔ بہرحال میری والدہ میرے لیے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ لے آئیں۔ قرآن کے لیے میں اس قدر بے چین تھی کہ میں نے یہ نسخہ ان کے ہاتھ سے تقریباً جھپٹ لیا اور اسے ایک رات میں ختم کرلیا۔ قرآن میں مجھے وہ قصص بھی ملے جو میں بچپن سے بائبل میں پڑھ چکی تھی۔ اپنی آٹھ سالہ ابتدائی مدرسے اور چار سالہ ثانوی مدرسے کی تعلیم اور ایک سالہ کالج کے زمانہ ¿ طالب علمی کے دوران میں نے انگریزی قواعد و انشائ، فرانسیسی، ہسپانوی، لاطینی، یونانی، حساب، جیومیٹری، الجبرا، یورپی و امریکی تاریخ، ابتدائی سائنس، حیاتیات، موسیقی اور فنون لطیفہ غرض کیا کیا نہیں پڑھا.... مگر نہیں پڑھا تو خدا کے متعلق کچھ نہ پڑھا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ میں اس معاملے میں کس قدر لاعلم تھی کہ میں نے پاکستان میں اپنی ایک قلمی دوست کو لکھا کہ میں اس لیے ملحدانہ خیالات رکھتی ہوں کہ میں اس بات پر یقین نہیں لاسکتی کہ خدا ایک باریش اور بزرگ آدمی ہے جو جنت میں اپنے تخت پر بیٹھا ہے۔ جب دوست نے پوچھا کہ یہ فضول معلومات تمہیں کہاں سے حاصل ہوئیں؟ تو میں نے سسٹین چیپل اول کا حوالہ دیا جو میں نے مائیکل اینجلو کے رسالی"لائف" میں "تخلیق" اور "حقیقی گناہ" کے ضمن میں پڑھا تھا، لیکن جب میں نے قرآن پڑھا تو معلوم ہوا (یہاں دونوں حوالوں کا اردو ترجمہ لگائیں)۔ قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد جو سب سے پہلا خیال میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ یہ سچا دین ہی.... مکمل طور پر خالص.... جو گھٹیا مصلحتوں اور منافقت سے بالاتر ہے۔ 1959ءکا سال میں نے اپنا بیشتر فارغ وقت نیویارک پبلک لائبریری میں اسلام کے بارے میں پڑھتے ہوئے گزارا۔ وہیں میں نے مشکوٰة المصابیح کی چار بھاری جلدوں کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کے نتیجے میں، میں نے جانا کہ قرآن کا حقیقی و تفصیلی مطالعہ متعلقہ حدیث کے جانے بغیر ناممکن ہے۔ قرآنِ مقدس کی تشریح آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کیسے کی جاسکتی ہے جب کہ قرآن نازل ہی آپ پر ہوا۔ جب مشکوٰة کا مطالعہ کیا تو میں نے مانا کہ قرآن ایک الہامی کلام ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ مجھے یہ یقین کیسے ہوا کہ قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریر کردہ (نعوذباللہ) تو میں کہوں گی کہ کائنات کے بنیادی سوالات کے بارے میں اس کے اطمینان بخش جوابات سے۔ یہ جوابات مجھے کہیں اور سے کبھی نہ مل سکے۔ بچپن میں، میں ہمیشہ موت سے خوف زدہ رہتی تھی، خاص طور پر اپنی موت کے بارے میں۔ موت سے متعلق ڈراﺅنے خواب دیکھنے کے بعد کبھی کبھی میں اپنے والدین کو چیختے ہوئے جگا دیتی اور ان سے پوچھتی کہ میں کیوں مروں گی اور مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ وہ محض یہی بتاتے کہ موت ناگزیر ہے اور تمہیں اس کو قبول کرنا ہوا۔ مگر یہ صبر آزما سوال ہے۔ طبی علوم اس قدر حیرت انگیز طور پر ترقی یافتہ ہوچکے ہیں کہ ہوسکتا ہے میں سو سال کی عمر تک زندہ رہوں! میرے والدین، خاندان، ہمارے تمام دوست احباب موت کے بعد زندگی کو محض وہم سمجھ کر ٹھکرا چکے ہیں۔ ان کے خیال میں روزِ قیامت اور جنت و دوزخ کی جزا و سزا دور گزشتہ کے تصورات ہیں۔ اپنی لاحاصل کوشش کے دوران میں نے "عہدنامہ قدیم" کے تمام اسباق کا مطالعہ کیا تاکہ حیات بعدالممات کا کوئی واضح جواب پاسکوں، مگر ندارد۔ بائبل میں مذکورہ تمام انبیاءعلیہم السلام کو جزا وسزا اسی دنیا میں ملی۔ خاص طور پر حضرت ایوب علیہ السلام کے قصے میں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جائداد اور پیارے سب مشیت ِالٰہی سے تباہ ہوگئے اور خود انہیں اذیت ناک بیماری لاحق ہوئی تاکہ ان کے ایمان کی آزمائش کی جائے۔ حضرت ایوب ؑ (بائبل کے مطابق) سخت تکلیف میں خدا سے سوال کرتے ہیں کہ آخر ایک صالح شخص کو اتنی تکلیف اور صعوبت سے کیوں گزارا گیا؟ بالآخر خدا، ایوب ؑ کے تمام نقصانات کا ازالہ کردیتا ہی، مگر پورے قصے میں آخرت میں جزا کا خانہ مکمل طور پر غائب ہے۔ بہرحال حیات بعدالممات کے متعلق میں جو کچھ بائبل کی"عہد نامہ جدید" میں پاسکی وہ قرآن میں اس موضوع پر موجود آیات کے مقابلے میں ایک مبہم اور الجھا دینے والا مواد تھا۔ مجھے یہودیت کی روایتی اور راسخ العقیدہ تعلیمات میں بھی حیات بعد الممات کے متعلق کوئی مواد نہ مل سکا بلکہ اس کے برعکس تلمود کی تعلیمات کے مطابق بدترین زندگی کو بھی موت کے مقابلے میں بہتر کہا گیا۔ میرے والدین کے فلسفے کے مطابق ہر شخص کو موت کے سوال سے بچتے ہوئے زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونا چاہیے کیونکہ زندگی کا دورانیہ مختصر ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زندگی کا مقصد خوشیوں کا زیادہ سے زیادہ حصول ہی، اور یہ مقصد اپنی صلاحیت کے زیادہ سے زیادہ اظہار، اپنے خاندان سے محبت، بہترین دوستوں کے ساتھ، بہترین معیار زندگی اور مختلف قسم کی تفریحات سے حاصل ہوتا ہے جن سے امریکہ بھرا پڑا ہے۔ میرے والدین زندگی کے بارے میں اپنی اس سطحی سوچ کا مسلسل اور دانستہ اظہار کرتے رہتے تھی، گویا یہ نظریہ اُن کے نزدیک ان کے بہترین مستقبل اور ابدی خوشیوں کی ضمانت تھا۔ زندگی کے تلخ تجربے کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ عیش و عشرت کا طرزعمل درماندگی اور خستہ حالی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے بجائے تکمیل ذات کا مقصد بغیر جدوجہد اور قربانی کے ناقابلِ حصول ہے۔ بچپن ہی سے میں اہم اور نمایاں ترین اہداف کو سامنے رکھتی تھی اور اپنی موت سے قبل بھی میں صرف یہ اطمینان اور ضمانت چاہوں گی کہ میں نے اپنی زندگی گناہوں اور فضول مقاصد کے حصول میں ضائع نہیں کی۔ میں نے اپنی پوری زندگی انتہائی سنجیدگی سے بسر کی ہے۔ غیرسنجیدگی اور سطحیت جو جدید دور کی ثقافت کا خاصہ ہی، میرے لیے ہمیشہ ناپسندیدہ اور قابلِ نفرت رہی ہے۔ ایک مرتبہ میرے والد نے اپنے غیر تسلی بخش دلائل کے ذریعے مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ دنیا میں دیرپا اور دائمی اقدار نام کی کوئی چیز نہیں، اور جدید دور کے تمام لوگ نئے رجحانات کو لازمی سمجھ کر قبول کرچکے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی انہی کے مطابق ڈھل جانا چاہیے۔ میں تو بہرحال دائمی اور ابدی اہمیت کے حامل مقاصد اور خوشیوں کی پیاسی رہی ہوں۔ یہ صرف قرآن ہے جہاں سے مجھے اس مقصد کا حصول ممکن نظر آیا۔ ہر وہ صالح عمل جو رب کی خوشنودی کے لیے کیا جائے کبھی ضائع نہیں ہوسکتا۔ ایسا شخص جو دکھاوے کا طلب گار نہ ہو، اس کا صلہ آخرت میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ اس کے برعکس قرآن بتاتا ہے کہ جو لوگ محض دنیاوی فائدے کے حصول، نمود و نمائش اور آزادی کی خواہش سے ہٹ کر کوئی اخلاقی مقصد سامنے نہیں رکھتے وہ روزِ جزا خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے خواہ انہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں کتنی ہی کامیابیاں کیوں نہ حاصل کرلی ہوں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف اپنی توجہ مبذول کرلینی چاہیے اور ایسی تمام بے مقصد سرگرمیوں کو ترک کردینا چاہیے جو اس مقصد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوں۔ قرآن مجید کی یہ تعلیمات جن کی مو ¿ثر وضاحت احادیث مبارکہ کے ذریعے ہوتی ہی، میرے مزاج سے مماثلت رکھتی ہیں۔ سوال:۔ اسلام قبول کرنے کے بعد عربوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہی؟ مریم جمیلہ:۔ ماہ وسال گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت درجہ بدرجہ مجھ پر منکشف ہوتی گئی کہ یہ عرب نہ تھے جنہوں نے اسلام کو عظمت بخشی بلکہ یہ اسلام ہی تھا جس نے عربوں کو عظمت اور وقار عطا کیا
No comments:
Post a Comment