visitors

free counters

Sunday, 9 October 2011

دین میں آسانی اور مولانا وحید الدین خاں


دور جدید میں، کچھ سعادت مندوں نے دین کی خدمت میں بڑی سعی و جہد سے کام لیا ہے۔ ہمارے نزدیک، مولانا وحید الدین خان کی شخصیت بھی انھی میں شمار کیے جانے کے لائق ہے۔ انھوں نے دین کے بعض حقائق خوب سمجھے ہیں اور پھر انھیں ایک سچے داعی کی طرح بے خوف لومۃ لائم پیش کر دیا ہے۔ ان کی یہ مساعی لاریب، ایسی ہیں کہ انھیں قرآن مجید کے الفاظ: 'مايلقاها الا ذوحظ عظيم١ 'کی مصداق قرار دیا جائے۔لیکن ہر انسانی کاوش کی طرح ان کی کاوش بھی فکری اور علمی غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔ زیر نظر تحریر کے ذریعے سے، ہم انھیں ان کے ایک علمی تسامح کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔
دعوتی نقطہ نظر سے مولانا وحید الدین کا طرز نگارش بلاشبہ بڑی تاثیر کا حامل ہے۔ لیکن اس طرز نگارش کی ایک خامی ہے اور وہ یہ کہ اس میں علمی استدلال دب کر رہ جاتا ہے۔ بلکہ بسااوقات، یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ مصنف کے نقطہ نظر اور استدلال کی فنی بنیادیں کیا ہیں۔
مولانا محترم پچھلے طویل عرصے سے اہل اسلام کو اعراض و گریز کی پالیسی اختیار کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس غرض کے لیے انھوں نے متعدد مضامین لکھے ہیں۔ اس سلسلے کے بعض مضامین میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ گریز و اعراض عین دین کا تقاضا ہے۔ اس سلسلے کا ایک مضمون ان کے جریدے''الرسالہ'' ستمبر ١٩٩٦ میں شائع ہوا ہے۔ ''دین میں آسانی'' کے عنوان سے لکھے گئے اس مضمون میں انھوں نے دین میں دی گئی رخصتوں سے، اپنے نقطہ نظر کی تائید میں، ایک نیا استدلال قائم کیا ہے۔لکھتے ہیں:
''دین کے راستے میں جب حالات کے تحت کوئی مشقت کی صورت پیدا ہو جائے تو وہاں لوگوں کو مشقت کی طرف نہیں دھکیلا جائے گا، بلکہ ان کے لیے آسانی پیدا کی جائے گی۔اسی اصول کے تحت بیماری میں وضو کے بجائے تیمم ہے۔ سخت بارش میں مسجد کے بجائے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ سفر میں روزہ چھوڑ دینا ہے۔''(١٤)
مولانا کے نزدیک، دین کی طرف سے عائد کردہ اجتماعی ذمہ داریوں میں بھی رخصت کا یہی اصول قائم ہے۔ انھوں نے اپنے نقطہ نظر کی تفصیل ان الفاظ میں کی ہے:
''یہی اصول ملی زندگی کے لیے بھی ہے جہاں اقدام کرنا موت کی طرف چھلانگ لگانے کے ہم معنی ہو، وہاں اعراض کی تعلیم ہے۔ جہاں اجتماعی مظاہرہ میں نقصان کا اندیشہ ہو، وہاں غیر مظاہراتی انداز اختیار کرنے کا حکم ہے۔جہاں سیاسی اصلاح کو نشانہ بنانے میں ہلاکت پیش آنے والی ہو، وہاں انفرادی اصلاح پر اپنی کوششوں کو لگانا ہے۔جہاں شور والے دین میں تباہی ہو ،وہاں خاموشی والا دین اختیار کر لینا ہے۔''(١٥)
مضمون کے آخر میں خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہی
''عسر سے بچنا اور یسر کا طریقہ اختیار کرنا یہ ہے کہ بوقت عمل یہ دیکھا جائے کہ موجودہ حالات میں کیا چیز ممکن ہے اور ک چیز ممکن نہیں ہے۔ اور پھر ممکن دائرہ میں اپنی قوتوں کو صرف کیا جائے، نہ کہ ناممکن دائرہ میں سر ٹکرا کر مزید اپنے نقصان میں اضافہ کر لیا جائے۔''(١٥)
ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مولانا محترم نے اس مضمون میں فقہی طرزاستدلال اختیار نہیں کیا۔ چنانچہ یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ ان کی بناے قیاس کیا ہے اور وہ کس طرح دین کے تمام احکام میں رخصت پر عمل کرنے کو مطلق طور پر اولیٰ قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے موقف کی تفصیل کرتے ہوئے انفرادی معاملات میں رخصت کی تین مثالیں دی ہیں، ایک مثال وضو کی ہے، دوسری بارش میں مسجد کے بجائے گھر میں نماز پڑھنے کی اور تیسری مثال سفر میں روزہ چھوڑنے کی ہے، اجتماعی امور کا ذکر کرتے ہوئے، انھوں نے ان کے بھی تین ہی پہلو بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو کچھ بیان کیا ہے، اس میں ان کے پیش نظر بطور خاص بھارت کے مسلمان ہیں۔
ان کی رائے میں، مظاہرے میں نقصان کا اندیشہ ہو تو غیر مظاہراتی انداز اختیار کرنا چاہیے، سیاسی تبدیلی کو نشانہ بنانے میں ہلاکت ہو تو سیاسی تبدیلی کے محاذ سے ہٹ کر انفرادی اصلاح کے میدان میں کوششیں کرنی چاہییں اور جب لاؤڈ اسپیکر پر اظہار و اعلان ممکن نہ ہو تو خاموش تدبیر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
مولانا کا یہ موقف پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مشکل سے گریز اختیار کرنا ایک مطلق اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ نقصان کے اندیشے کو لائحہ عمل طے کرنے میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ ہلاکت کا امکان ہو تو ایک ذمہ داری چھوڑ کر دوسری ذمہ داری اختیار کی جا سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا کا یہ نقطہ نظر دین کے تمام تقاضوں کے باب میں درست تسلیم کر لینا کسی لحاظ سے بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔اس معاملے میں مولانا کی انفرادی اور اجتماعی معاملات کی تقسیم بھی محل نظر ہے۔
نامساعد حالات میں دین کا تقاضا کیا ہے؟ اس زاویے سے دین کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دین کے تقاضے دو نوعیت کے ہیں۔ ایک نوعیت کے تقاضوں میں نامساعد حالات میں رخصت کا طریقہ اختیار کرنا مستحسن ہے۔ اور دوسری نوعیت کے تقاضوں میں رخصت کا طریقہ اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ مستحسن نہیں، بلکہ نا پسندیدہ ہے۔ اور بعض صورتوں میں ایسا شخص جہنم کی وعید کا مستحق بن جاتا ہے۔ مثلاً دیکھیے قرآن مجید میں ہجرت نہ کرنے والے ایک طبقے سے ضعف کا عذر تسلیم نہیں کیا اور انھیں عذاب کی وعید سنائی ہے۔ سورہ نساء میں ہے:
''جن لوگوں کی روحیں فرشتے اس حال میں نکالیں گے کہ( کافروں میں پڑے رہنے کی وجہ سے) وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے ہوئے تھے، ان سے پوچھیں گے: یہ تم کس حال میں رہے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اس ملک میں مجبور اور بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے،اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے۔''( النساء ٤:٧ ٩)
    قرآن مجید نے کم و بیش یہی اسلوب جہاد سے گریز کرنے والوں کے لیے اختیار کیا ہے۔ اسی طرح جہاں مسلمانوں کو عدل پر قائم رہنے کی تلقین کی ہے، وہاں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کسی قسم کے اندیشے اور نقصان کے خوف کو اس میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے۔مثلاً آپ نے ہر مسلمان کے دائرہ اختیار ٢ میں تغییر منکر کی ہدایت کی ہے اور اس میں کمزوری دکھانے والے کو 'اضعف الایمان' قرار دیا ہے۔ اسی طرح آپ کے ارشاد: 'من قتل دون ماله فهو شهيد' سے بھی یہی واضح ہوتاہے کہ ہر معاملے میں رخصت کا طریقہ اختیار کرنا موزوں یا بہتر قراردیناممکن نہیں۔
اصل میں مولانا نے جن لوگوں کو ہد ف تنقید بنایا ہے۔ ان کی غلطی رخصت کے اصول کے اطلاق میں نہیں ہے۔ وہ بھی رخصت کو مانتے اور جہاں اس پر عمل ہونا چاہیے، وہاں اسے اولیٰ ہی قرار دیتے ہیں۔ ان کی غلطی دوسری ہے اور وہ یہ ہے کہ انھوں نے اقامت دین کو نفاذ دین کے معنی دیے اور پھر اسے ہر مسلمان کی ذمہ داری بنا دیا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ مولانا نے یہ بات تو درست متعین کی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اپنے اجتماعی معاملات کی درستی کے لیے غلط حکمت عملی اختیار کی ہے۔ لیکن اس غلطی کے پیچھے کار فرما استنباط کی غلطی صحیح طور پر متعین نہیں کر سکے۔
دینی تعلیمات کی روشنی میں دیکھیں تو ہمارے زمانے کے اہل علم کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اہل اقتدار کی تبدیلی کو اپنی منزل قرار دے دیا۔ دراں حالیکہ ان کی ذمہ داری اہل اقتدار کی تبدیلی نہیں صرف ان کی اصلاح تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اہل دین کے لیے سیاست شجر ممنوعہ نہیں ہے۔لیکن انھیں سیاست، سیاست دان کی حیثیت سے کرنی چاہیے۔ داعی جب سیاسی حریف کی صورت میں سامنے آتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی دعوت کو نقصان پہنچاتا ہے، بلکہ سیاست کے میدان میں بھی کوئی حقیقی کردار ادا نہیں کر پاتا۔
باقی ساری غلطیاں اسی غلطی سے پیدا ہوئی ہیں۔ سیاسی تبدیلی جب دینی ذمہ داری بنا دی گئی تو اس کے لیے کی جانے والی جدوجہد جہاد قرار پائی۔ سیاسی حریف دینی دشمن بن گیا اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا عین عبادت ٹھہرا۔ اس کے برعکس اگر عالم داعی ہو تو اس کا مدعو اس کی توجہات اور اس کی شفقتوں کا اہل بنتا ہے۔ اس کی اصلاح اور خیر خواہی کا جذبہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے مخاطب کے ساتھ محبت اور لطف و عنایت سے پیش آئے۔ مدعو اگر زیادتی بھی کرے تو وہ عفو و درگزر ہی کا معاملہ کرے۔ لیکن داعی جہاں اپنی دعوت پیش کرنے میں حکمت اور حسن وعظ سے کام لیتاہے، وہاں وہ اپنی دعوت پیش کرنے میں کسی مداہنت سے کام نہیں لیتا۔ وہ شرک کو شرک کہتا، وہ بدعت کو بدعت قرار دیتا اور فقہی اور کلامی موشگافیوں کی بے مائیگی کو ٹھیک ٹھیک واضح کرتا ہے۔ اس راستے پر نکلنا ہی اسے چاہیے جو عزیمت و مقاومت کا حوصلہ رکھتا ہو، اس میں رخصت کوئی شے ہی نہیں ہے۔
اب رہی مولانا کی تجویز کردہ تدابیر تو وہ داعی کا مسئلہ ہی نہیں ہیں۔ مظاہرہ، دعوت کی ضرورت ہی نہیں اور اہل سیاست کے مظاہرے اگر قانون کے دائرے میں ہوں تو کسی فساد کا باعث نہیں ہیں۔ سیاسی تبدیلی جمہوری ریاستوں میں ایک قانونی عمل ہے اور اسے جمہوری اقدار کے مطابق انجام دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس میں تشدد کا باعث ہمارے سیاسی کلچر میں زمانہ غلامی کی باقیات ہیں۔ جن سے جلد از جلد پیچھا چھڑا لینا چاہیے۔ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کوئی دینی تقاضا نہیں، اس پر اصرار محض بے تدبیری ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اصل غلطی دینی ذمہ داری کے تعین میں ہے نہ کہ رخصت کے بجائے عزیمت کا طریقہ اختیار کرنے میں۔ اگر دین کا تقاضا ہے کہ سیاسی تبدیلی کے لیے جدوجہد کی جائے تو پھر یہ کام مشکل دیکھ کر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟
[١٩٩٧ء]

ـــــــــــــــــــــــــــ

١-''اس کی توفیق بڑے نصیب والوں کو ملتی ہے۔''(حم السجدہ٤١:٣٥)

٢- محولہ حدیث میں دائرہ کار کے الفاظ نہیں ہیں، لیکن یہ شرط 'فان لم يستطع' کے الفاظ سے بالکل واضح ہے اور اس کی تائید 'کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعيته' کی حدیث اور قرآن مجید میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے تواصی بالحق کی تعبیر سے بھی ہوتی ہے۔ آدمی کو جہاں اختیار حاصل ہے، مثلاً بیوی اور بچے یا اس کے ماتحت، وہاں اسے اپنے اختیار کو حکمت کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے منکر کو دور کر دینا چاہیے اور جہاں وہ محض نصیحت کر سکتا ہے، مثلاً دوست احباب او ررشتے دار، وہاں اسے حکمت کے ساتھ نصیحت کرنی چاہیے۔
طالب محسن

http://www.al-mawrid.org/pages/articles_urdu_detail.php?rid=867&cid=447




No comments:

Post a Comment