visitors

free counters

Sunday 3 July 2011

یزید کے بارے تاریخی حقاءق

یزید کے بارے میں تاریخی حقائق
یزید کے شخصی رزائل

بات ڈاکٹر ذاکر نائک کی تقریر سے شروع ہو کر دفاع و توصیفِ یزید تک آ گئی تو تاریخی حوالہ جات کے ساتھ ایک تحریر پیش نظر ہے۔

میں بحث میں بے جا الجھنے کی بجائے دوستوں کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہتا ہوں۔ واقعہ کربلا سے ہٹ کر یزید کے چند مزید خصائصِ رزیلہ کو دیکھیں اور پھر بھی نعرہ لگائیں کہ ایسے خبیث مردوں کو برا نہ کہیں بلکہ رضی اللہ عنہ تک معاذ اللہ کہہ دیں۔ تو اس سے بڑا ظلم اور بغضِ اہلبیت اطہار کیا ہوگا کہ جنہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتیء نوح کی مانند فرما کر انکی عظمت و اہمیت کو اجاگر فرمایا۔

حوالہ کے لئے عظیم مؤرخ و مفسر امام ابن کثیر کی البدایہ والنھایہ کے چند جملے ملاحظہ ہوں:

یزید شرابی ، بدکردار اور تارک الصلوۃ تھا۔

یزید شرابی تھا، فحاشی و عریانی کا دلدادہ تھا اور نشے میں رہنے کے باعث تارک الصلوٰۃ بھی تھا۔ اُس کی انہی خصوصیات کی بناء پر اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑ دی تھی، جس کا ذکر امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں یوں ملتا ہے:

ذکروا عن يزيد ما کان يقع منه من القبائح في شربة الخمر وما يتبع ذلک من الفواحش التي من اکبرها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علي خلعه فخلعوه. عند المنبر النبوي (البدايہ و النہايہ، 6 : 234)
ترجمہ:
یزید کے کردار میں جو برائیاں تھیں ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا، فواحش کی اتباع کرتا تھا اور نشے میں غرق ہونے کی وجہ سے وقت پر نماز نہ پڑھتا تھا۔ اسی وجہ سے اہل مدینہ نے اس کی بیعت سے انکار پر اتفاق کر لیا اور منبر نبوی کے قریب اس کی بیعت توڑ دی۔

یزید کا اپنی بیعت کے منکروں کا قتل جائز سمجھنا

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کی گستاخی یا انکار کرنے والے کو قتل کر دیا جائے۔ جیسا کہ سیدنا علی مرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے کئی ماہ تک سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ فرمائی، مگر ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہ ہوا۔ جب غلط فہمی دور ہو گئی تو آپ نے بیعت فرما لی۔ بیعت نہ کرنے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ معاذ اللہ نہ کافر ہوئے اور نہ ہی ان کے خلاف قتال جائز ہوا۔ ادھر آپ کے یزید ملعون ہیں کہ ہر وہ شخص جو ان کی بیعت سے انکار کرے اسے زندہ رہنے کا حق ہی نہ دیں۔

قرآن مجید کے اس حکم کے بارے میں آّپ کا کیا خیال ہے جس میں ایک عام مسلمان کو قتل کرنے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب اور لعنت کا ذکر فرمایا:

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء، 4 : 93)

ترجمہ:
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے

مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (المائدہ، 5 : 32)
ترجمہ:
جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں

ان آیاتِ کریمہ کی روشنی میں یزید کے بارے میں بآسانی ثابت ہوتا ہے کہ:

• مسلمانوں کو عمداً قتل کرانے کی وجہ سے اس کا عذاب دوزخ ہے۔
• ایک مسلمان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے۔

اب ذرا اپنے اسی عظیم راہنما یا آئیڈیل یزید کے مزید کرتوت سنیں کہ جس کے بارے میں آپ بہت آرام سے فرما دیتے ہیں کہ “خاموش رہنا بہتر ہے“

جب اس نے گورنرِ مدینہ کو سیدنا امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں سے بیعت لینے کا حکم دیا تو اس موقع پر ہونے والی شیطانی مشاورت میں کہا گیا کہ اگر وہ یزید کی بیعت پر راضی ہو جائیں تو درست ورنہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ ملاحظہ ہو امام ابن اثیر کی کتاب الکامل:

تدعوهم الساعة وتامرهم بالبيعة فان فعلوا قبلت منهم وکففت عنهم وان ابوا ضربت اغناقهم قبل ان يعلموا بموت معاويه. (الکامل لابن اثیر، 3 : 377)

ترجمہ:
انہیں اسی لمحے بلایا جائے اور انہیں حضرت امیر معاویہ (رض) کی موت کی خبر ملنے سے پہلے (یزید کی) بیعت کرنے کا حکم دیا جائے۔ پھر اگر وہ مان لیں تو اسے قبول کر لیا جائے اور انہیں چھوڑ دیا جائے اور اگر وہ انکار کریں تو ان کی گردنیں توڑ دی جائیں۔

اگر واقعہ کربلا (نعوذ باللہ) اتفاقی حادثہ تھا یا معرکہ حق و باطل نہ تھا تو اہل مدینہ نے تو یزید کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے تھے، انہوں نے تو اہل بیعت کے قتل اور یزید کے کردار کے باعث محض بیعت سے انکار کیا تھا۔ ان سے قتال کیونکر جائز ہو گیا؟

فلما بلغ ذالک بعث اليهم سرية يقدمها رجل مسلم بن عقبه . . . . . فلما ورد المدينة استباحها ثلاثة ايام فقتل في عضون هذه الايام بشراً کثيراً . . . . الف بکر (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)

ترجمہ:
جب اسے اس بات کی خبر ملی تو اس نے ان کی طرف لشکر بھیجا، جس کی قیادت مسلم بن عقبہ نامی شخص کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو اس نے تین دن کے لئے مدینہ کو (قتل و غارت گری کے لئے) حلال کر دیا۔ ان دنوں میں کثیر تعداد میں لوگ قتل ہوئے۔۔۔۔۔ (ایک روایت کے مطابق) وہ ایک ہزار (مقتول) تھے۔

وقال عبدالله بن وهب عن الامام مالک قتل يوم الحره سبعمائة رجل من حملة القرآن (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)

ترجمہ:
اور عبداللہ بن وھب امام مالک کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یوم الحرہ کو سات سو ایسے افراد قتل کئے گئے جو حافظ قرآن تھے۔

حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے جرم میں نہ سہی، کیا 700 حفاظ قرآن کے قتل کے جرم سے بھی اسے بری قرار دلوانے کے لیے دشمنانِ اہلبیت اطہار کے راویوں سے روایات نقل کریں گے؟ کیا خدا کا خوف بالکل ہی ختم ہوگیا ؟

یزید نے مدینہ کی طرف لشکر روانہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ اگر اہل مدینہ بیعت نہ کریں تو میں مدینہ کو تمہارے لئے حلال کر رہا ہوں

اور پھر کیا ہوا، امام ابن کثیر سے پوچھئے کہ ایک بدبخت نے اپنے کردار کو دیکھنے اور کفر سے توبہ کرنے کی بجائے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کروایا۔ ہزاروں مسلمانوں، جن میں بیشتر صحابہ کرام بھی تھے، کو قتل کروانے والا جہنمی اگر لعنت کا مستحق نہ قرار پائے تو اور کیا اسے پھول مالا پیش کی جائے؟؟؟

مسلمان عورتوں کی عصمت دری

بدبخت یزیدی لشکر نے صرف سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو شہید ہی نہیں کیا بلکہ بے شمار عصمت شعار خواتین کی عزتیں بھی لوٹیں:

ووقعوا علي النساء في قيل انه حبلت الف امرة في تلک الايام من غير زوج . . . . . قال هشام بن حسان ولدت الف امرة من اهل المدينه بعد وقعة الحرة من غير زوج (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 8 : 221)

ترجمہ:
اس واقعہ کے دوران میں انہوں نے عورتوں کی عصمت دری بھی کی۔ ایک روایت ہے کہ ان دنوں میں ایک ہزار عورتیں حرامکاری کے نتیجے میں حاملہ ہوئیں۔۔۔۔۔۔ ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی ایک ہزار عورتوں نے جنگ حرہ کے بعد حرامی بچوں کو جنم دیا۔

• بدبختوں نے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گھوڑے باندھے۔
• مسلمان صحابہ و تابعین کو شھید کیا۔
• مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹیں۔
• تین دن تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اذان اور نماز معطل رہی۔

عن سعيد بن مسيب رايتني ليالي الحرة .... وما يتني وقت الصلاة الا سمعت الاذان من القبر.

ترجمہ:
سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میں نے حرہ کے شب و روز مسجد نبوی میں (چھپ کر) گزارے ۔۔۔۔۔ اس دوران میں مجھے صرف قبرِ انور میں سے آنے والی اذان کی آواز سے نماز کا وقت معلوم ہوتا۔

اس ظلم و ستم کے باوجود آپ کے دل میں یزید کی محبت اس قدر گھر کر گئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے قاتل کے دفاع میں حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو صحابہ کرام کی شان میں گستاخی قرار دینے پر تل گئے ؟ بجائے اس کے قاتلِ صحابہ کرام یزید کو برا بھلا کہتے ۔ آپ الٹا اسے شہادتِ حسین رضی اللہ سے بری الذمہ قرار دے کر اس پر خاموشی اختیار فرمانے کو ترجیح دیتے ہیں ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون
ذرا سوچئیے۔ کل قیامت کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق “حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں“ کے مطابق آپ کا سامنا حضرت حسین یا نانائے حسین سیدنا محمد مصطفیٰ سے ہوگیا تو یزید کی شان میں آپ کے حوالہ جات اور لمبے لمبے مضامین کام آئیں گے ؟

شہیدان کربلا سے بدسلوکی

کچھ دوست بڑے حوالہ جات سے یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یزید نے تو حضرت حسین کی شہادت پر افسوس کیا تھا۔ یقیناً آپ لوگ درست کہہ رہے ہوں گے کہ یزید ملعون نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر افسوس کیا ہو گا کیونکہ آپ کے ہاں افسوس کرنے کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے۔ ذرا تاریخ کھول کر دیکھیے۔

ذکر ابن عساکر في تاريخه، ان يزيد حين وضع راس الحسين بين يديه تمثل بشعر ابن الزبعري يعني قوله

ليت اشياخي ببدر شهدوا
جزع الخزرج من وقع الاسل

(البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 8 : 204)

ترجمہ:
امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ جب یزید کے سامنے سیدنا امام حسین (ع) کا سر انور پیش کیا گیا تو اس نے اس موقع پر ابن زبعری کے اس شعر کا انطباق کیا:

"کاش میرے غزوہ بدر میں مارے جانے والے آباء و اجداد دیکھیں کہ ہم نے کیسے ان کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے۔"

یہ کیسی شرمندگی ہے اور یہ کیسا افسوس ہے۔ اگر آپ اب بھی اسی پر ڈٹے رہیں تو ایک بار پھر انا للہ وانا الیہ راجعون

بیت اللہ کی توہین

دلوں میں بغضِ اہلبیت اطہار رکھنے والے دوستوں کو اظہار رائے کی یقیناً آزادی ہے، آپ یقیناً ایسے شخص کے دفاع کا حق رکھتے ہیں جو اپنی بیعت کے منکروں کو قتل کروانے کے لئے حرم نبوی اور کعبۃ اللہ کی حرمت کا بھی حیاء نہیں کرتا۔ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لئے بیت اللہ کا محاصرہ کرواتا اور اس پر پتھر اور آگ کے گولے برساتا ہے۔

ثم انبعث مسرف بن عقبه (مسلم بن عقبه) الي مکه قاصداً عبدالله بن الزبير ليقتله بها لانه فر من بيعة يزيد (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)

ترجمہ:
پھر اس نے مسرف بن عقبہ (یعنی مسلم بن عقبہ) کو عبداللہ بن زبیر کو قتل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا، کیونکہ وہ یزید کی بیعت سے انکاری تھے۔

یقیناً ان سب کا اس نے حکم نہیں دیا ہو گا یقیناً یہ سارے واقعات یزید کے علم میں ہی نہیں ہوں گے۔ وہ تو دودھ پیتا بچہ تھا، جسے تاریخ دان خواہ مخواہ میں برا بھلا کہتے رہے ہیں۔ ہزاروں مسلمان غلط فہمی میں قتل ہوتے رہے ہوں گے اور یزید بیچارہ ہر ہر قتل کے بعد افسوس بھی کرتا رہا ہوگا۔ اسکی اصل معصومیت کی خبر تو پچھلے ڈیڑہ دوسوسال میں عبدالوھاب نجدی اور اسکے شاگردوں کو ہوئی ۔ وگرنہ اس سے پہلے امام ابن کثیر اور امام عساکر جیسے تاریخ دان تو مغالطے میں ہی رہے۔

اللہ تعالی ہمیں حق کو پہچان کر اس پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین

حوالہ جات بشکریہ ۔ جی۔ ایم علوی۔ ہماری اردو

No comments:

Post a Comment