visitors

free counters

Tuesday 25 October 2011

پاکستانی حکمرانوں کی سوچ




وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ محکمہ ریلوے کے سالانہ اخراجات ساٹھ ارب روپے کے قریب ہیں جبکہ ا
 سال اس محکمے کی آمدنی بارہ ارب روپے سے زائد نہیں ہوگی۔منگل کے روز اپنے دفتر میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اُنہوں نے صدر آصف علی زرداری کو ریلوے کا محکمہ بند کرنے کی تجویز دی تھی جس سے اتفاق نہیں کیا گیا۔
وفاق وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ کہ سنہ دو ہزار نو میں ریلوے کی آمدنی بائیس ارب روپے تھی جبکہ سنہ دوہزار دس میں یہ آمدنی کم ہوکر اٹھارہ ارب روپے رہ گئی تھی۔اُنہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ کی طرف سے ایک ارب روپے ملنے کے بعد ملازمین کو بدھ سے تنخواہوں اور پینشن کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے اس اعلان کے بعد ریلوے ملازمین نے مختلف شہروں میں جاری ہڑتال کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ ریلوے کی بحالی کے لیے فوری ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ریلوے کے محکمے کو چلانے کے لیے ہر سال صرف تنخواہوں اور پنشن کی مد میں تیس ارب روپے کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ریلوے کو چلانے کے لیے مختلف بینکوں سے چالیس ارب روپے بطور قرض لیے گئے تھے جن پر پانچ ارب روپے کے قریب سود بھی ادا کیا جا چکا ہے۔پیر کو ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں یہ تجویز دی تھی کہ ریلوے کا محکمہ مسلسل خسارے میں جارہا ہے لہذا اس کو بند کر دیا جائے۔ جس طرح افغانستان اور سعودی عرب میں بھی ریلوے کا محکمہ نہیں ہے اُسی طرح اگر پاکستان میں بھی نہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔"
غلام احمد بلور، وزیرِ ریلوے
غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ اُن کی وزارت میں یہ قرضہ واپس کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ٹرینوں کو چلانے کے لیے تین سو انجن فوری درکار ہیں جبکہ پچیس انجن ہر سال سسٹم میں آ جانے چاہیئیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے پیر کو ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں یہ تجویز دی تھی کہ ریلوے کا محکمہ مسلسل خسارے میں جارہا ہے لہذا اس کو بند کر دیا جائے۔اُنہوں نے کہا کہ جس طرح افغانستان اور سعودی عرب میں بھی ریلوے کا محکمہ نہیں ہے اُسی طرح اگر پاکستان میں بھی نہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے صدر سے کہا تھا کہ اگر اُن کی وجہ سے ریلوے کا محکمہ خسارے میں جا رہا ہے تو ابھی وہ اپنی وزارت سے مستعفی ہونے کو تیار ہیں۔یاد رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے ٹرینیں چلانے کے لیے انجن کی خریداری کے لیے وزارت ریلوے کو چھ ارب روپے دینے کے بارے میں ہدایات جاری کی ہیں۔


حکومت برطانیہ نے ڈیرھ سو برس قبل کراچی اور کوٹری کے درمیان ریل کی پٹری بچھا کر تیرہ مئی سنہ اٹھارہ سو اکسٹھ کو ریل گاڑی چلانا شروع کی تھی۔کراچی اور کوٹری کے بعد کوٹری اور حیدرآباد کے درمیاں بہنے والے دریا سندھ پر پل کی تعمیر کی گئی اور ریل کی پٹری کا جال بچھایا گیا۔ بڑی لائن کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام صوبوں کے مختلف علاقوں میں چھوٹی لائن بھی بچھائی گئی۔مقصد صرف یہ تھا کہ بیک وقت مسافر اور مال گاڑی چلائی جا سکے اور پھر کراچی کو پشاور سے جوڑ دیا گیا۔ڈیڑھ سو برس قبل انگریز سرکار نے عوام کو سفر کی جو سہولت فراہم کرنے کا آغاز کیا تھا اس میں اضافہ اور ترقی کے بجائے تنزلی ہوتے ہوتے صورتحال ایسی بن گئی ہے آج کے حکمران عوام سے یہ سہولت بھی چھینے پر تلے ہوئے ہیں۔مرکزی ریلوے لائن کے علاوہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اور علاقوں میں بھی ریل کی پٹری بچھائی گئی۔اکثر مقامات پر تو چھوٹی لائن بچھائی گئی اور ریلوے سٹیشن تعمیر کیے گئے۔ 

حد تو یہ کہ ڈھورونارو جیسے دور افتادہ علاقے میں بھی ریل کی پٹری موجود ہے۔ ریل کے سفر کی سہولت ہر ایک علاقے میں لوگوں کو حاصل تھی۔
ریل میں اکثر و بیشترسفر کرنے والے عبدالغنی کہتے ہیں کہ ریل گاڑیوں کے بند کیے جانے کے بعد سندھ کے اکثر علاقے ریل کے سفر کی سہولت سے محروم ہو گئے ہیں۔ریلوے کے حکام نے ریل گاڑیوں کو خسارے سے نجات دلانے کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے ریل گاڑیاں ہی بند کرنا شروع کردی ہیں۔ اس فیصلے سے وہ تمام لوگ نالاں ہیں جو آج بھی ریل میں سفر کو یہ ترجیح دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلے بڑی سہولت اور آسانی تھی۔کم پیسوں میں لوگ دور دراز کے علاقوں تک سفر کر لیا کرتے تھے۔ایک دور میں لوگ ریل گاڑی کی آمد سے وقت کا تعین کرتے تھے۔ریل گاڑی میں گورنر جنرل، صدور، وزیر اعظم اور وزراء حضرات اور افسران تواتر کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔سندھ ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے اکثر علاقوں میں لوگ صبح ریل کے ذریعہ ملازمت یا کاروبار کے لیے جایا کرتے تھے اور شام کو ریل گاڑی کے ذریعہ ہی لوٹ آیا کرتے تھے ۔ اب وہ سہولتیں کہاں۔
حیدرآباد ریلوے سٹیشن پر موجود معمر قلی خوشحال خان سن انیس سو پینسٹھ سے کام کر رہے ہیں۔خوشحال خان نے ریل کا اچھا وقت دیکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صدر ایوب خان اور ان کے وزراءکو گزرتے دیکھا ہے۔ایک اور قلی منیر کا کہنا ہے کہ انہیں پچاس سال ہو گئے ہیں۔ اب تو وہ عادت کے طور پر سٹیشن پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ انہوں نے مادرِ ملت، سکندر مرزا او دیگر آکابرین کو سفر کرتے دیکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اعلیٰ شخصیات کے لیے ریل گاڑی کے ساتھ علیحدہ ڈبہ لگایا جاتا تھا جسے سلون کہا جاتا تھا جو ہر سہولت سے مزین ہوتا تھا۔منیر کی جوانی کے زمانے میں قلی کو ایک پھیرے کی اجرت ایک آنہ ملا کرتی تھی۔آج ریلوے کے حکام نے ریل گاڑیوں کو خسارے سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے ریل گاڑیاں ہی بند کرنا شروع کردی ہیں۔ اس فیصلے سے وہ تمام لوگ نالاں ہیں جو آج بھی ریل میں سفر کو یہ ترجیح دیتے ہیں۔
ضلع عمرکوٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹے قصبے ڈھورو نارو کا ریلوے سٹیشن موجود ہے۔ سہراب نوہڑی آج بھی ریل سے ہی سفر کرتے ہیں اور ریل کے سفر کو بس کے مقابلے میں سہولت قرار دیتے ہیں۔عبدالشکور کہتے ہیں کہ شالیمار، تیز رو، چناب وغیرہ بند کر دی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گاڑیوں میں جگہ نہیں ملتی ہے، ٹکٹ نہیں ملتا ہے لیکن پھر بھی گاڑیوں کو خسارے کے نام پر بند کیا جا رہا ہے۔مسافر بند کی گئی ریل گاڑیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ ریل کے کرایہ میں کمی اور ریل کے عملے میں موجود بدعنوان افسران کو فارغ کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں تاکہ انہیں سفر کا یہ ذریعہ تمام سہولتوں سمیت دوبارہ حاصل ہو جائے۔

                

No comments:

Post a Comment