visitors

free counters

Sunday 24 July 2011

امریکہ دشمنی اور مولانا وحید الدین کے افکار


جو لوگ حضرت مولانا وحید الدین خان صاحب کو نہیں جانتے ان کے لیے مختصرعرض ہے کہ علامہ اپنے ایک مخالف کے الفاظ میں ’’انتہائی طباع عالم دین ہیں اور اپنے سوا ہر کسی سے اختلاف رکھتے ہیں‘‘۔ میرے خیال میں اس فقرے کا پہلا حصہ درست اور دوسرا قدرے محل نظر ہے۔ علامہ 1925ء میں پیدا ہوئے اور بچپن سے لے کر آج (2011ئ) تک عقل و دانش اور علم قرآن و علم حدیث کی خدمت کرتے آئے ہیں۔ جماعت اسلامی سے بھی وابستہ رہے مگر سیاسی انقلابی قسم کی باتوں پر الگ ہوئے اور’’ تعبیر کی غلطی‘‘ نامی کتاب لکھ ڈالی۔ اس کتاب پر ان کی دیگر کتابوں کی طرح لے دے بھی بہت ہوئی ہے۔ علامہ کی کتاب ’’قرآن اور علم جدید کا چیلنج‘‘ بہت ہی مشہور ہوئی اور اس کتاب نے ایک زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کی بڑی خدمت کی ہے۔ علامہ کی کتابوں کا شمار مشکل ہے۔ آج کل انٹرنیٹ سے بھی خوب فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور ان کی اکثر کتابیں انٹرنیٹ پر ملتی ہیں ’’الرسالہ‘‘ کے نام سے اپنے منفرد افکار بغیر کسی رکاوٹ اور تعطل کے ہر ماہ شائع کرتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر ’’تذکیر القرآن‘‘ کے نام سے کی ہے۔ اور ان کی کتابوں کے تراجم دنیا کی بہت ساری زبانوں میں ہو چکے ہیں بلکہ ’’الرسالہ‘‘ جو پاکستان میں ۔’’تذکیر‘‘ کے نام اور انگریزی میں Spiritual Message کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ علامہ کی سب سے بڑی علمی خوبی اُن کے تفردات اور ان کی منفرد آواز ہے۔ دوسری بڑی خوبی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت کے ساتھ بڑی لمبی عمر عطا فرمائی ہے اور سیر وفی الارض کی اطاعت میں زمین کا گوشہ گوشہ چھان مارا ہے‘ ان کی ڈائریاں اور سفرنامے علمی قدروقیمت میں بے بہا اور معلومات میں بے پنا ہ ہیں۔ جدید علوم اور مغربی افکار و خیالات سے ہمہ وقت آگاہ ہوتے ہیں اور دنیائے اسلام کے حالات پر بڑی عمیق نظر رکھتے ہیں۔ ایک بحرالعلوم نابغہ روزگار اور کنز الحقائق قسم کی علمی شخصیت ہیں۔ وسعت معلومات اور زود قلمی میں مثال نہیں رکھتے۔ البتہ ان کے تفردات سے چند دیگر علمی حلقوں کو اختلاف رہتا ہے اور اختلاف کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔ مخالفت اور دشنام طرازی نہیں ہونی چاہیے۔ باقی اختلاف کس مذہب‘ کس نظریے اور کس عقیدے میں نہیں۔ بلکہ حدیث رسولؐ کے مطابق اُمت محمدیؐ کا اختلاف تو رحمت کا باعث ہوتا ہے۔
حضرت علامہ کے چند افکار پیش کرنے سے قبل کہ شاید کوئی اور بھی اس پر اظہار خیال کرے‘ یہ بتانا چاہوں گا کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے مسلمان قوم کی مجموعی بدبختی‘ بدنصیبی یہ رہی ہے کہ ان کے اندر جب بھی کسی نے کوئی منفرد آواز اُٹھائی‘ کوئی نعرہ مستانہ بلند ہوا‘ کوئی تنقید یا اجتہاد کی بات کی گئی‘ کسی فکر ی حریت اور روشن خیالی کا دعویٰ کیا گیا تو فوراً کفر و شرک کے فتوے صادر ہوئے‘ قید اور جلا وطنی کے احکامات جاری ہوئے‘ مردود اور لعین شیطان کا طعنہ دیا گیا‘ غداری اور بغاوت کے ٹھپے لگ گئے‘ اس پر کیا سولی پر چڑھائے گئے اور بے دردی سے قتل کیے گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو بعد کے مسلمانوں نے نہایت عقیدت و احترام سے یاد کیا‘ ان کی کتابوں کو سرآنکھوں پر جگہ دی گئی اور ان کے مزاروں کی خاک سُرمہ بنانے کی باتیں کی گئیں۔ ان کے نام پر مسجدیں اور مدرسے بن گئے اور جہاں تک ممکن ہوا ان کے مزارات پر خوبصور ت زریں قبے اور مینار بنائے گئے۔ اپنے دور میں مجنونانہ ہرزہ سرائی کرنے والے بعد کے دور میں عظیم صوفی اور قلندران پاک کے نام سے یاد ہوئے‘ سیاسی جبرو ستم کا نشانہ بننے والے بعد میں دور ابتلاء کے مجتہد اور مجدد مانے گئے۔ ابن تیمیہؒ‘ منصور حلاجؒ‘ شاہ ولی اللہ ؒ‘ عبدالوہاب نجدیؒ‘ امام ابوحنیفہ ؒ سے لے کر آج تک ان عظیم مصلح بزرگان دین کو طرح طرح ستایا گیا۔ قارئین کرام اپنے اردگرد نظر ڈالیں کہ کیا آپ کے پاس بھی کوئی ایسا مصلح و مفکر ہے جو گاؤں کے مولوی کی طعن و تشنیع‘ خان خوانین اور استحصالی طبقے کے تیر و تلوار سے زخمی ہو رہا ہے۔ یہ قلندرانہ آواز کی قیمت ہوتی ہے جو بہر حال ایک مصلح اور مفکر کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اب علامہ کا ایک خیال دیکھیں۔
حضرت علامہ کا خیال ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری میں مسلمانوں کو بے جا طور پر ممولے کو شاہین سے لڑانے کی بات کی گئی ہے‘ علامہ کہتے ہیں کہ اقبال نے مسلمانوں کے دور انحطاط و زوال میں جذباتی بلکہ ہوائی شاعری کی ہے اور اقبال کومومن کو بے تیغ لڑنے کا مشورہ نہیں دینا چاہیے تھا اس لیے کہ مسلمان کمزور تھے اور ہیں۔ جب تک مسلمان فکری غلبہ پا کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے نہ بڑھیں تب تک مسلمانوں کو طاقتور قوموں سے لڑنا نہیں چاہیے۔ علامہ کا خیال ہے’’ کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے غیر مسلم اقوام سے اپنے جھوٹے قومی مسائل کے لیے جھوٹی لڑائی چھیڑرکھی ہے۔ اس لڑائی سے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا‘ علامہ کا مشورہ ہے کہ دوسری قوموں سے قومی اور مادی جھگڑے ختم کر دیں تو اسلام خود اپنی طاقت سے پھیلنے لگے گا‘‘۔ (عظمت اسلام۔ ص193)۔ علامہ سورۂ انفال کی آیت 62-61کہ دشمن صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ‘ سے یہ استدال کرتے ہیں کہ’’ یہ حکم اسلامی طریق کار کا خلاصہ ہے اور مسلمانوں کو دوسروں سے ٹکراؤ پیدا کیے بغیر اپنے لیے مواقع پیدا کرنے چاہیے اور وہاں اپنی قوتوں کو لگانا چاہیے‘‘۔ (پیغمبر انقلاب۔ ص113)۔ علامہ نے چند روز قبل جبکہ میری ان سے آٹھ دس سال بعد فون پر بات ہوئی مجھ سے کہا کہ’’ دیکھیں ترقی کے لیے انفراسٹرکچر اور تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کمزوری کی حالت میں لڑائی مول لینے والوں کو حضورؐ کی وہ حدیث پاک یاد رکھنی چاہیے جب مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حضرت عمر فاروقؓ نے ترکی بہ ترکی جواب دینا چاہا تو حضورؐ نے فرمایا‘ یاعمرانا قلیل‘ اے عمر ہم تھوڑے ہیں‘ یعنی ابھی ہماری قوت و طاقت اس کام کے لیے ناکافی ہے‘‘۔
قرآن نے بھی دشمن کے لیے تیاری کا کہا ہے مگربے خطر آتش نمرود میں کود پڑنے کی باتیں شاعرانہ خیالات ہیں‘ اب کوئی پیغمبر آنے والا تو نہیں کہ فرشتے قطار اندر قطار اب بھی اُتریں اور آگ انداز گلستان پیدا کرلے‘ علامہ کے نزدیک اقبال ہو یا کوئی اور یہ صرف ہوائی باتیں ہیں۔ علامہ نے مشہور شخصیات پر جو تنقیدیں کی ہیں ان میں اورنگزیب عالمگیر کو بھی رگیدا ہے کہ اس کو ہاتھ سے قرآن لکھنے کی بجائے ہندوستان میں پرنٹنگ پریس کا انتظام کرنا چاہیے تھانہ کہ ہاتھ سے ٹوپیاں سیتا اور کتابت کرتا۔ بلکہ علامہ کا کہنا ہے’’ کہ مغل حکمرانوں کو کیمبرج‘ آکسفور ڈ اور پیرس کی یونیورسٹیوں جن کا آغاز ان سے دوتین صدی پہلے ہو چکا تھا کے طرز پر علمی درسگاہیں قائم کرنی چاہیے تھیں‘‘۔ (فکر اسلامی۔ ص171)۔ علامہ نے 1988ء میں افغانستان کا سفر کیا اور تفصیل سے اس کی روئیداد لکھی۔ مسلمانوں کی قربانیوں کی تعریف کے ساتھ اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ افغانستان کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں‘ ’’مجھے اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اگر بالفرض روسی اثر ونفوذ افغانستان سے ختم ہو جائے تب بھی اصل مسئلہ ختم ہونے والا نہیں‘ کیونکہ عدم برداشت کا مزاج جو اس وقت روسیوں یا روس نوازوں کے خلاف کام کررہا ہے وہی خود اپنوں کے خلاف کام کرنے لگے گا۔‘‘۔ (سفر نامہ۔ ج اول ص421)۔ علامہ نے بتایا ’’ 9/11کے بعد وہ واحد مسلمان عالم تھے جو اس واقعہ پرروئے کہ مسلمانوں کے لیے سخت وقت آرہا ہے۔ باقی دنیا کے مسلمان خوشی منا رہے تھے اور میں رو رہا تھا۔ آج وہی خوشی منانے والوں نے سوائے تباہی کے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ اگر یاسر عرفات کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی تھا تو اتنے عرصے تک لڑائیوں میں بے شمار مسلمانوں کو شہید اور دربدر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ علامہ نے کہا کہ ’’اگر اُسامہ کو ایبٹ آباد میں چھپنا تھا تو امریکہ جیسی قاہر و جابر طاقت سے ٹکر لینے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ ۔
علامہ کے افکار سے اختلاف بہت سوں نے کیا ہے‘ مجھے بھی ان سے اختلاف ہو سکتا ہے‘ وہ خود بھی ہر کسی سے اختلاف رکھتے ہیں‘ مگر ان سے مکالمہ کیا جا سکتاہے کیونکہ ان کے افکار وحید میں بے پناہ معقولیت‘ توازن اور استد لال کا وزن ہے۔ امریکہ دشمنی اگر ہمیں تباہی کے دہانے پر لے جارہی ہے تو اس سے ہمیں رکنا چاہیے۔ ہمارے اپنے لوگ ہی امریکہ کے سامنے ہمیں دہشت گرد پیش کرکے ڈالروں سے تجوریاں بھر رہے ہیں‘ دراصل یہی لوگ بدترین دہشت گرد ہیں۔ ایک غریب مفلوک الحال بے روزگار پٹھان کیا تیر مارے گا اور کیا ڈرون گرائے گا؟ علامہ کی بات ماننی چاہیے بلکہ امریکہ کو بتانا چاہیے کہ ہماری بے چاری عوام تو روٹی کو ترس رہی ہے‘ دہشت گرد تو وہ ہیں جو اپنا مال دوبئی پہنچا چکے ہیں‘ امریکہ کو ہمیں ان سے نجات دلانی چاہیے۔ یہی سب سے بڑے دہشت گرد ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔

http://www.dailyaaj.com.pkکالم از فصیح الدین بحوال

No comments:

Post a Comment