visitors

free counters

Tuesday, 12 July 2011

مودودیت تنقید کی زد میں

سلام کا تصور جہاد اور دہشت گردی-٢ 
عائشہ جلال
اسلام کا تصورِ جہاد کیا ہے؟ کیا ہم اسے دہشت گردی پر منطبق کر سکتے ہیں۔ دورِ موجود میں اس کی حقیقی شکل کیا ہے؟ برصغیر میں اس کے آغاز اور آغاز ہونے کے طریقِ کار میں کیا عوامل کار فرما تھے؟ تقسیمِ پاکستان سے پہلے برِصغیر پاک و ہند میں مذہبی جماعتوں کی نظریاتی اساس کیا تھی؟ اور بعدازاں یہ مذہبی اور نظریاتی اساس کس طرح سیاسی صورتوں میں تبدیل ہوئی؟ پاکستان کی تہذیبی، ثقافتی اور سماجی تشکیل میں ان مذہبی جماعتوں کا کردارکیا ہے اور نئی نسل کو زندگی اور زندگی کے مقاصد کے حصول کے لیے ان مذہبی جماعتوں نے اس نقطۂ نظر کو کس نہج پر پروان چڑھایا اور یہ ان کے آپسی مفادات، نفرت اور تفاوت کی کن شکلوں میں اجاگر ہوا؟ پاکستان میں مدرسوں کے جال بچھانے اور وہاں طالبان اور مذہبی انتہا پسندوں کی کھیپ تیار کرنے میں کس کا کیا کردار رہا ہے؟ معروف محققہ، دانشور عائشہ جلال نے اپنی کتاب "Partisans of Allah ... Jihad in South Asia" میں اس کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کے آخری باب سے ایک حصہ قارئین تجزیات کی نذر ہے۔ عائشہ جلال کی دیگر کتب میں "Selfand soveroignty Individual and Community in Suth Asian Islam since 1850" اور "Democracy and Authoritarianism in South Asia" اہم تصور کی جاتی ہیں۔ (مدیر)
تلخ حقائق مودودیت تنقید کی زد میں
پاکستان میں فوج کی طرف سے آمرانہ حکومتی تسلط نے مولانا مودودی کو قوم پرستی کی جانب راغب کیا اور انہوں نے مسلمان قوم کے اخلاقی شعور کو جھنجھوڑا۔ ان کے قوم پرستانہ جذبات نے ایک طرف تو حکومت کی مخالفت مول لی دوسری جانب ہم وطنوں میں اخلاقی جرات بیدار کرنے کے حوالے سے اپنے دشمنوں میں بھی اضافہ کیا۔ پاکستان کی پہلی منتخب شدہ اسمبلی نے مولانا مودودی کے حکومتِ الہیہ کے نظریے سے محض جزوی انتخاب سے استفادہ کیا۔ تمام کائنات پر خدا کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے آئین میں عوام کواقدار کا اہل قرار دیا گیا مذہبی ملائیت سے فاصلہ قائم رکھتے ہوئے پاکستان میں اس اسلامی جمہوریت کے اصول کو تسلیم کیا گیا جس کی بنیاد آزادی، مساوات، عدم تشدد اور سماجی انصاف پر ہو اور یہی اصول اقلیتوں کے لیے بھی یکساں طور پر مانا گیا۔ مذہبی عناصر کو اس سے اطمینان ملا کہ حکومت کو مسلمان شہریوں پر اسلامی نظام کے تحت زندگی گزارنے کی ذمہ داری تفویض ہو گئی تھی(1)۔

جماعت اسلامی کے خود ساختہ سیکولر نظریات جو کہ حکومت کے اختیارات کے حوالے سے تھے نقطہ چینی کا باعث بنے۔ پارٹی کے اندر ناراض گروپ تشکیل پانے لگے جو کہ براہِ راست یا بالواسطہ مولانا مودودی کے تجدید شدہ اسلامی فلاسفی کے ساتھ منسلک تھے۔ 1957ء میں مولوی اسرار احمد نے محض اس لیے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لی کہ انتخاب میں حصہ لینا تحریک کے نظریات کے متضاد تھا۔ حالانکہ اسرار احمد اپنی گفتار میں جہاد کی حمایت کرتے تھے اور ان کی تنظیم سیاست کی نسبت تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیتی تھی(2)۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسرار احمد اپنے قدیم سماجی اور زن بیزار نظریات کے ساتھ عوام کے سامنے نمودار ہوئے اور یوں عام انتخابات کی سیڑھی استعمال کیے بغیر ہی انہوں نے سیاسی اثر و رسوخ پھیلانا شروع کردیا۔ ان کے حلقہ احباب میں نواز شریف بھی شامل تھے جو کہ 1990ء کی دہائی میں دو مرتبہ وزیراعظم بن چکے تھے۔ نواز شریف نے ڈاکٹر اسرار احمد کو قرآن و سنت کی روشنی میں 15ویں ترمیمی بل کا مسودہ تیار کرنے کا مشورہ دیا جس میں قرآن و سنت کو ملک کے اعلیٰ قانون کے طور پر متعارف کرایاجانا مقصود تھا۔

1947ء کی ملکی تقسیم کے تناظر میں جماعت اسلامی کی ہندوستانی شاخ کو ان سابقہ جمہوری رویوں کی حقیقت کا ادراک تھا جس میں مسلمان ایک اقلیت کی شکل میں موجود تھے۔ مولانا وحید الدین خان نے 15 سالوں کی محنت شاقہ کے بعد پارٹی سے اس اختلاف کے بعد کنارہ اختیار کر لیا کہ مولانا مودودی صاحب نے فرد کی تربیت کو روحانیت کی بجائے سیاسی انداز میں تبدیل کر دیا ہے انہوں نے مودودی کے سیاسی ایجنڈے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا انہوں نے مولانا کے جارحانہ روّیوں اور ثقافتی امتیاز پر بھی تنقید کی کیونکہ اسلام دوسری اقوام سے گفت و شنید کے طریقہ کار کو ترجیح دیتا ہے نہ کہ غیر مسلموں سے تنازعات بڑھاتا ہے۔ جیسا کہ تمام اسلامی سرگرمیوں کا مرکزی خیال توحید پر مبنی ہے اس لیے اسے عقیدے کے طور پر ہی روشناس کرانا چاہیے اس طرح یہ بھی پرامن جہاد کی ایک شکل ہو سکتی ہے۔ وحیدالدین صاحب نے حالیہ دنوں میں (سچا جہاد) (True Jihad) نامی کتاب شائع کی ہے۔ اس پر انہوں نے جہاد کو غیر مسلموں کے خلاف لڑائی تک محدود کرنے کے نظریے کو نظر انداز کیا ہے ان کی رائے میں خدا کی ہدایت کے مطابق مسلسل پاکیزہ زندگی گزارنے کا نام جہاد ہے(3)۔

مولانا مودودی کے اس نظریے یعنی نجات کے لیے روحانی طاقت کی بجائے دنیاوی قوت کی جانب جھکائو نے وحیدالدین کو مولانا مودودی کے نظریاتی مخالفین مثلاً سید ابوالحسن علی ندوی کی صف میں لاکھڑا کیا۔

1920ء کی دہائی میں مولانا محمد الیاس (1944 - 1885 ئ) نے اسلامی فقہ پر سیاست اور بحث و مباحثے کے خاتمے کے لیے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی۔ تبلیغی جماعت نے اسلام کو مذہبی مدرسوں سے باہر نکالنے پر زور دیا تاکہ مسلمان مزدوروں کی سطح سے بلند ہو کر کاروبار کریں اور صرف مذہبی عبادات کرنے والی قوم ہی نہ کہلائیں۔ مولانا الیاس نے دیوبند مکتبہ فکر سے تعلیم حاصل کی۔ وہ ولی اللہ کی تقلید کرنے والے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے چند بزرگوں نے سید احمد بریلوی سے بھی عہد و وفا نبھانے کی قسمیں کھائیں تھیں(4) ۔مولانا الیاس نے ابتدائی تعلیم اپنے روحانی مرشد رشید احمد گنگوہی سے حاصل کی بعد ازاں حدیث کی تعلیم کے لیے مولانا محمودالحسن سے رجوع کیا پھر برطانوی سامراج کے خلاف برسرِپیکار مجاہدین کی تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی(5)۔ جناب عبدالحسن علی ندوی کے بقول وہ جہاد کے ولولے سے معمور تھے۔ مولانا الیاس نے ابھی تک کسی جہاد میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن ان کی زندگی عبادات اور محبت کا نمونہ تھی انہوں نے دہلی کے مضافات میں واقع میوات کے میو لوگوں میں اسلام کا پیغام پھیلانا شروع کر دیا۔ تحریکِ خلافت کی ناکامی کے بعد آریہ سماج اور مسلماں جوش و خروش سے میوات میں اپنے اپنے مذاہب کا پرچار کر رہے تھے۔ گو کہ تبلیغی جماعت نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ تھلگ رکھا (6)لیکن اس تنظیم نے مسلم تشخص کو کسی دوسری جماعت سے زیادہ اجاگر کیا اور اس کی سیاسی اور تنظیمی اہمیت کے پیش نظر سیکولر اور مذہبی تنظیموں کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ جنرل محمد ایوب خان کی فوجی حکومت (1968ئ۔ 1958ئ) نے بھی تبلیغی جماعت کو جماعت اسلامی میں شگاف ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مولانا الیاس کے بھتیجے اور تحریک کے صفِ اول کے لیڈر مولانا زکریا کاندھلوی کے ذریعے مولانا مودودی کے نظریات کوغیراسلامی قراردینے کے لیے اقدامات کیے گئے اور اس مقصد کی خاطر ان سے 1950ء کی دہائی میں ''فتنۂِ مودودیت'' کے نام سے کتاب لکھوائی گئی(7) حکومتی اعلی عہدیدارن اور فوجی افسران بہت بڑی تعداد میں تبلیغی جماعت کی غیر سیاسی حیثیت کی وجہ سے اس میں شمولیت اختیار کرنے لگے جس کی وجہ سے ملک اور بیرون ملک اس کی شہرت پھیلنے لگی۔ جبکہ جماعت اسلامی نے اس کے غیرسیاسی کردار پر خاصی تنقید کی اور کہا کہ اس نے اسلام میں تلوار سے جہاد کرنے کی روح کوکچل ڈالا ہے۔ جبکہ تبلیغی جماعت کے ارکان نے کہا کہ انہوں نے نفسانی خواہشوں کو دفع کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی دنیا کی آسائشوں کو ترجیح دیتی ہے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مولانا مودودی کے مخالفوں میں ایک جدت پسند غلام احمد پرویز (1995ئ۔ 1903ئ) بھی شامل تھا۔ وہ حدیث مخالف اور اہل قرآن تحریک کا مقلد تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کا گریجوایٹ پرویز حکومتی سرکاری ملازمت میں تھا جہاں سے 1955ء میں ریٹائر ہوا اوراسلامی تعلیمات پر توجہ جاری رکھی۔ 1938ء میں اس نے علامہ اقبال اور محمد علی جناح کی نصیحت پر ''طلوع اسلام'' نامی جنرل کا اجرا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال کے پرجوش حامی ہونے کی وجہ سے پرویز نے شاعر مشرق کی ملاقات مولانا مودودی سے کرائی تھی۔ پرویز اور مولانا کے درمیان دوستانہ رفاقت کا جو بھی معیار رہا ہو مگر یہ رفاقت زیادہ عرصہ نہ چلی۔ بٹوارے پہلے ''طلوع اسلام'' نے کانگرس اور اس کی اتحادی جمعیت العلمائے ہند پر کڑے حملے کیے اور مسلم لیگ کی حمایت میں آواز بلند کی اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد پرویز نے حکومتی بیورو کریسی کی پشت پناہی سے جماعت اسلامی کے اسلامی ریاست کے لیے اقدامات میں روڑے اٹکانے کے لیے مولانا مودودی کے خلاف زہریلا مواد پھیلایا(8)۔

پروپیگنڈے کے ماہر کی حیثیت سے پرویز نے مولانا مودودی کو ان کی قرآنی تشریح کے حوالے سے اس کہاوت سے تشبیہ دی جس میں چوہا ایک ایسے چوہے دان میں پھنس جاتا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے(9)۔ 1950ء کی دہائی میں اپنے ہفتہ وار خطابوں میں پرویز مولانا مودودی کو ان کے قرآن مجید کی تفسیر کے حوالے سے کڑی تنقید کا ہدف بناتا رہا۔ اس نظریے کی حمایت کے باوجود کہ اسلام دین ہے کوئی مذہب نہیں۔ پرویز نے مزید آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کیاکہ ان دونوں کی راہیں بھی جدا جدا ہیں۔ ولی اللہ کی بازگشت میں اس نے کہا کہ دین صرف ایک تھا جو کہ سماجی اور اخلاقی تعلیمات پر مبنی احکامات اور قوانین کا مجموعہ ہے۔ انبیاء اور پیغمبروں نے سچا دین روشناس کرایا مگران کے پیروکاروں نے اس میں سے مختلف مذاہب بنا لیے۔ انسانی تاریخ مذہب اور دین کے درمیان کامیابی اورناکامی کے تنازعات میں بٹی ہوئی ہے۔ مذاہب بنانے کا خیال انسان کے دماغ میں اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے آیا۔ ولولے اور روح کے فقدان کی وجہ سے مذہب حقیقت میں دین کی حنوط شدہ لاش کے مترادف ہے۔

ان دو مکتبہ ہائے فکر میں تنازعات کی روشنی میں ''منیر رپورٹ'' شائع ہوئی جس میں لفظ مسلمان کی تشریح پر کوئی اتفاق رائے سامنے نہ آ سکا اسکالروں اور علماء کی رائے خاصی متضاد رہی۔ اس لیے ایک اسلامی ریاست کا نظریہ ابہام کا شکار ہو گیا۔ پرویز نے علماء کو ذاتی تشہیر کی خاطر مذہب کا نام لینے پر ہدفِ تنقید بنایا۔

مولانا مودودی نے دعویٰ کیا کہ 1951ء میں مختلف مکاتیب فکر کے 31 علماء نے ایک مشترکہ پروگرام کی حمایت کی تھی جس میں کثرت رائے سے یہ طے پا گیا تھا کہ ملک کا آئین شریعت پر مبنی ہو گا اور ہر فقہ اپنے شخصی قوانین کی پیروی کرنے کی مجاز ہو گی۔ پرویز نے مولانا کے استدلال کو جھوٹ کا پلندہ کہہ کر مسترد کردیا۔ صرف علماء دین ہی مسلمان کی تشریح پر تقسیم نہیں تھے بلکہ ہر گروہ کے ارکان کی سنہ کے معاملے پر مختلف رائے تھی۔

اہلحدیث مودودی ازم کے خلاف جہاد کی نیت سے پر تولے بیٹھے تھے۔ جب کہ حنفی کے نزدیک اہلحدیث نے بے دین ذرایع سے کئی احادیث گھڑ کے بخاری اور مسلم کو مشکوک بنا ڈالا تھا۔ سُنی حضرات کے خیال میں شیعہ مکتبہ فکر کے ذرائع سے حاصل شدہ احادیث نقلی تھیں جبکہ سُنی احادیث سے متعلق شیعہ کی یہی رائے تھی۔ مولانا مودودی نے پاکستان کی اکثریتی آبادی کی نمائندہ فقہ حنفی کے نظریات کی مخالفت کی۔ چنانچہ شریعہ کے حوالے سے کوئی متفق علیہ نتیجہ سامنے نہ آسکا صرف ایک یہی راستہ بچا تھا کہ ایسے قوانین کو آئین کا حصہ بنایا جائے جواسلام سے متصادم نہ ہوں اور یہ پہلے سے ہو رہا تھا۔ اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر پرویز نے مولانا مودودی پر سیاسی میدان میں لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے حکومتی طاقت کو کمزور کرنے کا الزام عائد کیا جو کہ دنگا فساد، خون خرابہ اور بغاوت کا موجب بن سکتا تھا۔ گو کہ اقتدار جماعت اسلامی کی پہنچ سے دور رہا لیکن ایک بات واضح ہو گئی کہ علماء اورسیاسی جماعتیں طاقت کا توازن بگاڑ سکتی ہیں اور یہ اسی دبائو کا ہی نتیجہ تھا کہ 1974ء میں منتخب شدہ وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔

جب ایک بار پاکستانی ریاست میں مسلمانوں کو غیرمسلموں سے ممیز کرنے کے لیے غیرمعمولی قدم اٹھایا گیا تو مذہب سے انحراف کے معاملے میں کوئی بھی فقہ محفوظ نہ رہی حتّی کہ جماعت اسلامی بھی اس کی زد میں آئی۔دیوبندی اور اہلحدیث کے علماء نے مولانا مودودی کے خلاف ملحد اور بے دین ہونے کا فتویٰ جاری کیا جہاد کے نظریے کی تشریح کے الجھائو میں 1974ء کے بعد کوئی بھی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سٹریٹ پاور کی شکل میں لوگوں کو اکٹھا کر لیتا تو کسی بھی پاکستانی کو کافر قرار دے ڈالتا۔ موجودہ صورت حال میں قوم میں شکست و ریخت کے آثار نمایاں تھے اور ملک کے معاشی مسائل سے پہلو تہی برتتے ہوئے کوئی بھی تعصبانہ مسئلہ سر اٹھا لیتا۔ ان حالات میں طاقت ور فوج بھی خدا کی حاکمیت ثابت کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔
خدا کی راہ میں جہاد؟ جنگ اور اخلاقیات
پاکستان میں فرقہ واریت، افراتفری، سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بگاڑ ان سیاسی حالات کا نتیجہ تھے جس میں ملک فوجی چھاتے کے نیچے اپنی اندرونی اور بیرونی ساخت کو سہارا دینے کے اقدامات اٹھا رہا تھا۔ فوجی اقتدار کے دوران تین اجزاء ایسے تھے جنہوں نے جہادی عوامل کے لیے راہ ہموار کی اور پاکستان کے کردار کو کیمونزم کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ میں تبدیل کر کے اسلام کے قلعے کی حفاظت کے لیے دہشت گردوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ جس میں سے پہلا حصہ 1979ء سے شروع ہو کر 1996ء میں ختم ہوا جب طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ دوسرا حصہ 2000ء میں ختم ہوا اس دور کو دیوبندی کی طاقت کا سنہرا عہد کہا گیا۔ تیسرا حصہ ستمبر 2001ء میں امریکہ پرحملے کے بعد شروع ہوتا ہے جس میں جنرل مشرف پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی پالیسی پرنظر ثانی کرے اور اقتصادی اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے جہادی تنظیموں کا قبلہ درست کرے۔

1979ء میں روس کی جانب سے افغانستان میں مداخلت کے بعد جماعت اسلامی کو پاکستان کے اندر اپنا اثر و رسوخ پھیلانے کا موقع ملا انہوں نے حکومت پاکستان کو سرکاری خفیہ اداروں کی مدد سے امریکی شہ پر جہاد افغانستان میں شامل ہو کر مدافعتی تحریک کا آغاز کردیا۔ جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے فوجی انقلاب نے جماعت اسلامی کے لیے اپنا اثرورسوخ مستحکم کرنے کی راہ ہموار کی۔ مولانا مودودی کے روچسٹرنیویارک میں انتقال سے چند ماہ قبل امریکی صدر جمی کارٹر نے سوویت یونین کو کمزور کرنے کے لیے روسی وسطی ایشیائی ریاستوں میں اسلامی بنیاد پرستی کو ہوا دینے کے لیے خفیہ اقدامات کی منظوری دی(10)۔ دراصل اس کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں روسی حمایت یافتہ مارکسی حکمرانوں کا تختہ الٹا جائے۔

یک بارگی جب امریکہ نے افغان جہاد میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز کیا تو پاکستان مذہبی انتہا پسندی کا گڑھ بن گیا۔ سرکاری خفیہ ایجنسیوں نے ان مدرسوں کی سرپرستی شروع کر دی جن میں پانچ سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچوں کو کٹٹراور تخریبی طرز کی مذہبی تعلیم سے بہرہ ور کیا جاتا تھا۔ بھرتی کیے جانے والے ریکٹروٹس میں زیادہ تعداد بے روز گار نوجوانوں کی تھی۔

ماضی میں القاعدہ کے نام سے پہچانے گئے ممبران کی تیاری میں امریکی اوربرطانوی انٹلیجنس اداروں نے پاکستان کی ISIکے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا اور موت کے سوداگروں نے جہاد کے کاروبار کو عروج پر پہنچا دیا۔ 1980ء کی دہائی کے شروع میں 30 لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے۔ افغان راہنما گلبدین حکمت یار مولانا مودودی کے نظریات سے متاثر تھا اس کی پارٹی حزب اسلامی کو جماعت اسلامی نے حکومت پاکستان کی مدد سے افغان جہاد میں ایک نمایاں جگہ پر لا کھڑا کیا۔ جماعت اسلامی اپنے عسکری بازو حزبِ المجاہدین کے ذریعے کشمیر میں بھی جہادی سرگرمیوں میں ملوث تھی لیکن جلد ہی یہ جماعت دیوبندی پارٹیوں کے آنے سے پس منظر میں چلی گئی صوبہ سرحد میں دیوبندی مدارس میں خوب پیسہ لگایا گیا جس سے پٹھان ثقافت نے نمایاں جگہ سنبھال لی اور طاقت کا جھکائو اب جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن اور دوسرے گروپ مولانا سمیع الحق کی جانب ہو گیا۔ یہ سمیع الحق صاحب کا ہی دارلعلوم حقانیہ تھا جہاں سے طالبان کے مستقبل کے لیڈر تیار ہوئے خصوصاً ملا عمر نے بھی یہیں سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔

پاکستان میں بریلوی اکثریت کی حامل جماعت جمعیت العلمائے پاکستان بھی موجود تھی مگر دیوبندیوں کی سرکاری سرپرستی نے مذہبی توازن بگاڑ کر رکھ دیا۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان دیوبندی فقہ کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بریلوی اکثریت میں تھے وہاں بھی سرکاری مساجد میں دیوبندی علماء کے آنے سے بریلوی اوراہلحدیث بھی میدان میں آ گئے کیونکہ مقامی سیاست بھی دیوبندیوں کے حق میں تھی۔ چنانچہ بریلوی اور اہلحدیث نے بھی مساجد اور مدرسوں کی عمارتیں کھڑی کرنا شروع کردیں۔

اس طرح مدرسوں کی سیاست پاکستان میں سماجی سیاسی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانے کا باعث بنی۔ ان مدرسوں میں 18ویں صدی میں ولی اللہ کا مرتب شدہ اور درس نظامی کا نصاب تعلیم پڑھایا جاتا جس میں فقہ کی تعلیمات کو سب سے مقدم رکھا گیا جس سے دوسری فقہ کے پیروکاروں کے متعلق متعصبانہ جذبات نے جنم لیا اور مغرب کے خلاف بھی نفرت پھیلی(11)۔ اس طرح شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی اور اہلحدیث کے عسکری گروہ سامنے آئے انہوں نے بلیک مارکیٹ سے اسلحہ اور ڈرگز کے زور پر جنگ و جدل کی راہ اپنائی اور بعض خفیہ اداروں نے بھی ان کی پیٹھ ٹھونکی۔

پاکستان میں مدرسوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں کیونکہ زیادہ تر رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ خصوصاً افغان جہاد کے بعد ان میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 1947ء میں مدرسوں کی تعداد صرف 137 تھی جو 1950ء میں بڑھ کر 210 اور 1971 میں 563 ہو گئی۔ لیکن 1980ء کی دہائی کے شروع میں پاکستان میں 893 مدرسے وجود میں آ چکے تھے۔ جن میں 3186 اساتذہ اور 32,384 باقاعدہ طلبا زیر تعلیم تھے کیونکہ یہ مدرسے سیاسی طاقت کامظہر تھے اس لیے سیاسی پارٹیوں بشمول جماعت اسلامی نے بھی اپنے زیر اثرعلاقوں میں مدرسوں کا جال پھیلا دیا اور یہی مدرسے جہاد کی نرسری کے طور پر کام کرتے تھے(12)۔ 1980ء میں ایسے 700 ادارے تھے۔ 1986ء میں ان کی تعداد 7000 تک جا پہنچی جو زیادہ تر NWFP، جنوبی پنجاب اور کراچی میں تھے۔ حکومتی خفیہ ایجنسیوں نے امریکی مدد سے ملائوں کو پیسوں کا عادی بنا دیا(13)۔ اس مضبوط جہاد صنعت کی وجہ سے پاکستان باہر سے آنے والے طلباء کے لیے جنت بن گیا اور وہ افغانستان جا کر شیطانی قوت روس کے خلاف جہاد کر کے جام شہادت نوش کرتے تھے۔

اس نئے پس منظر میں دیوبندی مدرسوں نے جنہیں JUI کے دونوں دھڑوں کی مدد حاصل تھی اپنا سکہ جما لیا۔ ایران عراق جنگ کے تناظر میں جنرل ضیاالحق کی سماجی اور سیاسی حکمت عملی سے ملک میں ایک نئی سنی مذہبی تنظیم انجمن سپاہ صحابہ کے وجود کا باعث بنی۔ یہ تنظیم 1984ء میں پنجاب کے شہر جھنگ میں مولانا حق نواز جھنگوی کی قیادت میں معرض وجود میں آئی۔ ان کی نفرت کا مرکز شیعہ قومیت تھی جو کہ اس ضلع کے بڑے زمیندار اور روحانی پیشوا تھے۔ 1986ء کے بعد اس تنظیم نے شیعہ حضرات کو چن چن کر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ دسمبر 1990ء میں اس تنظیم کے ارکان نے ایرانی کونسل جنرل کو لاہور میں قتل کردیا جس سے پاک ایران تعلقات میں سرد مہری آئی۔ سپاہ صحابہ نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا مگراس سازش میں شریک ہونے پر جھنگوی کو قید کرنے کے بعد موت کی سزا سنا دی گئی۔ اس کی شہادت نے اسے شیعہ سے نفرت کرنے والوں کی آنکھ کاتارہ بنا دیا اور اس کی تنظیم پنجاب میں اور مضبوط ہو گی۔ صوبے میں اپنے مدرسوں کے جال سے سپاہ صحابہ نے نہایت تیزی سے افغانستان میں جہاد کے لیے ریکروٹس بھیجے۔ اس طرح ایسے دوسری دیوبندی جماعتوں کی مدد بھی حاصل ہو گئی اور وہ پاکستان میں ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھری اس دوران اعظم طارق جماعت کے پلیٹ فارم پر نمودار ہوئے۔اس سے مشہوری دیوبندی رہنمائوں مثلاً مولانا مودودی کے مخالف مولانا یوسف لدھیانوی اور JUI کے روحانی پیشوا مولانا فضل الرحمن سے اظہار یکجہتی کیا۔ سپاہ صحابہ نے ملک میں دیوبندی نظریات کی حامل اسلامی معاشرے کی حمایت کی۔

1989ء میں دیوبندی بنوری مسجد کراچی میں طالبان رہنما ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی ملاقات کے بعد وہابی دیوبندی اتحاد مضبوط ہوا۔ بنوری مسجد مفتی نظام الدین شامزئی کی قیادت میں دیوبندی نظریات کا مرکز بن گئی۔ اعظم طارق اور مولانا فضل الرحمن کے شامزئی سے گہرے تعلقات تھے اور انہی کی وساطت سے ملا عمر اور اسامہ بن لادن کے نیٹ ورک سے قربت حاصل کی گئی اس بڑے دیوبندی اتحاد نے جماعت اسلامی کے افغانستان اور کشمیر میں جہادی کام کو مزید پیچھے دھکیل دیا اور اندرونِ ملک بھی مذہبی منافرت کا باعث بنا۔ جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار حاصل کر لیا تو اس وقت JUI کی اہمیت خاصی بڑھ گئی تھی۔ اسی دوران دیوبندی تنظیم حرکتہ الانصار نے جماعت کی حمایت یافتہ تنظیم حذب المجاہدین کو کشمیر میں پیچھے دھکیل دیا۔ ایک اندازے کے مطابق صوبہ سرحد اور فاٹا کے دیوبندی مدارس سے تقریباً 80,00- طالبان کو تاجک راہنما احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد جیسے ایرانی حمایت حاصل تھی کے خلاف لڑنے کے لیے افغانستان بھیجا گیا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے طالبان حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات نے بھی شیعہ مخالف دیوبندی وہابی اتحاد کو مضبوط کیا(14)۔

ISI جو کہ جہاد افغانستان اور کشمیر کے شعبے کی سرپرست تھی وہ اہلحدیث کے مرکز دعوة الرشاد کی شاخ لشکر طیبہ کی اہم مددگار بھی تھی جن کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات قائم تھے۔ لشکر طیبہ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے فنڈ سے بھی برابر استفادہ کر رہی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے بھی مرکز کو اپنا ہیڈکواٹر تعمیر کرنے کے لیے ''مریدکے'' میں کئی ایکٹر زمین فراہم کی اس کی داغ بیل ڈالنے والوں میں لاہور کی سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹی کے اسلامی تعلیمات کے سابقہ استاد اور وہابی نظریات کے حامی جناب حافظ محمد سعید نے لشکر کا القاعدہ سے فطرتی الحاق کر دیا۔ اس کے خفیہ ایجنسی سے تعلقات اور افغانستان اور وسطی ایشیاء میں تربیتی مراکز نے لشکر کو مقبوضہ کشمیر میں ایک اہم سرگرم عسکری تنظیم بنا دیا(15)۔

جب 1989ء میں کشمیر جہاد کا آغاز ہوا اس وقت جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) اور جماعت اسلامی ہی لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب عسکری مدد حاصل کر رہی تھیں جب افغان جہاد میں کمی آنے لگی تو ISI نے واپس آنے والے جنگجوئوں کو کشمیر کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا افغانستان سے واپس آنے والے ان تربیت یافتہ عسکریت پسندوں نے آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں فرقہ وارانہ اور وہابی رجحانات داخل کرنے شروع کر دیئے کیونکہ اس سے پیشتر پہلے سے موجود تنظیموں میں کوئی خاص مذہبی ایجنڈا نہیں تھا۔ پاکستانی اور انڈین دونوں اطراف کی ایجنسیاں JKLF کو کمزور کرنے پر جٹ گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مزید 20 مختلف تنظیموں میں تقسیم ہو گئی۔ حذب المجاہدین نے مقدمہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کو خفیہ معلومات کے تبادلے میں JKLF کے خفیہ ٹھکانوں سے آگاہ کیا جس کے نتیجے میں جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کے 500 عسکریت پسند مار ڈالے گئے(16)۔ ISI کا مطمع نظریہ تھا کہ JKLF کو کمزور کیا جائے اور حریت پسندوں پر کنٹرول حاصل کر کے آزادی کی جنگ کو جہاد میں بدلا جا سکے۔ جیسا کہ افغانستان کی جنگ کے تناظر میں سامنے آ چکا تھا کہ سویت روس کے رخصت ہونے کے بعد مقامی جنگجوئوں نے آپس میں ہی سول وار شروع کر دی تھی۔ کشمیر کے معاملے میں بھی اس تتر بتر ہوئے جہادی پس منظر میں پاکستانی آقائوں کو مقامی کمانڈروں کی سرکردگی میں لڑنے والے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو کمزور کرنا مقصود تھا۔

دوسرے مرحلے میں 1996ء کے شروع میں جماعت اسلامی کی حذب المجاہدین کو JKLF کو نیچا دکھانے کے ردعمل کا دیوبندی گروپوں کے ہاتھوں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ان تمام واقعات سے لشکر طیبہ مضبوط ہوتی گئی اور اس نے اہلحدیث کے وہابی نظریات کو کشمیر کی جدوجہد میں شامل کر دیا۔ ملا عمر کے اسامہ بن لادن کے ساتھ اتحاد نے اہلحدیث اور وہابی خیالات کو بلندی پر پہنچا دیا کیونکہ عرب ان کی معالی معاونت کے معاملے میں افغانستان کو امارات کی صف میں شامل سمجھتے تھے اور یہ بھی عربوں کے فنڈ اور مدد سے ہی ممکن ہوا کہ تبلیغی جماعت کی رکن سازی میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا حالانکہ یہی جماعت پہلے افغانستان اور کشمیر میں جہاد کی مخالفت کر چکی تھی۔ تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع میں تقریباً 20 لاکھ کے قریب افراد رائے ونڈ لاہور میں اکھٹے ہوتے ہیں اور اس میں 90 فی صد پشاور کے پٹھان اور افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد کے قبائلی افراد ہوتے ہیں(17)۔ تبلیغی جماعت کے تمام افراد جہاد کے داعی نہیں تاہم سپاہِ صحابہ اور حرکتہ الانصار فرقہ واریت اور عسکری گروہوں پر مشتمل ہیں جب 1997ء میں امریکہ نے حرکتہ الانصار کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تو یہ نئے نام حرکت المجاہدین کے نام سے منظم ہو کرسامنے آئی(18)۔

دو دہائیوں میں سعودی عرب اور مغرب میں جا کر آباد ہونے والے لوگوں نے بھی عسکری تنظیموں کے لیے رویوں کے منہ کھول دیئے اس میں ریاست کی طرف سے مختص فنڈ کے استعمال کا ذکر نہیں ہے اس طرح پاکستان کو بین الاقوامی پالیسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ 1990ء کی دہائی کے دوران پاکستان آرمی نے جہادی محاذ پر اپنی حکمت عملی کی جانج اور مضبوطی کے لیے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھایا اور کشمیر میں ہندوستان کے ساتھ محدود پیمانے کی جنگ لڑی۔ 1979ء اور 1990ء کے درمیان عسکری گروپوں کی تعداد میں 100 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ گروہی فرقہ پرست تنظیموں کی تعداد میں 90 فی صد اضافہ ہوا۔ ان تنظیموں نے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تلوار کے ساتھ جنگ کو پھیلا کر بڑے جہاد میں تبدیل کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق کشمیر اور افغانستان میں پاکستان کے تیس ہزار نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ دو ہزار سے زائد افراد پاکستان کے اندر مذہبی تعصب کی بھینٹ چڑھے جبکہ مزید 2 لاکھ نوجوانوں کا تعلق عسکری اور فرقہ واریت پھیلانے والی تنظیموں سے قائم ہوا(19)۔ پاکستان میں سماجی حوالے سے قدروں کا نحطاط اظہر من الشمس ہے۔ دیوبندی نظریات کے غلبے سے شیعہ اور بریلوی دونوں ناراض نظر آتے ہیں۔ دونوں مکاتیب فکر نے ردعمل کے اظہار میں اپنی اپنی عسکری تنظیموں کی آبیاری کی ابتدائی طور پر سپاہ صحابہ کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے خون کا حساب چکانے کے لیے قدم اٹھائے گئے اور بعد ازاں اپنے حقوق کی خاطر سیاسی عمل دخل بڑھانے کے لیے ان کا وجود ضروری سمجھا گیا۔

تحریک نفاز فقہ جعفریہ نے ضیا الحق کی اسلامی سیاست کے خلاف شیعہ حضرات کی ریلیوں کا انعقاد کیا۔ 1990ء کی دہائی میں سپاہِ صحابہ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر سپاہ محمدی بنائی گئی۔ فقہ جعفریہ نے افغان اور کشمیر جہاد میں تو حصہ نہ لیا تاہم ان کے چند ممبران نے حذب اللہ کے ساتھ مل کر لبنان میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ بریلوی حضرات عمومی طور پر جہاد سے دور رہے اور انہوں نے شیعوں کے ساتھ مشترکہ مقاصد پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ دیوبندیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و روسوخ کو کم کرنے کے لیے سنی تحریک کے کا قیام عمل میں آیا اور سپاہ صحابہ کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی قتل و غارت کی شدت کے خلاف شیعہ سنی عمومی تعاون برقرار رہا اس پس منظر میں دعوتِ اسلامی کے علامہ الیاس قادری اور پاکستان عمومی تحریک کے علامہ طاہر لقادری ابھر کر سامنے آئے دونوں نے روحانی خیالات کا پرچار کیا انہوں نے براہِ راست سرکاری عسکری نیت ورک سے دوری کے بعد غیر ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں سے رقوم اکھٹا کیں(20)۔ بریلویوں کی دوبارہ آواز بلند کرنے کے باوجود کوئی سود مند اثرات سامنے نہیں آئے۔ انہوں نے دیوبندیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خود کو دور رکھا اور مساجد میں ان کے تقرر کے خلاف احتجاج کیا اور احمدی مخالف ختم نبوت تحریک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جس کی جمعیت العلمائے پاکستان کے بریلوی سرکردہ رہنما مولانا عبدالستاد نیازی نے ابتدا کی تھی۔

دسمبر 1999ء میں انڈین ایئرلائن کے جہاز کو کھنمنڈو سے قندہار آتے ہوئے اغوا کر کے افغاستان میں اتار لیا گیا اس کے نتیجے میں ہندوستانی جیل سے مولانا مسعود اظہر کی رہائی عمل میں آئی جس سے فرقہ واریت کے رنگوں میں گندھا ہوا دیوبندی اتحاد مزید خطرناک انداز میں سامنے آیا۔ مسعود اظہر جو کہ سپاہ صحابہ کے رہنما حق نواز جھنگوی کا سرگرم پیروکار تھا اس نے جنوری 2000ء میں حرکت المجاہدین میں سے عسکری فرقہ پرست تنظیم جیش محمد قائم کی اس ساز باز میں ISI کا ہاتھ بھی نظر آیا کیونکہ جب مولانا اظہر نے لاہور کی جانب سفر کیا تو کلاشنکوف بردار درجنوں مسلح گارڈ اس کے ہمراہ تھے۔ اس پریڈ نے دہلی کو برانگیختہ کیا کیونکہ ہندوستانی جہاز کے اغوا کے بعد ان کی حکومت مسافروں کے بدلے انتہا پسندوں کی رہائی سے زخم خوردہ تھا اور اسے اس کا بدلہ میں چکانا تھا۔ مئی 1998ء کے ہندوستان اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد واشنگٹن مسلسل اسلام آباد کو کشمیر کے جہاد کو معطل کرنے پر زور دے رہا تھا تاکہ نیو دہلی سے مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔ طالبان کی مدد کی وجہ سے اور ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی کاروائیوں نے پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے تنہائی میں دھکیل دیا۔ ابھی جنرل پرویز مشرف حکومتی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے اقدامات کے حوالے سے سوچ ہی رہا تھا کہ امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے واقعات پیش آ گئے جس نے تمام منظر نامہ یکسر ہی تبدیل کر کے رکھ دیا(21)۔

جنرل مشرف کی نئی حکمت عملی اور طالبان پالیسی بھی تبدیلی سے اسے مدرسوں کے منتظمین اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے سخت مذاہمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام سمیت یہ لوگ اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے گلیوں میں اکٹھے ہو گئے اور جہاد کی حامی پاک افغان ڈیفنس کونسل کو حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں پاکستان کے شمال مغرب میں آزاد قبائل کی مددتو حاصل تھی لیکن شہری علاقوں میں احتجاج کرنے والوں کا تعلق مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبا سے تھا ان کی اوسط عمر اٹھارہ سال تک تھی(22)۔ اگر اس کا موازنہ اس پانچ لاکھ کے جم غفیر سے کیا جائے جو کہ 1991ء میں امریکہ کے خلاف پہلی خلیجی جنگ کے موقع پر کراچی کی گلیوں میں اکھٹے ہوئے تھے تو اس کے مقابلے میں اب محض پچاس ہزار لوگ مٹھیاں بھینچے امریکہ اور اس کے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں موجود پھٹوئوں کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے۔ اس کمزور مظاہرے کی وجہ بالکل واضح تھی۔ حکومت عسکریت پسندی کی ثقافت کی بجائے کہ جس نے معاشرے میں زہر گھول دیا تھا اب جدیدیت کا نعرہ بلند کر رہی تھی۔ طالبان کے کئی حامیوں کو قید کیا جا چکا تھا یا ان کی کڑی نگرانی کی جا رہی تھی۔ حالات یکسر بد ل گئے تھے لیکن پھر بھی ریاستی اقدامات اور اصل نتائج میں فرق نمایاں رہا اسلحہ جمع کرانے کی حکومتی کوشش ناکامی پر منتج ہوئی کیونکہ فوج نے خود بھی ملیشیا سے طاقت کے بل پر اسلحہ واپس لینے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا(23)۔

پاکستانی ریاست کا یہ شروع دن سے ہی معمول رہا ہے کہ جو کام دائیں ہاتھ سے کیا جائے اس کی خبر بائیں ہاتھ کو نہ ہو۔ مشرف کی حکومت کے لیے عدم تعاون کے اقدامات برے نتائج لا سکتی تھی ملیشیا پر پابندی کے فیصلے سے فوج کی کشمیر پالیسی کے حوالے سے توازن میں کمی محسوس کی گئی۔ گذشتہ ادوار کے فوجی نظریات جن کی ریاست متواتر پرورش کرتی رہی تھی سے یکبارگی انحراف سے دوغلے پن کے احساس نے مشرف کو ہوا میں تنے ہوئے رسے پر لنا کھڑا کیا۔ ملیشیا وجود میں آئی تھیں ان پر پہلی مرتبہ ہاتھ ڈالا گیا تھا لیکن پاکستان میں سے فرقہ واریت کو جڑ سے اکھیڑنا کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں تھا۔

عسکریت پسندوں کا ڈھانچہ جس کی ISI نے بائیس تک تراش خراش کی تھی اور جو اب وہ فرقہ پرستی کے گورکھ دھندے میں بھی الجھ چکے تھے۔ فوج کے لیے انہیں راہِ راست پر لانے کے لیے متعین شدہ حکمت عملی کو ختم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ اس صورتِ حال سے جنرل مشرف کو واشنگٹن سے سودے بازی کے لیے کوئی امید بر آتی دکھائی یعنی اگر امریکہ کشمیر کا مسئلہ حل کروا دے تو پاکستان بھی عسکریت پسندوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ لیکن امریکہ اور انڈیا دونوں کو جنرل مشرف قائل نہ کر سکے کہ وہ امن و امان بحال کرالیں گے۔ گروہ پرست عسکریت پسندوں کی قابلِ اعتراض کاروائیوں کو ختم کرنے پر مشرف بھی زانی طور پر خطرات کی زد میں آ گئے ان پر چھ جان لیوا حملے ہوئے جن کا سلسلہ انہی افراد اور عسکریت پسندوں سے جا ملتا تھا۔ جو کبھی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔

کئی تجزیہ نگار اس خوف کا شکارتھے کہ اس ملیشیا سے ہتھیار واپس لینے کے عمل میں اندروانی تنازعات سر اٹھائیں گے جو ملک کے وجود کے لیے خطرات کا باعث بھی بن سکتا ہے(24)۔ جیش محمد کے ایک رکن نے اعتراف کیا کہ جہاد کے زمرے میں اگلا نمبر پاکستان کا ہو گا اور اس کی وجہ وہی ناانصافی بنے گی جو کہ کشمیر کے معاملے میں پائی جاتی ہے۔ کشمیر کی جماعت اسلامی کے ایک رہنما نے بھی یقین دلایا کہ جب انڈیا کے خلاف جہاد میں کامیابی حاصل کر لی جائے گی تو پھر پاکستان میں نظام کو درست کیا جائے گا(25)۔ اگر جہادیوں میں شیعہ، احمدی اور دوسری مذہبی اقلیتوں کے خلاف تعصبانہ رجحانات پائے جاتے ہیں تو ان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو برسراقندار حکومت میں مغربی مفادات کے حامی عناصر کی بیخ کنی کا باعث بنیں گے۔ مدرسوں سے آنے والے طلبا عموماً نچلے اور درمیانی طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں فوج اور نوکر شاہی میں موجود درمیانے طبقے کے افسران میں ان کے لیے ہمدردی کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ بندی کے حوالے سے قتال میں ملوث افراد ریاستی ایجنسیوں کی شہ پر گرفتاری سے محفوظ رہتے ہیں اور کئی قوانین توڑنے والے افراد زیر زمین باآسانی روپوش ہو جاتے ہیں۔ ملیشیا کی مقبولیت بھی رکاوٹ کاباعث بنتی ہے۔ پاکستان کا اردو پریس بھی اپرمڈل کلاس کے انگریزی اخبارات کی خبر لینے کے لیے جہاد کی چمپین کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ایک مشہور صحافی نے شکایت کی جب انگریزی پریس انتہا پسندی اور جہادی گروہوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو حمایت یافتہ اردو کالم نگار انہیں جسمانی نقصان پہچانے کی دھمکیوں کے علاوہ پاکستان کے دشمنوں کے ایجنٹ اور غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہونے کے الزامات عائد کرتے ہیں(26)۔

جنرل مشرف کے لیے جو اصل ناگوار صورتِ حال تھی وہ فوج سے باہر سیاسی حمایت کا فقدان تھا لیکن پھر بھی اس کا طاقت میں رہنا ایک قابل رشک بات تھی۔ 2002ء کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں جنرل مشرف حکومت کو چھ پارٹی کے اتحاد پر مشتمل متحدہ مجلسِ عمل کی حمایت حاصل رہی۔ MMA میں بریلوی جماعت جمعیت العلمائے پاکستان، جماعت اسلامی جبکہ دیوبندی گروپ کی دو جماعتیں JUI اورجمعیت اہلحدیث اور شیعہ تحریک جعفریہ پر مشتمل غیر فطری اتحاد کی جماعتیں شامل تھیں حالانکہ JUI سمیع الحق گروپ نے MMA سے علیحدگی اختیار کر لی تھی لیکن پھر بھی سیاسی حوصلہ مندی نے اس اتحاد کو ٹوٹنے سے بچائے رکھا۔ MMA نے جنرل مشرف کو بحیثیت چیف آف آرمی سٹاف اور بطور سویلین صدر میں سے صرف ایک عہدہ رکھنے کے عہد کی پاسداری نہ کرنے پر خاصی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر ملک کی سالمیت دائو پر لگانے، پاکستان میں سیکولر ثقافت و سیاست متعارف کرانے اور لادینیت پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا۔ علماء کی جانب سے مشرف کی بے دین حکومت کے خلاف اعلان جہاد میں مایوسی کے باوجود اور اس کے امریکہ ک ساتھ تعلقات پر کیسی اہم مخالفت کے آثار نہ دیکھے گئے۔ MMA کشمیر اور افغان جہاد میں حکومت کی بے وفائی سے پہلے ہی ناراض تھی انہوں نے جنرل کی روشن خیال جدت پسندی کی اپیل کو زخموں پر نمک پاشی سے تعبیر کیا۔

فوج نے اپنے آپ کو طاقتور خول میں رکھنے کے لیے جہاد کی صنعت کو فروغ دیا تھا اس اگر پاکستان نے نصاب میں سے اس صفحے کو ہی غائب کرنا تھا تو اس کے لیے آرمی کو بھرپور قوت سے اپنی حکمت عملی کے زوایے کو بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ جہاد کے موضوع پر جس میں کافر اور بے دین لوگوں کے خلاف قتال کو ابھارا گیا تھا ایک بڑی تعداد میں ملک کے طول و عرض میں پھیلایا جا چکا تھا۔ حکومت کی جانب سے جہاد کی بھرپور حمایت میں عسکری جذبات کو ابھارنے کے لیے اخبارات ،جنرل کتابیں اور پمفلیٹ وغیرہ لکھے گئے۔پروپیگنڈے اور مارکیٹینگ کے لیے ویب سائٹس کا جرا ء ہوا۔اپنے موئد و مددگار کے فوائد سے قطع نظر جہاد ایک ایسا طاقت ور ذریعہ ہے جو عسکری تنظیموں نے کے ممبران میں حوصلہ اور قربانی کے جذبات کو بڑھا کر ان کے سیاسی اثرات کو مضبوط کرتا ہے پھر لوگ اس اعلیٰ مقصد کی تکمیل کے لیے ذوق وشوق سے آگے بڑھتے ہیں۔اس میں خاص طور پر لشکر طیبہ کی مثال دی جا سکتی ہے جس نے القاعدہ اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف حکومتی کارروائی سے پہلے جماعت الدعوہ کے نام سے آغاز کیا تھا۔لشکر طیبہ کی پرداخت آئی۔ایس۔ آئی نے کی تھی۔اس تنظیم نے 1990ء کے بعد جہادِ کشمیر میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لشکر طیبہ عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف پھندا تنگ ہونے کے باوجود ہمیشہ بچ نکلنے میں کامیاب رہتی کیونکہ ریاستی ایجنسیوں کو جیشِ محمد جیسی جابر تنظیم کے متبادل کی ضرورت تھی جو کہ ''وال اسٹریٹ جنرل'' کے رپورٹر ڈینیل پرل کے قتل میں براہِ راست ملوث تھی اور اس نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط کا بر ملا اظہار بھی کیا تھا(27)۔

تمام تنظیموں میں جن میں سے کئی ایک اب دم توڑ چکی ہیں۔ اگر ان کے مرکزی خیال کو دیکھا جائے تو لشکرِ طیبہ میں جہاد کا تصور سب سے جدا ہے جس کا نہایت محتاط تجزیہ ضروری ہے۔ اللہ کی راہ میںشاندار اور باعزت شہادت حاصل کرنے کے لیے مشہور واقعات کوخوشنما تخیلاتی تصور میں ایک پاکیزہ پیغام کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے جو آسانی سے ذہن نشین ہوسکے۔ مذکورہ ملیشیا میدان جنگ میں اپنے شہداء کی شہادتوں کو موزوں اور مناسب انداز میں اسلام کی سب سے اعلیٰ خدمت کے روپ میں پیش کرتی ہے ۔اس سے ملیشیا کے حق میں نرم جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وعدہ شدہ مذہبی فوائد یعنی دنیاوی تشخص اور دینی انعام دونوں جہادیوں کا مقسوم ٹھہرتے ہیں۔جہاد کے اس تصور نے پاکستان کی قومی ثقافت کا مزاج ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔نوجوان اپنے مذہب پر جان چھڑکتے ہیں (28)اور سب سے بڑھ کر انہیں یہ انعام ملتا ہے کہ وہ جنت کے حقدار ہوجاتے ہیں ۔جب والدین کو کافروں کے خلاف جنگ میں اپنے بچے کی شہادت کی خبر ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور محلے میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں کیونکہ شہادت ان کے لیے دنیا میں آسودگی اور محفوظ آخرت کا پیغام لاتی ہے۔

انتہا پسند مذہبی مدرسوں میں نوجوانوں کی پرورش کرتے ہیں یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر بھرتی کیے گئے افراد کا تعلق پنجاب کے بڑے شہروں سے تھا اور وہ سرکاری اسکولوں اور کالجز سے پڑھ لکھ کرآئے تھے ۔صوبہ پنجاب نے ملک کی تمام تنظیموں کو ان کی تقریباً نصف تعداد فراہم کی ۔جو پاکستان ،افغانستان اور کشمیر میں شہید ہوئے ان میں زیادہ تر تعداد پنجابیوں کی تھی۔ نمونے کے طور پرعسکریت پسندوں کا تجزیہ کیاگیا۔''جیش محمد'' کے ریکروٹس زیادہ تر بالاکوٹ کے مدرسے سے تربیت یافتہ تھے جو کہ سید احمد شہید کے نام سے منسوب ہے۔ان کے ایک ممبر کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ عزت جہاد میں ہے اور پیسہ بھی اچھا مل جاتا ہے۔

جب سے اخلاقی پیمانوں سے ہٹ کر ذاتی پسند ناپسند کا عنصر ان تنظیموں میں غالب آیا ۔ذاتی جھگڑے اور تشدد پھوٹ پڑے۔ آزاد کشمیر میں ہندوستان کی چیخ وپکار سے مشرف نے پلگ میں سے تار کھینچ لی تو مقامی انتظامیہ بھی پیچھے ہٹ گئی ۔نتیجے کے طور پر تنظیم نے اپنا قانون علیحدہ بنا لیا۔وہ سر عام اسلحہ کی نمائش کرتے ۔مقامی دکانداروںسے خدمات اور پیسے وصول کرتے اور مقامی ثقافتی پروگراموں کو سبوتاژ کرنے کی کارروائیوں میں بھی ملوث پائے گئے ۔ وہ عوام الناس کے سامنے ہیروز کی طرح کا کردار پیش کرتے۔

تمام عسکریت پسند اپنے ممبران کو مافوق الفطرت اور معجزاتی کرداروں میں پیش کرتے۔ انھیں اخلاقی ضابطوں کا پاکیزہ نمونہ اور سورما بنا کر دکھایا جاتا۔ جہاد کی خاطر جوش و خروش میں اضافہ کرنے کے لیے روشنیوں سے چکاچوند اور پر سراب کینوس پر جذبہ عشق ،خون اور نور کے ہالے سے مزین ایسی خلاف قیاس تصویر پینٹ کی جاتی جس سے حقیقت اورخیالی ،روحانی اور دنیاوی زندگی میں فرق مٹ جاتا ہے ۔'' حرکة المجاہدین'' کے ماہوار رسالے ''صدائے مجاہد'' اپریل 2000ء کے شمارے میں تین مجاہدین کی کہانی شائع ہوئی ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک معجزاتی طور پر ان کے ہاتھ اور پاؤں روشن ہو کر چمکنے لگے ۔ ایک مجاہد ہندوستانی دستوں کی مڈبھیڑ میں زخمی ہوگیا اسے ایک فرشتہ اٹھا کر لے گیا جنگل میں جب اس کی آنکھ کھلی تو اس کے تمام زخم ٹھیک ہو چکے تھے۔ لشکر طیبہ ''مجلہ الدعوة'' میں اپنے ممبران کے حیران کن کارناموں سے پردہ اٹھاتے ہیں جن میں ریچھ،بلیوں اور بندروں کی مجاہدین کو مدد کرتے ہوئے بتایا گیا ہے۔ ایک کہانی میں مجاہد کا تمام لباس گولیوں سے چھلنی ہو جاتا ہے مگر اس کا جسم معجزاتی طور پر کسی زخم سے محفوظ رہتا ہے ۔چاقوکی نوک پر کسی ٹینک یا بکتر بند گاڑی کو اغوا کرنا تو ایک معمولی سی بات ہے۔ علاوہ ازیں ایسے (29)نعرے بھی اہمیت کے حامل ہیں جو نوجوانوں کو اپنے مقصد کی جانب راغب کرتے ہیں۔ لشکر طیبہ کی ستمبر2002ء میں مجاہدین کی بھرتی کے اعلان کا منظر کسی ایسے معدنی چشمے کی مشہوری کی مانند تھا جس کے پانی سے صحت ملتی ہے ۔ ایک اشتہار ''آؤ مجاہد بنیں'' میں جوش خطابت ملا حظہ ہو؛
١۔کیا تم اللہ کے دین میں داخل ہو نا چاہتے ہو ،کافروں اور شیطانوں کی طاقت کو ختم کرنا چاہتے ہو،نا انصافیوں اور ظلم کا خاتمہ چاہتے ہو ۔
٢۔کیا تم مسلم امہ کا دوبارہ عروج دیکھنا چاہتے ہو،کیا مسلمانوں کے خلاف ہو نے والی سازشوں اور کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینا چاہتے ہو۔
٣۔کیاتم چاہتے ہو کہ مسلم معاشرے میں امن اور سکون کا دور دورہ ہو ۔انسانیت کی بقا پرہیز گاری ،اخلاقیات اور اچھے کردار سے ہی مربوط ہے۔
٤۔کیا تم برائیوں اورمغربی ثقافت کا خاتمہ چاہتے ہو، کیا تم حقوق اللہ اور حقوق العباد کا احیاء چاہتے ہو۔

جن کا جواب اثبات میں ہوتا تھا انھیں کہا جاتا کہ وہ ''دعوة الارشاد '' کے تربیتی کیمپ میں شامل ہو کر ایسے مجاہد بنیں جو دنیا میں کہیں بھی برائی کو پنپنے نہیں دیں گے۔ ان تنظیموں کے ہزاروں بہادر جنگجوکافروں کے خلاف لڑ رہے تھے اور مسلمانوں میں دین اور جہاد کا پروپیگنڈا بھی جاری تھا۔ جہاد کو مقدس فریضے کے طور پر اللہ اور وقت کی ضرورت دونوں کے لیے اہم قرار دیا گیا تھا۔مسلمان نوجوان تلوار ،نیزے اور چاقو چلانا سیکھتے تاکہ کافرو ںپر حملے کریں اور گھات لگا کر فوجی چھاونیوں اور کیمپوں کے گرد گھیراؤ کی تربیت حاصل کرسکیں۔وہ بلیک آوٹ اور دوسری حکومتی اقدامات کے خلاف اپنے آپ کواور لوگوں کی حفاظت کے طریقوں سے آشنائی حاصل کرتے یہ تصور عام تھا کہ جب مسلمانوں کو کافر اپنی فوج کے پاوں تلے کچل رہے ہوں تو انھیں بھی چاہیے کہ اپنا قیمتی وقت کھیل کود کے میدانوں میں ضائع نہ کریں یا بے کار قسم کے مشاغل مثلاً موسیقی ،فلم ، جھوٹے ناول اورمیگزین پڑھ کر اپنا وقت برباد نہ کریں ۔اب وقت آگیا ہے کہ اللہ کے دین کو پھیلائیں اور بے دین لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں(30)۔

عسکریت پسندوں کے پھیلاؤ کی وضاحت کرتے لشکر کے ترجمان حافظ محمد سعید نے مغرب کو مسلمانوں کے جہاد کو ختم کردینے کے مشورے پر اس وجہ سے خوب سرزنش کی کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیںکہ اقتصادی ترقی کے لیے امن ضروری ہے اور دوسری جانب ہندوستان کشمیریوں سے وحشیانہ برتاؤ کر رہا تھا اور اسرائیل فلسطینیوں پر عذاب بن کر نازل ہو رہا تھا ۔مسلمانوں کو ایک جہاد کے جھنڈے تلے متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔اسلام کے روایتی تصور سے انحراف کرتے ہوئے حافظ سعید نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ انفرادی طور پر جہاد میں حصہ لیںچاہے اس مقصد کے لیے حکومت کی حمایت حاصل نہ بھی ہواپنے سرپرستوں سے اختلاف رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ لوگ جو جہاد کے لیے منتخب ہوئے ہیں حکومت کے ساتھ تنازعات میں نہ الجھیں اور نہ ہی مدد طلب کریں ۔اعلیٰ حوصلگی اور قربانی اللہ کی خوشنودی کے ساتھ نئی راہیں کھولتی ہے ۔مسلمان نوجوانوں کوکافروں کی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ۔غیر مسلموں کی چودھراہٹ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک مجاہدین پر ے ہٹ کر بیٹھے رہیں گے جونہی جہاد کا آغاز ہو گا طاغوت اور بے دین لوگوں کا طوفان ٹل جائے گا جیسا کہ افغانستان میں وقوع پذیر ہو چکا ہے اور اب کشمیر میں ایسا ہی منظر سامنے آنے والا ہے(31)۔

مجاہدین کی کشمیر میں فتوحات اور کامیابیوں نے انڈیا کو مجبور کر دیا کہ وہ اسرائیل ،امریکہ اور روس سے مدد طلب کرے ۔یہ سمجھتے ہوئے کہ تمام فیصلے آسمانوں میں ہوتے ہیں کہا گیا کہ خدا کی مرضی سے تمام دشمنان اسلام ایک جگہ اکھٹے ہو رہے ہیں۔اور خدا کی مشیت سے سازشیں بے نقاب ہو نگی اور ان کی توجہ فلسطین کی جانب ہوگی ۔حافظ سعید اس بات پر ناز کرتا تھا کہ کشمیر کا جہاد طاقت ور اوصاف کا حامل ہے ۔لشکر طیبہ میں سے دنیائے اسلام میں جہاد کے تصور کو سمجھنے میں مدد مل رہی تھی ۔فلسطینی اسرائیلیوں سے جدو جہدمیں مصروف تھے اور ان کی مدافعت سے کشمیر کے جہاد میں فوائد حاصل ہو رہے تھے ۔سعید نے مسلمانوں کو کافروں کی سازشوں سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ کی اور دشمنوں سے گفت و شنید میں الجھنے کی حکمت عملی سے دور رہنے کا مشورہ دیا ۔اگر مسلمان حکمران جہاد نہیں کر سکتے تو کم از کم انھیں امریکہ اور ہندوستان کی مصنوعات پر پابندی عائد کر دینی چاہیے اور تمام غیر مسلم ممالک سے سرمایہ کاری ختم کرنی ہوگی ۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے ۔تمام غیر ملکیوں کو نکال کر اپنے ہم وطنوں کو نوکریاں فراہم کی جائیں ۔ انھیں جان جانا چاہیے کہ مسلمان کافروں سے مختلف ہیں اور ان سے ہماری دوستی ہر گز مفید نہیں(32)۔

حافظ سعید کی سوچ میں مودودی جیسا جذبہ افکار تھا لیکن دونوں میں کشمیر کے جہاد کی قانونی حیثیت میں بنیادی اختلاف تھا ۔حافظ سعید کے نظریے کے مطابق ہر مسلمان بغیر کسی حکومتی دباؤ کے یا مذہبی سکالروں کے ایما پر جہاد میں حصہ لے سکتا ہے لیکن یہ اسلامی روایت کے بر عکس تھا کیونکہ مولانا مودودی نے 1948ء میں پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے کشمیر کے جہاد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام تر ذمہ داری ریاست کی ہے نہ کہ انفرادی طور پر کسی شخص کی کہ وہ مقدس جنگ لڑے وہ کشمیریوں کی جانب سے جہاد کرنے کی قانونی حیثیت پر یقین رکھتے اورانھوںنے اس بات کی بھی تردید کی تھی کہ وہ پاکستانی جو کشمیر میں مارا جائے گا شہید نہیں کہلائے گا۔پاکستانی اپنے ہم مذہبوں کے لیے خوراک ،دوائیاں اور اسلحہ فروخت کر سکتا ہے لیکن جب تک پاکستان کے انڈیا سے سفارتی تعلقات قائم ہیں اس وقت تک اس کے شہریوں کو شریعت کی رو سے اجازت نہیں کہ وہ کشمیر میں جا کر جنگ لڑیں اور جو کوئی بھی اس کے مخالف عمل کرے گا تو یہ ایک انتہائی خطرناک صورت ہو گی(33)۔

لشکر طیبہ نے اس نظریے کے خلاف کہ جہاد کسی فرد واحد کے ذمہ نہیں ۔سے نپٹنے کی خاطر خاصا قیمتی کام کیا ہے کہ انھوں نے اس متنازعہ موضوع پر بے شمار پمفلٹ اور کتابیں شائع کیں (34)ان اشاعتوں کے دیباچے حافظ سعید نے خود مرتب کیے اس میں قرآن اور احادیث کے حوالے سے جہاد کی مذہبی ذمہ داری کو اجاگر کیا گیا حالانکہ روایتی مسلمان اس اہم مسئلے پر تحفظات کا شکار رہے تھے۔ مولانا فضل الہی وزیر آبادی کی کتاب کی دوبارہ اشاعت ممکن ہوئی اس کتاب کی پہلی اشاعت 1940ء میں ہوئی جس نے کشمیر کے جہاد کی خاطر لشکر کے نظریے کو تقویت بخشی تھی۔ مولانا وزیر آبادی نے 1915ء میں پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کو سرحد میں مجاہدین کے مرکز میں پہنچا کر افغانستان کے بارڈر کو عبور کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا تاکہ وہ عبیداللہ سندھی کی تحریک میں شامل ہو سکیں ۔لشکر کی جانب سے شائع ہونے والی ''Jehad in the Present Time'' نے مولانا وزیر آبادی کے دلائل کی روشنی میں انگریزی سمجھنے والے قارئین کے لیے راہ ہموار کی تاکہ وہ نظریہ جہاد کو بآسانی سمجھ سکیں ۔کشمیر میں مسلح جدو جہد کے علاوہ لشکر طیبہ کے اخلاقیات کے موضوعات پر مشتمل دونوں تعمیری کاموں نے اس کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں خاصی مدد بخشی۔

1948ء میں جہاد کشمیر کے سرگرم رکن سید احمد شہید کے پیروکار اور ایک کٹر پاکستانی کے روپ میں مولانا وزیر آبادی کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی تھی۔انھوں نے سوالات کے جوابات میں کہ کشمیر میں جنگ جائز ہے کہ نہیں ایک جامع کتاب '' جہاد فی سبیل اللہ '' لکھ ڈالی۔ انھوں نے کشمیر کی تاریخی وضاحت کی ،قرآن و احادیث کی روشنی میں دلائل دیے ۔سید احمد اور شاہ اسماعیل کی تحریروں کے مدلل حوالے دیے۔پیہم جہاد کشمیر کو وزیر آبادی نے ہر برائی کے لیے اکسیر اعظم قرار دیا اور یہی تدبیر لشکر طیبہ کے لیے مشعل راہ تھی (35)۔اپنے مقالوں میں حافظ سعید نے امریکہ کی جانب سے جہاد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے پر خاصا ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اسے معلوم تھا کہ بین الاقوامی حالات جہاد کے حق میںنہیں مگر وزیر آبادی کے نظریات کی حمایت اور ISIاتفاقیہ میلان سے پاکستان برصغیر میں کشمیریوں کی مدد کے کے ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھر سکتا تھا۔ اسے امید واثق تھی کہ کشمیر کو انڈیا کے پنجے سے آزاد کرا کر دنیا میں چلنے والی دیگر محروم مسلمانوں کی تحریکوں کو کامیابی نصیب ہو گی(36)۔

ہندوستانی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ہندو اکثریتی علاقوں سے مسلمانوں کو طاقت کے زور پر باہر نکالا جارہا تھا ۔اس موقع پر وزیر آبادی نے نتیجہ خیز حملے کرنے کی تجویز دی تاکہ انڈیا دوبارہ مسلمانوں کے ساتھ کیے گیے معاہدوں کی خلاف ورزی نہ کر سکے یہ ایک قومی جنگ نہیں ہو سکتی تھی بلکہ جہاد فی سبیل اللہ تھا جو سلوک ہندووں نے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا ہوا تھا کچھ ایسا ہی معاملہ مکہ کے قریش نے نوزائیدہ اسلامی قومیت کے خلاف ماضی میں انجام دیا تھا۔ مسلمانوں کی خود مختاری میں کمی کی بجائے اسلام کو کمزور کر دیا تھا ۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اخلاقی انحطاط کی وجوہات پر پریشان ہونے کی بجائے اپنی تمام توانائیوں اور ذرائع کو آخری فتح تک جہاد کی خاطر لڑائی میں صرف کردیں۔ قرآن میں بیان کیے جانے والے موسیٰ اور فرعون کے واقعات کی وضاحت کی گئی ۔مولانا وزیر آبادی نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ اپنے حقوق کی خاطر سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے کافروں سے جنگ ایک مذہبی فریضہ ہے ۔اس طرح کشمیر دارالسلام بن کر پاکستان کے ساتھ مل جائے گا جس سے ان دونوں ممالک کے علاوہ افغانستان بھی ہندوستان کے خطرے سے محفوظ ہو جائے گا۔ان مسلمانوں کو جنھوں نے جہاد کی مخالفت میں اسے قوم پرستی کی جنگ قرار دیا تھا کے خلاف بر ملا فیصلہ دیا کہ حضور ان کی شفاعت نہیں فرمائیں گے اور انھیں دوزخ سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اس لیے ہرپاکستانی پر قانونی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس کی تباہی کا بندوبست کرے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے المناک حالات دیکھ کر پاکستان کے لوگ کس دن کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اور جو لوگ کشمیر میں جہاد کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دراصل دشمنوں کی مدد کر رہے ہیں تاکہ انڈیا وہ حاصل کر لے جو اتنی بڑی فوج کے باوجود کچھ بھی نہیں کر سکا(37)۔

ایک سوالنامے کے تحت پوچھا گیا کہ کیا امام اور مجاہدین کا عظیم کردار کا مالک ہونا ضروری ہے، وزیر آبادی نے اسلامی قانون کی جانب متوجہ کرتے ہوئے تجزیہ کیا کہ امام غیر اخلاقی کردار کا حامل بھی ہو سکتا ہے لیکن مسلمان اس کے حکم کے تحت جہاد پر جانے کے پابند ہیں اگر نماز کا ادا کرنا ہر گناہ گار مسلمان پر فرض ہے تو جہاد کیوں نہیں فرض؟ اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ اسلام میں ضابطہ اخلاق کی کوئی گنجائش نہیں۔ جہاد بھی دوسرے اسلامی اصولوں کی طرح ایک ستون کا درجہ رکھتا ہے خدا سے محبت رکھنے والے روحانی نیکیوں کے بدلے میں صلے کے طلبگار لوگ دنیا کی آسائشوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ لیکن ان کا صوفی روایات سے جڑنا قرآن اور حضورۖ کی سنت سے متصادم ہے خدا کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کا واحد ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ میں مضمر ہے۔ جہاد ایسی جادوئی چھڑی ہے جو جنگجو ؤں کے گناہ دھو ڈالتی ہے(38)۔

اگر وزیر آبادی نے جہاد کے مو ضوع پر کچھ مبہم تصورات کو ابھارا تو جناب عبدالسلام بن محمد نے اپنی کتا ب''Jehad in the Present Time'' میں لشکر طیبہ کے سخت نظریات کو دنیا کے سامنے طشت از بام کیا ۔وہ کہتا ہے کہ کافروں نے جہاد کے مقصد کو اس قدر بدنام نہیں کیا جتنا نام نہاد نیکو کاروں اوراسکالروں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی اور غلامانہ حالت پر نقطہ چینی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انھوں نے جہاد کے لیے حالات کو خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ کسی اسلامی ریاست یا خلیفہ کو حقیقی جہاد جاری رکھنے کی ضرورت نہیں ایک پکا مسلمان بھی اگر دیکھے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے تو وہ بھی کافروں کے خلاف جنگ کرنے کے فیصلے میں آزاد ہے ۔اگر مسلمان کو اذیت دی جارہی ہو تو ایسی صورت میں دنیا میں کہیں بھی کافروں کے خلاف جہاد کیا جا سکتا ہے ۔مسلمانوں کو اپنے ہم مذہبوں کے دفاع میںیا اگر وہ ظلم کا شکار ہوں یا غاصبوں نے حملہ کر دیا ہو یا کسی علاقہ کو واگزار کرانا ہو تو بھی جہاد ضروری ہے۔ مسلمان اس قوم کے ساتھ بھی لڑ سکتے ہیں جس نے ایفائے عہد کی خلاف ورزی کی ہو جو مسلمانوں کا قتل کرتے ہیںان سے بھی بدلہ لیا سکتا ہے ۔جو مسلمان کسی مسلمان کے خون سے ہاتھ رنگے گا تو اسے خون بہا دینا ہوگا یا متاثر خاندان اسے معاف کرنے کا مجاز ہوگاورنہ خون کے بدلے میں خون عین عدل ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کے قتل کا مرتکب ہو تو اس کے صرف اسلام کو قبول کرنے میں ہی جان بخشی ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ جب جہاد کریں تو اسے اس وقت تک جاری رکھنے کے پابند ہیں جب تک بے دین لوگ جزیہ دینے پر راضی نہ ہو جائیں اور اسلام ہی ان کا ضابطہ اخلاق قرار پائے گا(39)۔

اس پمفلٹ میں اس مسئلے پر غور و خوض کیا گیا ہے کہ کشمیر کی طرح پاکستان میں بھی اذیت ،دباؤاور وحشیانہ برتاؤ عام ہے تو پھر یہاں بھی جہاد ضروری ہے ۔اس کے جواب میں کہا گیا کہ انڈیا کے حکمرانوں کے برعکس پاکستان کے حکمران اسلام سے انکارنہیں کرتے مگر ان کی پالیسیاں منافقانہ ہیں اور پاکستان میں بد امنی اور تشدد مسلمانوں کے درمیان ''سول وار'' یعنی امت کی لڑائی کی مانند ہے جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل عام ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ہے۔ ان کی حیثیت ختم کی جارہی ہے۔عورتوں کو بے آبرو کیا جاتا ہے اور مساجد کی بے حرمتی یا انہیں زمین بو س کر دیاجاتا ہے ۔شیوسینا کے لیڈر بال ٹھاکرے نے مسلمانوں کے سامنے تین شرائط پیش کی ہیں۔ وہ ہندو بن جائیں یا انڈیا چھوڑ دیں یا مرنے کے لیے تیار ہو جائیں جبکہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ایسا کوئی خطرہ موجود نہیں ۔یہ لشکر اسلام کی انتہائی خواہش تھی کہ پاکستان میں مکمل اسلامی معاشرہ ہو ،کوئی کام غلط طور پر انجام نہ پائے اور کشمیر میں روا رکھے جانے والا ظلم اور ناانصافی یہاں نہ ہو لیکن پاکستان میں بھی جہاد کا فعال طریقہ یہی تھا کہ کافروں سے جنگ کی جائے۔ یہ جنگ مسلمانوں کو متحد کر دے گی اور وہ آپس میں لڑنا ترک کر کے جہاد سے انکار کی جرأت نہیں کریں گے۔مسلمانوں کو ١٩٤٧ء میں ہندؤوں کے ہاتھوں جو قتل عام ،ظلم و جور،تشدد اور نا انصافیوں کاسامنا کرنا پڑا ہے اس کا بدلہ لینا چاہیے (40)۔

عبدالسلام نے مسلمانوں کو اپنے روایتی بیان میں متنبہ کرتے ہوئے اس خطرے سے آگاہ کیا کہ وہ دوسروں سے حدود قائم نہیں رکھتے اور ہندؤوں کے نقطہ نظر کو بھی اجاگر کرنے سے منع کیا ۔ انھوں نے اقرار کیا کہ بیرونی وضع قطع کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اندرونی طورپر آپ اسلام کو نظر انداز کر رہے ہیں جوکہ باعث شرم ہے لیکن یہ صرف جہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ اسلام کی عمارت کو اندرونی اور بیرونی طور پر مستحکم کریں (41)۔صرف وہی لوگ جو عزت سے جینا جانتے ہیں کافروں سے لڑ سکتے ہیں پاکستان کے حکمران عزت کے احساس سے دور ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جو کشمیر کے جہاد کے مخالف ہیں در اصل الجھاؤ کا شکار ہیں اور مضحکہ خیز ی کا برتاؤ کر رہے ہیں۔اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے جہاد پر یقین تو رکھتے ہیں لیکن اسلام کے ان عظیم سکالروں میں سے کوئی بندوق سے گولی چلانا بھی جانتا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ وہ اپنے بیانات میں مخلص نہیں بلکہ مذاق کر رہے ہیں ۔محاذ جنگ پر جانے کے لیے ان کے پاس کئی دلایل ہوسکتے ہیں لیکن انھیں فوجی کیمپوں میں جانے سے کس نے روکا ہے انھیں چاہیے کہ عسکری تربیت کے بعد ایمانداری سے جہاد میں حصہ لیں ۔یہ محض بچگانہ بات ہے کہ جب تک کوئی خلیفہ ہونے کی اہلیت ثابت نہیں کرتا جہاد ناممکن ہے ۔ اسلام میں ایسی کوئی شرط نہیں ۔خلافت1924ء سے ختم ہو چکی ہے اگر مسلمانوں کو بندوقوں اور ہتھیاروں کی کوئی ضرورت ہے تو پھر انھیں چاہیے کہ کافروں کے جوتے پالش کریں تاکہ وہ امن وسکون کے ساتھ میٹھی نیند سو سکیں (42)۔

ظلم میں زندہ رہنا زندہ درگور ہونے کے مترادف ہے جبکہ شہادت کی موت کہیں اعلیٰ درجے کے مقام کی حامل ہے یہ ہے وہ نظریہ جو جہاد کو بڑھاوا دیتا ہے۔ حالانکہ پاکستان نے آخر کار دو دہائیوں پر محیط جہادی پالیسی ترک کر دی تھی لیکن اس کے باقیات مشکل سے ہی ختم ہو نگی۔ مشرف نے حکومت کی جانب سے جہادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے جنوری 2002ء میں لشکر طیبہ پر بھی پابندی عائد کر دی۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد حافظ محمد سعید نے نظریہ پاکستان کے حوالے سے حکومت سے استعداد کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی اجازت دے یہ کہنا غلط تھا کہ وہ ہندوستانی شہری تھے انہیں پاکستان میں آنے کا پورا پورا حق حاصل تھا۔ اب وہ اس لیے مسائل سے دو چار تھے کہ انہوں نے مسلم مملکت کے بننے میں مدد کی تھی۔ حکمرانوں کو جو کہ خود کو علامہ اقبال کے مقلد کہتے ہیں مگر قرآن وحدیث سے آگاہی نہیں رکھتے کم از کم نظریہ پاکستان کے مطابق تو عمل پیرا ہونا چاہیے۔ سرحدیں ہندوئوں کے لیے تھیں نہ کہ مسلم امہ کے لیے۔ افغان مسلمانوں کے لیے سرحدیں کھول دی جائیں اس طرح انہیں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے تو کھلا چھوڑا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کو پاکستانی مسلمان کہتے ہیں جبکہ گجرات کو چھوٹا پاکستان اور یہ غیر معمولی بات ہو گی اگر پاکستان کے مسلمان ہندوستانی مسلمانوں کی مدد نہ کریں(43)۔

امریکہ کی جانب سے شروع کی جان والی دہشت گردی کی جنگ کے خلاف زیادہ تر مسلمان ہی نشانہ بنے۔ فلسطین، چیچنیا، کشمیر اور دنیا کے دوسرے حصوں میں موجود لشکر طیبہ جیسی تنظیموں نے مغربی ملکوں کے دوہرے معیار کو نوآبادیاتی دور کے خیالات کو نئے انداز میں پیش کرنے پر محمول کیا۔ عسکریت پسندوں نے نہ صرف سامراجی طاقتوں کے گرد گھیرا تنگ کیا بلکہ دنیا کے کونے کونے میں کفار کی ناانصافیوں کے خلاف اقدامات کیے۔ مولانا مودود ی کے خیالات سے متاثر حافظ سعید کے دور کے جوان سیاسی عمل دخل رکھتے اور کسی قانونی باریکی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے امریکہ کی جانب سے لشکر طیبہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے اور اس کا نام بدلنے سے پہلے بھی تنظیم بات بات پر زور دیتی رہی تھی کہ ان کی کشمیر میں کارروائیوں کا ہدف صرف ہندوستان کی فوج رہی ہے اور ا س کا ایک ہی مقصد تھا کہ مقامی آبادی کو ان کے ظلم سے نجات دلائی جائے لشکر کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ ہندوئوں اور دوسری قومیتوں کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتے بلکہ انہوں نے کشمیر میں کافی احتیاط سے کام لیتے ہوئے عوام کو نقصان پہنچانے سے ہر ممکن احتراز برتا ہے اور ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں کے دوران جو لوگ گھائل ہوئے وہ دوسرے نقصانات کی طرح باوجود احتیاطی تدابیر کے کام آئے۔ لشکر طیبہ نے کبھی بھی کسی مسلم یا غیر مسلم قوم کے خلاف براہ راست مقابلہ نہیں کیا اور امریکی پراپرٹی یا عوام کو بھی امریکہ یا اس سے باہر نقصان پہنچانے کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہی(44)۔

جب لشکر اپنی کارروائیوں میں آزادانہ رہی تو وہ جماعت الدعوہ کے نئے نام سے سامنے آ گئی اور کشمیر کے جہاد میں چند تبدیلیاں بھی عمل میں لے آئی۔ حافظ سعید نے جنرل پرویز مشرف کو امریکی دبائو کا شکار ہونے پر سخت الفاظ میں یاد کیا اس نے دعویٰ کیا کہ ہمارے لیے جہاد کی اہمیت نماز اور روزے کی طرح ہے۔ انڈیا نے دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے سرحدوں کے پار دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہے صرف ایک کنٹرول لائن ہے اوردنیا کا کوئی بھی فورم یا ادارہ اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتا کشمیری اپنی آزادی کی خاطر جنگ لڑ رہے ہیں اور کوئی قانون انہیں LOC یعنی لائن آف کنٹرول پار کرنے سے نہیں روک سکتا کیونکہ یہ ان کا اپنا علاقہ ہے جو کہ ہندوستان کے قبضے میں ہے۔ اس نے پاکستان کے اس رویے پر نفرت کا اظہار کیا کہ وہ کشمیریوں کی طرف اخلاقی مدد جاری رکھے گا حافظ سعید نے اسے کھلم کھلا بداخلاقی قرار دیا اور کہا کہ جب انڈین آرمی کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کرے انہیں اذیتیں پہنچائے گھروں کو مسمار کرے تو جواب میں صرف دلاسہ دینا ہی کافی نہیں ہو گا۔ حافظ سعید نے کہا کہ انہیں جہاد سے باز نہیں رکھا جا سکتا جب تک نا انصافی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا جنگ جاری رہے گی(45)۔

لشکر طیبہ اس کی ذیلی شاخیں کشمیر اور ہندوستان میں خود کش حملوں میں ملوث رہی ہیں۔ گو کہ وہ اس الزام کی تردید کرتا ہے مگر پھر بھی حافظ سعید کو کئی دفعہ یہ کہتے سنا گیا ہے کہ موجودہ دور میں خود کش حملے ہی بہترین جہاد ہے(46)۔ ان کی تنظیم نے دسمبر 2001ء میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ کیا، نئی دہلی اوربنارس کے سولین حملوں میں بھی ملوث پائی گئی۔ جب حافظ سعید سے پوچھا گیا کہ وہ نوجوانوں کو جہاد کی غرض سے کشمیر میں بھیج رہے ہیں جبکہ اسلام کے منصف اور جج یہ کہتے ہیں کہ جہاد کو قانونی شکل اس وقت ملتی ہے جب فوجی طاقت کی کامیابی کا یقین ہو۔ اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم انڈیا کے خلاف گوریلا جنگ لڑ رہی ہے اس لیے کم یا زیادہ طاقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا(47) ۔گوریلا جنگ کو جہاد کا نام دینا اس کا انوکھا دعویٰ تھا مگر اس کا یہ کہنا کہ کشمیری جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اب صرف یہی اخلاقی راستہ رہ جاتا ہے کہ لوگ ان کی تنظیم میں شمولیت اختیار کریں ایک بااعتماد بیان تھا۔

حافظ سعید کے اخلاقی چیلنجز کا جواب دینا ایسے حالات میں انتہائی مشکل ہے جہاں حکومتی افسران کئی دہائیوں تک فوجی چکی کے تلے پستے رہے ہوں ۔١١ ستمبر کو جب منظر نامہ تبدیل ہوا تو مسلمانوں کے خلاف مغرب کامنافقانہ چہرہ دنیا بھر کے سامنے آگیا ۔امریکیوں کے لیے ابتدائی ہمدردی کے جذبات پر پاکستان کو افغانستان میں کلسٹر بموں کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ۔عراق جنگ کے بعد روزانہ کی اموات سے ہتک آمیز احساسات نے جنم لیا مثلاً مسلمانوں کی جانیں سستی ہیں اور امریکن مقدس ہیں ۔جدید مسلمانوں کی خاموشی بھی معنی خیز تھی جن کی مذہبی جہل پسند ،سیکولر اور آزادخیال مسلمان کے طور پر مخالفت کی جاتی تھی انھوں نے کبھی بھی کشمیر میں ناانصافیوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو قانونی حیثیت نہ دی۔ جب کہ لشکر طیبہ ریاستی سکیورٹی کے لیے بھر پور طریقے سے اپنا کام انجام دے رہی تھی جو کہ پاک کشمیر پالیسی کا حصہ رہا ہے۔

اس گھمبیر صورتحال میں جہاں جمہوری آزادیوں کا مذاق اڑایا گیا ہو اور تنقید کی آزادی سلب ہو چکی ہو ،جدت پسندی اور روشن خیالی کے نظریات پاکستان پر جہاد کے منڈلاتے ہوئے بادلوں کو کیسے منتشر کرتے ،معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف اسلامی اور اخلاقی جواز کے متعلق آوازیں بلند ہونا شروع ہوچکی تھیں اس مدافعتی تحریک میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سب سے آگے تھا اس کے تحقیقی مجلے کانام''جہد حقِِ'تھا اردو زبان میں ایک اور آزاد خیال رسالہ''جدوجہد'' کے نام سے شائع ہورہا تھا۔نہتے لوگوں پرحملے ۔۔۔جو کہ دہشت گردی کی تعریف میں آتے ہیں۔۔۔کی باقاعدگی سے مذمت کی جارہی تھی (48)لیکن روزانہ کی افسوسناک خبر جو کہ عراق و افغانستان اور پاکستان کے آزاد قبائلی علاقوں سے متعلق ہوتیں جنگجو کے لیے ہمدردی حاصل کررہی تھیں اور یوں جہاد کا کاروبار اپنے عروج پر تھا ۔ادھر حکومت اس مسئلے پر اب بھی غیر یقینی کا شکار تھی کہ انڈیا سے کشمیر کے مسئلے پر امن بات چیت کی بھاری قیمت نہ چکانی پڑے۔

جہادی بحث کے سیاق و سباق میں ہندوستان کے ایک نامعلوم اہل حدیث اسکالر نے لشکرطیبہ نیٹ ورک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسلام مسلمان کو دوسرے لوگوں سے اچھے تعلقات کی تاکید کرتا ہے ۔ اورکسی ایسی جنگ کا تصور نہیں دیتا جو غلبہ حاصل کرنے کی نیت سے ہو۔ لشکر کی کارروائیوں کی وجہ سے غیر مسلموں میں نفرف پھیل رہی ہے جس میں اہل حدیث کے علماء تنقید کی زد پر ہیں۔اسلامی حکومت کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن اسلامی اخلاقی قوانین کی پابندی نہیں کی جاتی ۔لشکر نے دہلی کے لال قلعے پر اسلامی جھنڈا لہرا کر محض اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی وہ اسلام کو تجارتی مال کی طرح گلی کوچوں میںلے آئے ہیں ۔انھوں نے مزید کہا کہ لشکر طیبہ محض مایوسی پھیلا رہی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیںاس کے کارکن امریکہ اور پاکستان کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکے ہیں(49)۔

اعتدال پسند پاکستانی بھی اس قسم کی رائے رکھتے ہیں لیکن لشکر کی ایجنسیوں سے تعلقات کار کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اپنے نقطہ نظر کی محتاط انداز میں وضاحت کی۔فوجی حاکمیت والی ریاست جہاد کے حوالے سے دو نظریات کی حامل ہوتی ہے یعنی سیاسی حکمت عملی کا خاتمہ اور دوسرا اپنی سرزمین پر جہاد کی خاطر لڑنے کے لیے عسکری ملیشیا کا قیام عمل میں لانا۔پاکستان میں جمہوری رویوں کی غیر موجودگی میںسیکیولر اور مذاہب کی بحث میں الجھے پاکستانی مسلمانوں کو ایسی اخلاقی رواداری کا ساتھ دینا ہو گا تاکہ گھٹن کی فضا سے باہر آئیں ۔امریکن کی شہ پر جاری دہشت گردی کی جنگ ایک طرف تو پاکستان میں فوجی آمر کی حمایت کرتی رہی ہے اور دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کو فروغ دینے کے خیالات پیش نظر رکھے جس کا خمیازہ تو بہر حال واشنگٹن کو بھگتنا ہی ہو گا ۔ امریکہ اپنے قول و فعل میں تضاد کی پالیسی کے تحت اس بات چیت کی راہ میں تاخیری حربے استعمال کرتا رہا ہے جو کہ اس لیے بھی پاکستان کے مفاد میں تھی تاکہ اخلاقی بنیادوں پر جہاد کے موضوع کو سمیٹا جا سکتا اور عسکریت پسندی کے تار عنکبوت سے بھی نجات مل جاتی۔

(انگریزی سے ترجمہ : انجینئر مالک اشتر)

حوالہ جات

1۔عائشہ جلال، The State of Martial Rule: The Origins of Pakistan's Political Economy of Defence(Cambridge, Cambridge University Press, 1990) p. 285
2۔اسرار احمد۔ جہاد سے گریز کی سزا نفاق: (سورة المنافق کی روشنی میں (لاہور: مرکز انجمن خدام القرآن، 2002)۔
3۔مولانا وحید الدین خان The True Jihad: The concept of Peace, Tolerance and non-violance in Islam (New Dehli: Good word, 2002) PP. 14,16.
4۔ ابو الحسن علی ندوی۔ مولانا محمد الیاس کی زندگی اور اس کا مقصد: at 
www.central-mosque.com
5۔ ضیا الحسن فاروقی، ''تبلیغی جماعت'' (v.k. Gokak ced.) ، Translations of the Indian Institute of Advanced Studies (simla: N.P. 1965) P.61
6۔Tablighi Jamaat's role in the Politics of Muslim- Nationalism in the pre indepencence era. دیکھیے میٹکاف Nationalism, Modernity, and Muslim Identity.
7 ۔یوگندر سکند، ''تبلیغی جماعت اور سیاست'': تنقیدی جائزہ''۔ قلندر ، مئی 
www.islam inter faith. org, 2005
8۔خالد احمد، "The Genius of Ghulam Ahmad Pervez" فرائیڈے ٹائمز۔ (لاہور)، 2 دسمبر، 1999.
9۔احمد اللہ کے نام یہ قتل، P. 56
10۔Zbignew Brezezinsky سے انٹرویو Nouvel Observateur, 15-21 جنوری 1998, P. 76.
11۔سید طلعت حسین، "Breeding Ground of Extremism ، ڈان کراچی 3 دسمبر 2001 ۔
12۔حسین، ."Breeding Ground of Extremism."
13۔محمد عامر رانا، جہادکشمیر و افغانستان، جہادی تنظیمیں اور مذہبی جماعتوں کا ایک جائزہ، (لاہور، مشل، 2002 )
14۔خالد احمد، "The Grand Deobandi consensus". فرائیڈے ٹائمز (لاہور)، 4 فروری 2000
15۔ ایضاً
16۔رانا، جہاد کشمیر و افغانستان، PP. 19-20 ۔
17۔ خالد احمد، "The Grand Deobandi Consensis"
18۔''تبلیغی جماعت''، The stealthy Legions of Jihad": ، Middle East 12 ۔ ماہنامہ، نمبر ١ (جنوری2005 )
19۔رانا، جہاد کشمیر و افغانستان، PP. 17,49 ۔
20۔خالد احمد، "Re-Assertion of the Barelvis in Pakistan," فرائیڈے ٹائمز (لاہور) 8 ستمبر 2000
21۔منطق جاننے کے لیے Summer 2001-mid-1999" کے اخبارات کی رپورٹس کا جائزہ لیں۔
22۔سید طلعت حسین، Dawn, "Breeding Ground of Extremism", (کراچی) ، 3 دسمبر 2001
23۔انصار عباسی، "anti-arms Compaign a failure so far: Musharrag" News ، (لاہور) 26 اگست، 2001
24۔ خالد احمد ، "Is there life after Kashmir" فرائیڈے ٹائمز، (لاہور)، 27 اگست 2001
25۔رانا، جہاد کشمیر و افغانستان، PP. 51 ۔
26۔احمد،Is there life after Kashmir?" "
27۔مبشر زیدی، "ISI Still Playing a Double game as Talks Become Imminent, "South Asia Tribune, 18-24 مئی، 2003
28۔مثال کے لیے دیکھئے مسعود اظہر کے نام خطوط جو عورت جہاد میں شامل ہونے سے خواہاں ہے، جیش محمد میں لکھا ہے (کراچی)، جولائی 2000 صفحہ نمبر 35-36
29۔رانا، جہاد کشمیر و افغانستان، PP. 54 ۔
30۔اسلام کی آواز، ستمبر n.p, 2000
31۔اداریہ، حافظ محمد سعید، اسلام کی آواز، نومبر 2000
32۔ ایضاً
33۔موودودی، مسئلہ کشمیر اور اس کا حل، P. 75
34۔نوٹ، مزید وضاحت کے لیے جائزہ لیجئے، مفتی عبد الرحمن الارحمانی کی کتاب الجہاد الاسلام، ابو یوسف اعجاز احمد تنویر (لاہور۔ الاندلس،2004 ) گلستان جہاد (لاہور: الاندلس، 2004) ایک چھوٹا سا پمفلٹ ہے جو کہ الارحمانی کے خطبات پر مشتمل ہے۔ دوسرے موضوعات میں شامل، عبدالرحمن محمدی، دفاعِ جہاد (لاہور: الاندلس، 2003 )، اور دو پمفلٹس: مولانا امیر حمزہ، انسانیت کا قاتل: ہندودھرم (لاہور: اندلس، n.d ) اور حمزہ، کشمیری عورت اور امریکہ (لاہور: الاندلس، n.d)
35۔ وزیر آبادی، مسئلہ جہادکشمیر
36۔ ایضاً صفحہ نمبر 19-22
37۔ ایضاً صفحہ نمبر 66-67
38۔ ایضاً صفحہ نمبر 137-140
39۔ عبدالسلام بن محمد، عصرِ حاضر میں جہاد، ترجمہ، خالد محمود لاہور: دار الاندلس، n.d )، صفحہ نمبر 10-22
40۔ایضاً صفحہ نمبر P.61
41۔ایضاً
42۔ایضاً صفحہ نمبر ُُ P 62-65
43۔ہفتہ وار، غزوہ ٹائمز، 28-22 مارچ، 2002
44۔اسلام کی آواز، نومبر2000, صفحہ نمبر P-15
45۔News ، نومبر 21 ، 2002
46۔یہ رد عمل حافظ سعید کی طرف سے بیان کیا گیا ہے جن کا میں نے لاہور میں نومبر 2005 میں انٹرویو لیا تھا۔ یہ نقطہ اس سے بالکل متضاد ہے جو کہ محمد شہزاد کے انٹرویو میں ہے، جو کہ Friday Time (لاہور) میں شائع ہوا ہے۔ اپریل2003,17
47۔ حافظ محمد سعید سے (انٹرویو)، نومبر2005
48۔دیکھئے، محمد حنیف رامے، اسلام کی روحانی قدریں: موت نہیں زندگی (لاہور: سنگ میل 2005 ); اور ابو سلیمان شاہ جہانپوری (Comp.) ، جہاد اسلام اور دورِ حاضر کی جنگ (لاہور: جمعیت، 2002 )۔
49۔یوگندرسکند، علمائے اہلِ حدیث کا لشکرِ طیبہ دہشت گردی،'' 
http://groups,yahoo. com/group/indiathinkersnet/message/8600?viscount=100.
 

No comments:

Post a Comment