ہمارے پیر و مرشد مولانا محمد اشرف سلیمانی ؒ فرماتے تھے کہ اقبالؒ نے قرآن کو دنیا کی مظلوم ترین کتاب بتایا ہے کہ جس کا جس طرح جی چاہے اس کی تفسیر کرتا پھرے مگر بقول حضرتؒ کے اقبال دنیا کے مظلوم ترین شاعر ہیں کہ جس کا جو دل چاہے اس کے کلام کی شرح بیان کرتا رہے۔ حضرتؒ کی یہ بات بجا ہے مگر میرے استاد گرامی کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یہ موقع اقبالؒ نے خود فراہم کیا ہے اور اپنے کلام کو کباڑی کی دکان بنا دیا ہے۔ ہر رنگ کا بیان، ہر فلسفے کا ذکر، ہر شخصیت کی تعریف و تنقیص، ہر نظام سیاست کی پہلے تعریف پھر تنقید، اور تصوف میں تو کسی ایک نکتے پر ان کا اتفاق یا ٹھہراؤ ہوا ہی نہیں۔ یہ آخری نکتہ ہی لے لیں، پروفیسر یوسف سلیم چشتی ؒ نے اقبالؒ کے ہر ہر مجموعہ کلام کی شرح لکھی ہے، کسی میں کہتے ہیں اقبال وجودی شاعر تھے، پھر کہتے ہیں شہودی ہو گئے، او ر آخیر عمر میں پھر وجودی ہو گئے۔ حافظؒ پر تنقید کی مگر خواجہ حسن نظامیؒ اور چند دوسرے مشائخ و کبار کے ردعمل سے اپنے الفاظ واپس لے لیے۔ ابن عربیؒ کے بارے میں بھی ان کا عمل ملا جلا رجحان قرار دیا جا سکتا ہے۔ مارکس کے بارے میں کہا کہ پیغمبر نہیں ہے مگر بغل میں کتاب رکھتے ہیں۔ یہ ایک بے باک حقیقت کا بیان تھا مگر شعر میں کہنے سے بچ گئے۔ اُستاد گرامی کی اس قسم کی باتوں سے مرحوم پروفیسر اشرف بخاریؒ اور پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے اقبال شناسوں کو اتفاق نہیں ہے۔ اُن کا فرمانا ہے کہ بادی النظر میں ایسے مغالطے اس لیے ہو جاتے ہیں کہ لوگ اقبال کو کسی ایک شارح کی نظر سے دیکھتے ہیں جو دراصل اپنے ہی خیالات اقبال کے کلام سے ثابت کرتے رہتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ کلام اقبال کو قرآن کی طرح کسی ایک حصے سے پڑھنا کافی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفصیل بیان کرتا ہے اسی طرح اقبال کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر ہے اور ہمیں ایک جزو کی بجائے کلام اقبال کو کلیت (Totality) میں دیکھنا چاہیے۔ محترم شریف فاروق صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ اقبال کا دور مسلمانوں کے لیے سخت ابتلاء، آزمائش اور افراتفری کا تھا۔ نہ مسلمانوں میں جدید تعلیم یافتہ لوگ تھے اور نہ سیاسی طور پر وہ مستحکم تھے اس لیے کسی کے ذہن میں بھی ایک مربوط خاکہ نہ تھا اور مسلمان ہر ہر آپشن کو دیکھ رہے تھے۔ میرے خیال میں شریف فاروق صاحب کی بات زیادہ قرین قیاس اور عملی ہے باقی یہ علمی مباحثے سب زبان کے چٹخارے، علمیت دکھانے اور دھاک بٹھانے والی باتیں ہیں۔ یہ تمہید اس لیے باندھی کہ آگے آپ اقبال کی بعض غیر عقلی باتوں کے بارے میں میرے ایک دوست کے ظریفانہ خیالات سے پریشان نہ ہوں۔
میرے ایک دوست جو اپنی آزاد خیالی اور فکری بے باکی پر فوج سے نکالے گئے مگر بعد میں اعلیٰ سیاسی گھرانے سے تعلق اور پنجاب کے ایک بہت بڑے سردار کے اکلوتے بیٹے کی سعادت کی بنا ء پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں افسر لیے گئے اقبال پر تنقید کرتے رہتے تھے۔ قابلیت میں شک نہیں اور دیو جانس کلبی کی طرح سارا دن اکیلے خاموش بیٹھنا عادت مگر جب بھی بولے اپنے تفردات کے بارے میں دلائل کے انبار لگائیں۔ ایک دن کہا کہ دیکھ اقبال کہتا ہے کہ قدرت ہر کسی کی تربیت نہیں کرتی اور ایسے طائر بہت کم ہیں جو قید و بند سے ارجمند ہوں، یہ چڑے چڑیاں اور کوے چیل جیل نہیں جاتے بلکہ یہ سعادت شاہین و شہباز کی قسمت میں ہوتی ہے۔ بجا، یہ اقبال کے مشہور شعر ہیں مگر ہمارے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح تو ایک دن کے لیے بھی قید نہیں ہوئے۔ کہنے لگے اب یا تو اقبال کی بات غیر عقلی ہے یا پھر بابائے قوم کی تربیت نہیں ہوئی تھی ؟ میں نے کہا، کہ قائد اعظم بہت بڑے قانون دان تھے اور قانون کی پاسداری اور حکمرانی پر یقین رکھتے تھے۔ یہی تو ان کی خوبی تھی، جو قانون کا احترام کرے وہ جیل کیوں جائے ؟ کہاتو پھر مان لو کہ اقبال نے ایک غیر عقلی بات کی ہے۔ میرا دوست کبھی مجھے حضرت اور کبھی علامہ کہتے تھے اور کبھی میں ان کو حضرت اور کبھی علامہ کہتا تھا۔ یہ من ترا حاجی بگویم والی دوستانہ بات ہوتی تھی۔ میں نے کہا، علامہ، علامہ بھی ہمارے ہی طرح انسان تھے، ممکن ہے غلطی ہوئی ہو۔ کہنے لگا دیکھو علامہ وحید الدین خان کو اقبال سے ہر وقت اختلاف رہتا ہے مگر وہ علمی اختلاف ہے، میرا اختلاف اقبال سے عقلی ہے۔ کہا، اقبال نے ہر جگہ شاہین اور شہباز کی تعریف کی ہے۔ آخر انسانیت کو ان شکاری پرندوں سے کیا فائدہ؟ یہ تو عرب شیوخ کے دھندے اور شوق ہیں۔ اقبال کو گدھے کی تعریف کرنی چاہیے تھی کہ وہ بوجھ بھی اُٹھاتا ہے، مسکین مزاج بھی ہے، زمانہ قدیم سے لے کر آج تک زراعت، تجارت حتیٰ کہ جنگوں میں کام آتا ہے، اپنے سائز کے گھوڑے سے زیادہ ذہین اور طاقتور ہوتا ہے، 25سال پہلے کے راستے کی پہچان رکھتا ہے، زیادہ سے زیادہ تکلیف ہو تو ایک لات مارتا ہے اور بس۔
برداشت میں پاکستانی قوم کی بہترین مثال ہے کہ جتنا بھی بوجھ ڈالو نہ چوں نہ چرا بلکہ ایک جلسہ جلوس کرکے خاموش، میں نے کہا، گدھے کو ہمارے ہاں بیوقوف سمجھا جاتا ہے اور آواز اس کی بڑی بھدی بیان ہوئی ہے، کہا، لو، یہ گدھے کی توہین ہے جو مشرق میں ہو رہی ہے جبکہ مغرب کے محاوروں میں گدھا عقل کی علامت ہے اور آواز تو قدرت کی عطا ہے اس میں گدھے کا کیا قصور ؟ بلکہ صحرا میں ساٹھ میل تک دوسرے ساتھی گدھے کی آواز سننا اس کا فائدہ ہے انگریزی شاعر گلبرٹ کیتھ چسٹرٹن کی گدھے پرنظم ہی پڑھ لو۔ کہا، دیکھو اقبال کہتاہے کہ اگر تہران عالم مشرق کا جنیوا ہو تو کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے اب یہ کیا غیر عقلی بات ہے۔ ایک تو ایسا ہوا نہیں، نہ ہوگا اور اگر ہوگا تو تیسری عالمگیر جنگ مغرب و مشرق نہیں، خود مسلمانوں کے عالم عرب اور عجم کے درمیان لڑی جائے گی اور عرب عجم کے اختلافات عباسی دور کے علمی اختلافات نہیں رہیں گے بلکہ بہت سارے ابومسلم خراسانی لوگوں کے گلے کاٹ کاٹ کر اس نئے جنیوا کے صدر دفتر کا افتتاح کریں گے۔ کہا، دیکھو، اقبال کہتا ہے کہ میں شاعر نہیں ہوں، بلکہ اپنے پیغام کے لیے جو کہ محل نظر ہے، شعر و سخن کا سہارا لیتا ہوں اور اونٹنی کو کشاں کشاں منزل کی طرف لے جارہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ کبھی زندگی میں اقبال نے جانور نہیں پالے بلکہ بچپن لڑکپن میں کبوتر بازی کے ساتھ ساتھ کبڈی کھیلتے تھے اور جیسا کہ پروفیسر جعفر بلوچ نے لکھا ہے مجالس اقبال میں، دوست اس کو اقبال بالا بالا کہتے تھے، ایک طرف شاعر ہونے سے انکار اور دوسری طرف درجن بھر شعری مجموعے ؟۔ کہا، دیکھو، ایک جگہ کہتا ہے کہ میں لوگوں کے دل باتوں سے موہ لیتا ہوں اور گفتار کا غازی ہوں کردار کا نہیں مگر پھر یہ آرزو رکھتا ہے کہ خدا یا میر ا نور بصیرت عام کردے۔
اب جو کردار کا غازی نہ بنے وہ اپنا نور بصیرت کیسے عام کرنے کی آرزو رکھ سکتا ہے ؟یہ تو سیاستدانوں والی بات ہوتی۔ کہا، حضرت، دیکھو، اقبال کہتا ہے میں اقبال سے آگاہ نہیں اور دوسری طرف کہتا ہے کہ وہ مجذوب فرنگی (فلسفی نطشے) اگر اس زمانہ میں ہوتے تو اقبال اس کو بتاتے کہ مقام کبریا کیا شے ہوتی ہے ؟ اب یہ کھلا تضاد نہیں کہ اپنے آپ سے تو آگاہ نہیں اور نطشے جیسے فلسفی کو تصوف کے مقامات و منازل پڑھانے بیٹھ گئے۔ میرے دوست کو اقبال کے سیاسی فلسفہ سے بھی اختلاف ہے کہ نہ ان کے کسی شعر میں پاکستان کا نام، نہ خطبہ الہ آباد میں کوئی ذکر، نہ کسی خط کتابت میں، پھر بھی پوری قوم سمجھتی ہے کہ پاکستان کا خواب انہوں نے دیکھا تھا جبکہ آجکل میرے خواب ریزہ ریزہ کی دھوم مچی ہے اور شاعر کا کہنا ہے خواب جھوٹے خواب تیرے خواب میرے خواب بھی۔ سب سے زور دار اعتراض یہ کیا کہ حضرت دیکھو اقبال ایک طرف ابلیس کی تمثیلی مجلسِ شوریٰ میں کہتا ہے کہ افغانیوں کی غیرتِ دیں کا علاج یہ ہے کہ ملا کو ان کے کو ہ و دمن سے نکال دو مگر دوسری جگہ کہتا ہے کہ دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد۔ اگر واقعی ملا فساد کرتاہے تو پھر ابلیس کو کیا ہمیں خود نکال دینا چاہئے۔ ورنہ امریکہ تو آج یہی کچھ کہہ رہا ہے جو ابلیس نے ایک صدی پہلے اپنی مجلسِ شوریٰ میں کہا تھا۔ میرے دوست کی ان باتوں سے روح اقبال کو بڑی تکلیف ہوئی اور نوجوانوں کی بزرگوں کے بارے میں اس قسم کی بے باکی جو جدید ذہن کی عقلیت ہے اور ہر شخص اپنے سوالات کے جوابات مانگتا ہے، سے اقبال نالاں ہوئے۔ میں نے دیکھا تو فرمایا، میاں میرے کلام کو پورا تو پڑھو، جگہ جگہ سے اور بے دلی اور بد عقیدگی سے پڑھنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے جو تمھارے دوست کے ساتھ پیش آیا ہے۔ مجذوب مرید بھی ہمراہ تھے، دھیمے لہجے میں عرفی کا مصرعہ دُہرایا کہ آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گد ارا۔ اقبال اقبال ہے اور اقبال ہی رہے گا۔ رومی اور ابن عربی کی طرح۔ رہے نام اللہ کا۔
http://www.dailyaaj.com.pkکالم از فصیح الدین بحوالہ
No comments:
Post a Comment