visitors

free counters

Tuesday, 12 July 2011

برصغیر میں اسلامی جدیدیت کے ماخذ

مغربی ممالک جب عالمِ اسلام پر حملہ آور ہوئے تو برصغیر پاک و ہند اور افغانستان کے سوا کسی دوسرے اسلامی ملک میں اُنھیں فکری عملی میدان میں کسی خاص ردِ عمل کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ ہندوستان پر قبضہ کرتے ہوئے اُنھیں عملی میدان میں سلطان ٹیپو ، تحریک شہیدین اور 1857ء کی جنگِ آزادی کی صورت میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔فکری و علمی سطح پر بھی مغربی فکر کی حمایت و مخالفت میں عالمِ اسلام کے دوسرے ملکوں میں کوئی خاص ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ یہ معرکہ بھی صنم خانۂ ہند میں ہوا اور جس کے نتیجہ کے طور پر ہماری یہ قوم دو حصّوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ نہ مغربی تہذیب اس قابل ہے کہ اُسے سمجھا جائے، نہ مغربی علوم اس قابل ہیں کہ اُنہیں حاصل کیا جائے اور نہ مغربی ٹیکنالوجی اس قابل ہے کہ اُسے استعمال کیا جائے۔ ہندوستان کے تمام مذہبی فرقوں کی یہی سوچ تھی اور اِس کا سب سے بڑا مرکز دیوبند تھا۔ اس گروہ کے اکابرین نے اگرچہ تعلیم و تعلّم،درس و تدریس،تصنیف و تالیف، تصحیح عقائد و اعمال، تزکیہ قلوب و اصلاح نفوس، دعوت و تبلیغ، جہا د و قتال اور حفاظتِ دین و شریعت کے ضمن میں انتہائی اہم اور قابلِ قدر خدمات انجام دیں، مگر تاریخِ اسلام کے اس نازک مرحلے پر مغربی تہذیب، اُس کے علوم اور اُس کی ٹیکنالوجی کی نسبت انھوں نے جو خانقاہی روش اپنائی وہ ہر اعتبار سے غلط تھی، جس کے نتیجہ کے طور پر ایک طرف تو ہماری قوم کو بہت بڑا نقصان اُٹھانا پڑا جس کی تلافی اب تک نہیں ہوسکی اور دوسری طرف برصغیر کا مذہبی طبقہ زمانے کی رفتار سے بہت پیچھے رہ گیا، جس کی وجہ سے برصغیر میں اسلام کے مقاصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اس کے برخلاف دوسرے گروہ کا مرکز اُتر پردیش کا علاقہ علی گڑھ تھا۔یہ گروہ ایک دوسری انتہا پر تھا ۔اس گروہ کا خیال تھا کہ مغربی تہذیب اور ا س کے علوم ہی سب کچھ ہیں ۔اگرچہ تعلیمی و تحریکی اورکسی حد تک فکری میدان میں اس گروہ کے اکابرین نے بھی انتہائی اہم کارنامے انجام دیے۔ بالخصوص سرسید احمد خان، جسٹس امیر علی، عنایت اﷲ خان المشرقی اور غلام احمد پرویز کی خدمات ہماری ماضی قریب کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ تاہم ایک مستقل نظامِ فکر کی حیثیت سے ان کے نظریات کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا اُمتِ مسلمہ کے لیے سخت نقصان دہ تھا اور ایسا کرتے ہوئے ہم اپنے عظیم علمی و روحانی اور تہذیبی و ثقافتی ورثہ سے محروم ہو جاتے۔ یہ دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ انتہاؤں پر تھے اور ضرورت اس امر کی تھی کہ سرتاپا جامد مذہبی قدامت پسندی اور سرتاپا متحرک سائنسی و لادین جدّت پسندی کے درمیان امتزاج و مصالحت کی سبیل نکالی جائے۔ تاکہ ایک طرف ہم اپنے علمی و روحانی اور تہذیبی و ثقافتی تشخص کو برقرار رکھ سکیں اور دوسری طرف جدید تہذیب، اس کے علوم اوراس کے ثمرات سے بھی مستفید ہو سکیں۔ قوموں کی زندگی کے اس مرحلہ پر عموماً عظیم شخصیات کا ظہور ہوتا ہے اور عالمِ اسلام میں بھی ایک بہت ہی عظیم شخصیت سامنے آئی ۔ وہ مغربی و مشرقی علوم پر یکساں عبور رکھنے والے انسان تھے اور عربی و فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی و فرانسیسی بھی بڑی روانی کے ساتھ بول سکتے تھے۔ مشرقی علوم کی تحصیل اُنھوں نے افغانستان ، ہندوستان، ایران، ترکی، حجاز اور مصر جیسے ممالک میں کی تھی تو مغربی علوم کی پیاس روس، برطانیہ ، اٹلی ، جرمنی، فرانس اور امریکہ کے علمی سر چشموں سے بجھائی تھی۔ وہ دُنیا ے اسلام کے پہلے شخص تھے جنھوں نے مغربی اقوام کی سیاسی غلامی کے خلاف باقاعدہ ایک تحریک کا آغاز کیا ۔ بعد میں عالم ا سلام میں آزادی کی جتنی بھی تحریکیں اُٹھیں، اُن سب کا سلسلہ اُنھی کی تحریک استخلاص دیار المسلمین سے جا کر ملتا ہے۔ وہ جدید دُنیاے اسلام کے پہلے شخص تھے جنھوں نے اسلام کو بحیثیت ایک نظامِ فکر پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اُنھوں نے دنیا کے استحصالی نظاموں بالخصوص سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی زبردست مخالفت کی اور خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ کرنے کے لیے ’’جمعیت العروۃ الوثقٰی‘‘ کے نام سے ایک جماعت بنائی ۔ بعد ازاں دنیاے اسلام میں جتنی بھی اصلاحی و احیائی تحریکیں اُٹھیں اُن سب کا تعلق بھی اسی جماعت سے جاکر ملتا ہے۔ اُنھوں نے اسلامی قومیت کے نظریہ کو پہلی مرتبہ مدلّل انداز میں پیش کیا۔ فتنہ تصوف کی سر کوبی کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور وحدت الوجود کے گمراہ کن تصور کا رد بھی کیا۔ مذہبی و خانقاہی قدامت پسندوں پر بھی زوردار تنقید کی اور سائنسی و لادین جدت پسندوں کی بھی مخالفت کی۔ اُنھوں نے مسلمانوں کو جدید علوم کی تحصیل کی طرف متوجہ کیا اور اُن کی روحانی و اخلاقی تربیت پر بھی زور دیا۔ ادب و صحافت کی اصلاح بھی کرنی چاہی اور اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکی دعوت بھی دی۔ عالم اسلام کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے شیخ المشرق سید جمال الدین افغانی۔اقبال نے جن کے بارے میں کہا تھا:
سید الّسادات مولانا جمال زندہ از گفتارِ او سنگ و سفال
جاوید نامہ
وہ 1838ء میں افغانستان کے قصبہ اسد آباد میں پیدا ہوئے۔ 1850ء میں اپنے علاقے کے ایک مدرسہ میں داخل ہوئے۔ 1856ء میں وہاں سے فارغ ہوئے اور اسی سال وہ ہندوستان تشریف لے آئے۔یہاں کلکتہ میں قیام کیا ۔کلکتہ کالج کے پروفیسروں سے انگریزی زبان سیکھی اور 1857ء میں واپس افغانستان چلے گئے۔وہاں اُنھوں نے ’’شمس النہار‘‘ کے نام سے ایک اصلاحی جریدہ جاری کیا۔ اور افغانستان کے نیک دل راہنما شیرعلی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی جہدوجہد کرتے رہے۔ اُن کی یہ تحریک کامیاب ہوئی ۔ شیر علی پوری شان و شوکت کے ساتھ تخت کابل پر براجمان ہوئے اور جمال الدین افغانی اس حکومت کے وزیر اعظم بن گئے۔1869ء میں اُن کے مخالفین کو غلبہ حاصل ہوگیا اور اُن کے لیے افغانستان میں رہنا ناممکن ہوگیا تو وہ ہندوستان چلے آئے۔ لیکن یہاں دو مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ حکومتِ وقت نے ہندوستان سے نکلنے کا حکم دے دیا تو آپ مصر چلے گئے ۔ مصر میں جامعہ الازہر میں قیام فرمایا۔ 1870ء میں ترکی چلے گئے۔ ترکی میں آپ نے مختلف خطبات دیئے۔ترکی میں فتنۂ تصوف کی ردّ میں اُنھوں نے زور دار مہم چلائی۔ اُنھوں نے محکم دلائل سے ثابت کیا کہ اسلام میں تصوف یا طریقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پر ترکی کے صوفیاء بالخصوص شیخ الاسلام صوفی حسن فہمی اور صوفی یونس وہبی نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ صوفیوں کی سخت ترین مخالفت کی وجہ سے آپ کو ترکی سے نکلنا پڑا۔ 1871 ء میں آپ نے پھر مصر کا رُخ کیا اور ایک مرتبہ پھر جامعہ الازہر میں مقیم ہوگئے۔ اس مرتبہ وہ اس درس گاہ میں مدرس مقرر ہوگئے۔ 1879ء میں مصر کی فرنگی حکومت نے آپ کو مصر سے نکال دیا اور آپ ہندوستان چلے آئے۔ ہندوستان میں اُنھوں نے مادیت پرستی اوردہریت کے خلاف ’’الدّھریہ‘‘اور نیچریت کے خلاف’’ ردّ نیچریت‘‘ کے نام سے کتابیں لکھیں اور نیتجتا ہندوستان سے بھی رختِ سفر باندھانا پڑا اور آپ روس چلے گئے۔آپ نے ایک سال سے زیادہ عرصہ وہاں قیام کیا۔ روس میں اشراکیت کے خلاف آپ نے جو کچھ فرمایا اُ س کا خلاصہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب جاوید نامہ میں ’’جمال الدین افغانی کا پیغام حکومتِ روسیہ کے نام ‘‘ کے تحت نقل کیا ہے۔ وہاں سے پھر افغانستان آئے۔ افغانستان میں انھوں نے ’’کابل‘‘ کے نام سے ایک مجلہ جاری کیا۔ او ر اپنی مشہور کتاب ’’تتمتہ البیان‘‘ کی تشہیر و اشاعت کا اہتمام کیا۔ کچھ عرصہ افغانستان میں اپنی فکر کا تخم بونے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر ہندوستان تشریف لے آئے اور یہاں تقریباً دو سال مقیم رہے۔ ہندوستان میں وہ کوچہ بہ کوچہ گھوم پھر کر ذہین افراد تک اپنا پیغام پہنچاتے رہے۔نیز رسالہ ’’معلم‘‘ حیدر آباد،’’دارالسلطنت‘‘ کلکتہ ’’مشیرِ قیصر‘‘ لکھنؤ، ’’حبل ا لمتین‘‘ کلکتہ اور اودھ اخبار میں مضامین و مقالات لکھ کر شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ فارسی زبان میں اُن کے مقالات کا پہلا مجموعہ بھی اسی دوران کلکتہ سے شائع ہوا۔برسوں کی تگ و دو کے بعد بالآخر وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ عالمِ اسلام کی مردہ زمین میں تخم ریزی کے بجاے اُنھیں مغربی ممالک میں قیام کرنا چاہئے اور وہاں عالمِ اسلام کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ذہین طلباء تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی سلسلہ میں وہ امریکہ چلے گئے۔ کچھ عرصہ وہاں ’’دعوت‘‘ کا کام کرنے کے بعد لندن چلے گئے۔ وہاں سے جرمنی چلے گئے اور بالآخر فرانس چلے گئے جہاں غالباً وہ پانچ سالوں تک مقیم رہے۔ فرانس میں قیام کے دوران اُنھوں نے ’’العروۃ الوثقٰی‘‘ کے نام سے ایک عربی رسالہ جاری کیا۔ اس رسالے کے بنیادی طور پر پانچ مقاصد تھے۔۱۔ عالمِ اسلام کی سیاسی آزادی۲۔ اسلامی نظام کے قیام کی دعوت۳۔ اسلامی علوم کی تشکیلِ جدید کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنا۴۔ اسلام کی دعوت کو جدید اسلوب میں مسلمانوں ا ور غیر مسلموں کے سامنے پیش کرنا۵۔ مسلمانوں کو جدید علوم کی تحصیل کی طرف راغب کرناانھی مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اسی ’’العروۃالوثقٰی‘‘ کے نام سے ایک جماعت بھی بنائی تھی۔ سید قاسم محمود نے اس جماعت کا ذکر اپنی اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں لفظ ’’جمعیت‘‘ کی ذیل میں کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں :’’ان جمعیتوں میں ایک اور مشہور اور ذی اثر جماعت ’جمعیت العروۃ الوثقٰی ‘ تھی جو مسلمانوں کی ایک خفیہ ننظیم تھی اور جس کے ارکان نے ایک حقیقی اسلامی حکومت قائم کرنے کا حلف اُٹھا رکھا تھا۔ اس جماعت کے روح ورواں مشہور و معروف شخصیت جمال الدین افغانی اور اُن کے شاگرد مفتی محمد عبدہ تھے۔ یہ اُس زمانے میں قائم ہوئی جب مصر پر برطانیہ کا قبضہ ہو چکا تھا۔ اس جمعیت کی شاخیں مختلف ممالک میں قائم تھیں‘‘۔فرانس میں قیام کے دوران آپ نے مشہور فرانسیسی مستشرق ’’ریناں‘‘ کی کتابIslam and Science کے رد میں، جس میں ثابت کیاگیا تھا کہ اسلام کی روح سائنس کے خلاف ہے اسی نام سے ایک کتاب لکھی جس میں ثابت کیا کہ اسلام کی رُوح سائنس کے خلاف نہیں ہے۔ بعدازاں آپ1889ء میں ایران تشریف لے گئے۔ ایران میں آپ نے اپنا ایک حلقہ بنالیا ۔(واضح رہے کہ بعد میں ایران کی انقلابی قیادت کا سلسلہ اسی حلقہ سے جاکر ملتا ہے)۔ ایران کے اُس وقت کے بادشاہ نے آپ کے مداحوں کی کثرت دیکھ کر اس گمان پر آپ کو ایران سے نکال دیا کہ:یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے بر پا ایران میں آپ کے ساتھ ہونے والے توہین آمیز سلوک پر زبردست ہنگامے پھوٹ پڑے۔ انھی ہنگاموں میں ایران کے اُس وقت کے بادشاہ ناصر الدین قتل ہوئے تھے۔ایران سے اخراج کے بعد آپ عراق چلے گئے کچھ عرصہ وہاں کام کرنے کے بعد 1891ء کے اوائل میں لندن چلے گئے۔ اس مرتبہ اُنھوں نے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ وہاں قیام کیا۔ لندن سے اُنھوں نے ’’ضیاء الخافقین‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ جس کے بعض اقتباسات بعد میں المنار میں بھی شائع ہوئے۔1892ء میں اُنھیں ترکی کے سلطان عبدالحمید ثانی کی طرف سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ سلطان نے لکھا تھا کہ آپ یہاں آکر اپنے نظریات کی تبلیغ کریں۔ ہم آپ کے لیے قیام و طعام کا انتظام بھی کریں گے اور آپ کے لیے وظیفہ بھی مقرر کریں گے۔ جمال الدین افغانی نے یہ دعوت قبول کر لی اور 1892ء کے وسط میں ترکی کی طرف روانہ ہوگئے۔ترکی پہنچنے پر معلوم ہوا کہ خلیفہ عبدالحمید ثانی اپنی خلافت کے لیے افغانی سے حقیقی اسلامی خلافت کی سند حاصل کر کے پورے عالمِ اسلام کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ انگریزوں کے ممکنہ حملہ کا سدّباب کیا جاسکے۔ جمال الدین افغانی جو کہ حقیقی جمہوریت کو اسلام کا سیاسی نظام قرار دیتے تھے، ظاہر ہے کہ ایک جابر غیر اسلامی حکومت کو سندِ جواز کیسے فراہم کر سکتے تھے۔ اُنھوں نے اس سے انکار کر دیا۔سلطان نے غصہ میں آکر وظیفہ بھی بند کر دیا اور اُنھیں جیل میں ڈال دیا۔ 1892ء سے 1897ء تک تقریباً پانچ سال وہ قید میں رہے۔ نظر بندی کے دوران بھی اُن کی انقلابی سرگرمیاں برابر جاری رہیں۔ جن کی وجہ سے سلطان کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اُن کا حشر بھی ویسانہ ہو جائے جو اس سے قبل ایران کے شاہ ناصر الدین کا ہوچکا تھا۔ اسی وجہ سے اُنھوں نے اپنے کاروندوں کے ذریعہ سے اُنھیں زہر دلوا دیاجس کی وجہ سے وہ 9مارچ 1897ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔اناﷲ وانا الیہ راجعون
وہ کم و بیش پانچ عشروں تک وسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اپنے مشن میں اتنے منہمک رہے کہ پوری زندگی انھیں شادی کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ آپ کو استنبول میں دفن کیا گیا ۔ آپ کے ایک امریکی دوست مسٹر کراین نے اُن کی قبر پر سنگِ مرمر کا ایک شاندار مزار تعمیر کروایا۔ بعد ازاں 1944ء میں آپ کے جسدِ خاکی کو کابل منتقل کر دیا گیا۔
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شُد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوامِ ما
مشہور صحافی اور ادیب قاضی عبدالغفار نے 21فروری 1932ء کو اُردو اکادمی ہند میں جمال الدین افغانی پر ایک مفصل لیکچر دیا۔ اس میں وہ کہتے ہیں:’’......(قائدین و مفکرین اسلام) کی اس تمام فہرست میں شیخ ہی کا نام ایسا ہے جو عمل کی جغرافیائی حدود سے آزاد رہا اور کبھی کسی ایک ملک کا پابند نہ تھا۔ وہ دیارِ مصر میں تھا ، وہ ایران میں تھا، وہ ہندوستان میں تھا، حجاز میں تھا، ترکی میں تھا، روس میں تھا، فرانس میں تھا، اُس کی ایک آواز تھی جو مرا کش سے ترکستان تک اور لندن و پیرس سے سینٹ پیٹربرگ (ماسکو) تک سنی گئی۔ عہد جدید کے داعیان مِلت اسلامی میں بمشکل کوئی نام اس قدر ہمہ گیر، اس قدر عام اور وسیع مل سکے گا۔ یہ امتیاز شیخ ہی کے لیے محفوظ تھا‘‘۔(جمال الدین افغانی، مرتبہ ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی)مشہور مفکر بلنٹ اپنی کتاب Secret History of The Occupationمیں اُن کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’جمال الدین کی ذہانت وجدت یہ تھی کہ اُنھوں نے اسلامی ممالک کے مذہبی خیالات رکھنے والے لوگوں کی ذہنیت کی اصلاح کرنے کی کوشش کی اور اِس امر کی تبلیغ و تلقین کی کہ اسلام کے حالات پر نظر ثانی کی جائے اور بجاے ماضی سے لپٹے رہنے کے، جدید علوم کے ساتھ پرانی ذہنیت کے بدلنے کی تحریک کو آگے بڑھایا جائے۔ قرآن وحدیث سے اُن کی واقفیت نے ثابت کیا کہ اگر صحیح معنی سمجھے جائیں اور شریعت و اصلاحات سیاسی کاموازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ درحقیقت اسلام کے اندر نہایت وسیع تغیرات کی گنجایش موجود ہے اور مشکل سے کوئی اصلاح ایسی ہوگی جو شریعت کے خلاف ہو ۔۔۔مصر میں شیخ نے اچھی طرح ثابت کر دیا تھا کہ اسلام انسانوں کی تمام (روحانی و مادی) ضروریات کا کفیل ہونے کے قابل ہے اور عہد جدید کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے ۔۔۔علماء کے ضمیر و تخیل کو وہ ان زنجیروں سے آزاد کرنا چاہتے تھے جس میں کئی صدیوں سے وہ جکڑے ہوئے تھے۔۔۔‘‘امریکی مورخ لو تھروپ سٹوڈرڈ اپنی کتابThe New World of Islamمیں اُن کے بارے میں لکھتے ہیں:’’سید جمال الدین افغانی زبردست حکماے اسلام میں سے تھے ۔۔۔ آپ نے آنے والی قوموں کے لیے بصیرت افروز اور عبرت انگیز درس موعظت چھوڑے ہیں‘‘۔ہانس کو ہن اپنی کتاب The History of Nationalism in The East میں لکھتے ہیں: ’’جمال الدین پہلے شخص ہیں جنھوں نے حالیہ زمانے میں اتحاد اسلامی کے خیال کو تازہ کیا۔۔۔ وہ جہاں کہیں بھی گئے، اپنے خیالات کے نقوش چھوڑے۔ اُنھوں نے حالاتِ حاضرہ کا اندازہ لگا کر نصرانی یورپ کے خطرے کے خلاف اتحاد کی ضرورت کو محسوس کیا ۔۔۔‘‘براؤن اپنی کتاب The Revolution of Persiaمیں لکھتے ہیں: ’’سید صاحب کی شخصیت نادر الوجود تھی۔ قدو قامت اور وجاہت شاہانہ پُر رعب اور پُر کشش تبحر علم اور وسعتِ معلومات کا دریاے بے کنار، تحریر میں اس قدر غیر معمولی اثر کہ سامعین و قارئین سب کفن بسر اور شمشیر بکف جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔اُن کے عزم و ارادہ کے سامنے دنیا کی متحدہ قوت کو عاجز و سرنگو ں ہونا پڑتا تھا۔ عرب و عجم کے مسلمانوں نے اپنے باہمی اختلاف کو طاقِ نسیاں کے سُپرد کر دیا تھا اور اُن کی ہر تجویز پر عمل کرنے کے لئے کمر بستہ ہوگئے تھے۔ شرق و غرب کے مخالفین اُن کے نام سے لرز جاتے تھے۔ کوئی شبہ نہیں کہ یہ سراپا احرام خاصانِ خدا میں سے تھا‘‘۔فرانسیسی مفکر موسو ہنری نے جمال الدین سے ایک ملاقات کے بعد کہا: ’’سید جمال الدین میں ایک پیغمبر کی سی خوبیاں پائی جاتی ہیں‘‘۔ انڈلف چرچل کہتے ہیں:جمال الدین افغانی بہت صاف گو اور نہایت اعلیٰ فکر رکھنے والے انسان تھے‘‘۔رینا، جنھیں افغانی نے علمی معرکہ میں شکست سے دوچار کیا تھا۔ اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں: ’’سید جمال الدین افغانی ایک حیرت انگیز ہستی تھے، جو ایک طوفان کی طرح دنیا پر چھاگئے‘‘۔عیسائی مفکر جرجی زیدان اپنی کتاب’’ مشا ہیرا لشرق‘‘ میں لکھتے ہیں:’’سید صاحب کی زندگی اور کارناموں کے مختصر حالات پڑھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقصد جو ہمیشہ اُن کے پیش نظر رہا، اتحاد اسلام تھا ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو متحد کر کے واحد خلیفہ اسلام کے ماتحت لایا جائے۔ اس کوشش میں اُنھوں نے دنیا کی سب خوشیوں کا خیال چھوڑ دیا تھا۔ یہاں تک کہ شادی بھی نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔۔ مشرق نے ان کی قربانیوں سے فائدہ اٹھایا اور ہمیشہ اٹھاتا رہے گا‘‘۔ممتاز محقق سید قاسم محمود نے اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے:’’یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ عالمِ اسلام کی تمام جدید (سیاسی ، علمی و اصلاحی، احیائی و تجدیدی)تحریکوں کا مبدا و منبع افغانی کی تعلیمات ہیں‘‘۔اپنے ایک مضمون میں وہ دنیاے اسلام کے جدید مفکرین و قائدین کی ایک طویل فہرست دینے کے بعد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ:’’احیاے اسلام کی تاریخ کے آسمان پر یہ سب ستارے اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں میں جگمگاتے ہوئے صاف صاف نظر آتے ہیں۔ لیکن یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب جمال الدین افغانی کے آفتاب تازہ سے روشنی حاصل کر رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی احیائی اسلامی تحریک کے تذکرے سے پہلے چاہیے کہ سیّد افغانی اور اُن کی تحریک اتحادِ اسلامی کا ذکر ہو‘ تمام حالیہ اسلامی تحریکوں کی ماں سیّد افغانی کی پان اسلامزم کی تحریک ہے‘‘۔علامہ اقبال نے آپ کو گزشتہ صدی کا مجد داعظم قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’میرے نزدیک مہدی، مسیحیت اور مجددیت کے متعلق جو احادیث ہیں وہ ایرانی و عجمی تخیلات کا نتیجہ ہیں۔ عربی تخیلات اور قرآن کی صحیح سپرٹ سے اس کا کوئی سروکار نہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں نے بعض علماء یا قائدینِ اُمت کو مجددیا مہدی کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ ..........زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کے مستحق ہیں تو وہ صرف اور صرف جمال الدین افغانی ہیں۔ مصر، ایران، ترکی اور ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اُسے سب سے پہلے عبدالوھاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔ موخرالذکر ہی اصل میں مجدد ہیں زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا ۔ اگر قوم نے اُن کو عام طور پر مجدّد نہیں کہا یا اُنھوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا، تو اس سے اُن کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہلِ بصیرت کے نزدیک نہیں آتا‘‘۔ (ذکر اقبال، صفحہ ۲۶۵) نیز جاوید نامہ کے روحانی سفر میں افلاک میں کسی مقام پر نمازِ فجر کا وقت ہوتا ہے تو وہ نماز بھی اسی امام مشرق کی امامت میں ادا کی جاتی ہے ۔یہ گویا ایک تمثیل ہے۔نمازِ فجر سے مراد اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی صبح ہے اور جمال الدین افغانی کا بحیثیت امام منتخب کرنا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے بانی اوراپنے زمانے کے مجدداعظم جمال الدین افغانی ہیں۔ابوالکلام آزاد نے بھی اپنی متعدد تصانیف میں اُن کی سیاسی و دینی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ وہ بھی اُن کو اپنے زمانے کا مجددِ اعظم سمجھتے تھے۔وہ لکھتے ہیں :’’انیسویں صدی کی تاریخِ مشرق نے اصلاح و تجدّد کی جس قدر شخصیتیں پیدا کی ہیں۔ اُن میں کوئی شخصیت وقت کی عام پیداوار سے اس قدر مختلف اور اپنی طبعی ذہانت اور غیر اکتسابی قوتوں میں غیر معمولی نہیں ہے، جس قدر سید جمال الدین کی شخصیت ہے۔ بغیر کسی تامل کے کہا جاسکتا ہے کہ مشرقِ جدید کے رجالِ تاریخ اور قائدینِ فکر کی صف میں اُس کی شخصیت کئی اعتبار سے اپنا سہیم و شریک نہیں رکھتی۔مذہب اور علم دونوں میں اس کی مصلحانہ ذہنیت نمایاں ہوتی ہے اور کسی گوشہ میں بھی اس کے قدم وقت کی مقلدانہ سطح سے مس نہیں ہوتے۔ سیاست میں وہ سرتاپا انقلاب کی دعوت دیتا ہے اور جہاں کہیں جاتا ہے چند دنوں کے اندر مستعد اور صالح طبیعتیں چُن کر انقلاب و تجدّد کی روح پھونک دیتا ہے‘‘۔(حرف آغاز، مقالات افغانی، اُردو ترجمہ عبدالقدوس ہاشمی) ابوالکلام آزاد نے جب الہلال جاری کیا تو اُس کے پہلے شمارے کے سرِ ورق پر سید جمال الدین افغانی کی تصویر تھی۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مصر میں جمال الدین افغانی کے ایک شاگرد رشید رضا مصری نے المنار اور الہلال کے نام سے دو رسالے نکالے تھے۔ الہلال کا نام بھی ابوالکلام 1908ء میں مصر سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ پھر الہلال کے ہر دوسرے تیسرے شمارے میں جمال الدین افغانی کی تصویر ہوتی تھی اور ساتھ ہی ابولکلام کے تاثرات درج ہوتے تھے۔ ابوالاعلیٰ مودودی کو بھی جمال الدین افغانی کی ذات سے بڑی عقیدت تھی۔ 1944ء میں جمال الدین افغانی کے جسد خاکی کو استنبول سے کابل منتقل کیا جارہا تھا تو پروگرام کے مطابق اُس کو دہلی سے لاہور لایا گیا اور یہاں بادشاہی مسجد میں دیدار عام کے لیے رکھا گیا (اس واقعہ پر غلام رسول مہر نے ایک ادبی نوعیت کا مضمون بھی لکھا ہے) تو ابوالا علیٰ مودودی پٹھان کوٹ سے اُن کے دیدار کے لئے تشریف لائے تھے۔ ذیلدار پارک کی روحانی فضا میں ممتاز فلسفی اسکالر ڈاکٹر وحید عشرت سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ہمارے زمانے میں عالم اسلام میں جو سب سے بڑی شخصیت پیدا ہوئی وہ جمال الدین افغانی کی تھی، لیکن تعجب ہے کہ اس قوم نے سب سے زیادہ اُنھی کو بھلایا ہے۔ اس پر ڈاکٹر وحید عشرت نے سوال کیا کہ یہ شخصیت اگر اتنی ہی اہم تھی تو آپ نے اپنی کتاب ’’تجدید و احیاے دین‘‘ میں اُن کی تجدیدی خدمات کا ذکر کرنا مناسب کیوں نہیں سمجھا؟ مولانا اپنے روایتی انداز میں مسکراے اور فرمایا :’’تجدید و احیاے دین‘‘ میری کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے بلکہ یہ ایک مقالہ تھا جو مولانا منظور احمد نعمانی صاحب کے رسالہ ’’الفرقان‘‘ بریلی کے شاہ ولی اﷲ نمبر کے لیے لکھا گیا تھا اور اس میں افغانی کے تذکرے کو میں نے خلافِ مصلحت سمجھا۔’’مسئلہ قومیت‘‘ نام رسالہ میں مولانا حسین احمد مدنی کے مقالہ کے جواب میں جو تحریر لکھی گئی ہے اُس میں ایک جگہ اُن اکابرین کی فہرست دی گئی ہے جنھوں نے وطنی قومیت کی مخالفت کی تھی۔ اُن میں غالباً سب سے پہلے اُنھوں نے جمال الدین افغانی کا نام لکھا ہے اور پھر اُنھی کے کچھ شاگردوں کے نام ہیں۔
سید جمال الدین افغانی کی تحریک کو جو استخلاصِ دیار المسلمین، اصلاحِ اُمت، قیامِ حکومتِ الہیہ اور تجدید و احیاے دین جیسے متنوع اور ہمہ گیر پہلوؤں پر محیط تھی، عالمِ اسلام میں زبردست پذیرائی ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالمِ اسلام میں اُن کے پیروکار پیدا ہوگئے۔ مفتی محمد عبدہ ،مصطفی کامل،ادیب اسحق، رشید رضا مصری، شیخ حسن البناء ، اعرابی پاشا، محمد بک فرید، فریدوجدی، ایرانی انقلاب کے اوّلین معمار باقر ایرانی، سوڈان میں مہدی سوڈانی، لبیا میں امیر سید احمد سنوسی،الجزائر میں امام مسالی حج ، شیخ عبدالحمید بن بادیس اور شیخ الطیب العقابی، ترکی میں شیخ بدیع الزمان نورسی اور حلیم پاشا، مراکش میں غازی عبدالکریم خطابی اور علال الفاسی، انڈونیشیاء میں تیکو عمر ، شیخ وحی الدین اور عمر سعید آمینوتو، ملائشیاء میں شیخ جلال الدین طاہر اور افغانستان میں نادر شاہ غازی، یہ سب اُنھی کے پیرو کار تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں عالمِ اسلام میں جتنی بھی ہنگامہ خیزی ہوئی ہے، وہ سب اُنھی کی مرہونِ منت ہے۔
عشق از فریادِ او ہنگامہ ہا تعمیر کرد
ورنہ ایں بزمِ خموشاں ہیچ غوغائے نداشت
برصغیر کی نمایاں شخصیات میں سے سب سے پہلے شبلی نعمانی کو اُن کے پیروکار بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور یوں وہ ’’دبستانِ افغانی‘‘ کی ہندوستانی شاخ کے سربراہ بن گئے۔1880ء سے 1882ء تک جمال الدین افغانی ہندوستان میں مقیم تھے۔ اُن کی ذات سے شبلی کا ابتدائی تعارف اسی زمانے میں ہوا تھا۔ تاہم ذہنی و قلبی سطح پر اُن کی عقیدت مندی کاآغاز اُس وقت ہوا جب پیرس سے افغانی نے رسالہ ’’ العروۃ الوثقٰی‘‘ کا اجرا کیا۔ یہ رسالہ علی گڑھ کالج کی لائبریری میں بھی آیا کرتا تھا اور اس رسالہ میں شائع ہونے والے عربی مضامین کا اُردو ترجمہ ہفت روزہ ’’دارالسلطنت‘‘ کلکتہ اور ماہنامہ ’’مشیرِ قیصر‘‘ لکھنؤ میں بھی شائع ہوتا رہا تھا۔ العروہ میں شائع ہونے والے درد انگیز مقالات کے مطالعہ کے بعد شبلی کے لیے علی گڑھ میں رہنا ناممکن ہوگیا۔ 1892ء میں وہ مصر چلے گئے۔ وہاں اُنھوں نے جمال الدین افغانی کے شاگردِ خاص مفتی محمد عبدہ کی صحبت اختیار کی۔مصر سے آپ 1893ء میں ترکی چلے گئے اور وہاں جیل میں انیسویں صدی کے روشن خیال عالم جمال الدین افغانی سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور واپس ہندوستان آگئے۔ وطن واپسی پر اِس طویل دورہ کے بارے میں اُنھوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا: ’’سفر بے شبہ ضروری تھا۔ جو اثر اس سفر سے میرے دل پر ہوا، وہ ہزاروں کتابوں سے نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔(سفر نامہ مصر و روم و شام۔ شبلی) یہاں اُنھوں نے جمال الدین افغانی کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے باقاعدہ ایک علمی تحریک کا آغاز کیا۔ شبلی کے زیرِ اثر جن لوگوں نے تربیت پائی ،اُن میں چار نام بہت اہم ہیں۔ سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا آبادی، ابوالکلام آزاد، حمید الدین فراہی۔گویا شبلی کی ذات سے چار سلسلوں کا آغاز ہوا۔ اُن میں سے پہلا سلسلہ سیرتِ رسول، احادیث و سنت،تاریخ اسلام اور سوانحِ نگاری میں دلچسپی رکھتا تھا۔ دوسرا سلسلہ تقابلِ ادیان اور مذہب و سائنس کے تقابلی مطالعے میں دلچسپی رکھتا تھا، تیسرے سلسلہ کے لوگ عمر انیات و سیاسیات سے شغف رکھتے تھے اور چوتھے سلسلے کو قرآنیات سے دلچسپی تھی۔ پہلے سلسلہ کا آغاز سید سلیمان ندوی سے ہوتا ہے۔ اُن کے جانشین ابوالحسن علی ندوی قرار پائے۔ عبدالماجد دریا آبادی تقابل ادیان اور مذہب و سائنس کے تقابلی مطالعہ میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اُن کے جانشین شیخ احمد حسین دیدات ہوئے۔ عمرانیات و سیاسیات کے میدان میں ابوالکلام آزاد کی جانشینی کا حق ابوالاعلیٰ مودودی نے ادا کیا اور حمید الدین فراہی کے جانشین امین احسن اصلاحی ہوئے۔ ابوالحسن علی ندوی کے دیو بندی فرقہ میں شامل ہونے کے بعد اُن کے اپنے حلقہ میں تو کوئی ایسا شخص پیدا نہ ہو ا جو سیرت اور احادیث و سنت پر دبستان شبلی کے اُصولوں کے مطابق تحقیق کرتا۔ لیکن دریا کے اُس کنارے پر ڈاکٹر حمید اﷲ نے اس سلسلہ کو انتہائی شاندار طریقے سے آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر حمید اﷲ کے جانشین ڈاکٹر محمود احمد غازی ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے سلسلہ کے ساتھ بھی ہوا۔ عبدالماجد دریا آبادی کے دیوبندی فرقہ میں شامل ہونے کے بعد اُن کے اپنے حلقہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہ ہوا جو اس سلسلہ کو آگے بڑھاتا، لیکن بمبئی میں شیخ احمد حسین دیدات جیسا مفکر پیدا ہوا جنھوں نے تقابل ادیان کے اس سلسلے کو شاندار انداز سے آگے بڑھایا۔شیخ احمد حسین دیدات کی وفات کے بعد اُن کی نشست وحید الدین خان نے سنبھالی۔وہ ابوالاعلیٰ مودودی ، امین احسن اصلاحی اور ابوالحسن علی ندوی تینوں سے فیض یاب ہوئے تھے اور اُن میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ اِن تینوں میں سے کسی کی بھی چھوڑی ہوئی نشست سنبھال سکتے تھے۔ لیکن ہر مقام پر اُن کا ڈگمگاتا ہوا قدم ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کا شکار ہوگیا۔ وحید الدین خان جب دین اور دُنیا کی تفریق کرتے ہیں تو وہ غلطی نہیں کرتے۔غلطی وہ اُس وقت کرتے ہیں جب خالصتاً الہیاتی نقطہء نگاہ کے علاوہ دیگر نقطہ ہاے نظر سے کتاب و سنت کے علوم مرتب کرنے کو ناجائز قرار دے دیتے ہیں۔ اقبال اور ابوالاعلیٰ مودودی کی عمرانی فکر میں بڑی حد تک تعبیر کی غلطی کی گنجایش موجود ہے۔ لیکن اُن کا یہ فعل (یعنی سیاسی و عمرانی نقطہء نگاہ سے کتاب و سنت کے علوم مرتب کرنے کی کوشش) ہرگز ہرگز تعبیر کی غلطی کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ ہر زمانے کی ضرورت ہے کہ مختلف شعبہ ہاے علم و فن سے تعلق رکھنے والے مفکرین اپنے متعلقہ شعبہ کے نقطہء نظر سے کتاب و سنت کا مطالعہ کر کے نتائج مرتب کرتے رہیں۔ اقبال اور ابوالا علیٰ مودودی نے یہ کوشش کر کے کوئی گناہِ کبیرہ نہیں کیا۔ بلکہ وحید الدین خان جیسے لوگ اس قسم کی سعی و کاوش کی مخالفت کر کے تعبیر کی غلطی کا شکار ہو رہے ہیں۔وحیدالدین خان اپنے مخصوص فطری میلانات اور ذہنی رحجانات کے باعث زیادہ دیر تک دبستان شبلی کی ردا نہ اوڑھ سکے اور جلد ہی قدامت پسند فرقوں میں سے دیوبندی فرقہ میں شامل ہوگئے، جس کی وجہ سے وہ دبستانِ شبلی کے اُن عظیم اساتذہ کے جانشین نہ بن سکے جن سے وہ فیض یاب ہوئے تھے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ تقابلِ ادیان اور مذہب و سائنس پر اُن کے کام نے اُنھیں شیخ احمد حسین دیدات کا معنوی خلیفہ بنادیا۔ یہ اُن کی عظمت ہے کہ دانش گاہِ الحاد سے اتنا دور جانے کے باوجود بھی ہم اُنھیں دبستانِ شبلی سے خارج نہیں کر سکتے۔ اُنھوں نے ایک طرف اسلام اور دیگر مذاہب (بالخصوص ہندوستانی مذاہب) کے تقابلی مطالعہ پر مبنی دعوتی و تحقیقی کتب تصنیف کیں اور دوسری طرف اسلام اور سائنس کے تقابلی مطالعہ پر گرانقدر کتابیں لکھیں ۔ ا س طرح اُنھوں نے احمد حسین دیدات کے کام کو آگے بڑھایا۔اسی دوران ایک اور نوجوان محقق منظرِ عام پر آئے جو تقابل ادیان میں کمال کی حدوں تک پہنچے ہوئے ہیں۔ نیز اسلام اور سائنس کے تقابلی مطالعہ پر بھی اُن کی گرفت بہت گہری ہے۔ اس نوجوان کا پورا نام ڈاکٹرذاکر عبدالکریم نائیک ہے اور لوگ اُنھیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نام سے پہنچانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر طب کے شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن طالب علمی کے زمانے میں وہ شیخ احمد حسین دیدات سے متاثر ہوگئے جس کی وجہ سے وہ دنیاے طب کو الوداع کہہ کر دینیات کے میدان میں چلے آئے۔اُنھوں نے مذاہب کے تقابلی مطالعہ پر مبنی اعلیٰ کتابیں بھی لکھیں اور سائنس اور اسلام کے تقابلی مطالعہ پر مبنی کتب بھی ۔ پھر اُنھوں نے اپنے آپ کو صرف تصنیف و تالیف کے کام تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس نہج پر ایک عظیم الشان دعوتی تحریک کا آغاز بھی کیا اور اس سے بھی بڑھ کر اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ قائم کر کے اس تحریک کو باقاعدہ انسٹیٹیوشنلائیز کیا۔ اور اُن پیش رووں کے قدامت پسند فرقوں کی طرف جھکاؤ سے اس فکر پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے تھے، اُن کا ازالہ بھی کیا۔یہ منزلیں سر کرتے ہوئے اُنھیں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت کے قدامت پسند فرقے اُن کی تحریک کو ’’فتنۂ ذاکریت‘‘ کہتے ہیں۔ اُن کا مؤقف ہے کہ وہ پینٹ شرٹ پہن کر فتنۂ سازی کرتا پھرتا ہے۔ حال ہی میں بھارت کے ایک مولوی صاحب نے اُن کے بارے میں اپنے تحفظات کا یوں اظہار فرمایا:’’ذاکر نائیک کے پاس کسی دینی مدرسہ کی سند نہیں ہے۔ نیز اُنھوں نے کبھی اہلِ قلوب اور اربابِ باطن کی صحبت میں رہ کر اپنا تزکیہ نہیں کیا۔ اس وجہ سے اُن کا علمی رسوخ ناقابلِ اعتماد اور علمی معیار غیر مستند ہے۔ اُن کا فہم دین جنگل کے خود رو گھاس کی طرح ہے ۔۔۔۔‘‘ وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والادوسری طرف ذاکر نائیک کا رویہ یہ ہے کہ وہ زمانے کی پروا کیے بغیر دن رات اپنے کام میں مگن ہیں۔تیسرے سلسلہ میں ابوالاعلیٰ مودودی کے حقیقی جانشین ڈاکٹر اسرار احمد ہیں۔ 1957ء میں جماعتِ اسلامی جس کام سے دستبردار ہوگئی تھی، ڈاکٹر اسرار احمد نے اُس کا بیڑا اُٹھایا ۔ 1966ء میں اُنھوں نے امین احسن اصلاحی کے جاری کردہ رسالہ ’’میثاق‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ 1967ء میں ’’تحریک رجوع الی القرآن‘‘ کا آغاز فرمایا۔ 1972ء میں انجمن خدّام القرآن قائم کی۔ 1975ء میں انقلابی طریقِ کار کے ذریعہ حکومتِ الہیہ قائم کرنے کے لیے تنظیم اسلامی بنائی۔ 1977ء میں لاہور میں مرکزی قرآن اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بعدا ازاں پورے پاکستان میں قرآن اکیڈمیوں کا جال بچھا دیا۔ 1987ء میں قرآن کالج قائم کیا۔1991ء میں ’’تحریک خلافت پاکستان‘‘ کے نام سے ایک عمومی تحریک کا آغاز کیا ، جس کا مقصد اسلامیانِ پاکستان کو نظام خلافت کی طرف متوجہ کرنا تھا۔اُن کی کامیابیوں میں ایک بڑی کا میابی یہ بھی ہے کہ جماعتِ اسلامی کے وہ اراکین جنھوں نے 1957ء کے مشہور زمانہ اجتماع ماچھی گوٹھ میں انتخابی طریقہ کی حمایت کی تھی، وہ 1993ء میں نعیم صدیقی کی قیادت میں جماعتِ اسلامی سے علیٰحدہ ہو کر ’’تحریکِ اسلامی ‘‘ کے نام سے منظم ہوئے اور انقلابی راستے پر گامزن ہوگئے ۔علاوہ ازیں وہ تصنیف و تالیف میں بھی مگن رہے اور چند قابلِ قدر کتابیں منصۂ شہود پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک پہاڑ جیسی حقیقت ہے کہ وہ بھی زیادہ دیر تک راہِ اعتدال پر قائم نہیں رہ سکے او ر جلد ہی قباے رندی اُتار کر زُہد کا جامۂ صلاح و صفوت زیبِ تن کر لیا۔ قدامت پسندوں سے میل جول اور رسم و راہ رکھنے کے باعث اُن کے افکار و نظریات، منہج و ترجیحات، سوچنے کے انداز، دیکھنے کے زاویے، ردّ و قدح کے پیمانے، خیرو شر کے معیارات، زندگی کے طور طریقے، مذاق و مزاج کے ڈھنگ ، فطری میلانات اور طبعی رجحانات بالکل ویسے ہی ہوگئے ہیں جو دیو بندی فرقے کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے کسی شخص کے ہونے چاہییں۔ اُن کے پیروکار بھی اُنھی کی طرح کے مکمل طور پر دیوبندی نظریات کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب اس حلقہ میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو عمرانیات و سیاسیات کے اس سلسلہ کو دبستان شبلی کے اعلیٰ وارفع اُصولوں کے مطابق آگے بڑھا سکے۔ اقبال اکیڈمی سے وابستہ ا سکالر احمد جاوید بچپن و جوانی میں ابوالکلام اور ابوالاعلیٰ کے زیر اثررہے ہیں اور حکومت الہیہ کے قیام کے پُرزور حامی ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے بعد، اس سلسلہ کے نمایندہ احمد جاوید ہوں گے۔احمد جاوید کو تین بڑے چیلنج در پیش ہیں۔* اوّل یہ کہ اُنھیں روشن خیالی کے کم از کم اُس مقام کو برقرار رکھنا ہے، جس پر ابوالکلام فائز تھے۔* دوم یہ کہ بیسویں صدی میں ابوالاعلیٰ مودودی نے کتاب و سنت کے اُصولوں کی روشنی میں اسلام کے سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، روحانی اور اخلاقی نظام کا جو ڈھانچا تشکیل دیا تھا، اُس کا بیشتر حصہ اب قصۂ پارینہ کی مانند ہو چکا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اکیسویں صدی کے احوال و ظروف کے مطابق جدید تحقیقات کی روشنی میں اُس ڈھانچے کو ازسرِ نو تشکیل دیا جائے۔* سوم یہ کہ ڈاکٹر اسرار احمدکے ا قدامت پسندوں کی طرف جھکنے سے اس فکر پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اُن کا ازالہ کرنا ہے۔یہ تینوں بہت بڑے چیلنج ہیں۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے جو غیر معمولی صلاحتیں اُنھیں عطا کی ہوئی ہیں، اُن کی بناء پر مجھے یقین ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
حمید الدین فراہی چوتھے سلسلے کے بانی تھے۔ اُن جیسے تحقیقی ذوق رکھنے والی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
دور ہا باید کہ تا یک مردِ حق پیدا شدد
بایزید اندر خراساں یا اویس اندر قرن
وہ قرآنیات میں دلچسپی رکھتے تھے اور اُنھوں نے اپنی عمرِ عزیز کے چالیس سال تحقیق کی وادیِ خموشاں میں گزارے۔ اُن کے بعد امین احسن اصلاحی نے جماعتِ اسلامی سے علیحدہ ہونے کے بعد سے اپنی وفات تک چالیس سال تحقیق کی دنیا میں بسر کیے۔ جاوید احمد غامدی گزشتہ تیس سالوں سے اسی وادی نجد میں شورِ سلاسل بلند کیے ہوئے ہیں۔ یہ مجموعی طور پر ایک سو دس سال بنتے ہیں۔ اس قسم کی مضبوط تحقیقی روایت برِصغیر میں دوسری جگہ نظر نہیں آتی ۔ دوسرے لوگ اِتنے ہی سال اُن سے پیچھے ہیں۔امین احسن اصلاحی تحقیق میں مگن رہنے کے ساتھ ساتھ دعوت و تحریک کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ چنانچہ 1930ء کی دہائی میں اُنھوں نے ’’تحریکِ تدبر قرآن‘ ‘ کا آغاز فرمایا۔ ابوالکلام آزاد کی ’’تحریکِ دعوتِ قرآن‘‘ کے بعد قرآن کے نام پر اُٹھنے والی یہ برصغیر کی دوسری تحریک تھی۔ 1936ء میں اُنھوں نے ماہ نامہ الاصلاح جاری کیا اور دائرہ حمید یہ قائم کیا۔ وہ مزید اقدمات کے حوالے سے ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ پٹھان کوٹ سے ابوالاعلیٰ کی دعوت اُن کے کانوں میں پڑ گئی اور اُن کی حالت اس شعر کے مصداق ہوگئی کہ:دیکھنا تقریر کی لِذّت کہ جو اُس نے کہامیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھااور یوں وہ تحریک تدبرقرآن ‘ مدرسۃ الاصلاح‘ ماہ نامہ الاصلاح اور دائرہ حمیدیہ دیگراحباب کے سپرد کر کے خود، غامدی صاحب کے الفاظ میں: ’’فراہی کی خانقاہ سے ابوالاعلیٰ کے دارالاسلام میں پہنچ گئے‘‘۔ 1947ء سے قبل جماعتِ اسلامی علمی و تحقیقی اور دعوتی و تربیتی کام کر رہی تھی۔ چنانچہ امین احسن اصلاحی اُس کی کارکردگی سے مطمئن تھے۔ لیکن بعد میں جب جماعتِ اسلامی سیاسی میدان میں کود پڑی تو وہ اس کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہوتے چلے گئے۔1947ء سے 1957ء تک دس سال ابوالاعلیٰ کے ساتھ اُن کی ’’سرد جنگ‘‘ رہی۔ امین احسن اصلاحی چاہتے تھے کہ پٹھان کوٹ کے دارالاسلام کے طرز پر پورے پاکستان میں ’’جدید خانقاہوں‘‘ کا جال بچھایا جائے۔ تاکہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی دینی تربیت کی جاسکے۔ جیسا کہ دارالاسلام پٹھان کوٹ میں کی جاتی رہی تھی۔ نیز تربیتی اداروں کے علاوہ چند تحقیقی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ تحقیق کا کام ہوتا رہے۔ اس کے علاوہ دعوتی و تبلیغی کام کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس کے برعکس ابوالاعلیٰ کا خیال تھا کہ آئین سازی کے اس اہم موقع پر اگر ہم نے آگے بڑھ کر لادینیت اور اشتراکیت کے حدی خوانوں کے ہاتھ نہ تھامے تو پاکستان کا حال مصطفےٰ کمال کے ترکی سے مختلف نہ ہوگا۔ایک مرتبہ متفقہ آئین تشکیل پانے کے بعد اُس کو تبدیل کرنا خونی انقلاب کے بغیر ممکن نہ ہوگا اور خونی انقلاب خود نبی پاک کے منہج کے خلاف ہے۔ اور یوں دو نصب العینوں کے مابین کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ علمی و تحقیقی، دعوتی و تربیتی اور تبلیغی سرگرمیوں کے حامی گروہ کے سربراہ امین احسن اصلاحی تھے اور اُن کا ساتھ ڈاکٹر اسرار احمد دے رہے تھے۔ جبکہ سیاسی سرگرمیوں کے حامی گروہ کے سربراہ ابوالاعلیٰ مودودی تھے اور اُن کا ساتھ نعیم صدیقی دے رہے تھے۔ بالآخر 1957ء میں یہ کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور ماچھی گوٹ میں ارکانِ جماعت کا اجتماع طلب کیا گیا ۔ اُن کے سامنے دونوں گروہوں نے اپنی اپنی تجاویز رکھیں۔ جماعت کے ارکان کی اکثریت نے سیاسی سرگرمیوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ امین احسن اصلاحی کو اس سے سخت دھچکا لگا۔لیکن اُس وقت جماعت کا نظام شورائی تھا اور امیر شوریٰ کی راے کا پابند تھا۔ اس وجہ سے امین احسن کا خیال تھا کہ وہ ارکان شوریٰ کو اپنے ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے وہ اتنے مایوس نہیں ہوئے تھے۔ تاہم بعد میں جب ایک قرار داد کے ذریعہ امیر کو لامحدود اختیارات سونپ دیئے گئے ۔ نیز امیر کے لیے کوئی فیصلہ کرتے ہوئے شوریٰ کی راے کا پابند ہونے کی شرط بھی ختم کردی گئی توا مین احسن اصلاحی جماعت اسلامی کے دینی مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہوگئے۔ پھر جماعت سے علیحدہ ہونے میں اُنھوں نے دیر نہیں لگائی۔سترہ سال جماعتِ اسلامی میں ضائع کرنے کے بعد اپنی تحریک کی طرف دوبارہ متوجہ ہوئے۔جسے ہندوستان میں مدرستہ الاصلاح کے علماء ، اساتذہ و طلبہ اور دائرہ حمیدیہ کے اراکین و معاونین پوری شان کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھے۔پاکستان میں اُس وقت تک اس تحریک کا واحد سرمایہ امین احسن اصلاحی کی ذات تھی اور وہ بھی اُس عمر میں تھے جہاں آخری خواہشات اکثر دم توڑ دیتی ہیں۔ وسائل کی کمی اور اپنی ضیعفی اور کمزوری کے علی الرغم، اُنھوں نے بڑی تن دہی سے دن رات کام کیا اور پاکستان میں اپنی تحریک کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔جدید زمانے میں قرآن اور اسلام کے نام پر جتنی بھی تحریکیں اُٹھیں ،اُن میں شبلی کی تحریک کے علاو ہ باقی سب تحریکوں نے عوام اور خواص کو مخاطب کیا۔ اور اُن تحریکوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ اس کے برعکس شبلی اور امین احسن نے صرف اخص الخواص کو ہی اپنی بارگاہ میں بیٹھنے کی اجازت دی۔ یہ طریقہ اُنھوں نے یورپ کی جدید تحریکوں کو سامنے رکھ کر اخذ کیا تھا۔ یورپ کی تحریکوں کاکل سرمایہ چار پانچ بڑے مفکرین ہوتے ہیں۔ شور و شغب، جلسہ ، کانفرنس، مارچ ، ہنگامہ ، احتجاج ، ہڑتال، دھرنا دینا، جماعتوں کے قیام کی دعوت اور سمع و طاعت کی بیعت جیسی لغویات وہاں کی علمی تحریکوں میں نہیں ہوتیں۔ وہ چار پانچ مفکرین دن رات تحقیق میں مگن رہتے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی تحقیق سے مشرق و مغرب کی علمی دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ برصغیر میں شبلی نے یہی طریقہ اپنا یا تھا اور اُس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔امین احسن اصلاحی نے بھی اپنی تحریک کی بنیاد اسی اُصول پر رکھی کہ عوام و خواص کا غول جمع کرنے کے بجاے دس پندرہ با صلاحیت نوجوانوں کی صحیح تربیت کی جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے اُنھوں نے باصلاحیت نوجوانوں کی تلاش میں حلقہ ہاے تدبر قرآن قائم کیے ۔ اگلے مرحلہ میں اُنھوں نے حلقہ ہاے تدبرقرآن کے شرکاء کو رخصت دے کر صرف چند نوجوانوں کو اپنے پاس رکھا اور اُن کی تربیت شروع کر دی۔ تیسرے مرحلہ میں ادارہ تدبرقرآن قائم کر کے اس تحریک کو باقاعدہ انسٹیٹیوشنلائیز کیا۔ ابوالکلام کے دارالارشاد اور ابوالاعلیٰ کے دارالاسلام کے طرز پر قائم ہونے والے اس ادارے کا قیام 1973ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ ایک حوالے سے اس ادارے کو مذکور ہ دونوں اداروں پر فوقیت حاصل تھی اور وہ یہ کہ دارالارشاد اور دارالاسلام دونوں اداروں کا اوّلین مقصد تربیت تھا۔ تحقیق کو ثانوی حیثیت حاصل تھی،جبکہ اس کے برعکس امین احسن کے ادارے کا اولین مقصد تحقیق تھا، تربیت کو ثانوی حیثیت حاصل تھی۔ اُن کے مطابق تحقیق خود ہی انسانوں کی تربیت کرتی ہے۔ تحقیق ہوگی تو تربیت خود بخود ہوتی رہے گی۔امین احسن اصلاحی نے ایک اور کمال یہ کیا کہ اپنے زیرِ تربیت نوجوانوں کو صوفی و مُلّا کی صحبت سے دور رکھا۔ اگر کوئی نوجوان قدامت پسندوں سے میل جول یا رسم و راہ رکھتا تھا تو وہ ایک دو مرتبہ اُسے متنبہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’ان لوگوں کو سر پر بٹھا کر ان سے کیا لینا ہے۔ ہماری تو ساری جدوجہد انھی لوگوں کے خلاف ہے‘‘۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی شخص باز نہ آتا تو وہ فوراً اُسے اپنے حلقہ سے نکال دیتے تھے، کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ قدامت پسندوں کی محفل میں وہی شخص جاتا ہے جس کی اپنی ذہنیت قدامت پسندانہ ہو۔کُندہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز بہ باز

No comments:

Post a Comment