visitors

free counters

Friday 15 July 2011

اسلام اور مستشرقین

Top of Form


اسلام اور مستشرقین 2

     

 مستشرقین کے خصوصی اہداف
مستشرقین نے اپنے اپنے مقاصد اور اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسلام پر ہر طرف سے وار کیے ۔ جن لوگوں کے اندرکچھ اخلاقی اقدار کا پاس یا انصاف کی رمق موجود تھی ، انھوں نے اسلام کی بعض تعلیمات کو سراہا بھی، لیکن ان کے اسلام کے خلاف عناد اور دلی تعصب نے ہر مرحلے پر قبول حق سے روکے رکھا۔ ان میں سے بعض سلیم الفطرت مستشرقین ایسے بھی تھے جنہوں نے 
اسلام کی آفاقی تعلیمات کو فطرت کے قریب پایا اور اسے آسمانی ہدایت کے طور پر تسلیم کر کے اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کر گئے ۔ مثلاڈبلیو ایچ کویلیم(شیخ عبداللہ)(
William Henry Quilliam) (1856-1932)، رسل ویب(Mohammed Alexander Russell Webb)(۱۸۴۶ء۔۱۹۱۶ء)، مارٹن لنگز(Martin Lings)(ابوبکر سراج الدین) (۱۹۰۹ء۔۲۰۰۵ء)، علاء الدین شلبی، ناصرالدین الفونس اتیین(۱۸۶۱ء۔۱۹۳۰ء) ، لارڈ ہیڈلے الفاروق(رحمت اللہ الفاروق)( Rowland George Allanson Allanson-Winn )( 1855 [L:150]1935)، علامہ محمد اسد(Sylvius Leopold eiss)(۱۹۰۰ء۔۱۹۹۲ء)، ڈاکٹر عمر رالف ایرنفلس(Dr. Baron Omar Rolf von Ehrenfels) (۱۹۰۱ء۔۱۹۸۰ء)، خالدشیلڈرک(Bertram William Sheldrake)، مریم جمیلہ(۱۹۳۴ء)(margaret marks) وغیرہ۔
چنانچہ اول الذکر اقسام کے مستشرقین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، نزول وحی، آپ کے خاندان،اہل بیت،صحابہ کرام، قرآن مجیداوراحکام قرآن، احادیث مبارکہ، تعدد ازواج، غلامی اور جہاد کو اپنی تیراندازی کا ہدف بنایا۔ ہم بالترتیب ، مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں :
۱۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی دین اسلام کے تنہا ماخذ ہیں اور ہمیں دین اسلام آپ ہی کی وساطت سے قرآن و سنت ثابتہ کی صورت میں ملا ہے ۔ اس لیے مستشرقین نے سب سے زیادہ حملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیے ہیں تاکہ دین کی اصل بنیا د ہی پر شکوک و شبہا ت کے پردے ڈال دیے جائیں ۔چونکہ عام طور پر لوگ کسی بھی مذہب کے پیشوا کی شخصیت سے متاثر ہوکر اس کی اتباع کرتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھٹیا حملوں کا شکا ر بنا لیا۔ مستشرقین کے ذات قدسی پر حملوں کا ذکرکرنے سے پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مستشرقین کس حدتک آپ کی 
ذات گرامی کے بارے میں انصاف سے کام لیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش ۵۷۱ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔آپ نے پیدایش سے لے کر چالیس سال کی عمر تک سارا عرصہ اہل مکہ کے درمیان میں گزارا۔ اس دوران سوائے چند تجارتی اسفار کے آپ اپنے علاقے سے باہرتشریف نہیں لے گئے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلسلے میں ،چونکہ پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ نبوت و رسالت کا عظیم منصب آپ کے حوالے کیا جائے گا اس لیے آپ کی ذات گرامی کے حوالے سے چند باتوں کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔آپ کو عام رسمی تعلیم اورعلم الکتابت وغیرہ سے ناواقف رکھا گیا۔اس کی غرض وغایت یہی تھی کہ جن لوگوں کے پاس آپ کو بھیجا جا رہا ہے ان کویقین آجائے کہ آپ اپنے پاس سے کچھ ایجاد نہیں کر رہے ، بلکہ یہ سب کچھ کسی اعلیٰ و ارفع ذات کی طرف سے بھیجا جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جو زندگی گزاری وہ ایک عام انسان کی زندگی تھی ، جس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو غیر معمولی ہو۔آپ سے کبھی کوئی ایساکارنامہ سرزد نہیں ہواجس کی بنا پر آپ کو معاشرے میں خصوصی اہمیت حاصل ہوجائے ۔نہ ہی آپ علم وادب ، شاعری،خطابت وغیرہ کی دنیا کے آدمی تھے ۔البتہ ، اللہ تعالی نے آپ کی ذات گرامی اعلیٰ اخلاق و کردار کا ایک ایسا نمونہ بنا یا تھا کہ پیدایش سے لے کر اعلان نبوت تک آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پاکیزگی، سچائی ، امانت داری، احترام انسانیت ، حسن سلوک ، خدمت خلق اور حسن معاشرت کی ایک ایسی تابندہ مثال تھی ، جس کا اعتراف آپ کے تمام مخاطبین اورمخالفین نے کیا۔آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا گیا تھا۔نبوت کا منصب ملنے کے بعد کچھ عرصہ آپ نے خفیہ طور پر اپنے قریبی احباب کواپنی ذمہ داری اور مقاصد سے آگاہ کیا۔ان کی طرف سے حمایت اور تعاون کے بعداللہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ سے ڈراؤ۔ قرآن 
مجید میں ارشاد ہے :
و انذر عشیرتک الاقربین۔(الشعراء ۲۶:۲۱۴)
''اور اپنے قریبی عزیزوں کو(اپنے رب کے معاملے میں )ڈرا۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں کو ہ صفا پر چڑ ھ کر سب سے پہلے اپنی ذات کو قریش مکہ والوں کے سامنے پیش کیا ، تاکہ کسی کو اس امر میں کوئی شک نہ رہے کہ آپ کسی لالچ، فریب، بددیانتی، یا کسی دنیاوی مقصد کے زیر اثر یہ کام کر رہے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس واقعے کی تفصیل اس طرح سے بیا ن ہوئی ہے :
عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال لما نزلت 'وانذر عشیرتک الاقربین' صعدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم علی الصفا فجعل ینادی یا بنی فھر یابنی عدی لبطون قریش حتی اجتمعوا فجعل الرجل اذا لم یستطع ان یخرج ارسل رسولا لینظرما ھو فجاء ابو لھب و قریش فقال اَراَیْتَکُم لو اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً بالوادی ترید ان تُغِیْرَ علیکم اکنتم مُصَدِّقِی۔قالوا نعم ما جَرَّبْنَا علیک الا صدقا قال فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید فقال ابو لھب تبا لک سائر الیوم الھذا جَمَعْتَنَافنزلت: تبت یدا ابی لھب وتب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب۔(بخاری ، کتاب التفاسیر)
''حضرت ابن عباس سے روایت ہے ، آپ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی:'وانذرعشیرتک الاقربین'(اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں )تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر چڑ ھے اور بلند آواز سے پکارنے لگے ۔اے بنی فہر ، اے بنی عدی، قریش کے تمام لوگوں کو بلایا ۔جب لوگ آ گئے اور جو نہیں آسکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا ۔ ابو لہب اور قریش بھی آئے تھے ۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگرمیں تم سے یہ کہوں کہ ایک بہت بڑا لشکر تمہارے اوپر حملہ کرنے کو تیا ر کھڑ ا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کر لو گے ۔سب نے کہا ضرو ر کریں گے کیونکہ ہم نے آپ کی ساری باتیں سچی دیکھی ہیں ۔تب آپ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے شرک وکفر سے بازنہ آئے تو تم پر بڑ ا بھاری عذاب آنے والا ہے ۔ابو لہب بولا ، تو ہلاک ہو ، کیا تو نے ہمیں اسی لیے یہاں بلایا تھا۔چنانچہ اس وقت سورہ :'' تبت یدا ابی لھب وتب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب'' نازل ہوئی۔''
صاف ظاہر ہے کہ جو شخص کسی معاشرے میں پیدایش سے لے کر ادھیڑ عمر ہونے تک ، چالیس سال گزارے اور اس کے کردار میں ، اس کے دشمن اور مخالفین کسی بھی قسم کی معمولی خامی تک بیان نہ کرسکیں ۔تو عقلا یہ بات محال نظر آتی ہے کہ ایسا سلیم الفطرت شخص اچانک عمر کے اس حصے میں جب ہر شخص تمام سرگرمیاں ختم کر کے اللہ اللہ کرنے لگتا ہے ، کسی لالچ 
اور دنیاوی مفاد کے لیے جھوٹ، بناوٹ اورفریب سے کام لے ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل از نبوت مکی زندگی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کی ذات سے زبان و بیان کے معاملے میں بھی کوئی غیر معمولی چیزصادرنہیں ہوئی۔اس لیے جب قرآن مجید نازل ہوا توجو لوگ آپ سے واقف تھے انھیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ اس طرح کا کلام کوئی بڑ ے سے بڑ ا قادرالکلام عرب شاعر یا ادیب تخلیق نہیں کرسکا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح خود ایسا کلام کہہ سکتے ہیں ۔دوسری طرف اگر آپ نے دنیاوی لالچ میں یہ کا م کیا ہوتا تو کفار مکہ نے آپ کو عرب کی بادشاہی، مال ودولت اور بعض روایات کے مطابق عرب کی حسین ترین خاتون جو آپ کو پسند ہو، اس کے ساتھ شادی کی پیش کش کی تھی، کہ آپ اس کے بدلے میں بت پرستی پر اعتراضات کرنا بند کر دیں ۔لیکن آپ نے ایسی ہر پیش کش رد کر دی۔ ابوالولید عتبہ بن ربیعہ 
مشرکین کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اور قریش کی طرف سے بہت ہی دلفریب قسم کی پیش کشیں کیں :
''بھتیجے یہ معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرہ تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ، اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمھیں سردار بنالیتے ہیں ، یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں گے ۔اور اگر تم چاہتے ہوکہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں ۔اور اگر یہ جوتمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو، لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کر سکتے تو ہم تمہارے لیے اس کا علاج تلاش کیے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا اتنا مال خرچ کرنے کو تیا رہیں کہ تم شفایاب ہو جاؤ، کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آ جاتا ہے اوراس کا علاج کروانا پڑ تا ہے ۔[19] 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تمام پیش کشیں رد کر دیں اور اپنے مقصد کے ساتھ خلوص کے ساتھ وابستہ رہے اوربالاخر تمام عرب جو کسی واضح عقلی دلیل کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ محض اس ہٹ دھرمی اور تعصب کی وجہ سے آپ کے خلاف تھے کہ جس راستے پر ان کے اباء و اجداد گام زن رہے ہیں اس کو کس طرح چھوڑ دیں ، وہ سب کے سب آپ کے حامی و مددگا ر اور جان نثار 
ساتھی بن گئے ۔مستشرقین جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں تو ان کی تاریخ سے عدم واقفیت اور تعصب کا بھرپور اظہارہوتا ہے ۔ وہ تمام حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ایسے اعتراض کرتے ہیں جو خود ان عربوں اور اس دور کے یہود و نصاریٰ نے بھی نہیں کیے جن 
کے درمیان آپ نے حیات طیبہ کا ایک بڑا عرصہ بسر کیا تھا۔
چنانچہ اب ہم ان اعتراضات کا ترتیب سے جائزہ لیتے ہیں جو ، و قتافوقتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے جاتے رہے ہیں :
۱۔نبوت سے انکار
مستشرقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اسی طرح سے انکا ر کرتے ہیں جس طرح ان کے پیش رو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔یہود نبوت و رسالت کو بنی اسماعیل میں جاتے ہوئے برداشت نہ کر سکے اور اپنی تمام تعلیمات اور کتب میں بے تحاشا تحریفات کر ڈالیں ۔انھوں نے حضرت اسماعیل کے ذبیح ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ ذبیح حضرت اسحق تھے ۔ جبکہ دنیا کی معلوم تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی کسی مذہب کے ماننے والوں نے اپنی اولاد کو اپنے مذہبی مقاصد کے لیے قربان یا وقف کرنے کا ارادہ کیا تو ہمیشہ اس مقصدکے لیے پہلوٹھی کا بچہ استعمال کیا ۔ چونکہ حضرت اسماعیل عمر میں حضرت اسحق سے بڑ ے تھے اس لیے یہ بات بالبداہت ،واضح ہے کہ راہ خدا میں قربانی کی سعادت بھی انھی کے حصے میں آئی ہو گی۔ یہ روایات کہ کعبہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام نے تعمیر کیا تھا، اور عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ، تاریخ عرب میں تسلیم شدہ تھیں ۔ان پر نہ اس وقت یہود نے اعتراض کیا تھا اور نہ نصاریٰ نے ۔اسی طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی کتب سے ایسی تمام نشانیاں مٹا دینے کی کوشش کی جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تائید ہوتی تھی، جب کہ قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور نبی اس طرح پہچانتے 
ہیں جیسے اپنی اولا د کو پہچانتے ہیں ۔اس کے باوجود ، چونکہ انسانی کوشش غلطی سے مبرا نہیں ہوتی، ان کی کتب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں کچھ آیات باقی رہ گئی تھیں جن کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں کر چکے ہیں ۔
عیسائیوں کی اپنی کتابوں میں بیان کردہ پیش گویوں کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلومات اوراسلام کے متعلق ان کے رویوں کا اندازہ ہم پروفیسرٹی۔ڈبلیو۔آرنلڈ(1864-1930) کے اس بیان سے کر سکتے ہیں جو انھوںنے اپنی کتاب "
The preaching of Islam"میں ایک نومسلم عبداللہ بن عبداللہ کے قبول اسلام کے ذیل میں درج کیا ہے ، آرنلڈ کے بقول یہ واقعہ عبداللہ نے اپنی خود نوشت"The book of the present of the scholar to refute the people of the cross" میں ذکر کیا ہے ، جوکہ ۱۴۲۰ء میں لکھی گئی تھی۔آرنلڈ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ 
میورقہ(
Majorqa) میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک عیسائی مشنری تھے ۔انھوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے عیسائیت کی تعلیمات حاصل کرنے کے بعداپنے آپ کو ایک معروف عیسائی پادری (Nicolas Martil)کے ساتھ وابستہ کر لیا. مذکورہ پادری بہت تعلیم یافتہ اور مسیحی حلقے میں عزت و احترام کا حامل تھا۔عبداللہ بتاتے ہیں کہ ایک دن پادری اپنی درس گاہ میں نہ جا سکے اور ان کی غیر موجودگی میں طالب علم انجیل میں حضرت عیسیٰ کی بیان کردہ آنے والی شخصیت ''Paraclete''کے متعلق بحث کررہے تھے ۔ہر طالب علم اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔یہ بحث کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی۔جب میں نے پادری کو اس بحث کی روداد سنائی تو اس نے کہا کہ تم لوگوں نے ۔۔'' فارقلیط ''کے معنی کا صحیح تعین نہیں کیا۔چنانچہ میں نے خود کو پادری کے قدموں پر گرا دیا اور ان سے اس کا صحیح مفہوم معلوم کیاتو اس نے کہا کہ تم نے میری بڑی خدمت کی ہے اور تم مجھے بہت عزیز ہو۔لیکن اگر میں نے تمہیں صحیح بات بتا دی تو عیسائی تمھیں زندہ نہیں چھوڑ یں گے۔ میں نے راز افشا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ وہ ضرور مجھے اس راز سے آگاہ کریں۔ تو پادری نے کہا:
''بیٹے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ فارقلیط پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے گرامی میں سے ہے ۔اور یہ وہی پیغمبر ہیں جن پر وہ چوتھی کتاب نازل ہوئی جس کا اعلان دانیال نبی کی زبان سے ہوا تھا۔پیغمبر اسلام کا دین یقیناسچا دین ہے اور ان کا مذہب وہی شان دار اور پرنور مذہب ہے ، جس کا ذکر انجیل میں آیا ہے ۔''[20]
چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ہاں ، دنیا اورآخرت دونوں میں نجات اسلام سے مشروط ہے ۔اس پر میں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ان سے مشورہ کیا کروں تو انھوں نے اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیا ۔جب میں نے ان سے بھی مسلمان ہونے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ میں اب بوڑ ھا ہو چکا ہوں اورعیسائی دنیا 
میں میری بہت عزت ہے ۔اگرمیں مسلمان ہو جاؤں تو میرے لیے جان بچانا بہت مشکل ہے ۔آخر کا ر میں نے ان کے مشورے سے مسلمان ملک تیونس میں جا کر اسلام قبول کر لیا۔
صدیوں سے کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بنی اسماعیل سے ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ ہی کسی نے اس حقیقت کو جھٹلایا تھا۔لیکن موجودہ دور کے بزعم خود انصاف پسنداور حقیقت بیان مستشرقین نے بغیر کسی دلیل کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کا بھی انکا ر کر دیا۔مشہور مستشرق ولیم میور) (1819[
L:150]1905نے اپنی کتاب "The Life of uhammad"میں اس بات کا ذکر اس انداز سے کیا ہے :
''اس بات کی خواہش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت اسماعیل کی اولاد سے خیال کیا جائے اور یہ کہ اس بات کو ثابت کر دیا جائے کہ آپ اسماعیل کی اولاد سے ہیں ، پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں ہوئی۔اور اس کے لیے آپ کے ابراہیمی نسب نامے کے ابتدائی سلسلے گھڑ ے گئے اور حضرت اسماعیل اور بنی اسرائیل کے بے شمار قصے عربی زبان میں شامل کیے گئے 
۔''[21]
ولیم میور کے اس مفروضے کو منٹگمری واٹ نے زیادہ اچھالا اور یہ دعویٰ کیا کہ عربوں کو اپنے حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل کی اولاد ہونے کا کوئی علم نہیں تھا، بلکہ یہ تصور مدینہ جانے کے بعد یہود ی لٹریچر اور روایات کو جاننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں میں پیدا ہوا۔اس کی دلیل اس نے یہ دی ہے کہ مکی سورتوں میں اس معاملے کا کوئی ذکرنہیں ہے ، جن آیات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق حضرت ابراہیم سے ہونا ثابت ہوتا ہے وہ مدنی سورتوں کی ہیں ۔اس سے یہ تاثر دینا بھی مقصود ہے کہ معاذاللہ قرآن مجید آپ کی اپنی تخلیق ہے جو 
مختلف ضروریات کے نتیجے میں تخلیق کیا جاتا رہا۔ یہ اعتراضات انتہائی کمزور ہیں ۔عربوں کی روایات میں یہ بات بہت اہمیت رکھتی تھی کہ خاندانی حسب و نسب کو یا د رکھا جائے ۔ان کا حافظہ بھی کمال کا تھا اور علم الانساب کی مہارت اور نسب کے خالص ہونے کی خواہش اس درجہ قوی تھی کہ وہ لوگ گھوڑوں اور اونٹوں کی نسلوں کا بھی لحاظ رکھتے تھے ۔جو لوگ مجہول النسب 
جانور پالنا پسند نہ کرتے ہوں ان پر یہ اعتراض لگانا کہ وہ اپنے نسب میں ہیر پھیر کریں گے ، انتہائی احمقانہ الزام ہے ۔نسب کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کو خالص رکھنے کی خواہش بھی اتنی قوی تھی کہ عرب اپنے جگر کے ٹکڑ وں کو سالوں تک دیہاتی خواتین کے حوالے کردیتے تھے ۔ انھیں اپنے بچوں سے دوری گوارا تھی لیکن اپنی زبان میں کسی قسم کی آمیزش برداشت نہ کرسکتے تھے ۔مکی سورتیں ، چونکہ مکہ کے ماحول میں نازل ہوئی تھیں اور عرب اپنی تاریخ اور نسب سے واقف تھے لہٰذا ان کے سامنے ایسے کسی ذکر کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید مخالفت اور دشمنی کے باوجو د کسی عرب نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب و 
نسب پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔یہ ضرورت انھی لوگوں کو پیش آئی جو اپنی کتب میں تحریف کے 
نتیجے میں اور زیادہ مشکلات میں پھنس چکے تھے ۔عربوں کے دین ابراہیمی کی تمام روایت کسی نہ کسی صورت میں موجود تھیں ۔مثلا حج، نماز، قربانی، طواف، تجہیز و تکفین وغیر ہ کی رسومات۔اسی طرح خانہ کعبہ ان کا قبلہ تھا اور اسے بھی وہ حضرت ابراہیم کی پیروی میں قبلہ سمجھتے تھے ۔مستشرقین کے اس بیہودہ اور غیر حقیقی الزام کے رد میں مشہور مستشرق ایڈورڈ گبن لکھتا ہے :
''محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاندانی بنیا د کوعامیانہ اور حقیر ثابت کرنے کی کوشش عیسائیوں کی ایک غیر دانش مندانہ تہمت ہے جس سے ان کے مخالف کا مقام کم ہونے کے بجائے مزید بڑ ھا ہے ۔''[22]
۲۔ کیفیات وحی کی غلط تعبیر
مستشرقین کی منفی ذہانت اور ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت آمنہ کو فرشتوں کی بشارت، واقعۂ شق صدر اور نزول وحی کی کیفیات کے بارے میں روایا ت کو غلط رنگ دیا۔ان روایات کی توجیہ یہ کی گئی کہ حضرت آمنہ کو فرشتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کی خوش خبری نہیں دی تھی بلکہ یہ خاندانی طور پر مرگی کا موروثی مرض 
تھا۔اسی طرح واقعہ شق صدر کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرگی کے دورے سے موسوم کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ کی کیفییات میں تغیر پیدا ہوتا۔شدیدسردی کے موسم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آ جاتا۔اگر آپ سواری پر ہوتے تو وہ سواری بوجھ کی شدت سے بیٹھ جاتی۔ یہ کیفیا ت کئی روایات میں بیان ہوئی ہیں ۔مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت منقول ہے :
''حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آوازکی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تھاتو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں ۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا۔پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔''(بخاری ، کتاب الوحی)
اس کیفیت کو مستشرقین نے مرگی کا دورہ قرار دیا ہے ۔ظاہر ہے کہ خدائی جلوے اور کلام خدا کو برداشت کرنا انسانی بس کی بات نہیں ہے ۔کسی پیغمبر کو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی اہتمام اور نگرانی میں اس بات کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ اس کے پیغام کو وصول کرکے آگے پہنچا سکے ۔مستشرقین ، باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ کے واقعے میں کوہ طورپر تجلی رب سے قوم موسیٰ کی موت اورحضرت موسیٰ کے بے ہوش ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیفیات وحی کو مرگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض مغرب زدہ مسلمان سکالر بھی جو مغرب سے آنے والی ہر چیز کو معیاری سمجھتے ہیں ، مستشرقین کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کوئی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتاکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرصرف نچلے طبقے کے چند غریب لوگ ایمان نہیں لائے تھے ، بلکہ عرب کے عظیم دانش ور، شاعر، خطیب، سپہ سالار،طبیب، فلسفی، علمائے یہود و نصاریٰ بھی ایمان 
لائے تھے اور زندگی بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ۔ ان میں سے کسی کوکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کی کیفیت میں مرگی یا کسی اور بیماری کی جھلک نظر نہیں آئی۔ اسی طرح اس دور کے مخالفین نے بھی آپ پر ہر طرح کی الزام تراشی کی لیکن اس کیفیت کو مرگی قرار نہیں دیا۔اس مرض اور اس سے متاثرہ مریض کے بارے میں اہل علم و فن نے بہت کچھ لکھا ہے جن میں سے کوئی کیفیت بھی آپ پر لگائے گئے اس الزام کی تائید نہیں کرتی۔
قرآن مجید
اسلام کے رخ روشن کو دھندلانے کی سعی و جہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذات گرامی کے بعد مستشرقین کا سب سے بڑ ا ہدف قرآن مجید ہے ۔یہ لوگ اچھی طرح سے جان گئے ہیں کہ جب تک مسلمان قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں گے تب تک ان کو صراط مستقیم سے ہٹانا نا ممکن ہے ۔ولیم جیفورڈ بالگراف نے اس راز کو اس طرح سے بیان کیا ہے :
''جب قرآن اور مکہ کا شہر نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے تو پھر ممکن ہے کہ ہم عربوں کو اس تہذیب میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے دیکھ سکیں جس تہذیب سے ان کو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کی کتاب کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک سکتی۔'' [23]
چنانچہ مسلمانوں کو ان کی بنیاد سے ہٹانا مستشرقین کے نقطہ نظر سے انتہائی ضروری تھا ۔انھوں نے اس عظیم الشان کلام پرایسے اعتراضات کیے جو اس سے پہلے کسی کے خواب و خیال میں نہیں آئے تھے ۔قرآن کے مخاطبین ، جن کی اپنی مادری زبان میں قرآن نازل ہوا تھا ، انھیں اس پراعتراض کی جراء ت نہیں ہوئی۔زبان و بیان کے ماہر عرب جو اپنے علاوہ پوری دنیا کو عجم یعنی 
گونگا قرار دیتے تھے ، قرآن مجید نے ان کی قوت بیان کو متحیر کر دیا ۔قرآن نے انہیں چیلنچ کیا اگر تم قرآن کو کلام الٰہی تسلیم کرنے سے انکا رکر رہے ہوتو اپنی زبان اور قوت بیان کو ، جس پر تم اتنا فخر کرتے ہو، استعمال کر کے قرآن مجید کے مقابلےمیں کلام لے آؤ:
وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاْتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صٰدقین۔ فان لم تفعلوا ولن تفعلوافاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ،اعدت للکٰفرین۔(البقرۃ۲:۲۴۔۲۳)
''اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پرنازل کی ہے توپھر تم ویسی ہی ایک سورت بنا کر لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ پس اگر تم ایسا نہ کر سکو، اور (یقینا)تم ہرگز ایسا نہ کر سکوگے ، تو پھر آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لیے تیا رکی گئی ہے ۔''
ٓ صاف ظاہر ہے کہ زبان و بیان کی قوتیں جس ہستی کی بخشی ہوئی تھیں ، وہ جو نطق اور فوادکا خالق ہے ، اس کا مقابلہ کون کر سکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلام مجید ، آپ کی نبوت کی تائید میں ،بطورمعجزہ عطاء فرمایا تھا۔اس کی معجزانہ خصوصیات کے بارے میں وہی لوگ جان سکتے تھے ، جن کی زبان عربی مبین تھی، یا جو زبان و بیان کے ماہر تھے 
۔اللہ تعالیٰ کا طریقہ انبیائے کرام کے معاملے میں یہ رہا ہے کہ جس امت میں ان کو مبعوث کیا ، ان کے حالات کے لحاظ سے ، اتمام حجت کے لیے معجزات بھی عطاء فرمائے ۔تاکہ وہ قوم یقین کامل حاصل کر لے کہ یہ شخصیت اللہ کی طرف سے ہے اور اسے اس معاملے میں کوئی شک نہ رہے ۔مثلاً حضرت موسیٰ کے زمانے میں جادو کا شہرہ تھا۔سینکڑ وں ماہرین فن مصر کے طول و عرض میں موجود تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا معجزہ عطا کیا جس کا تعلق اسی فن سے تھا، لیکن درحقیقت اس کی نوع الگ تھی جسے صرف ماہرین فن جادوگروں نے پہچانا اور اس کے بعد اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ و ہارون علیھما السلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں ۔اسی طرح حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب و حکمت کا فن عروج پر تھا۔ اللہ نے آپ کواس فن سے متعلق معجزات عطا کیے تھے ۔ مثلا ً آپ اندھوں کو بینائی ، کوڑ ھیوں کو صحت یابی اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندگی بخش دیتے تھے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین میں شعر و خطابت اور زبان و بیان کا چرچا تھا۔اس لیے اللہ نے آپ کی نبوت کی تائید میں قرآن مجید کو ایک معجزانہ 
کلام کی صورت میں نازل کیا تاکہ زبان و بیان کے ماہر عرب یہ بات آسانی سے جان لیں کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ یہ کلام الٰہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے عربوں کی زبانیں گنگ کر دیں. جو لوگ زبان و بیان کے ماہر تھے انھیں قرآن پر ایسا کوئی اعتراض کرنے کی جرات نھیں ہوئی ۔ یہ کام اجڈاور جاہل دیہاتی عربوں اور عربی زبان و ادب سے ناواقف مستشرقین نے کیا ہے ۔ ان لوگوں نے قرآن مجید کو کبھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تخلیق اور کبھی کسی عیسائی پادری اور یہودی عالم سے مستعار لیے گئے خیالات قرار دیا۔اور کبھی یہ الزام لگا دیا کہ یہ کتاب منتشر خیالات کا مجموعہ ہے جن کا آپس میں کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے ۔قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے مشہورمستشرق جارج سیل (
George Sale)(1697-1736)نے قرآن مجید کے بارے میں 
اپنے سنہری خیالات کا اظہار اپنے ترجمہ قرآن (
The Koran)کے مقدمے میں اس طرح سے کیا ہے :
''اس حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کے مصنف یا موجد محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)ہیں ، اگرچہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ آپ کو اس منصوبے میں دوسروں سے جو مدد ملی وہ کم نہ تھی، جیسے کہ آپ کے ہم وطنوں نے آپ پر یہ اعتراض کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔البتہ ان کو اس قسم کی مدد مہیا کرنے والے مخصوص شخص کا تعین کرنے میں ان کے مفروضے 
اتنے متضاد ہیں کہ وہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف یہ الزام ثابت نہ کر سکے ۔یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس معاملے کو خفیہ رکھنے کے لیے اتنے عمدہ اقدامات کیے جن کی وجہ سے اس راز کا انکشاف ممکن نہ تھا۔ڈاکٹر پیریڈیکس نے اس مسئلے کی ایسی تفاصیل بیان کی ہیں جو حقیقت کے زیادہ قریب ہیں ۔یہ تفاصیل اکثر عیسائی مصنفین کی کتب سے لی گئی ہیں ، جو اپنے بیانات میں بعض مضحکہ خیز قصوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی اعتبار کے قابل نہیں رہتے
۔''[24]
مستشرقین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگایا کہ آپ نے قرآن مجید انجیل ، تورات اور اہل کتاب کی روایات سے اخذ کیا ہے ۔چونکہ اس بات سے انکا ر کرنا مشکل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روایتی تعلیم اور کتابت سے ناآشنا تھے ، لہذا ان لوگوں نے یہ شوشا چھوڑا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ورقہ بن نوفل ، بحیرہ راہب، شام کی سرحدوں پر آباد عیسائیوں ، مقامی میلوں میں 
آنے والے اہل کتاب اور عیسائی غلاموں سے واقعات اخذکر کے قرآن مجید تخلیق کرتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ادب اور زبان وبیان سے نا آشنائی ان لوگوں کے لیے بہت مشکلات کا باعث بن جاتی ہے ۔ اس بات کو ثابت کرنا کہ یہ سراسر آ پ کی اپنی تخلیق ہے ، اس لیے بھی مشکل ہے کہ آپ کا امی ہونا ہر لحاظ سے ثابت ہے ۔جب کہ دوسری طرف قرآن مجید کا کلام معجزپکار پکا رکر کہہ رہا ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔جارج سیل (
George Sale)(1697-1736) بھی قرآن مجید کی اس خصوصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے :
''کلام میں لفاظی حاضرین کے ذہنوں پر جو اثر ڈالتی ہے، محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے بے خبر نہ تھے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے ان نام نہاد الہامات میں اسلوب بیان کے اس وقار اور رفعت کو قائم رکھنے کے لیےاپنی پوری صلاحیتیں استعمال کی ہیں ، جو اس ذات کے شایان شان ہو جس کی طرف وہ اس کو منسوب کرتے ہیں اور اس اسلوب کو اختیار 
کیا ہے جو عہد نامہ قدیم کے پیغمبرانہ اسلوب سے ہم آہنگ ہو سکے ۔''[25]
اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مخالفین کی اس جسارت کا جو آغاز اسلام سے لے کر اب تک اوراب سے لے کر یوم حساب تک ،نہایت عمدہ جو اب دیا ہے ۔جو لوگ اس کلام کو کبھی کسی راہب سے ملاقاتوں کا نتیجہ اور کبھی آپ کی اپنی کاوش اور کبھی کسی بلعام لوہار، مغیرہ کے غلام یعیش اور عیش و جبرنامی لوگوں کی تعلیم قرار دیتے ہیں [26] ، ان سے اللہ نے فرمایا ہے :
ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی و ھذا لسان عربی مبین۔ (سورۃ النحل۱۶:۱۰۳)
''اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ انھیں ت یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے ۔حالانکہ اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ تعلیم قرآن کی نسبت کرتے ہیں ، عجمی ہے اور قرآن فصیح وبلیغ عربی زبان میں ہے ۔''
یہ بات واقعی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کو مشرکین اور مستشرقین، دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استاد قرار دے رہے ہیں وہ عجمی الاصل ہیں اور ان میں سے کسی کی مادری زبان عربی نہیں ہے ۔ اس عظیم الشان کلام کو، جس کی تاثیر ، قوت اور عظمت کا اقرارعرب کے تمام مسلم اور غیر مسلم اہل زبان و ادب کر چکے ہوں ، ایسے لوگوں کی طرف منسوب کرنا جہالت اور نادانی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ۔اور قرآن کی سچائی اور اعجاز کے لیے یہی کافی ہے کہ چودہ سو سال سے ہر علم و فن کے ماہر اسی سے رجوع کررہے ہیں اور سینکڑوں ، بلکہ ہزاروں علوم و معارف کا استنباط اس سے کر چکے ہیں ۔لاکھوں غیر مسلم کسی تبلیغی مشن کے نتیجے میںنہیں ، بلکہ اس کتاب عظیم کے مطالعے کے نتیجے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔مثلاڈبلیو ایچ کویلیم، رسل ویب، ڈاکٹر مارٹن لنگز، ڈاکٹر آرتھر کین، جان سنٹ،جرمن مفکر علاء الدین شلبی، علامہ محمد اسد، خالد شیلڈرک، مریم جمیلہ وغیرہ۔ ڈاکٹر موریس بوکائیلے نے اپنی کتاب (
TheBible, The Quran And Science)میں بائیبل سے بیسیوں ایسی آیات نقل کی ہیں جوآپس میں متناقض،سائنسی نظریات کے متعارض اور تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔لیکن انھیں قرآن مجید کا ایک بھی بیان ایسانہیں ملا جومسلمہ عقلی اورسائنسی نظریات کے خلاف ہو۔ موریس بوکائیلے لکھتے ہیں :
''قرآن کا سائنسی طریق سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلقرکھنے والے کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن میں بیان کیے گئے مختلف النوع بیانات دے سکے جواس کے زمانے سےتعلق نہیں رکھتے تھے اور جن کے بارے میں صدیوں کی تحقیق کے بعد کوئی حتمی رائے قائم کی گئی۔میرے نزدیک قرآن کی کوئی انسانی توجیہ ممکن نہیں ہے ۔''[27]
تعدد ازواج
اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات کا ایک ہدف تعدد ازواج کی اجازت ہے ۔ اس موضوع پر انھوں نے اسلامی تعلیمات کو اورخصوصا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید طریقے سے ہدف تنقید بنایا ہے ۔لیکن حیر ت کی بات یہ ہے کہ عیسائیت اور یہودیت کی طویل تاریخ میں عورتوں کے خلاف جو ظلم و ستم روا رکھا گیا ، یا انجیل و تورات کے اندر سینکڑ وں شادیوں ، اور بے شمار لونڈیوں کے ساتھ رفاقت کے جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔جب ہم یہودیت اور عیسائیت کی قدیم تاریخ پرنگاہ ڈالتے ہیں تو ہردور میں خواتین کی حیثیت مردوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تر نظر آتی ہے ۔ ان کو معاشرے میں نہایت گھٹیا مقام دیا جاتا تھا۔ اہل مذہب ان کوتمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے تھے اور ان سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے تھے ۔بائیبل میں بعض انبیا ء کی بھی سینکڑ وں بیویاںبیان کی گئی ہیں ، مثلا حضرت سلیمان کے ایک رات میں اسی بیویوں کے پاس جانے کی کہانی یہودی اساطیر ہی سے اسلامی تفاسیر میں در آئی 
ہے ۔ یونانی اساطیر میں ایک خیالی عورت پانڈورا (
Pandora) کو تمام انسانی مصائب کا ذمہ دار ٹھرایا گیا تھا۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کی مذہبی خرافات میں حضرت حوا کوآدم کے جنت سے نکالے جانے کا باعث قرار دیا گیا تھا۔ یونانی اورایرانی تہذیب میں بھی مرد وزن کے تعلقات اخلاقی رکاوٹوں سے آزاد ہوگئے تھے اور کثرت ازواج پر کوئی قدغن نہیں تھی۔مسیحی تعلیمات میں عورت کو ایک خطرہ،مصیبت اور غارت گر ایمان قرار دیا گیا۔مذہبی لوگ عورت سے دور رہنے کو تقویٰ ، تقدس اور اعلیٰ اخلاق کی علامت سمجھنے لگے ۔اس طرح سے عورت اس معاشرے میں تیسرے درجے کی مخلوق بن گئی تھی۔چونکہ مذہبی طبقے کو معاشرے میں فوقیت حاصل تھی اور تمام 
قوانین اورضوابط کا مرکز و محور یہی طبقہ تھا جو عورتوں کو تمام مصائب کی جڑ قرار دیتا تھا، لہٰذا عورتوں کو کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل نہیں تھے ۔عرب معاشرے میں بھی کثرت ازواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی۔ اسی طرح طلاق پر بھی کسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔ اس قسم کے حالات 
میں اگر اسلام کی تعلیمات کو دیکھا جائے توہر سلیم الفطرت انسان یہ بات تسلیم کر لے گا کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں پہلی بار خواتین کو کسی نے برابر کے حقوق دیے ہیں ۔جہاں شادیوں کی کوئی حد مقرر نہیں تھی وہاں اسلام نے چار کی تحدید کر دی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ان کے ساتھ انصاف کرنا لازمی ہے ۔ایک اور بات جو پیش نظر رکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے شادی کے ارادے ،بیوی کے انتخاب، اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے معاملات کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا ہے اور ریاست کو ازخود اس میں مداخلت کا حق نہیں دیا۔البتہ ان معاملات میں اچھے اور برے کی تمیزضرور کر دی ہے ۔اسی طرح اسلام میں چار شادیاں کرنا لازمی بھی قرار نہیں دیا گیا ، بلکہ صحابہ کرام کے کثرت سے شہید ہونے اور شہداء کے اہل و عیال کی کفالت کے سلسلے میں معاشرتی مسائل اور منفی رویوں سے بچاؤ کے لیے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت کے معاملے میں جن مسائل کا شکار ہیں ، ان سے بچنے کے لیے ان کی بیویوں سے 
شادی کر لیں ۔اس اجازت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آیندہ بھی کبھی دنیا میں کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے جب عورتوں کی تعدادمردوں سے بڑ ھ جائے ، یا کسی شخص کوطبی یا معاشرتی بنیادوں پر دوسری شادی کرنی پڑے تو وہ کر سکے ۔مثلا کسی کی بیوی دائمی مرض میں مبتلا ہو، یا کسی گھر میں کسی ایک بھائی کی وفات ہوجائے وغیرہ۔ اس پر بھی یہ پابندی لگا دی گئی کہ اگربیویوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکتے تو ایک ہی شادی پراکتفا کرو۔ قرآن مجید میںارشاد ہے:
و ان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتٰمیٰ فا نکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ و ثلٰث و ربٰع، فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ۔ ( سورۃ النساء ۴:۳)
''اگر تمھیں ڈر ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے توان کی ماؤں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، دو دو،تین تین، چار چار سے ، لیکن اگر تمھیں خدشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو۔''
اسلام نے خواتین کو، تاریخ میں پہلی بار، شادی اور طلاق کے معاملے میں اختیار دیا۔ عورت کو معاشرے میں عزت و احترام کا مقام دیا۔اس کو کمانے اور جائیداد بنانے کا حق دیا۔بچوں کی پرورش اور ان کے بارے میں فیصلوں میں معاونت کا اختیار دیا۔ 
مردو عورت کوایک دوسرے کا لباس اور سکون و اطمینان کا ذریعہ قرار دیا۔اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے مذہب کو مستشرقین یہ الزام دیں کہ اس نے خواتین سے زیادتی کی ہے ۔ یہ تو عمومی طور پر مسلمانوں کے درمیان تعدد ازواج پر مغرب کے اعتراضات کا سرسری جواب تھا۔ اب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تعدد ازواج کے الزامات کی طرف آتے ہیں ۔مستشرقین نے کثرت ازواج کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنسی طور پرحد سے تجاوز کرنے والے انسان کے طور پر پیش کیا ہے ۔ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہے جو علمی وتحقیقی معیار سے تو کوسوں دور ہے ہی، عام انسانی اخلاقیات بھی اس کے ذکر کی اجازت نہیں دیتے ۔ اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان بازاری اوربدزبان لوگوں کو سکالر اور محقق بھی کہا جاتا ہے ۔ولیم میورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھتا ہے :
''اب محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی لیکن جنس مخالف کی طرف میلان کی کمزوری میں عمر بڑ ھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔آپ کے بڑ ھتے ہوئے حرم کی کشش آپ کو اپنی وسیع حدود سے تجاوز سے روکنے کے لیے کافی نہ تھی۔''[28]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنس پرستی اور ہوس پرستی کا الزام لگانے والوں نے اپنے تعصب، تنگ نظری اور اسلام دشمنی کے باعث بہت سے حقائق کو نظر انداز کر دیا ہے ۔اگر تعدد ارواج کسی شخص کی جنس پرستی کا ثبوت ہے تو تاریخ عالم میں بہت سی شخصیات اس الزام کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں ۔ان شخصیات میں عام لوگوں اوریہود و نصاریٰ کے قائدیں کے علاوہ ان کے بہت سے انبیا 
ء بھی شامل ہیں ۔مثلاً بائبل کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویاں اور تین سو لونڈیاں تھیں ۔[29] اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یعقوب کی چار چار بیویوں کا ذکر ملتا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا جائزہ لینےسے ہمیں واضح طور پر اس بات کے ثبوت مل جاتے ہیں کہ مستشرقین کے ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔آپ نے زندگی کے اس دور میں جو جسمانی تقاضوں اور نفسانی خواہشات کے معاملے میں سنہری دور 
کہلاتا ہے ، ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے نکاح کیا۔ان کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ان کی وفات کے بعد، جب گھر میں بچیاں اکیلی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کی ذمہ داریوں میں ان کی ضروریات کو پورا نہیںکرسکتے تھے ، اس بنا پر آپ نے عمر رسیدہ بیوہ خاتون حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاندان اور آپ کی شخصیت کا تاثر اتنا عمدہ تھا کہ آپ عرب کی جس خاتون سے چاہتے ، وہ آپ سے شادی کے لیے تیار ہوجاتی۔اس سے پہلے عرب آپ کو دعوت دین سے باز رہنے کے لیے عرب کی حسین ترین خاتون 
سے شادی کی پیش کش کر چکے تھے ، جسے آپ نے رد کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ایک ہی کنواری خاتون حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اللہ کے احکام کے مطابق ہی بسر ہوئی تھی اور تمام شادیاں بھی یقینا اللہ کے حکم سے ہوئی تھیں ، لیکن اسلامی روایات کی رو سے آپ کی یہ شادی ، خالصتاً، اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوئی تھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ کی طرف سے خواتین کے معاملات میں نبوت کی ذمہ داریوں میں آپ کی معاون بنائی گئی تھیں ۔آپ کی تمام شادیاں نبوت و رسالت کی ذمہ 
داریوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف مقاصد کے تحت انجام پائی تھیں ۔مثلاًحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان حالات میں جب پورا عرب آپ کے خلاف تھا، آپ کی ممد و معاون بنیں اور اپنی ذات ، اپنا مال اور اپنی اولاد ہر چیز اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کر دیا۔اسلام کے راستے میں پہلی شہادت حضرت حارث بن ابی ہالہ کی تھی، جو حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے آپ کی واحد اورنرینہ اولاد تھے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پل کربڑ ے ہوئے تھے ۔حضرت عائشہ سے آپ کا نکاح کی وجہ یہ تھی کہ خواتین کے خصوصی معاملات میں کسی خاتون کی معاونت ضروری تھی۔ فطری شرم کی وجہ سے خواتین ایسے مسائل مردوں کے سامنے ذکرنہیں کر سکتیں ۔حضرت سودہ سے نکاح بچیوں کی کفالت کی غرض سے ہوا۔حضرت زینب بنت جحش سے نکاح تشریعی مقاصد کے لیے ، متبنی کی بیوی سے نکاح کی حرمت ختم کرنے کے لیے ، جو کہ عربوں نے اللہ کے حکم کے خلاف خودپرمسلط کر لی تھی، کیا گیا۔معاشرتی مقاصد کے لیے اسلام کی خاطرقربانیاں دینے والے ساتھیوں کی دلجوئی اور ان سے تعلقات میں مضبوطی لانے کے لیے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم سے قریبی رشتہ داریاں قائم کی گئیں ۔سیاسی مقاصد کے لیے آپ نے بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، جس کے نتیجے میں ایک کٹرمخالف قبیلہ اسلام کا حامی بن گیا۔یہود اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن تھے ۔غزوہ خیبر میں یہود کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہااسیر ہوئیں تو آپنے ان کو نکاح کی پیش کش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔یہود کی مقامی روایات میں داماد کے خلاف لڑ ائی کرنا برا سمجھا تا تھا، اس نکاح کے باعث یہود نے مسلمانوں کے خلاف کوئی لشکر کشی نہیں کی۔اسی طرح حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے ذریعے اسلام کے ایک بہت بڑ ے مخالف اور عربوں میں تقدس اور احترام کے حامل شخص کی دشمنی کا زور ٹوٹ گیا۔حضرت زینب بنت خزیمہ کے یکے بعد دیگرے دو شوہرحضرت عبیدہ بن حارث اور عبداللہ بن جحش شہید ہوئے تو ان کی دل جوئی اور انھیں مسائل سے بچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا۔اس وقت ان کی عمرساٹھ سال تھی۔حضرت ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ کے خاوند حضرت عبداللہ بن عبدالاسد حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی تھے ۔ان کی شہادت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوہ کولاوارث چھوڑ نے کے بجائے ان کو نکاح کا پیغام دیا۔حضرت میمونہ بنت حارث بھی ایک بزرگ بیوہ خاتون تھیں ، جن کی آٹھ دیگربہنیں عرب کے اہم لوگوں کی زوجیت میں تھیں ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ترغیب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا جس کے نتیجے میں آپ کی رشتہ داری بہت اہم خاندانوں سے ہوگئی۔اسلامی نقطہ نظر کے لحاظ سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کے مقابلے میں نکا ح کے معاملات میں خصوصی مراعات بھی دیں اور کچھ اضافی پابندیاں بھی لگائیں ، جن کاذکراللہ تعالیٰ نے سورۃالاحزاب کی آیات ۵۰تا ۵۲ میں کیا ہے ۔
مسئلہ غلامی
ایک اور اہم معاملہ جسے مستشرقین نے اپنے طنز وتضحیک کا ہدف بنایا ہے ، وہ اسلام میں غلامی کا تصور ہے ۔مستشرقین نے عام طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام غلامی کو تحفظ دیتا ہے ۔اس غلط تاثر کی بنیادی وجوہات میں جہاں مستشرقین کی اسلامی احکام کے نزول کے طریق کار اور اسلامی تاریخ سے نا واقفیت اور تعصب کارفرماہیں ، وہیں بعض اسلامی سلاطین کی طرف سے اسلام کے احکام سے روگردانی بھی ہے ۔اسلامی احکام اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے پیش نظرتدریج کے اصول پر نازل فرمائے ہیں ۔معاشرے میں پھیلی ہوئی بعض برائیاں جن کی جڑ یں کسی معاشرے میں بہت دور تک پھیل جائیں ، ان کو یک لخت ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔اس طریقے سے معاشرے میں بجائے خیر کے ، انتشار اور بدنظمی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔اسلام کے احکام میں تدریج کا باعث یہی چیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کے احکام بھی اسی طرح سے نازل فرمائے تھے ۔چونکہ عرب میں غلامی ایک ادارے کی صورت پر موجود تھی، اور ایک ایک آدمی کےپاس بیس ، تیس اور سو تک غلام ہوتے تھے ۔اسلام نے اس لعنت کا آغاز نہیں کیا تھا،بلکہ یہ لوگ صدیوں اور نسلوں سے اسی طرح کام کررہے تھے ۔عرب کے طول و عرض اور عراق ، شام اور مصر کی ریاستیں فتح ہوئیں تواس سارے علاقے میں کروڑ وں غلام کام کر رہے تھے ۔چنانچہ اگر ان سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو معاشرے میں بدنظمی اور انتشار پھیل جاتا۔لاکھوں خواتین، مرد اور بچے بے گھر اورلاوارث ہوجاتے ۔چوروں ، ڈاکوؤں ، بھکاریوں اور بدکاروں کی وہ فوج منظر عام پر آتی جسے سنبھالنا کسی کے بس میں نہ ہوتا۔ چنانچہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یہ نکا لا کہ مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد یہ پابندی لگا دی کہ جو خود کھاؤ ، پہنو ان کو بھی وہی کچھ دو۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم پر اس انداز سے عمل کیا کہ آقا و غلام میں تمیز کرنا مشکل ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ غلاموں اور لونڈیوں کی اچھی تربیت کرو۔لونڈیوں کو آزاد کر کے ان کے ساتھ شادی کودہرے اجر کا باعث قرار دیا۔غلاموں کو آزاد کرنے کو اسلام نے سب سے بڑ ی نیکی قرار دیا۔ اس کے بعد مختلف گنا ہوں کے کفارے میں غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی۔پھر مکاتبت کا اصول قرآن نے دیا ، جس کی رو سے جو غلام آزاد ہونا چاہتا وہ اپنے مالک سے رقم طے کرکے قسطوں میں ادا کر کے آزاد ہو سکتا تھا۔اسی طرح قرآن نے نیک اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا حکم دیا۔انسانی غلامی کے سارے طریقوں اور انسانوں کی خرید و فروخت سے روک دیا گیا۔ان سارے احکام کے بعد انسان کو غلام بنانے کی صرف ایک صورت رہ گئی تھی کہ جو لوگ جنگ کی صورت میں قید ہوجائیں ان کو غلام بنا یا جاتا تھا۔چنانچہ آخر میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ محمد میں اس چیز پر پابندی لگا کرغلامی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ قرآن میں ارشاد ہے :
فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب، حتیٰ اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق فامامنا بعدُ واما فداء حتی تضع الحرب اوزارھا۔(سورۃ محمد۴۷:۴)
''تو جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو گردنوں پروار کرو۔جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تواب خوب مضبوطی سے گرفتار کرو۔(اس کے بعد تمھیں اختیار ہے )خواہ احسان کر کے چھوڑ دو یا فدیہ لے کر، تاوقتیکہ لڑ ائی اپنے ہتھیار رکھ دے ۔''
نتیجہ بحث
اس ساری بحث میں بنیادی نکات جن کے متعلق ہر مسلمان کو جان لینا چاہیے ، وہ درج ذیل ہیں :
۱۔ استشراق کا مفہوم صرف مشرقی علوم و معارف کا مطالعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس پست مسلمانوں کے ساتھ چودہ سو سال کی دشمنی کی تاریخ ہے جسے یہود و نصاریٰ ہر گز نہیں بھولے ہیں ۔اس تحریک کی بنیاد میں یہی مقاصد کارفرما ہیں ، چاہے ان کو بظاہر علم و تحقیق کا لبادہ 
اوڑھا لیا جائے ۔
۲۔ مستشرقین کا بنیادی مقصد اسلامی علوم میں تحقیق نہیں ہے بلکہ اس سے اصل مقصود دین کے بنیادی ماخذنبی کریم کی ذات کو معاذاللہ دھندلانا ، ان کی نبوت کو مشکوک کرنا ، صحابہ کرام کی توہین، قرآن مجید کو انسانی کاوشوں کا شاہ کار ثابت کرنا ، اسلام کے چہرے کو داغ دار کرنا
اور اسلامی احکام و معار ف پر شکوک و شبہات کی دھند ڈالنا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو واضح طو ر پر ہدایت دے دی ہے کہ یہود و نصاریٰ ہرگز تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ۔ اسی طرح سورہ بقرہ ۲:۱۲۰میں فرما دیا کہ تم سے ہرگز خوش نہیں ہوں گے یہود ونصاریٰ یہاں تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔اسی طرح سورہ آل عمران میں فرمایا کہ اے ایمان والو! غیروں کو اپنا رازدارنہ بناؤ، وہ تمھیں خرابی پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے ۔وہ تو وہ چیز پسند کرتے ہیں جو تمھیں ضر ر دے ۔ پھرسورہ ممتحنہ میں مسلمانوں پر زیادتی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں کو دوست بنانے سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالایا تمہارے نکالنے میں مدد دی ۔اور جو انھیں دوست بناتے ہیں تو وہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔

حوالہ جات
1۔ لسان العرب ابن منظورالافریقی، محمد بن مکرم، دار صادر بیروت، ج10، ص174۔
2۔ الاستشراق، مازن بن صلاح مطبقانی
3۔ شرق شناسی، ایڈورڈ سوید، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد۔ص14۔
Word Web (Sofware Dictionary)Word"Oreientalism"
5۔المنجد.
6.الاستشراق، ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی، انٹرنیٹ ایڈیشن، ص۲۔
7.۔الاستشراق، ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی، انٹرنیٹ ایڈیشن، ص۲۔
8.۔استثنا ۸۱:۱۹۔۸۱۔
9۔ یوحنا 14:16.
10۔ ضیاء النبی، (بحوالہ، الاضواء علی الاستشراق والمستشرقین، ص۱۵)ضیاء القرآن پبلیکیشنزلا ہور۱۴۱۸ھ، ج۶، ص۱۲۶۔
11. الاستشراق، مازن بن صلاح مطبقانی، قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ مدینہ، ص۴۔
12۔ الاستشراق، مازن بن صلاح مطبقانی، قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ ۔مدینہ، ص۵۔
13۔ ضیاء النبی، پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن پبلیکیشنزلا ہور۱۴۱۸ھ، ج۶، ص۱۲۶۔
14۔ ضیاء النبی، پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن پبلیکیشنزلا ہور۱۴۱۸ھ، ج۶، ص۱۵۶۔
15.۔ ضیاء النبی، ج۶، ص۲۸۰.
16. ۔ ضیاء النبی، ج۶، ص۳۲۹۔
17. ضیاء النبی، ج ۶، ص۲۵۲۔
18. یورپ پر اسلام کے احسانات، غلام جیلانی برق، شیخ غلام علی اینڈ سنز لا ہور، ص۲۸۔
19۔۱۔الرحیق المختوم، صفی الرحمن مبارک پوری، المکتبہ السلفیہ لا ہور،مئی ۲۰۰۰ء ، ص۱۵۳۔
20..
The preaching of Islam, T.W.Arnold, W. Archibald Constable & CO.1896
21..
The Life of Muhammad,William muir,Smith Elder &Co London,1861,p34
22.
History Of The Decline And Fall Of The Roman Empire,E Gibbon Vol 5,p 58.
23۔ضیاء النبی، ج۶، ص۲۵۳۔
24..
The Koran, George Sale,Trubner & Co., Ludgate Hill,London,1882,P107
25.
The Koran, George Sale,Trubner & Co., LudgateHill,London,1882,P105
26۔ ضیاء النبی ، ج۶، ص۳۷۰۔
27..
The Bible, The Quran And Science,Maurice Bucaille,Dar Al Ma'arif Cairo, Egypt,P125
28.ضیاء النبی، ج۷، ص۴۶۹۔
29۔ سلاطین۱۱:۳۔

 
 

اس پر تبصرہ کریں

No comments:

Post a Comment