ظہور امام المہدی ۔ جاوید غامدی اور مولانا مودودی کے خیالات
ڈاکٹر فیاض عالم 2009-09-24
آج کل مذہبی حلقوں میں اختتام وقت ، آثار و علاماتِ قیامت، نزول حضرت عیسیٰ ؑ، ظہور امام مہدی اور خروج دجال جیسے موضوعات زور و شور سے زیر بحث ہیں۔ دجال کے موضوع پر حال ہی میں کچھ نئی کتب شائع ہوئی ہیں جن کی طباعت کا معیار تو بہت اچھا ہے لیکن مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ علمی و تحقیقی معیار بلند تر نہیں ہے۔ لہذا ان کتب کے سارے مواد کو تحقیق کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ کچھ عرصہ قبل الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے اسکالر جاوید غامدی سے کسی نے ظہور امام المہدی کے متعلق ایک سوال پوچھا۔ جواب میں موصوف نے فرمایا: ”قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کسی صحیح حدیث میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ امام مہدی کے بارے میں جو کچھ بھی ہے لوگوں کی زبانوں پر ہے۔ قرآن مجید، تو آپ لوگ جائیے گھروں میں، پڑھ لیجئے خالی ہے اس سے بالکل۔ یہی معاملہ حدیثوں کا ہی، حدیثوں کی کتابوں میں بھی کسی صحیح روایت میں کوئی ذکر نہیں ہے کسی امام مہدی کے آنے کا۔ قیامت کی نشانیاں بیان ہوئی ہیں، آثار بیان ہوئے ہیں اور بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں، کہیں ذکر نہیں ہے اس کا ۔ بعض ضعیف روایتوں میں البتہ یہ ذکر آیا ہے اور ان کی بھی تحقیق کی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر اہلِ تشیّع کی روایت ہیں جو ہماری کتابوں میں بھی آگئی ہیں۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے“۔ (معروف ویب سائٹ www.youtube.comپر جاوید غامدی کا درجہ بالا جواب ملاحظہ کیاجاسکتا ہی) امام مہدی کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف نہایت واضح ہے اور وہ یہ کہ امام المہدی کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں لہذا یہ محض ایک افسانہ ہے اور ایسی کسی شخصیت کے ظہور سے متعلق کوئی پیشن گوئی موجود نہیں ہے ۔لہذا مسلمانوں میں سے جن لوگوں کو یقین ہے کہ آخر وقتوں میں امام مہدی کا ظہور ہوگا انہیں چاہیے کہ اپنا عقیدہ درست کرلیں۔ جاوید غامدی کا شمار دورِ حاضر کے بڑے اسکالرز میں کیا جاتا ہے خصوصاََ ٹی وی چینلز پر ان کی خطابت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لہذا یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی موضوع پر اظہار خیال فرمائیں اور ان کے دیکھنے اور ماننے والوں کے قلب و ذہن ، ان کے خیالات و افکار سے متاثر نہ ہوں۔ ظہور مہدی کے متعلق غامدی صاحب کے خیالات پر جرح کرنے کی بجائے میں چاہوں گا کہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے لٹریچر میں امام مہدی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا مختصر خلاصہ اپنے قارئین تک پہنچادوں تاکہ قارئین ان لوگوں خصوصاََ نوجوانوں کی درست رہنمائی کرسکیں جو اس بارے میں غامدی صاحب کے خیالات سن کر کنفیوز ہورہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے امام المہدی کے بارے میں صاف پیشن گوئیاں نبی علیہ الصلوٰة والسلام کے کلام میں موجود ہیں۔ اگر چہ یہ پیشن گوئیاں مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک وغیرہ کتابوں میں کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ مگر یہاں اس روایت کا نقل کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا جو امام شاطبی نے موافقات میں اور مولانا اسمعیل شہیدؒ نے منصب امامت میں نقل کی ہی: ”تمہارے دین کی ابتداءنبوت اور رحمت سے ہے اور وہ تمہارے درمیان رہے گی جب تک اﷲ چاہے گا۔ پھر اﷲ جل جلالہ، اسے اٹھالے گا۔ پھر نبوت بطریق خلافت ہوگی جب تک اﷲ چاہے گا۔ پھر اﷲ اسے بھی اٹھالے گا۔ پھر بد اطوار بادشاہی ہوگی اور جب تک اﷲ چاہے گارہے گی۔ پھر اﷲ اسے بھی اٹھالے گا۔ پھر جبر کی فرماں روائی ہوگی اور وہ بھی جب تک اﷲ چاہے گا رہے گی۔ پھر اﷲ اسے بھی اٹھالے گا۔ پھر وہی خلافت بطریق نبوت ہوگی جو لوگوں کے درمیان نبی کی سنت کے مطابق عمل کرے گی اور اسلام زمین میں پاﺅں جمائے گا۔ اس حکومت سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے اور زمین والے بھی۔ آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی“۔ میں نہیں کہ سکتا کہ اسناد کے اعتبار سے اس روایت کا کیا مرتبہ ہے مگر معناََ یہ ان تمام روایات سے مطابقت رکھتی ہے جو اس معنی میں وارد ہوئی ہیں۔ اس میں تاریخ کے پانچ مرحلوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے تین گزر چکے ہیں اور چوتھا اب گزررہا ہے۔ آخر میں جس پانچویں مرحلہ کی پیشن گوئی کی گئی ہی، تمام قرائن بتارہے ہیں کہ انسانی تاریخ تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انسانی ساخت کے سارے ”ازم“ آزمائے جاچکے ہیں اور بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ آدمی کے لئے اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ تھک ہار کر اسلام کی طرف رجوع کرے۔ آج کل لوگ نادانی کی وجہ سے اس نام (الامام المہدی )کو سن کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ کسی آنے والے مرد کامل کے انتظار نے جاہل مسلمانوں کے قوائے عمل کو سرد کردیا ہی، اس لئے ان کی رائے یہ ہے کہ جس حقیقت کا غلط مفہوم لے کر جاہل لوگ بے عمل ہوجائیں وہ سرے سے حقیقت ہی نہ ہونی چاہیے۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ تمام مذہبی قوموں میں کسی ”مردے ازغیب“ کی آمد کا عقیدہ پایا جاتا ہے ، لہذا یہ محض ایک وہم ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ خاتم النبین ﷺ کی طرح پچھلے انبیاءنے بھی اگر اپنی قوموں کو یہ خوشخبری دی ہو کہ نوعِ انسان کی دنیوی زندگی ختم ہونے سے پہلے ایک دفعہ اسلام ساری دُنیا کا دین بنے گا اور انسان کے بنائے ہوئے سارے ”ازموں“ کی ناکامی کے بعد آخر کار تباہیوں کا مارا ہوا انسان اس ”ازم“ کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوگا جسے خدا نے بنایا ہے اور یہ نعمت انسان کو ایک ایسے عظیم الشان لیڈر کی بدولت نصیب ہوگی جو انبیاءکے طریقہ پر کام کر کے اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پوری طرح نافذ کر دے گا، تو آخر اس میں وہم کی کون سی بات ہے بہت ممکن ہے کہ انبیاءعلیہم السلام کے کلام سے نکل کر یہ چیز دُنیا کی دوسری قوموں میں بھی پھیلی ہو اور جہالت نے اس کی روح نکال کر اوہام کے لبادے اس کے گرد لپیٹ دئیے ہوں۔ مہدی کے کام کی نوعیت کا جو تصور میرے ذہن میں ہے وہ بعض حضرات کے تصور سے بالکل مختلف ہے مجھے اس کے کام میں کراما ت و خوارق ، کشوف و الہامات اور چلوں اور ”مجاہدوں“ کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انقلابی لیڈر کو دُنیا میں جس طرح شدید جدو جہد اور کش مکش کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے انہی مرحلوں سے مہدی کو بھی گزرنا ہوگا۔ وہ خالص اسلام کی بنیاد پر ایک نیا مذہب فکر(School of thought)پیدا کرے گا۔ ذہنیتوں کو بدلے گا، ایک زبردست تحریک اٹھائے گا جو بیک وقت تہذیبی بھی ہوگی اور سیاسی بھی، جاہلیت اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اسے کچلنے کی کوشش کرے گی، مگر بالآخر وہ جاہلی اقتدار کو الٹ کر پھینک دے گا اور ایک ایسی زبردست اسلامی اسٹیٹ قائم کرے گا جس میں ایک طرف اسلام کی پوری روح کارفرما ہوگی اور دوسری طرف سائنٹفک ترقی اوجِ کمال پر پہنچ جائے گی۔ جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہی”اس کی حکومت سے آسمان والے بھی راضی ہوں گے اور زمین والے بھی، آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی“۔ اگر یہ توقع صحیح ہے کہ ایک وقت میں اسلام تمام دُنیا کے افکار، تمدن اور سیاست پر چھا جانے والا ہے تو ایسے ایک عظیم الشان لیڈر کی پیدائش بھی یقینی ہے جس کی ہمہ گیر و پُرزور قیادت میں یہ انقلاب رونما ہوگا۔ جن لوگوں کو ایسے لیڈر کے ظہور کا خیال سن کر حیرت ہوتی ہے مجھے ان کی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔ جب خدا کی اس خدائی میں لینن اور ہٹلر جیسے آئمہ ضلالت کا ظہور ہوسکتا ہے تو آخر ایک امامِ ہدایت ہی کا ظہور کیوں مستبعد ہو؟ (تجدید و احیاءدین) مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے امام مہدی کے حوالے سے بعض احادیث پر جرح کی ہے اور انہیں روایت ودرایت کے اعتبار سے اعلیٰ درجے کی احادیث میں شمار نہیں کیا لیکن مجموعی طور پر انہوں نے کہیں بھی اس امر سے انکار نہیں کیا کہ زمانہ آخیر میں ایک عظیم لیڈر(امام مہدی) کا ظہور ہوگا جن کے بارے میں پیشن گوئی ہے کہ وہ ایک مرتبہ خلافت اسلامیہ کو قائم فرمائیں گے اور جن کی امامت میں حضرت عیسیٰ ؑ اپنے نزول کے بعد نماز ادا فرمائیں گے ۔اور دجال کے فتنہ کا مقابلہ کرینگے۔
ڈاکٹر فیاض عالم 2009-09-24
آج کل مذہبی حلقوں میں اختتام وقت ، آثار و علاماتِ قیامت، نزول حضرت عیسیٰ ؑ، ظہور امام مہدی اور خروج دجال جیسے موضوعات زور و شور سے زیر بحث ہیں۔ دجال کے موضوع پر حال ہی میں کچھ نئی کتب شائع ہوئی ہیں جن کی طباعت کا معیار تو بہت اچھا ہے لیکن مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ علمی و تحقیقی معیار بلند تر نہیں ہے۔ لہذا ان کتب کے سارے مواد کو تحقیق کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ کچھ عرصہ قبل الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے اسکالر جاوید غامدی سے کسی نے ظہور امام المہدی کے متعلق ایک سوال پوچھا۔ جواب میں موصوف نے فرمایا: ”قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کسی صحیح حدیث میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ امام مہدی کے بارے میں جو کچھ بھی ہے لوگوں کی زبانوں پر ہے۔ قرآن مجید، تو آپ لوگ جائیے گھروں میں، پڑھ لیجئے خالی ہے اس سے بالکل۔ یہی معاملہ حدیثوں کا ہی، حدیثوں کی کتابوں میں بھی کسی صحیح روایت میں کوئی ذکر نہیں ہے کسی امام مہدی کے آنے کا۔ قیامت کی نشانیاں بیان ہوئی ہیں، آثار بیان ہوئے ہیں اور بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں، کہیں ذکر نہیں ہے اس کا ۔ بعض ضعیف روایتوں میں البتہ یہ ذکر آیا ہے اور ان کی بھی تحقیق کی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر اہلِ تشیّع کی روایت ہیں جو ہماری کتابوں میں بھی آگئی ہیں۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے“۔ (معروف ویب سائٹ www.youtube.comپر جاوید غامدی کا درجہ بالا جواب ملاحظہ کیاجاسکتا ہی) امام مہدی کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف نہایت واضح ہے اور وہ یہ کہ امام المہدی کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں لہذا یہ محض ایک افسانہ ہے اور ایسی کسی شخصیت کے ظہور سے متعلق کوئی پیشن گوئی موجود نہیں ہے ۔لہذا مسلمانوں میں سے جن لوگوں کو یقین ہے کہ آخر وقتوں میں امام مہدی کا ظہور ہوگا انہیں چاہیے کہ اپنا عقیدہ درست کرلیں۔ جاوید غامدی کا شمار دورِ حاضر کے بڑے اسکالرز میں کیا جاتا ہے خصوصاََ ٹی وی چینلز پر ان کی خطابت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لہذا یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی موضوع پر اظہار خیال فرمائیں اور ان کے دیکھنے اور ماننے والوں کے قلب و ذہن ، ان کے خیالات و افکار سے متاثر نہ ہوں۔ ظہور مہدی کے متعلق غامدی صاحب کے خیالات پر جرح کرنے کی بجائے میں چاہوں گا کہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے لٹریچر میں امام مہدی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا مختصر خلاصہ اپنے قارئین تک پہنچادوں تاکہ قارئین ان لوگوں خصوصاََ نوجوانوں کی درست رہنمائی کرسکیں جو اس بارے میں غامدی صاحب کے خیالات سن کر کنفیوز ہورہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے امام المہدی کے بارے میں صاف پیشن گوئیاں نبی علیہ الصلوٰة والسلام کے کلام میں موجود ہیں۔ اگر چہ یہ پیشن گوئیاں مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک وغیرہ کتابوں میں کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ مگر یہاں اس روایت کا نقل کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا جو امام شاطبی نے موافقات میں اور مولانا اسمعیل شہیدؒ نے منصب امامت میں نقل کی ہی: ”تمہارے دین کی ابتداءنبوت اور رحمت سے ہے اور وہ تمہارے درمیان رہے گی جب تک اﷲ چاہے گا۔ پھر اﷲ جل جلالہ، اسے اٹھالے گا۔ پھر نبوت بطریق خلافت ہوگی جب تک اﷲ چاہے گا۔ پھر اﷲ اسے بھی اٹھالے گا۔ پھر بد اطوار بادشاہی ہوگی اور جب تک اﷲ چاہے گارہے گی۔ پھر اﷲ اسے بھی اٹھالے گا۔ پھر جبر کی فرماں روائی ہوگی اور وہ بھی جب تک اﷲ چاہے گا رہے گی۔ پھر اﷲ اسے بھی اٹھالے گا۔ پھر وہی خلافت بطریق نبوت ہوگی جو لوگوں کے درمیان نبی کی سنت کے مطابق عمل کرے گی اور اسلام زمین میں پاﺅں جمائے گا۔ اس حکومت سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے اور زمین والے بھی۔ آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی“۔ میں نہیں کہ سکتا کہ اسناد کے اعتبار سے اس روایت کا کیا مرتبہ ہے مگر معناََ یہ ان تمام روایات سے مطابقت رکھتی ہے جو اس معنی میں وارد ہوئی ہیں۔ اس میں تاریخ کے پانچ مرحلوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے تین گزر چکے ہیں اور چوتھا اب گزررہا ہے۔ آخر میں جس پانچویں مرحلہ کی پیشن گوئی کی گئی ہی، تمام قرائن بتارہے ہیں کہ انسانی تاریخ تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انسانی ساخت کے سارے ”ازم“ آزمائے جاچکے ہیں اور بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ آدمی کے لئے اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ تھک ہار کر اسلام کی طرف رجوع کرے۔ آج کل لوگ نادانی کی وجہ سے اس نام (الامام المہدی )کو سن کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ کسی آنے والے مرد کامل کے انتظار نے جاہل مسلمانوں کے قوائے عمل کو سرد کردیا ہی، اس لئے ان کی رائے یہ ہے کہ جس حقیقت کا غلط مفہوم لے کر جاہل لوگ بے عمل ہوجائیں وہ سرے سے حقیقت ہی نہ ہونی چاہیے۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ تمام مذہبی قوموں میں کسی ”مردے ازغیب“ کی آمد کا عقیدہ پایا جاتا ہے ، لہذا یہ محض ایک وہم ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ خاتم النبین ﷺ کی طرح پچھلے انبیاءنے بھی اگر اپنی قوموں کو یہ خوشخبری دی ہو کہ نوعِ انسان کی دنیوی زندگی ختم ہونے سے پہلے ایک دفعہ اسلام ساری دُنیا کا دین بنے گا اور انسان کے بنائے ہوئے سارے ”ازموں“ کی ناکامی کے بعد آخر کار تباہیوں کا مارا ہوا انسان اس ”ازم“ کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوگا جسے خدا نے بنایا ہے اور یہ نعمت انسان کو ایک ایسے عظیم الشان لیڈر کی بدولت نصیب ہوگی جو انبیاءکے طریقہ پر کام کر کے اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پوری طرح نافذ کر دے گا، تو آخر اس میں وہم کی کون سی بات ہے بہت ممکن ہے کہ انبیاءعلیہم السلام کے کلام سے نکل کر یہ چیز دُنیا کی دوسری قوموں میں بھی پھیلی ہو اور جہالت نے اس کی روح نکال کر اوہام کے لبادے اس کے گرد لپیٹ دئیے ہوں۔ مہدی کے کام کی نوعیت کا جو تصور میرے ذہن میں ہے وہ بعض حضرات کے تصور سے بالکل مختلف ہے مجھے اس کے کام میں کراما ت و خوارق ، کشوف و الہامات اور چلوں اور ”مجاہدوں“ کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انقلابی لیڈر کو دُنیا میں جس طرح شدید جدو جہد اور کش مکش کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے انہی مرحلوں سے مہدی کو بھی گزرنا ہوگا۔ وہ خالص اسلام کی بنیاد پر ایک نیا مذہب فکر(School of thought)پیدا کرے گا۔ ذہنیتوں کو بدلے گا، ایک زبردست تحریک اٹھائے گا جو بیک وقت تہذیبی بھی ہوگی اور سیاسی بھی، جاہلیت اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اسے کچلنے کی کوشش کرے گی، مگر بالآخر وہ جاہلی اقتدار کو الٹ کر پھینک دے گا اور ایک ایسی زبردست اسلامی اسٹیٹ قائم کرے گا جس میں ایک طرف اسلام کی پوری روح کارفرما ہوگی اور دوسری طرف سائنٹفک ترقی اوجِ کمال پر پہنچ جائے گی۔ جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہی”اس کی حکومت سے آسمان والے بھی راضی ہوں گے اور زمین والے بھی، آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی“۔ اگر یہ توقع صحیح ہے کہ ایک وقت میں اسلام تمام دُنیا کے افکار، تمدن اور سیاست پر چھا جانے والا ہے تو ایسے ایک عظیم الشان لیڈر کی پیدائش بھی یقینی ہے جس کی ہمہ گیر و پُرزور قیادت میں یہ انقلاب رونما ہوگا۔ جن لوگوں کو ایسے لیڈر کے ظہور کا خیال سن کر حیرت ہوتی ہے مجھے ان کی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔ جب خدا کی اس خدائی میں لینن اور ہٹلر جیسے آئمہ ضلالت کا ظہور ہوسکتا ہے تو آخر ایک امامِ ہدایت ہی کا ظہور کیوں مستبعد ہو؟ (تجدید و احیاءدین) مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے امام مہدی کے حوالے سے بعض احادیث پر جرح کی ہے اور انہیں روایت ودرایت کے اعتبار سے اعلیٰ درجے کی احادیث میں شمار نہیں کیا لیکن مجموعی طور پر انہوں نے کہیں بھی اس امر سے انکار نہیں کیا کہ زمانہ آخیر میں ایک عظیم لیڈر(امام مہدی) کا ظہور ہوگا جن کے بارے میں پیشن گوئی ہے کہ وہ ایک مرتبہ خلافت اسلامیہ کو قائم فرمائیں گے اور جن کی امامت میں حضرت عیسیٰ ؑ اپنے نزول کے بعد نماز ادا فرمائیں گے ۔اور دجال کے فتنہ کا مقابلہ کرینگے۔
No comments:
Post a Comment